تحریر: شیخ عبد الاحد عبد القدوس ایم،اے
ترجمہ: محمد عثمان رفیق، جامعۃ الملک سعود، ریاض
اپنے معاملات کی جلد بازی کی بنا پر وہ مجھ سے سلام کرنے میں پہل کر گیا ،اُسے اپنی بات پیش کرنے میں جلدی تھی ،نذرانۂ سلام پیش کرکے اس نے گفتگوشروع کی، جس کی وجہ سے وہ میرے پاس آیا تھا ،معاملے کی اہمیت وعظمت بیان کرتے ہوئے وہ گویا ہوا: کہ میں آپ سے ایک اہم اور توجہ طلب موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔
’’آپ اپنی بات بشکریہ پیش کیجیے ‘‘ میں نے کہا: میں آپ حضرات کے فائدہ کے لیے حاضر ہوا ہوں آپ مجھے اپنا خیر خواہ پائیں گے خاص طور پر حفاظت اور امانتداری میں ۔
’’آپ کی وہ قیام گاہ کہاں ہے ؟جہاں آپ تشریف فرماہیں ‘‘ اس نے دریافت کیا۔’’ وہ دیکھو فلاں گوشے میں‘‘میں نے اشارہ کرکے اسے بتایا۔
’’کیا رات آپ سکون کی نیند سو ئے ‘‘اس نے سوال کیا۔’’ہاں‘‘ ! میں نے جواب دیا ۔
’’کیا آپ کو خوشگوار نیند آئی...‘‘ میری مرادہے کہ کیا آپ کو کسی چیز نے حیرانی میں نہیں ڈالا؟
مجھے اس کے معمولی سوال سے نہایت تعجب ہوا ،جبکہ اس کے اس بہترین وضع قطع،خوبصورت پیرہن اور قد وقامت کو دیکھ کر میرا گمان تھا ،کہ کوئی ذی عقل اور ہوشیار شخص ہوگا ۔
میں اس کے اشارے کنایے اور ارادے کو نہ بھانپ سکا ، پھر بھی اپنے نفس کو ضبط کرتے ہوئے اس کے ہاں میں ہاں ملاتارہا۔ پھر میں نے کہا :’’میرے بھائی میں تھکن سے چور تھا، قیام گاہ کی نرم گدازی میرے نیند میں مزید مہمیز لگا دیا، یہاں تک اس نیند کے خمار کو صدائے موذن اور صبح کی سفیدی نے اتار دیا‘‘۔
’’میرا خیال تھا کہ شاید آپ اُس کمرے میں تشریف فرما ہیں، جو آپ کے قیام گاہ کے بغل میں ہے، جس میں ،میں کمپنی کے ملازمت کے ایام میں رہتا آیا تھا ‘‘۔
میں نے قدرے تعجب کہا!’’ بھئی : آپ چاہے جس میں رہے ہوں اس سے مجھے کیا لینا دینا، اس میں میرا کوئی فائدہ ہے نہ ہی نقصان ،جہاں تک میری بات ہے میں کسی بھی کمرے میں رہوں ،اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ،اس میں میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، میرا قیام بس دو رات کا ہے ایک گذر گئی ،اور دوسری باقی ہے کل میں یہاں سے رخصت ہوجاؤں گا ۔
’’اب وہ کہنے لگا :کہ شیخ میں جس کمرے کے بارے میں آپ سے گفتگو کررہا ہوں میرے ساتھ اس میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کے ساتھ یہ ناگفتہ بہ واقعہ پیش نہ آجائے‘‘۔
’’کیا آپ میرے بارے میں اندیشہ کرتے ہیں؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ میں آپ کا مقصد سمجھنے سے عاجز ہوں، کیا آپ اپنی بات کی وضاحت کرسکتے ہیں ؟‘‘ میں نے اس سے کہا ۔
کیوں نہیں شیخ ! اب وہ گھڑی آگئ ہے، کہ میں آپ سے اس نحوست زدہ کمرے کے بارے میں آگاہ کردوں ۔ اس سے میرا ارادہ ضیافت والا کمرہ نہیں . ہاں ضیافت والا کمرہ . وہ عجیب کمرہ جس کی دیواروں میں ڈراونے راز چھپے ہیں ۔
اب مجھے معاملے کی سنگینی اور مسئلہ کی نزاکت کا علم ہوا، اور جانا کہ یہ آدمی کوئی بکواس کررہا ہے اور نہ ہی کوئی مذاق ۔ میں نے کہا:’’ اے میرے بھائی اس کمرے کا واقعہ بیان کر، میں اس سیخوف زدہ ہو گیا ہوں ،اور اس کے جاننے کا خواہشمند ہوں‘‘۔
