تحریر: خالد الجندی
ترجمہ: رضوان اللہ عبد الرؤف
چوں کہ جب کسی انسان کے اندر حیا جیسی دولت پنہاں ہوتی ہے تو خود بخود اس کی شخصیت لوگوں کی نگاہوں میں متعارف ہوجاتی ہے، لیکن جب یہی صفت کسی انسان کے اندر سے معدوم ہوجائے تو وہ مکمل خسارے میں رہے گا، حیا انسانوں کو قباحتوں سے روکنے کا وسیلہ ہے، جب کوئی شخص حیا کرتا ہے تو وہ نفس کی پیروی کرنے سے باز رہتا ہے، کیوں کہ خواہش نفس آدمی کو عموما معصیت ہی پر ابھارتی ہے اور جب آدمی شرم وحیا سے سرشار رہے گا تو وہ گناہ کے قریب نہ جائیگا، شرم وحیا اپنے رفیق کی ظاہری و باطنی دونوں حالتیں درست کرتا ہے جیسے وہ شخص جو صر ف حلال کمائی کی تلاش میں رہے گا کسی ہوٹل، ریسٹورنٹ وغیرہ میں حلال خوراک کی فرمائش کرے گا تو وہ حلال ہی منتخب کرے گا، کیوں کہ وہ شخص حرام کمائی نہ کھایا اور نہ اس کے قریب گیا اس کی خصلت صرف اور صرف حلال کمائی ہی کی طرف اس کو لے گئی، وہ حرام سے شرم و حیا کی بناپر ہمہ وقت دور رہا، اسی بنا پر اس کے ایمان میں پختگی رہی اور ’’الحیاء من شعبۃ الإیمان‘‘ کا نقشہ سامنے موجود رہا۔
نبی ﷺ نے ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’إن لکل دین خلق و خلق الإسلام الحیاء‘‘ یقیناًہر دین کا ایک اخلاق ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔ (ابن ماجہ ۲؍۱۳۹۹)
اگر انسان حیا سے عاری ہے تو اس کا اخلاق و کردار غیر اطمینان بخش ہے اورجب اخلاق ہی صحیح نہیں ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ برائی کا مجسمہ ہے، بنایریں محمد ﷺ نے ایسے شخص کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، فرمایا: إذا لم تستح فاضع ما شئت‘‘ جب تمہیں شرم نہیں آتی تو جو چاہو کرو۔ (بخاری:۱؍۲۲۶۸)
یعنی حیا سے خالی شخص کے لئے وعید ہے کہ تمہیں اپنے کرتوتوں کا بدلہ ملے گا۔
جب کہ رسول اللہ ﷺ کے شرم و حیا کا عالم یہ تھا کہ ایک کنواری صنف نازک بھی اتنا شرمیلی نہیں ہوتی تھی،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ’’کان رسول اللہﷺ اشد حیا من الغدراء فی خدرھا فإذا ارای شیئا یکرھہ عرفناہ فی وجھہ‘‘رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیا تھے، جب وہ کسی چیز کو دیکھ کر کراہت محسوس کرتے تو ان کے چہرے ہی سے ہم انہیں پہچان لیتے۔ (بخاری:۲؍۱۳۰۶)
ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ کو روتے ہوئے پایا، کہا: اے اللہ کے رسول ﷺآپ کو کس چیز نے رلایا، فرمایا ’’ مجھے جبریل علیہ السلام نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو عذاب دیتے ہوئے شرماتا ہے جو حالت اسلام میں بوڑھا ہوتا ہے،توکیا بندے کو گناہ کرنے سے نہیں شرمانا چاہئے جبکہ وہ حالت اسلام میں بوڑھا ہواہو۔ (حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم:۲؍۳۸۶)
یہ ان لوگوں پر منطبق ہوتی ہے جو بحالت اسلام بوڑھاپے کی عمر کو پہونچے لیکن بجائے اس کے کہ وہ نیکیاں کریں، گناہوں سے اپنی جھولیوں کو مزین کرتے ہیں۔
حیا کی اہمیت ہی کی بنا پر رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا ’’اللہ تعالیٰ سے حیا کرو، جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس کی حمد وثنا بھی کرتے ہیں، فرمایا اس طرح نہیں بلکہ اللہ سے اس طرح حیا کرو جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے، سرکی حفاظت کرو اور اس چیز کی بھی حفاظت کو جو سرکی حفاظت میں ہے، پیٹ کی حفاظت کرو اور اس چیز کی جو وہ سمیٹے، موت اور آزمائش کو خوب یاد کرو، جس نے دنیوی آسائش کو چھوڑ کرآخرت کا قصد کیا اس نے اللہ تعالیٰ سے ایسے ہی حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق تھا۔ (سنن ترمذی: ۴؍۶۳۷)
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ بات صحابہ کرام کے اذہان و قلوب میں اتر گئی پھر ہوا یہ کہ ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) کے تحت حیا سے معمور زندگی گزارنے لگے، جیسا کہ دلائل موجود ہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک تاریک مکان میں غسل کرتا تھا جب میری پیٹھ جھکی تو میں نے شرم سے اپنے کپڑے کو پکڑ لیا۔ (مصنف بن أبی شیبہ: ۱؍۱۲۹)
دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’میں جب سے اسلام لایا تب سے دوران غسل اپنی پیٹھ کھڑا نہیں کیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ لوگوں سے کہا اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ سے شرم کرو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جس وقت قضاء حاجت کے لئے جاتا ہوں تو اپنے رب سے شرم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو چھپاتا ہوں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شرمیلے تھے، رسول ﷺ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’کیا آپ اس شخص سے حیا نہیں کریں گے جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں‘‘۔
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو کہا گیا کہ جب حیا کسی انسان کے پاس سے چلی جائے تو گویا نصف دین چلا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا جب حیا چلی جاتی ہے تو پورا دین چلا جاتا ہے۔ جب کسی عورت کے اندر حیا ہو تو وہ عورت تمام عورتوں میں احسن و اجمل ہوتی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت مشہور ہے انہیں خوف تھا کہ ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ ان کی لاش اپنے کاندھے پر لے جائیں گے، جب انہوں نے یہ بات اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو بتلائی تو اسماءؓ نے کہا کیا تمہارے لئے حبشیوں کی مانند ایک ایسا آلہ نہ بنادیں جس کے چاروں طرف سے لاش ڈھکی رہتی ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تب فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کتنا بہتر ہے یہ اللہ تم کوبھی چھپائے جیسا کہ آپ نے مجھے چھپایا۔
مذکورہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہے کہ شرم و حیا انبیاء کرام و اصحاب رسولﷺ کا شیوہ رہا ہے کیوں کہ یہ شرم وحیا کی اہمیت و فضیلت جانتے تھے اور اس کے فائدے سے آشنا تھے۔
فوائد:
۱۔ باحیا شخص صرف نیکیاں ہی کرتا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’الحیاء لایاتی إلا بخیر‘‘حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (بخاری: ۵؍۳۲۶۸)
۲۔ حیا محبت الٰہی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب اللہ کسی بند ے پر انعام کرتا ہے تو اس پر نعمتوں کی علامتیں بھی دیکھنا چاہتا ہے وہ بدحالی و تنگ دستی اور فقیری کو ناپسند کرتا ہے نیز پاک و صاف ستھری زندگی چاہتا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی:۵؍۱۶۳)
۳۔ حیا طاعت و بھلائی کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کاا قرار کرنا ہے او ر سب سے اسفل تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری:۱؍۱۲)
۴۔ حیا خوبصورتی و دلفریبی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ’’فحش صرف اس کی شان میں ہے اور حیا اس کی زان (زیب و زینت) میں ہے۔(مسند الشہاب:۲؍۱۶)
علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ اہل حیا باوقار و باعظمت ہوتے ہیں، دیگر لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اوروہ خود اپنے آپ کی عزت کرتا ہے۔
۵۔ بروز قیامت امن کا راستہ ہوگا۔ نبی رحمتﷺ فرماتے ہیں ’’ سات لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۱۔امام عادل، ۲۔وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پرورش پاتا ہو، ۳ ۔ ایسا شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ۴۔ ایسے دو آدمی جو اللہ ہی کی خاطر متفق اور متفرق ہوں، ۵۔ ایسا شخص جس کو خوبصورت اور منصب والی عورت بلائے تو یہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، ۶۔ وہ آدمی جو صدقہ اس طرح کرے کہ اس کا دایاں جو خرچ کرے بائیں کو پتہ نہ چلے، ۷۔ وہ شخص جس کے سامنے اللہ کا ذکر ہو تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ (بخاری: ۱؍۲۳۴)
مذکورہ روایت میں حقیقی حیا و داخلی ایمان کی بابت کتنے اچھے انداز میں رسول ﷺ نے پیشین گوئی فرمادی کہ ایک خوبصورت اور منصب والی نیز مالدار عورت زنا کی دعوت دے، لیکن اس پر بھی انکار کرنا پکے مومن کی علامت ہے، ایسا شخص اللہ کے سائے میں اس دن ہوگا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۶۔ حیا جنت کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا راستہ ہے، برائی سنگ دلی کا نام ہے اور سنگ دلی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ (سنن ترمذی:۴؍۳۶۵)
رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں اخلاص کے ساتھ اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین۔***
ترجمہ: رضوان اللہ عبد الرؤف
حیا: فضیلت و اہمیت اور فوائد
