مولانا مطیع اللہ مدنی
نیپال ایشیا کا ایک چھوٹا غریب اور پسماندہ ملک ہے، چند سال قبل تک یہ ایک ہندو ملک تھا، جہاں شاہی نظام حکومت کی فرمانراوئی تھی، مگر جمہوریت پسندوں کی مساعی سے یہ ملک اب ایک سیکولر اسٹیٹ بن چکا ہے۔
علمی، تہذیبی اورمعاشی اعتبار سے کافی پسماندہ ملک ہے، جغرافیائی اعتبار سے یہ ملک تین بنیادی حصوں میں منقسم ہے:
۱۔ میدانی خطہ جس کی بیشتر اراضی قابل کاشت ہے اور گنا، دھان ، گیہوں، مکئی وغیرہ کی بہترین پیداوار ہوتی ہے، پہاڑوں سے نکلنے والی ندیاں اور نالے میدانی علاقہ سے گزرتے ہیں جس سے نفع اور نقصان دونوں وابستہ ہیں۔
۲۔ جنگلات، ندیاں اور نالے: اس ملک میں چھوٹی بڑی کئی ندیاں ہیں جو پہاڑوں سے نکلتی ہیں ان میں نارائنی، باگمتی، کالی گنڈکی،کوسی اور راپتی وغیرہ نام کی ندیاں بہت مشہور ہیں، کوسی کا سیلاب بڑا ضرر رساں ہوتا ہے اور اسے تو ’’غم بہار‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ پہاڑی خطہ : اس ملک کا ایک بہت بڑا حصہ چھوٹی پہاڑیوں اور کچھ بڑی اور بلند وبالا پہاڑیوں پر مشتمل ہے، ہمالیہ پہاڑ بھی اس میں واقع ہے اور اس کی چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ہے جو ایورسٹ چوٹی کے نام سے معروف ہے، جس کی بلندی 16880فٹ ہے۔
کچھ پہاڑیاں برف پوش ہیں، جن پر سالہاسال برف جمی رہتی ہے اور گرمیوں میں یہی برف پگھل کر ندیوں کو پانی فراہم کرتی رہتی ہے۔
بیشتر پہاڑیاں ایسی ہیں جن میں مختلف قسم کے درخت ہیں، جن کی وجہ سے یہ پہاڑیاں حد درجہ سرسبز نظر آتی ہیں اور سلسلہ کوہ ایک انتہائی حسین منظر پیش کرتا ہے۔
ان پہاڑوں کی وادیاں بھی حددرجہ شاداب ہیں، قدرت کی حسین شاہکار ہیں، سلسلہ وار پہاڑ اور ان کے درمیان وادیاں اور گھاٹیاں ایسا حسین منظر پیش کرتی ہیں کہ ان کے درمیان گزر گاہوں سے اور پیچیدہ اور انتہائی دشوار راہوں سے گزرنے والا مسافر ان کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوکر عش عش کر اٹھتا ہے۔
یوں اس ملک کا ایک بہت بڑا پہاڑی حصہ اپنی ہریالی، شادابی اور خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کی کشش کا باعث بنتا ہے، اس ملک کی آبادی تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ ہے، ہندو مذہب کے ماننے والوں کی تعداد سب سے بڑی ہے، اس میں بودھ مذہب کے پیروکار بھی پائے جاتے ہیں ایک انتہائی معمولی تعداد عیسائیوں کی بھی ہے۔
اس ملک میں اسلام کی آمد بہت پہلے ہوئی ہے اور میدانی علاقوں میں ہند نژاد مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد آباد ہے۔
پہاڑوں کی وادیوں اور اس کی تنگ گھاٹیوں میں بھی اوروں کے ساتھ مسلمان بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں۔
یوں تو نیپال میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی مسلمان عقیدہ و عمل کی بہت سی خرابیوں، شرک و بدعت اور بے عملی و بدعملی میں گرفتار ہیں، مگر نیپال کے پہاڑی مسلمانوں میں جہل بہت عام ہے، صحیح عقیدہ اور خالص توحید اور سنت کے پیرو کار بہت کم ہیں، اغلب تعداد شرک اور بدعت اور جاہلانہ رسوم ورواج میں ملوث ہے۔
بعض وادیوں میں بسنے والے مسلمانوں میں کچھ عملی بیداری شروع ہوئی ہے بعض مسلمان بچے سرحد پر واقع مدارس اور یوپی اور بہار کے مدارس اسلامیہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کی مساعی سے ان علاقوں میں دعوت واصلاح کے عمل کا آغاز ہوا ہے اور بعض اسلامی مدارس کی بنیاد پڑی ہے مگر ابھی سب کچھ ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم وہاں کی تعلیم و تربیت سازی کا عمل شروع ہوچکا ہے، طلبہ و طالبات رخت سفر باندھ کر مشہور نیپالی اور بھارتی اسلامی درسگاہوں کا رخ کرکے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں، مستقبل میں خیر کی امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے نیپالی، مسلمان بالعموم اور بالخصوص جبلی مسلمان تعلیم و تربیت اور دعوت و ارشاد کے بہت ہی زیادہ مستحق ہیں، مخلص دعاۃ اور سوز دل رکھنے والے مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ وہاں پر وقتا فوقتا پہونچ کروہاں کے حالات کا جائزہ لیں، ان کے احتیاجات سے واقفیت حاصل کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کے نظم و نسق کے قیام کی بابت خیر خواہانہ مشورے دیں اور ان میں چند ایام قیام کرکے ان میں دعوت و ارشاد کا کام کریں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں، ان اعمال میں تسلسل بھی چاہئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ عملی طور پر دعوتی ذمہ داریاں نبھانے میں دعاۃ و مخلصین میں کوتاہی ہے، سوز دل کا فقدان ہے، دعوتی درد عنقاء ہے ’’ہم الدعوۃ‘‘کی حامل شخصیات کی کمیابی بلکہ نایابی ہے۔
ہند و نیپال سرحد پر واقع بعض اسلامی مدارس و مراکز اپنی بساط بھر کام اپنے علاقوں میں کر رہے ہیں، تدریس کا کام اطمینان بخش ہے مگر کار دعوت میں ضعف و کمزوری ہے، میدانی علاقوں میں بھی صحیح معنوں میں دعوتی کام کا معیار و مقدار اطمینان بخش کہنا مناسب نہیں ہے۔
مگر پہاڑی علاقوں میں کار دعوت و اصلاح انجام دینے والوں کی کمی ہی نہیں بلکہ فقدان ہے، یہی وجہ ہے بسا اوقات خرافی، بدعقیدہ جعلی پیرو مرشد وہاں ان کے بیچ پہنچ کر سادہ لوح عوام کو اپنی پرفریب باتوں سے مسحور کرلیتے ہیں اور مختلف باطل عقائد اور توحید مخالف امور اور شرکیہ و بدعیہ رسوم و رواج کی زنجیروں میں انہیں جکڑ دیتے ہیں۔
بسا اوقات کوئی قادیانی وہاں پر رسائی حاصل کرلیتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کا یہ دشمن اپنی عیاری و مکاری کے ذریعہ اپنے زہر آلود افکار پھیلانا شروع کردیتا ہے، تو کبھی کوئی عیسائی مشنری محرف نصرانیت میں رفاہی و خیراتی اعمال انجام دیکر اور مادہ کا جھانسہ دیکرگرفتار کرلیتا ہے۔
ان گمراہ و باطل افکار و نظریات کے حاملین اپنا شکار بلاتفریق مذہب وملت تمام لوگوں کو بناتے ہیں، بسا اوقات ایک بدحال مسلمان بھی ان کے دام تزویر میں پھنس کر اپنے دین وایمان کا سودا کر بیٹھتا ہے۔
