Wednesday 28 July, 2010

مولانا محمد عمر سلفی، ایک باکمال مربی

مطیع اللہ المدنی
مولانا محمد عمر سلفی، ایک باکمال مربی
جماعت کے ایک انتہائی بزرگ عالم دین، باکمال مدرس، بے لوث مربی زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت میں نمونۂ سلف، شیخ الحدیث مولانا أبوالعرفان محمد عمر سلفی طویل عرصہ تک علیل رہنے کے بعد بالآخر ۹؍مارچ ۲۰۱۰ء ؁ کو انتقال کر گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا محمد عمر صاحب کا قدیم آبائی وطن ٹیرا ٹکرا، بارہ بنکی تھا، آپ کے والد گرامی نقل مکانی کرکے ضلع گونڈہ کے کرنیل گنج کے قریب موضع سسئی چلے آئے وہیں پر ۱۹۲۰ء ؁ میں مولانا کی ولادت ہوئی، پھر والد نے اس گاؤں کو ترک کرکے قریہ دال ڈیہہ، گونڈہ اور آخر میں قریہ اوسانی ، فیروز آباد، گونڈہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد جماعت کے معروف مدرسہ ’’سراج العلوم‘‘ بونڈیہار میں عربی تعلیم کا آغاز کیااور اس کے بعد مدرسہ عالیہ عربیہ ، مؤ ناتھ بھنجن میں داخلہ لے کر جماعت رابعہ تک کی تعلیم مکمل کی، پھر آپ نے دہلی کا رخت سفر باندھا اور محلہ کشن گنج کے مدرسہ سعیدیہ میں داخل ہوکر مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑھی رحمہ اللہ سے خصوصی طورپر بھرپور استفادہ کیا، آپ کی علمی شخصیت کی تعمیرمیں انہیں دونوں بزرگوں کا زبردست اثر تھا ۱۹۴۰ء ؁میں اسی مدرسہ سے سند فراغت حاصل کی۔
مولانا محمد عمر صاحب نے پوری حیات مستعار تدریسی خدمات کی انجام دہی میں صرف کی اور جب تک جسم میں تاب و توانائی باقی تھی اسی اشرف ترین عمل سے وابستہ رہے۔
آپ کی تدریس کا زمانہ بہت طویل ہے ۱۹۴۰ء ؁ کے بعد سے۲۰۰۴ء ؁ تک جب تلک مکمل طور پر معذور نہ تھے آپ نے تدریس کا شغل جاری رکھا۔
اس طویل مدت میں آپ نے متعدد مدارس و جامعات میں تدریسی و تربیتی اور دعوتی کام انجام دیا جس کی مختصر تفصیل یہ ہے:
فارغ التحصیل ہونے کے بعدقصبہ بارہ، ضلع غازی پور میں ایک سال مدرس رہے، پھر ریاست پٹیالہ پنجاب میں تعلیمی خدمات پر مامور ہوئے ۱۹۴۷ء ؁ کے بعد ایک سال تک ناگپور، مہاراشٹر میں بطور مدرس و داعی کام کیا۔
اس کے بعد آپ مغربی بنگال کے ایک معروف مدرسہ شمس الہدیٰ، دلال پور میں برسوں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اسی اثناء میں آپ نے بنگالی زبان سیکھی اور اس میں مہارت پیدا کی اس طرح آپ اردو، عربی اور بنگلہ زبان کے ماہر تھے فارسی میں بھی آپ کو درک حاصل تھا۔
۱۹۶۴ء ؁ کا زمانہ تھا جب آپ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے اور صرف ایک سال تک وہاں پر ان کا قیام رہا، پھر ۱۹۶۵ء ؁ سے ۲۰۰۴ء ؁ تک مسلسل ۳۹؍برس تک مدرسہ سراج العلوم ، کنڈؤ،بونڈیہار سے وابستہ رہے، بہرنوع خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ نے وہاں پر تدریسی، تربیتی، دعوتی کام انتہائی اخلاص، دیانت، لگن اور دل سوزی کے ساتھ انجام دیا۔ اور آپ اور سراج العلوم دونوں کا نام لازم و ملزوم ہوگیا۔
