طوبیٰ مظہر بنت مولانا مظہر اعظمی
اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا جس میں انسانوں کے لئے احکامات ناز ل کرنے کے ساتھ رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ ان احکامات کو نافذ و عمل کے ذریعہ یہ بتادیں کہ یہ ایسے احکامات نہیں جو عمل کے لحاظ سے انسانی قدرت سے باہر ہوں، بلکہ اس کے حرف حرف پر ایسے ہی عمل کیا جاسکتا ہے جس طرح میں کر رہا ہوں اور تمہاری اور پوری امت کی کامیابی بھی اس پر عمل کرنے میں ہے اس سے بیزاری دنیا وآخرت دونوں جہاں میں نقصان و خسران کا سبب ہے۔
قرآن کا دوسرا حصہ رموز کائنات پر غور و فکر سے متعلق ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے تفکر و تدبر کی تلقین کرکے چھوڑ دیا ہے مگر وہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، رسول ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں کے باشندوں کو کھجوروں کی تابیر کرتے ہوئے دیکھا تو منع فرمادیا، مگر بعد میں جب معلوم ہوا کہ، پھل کم اور خراب آئے تو آپ نے دوبارہ اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’انتم اعلم بامور دنیاکم‘‘ کہ تم لوگ اپنے دنیوی امور کو زیادہ بہتر جانتے ہو،کیونکہ اس کا تمام تر دارومدار تجربات و مشاہدات پر ہے، جس میں کامیاب وہی ہو سکتا ہے جس کو یہ تمام چیزیں حاصل ہوں۔
عصری تعلیم پر صرف ایک اشارہ کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے، مگر دینی تعلیم تو ہماری بنیادی ضرورت ہے جس پر میں اپنی محدود معلومات سپرد قلم کرنا چاہتی ہوں۔
میں پہلے اس نکتہ پر اپنی بات مرکوز رکھنا چاہتی ہوں کہ آخر یہ دینی تعلیم کیوں ہماری بنیادی ضرورت ہے؟ جسے میں ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کرونگی۔
ہم کو، آپ کو اور سب کو اس بات کا تجربہ ہے کہ مختلف کمپنیاں چھوٹے بڑے سامان اور مشین تیار کرتی اور بناتی ہیں، جن کو کس طرح آپریٹ کرنا اور چلانا و استعمال کرنا ہوگا، کمپنیاں اس کے ساتھ ایک کتابچہ بھی رکھتی ہیں، جس میں اس مشین کے استعمال کا پورا طریقہ موجود ہوتا ہے، ہم اس سامان اور مشین کو اسی کتابچہ کی روشنی میں استعمال کرنا اپنے لئے اور مشین کے لئے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جس نے اس مشین کو بنایا ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ اسے کس طرح استعمال کرنا ہوگا، اس لئے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو مشین تو کسی کمپنی کی استعمال کرے اور کتابچہ کسی اور کمپنی کا، کیونکہ اسے معلوم ہے ایسا کرنے کی صورت میں مشین کی کیا درگت بنے گی اور اس کا کیا حشر ہوگا۔
اس مثال کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ جس انسان کا خالق اللہ ہے تو اسے بھی زندگی گزارنے دنیا وآخرت سنوارنے کے لئے اسی اللہ کا کتابچہ خود رسول ﷺ پر قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوا جس کو استعمال کرنا نہایت ضروری ہے، بصورت دیگرجس طرح مشین کی درگت بن سکتی ہے اسی طرح انسان اپنی منزل مقصود نہیں پاسکتا، اس لئے دینی تعلیم کا حصول ہمارے لئے ضروری ہے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے۔
جولوگ دینی علوم سے ناآشنا ہیں اور اپنی چند روزہ زندگی کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف گزار رہے ہیں، ان کی مثال اس آپریٹر کی ہے جو مشین کو کتابچہ کی روشنی میں نہیں بلکہ من مانی طور پر چلا رہا ہے اور اگر کوئی بھی شخص مشین کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے ، مشین کے مالک اور کتابچہ کے مطابق نہ چلائے تو ظاہر ہے کہ اس آپریٹر کے ساتھ مالک کوئی بھی سلوک کرسکتا ہے، بلکہ اسے اس کی ذمہ داری سے محروم بھی کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تخلیق اور مقصد تخلیق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس جسم کے تحفظ و بقاء اور دنیوی و اُخروی کامیابی کا راز عبادت الٰہی میں مضمر ہے اور جب عبادت الٰہی کا مقصد اور کامیابی اسی میں مضمر ہے تو پھر ضروری ہے کہ عبادت کا مفہوم اور مطلب سمجھا جائے، اس کے آداب اور حدود و شروط جانے جائیں اور یہ بنیادی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے،اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ و خطہ کا بسنے والا اسلام کی بنیادی تعلیم اور بنیادی اصول و ضوابط سے واقف رہے۔