اس صورت حال میں یہ امر بہت ہی ضروری ہے کہ اسلامی دعاۃ و مبلغین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور جملہ مسلمان بالخصوص پہاڑی وادیوں میں سکونت پذیر مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کا فریضہ انجام دینے کی فکر کریں۔
مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک دینی، تعلیمی، دعوتی اور رفاہی ادارہ ہے اس کی نگرانی میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ مسلم بچیوں میں تعلیم وتربیت کا فریضہ ادا کررہا ہے،جہاں پر تقریبا ساڑھے چھ سو بچیاں زیر تعلیم ہیں ،تقریباً ۴۰۰؍ طالبات ہاسٹل میں مقیم ہیں، فضیلت تک کی معیاری تعلیم ہوتی ہے، ایک سالہ تخصص فی التدریس کا کورس بھی قائم ہے۔
اس مرکز کا رفاہی شعبہ بھی سرگرم عمل رہتا ہے، موسمی مشاریع کے علاوہ مصیبت زدگان، سیلاب زدگان اور فقراء میں اپنی بساط بھر رفاہی خدمات انجام دیتا ہے۔
اس مرکز کا ایک اہم شعبہ دعوتی شعبہ ہے، جس کی جانب سے بائیس سال سے مجلہ ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ شائع ہوتا ہے۔
کئی اہم دعوتی، ادبی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں، بعض اہم کتابوں کی اشاعت کا عزم بھی ہے۔
اسی طرح منسوبین و مسؤلین مرکز، اساتذہ اور معلمات بھی اپنے دائروں میں حسب استطاعت دعوتی واصلاحی فریضہ کی انجام دہی میں مصروف کار ہیں۔
خطبات اور دروس کا اہتمام رہتا ہے، سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔
رئیس مرکز التوحید فضیلۃ الشیخ عبداللہ عبدالتواب مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ و تولاہ نے پہاڑوں میں ایک ’’کاروان دعوت‘‘ یا ’’دعوتی قافلہ‘‘ کی منصوبہ بندی فرمائی، طے پایا کہ صدر مرکز کے ہمراہ مولانا عبدالقیوم بسم اللہ مدنیؔ اور راقم السطور مطیع اللہ حقیق اللہ مدنیؔ ہوں گے۔ اور یہ قافلہ پہاڑوں کی وادی میں آباد مسلمانوں کے بیچ پہونچ کر ان کے حالات کا جائزہ لے گا، ان کے ہمراہ نشست کرکے ان سے تبادلہ خیالات کرے گا، وہاں پر دروس و خطبات کا بھرپور اہتمام کرے گا، ان کے دینی و تعلیمی و معاشی احتیاجات کا جائزہ لے گا۔
چنانچہ یہ ’’قافلۂ دعوت و ارشاد‘‘ تین روزہ سفر پر روانہ ہوکر دشوار گزار راہوں سے گذر کر ضلع پالپا کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد بستی رام پور میں فروکش ہوا، آئندہ سطور میں اسی دعوتی قافلہ کی سرگرمیوں کی سرگزشت پیش کی جارہی ہے۔
اس دعوتی سفر کے لئے ایک جیپ کرایہ پر لی گئی تھی جس کا ڈرائیور ایک مشاق اور پہاڑی راستوں پر گاڑی چلانے کا ماہر تھا، یہ دعوتی قافلہ جو صدر مرکز شیخ عبداللہ مدنیؔ ، شیخ عبدالقیوم مدنیؔ ، مطیع اللہ مدنیؔ اورجواد عبداللہ مدنیؔ بھی جو قافلہ کے ہمراہ تھے، مورخہ ۷؍۷؍۲۰۱۰ء بروز بدھ روانہ ہوا۔
دوپہر کو ہم بٹول پہونچے ، مشہور مطعم عبداللہ ہوٹل میں وارد ہوئے، رئیس مرکز کے تعلقات مالکان ہوٹل سے بالکل گھریلو قسم کے ہیں اور وہ سب صدر مرکز کی غایت درجہ تکریم کرتے ہیں، ہوٹل میں طعام پیش کرنے کا انداز بالکل الگ ہوتا ہے، جس پر عزیز برنی جیسے لوگ بھی کبھی جب ان کا اس انداز میں ضیافت کا سامنا ہوا، حیرت و استعجاب کا شکار ہوکر رہ گئے تھے اور داد وتحسین سے نوازا۔
طعام تناول کرنے کے معاً بعد ہم لوگ جانب منزل روانہ ہوئے، ہم لوگوں کے لئے منزل بالکل نئی تھی، بٹول کے بعد کا راستہ بھی ہمارے لئے بالکل اجنبی تھا، ہمارے صدر مرکز شاید چالیس برس قبل اس راہ گزر سے گذرے تھے جب انہوں نے اس وقت پوکھرا کی اولین زیارت ، سیاحت کی تھی، البتہ آریہ بھنجن سے ہم تمام ارکان قافلہ کے لئے جادہ ومنزل دونوں ہی غیر معروف تھے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر مرکز امیر القافلہ نے رامپور کے اپنے میزبان سے راستہ کی بابت معلومات حاصل کرلی تھی اور راستہ میں واقع اہم مقامات کے نام نوٹ کرلئے تھے۔
آریہ بھنجن کے بعد راستہ نامعلوم تھا ہی، ۱۵؍کلومیٹر کے بعد راستہ کچا اور غیر ہموار ہوگیا، بٹول کے بعد ہی پہاڑوں کا سلسلہ شروع تھا، اب انتہائی دشوار پہاڑی راہ سے انتہائی سست رفتاری کے ساتھ جانب منزل محو سفر تھے۔ ہمارے میزبان برابر فون پر رابطہ قائم کئے ہوئے تھے، مگر اب ایسے علاقے میں تھے جہاں نیٹ ورک معدوم ہوگیا، پھر آگے ایک آباد مقام پر دو اشخاص ہماری جیپ کی جانب اشارہ کر رہے تھے، ہم میں سے بعض نے انہیں عام مسافر سمجھا جو بسا اوقات جیپ ، ٹیکسی سمجھ کر اشارہ کرتے ہیں، مگر وہ دونوں ہمارے اس قافلہ کے استقبال و امداد کے لئے آنے والے ہمارے کرم فرما برادر مکرم محمد ایوب اور عزیزمکرم محمد ابراہیم میاں صاحبان تھے جو موٹر سائیکل سے اپنی بستی سے کافی دور نکل کر استقبال کے لئے آئے تھے۔
صدر مرکز اور برادر مکرم محمد ایوب میں سابقہ تعارف رہا تھا، انہیں کے ذریعہ اس دعوتی قافلہ کے پروگرام کی تفصیلات طے کی گئیں تھیں۔
ہم لوگوں نے اولاً یہ سوچا کہ ہمارے محترم میزبان نے کافی تکلف سے کام لیا ہے، مگر ہم اس اجنبی پہاڑی خطہ میں انہیں دیکھ کر کافی مطمئن ہوگئے اور بعد کے حالات سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اگر وہ نہ آتے تو ہم راستہ بھٹک سکتے تھے اور سفر کی دشواریوں سے کسی قدر پریشان ہوسکتے تھے، مگر وہ آئے، رہنمائی کی، راستوں میں کھسکے بعض چٹانوں کو ہٹا کر راستہ ہموار کیا، یوں ہم تسلی بخش حالت میں سفر جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف سست گامی کے ساتھ رواں دواں رہے ، اس لئے کہ تیز رفتاری کے لئے اس مشکل ترین راہ میں گنجائش نہیں تھی،ایسے میں ذرا سی تیزی جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی۔
ایک مقام پر پہونچ کر ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ یہاں سے رام پور کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوگا دوسراراستہ ڈھائی گھنٹہ میں طے ہوگا، معمولی سی بحث کے بعد مختصر الوقت راستہ منتخب کیا گیا، جو پچھلی رات اور آج صبح بارش سے کافی ابتر ہو چکا تھا اور وہاں پر چلتے ہوئے بہرحال انسان کے اندر طبعی خوف سرایت ہونے لگتا ہے، چنانچہ ابترئ راہ کا اندازہ یوں کرسکتے ہیں وہ راستہ ایک گھنٹہ ۱۵؍منٹ میں طے کیا جاسکا۔