ایک وقت تھاجب بستی و گونڈہ کے چند مدارس اپنی تعلیم و تربیت میں اپنی شہرت آپ تھے۔ان دنوں اکثر مدارس بتی و گونڈہ میں جماعت رابعہ اور اس سے نیچے کے درجات تک کی تعلیم ہوتی تھی۔ ان کا تعلیمی معیار اور تربیتی مقام و مرتبہ بہت بلند تھا، ان میں بقیۃالسلف حضرۃ العلام المحدث الکبیر ابوالعلی عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃالاحوذی کا قائم کردہ مدرسہ سراج العلوم بونڈیہارسرفہرست تھا۔
اس ادارہ میں تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ۱۹۶۵ء ؁ کے بعد سے مولانا ابوالعرفان محمد عمر صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ انتظامی ذمہ دار مولانا محمد اقبال صاحب رحمانی رحمہ اللہ تھے اور مولانا رحمانی علیہ الرحمہ انتظام و انصرام کی گوناگوں ذمہ داریوں کے ساتھ بعض کتابوں کی تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔آپ کے بلوغ المرام کی تدریس، انداز واسلوب تدریس کا بڑا شہرہ تھا۔
مولانا محمد عمر صاحب اس مدرسہ کے صدر المدرسین تھے اور اہم اسباق آپ کے ذمہ ہوتے تھے اور ان کے ساتھ باذوق باصلاحیت اساتذہ کی ٹیم تھی جو شبانہ روز محنت ومشقت اور اخلاص و دیانت کے ساتھ محو عمل تھی اور طلبہ بھی محنت و مشقت کے عادی بنائے جاتے تھے۔
صدر مدرس مولانامحمد عمر صاحب کی نگرانی اور شب وروز کی جد وجہد اور ساتھ ہی ان کی سخت گیری نیز تعلیم و تربیت میں بہترین اسوہ ہونے، ان کی بے لوث خدمت اور بے غرض تربیت و تزکیہ کا بہتر نتیجہ یہ تھا اس مدرسہ کی تعلیم و تربیت مثالی بن چکی تھی۔نہ جانے کتنے لعل و گہر پیدا ہوئے اور اپنا اور اپنے اساتذہ اور مدرسہ کا نام روشن کیا۔
ان سے استفادہ کرنے والوں کا بیان ہے کہ مولانا سخت گیر تھے بسا اوقات تادیبی سزا دینے میں بھی قدرے سختی کا مظاہرہ ہوتاتھا۔
آپ کی طبعی افتاد شان جلالی کی آئینہ دار تھی، اس ظاہری شان جلالی کے ساتھ وہ شان جمالی بھی رکھتے تھے، در حقیقت مدراس کی دنیا میں ظاہری سخت گیری کا رویہ ہی طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہتر نتیجہ کا باعث بنتا ہے، ورنہ جن مدارس میں حد درجہ نرمی پائی جاتی ہے وہاں پر بے راہ روی کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، عمومی طور پر وہاں علمی معیار قائم نہیں ہوپاتا ہے۔اور تربیتی کمزوری عام ہوتی ہیں۔
سراج العلوم بونڈیہار کے تعلق سے شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہاں پر مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اللہ کی شان جمالی نرم خوئی، ملاطفت اور پدرانہ شفقت اور مولانا محمد عمرسلفی رحمہ اللہ کی شان جلالی، رعب دار شخصیت اور تربیت و تہذیب کے باب میں بظاہر سخت گیری اور ساتھ ہی باطنی رحم دلی کا نتیجہ تھا کہ سراج العلوم کے طلبہ ممتاز اور لائق و فائق ثابت ہوئے۔
مولانا کا یہ زبردست کا رنامہ ہے کہ ۳۹؍سال تک ایک مدرسہ میں رہ کر زندگی بسر کردی، اپنی زبردست خدمت کے ذریعہ مدرسہ کو نیک نام کیا اور اسے بام عروج پر پہونچایا۔ اور درجات علیا کی تعلیم کا بندوبست ہوا اور وہاں فضیلت تک کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
آپ اس مدرسہ میں شیخ الحدیث تھے، عرصہ تک درس صحیحین دیا، مولانا اقبال صاحب رحمانی کی وفات کے بعد آپ ہی جامعہ کے داخلی و خارجی معاملات کے منتظم رہے اور اپنی کاوش مسلسل اور سعی پیہم سے ادارہ کو ترقی کی راہوں پر لے آئے۔