اس وقت مسلمانوں کی جو پوری دنیا میں صورت حال ہے اس کے مختلف اسباب میں سے ایک اہم سبب اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقفیت اور بیزاری ہے، ہم عصر حاضر کی چم خم اور چمک دمک کو دیکھ کر یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو بھی وہی سب کچھ حاصل ہو جائے جو غیروں کو حاصل ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے مرصع کرنے کی بجائے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے کسی ایسے ادارے میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دین کے علاوہ سب کچھ سکھایا اور بتایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ادارے میں پڑھنے والا بچہ جب تعلیم ادھوری چھوڑ کر تعلیم سے اپنا تعلق ختم کرلیتا ہے تو اس کی مثال دھوبی کے کتے کی ہوتی ہے ، ’’گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی نہ تو اسلام کے بنیادی اصول و ضوابط سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی عصری علوم میں کمال حاصل کرسکتا ہے۔
دینی تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے جس کا آغاز ماں کی گود اور گھر کے ماحول سے ہوتا ہے، نبیﷺ نے سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دینے کے لئے کہا اور دس سال کے بعد مارنے کا، جواس بات کا ثبوت ہے کہ والدین اس کا آغاز عملی زندگی سے کریں، یعنی نمازی ہوں نماز پڑھنے کا حکم دیں، اچھا کام خود کریں اور کرنے کا حکم دیں، برائیوں سے پرہیز کریں اور کرنے کاحکم دیں یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص تو خود نہ کرے اور کرنے حکم دے اور اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں، بلکہ ایسی صورت میں کبھی کبھی نتائج خراب ہوجاتے ہیں اور بچے والدین سے بد ظن ہوجاتے ہیں۔
وحدہ لاشریک سے دعا ہے کہ ہم سب کو دینی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)
دینی تعلیم ایک بنیادی ضرورت
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر پہلی وحی ’’إقرأ‘‘ نازل کرکے تعلیم و تعلم کی اہمیت و ضرورت سے انسان کو آگاہ کیا، جسے آپﷺ نے اپنی امت کو پڑھ کر سنانے کے ساتھ ’’طلب العلم فریضۃ‘‘ کہہ کر اس کی فرضیت سے امت کو روشناس کرایا، تعلیم وتعلم کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کے ان دونوں فرمودات کا موازنہ کسی بھی بڑے سے بڑے ماہر تعلیم اور اس کے نظریات سے نہیں کیا جاسکتا ، یہی وجہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اسلام نے حصول تعلیم پر جس قدر مضبوطی کے ساتھ زور دیا ہے اگر مسلمان اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار ہوجائیں تو جس طرح مسلمانوں نے ابتدائی چند صدیوں میں دنیا کی امامت کی تھی پھراس امامت کے عہدہ جلیلہ پر واپس آسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا جس میں انسانوں کے لئے احکامات ناز ل کرنے کے ساتھ رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ ان احکامات کو نافذ و عمل کے ذریعہ یہ بتادیں کہ یہ ایسے احکامات نہیں جو عمل کے لحاظ سے انسانی قدرت سے باہر ہوں، بلکہ اس کے حرف حرف پر ایسے ہی عمل کیا جاسکتا ہے جس طرح میں کر رہا ہوں اور تمہاری اور پوری امت کی کامیابی بھی اس پر عمل کرنے میں ہے اس سے بیزاری دنیا وآخرت دونوں جہاں میں نقصان و خسران کا سبب ہے۔
قرآن کا دوسرا حصہ رموز کائنات پر غور و فکر سے متعلق ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے تفکر و تدبر کی تلقین کرکے چھوڑ دیا ہے مگر وہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، رسول ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں کے باشندوں کو کھجوروں کی تابیر کرتے ہوئے دیکھا تو منع فرمادیا، مگر بعد میں جب معلوم ہوا کہ، پھل کم اور خراب آئے تو آپ نے دوبارہ اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’انتم اعلم بامور دنیاکم‘‘ کہ تم لوگ اپنے دنیوی امور کو زیادہ بہتر جانتے ہو،کیونکہ اس کا تمام تر دارومدار تجربات و مشاہدات پر ہے، جس میں کامیاب وہی ہو سکتا ہے جس کو یہ تمام چیزیں حاصل ہوں۔
عصری تعلیم پر صرف ایک اشارہ کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے، مگر دینی تعلیم تو ہماری بنیادی ضرورت ہے جس پر میں اپنی محدود معلومات سپرد قلم کرنا چاہتی ہوں۔
میں پہلے اس نکتہ پر اپنی بات مرکوز رکھنا چاہتی ہوں کہ آخر یہ دینی تعلیم کیوں ہماری بنیادی ضرورت ہے؟ جسے میں ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کرونگی۔