تاہو نامی مقام سے رام پور کی کل مسافت ۳۳؍ کلو میٹر ہے یہ معمولی سی مسافت ہم نے تقریباً ۴؍ گھنٹے میں طے کی، اس سے اس پہاڑی راہ کی پیچیدگی ، دشواری اور ناہمواری کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
بہر حال ہمارا یہ قافلہ باذن اللہ ومشیئتہ وبفضلہ ورحمتہ بعد مغرب رام پور پہونچ کر اپنے ان دینی بھائیوں سے سلام و معانقہ کرتا ہوا ان سے دینی محبت کا ثبوت دیتا رہا تھا جو کافی دیر سے اپنے مہمانوں کے انتظار میں تھے،فجزاہم اللہ أحسن الجزاء۔
ابتدائی ضیافت کے بعد نماز مغرب ادا کی گئی، پھر میزبانوں کے ہمراہ مدرسہ نورالہدیٰ ، رامپور کے صحن میں ہم اذان عشاء تک بیٹھے رہے، ایک دوسرے کی مزاج پرسی کے ساتھ ہی مختلف تعلیمی و دعوتی امور پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، مدرسہ کی تاریخ، علاقہ کے احوال کے بارے میں ہم لوگ ان سے سوالات کرتے رہے، رام پور میں موجودہ عقیدہ کی خرابی کے حامل خرافی لوگوں کا بھی تذکرہ کرتے رہے، ان کی اصلاح کی تدابیر پر بھی بات چیت ہوتی رہی، عشاء کی نماز اداکی گئی اور عشائیہ برادرم محمد ایوب کے دولت خانہ پر ان کے بزرگ والد محترم محمد یونس صاحب کے ساتھ تناول کیا گیا، قافلہ کی خدمت میں محمد ایوب کے برادر صغیر جلال الدین اور ان کے رفقاء ہمیشہ پیش پیش رہے۔
محمد ایوب اور ان کے اہل خانہ اور دیگر احباب نے جس اسلامی اخلاق اور حسن ضیافت کا نمونہ پیش کیا اس کو میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، ہماری رہائش کے لئے انہوں نے برادر مکرم رضوان احمد مقیم حال قطر کے جدید ولا میں پہلی منزل خالی کروالیا تھا اور دوروم ہمارے لئے مختص کر دیا، ولا ضروریات سے آراستہ ہے، یوں ہمیں اس حسین وادی میں آرام دہ رہائش گاہ فراہم کی گئی، تاکہ کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ہم تھکے ہوئے مسافر آرام کی نیند سوسکیں۔
نماز فجر کے بعد راقم ؍مطیع اللہ مدنی نے درس قرآن دیا سورۃ العصر کی ترجمانی و تشریح کرتے ہوئے سورہ کے اساسی پیغام کو اجاگر کیا کہ انسانیت کے لئے خسارہ سے نجات کا نسخہ کیمیا ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) اور تواصی بالصبر ہے۔
ناشتہ کے بعد مدرسہ نورالہدی رامپور کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام کے ساتھ نشست کا جامع پروگرام تھا جس کا آغاز دس بجے دن میں ہوا، ایک طالب علم نے تلاوت کی اس کے بعد برادر گرامی ابوالکلام الفلاحی نے مدرسہ کا جامع تعارف پیش کیا انہوں نے بتایا کہ یہاں پر لوگ بدعات و خرافات اور باطل رسوم ورواج میں گرفتار تھے، پھر بعض مصلحین کی آمد اور ان کے وعظ سے کچھ لوگ شرک جلی اور بدعات سے کنارہ کش ہوئے اور یہاں کے بعض طلبہ براٹ نگر اور دیگر اسلامی مدارس میں پڑھنے گئے، پھر علم کی روشنی پیدا ہوئی اور آج سے چودہ سال قبل اس مدرسہ کی تا سیس عمل میں آئی۔
یہاں کے طلبہ و طالبات نیپال و ہند کے معروف اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کئی ایک فارغ ہوچکے ہیں،بعض طالبات مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ اور عائشہ صدیقہ کی فارغ التحصیل ہیں اور کئی ایک متعدد مدارس نسواں میں زیر تعلیم ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رام پور میں مسلمان تقریبا ۸۰؍ گھر ہیں جن میں تقریبا نصف خرافی عقیدہ کے حامل ہیں جن کے یہاں شرک وبدعت کی ساری بلائیں موجود ہیں، آبادی کی اکیلی مسجد پر جو سب کی مشترک مسجد تھی، ان خرافیوں کا قبضہ ہے، شرک جلی سے پاک لوگوں نے جدید مسجد کی بنیاد ڈال رکھی ہے جس کی چھت سازی کا عمل شروع ہے اللہ کرے جلد ہی چھت کا کام مکمل ہوجائے اور دیگر مرافق و لوازم کی تکمیل کا سامان پیدا ہوجائے، ابھی تک یہ لوگ مدرسہ کے ایک ٹین کے شیڈ کے نیچے صلاۃ ادا کرتے ہیں ۔
پھرمدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کی نظموں،دعاؤں اور اردو، نیپالی، انگریزی تقاریر کا سلسلہ چلتا رہا، بچوں اور بچیوں کے اس ثقافتی پروگرام کو سن کر یہ اندازہ ہوا کہ یہاں کے ذمہ دار اور اساتذہ کرام بچوں کی تعلیم و تربیت پر محنت صرف کررہے ہیں۔
اس کے بعد مولانا عبدالقیوم مدنی کو دعوت خطاب دی گئی، آپ نے علم کی فضیلت پر کتاب و سنت کی روشنی میں خطاب کیا اور ذمہ داران مدرسہ کو تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ادا کرنے پر ابھارا اور بتایا کہ کوئی بھی قوم بلا تعلیم ترقی کے مراحل نہیں طے کرسکتی ہے۔
پھر راقم نے حاضرین کو خطاب کیا، اولا وہاں کے احباب کے وفد کا شاندار خیر مقدم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا،پھر مدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کو خطاب کرتے ہوئے علم کی فضیلت و برتری واضح کی اوریہ بھی بتایا کہ اصل علم علم الایمان والعقیدہ والتوحید ہے اس کی تحصیل واجب ہے، پھر میں نے ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کی روشنی میں یہ بتایا کہ تم طالبان علم دین اس دنیا کے سب سے بہترین لوگ ہو اور توحید کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ قرآن و سنت کے علم سے حقیقت توحید آشکار ہوتی ہے اور اسی علم سے ہی انسان شرک و بدعت سے دور رہ سکتا ہے اور مختلف نصائح پر گفتگو مرکوز رہی۔
علمی، تہذیبی اورمعاشی اعتبار سے کافی پسماندہ ملک ہے، جغرافیائی اعتبار سے یہ ملک تین بنیادی حصوں میں منقسم ہے:
۱۔ میدانی خطہ جس کی بیشتر اراضی قابل کاشت ہے اور گنا، دھان ، گیہوں، مکئی وغیرہ کی بہترین پیداوار ہوتی ہے، پہاڑوں سے نکلنے والی ندیاں اور نالے میدانی علاقہ سے گزرتے ہیں جس سے نفع اور نقصان دونوں وابستہ ہیں۔
۲۔ جنگلات، ندیاں اور نالے: اس ملک میں چھوٹی بڑی کئی ندیاں ہیں جو پہاڑوں سے نکلتی ہیں ان میں نارائنی، باگمتی، کالی گنڈکی،کوسی اور راپتی وغیرہ نام کی ندیاں بہت مشہور ہیں، کوسی کا سیلاب بڑا ضرر رساں ہوتا ہے اور اسے تو ’’غم بہار‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ پہاڑی خطہ : اس ملک کا ایک بہت بڑا حصہ چھوٹی پہاڑیوں اور کچھ بڑی اور بلند وبالا پہاڑیوں پر مشتمل ہے، ہمالیہ پہاڑ بھی اس میں واقع ہے اور اس کی چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ہے جو ایورسٹ چوٹی کے نام سے معروف ہے، جس کی بلندی 16880فٹ ہے۔