اُس نے بتانا شروع کیا ،اس کی نگاہیں آسمان کی جانب ٹکٹکی باندھے ہوئی تھیں ، ایک رات میں اس کمرے میں تنہا سویا ہوا تھا ، نصف شب کے بعد رات کے دو بج رہے تھے تقریباً فجر کے دو گھنٹہ پہلے کا وقت تھا ،کہ میری آنکھ کھل گئی ،میں دیکھتا ہوں کہ ایک کالا کلوٹا بدشکل آدمی میرے سامنے میرا ہاتھ تھامے ہوئے کھڑا ہے ،پہلے اپنے آپ کو جھٹلانے کی کوشش کی ،اور اپنی نظر کو خطاوار ٹھہرایا ،اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے لگا ،کہ میں حالت خواب میں ہوں بیداری میں نہیں ، اور یہ خواب حقیقت نہیں ہوسکتا ،اپنی انگلیوں سے آنکھوں کو ملا اور اپنے ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ لیا ،تاکہ میں نئے سرے سے دیکھوں. تو کیا ہی تعجب خیز اور ہولناک منظر دیکھتا ہوں جو خواب نہیں ،بلکہ بیدار ی میں میرے سامنے گھبرادینے والی صورت ہے، میرے آنکھوں کے سامنے سچ تھا ،وہم نہیں، لہذا اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا ۔
اللہ کی قسم اس وقت میں مکمل ہوش وحواس میں تھا ، اور وہ وحشی کالا کلوٹا آدمی میرے سامنے مجسمہ بنا تھا ، اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے میر ی طرف متوجہ تھا ، نہیں چھوڑ رہا تھا . اور میں اب تک اس بکھیرنے اور گھبرادینے والی صورت کو دیکھ رہاہوں ،جس سے دل لرزجائے، اور حواس باختہ ہوجائے۔ اور مجھے ابتک یاد ہے وہ کہہ رہا تھا، کہ میں تمہارے اشاروں کا مرہون منت ہوں ،اور تیرا داہنا بازو، جس بات پر چاہو مجھے مامور کرو ، جو چاہت ہے اشارہ کرو ،میں تمہاری خدمت میں حاضر ہوں ،جو تمہارامنشا ہے میرے ساتھ کرو ،جو بھی ارادہ ہے مجھ سے لے لو ۔
اس کی باتوں کو سن کر میں پاگل ہوا جارہا تھا ،گفتگو کو کاٹتے ہوئے میں نے کہا’’ سبحان اللہ سبحان اللہ یہ اس خبیث نے کیا کیا ، اور اس کے ساتھ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا‘‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ’’ میرا وجود لرز رہا تھا اور پسینہ بکثرت میرے رخسار سے بہنے لگا. اور مجھ پر حد درجہ خوف طاری ہوا، اور سانس نیچے اوپر ہونے لگے ،بہر حال میں نے اپنے نفس کو کنٹرول کیا اور اللہ کی عظمت وکبریائی بیان کرنے لگا ،جس کے سامنے مخلوقات کی ساری بڑائیاں کمتر ہیں، اور اس کے قوت کے سامنے دنیا کی تمام طاقت وقوت ہیچ ہے ‘‘۔ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر میں لگ گیا، اور مجھے کوئی چیز اللہ کے ذکر سے دور نہ کرسکی ، میرے زبان ودل کو توانائی مل گئی، وہ اللہ کے ذکر سے تھرااٹھا،اور اللہ کی عظمت سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، اور میرے اعضاء پر جوخوف طاری ہوا تھا ، اللہ کے ذکر سے جاتا رہا ۔ میں نے اللہ کی عظمت کو پہچان لیا ،اور اس کی سرگوشی کی لذت سے محظوظ ہوا، اور اس خوفناک وبھیانک کمرے میں جورات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ، اُن وظائف کا ورد کرنے لگا، جو مجھے یاد تھے ،جبکہ میرے بغل کوئی تھا ،اور نہ ہی میرے کمرے کے ارد گرد، میرا اللہ پربھروسہ تھا، کیونکہ وہ بہترین مدد کرنے والا و مشکل کشا وپریشان حال کی پکار سننے والا ہے ۔