طلبہ سراج العلوم بونڈیہار اپنے اس محسن اور مشفق مربی کا ذکر جمیل کرتے رہتے ہیں، جس نے نام لیا ادب و احترام کا سمندر موجزن ہونے لگتا، محبتوں کا دریا رواں ہوجاتا، کسی کی عنداللہ مقبولیت کا یہی تو معیار ہے۔
آپ ایک طرف ماہر و کہنہ مشق مدرس تھے وہیں آپ انتہائی عمدہ مربی تھے تو دوسری طرف آپ میدان دعوت و ارشاد کے ایک سرگرم مخلص داعی و مبلغ تھے۔
آپ علاقہ و جوار کے دینی اجلاس اور اصلاحی پروگرام میں شرکت فرماکر لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے، آپ کا وعظ کتاب و سنت کے دلائل سے مدلل ہوتا تھا، انداز سادہ ہوا کرتا تھا۔آپ جمعیت و جماعت سے وابستہ رہے، ایک عرصہ تک ضلع گونڈہ کی جمعیت اہل حدیث کے صدر رہ چکے ہیں اور اس پلیٹ فارم سے دعوتی و اصلاحی تعلیمی و تنظیمی خدمات انجام دے چکے ہیں۔اور صوبائی و مرکزی جمعیت کے ساتھ دعوتی کاز میں ہمیشہ تعاون کرتے رہے، آپ مرکز ابوالکلام آزاد للتوعیہ الاسلامیہ نئی دہلی کے ممبر اور سابق نائب صدر مجلس منتظمہ رہ چکے ہیں۔
آپ نے جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں تدریس کے ساتھ افتاء کا کام بھی کیا ہے اور شرعی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے، اگر آپ کے فتاؤوں کا تحریری ریکارڈ جامعہ سراج العلوم میں موجود ہو تو وہاں کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ کسی معتبر عالم دین کی تحقیق و جائزہ کے ساتھ ان فتاؤوں کی طباعت کا اہتمام کریں تاکہ افادیت عام ہو سکے۔
آپ کی تدریسی اور دیگر گوناگوں دعوتی و تربیتی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکوڑ کانفرنس میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہی ۲۰۰۴ء ؁ کا زمانہ تھا جب آپ درس وتدریس سے معذوری کی بناپر کنارہ کش ہوگئے۔
اوصاف و اخلاق میں مولانا محمد عمرسلفی صاحب بہت بلند مقام پر فائز تھے، عادات و اطوار، اخلاق و معاملات ، عقائد ومعاملات میں آپ سلف صالح کا نمونہ تھے، آپ جرأت بے باکی اور حق گوئی وصداقت شعاری کا پیکر تھے، امربالمعروف و نہی عن المنکر کے متعلق کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
آپ ایک شب زندہ دار عالم دین تھے، اس عصر حاضر میں آپ جیسی مغتنم شخصیت کا وجود تقریباً معدوم ہے۔ علم وفن اور بحث و تحقیق کے شہ سواروں کی یقیناًکثرت ہے مگر ؂’’ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے ‘‘والی بات خال خال علماء ہی میں پائی جاتی ہے۔
مولانا کے تلامذہ کی ایک بہت بڑی تعداد علم و دعوت کے میدان میں سرگرم عمل ہے، یہ ہزاروں کی تعداد میں آپ سے حسب استعداد استفادہ کرنے والے تلامذہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے ۔ ان شاء اللہ۔
آپ کے پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ان میں برادر مکرم مولانا عبیدالرحمن سلفی سے میری واقفیت ہے وہ جامعہ سلفیہ بنارس کے فارغ التحصیل ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی جملہ اولاد کو بھی آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔اللہ رب العالمین آپ کی بشری لغزشوں سے درگذر کرتے ہوئے ان کے حسنات کو قبول کرکے بال بال مغفرت فرمائے۔ آمین۔
***

No comments:

Post a Comment