کچھ پہاڑیاں برف پوش ہیں، جن پر سالہاسال برف جمی رہتی ہے اور گرمیوں میں یہی برف پگھل کر ندیوں کو پانی فراہم کرتی رہتی ہے۔
بیشتر پہاڑیاں ایسی ہیں جن میں مختلف قسم کے درخت ہیں، جن کی وجہ سے یہ پہاڑیاں حد درجہ سرسبز نظر آتی ہیں اور سلسلہ کوہ ایک انتہائی حسین منظر پیش کرتا ہے۔
ان پہاڑوں کی وادیاں بھی حددرجہ شاداب ہیں، قدرت کی حسین شاہکار ہیں، سلسلہ وار پہاڑ اور ان کے درمیان وادیاں اور گھاٹیاں ایسا حسین منظر پیش کرتی ہیں کہ ان کے درمیان گزر گاہوں سے اور پیچیدہ اور انتہائی دشوار راہوں سے گزرنے والا مسافر ان کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوکر عش عش کر اٹھتا ہے۔
یوں اس ملک کا ایک بہت بڑا پہاڑی حصہ اپنی ہریالی، شادابی اور خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کی کشش کا باعث بنتا ہے، اس ملک کی آبادی تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ ہے، ہندو مذہب کے ماننے والوں کی تعداد سب سے بڑی ہے، اس میں بودھ مذہب کے پیروکار بھی پائے جاتے ہیں ایک انتہائی معمولی تعداد عیسائیوں کی بھی ہے۔
اس ملک میں اسلام کی آمد بہت پہلے ہوئی ہے اور میدانی علاقوں میں ہند نژاد مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد آباد ہے۔
پہاڑوں کی وادیوں اور اس کی تنگ گھاٹیوں میں بھی اوروں کے ساتھ مسلمان بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں۔
یوں تو نیپال میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی مسلمان عقیدہ و عمل کی بہت سی خرابیوں، شرک و بدعت اور بے عملی و بدعملی میں گرفتار ہیں، مگر نیپال کے پہاڑی مسلمانوں میں جہل بہت عام ہے، صحیح عقیدہ اور خالص توحید اور سنت کے پیرو کار بہت کم ہیں، اغلب تعداد شرک اور بدعت اور جاہلانہ رسوم ورواج میں ملوث ہے۔
بعض وادیوں میں بسنے والے مسلمانوں میں کچھ عملی بیداری شروع ہوئی ہے بعض مسلمان بچے سرحد پر واقع مدارس اور یوپی اور بہار کے مدارس اسلامیہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کی مساعی سے ان علاقوں میں دعوت واصلاح کے عمل کا آغاز ہوا ہے اور بعض اسلامی مدارس کی بنیاد پڑی ہے مگر ابھی سب کچھ ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم وہاں کی تعلیم و تربیت سازی کا عمل شروع ہوچکا ہے، طلبہ و طالبات رخت سفر باندھ کر مشہور نیپالی اور بھارتی اسلامی درسگاہوں کا رخ کرکے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں، مستقبل میں خیر کی امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے نیپالی، مسلمان بالعموم اور بالخصوص جبلی مسلمان تعلیم و تربیت اور دعوت و ارشاد کے بہت ہی زیادہ مستحق ہیں، مخلص دعاۃ اور سوز دل رکھنے والے مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ وہاں پر وقتا فوقتا پہونچ کروہاں کے حالات کا جائزہ لیں، ان کے احتیاجات سے واقفیت حاصل کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کے نظم و نسق کے قیام کی بابت خیر خواہانہ مشورے دیں اور ان میں چند ایام قیام کرکے ان میں دعوت و ارشاد کا کام کریں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں، ان اعمال میں تسلسل بھی چاہئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ عملی طور پر دعوتی ذمہ داریاں نبھانے میں دعاۃ و مخلصین میں کوتاہی ہے، سوز دل کا فقدان ہے، دعوتی درد عنقاء ہے ’’ہم الدعوۃ‘‘کی حامل شخصیات کی کمیابی بلکہ نایابی ہے۔
ہند و نیپال سرحد پر واقع بعض اسلامی مدارس و مراکز اپنی بساط بھر کام اپنے علاقوں میں کر رہے ہیں، تدریس کا کام اطمینان بخش ہے مگر کار دعوت میں ضعف و کمزوری ہے، میدانی علاقوں میں بھی صحیح معنوں میں دعوتی کام کا معیار و مقدار اطمینان بخش کہنا مناسب نہیں ہے۔
مگر پہاڑی علاقوں میں کار دعوت و اصلاح انجام دینے والوں کی کمی ہی نہیں بلکہ فقدان ہے، یہی وجہ ہے بسا اوقات خرافی، بدعقیدہ جعلی پیرو مرشد وہاں ان کے بیچ پہنچ کر سادہ لوح عوام کو اپنی پرفریب باتوں سے مسحور کرلیتے ہیں اور مختلف باطل عقائد اور توحید مخالف امور اور شرکیہ و بدعیہ رسوم و رواج کی زنجیروں میں انہیں جکڑ دیتے ہیں۔
بسا اوقات کوئی قادیانی وہاں پر رسائی حاصل کرلیتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کا یہ دشمن اپنی عیاری و مکاری کے ذریعہ اپنے زہر آلود افکار پھیلانا شروع کردیتا ہے، تو کبھی کوئی عیسائی مشنری محرف نصرانیت میں رفاہی و خیراتی اعمال انجام دیکر اور مادہ کا جھانسہ دیکرگرفتار کرلیتا ہے۔
ان گمراہ و باطل افکار و نظریات کے حاملین اپنا شکار بلاتفریق مذہب وملت تمام لوگوں کو بناتے ہیں، بسا اوقات ایک بدحال مسلمان بھی ان کے دام تزویر میں پھنس کر اپنے دین وایمان کا سودا کر بیٹھتا ہے۔
اس صورت حال میں یہ امر بہت ہی ضروری ہے کہ اسلامی دعاۃ و مبلغین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور جملہ مسلمان بالخصوص پہاڑی وادیوں میں سکونت پذیر مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کا فریضہ انجام دینے کی فکر کریں۔
مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک دینی، تعلیمی، دعوتی اور رفاہی ادارہ ہے اس کی نگرانی میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ مسلم بچیوں میں تعلیم وتربیت کا فریضہ ادا کررہا ہے،جہاں پر تقریبا ساڑھے چھ سو بچیاں زیر تعلیم ہیں ،تقریباً ۴۰۰؍ طالبات ہاسٹل میں مقیم ہیں، فضیلت تک کی معیاری تعلیم ہوتی ہے، ایک سالہ تخصص فی التدریس کا کورس بھی قائم ہے۔
اس مرکز کا رفاہی شعبہ بھی سرگرم عمل رہتا ہے، موسمی مشاریع کے علاوہ مصیبت زدگان، سیلاب زدگان اور فقراء میں اپنی بساط بھر رفاہی خدمات انجام دیتا ہے۔
اس مرکز کا ایک اہم شعبہ دعوتی شعبہ ہے، جس کی جانب سے بائیس سال سے مجلہ ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ شائع ہوتا ہے۔