ہم کو، آپ کو اور سب کو اس بات کا تجربہ ہے کہ مختلف کمپنیاں چھوٹے بڑے سامان اور مشین تیار کرتی اور بناتی ہیں، جن کو کس طرح آپریٹ کرنا اور چلانا و استعمال کرنا ہوگا، کمپنیاں اس کے ساتھ ایک کتابچہ بھی رکھتی ہیں، جس میں اس مشین کے استعمال کا پورا طریقہ موجود ہوتا ہے، ہم اس سامان اور مشین کو اسی کتابچہ کی روشنی میں استعمال کرنا اپنے لئے اور مشین کے لئے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جس نے اس مشین کو بنایا ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ اسے کس طرح استعمال کرنا ہوگا، اس لئے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو مشین تو کسی کمپنی کی استعمال کرے اور کتابچہ کسی اور کمپنی کا، کیونکہ اسے معلوم ہے ایسا کرنے کی صورت میں مشین کی کیا درگت بنے گی اور اس کا کیا حشر ہوگا۔
اس مثال کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ جس انسان کا خالق اللہ ہے تو اسے بھی زندگی گزارنے دنیا وآخرت سنوارنے کے لئے اسی اللہ کا کتابچہ خود رسول ﷺ پر قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوا جس کو استعمال کرنا نہایت ضروری ہے، بصورت دیگرجس طرح مشین کی درگت بن سکتی ہے اسی طرح انسان اپنی منزل مقصود نہیں پاسکتا، اس لئے دینی تعلیم کا حصول ہمارے لئے ضروری ہے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے۔
جولوگ دینی علوم سے ناآشنا ہیں اور اپنی چند روزہ زندگی کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف گزار رہے ہیں، ان کی مثال اس آپریٹر کی ہے جو مشین کو کتابچہ کی روشنی میں نہیں بلکہ من مانی طور پر چلا رہا ہے اور اگر کوئی بھی شخص مشین کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے ، مشین کے مالک اور کتابچہ کے مطابق نہ چلائے تو ظاہر ہے کہ اس آپریٹر کے ساتھ مالک کوئی بھی سلوک کرسکتا ہے، بلکہ اسے اس کی ذمہ داری سے محروم بھی کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تخلیق اور مقصد تخلیق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس جسم کے تحفظ و بقاء اور دنیوی و اُخروی کامیابی کا راز عبادت الٰہی میں مضمر ہے اور جب عبادت الٰہی کا مقصد اور کامیابی اسی میں مضمر ہے تو پھر ضروری ہے کہ عبادت کا مفہوم اور مطلب سمجھا جائے، اس کے آداب اور حدود و شروط جانے جائیں اور یہ بنیادی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے،اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ و خطہ کا بسنے والا اسلام کی بنیادی تعلیم اور بنیادی اصول و ضوابط سے واقف رہے۔
اس وقت مسلمانوں کی جو پوری دنیا میں صورت حال ہے اس کے مختلف اسباب میں سے ایک اہم سبب اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقفیت اور بیزاری ہے، ہم عصر حاضر کی چم خم اور چمک دمک کو دیکھ کر یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو بھی وہی سب کچھ حاصل ہو جائے جو غیروں کو حاصل ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے مرصع کرنے کی بجائے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے کسی ایسے ادارے میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دین کے علاوہ سب کچھ سکھایا اور بتایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ادارے میں پڑھنے والا بچہ جب تعلیم ادھوری چھوڑ کر تعلیم سے اپنا تعلق ختم کرلیتا ہے تو اس کی مثال دھوبی کے کتے کی ہوتی ہے ، ’’گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی نہ تو اسلام کے بنیادی اصول و ضوابط سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی عصری علوم میں کمال حاصل کرسکتا ہے۔
دینی تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے جس کا آغاز ماں کی گود اور گھر کے ماحول سے ہوتا ہے، نبیﷺ نے سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دینے کے لئے کہا اور دس سال کے بعد مارنے کا، جواس بات کا ثبوت ہے کہ والدین اس کا آغاز عملی زندگی سے کریں، یعنی نمازی ہوں نماز پڑھنے کا حکم دیں، اچھا کام خود کریں اور کرنے کا حکم دیں، برائیوں سے پرہیز کریں اور کرنے کاحکم دیں یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص تو خود نہ کرے اور کرنے حکم دے اور اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں، بلکہ ایسی صورت میں کبھی کبھی نتائج خراب ہوجاتے ہیں اور بچے والدین سے بد ظن ہوجاتے ہیں۔
وحدہ لاشریک سے دعا ہے کہ ہم سب کو دینی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)
No comments:
Post a Comment