شرم وحیا اسلام کا ایک دستور اور ایک شعار ہے، جس کے ذریعہ ہر شخص خصوصاً مسلم عوام اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتے ہیں، کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’الحیاء من شعبۃ الإیمان‘‘ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (بخاری:۱؍۶۳)چوں کہ جب کسی انسان کے اندر حیا جیسی دولت پنہاں ہوتی ہے تو خود بخود اس کی شخصیت لوگوں کی نگاہوں میں متعارف ہوجاتی ہے، لیکن جب یہی صفت کسی انسان کے اندر سے معدوم ہوجائے تو وہ مکمل خسارے میں رہے گا، حیا انسانوں کو قباحتوں سے روکنے کا وسیلہ ہے، جب کوئی شخص حیا کرتا ہے تو وہ نفس کی پیروی کرنے سے باز رہتا ہے، کیوں کہ خواہش نفس آدمی کو عموما معصیت ہی پر ابھارتی ہے اور جب آدمی شرم وحیا سے سرشار رہے گا تو وہ گناہ کے قریب نہ جائیگا، شرم وحیا اپنے رفیق کی ظاہری و باطنی دونوں حالتیں درست کرتا ہے جیسے وہ شخص جو صر ف حلال کمائی کی تلاش میں رہے گا کسی ہوٹل، ریسٹورنٹ وغیرہ میں حلال خوراک کی فرمائش کرے گا تو وہ حلال ہی منتخب کرے گا، کیوں کہ وہ شخص حرام کمائی نہ کھایا اور نہ اس کے قریب گیا اس کی خصلت صرف اور صرف حلال کمائی ہی کی طرف اس کو لے گئی، وہ حرام سے شرم و حیا کی بناپر ہمہ وقت دور رہا، اسی بنا پر اس کے ایمان میں پختگی رہی اور ’’الحیاء من شعبۃ الإیمان‘‘ کا نقشہ سامنے موجود رہا۔
نبی ﷺ نے ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’إن لکل دین خلق و خلق الإسلام الحیاء‘‘ یقیناًہر دین کا ایک اخلاق ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔ (ابن ماجہ ۲؍۱۳۹۹)
اگر انسان حیا سے عاری ہے تو اس کا اخلاق و کردار غیر اطمینان بخش ہے اورجب اخلاق ہی صحیح نہیں ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ برائی کا مجسمہ ہے، بنایریں محمد ﷺ نے ایسے شخص کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، فرمایا: إذا لم تستح فاضع ما شئت‘‘ جب تمہیں شرم نہیں آتی تو جو چاہو کرو۔ (بخاری:۱؍۲۲۶۸)
یعنی حیا سے خالی شخص کے لئے وعید ہے کہ تمہیں اپنے کرتوتوں کا بدلہ ملے گا۔
جب کہ رسول اللہ ﷺ کے شرم و حیا کا عالم یہ تھا کہ ایک کنواری صنف نازک بھی اتنا شرمیلی نہیں ہوتی تھی،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ’’کان رسول اللہﷺ اشد حیا من الغدراء فی خدرھا فإذا ارای شیئا یکرھہ عرفناہ فی وجھہ‘‘رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیا تھے، جب وہ کسی چیز کو دیکھ کر کراہت محسوس کرتے تو ان کے چہرے ہی سے ہم انہیں پہچان لیتے۔ (بخاری:۲؍۱۳۰۶)
ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ کو روتے ہوئے پایا، کہا: اے اللہ کے رسول ﷺآپ کو کس چیز نے رلایا، فرمایا ’’ مجھے جبریل علیہ السلام نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو عذاب دیتے ہوئے شرماتا ہے جو حالت اسلام میں بوڑھا ہوتا ہے،توکیا بندے کو گناہ کرنے سے نہیں شرمانا چاہئے جبکہ وہ حالت اسلام میں بوڑھا ہواہو۔ (حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم:۲؍۳۸۶)
یہ ان لوگوں پر منطبق ہوتی ہے جو بحالت اسلام بوڑھاپے کی عمر کو پہونچے لیکن بجائے اس کے کہ وہ نیکیاں کریں، گناہوں سے اپنی جھولیوں کو مزین کرتے ہیں۔
حیا کی اہمیت ہی کی بنا پر رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا ’’اللہ تعالیٰ سے حیا کرو، جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس کی حمد وثنا بھی کرتے ہیں، فرمایا اس طرح نہیں بلکہ اللہ سے اس طرح حیا کرو جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے، سرکی حفاظت کرو اور اس چیز کی بھی حفاظت کو جو سرکی حفاظت میں ہے، پیٹ کی حفاظت کرو اور اس چیز کی جو وہ سمیٹے، موت اور آزمائش کو خوب یاد کرو، جس نے دنیوی آسائش کو چھوڑ کرآخرت کا قصد کیا اس نے اللہ تعالیٰ سے ایسے ہی حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق تھا۔ (سنن ترمذی: ۴؍۶۳۷)
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ بات صحابہ کرام کے اذہان و قلوب میں اتر گئی پھر ہوا یہ کہ ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) کے تحت حیا سے معمور زندگی گزارنے لگے، جیسا کہ دلائل موجود ہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک تاریک مکان میں غسل کرتا تھا جب میری پیٹھ جھکی تو میں نے شرم سے اپنے کپڑے کو پکڑ لیا۔ (مصنف بن أبی شیبہ: ۱؍۱۲۹)
دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’میں جب سے اسلام لایا تب سے دوران غسل اپنی پیٹھ کھڑا نہیں کیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ لوگوں سے کہا اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ سے شرم کرو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جس وقت قضاء حاجت کے لئے جاتا ہوں تو اپنے رب سے شرم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو چھپاتا ہوں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شرمیلے تھے، رسول ﷺ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’کیا آپ اس شخص سے حیا نہیں کریں گے جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں‘‘۔
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو کہا گیا کہ جب حیا کسی انسان کے پاس سے چلی جائے تو گویا نصف دین چلا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا جب حیا چلی جاتی ہے تو پورا دین چلا جاتا ہے۔ جب کسی عورت کے اندر حیا ہو تو وہ عورت تمام عورتوں میں احسن و اجمل ہوتی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت مشہور ہے انہیں خوف تھا کہ ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ ان کی لاش اپنے کاندھے پر لے جائیں گے، جب انہوں نے یہ بات اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو بتلائی تو اسماءؓ نے کہا کیا تمہارے لئے حبشیوں کی مانند ایک ایسا آلہ نہ بنادیں جس کے چاروں طرف سے لاش ڈھکی رہتی ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تب فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کتنا بہتر ہے یہ اللہ تم کوبھی چھپائے جیسا کہ آپ نے مجھے چھپایا۔
مذکورہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہے کہ شرم و حیا انبیاء کرام و اصحاب رسولﷺ کا شیوہ رہا ہے کیوں کہ یہ شرم وحیا کی اہمیت و فضیلت جانتے تھے اور اس کے فائدے سے آشنا تھے۔
فوائد:
۱۔ باحیا شخص صرف نیکیاں ہی کرتا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’الحیاء لایاتی إلا بخیر‘‘حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (بخاری: ۵؍۳۲۶۸)
۲۔ حیا محبت الٰہی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب اللہ کسی بند ے پر انعام کرتا ہے تو اس پر نعمتوں کی علامتیں بھی دیکھنا چاہتا ہے وہ بدحالی و تنگ دستی اور فقیری کو ناپسند کرتا ہے نیز پاک و صاف ستھری زندگی چاہتا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی:۵؍۱۶۳)
۳۔ حیا طاعت و بھلائی کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کاا قرار کرنا ہے او ر سب سے اسفل تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری:۱؍۱۲)
۴۔ حیا خوبصورتی و دلفریبی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ’’فحش صرف اس کی شان میں ہے اور حیا اس کی زان (زیب و زینت) میں ہے۔(مسند الشہاب:۲؍۱۶)
علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ اہل حیا باوقار و باعظمت ہوتے ہیں، دیگر لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اوروہ خود اپنے آپ کی عزت کرتا ہے۔
۵۔ بروز قیامت امن کا راستہ ہوگا۔ نبی رحمتﷺ فرماتے ہیں ’’ سات لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۱۔امام عادل، ۲۔وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پرورش پاتا ہو، ۳ ۔ ایسا شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ۴۔ ایسے دو آدمی جو اللہ ہی کی خاطر متفق اور متفرق ہوں، ۵۔ ایسا شخص جس کو خوبصورت اور منصب والی عورت بلائے تو یہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، ۶۔ وہ آدمی جو صدقہ اس طرح کرے کہ اس کا دایاں جو خرچ کرے بائیں کو پتہ نہ چلے، ۷۔ وہ شخص جس کے سامنے اللہ کا ذکر ہو تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ (بخاری: ۱؍۲۳۴)
مذکورہ روایت میں حقیقی حیا و داخلی ایمان کی بابت کتنے اچھے انداز میں رسول ﷺ نے پیشین گوئی فرمادی کہ ایک خوبصورت اور منصب والی نیز مالدار عورت زنا کی دعوت دے، لیکن اس پر بھی انکار کرنا پکے مومن کی علامت ہے، ایسا شخص اللہ کے سائے میں اس دن ہوگا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۶۔ حیا جنت کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا راستہ ہے، برائی سنگ دلی کا نام ہے اور سنگ دلی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ (سنن ترمذی:۴؍۳۶۵)
رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں اخلاص کے ساتھ اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین۔***
No comments:
Post a Comment