کئی اہم دعوتی، ادبی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں، بعض اہم کتابوں کی اشاعت کا عزم بھی ہے۔
اسی طرح منسوبین و مسؤلین مرکز، اساتذہ اور معلمات بھی اپنے دائروں میں حسب استطاعت دعوتی واصلاحی فریضہ کی انجام دہی میں مصروف کار ہیں۔
خطبات اور دروس کا اہتمام رہتا ہے، سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔
رئیس مرکز التوحید فضیلۃ الشیخ عبداللہ عبدالتواب مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ و تولاہ نے پہاڑوں میں ایک ’’کاروان دعوت‘‘ یا ’’دعوتی قافلہ‘‘ کی منصوبہ بندی فرمائی، طے پایا کہ صدر مرکز کے ہمراہ مولانا عبدالقیوم بسم اللہ مدنیؔ اور راقم السطور مطیع اللہ حقیق اللہ مدنیؔ ہوں گے۔ اور یہ قافلہ پہاڑوں کی وادی میں آباد مسلمانوں کے بیچ پہونچ کر ان کے حالات کا جائزہ لے گا، ان کے ہمراہ نشست کرکے ان سے تبادلہ خیالات کرے گا، وہاں پر دروس و خطبات کا بھرپور اہتمام کرے گا، ان کے دینی و تعلیمی و معاشی احتیاجات کا جائزہ لے گا۔
چنانچہ یہ ’’قافلۂ دعوت و ارشاد‘‘ تین روزہ سفر پر روانہ ہوکر دشوار گزار راہوں سے گذر کر ضلع پالپا کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد بستی رام پور میں فروکش ہوا، آئندہ سطور میں اسی دعوتی قافلہ کی سرگرمیوں کی سرگزشت پیش کی جارہی ہے۔
اس دعوتی سفر کے لئے ایک جیپ کرایہ پر لی گئی تھی جس کا ڈرائیور ایک مشاق اور پہاڑی راستوں پر گاڑی چلانے کا ماہر تھا، یہ دعوتی قافلہ جو صدر مرکز شیخ عبداللہ مدنیؔ ، شیخ عبدالقیوم مدنیؔ ، مطیع اللہ مدنیؔ اورجواد عبداللہ مدنیؔ بھی جو قافلہ کے ہمراہ تھے، مورخہ ۷؍۷؍۲۰۱۰ء بروز بدھ روانہ ہوا۔
دوپہر کو ہم بٹول پہونچے ، مشہور مطعم عبداللہ ہوٹل میں وارد ہوئے، رئیس مرکز کے تعلقات مالکان ہوٹل سے بالکل گھریلو قسم کے ہیں اور وہ سب صدر مرکز کی غایت درجہ تکریم کرتے ہیں، ہوٹل میں طعام پیش کرنے کا انداز بالکل الگ ہوتا ہے، جس پر عزیز برنی جیسے لوگ بھی کبھی جب ان کا اس انداز میں ضیافت کا سامنا ہوا، حیرت و استعجاب کا شکار ہوکر رہ گئے تھے اور داد وتحسین سے نوازا۔
طعام تناول کرنے کے معاً بعد ہم لوگ جانب منزل روانہ ہوئے، ہم لوگوں کے لئے منزل بالکل نئی تھی، بٹول کے بعد کا راستہ بھی ہمارے لئے بالکل اجنبی تھا، ہمارے صدر مرکز شاید چالیس برس قبل اس راہ گزر سے گذرے تھے جب انہوں نے اس وقت پوکھرا کی اولین زیارت ، سیاحت کی تھی، البتہ آریہ بھنجن سے ہم تمام ارکان قافلہ کے لئے جادہ ومنزل دونوں ہی غیر معروف تھے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر مرکز امیر القافلہ نے رامپور کے اپنے میزبان سے راستہ کی بابت معلومات حاصل کرلی تھی اور راستہ میں واقع اہم مقامات کے نام نوٹ کرلئے تھے۔
آریہ بھنجن کے بعد راستہ نامعلوم تھا ہی، ۱۵؍کلومیٹر کے بعد راستہ کچا اور غیر ہموار ہوگیا، بٹول کے بعد ہی پہاڑوں کا سلسلہ شروع تھا، اب انتہائی دشوار پہاڑی راہ سے انتہائی سست رفتاری کے ساتھ جانب منزل محو سفر تھے۔ ہمارے میزبان برابر فون پر رابطہ قائم کئے ہوئے تھے، مگر اب ایسے علاقے میں تھے جہاں نیٹ ورک معدوم ہوگیا، پھر آگے ایک آباد مقام پر دو اشخاص ہماری جیپ کی جانب اشارہ کر رہے تھے، ہم میں سے بعض نے انہیں عام مسافر سمجھا جو بسا اوقات جیپ ، ٹیکسی سمجھ کر اشارہ کرتے ہیں، مگر وہ دونوں ہمارے اس قافلہ کے استقبال و امداد کے لئے آنے والے ہمارے کرم فرما برادر مکرم محمد ایوب اور عزیزمکرم محمد ابراہیم میاں صاحبان تھے جو موٹر سائیکل سے اپنی بستی سے کافی دور نکل کر استقبال کے لئے آئے تھے۔
صدر مرکز اور برادر مکرم محمد ایوب میں سابقہ تعارف رہا تھا، انہیں کے ذریعہ اس دعوتی قافلہ کے پروگرام کی تفصیلات طے کی گئیں تھیں۔
ہم لوگوں نے اولاً یہ سوچا کہ ہمارے محترم میزبان نے کافی تکلف سے کام لیا ہے، مگر ہم اس اجنبی پہاڑی خطہ میں انہیں دیکھ کر کافی مطمئن ہوگئے اور بعد کے حالات سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اگر وہ نہ آتے تو ہم راستہ بھٹک سکتے تھے اور سفر کی دشواریوں سے کسی قدر پریشان ہوسکتے تھے، مگر وہ آئے، رہنمائی کی، راستوں میں کھسکے بعض چٹانوں کو ہٹا کر راستہ ہموار کیا، یوں ہم تسلی بخش حالت میں سفر جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف سست گامی کے ساتھ رواں دواں رہے ، اس لئے کہ تیز رفتاری کے لئے اس مشکل ترین راہ میں گنجائش نہیں تھی،ایسے میں ذرا سی تیزی جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی۔
ایک مقام پر پہونچ کر ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ یہاں سے رام پور کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوگا دوسراراستہ ڈھائی گھنٹہ میں طے ہوگا، معمولی سی بحث کے بعد مختصر الوقت راستہ منتخب کیا گیا، جو پچھلی رات اور آج صبح بارش سے کافی ابتر ہو چکا تھا اور وہاں پر چلتے ہوئے بہرحال انسان کے اندر طبعی خوف سرایت ہونے لگتا ہے، چنانچہ ابترئ راہ کا اندازہ یوں کرسکتے ہیں وہ راستہ ایک گھنٹہ ۱۵؍منٹ میں طے کیا جاسکا۔
تاہو نامی مقام سے رام پور کی کل مسافت ۳۳؍ کلو میٹر ہے یہ معمولی سی مسافت ہم نے تقریباً ۴؍ گھنٹے میں طے کی، اس سے اس پہاڑی راہ کی پیچیدگی ، دشواری اور ناہمواری کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
بہر حال ہمارا یہ قافلہ باذن اللہ ومشیئتہ وبفضلہ ورحمتہ بعد مغرب رام پور پہونچ کر اپنے ان دینی بھائیوں سے سلام و معانقہ کرتا ہوا ان سے دینی محبت کا ثبوت دیتا رہا تھا جو کافی دیر سے اپنے مہمانوں کے انتظار میں تھے،فجزاہم اللہ أحسن الجزاء۔
ابتدائی ضیافت کے بعد نماز مغرب ادا کی گئی، پھر میزبانوں کے ہمراہ مدرسہ نورالہدیٰ ، رامپور کے صحن میں ہم اذان عشاء تک بیٹھے رہے، ایک دوسرے کی مزاج پرسی کے ساتھ ہی مختلف تعلیمی و دعوتی امور پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، مدرسہ کی تاریخ، علاقہ کے احوال کے بارے میں ہم لوگ ان سے سوالات کرتے رہے، رام پور میں موجودہ عقیدہ کی خرابی کے حامل خرافی لوگوں کا بھی تذکرہ کرتے رہے، ان کی اصلاح کی تدابیر پر بھی بات چیت ہوتی رہی، عشاء کی نماز اداکی گئی اور عشائیہ برادرم محمد ایوب کے دولت خانہ پر ان کے بزرگ والد محترم محمد یونس صاحب کے ساتھ تناول کیا گیا، قافلہ کی خدمت میں محمد ایوب کے برادر صغیر جلال الدین اور ان کے رفقاء ہمیشہ پیش پیش رہے۔
محمد ایوب اور ان کے اہل خانہ اور دیگر احباب نے جس اسلامی اخلاق اور حسن ضیافت کا نمونہ پیش کیا اس کو میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، ہماری رہائش کے لئے انہوں نے برادر مکرم رضوان احمد مقیم حال قطر کے جدید ولا میں پہلی منزل خالی کروالیا تھا اور دوروم ہمارے لئے مختص کر دیا، ولا ضروریات سے آراستہ ہے، یوں ہمیں اس حسین وادی میں آرام دہ رہائش گاہ فراہم کی گئی، تاکہ کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ہم تھکے ہوئے مسافر آرام کی نیند سوسکیں۔
نماز فجر کے بعد راقم ؍مطیع اللہ مدنی نے درس قرآن دیا سورۃ العصر کی ترجمانی و تشریح کرتے ہوئے سورہ کے اساسی پیغام کو اجاگر کیا کہ انسانیت کے لئے خسارہ سے نجات کا نسخہ کیمیا ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) اور تواصی بالصبر ہے۔
ناشتہ کے بعد مدرسہ نورالہدی رامپور کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام کے ساتھ نشست کا جامع پروگرام تھا جس کا آغاز دس بجے دن میں ہوا، ایک طالب علم نے تلاوت کی اس کے بعد برادر گرامی ابوالکلام الفلاحی نے مدرسہ کا جامع تعارف پیش کیا انہوں نے بتایا کہ یہاں پر لوگ بدعات و خرافات اور باطل رسوم ورواج میں گرفتار تھے، پھر بعض مصلحین کی آمد اور ان کے وعظ سے کچھ لوگ شرک جلی اور بدعات سے کنارہ کش ہوئے اور یہاں کے بعض طلبہ براٹ نگر اور دیگر اسلامی مدارس میں پڑھنے گئے، پھر علم کی روشنی پیدا ہوئی اور آج سے چودہ سال قبل اس مدرسہ کی تا سیس عمل میں آئی۔
یہاں کے طلبہ و طالبات نیپال و ہند کے معروف اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کئی ایک فارغ ہوچکے ہیں،بعض طالبات مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ اور عائشہ صدیقہ کی فارغ التحصیل ہیں اور کئی ایک متعدد مدارس نسواں میں زیر تعلیم ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رام پور میں مسلمان تقریبا ۸۰؍ گھر ہیں جن میں تقریبا نصف خرافی عقیدہ کے حامل ہیں جن کے یہاں شرک وبدعت کی ساری بلائیں موجود ہیں، آبادی کی اکیلی مسجد پر جو سب کی مشترک مسجد تھی، ان خرافیوں کا قبضہ ہے، شرک جلی سے پاک لوگوں نے جدید مسجد کی بنیاد ڈال رکھی ہے جس کی چھت سازی کا عمل شروع ہے اللہ کرے جلد ہی چھت کا کام مکمل ہوجائے اور دیگر مرافق و لوازم کی تکمیل کا سامان پیدا ہوجائے، ابھی تک یہ لوگ مدرسہ کے ایک ٹین کے شیڈ کے نیچے صلاۃ ادا کرتے ہیں ۔
پھرمدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کی نظموں،دعاؤں اور اردو، نیپالی، انگریزی تقاریر کا سلسلہ چلتا رہا، بچوں اور بچیوں کے اس ثقافتی پروگرام کو سن کر یہ اندازہ ہوا کہ یہاں کے ذمہ دار اور اساتذہ کرام بچوں کی تعلیم و تربیت پر محنت صرف کررہے ہیں۔
اس کے بعد مولانا عبدالقیوم مدنی کو دعوت خطاب دی گئی، آپ نے علم کی فضیلت پر کتاب و سنت کی روشنی میں خطاب کیا اور ذمہ داران مدرسہ کو تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ادا کرنے پر ابھارا اور بتایا کہ کوئی بھی قوم بلا تعلیم ترقی کے مراحل نہیں طے کرسکتی ہے۔
پھر راقم نے حاضرین کو خطاب کیا، اولا وہاں کے احباب کے وفد کا شاندار خیر مقدم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا،پھر مدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کو خطاب کرتے ہوئے علم کی فضیلت و برتری واضح کی اوریہ بھی بتایا کہ اصل علم علم الایمان والعقیدہ والتوحید ہے اس کی تحصیل واجب ہے، پھر میں نے ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کی روشنی میں یہ بتایا کہ تم طالبان علم دین اس دنیا کے سب سے بہترین لوگ ہو اور توحید کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ قرآن و سنت کے علم سے حقیقت توحید آشکار ہوتی ہے اور اسی علم سے ہی انسان شرک و بدعت سے دور رہ سکتا ہے اور مختلف نصائح پر گفتگو مرکوز رہی۔
اس کے بعد اناؤنسر نے صدر مرکز کا والہانہ انداز میں تعارف کرایا اور یہ واضح کیا کہ ہم یہاں کے باشندگان ’’پیس ٹی وی‘‘ کے ذریعہ صدرمرکز کے لیکچر سماعت و مشاہدہ کرتے رہے، آج ان سے بالمشافہ ان کا خطاب سماعت کریں گے۔
آپ نے اپنی جامع گفتگو میں علم کی قدر و منزلت کو ابھارا اور کتاب و سنت کی روشنی میں علم اور اہل علم کی فضیلت کو اجاگر کیا اور مدرسہ نورالہدی کی سرگرمیوں کو سراہا اور ہر ممکن امداد و اعانت کا وعدہ کیا اور مختلف قیمتی آرا ء سے مستفید کیا بعض تجاویز بھی آپ نے پیش کیں مثلا یہ کہ بچیوں کی تعلیم بچوں سے الگ اور علاحدہ کلاس روم میں ہو۔
اس طرح مستقبل کے مدرسہ نسواں کی سنگ بنیاد پڑجائے گی اور جس دن مدرسہ نسواں عملی طورپر وجود میں آیا میں مرکز کی طرف سے ایک معلمہ کا تقرر کروں گا ۔ ان شاء اللہ۔
آپ کا خطاب اذان ظہر کے قریب تک جاری رہا، صلاۃ ظہر ادا کی گئی، پھر کھانا تناول کرنے کے بعد استراحت کے لئے وقفہ تھا۔
بعد صلاۃ عصر وہاں میزبانوں اور ذمہ داران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ علاقہ و جوار کی سیر و زیارت کا پروگرام تھا، ہمارے ہمراہ مدرسہ کے ناظم محمد اسماعیل صاحب تھے، ہم لوگ کالی گنڈکی نامی ندی کے پاس ایسے مقام پر پہونچے جو چار ضلعوں کا سنگم تھا، ہم لوگ ضلع پالپا کی آخری سرحد پر کھڑے تھے اور کالی گنڈکی ندی کے اس پار ضلع سیانجہ واقع تھا اورشمال کی طرف تھوڑی دور پر ضلع تنہو شروع تھا، اورجنوب مشرق کی سمت میں معمولی سے فاصلہ پر ضلع نول پراسی کی سرحد شروع ہورہی تھی۔
اور یہ مقام انتہائی دلکش اور حسین منظر پیش کررہا تھا، وہاں سے واپس ہوئے تو ہماری منزل رام پور کے مسلمانوں کی قبرستان تھی وہاں زیارت قبر کی دعا پڑھی گئی اور قبرستان کی کشادہ زمین کا معائنہ کیا گیا۔
ہمارے میزبان بھائیوں نے بتایا کہ جلد ہی اس مقبرہ کے تئیں کچھ شرپسند عناصر نے ایک بحران پیدا کرنے کی ناروا کوشش کی مگر ہماری چوکسی اور موقف کی پختگی سے یہ فتنہ فرو ہوگیا، ہوا یہ تھا کہ ایک صلیبی شخص کا انتقال ہوا، وہاں کے ہندو وغیرہ طبقہ نے اس صلیبی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی مذموم کوشش کی تاکہ کل اس وسیع اراضی پر اپنا حق جتلایا جاسکے مگر اللہ کی رحمت سے مسلمانوں نے اس مذموم کوشش کو ناکام بنا دیا۔
پھر ہم لوگوں نے کافی بلند پہاڑی پر آباد بعض مسلمانوں سے ملاقات کے لئے وہاں جانے کا ارادہ کیا، مگر کچھ دور چلنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ راستہ خراب ہے آج وہاں پر سواری کے ذریعہ پہونچنے کا امکان معدوم ہے پھر ہم رامپور وادی کا چکر کاٹ کر مدرسہ نورالہدی کے مصلی میں پہونچے جہاں صلاۃ مغرب ادا کی گئی۔
صلاۃ مغرب کے کے بعد قافلہ دعوت کے ممبران کا خطاب عام تھا جس کے لئے اعلان کیا جاچکا تھا، تمام مسلمان مردوزن کو شرکت کی دعوت دی جاچکی تھی اور خواتین کے لئے الگ بیٹھنے کا انتظام تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد تلاوت آیات کریمہ کے ساتھ ہی پروگرام کا آغاز ہوا اور مولانا عبدالقیوم مدنی نے قبولیت اعمال کے شروط کے موضوع پر مفصل خطاب کیا اور سنت کی اہمیت اور بدعت و خرافات کی قباحت کو واضح کیا۔
اس کے بعد راقم نے حاضرین کو خطاب کیا میں نے بیک وقت دو الگ الگ موضوع پر گفتگو کی پہلا موضوع ’’توحید‘‘ تھا میں نے غایت تخلیق انس و جان کو واضح کیا اور توحید کی اہمیت و فضیلت پر نیز شرک اور اس کی ہولناکی اور
انجام بد پر روشنی ڈالی اور کتاب وسنت سے مدلل خطاب کیا۔
دوسرا موضوع اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ تھا ماں، بیٹی، بہن، بیوی ہر روپ میں عورت کے مقام بلند کوواضح کرتے ہوئے ان کے حقوق و فرائض کو اختصار سے بیان کرتے ہوئے پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
آخر میں صدر مرکز اور قافلہ دعوت کے امیر مولانا عبداللہ مدنی حفظہ اللہ کا مکمل تعارف کراتے ہوئے منصرم نے انہیں دعوت سخن دی۔
آپ نے تذکیر کی اہمیت و فائدہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف نصائح و مواعظ سے سامعین کو محفوظ فرمایا، عورت کے حجاب پر مفصل گفتگو کی اور پورے عالم میں مسئلہ حجاب کی بحث کا خلاصہ کیا، آپ نے بتایا کہ عورتیں حجاب کی پابندی کریں اور حجاب ان کی ترقی کی راہ میں کوئی روڑا نہیں بلکہ وہ ان کے لئے حشمت وقار کا عنوان ہے۔
آپ نے اپنی اس تجویز کا اعادہ کیا کہ مدرسہ میں بچیوں کو درجہ سوم کے بعد الگ تھلگ کلاس روم میں پڑھانا چاہئے اور آپ لوگ اس کی کوشش کریں، کہ یہاں پر مدرسہ نسواں کا قیام عمل میں آجائے، آپ نے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔اور صدر مرکز کی پرسوز دعاؤں پر مجلس دعوت وارشاد کا اختتام ہوا۔
عِشاء اورعَشاء سے فارغ ہوکر پھر اپنے کمروں میں نیند کی آغوش میں چلے گئے، جمعہ کی صبح کو چائے نوشی کے بعد ممبران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ مختصر سی میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ اور تعلیم و تدریس ، تربیت اور نصاب تعلیم وغیرہ موضوعات زیر بحث آئے اور صدر مرکز نے اپنے مفید مشوروں سے نواز۔
اسی مجلس کے اختتام پر اس دعوتی وفد نے مدرسہ کی بابت اپنے تاثرات کو ’’تاثرات رجسٹر‘‘میں قلمبند کیا اوراس میں اپنے مشاہداتی تاثرکے ساتھ ادارہ کی امداد کی اپیل کی گئی ہے، تاکہ یہ مدرسہ اس پہاڑی خطہ کا مرکز تعلیم و تربیت ہوجائے اوراپنے اہداف و غایات کی تکمیل ہوسکے اور رشد و ہدایت کا منبع بن جائے۔
آج ۹؍جولائی کوجمعہ کا دن تھا ، وادی میں دو مسجدیں تھیں، ان میں سے ایک خرافیوں کی مسجد ہے، اسمیں ہم کو خطابت و امامت کی اجازت کا امکان معدوم تھا، اسلئے اکٹھا صلاۃ جمعہ ادا کرنا پڑی، صدر مرکز نے خطبہ دیا اور راقم نے صلاۃ کی امامت کی اور صلاۃ کے بعد درس حدیث دیا موضوع حب رسول ﷺتھا، حدیث انس ’’لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین‘‘ کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی اور میں نے بتایا کہ حب رسولﷺ جزء ایمان ہے اور محبت نبوی اطاعت و اتباع کی مقتضی ہے۔
اطاعت و اتباع سے خالی محبت یا غلوآمیز محبت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ابوبکرکی محبت اطاعت سے معمور تھی سو وہ ’’افضل ہذہ الامۃ بعد نبیہا‘‘ قرار پائے اور ابوطالب کی محبت اطاعت واتباع سے خالی تھی وہ محروم ہدایت اور جہنمی قرار پائے۔
ارکان وفد نے قبل از صلاۃ جمعہ کھانا تناول کرلیا تھا، جس کا اہتمام وہاں کی (آما سمودائے) ’’جمعیۃ الامہات‘‘نے کیا تھا، نماز سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی قافلہ کرشنانگر کے لئے روانہ ہوگیا، ہم سب نے وہاں کے جملہ احباب و اخوان کا شکریہ ادا کیا اور سلام ودعا کے ساتھ ان سے جدا ہوئے۔
برادرمحمد ایوب اور ان کے ساتھ جناب محمد علی صاحب کافی دور تک الوداع کہنے آئے، درحقیقت جس بہتر سلوک کا مظاہرہ وہاں سبھوں نے کیا اس کے لئے ہمارے پاس شکریہ کے الفاظ نہیں ہیں، اللہ کرے ہماری دعوت وارشاد کا بہترین نتیجہ برآمد ہو اور اس نوعیت کا سلسلہ قائم رہے، اللہ کے فضل سے یہ قافلہ سلامتی کے ساتھ تقریبا ساڑھے نوبجے کرشنا نگر واپس پہونچ گیا۔ وصلی اللہ علی النبی الکریم۔
آپ نے اپنی جامع گفتگو میں علم کی قدر و منزلت کو ابھارا اور کتاب و سنت کی روشنی میں علم اور اہل علم کی فضیلت کو اجاگر کیا اور مدرسہ نورالہدی کی سرگرمیوں کو سراہا اور ہر ممکن امداد و اعانت کا وعدہ کیا اور مختلف قیمتی آرا ء سے مستفید کیا بعض تجاویز بھی آپ نے پیش کیں مثلا یہ کہ بچیوں کی تعلیم بچوں سے الگ اور علاحدہ کلاس روم میں ہو۔
اس طرح مستقبل کے مدرسہ نسواں کی سنگ بنیاد پڑجائے گی اور جس دن مدرسہ نسواں عملی طورپر وجود میں آیا میں مرکز کی طرف سے ایک معلمہ کا تقرر کروں گا ۔ ان شاء اللہ۔
آپ کا خطاب اذان ظہر کے قریب تک جاری رہا، صلاۃ ظہر ادا کی گئی، پھر کھانا تناول کرنے کے بعد استراحت کے لئے وقفہ تھا۔
بعد صلاۃ عصر وہاں میزبانوں اور ذمہ داران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ علاقہ و جوار کی سیر و زیارت کا پروگرام تھا، ہمارے ہمراہ مدرسہ کے ناظم محمد اسماعیل صاحب تھے، ہم لوگ کالی گنڈکی نامی ندی کے پاس ایسے مقام پر پہونچے جو چار ضلعوں کا سنگم تھا، ہم لوگ ضلع پالپا کی آخری سرحد پر کھڑے تھے اور کالی گنڈکی ندی کے اس پار ضلع سیانجہ واقع تھا اورشمال کی طرف تھوڑی دور پر ضلع تنہو شروع تھا، اورجنوب مشرق کی سمت میں معمولی سے فاصلہ پر ضلع نول پراسی کی سرحد شروع ہورہی تھی۔
اور یہ مقام انتہائی دلکش اور حسین منظر پیش کررہا تھا، وہاں سے واپس ہوئے تو ہماری منزل رام پور کے مسلمانوں کی قبرستان تھی وہاں زیارت قبر کی دعا پڑھی گئی اور قبرستان کی کشادہ زمین کا معائنہ کیا گیا۔
ہمارے میزبان بھائیوں نے بتایا کہ جلد ہی اس مقبرہ کے تئیں کچھ شرپسند عناصر نے ایک بحران پیدا کرنے کی ناروا کوشش کی مگر ہماری چوکسی اور موقف کی پختگی سے یہ فتنہ فرو ہوگیا، ہوا یہ تھا کہ ایک صلیبی شخص کا انتقال ہوا، وہاں کے ہندو وغیرہ طبقہ نے اس صلیبی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی مذموم کوشش کی تاکہ کل اس وسیع اراضی پر اپنا حق جتلایا جاسکے مگر اللہ کی رحمت سے مسلمانوں نے اس مذموم کوشش کو ناکام بنا دیا۔
پھر ہم لوگوں نے کافی بلند پہاڑی پر آباد بعض مسلمانوں سے ملاقات کے لئے وہاں جانے کا ارادہ کیا، مگر کچھ دور چلنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ راستہ خراب ہے آج وہاں پر سواری کے ذریعہ پہونچنے کا امکان معدوم ہے پھر ہم رامپور وادی کا چکر کاٹ کر مدرسہ نورالہدی کے مصلی میں پہونچے جہاں صلاۃ مغرب ادا کی گئی۔
صلاۃ مغرب کے کے بعد قافلہ دعوت کے ممبران کا خطاب عام تھا جس کے لئے اعلان کیا جاچکا تھا، تمام مسلمان مردوزن کو شرکت کی دعوت دی جاچکی تھی اور خواتین کے لئے الگ بیٹھنے کا انتظام تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد تلاوت آیات کریمہ کے ساتھ ہی پروگرام کا آغاز ہوا اور مولانا عبدالقیوم مدنی نے قبولیت اعمال کے شروط کے موضوع پر مفصل خطاب کیا اور سنت کی اہمیت اور بدعت و خرافات کی قباحت کو واضح کیا۔
اس کے بعد راقم نے حاضرین کو خطاب کیا میں نے بیک وقت دو الگ الگ موضوع پر گفتگو کی پہلا موضوع ’’توحید‘‘ تھا میں نے غایت تخلیق انس و جان کو واضح کیا اور توحید کی اہمیت و فضیلت پر نیز شرک اور اس کی ہولناکی اور
انجام بد پر روشنی ڈالی اور کتاب وسنت سے مدلل خطاب کیا۔
دوسرا موضوع اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ تھا ماں، بیٹی، بہن، بیوی ہر روپ میں عورت کے مقام بلند کوواضح کرتے ہوئے ان کے حقوق و فرائض کو اختصار سے بیان کرتے ہوئے پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
آخر میں صدر مرکز اور قافلہ دعوت کے امیر مولانا عبداللہ مدنی حفظہ اللہ کا مکمل تعارف کراتے ہوئے منصرم نے انہیں دعوت سخن دی۔
آپ نے تذکیر کی اہمیت و فائدہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف نصائح و مواعظ سے سامعین کو محفوظ فرمایا، عورت کے حجاب پر مفصل گفتگو کی اور پورے عالم میں مسئلہ حجاب کی بحث کا خلاصہ کیا، آپ نے بتایا کہ عورتیں حجاب کی پابندی کریں اور حجاب ان کی ترقی کی راہ میں کوئی روڑا نہیں بلکہ وہ ان کے لئے حشمت وقار کا عنوان ہے۔
آپ نے اپنی اس تجویز کا اعادہ کیا کہ مدرسہ میں بچیوں کو درجہ سوم کے بعد الگ تھلگ کلاس روم میں پڑھانا چاہئے اور آپ لوگ اس کی کوشش کریں، کہ یہاں پر مدرسہ نسواں کا قیام عمل میں آجائے، آپ نے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔اور صدر مرکز کی پرسوز دعاؤں پر مجلس دعوت وارشاد کا اختتام ہوا۔
عِشاء اورعَشاء سے فارغ ہوکر پھر اپنے کمروں میں نیند کی آغوش میں چلے گئے، جمعہ کی صبح کو چائے نوشی کے بعد ممبران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ مختصر سی میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ اور تعلیم و تدریس ، تربیت اور نصاب تعلیم وغیرہ موضوعات زیر بحث آئے اور صدر مرکز نے اپنے مفید مشوروں سے نواز۔
اسی مجلس کے اختتام پر اس دعوتی وفد نے مدرسہ کی بابت اپنے تاثرات کو ’’تاثرات رجسٹر‘‘میں قلمبند کیا اوراس میں اپنے مشاہداتی تاثرکے ساتھ ادارہ کی امداد کی اپیل کی گئی ہے، تاکہ یہ مدرسہ اس پہاڑی خطہ کا مرکز تعلیم و تربیت ہوجائے اوراپنے اہداف و غایات کی تکمیل ہوسکے اور رشد و ہدایت کا منبع بن جائے۔
آج ۹؍جولائی کوجمعہ کا دن تھا ، وادی میں دو مسجدیں تھیں، ان میں سے ایک خرافیوں کی مسجد ہے، اسمیں ہم کو خطابت و امامت کی اجازت کا امکان معدوم تھا، اسلئے اکٹھا صلاۃ جمعہ ادا کرنا پڑی، صدر مرکز نے خطبہ دیا اور راقم نے صلاۃ کی امامت کی اور صلاۃ کے بعد درس حدیث دیا موضوع حب رسول ﷺتھا، حدیث انس ’’لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین‘‘ کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی اور میں نے بتایا کہ حب رسولﷺ جزء ایمان ہے اور محبت نبوی اطاعت و اتباع کی مقتضی ہے۔
اطاعت و اتباع سے خالی محبت یا غلوآمیز محبت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ابوبکرکی محبت اطاعت سے معمور تھی سو وہ ’’افضل ہذہ الامۃ بعد نبیہا‘‘ قرار پائے اور ابوطالب کی محبت اطاعت واتباع سے خالی تھی وہ محروم ہدایت اور جہنمی قرار پائے۔
ارکان وفد نے قبل از صلاۃ جمعہ کھانا تناول کرلیا تھا، جس کا اہتمام وہاں کی (آما سمودائے) ’’جمعیۃ الامہات‘‘نے کیا تھا، نماز سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی قافلہ کرشنانگر کے لئے روانہ ہوگیا، ہم سب نے وہاں کے جملہ احباب و اخوان کا شکریہ ادا کیا اور سلام ودعا کے ساتھ ان سے جدا ہوئے۔
برادرمحمد ایوب اور ان کے ساتھ جناب محمد علی صاحب کافی دور تک الوداع کہنے آئے، درحقیقت جس بہتر سلوک کا مظاہرہ وہاں سبھوں نے کیا اس کے لئے ہمارے پاس شکریہ کے الفاظ نہیں ہیں، اللہ کرے ہماری دعوت وارشاد کا بہترین نتیجہ برآمد ہو اور اس نوعیت کا سلسلہ قائم رہے، اللہ کے فضل سے یہ قافلہ سلامتی کے ساتھ تقریبا ساڑھے نوبجے کرشنا نگر واپس پہونچ گیا۔ وصلی اللہ علی النبی الکریم۔
No comments:
Post a Comment