’’وہ اذکار ووظائف جس کو میں برابر پڑھتا رہا، وہ آیت الکرسی و معوذات ( قل أعوذ برب الناس وقل أعوذ برب الفلق) ہیں ،اورمیں نے اس منحوس وبھیانک کالے کلوٹے آدمی کے چہرے سے اپنا چہرہ پھیر لیا ،اور برابر دعاء واذکار میں لگا رہا ، یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ اس کا ناپاک ہاتھ میرے ہاتھ سے دھیرے دھیرے چھوٹ گیا ،اور اس سے میرا تعلق ختم ہوگیا، اوروہ میری نظروں سے اُوجھل ہوگیا‘‘۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا تمہارے کمرے میں ٹیلیویژن تھا ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا،پھر میں نے اس سے کہا کہ کیا تم عریاں وگندی فلمیں دیکھتے تھے ؟ ۔
میرے اس سوال سے وہ متذبذب اور نہایت حیرت میں پڑگیا، اُس سے کچھ جواب نہ بن سکا، لیکن اس کے اس اندازے سے ایک دوسری چیز کا پتہ لگا جس کو وہ چھپانا چاہتا تھا ، اور وہ ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا تھا، لیکن ندامت وشرمندگی سے اس کا سر جھک گیا، پھر گویا ہوا کہ حقیقت میں شیخ معاملہ ایسا ہی ہے؛ کہ کچھ نوجوان میرے کمرے میں آتے تھے، اور پوری رات نہایت گندی و بیہودہ فلمیں دیکھتے تھے۔ میں نے کہا: اسی وجہ سے شیطان تمہارے پاس آیا تھا۔*اللہ تعالی کا فرمان : ( ھل أنبئکم علی من تنزل الشیاطین ، تنزل علی کل أفاک أثیم )
ترجمہ : کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ (سورہ شعراء آیت :۱۲۲،۲۲۲)۔
اور جو بھی اس قسم کی اخلاقی گراوٹ ،گھٹیا، بیہودہ اور عریاں فلمیں جو کہ ا نسانی فطرت کے خلاف ہیں، کا مشاہدہ کرتے ہیں،ان کے پاس شیطان حاضر ہوتا ہے، پھر میں نے اس کو اس سے مشابہ ایک قصہ سنایا ،جسے میں بچپن میں اپنے محلہ کی ایک شادی شدہ عورت کے بارے میں سنا تھا، اس کی حالت یہ تھی کہ وہ اس قسم کی فلمیں دیکھنے کی عاشق تھی ۔
ایک رات ایسا ہوا کہ وہ تن تنہا خالی الذہن گھر میں بیٹھی تھی، اور گھر کے سارے دروازے بند ، اور اندر گھسنے کے سارے راستے مسدود تھے، اس کے باوجودایک جنی شیطان انسانی صورت میں اس کے پاس آیا ،اور اس کے ساتھ جسمانی تعلقات (زنا ) قائم کیا* اور یہ قصہ پڑوس کی ساری عورتوں میں مشہور ہوگیا.
ہم اللہ تعالی سے عافیت کے طالب ہیں، اور اس کی پناہ چاہتے ہیں ،شیطان کے وسو سے ، اوراس کی حاضری سے ۔
***
ترجمہ: محمد عثمان رفیق، جامعۃ الملک سعود، ریاض
شیطان والی رات
سفر کی طوالت وصعوبت کی بنا پر میں تھکن سے چور ہوگیا تھا، رات لیٹتے ہی مجھے گہری نیند آگء، فجر کے بعد دینی باتیں ذکر کرکے جوں ہی میں مسجد سے نکل کر اپنے اُس قیام گاہ کی جانب بڑھنے لگا ،جوبحر احمر کی ساحل پرکمپنی نے میری ضیافت کے لیے منتخب کیا تھا،کہ اچانک ایک نوجوان میری راہ میں حائل ہوا... اب وہ میرے رو برو کھڑا تھا ، خوف و ہراس کی علامتیں جس کی پیشانی پر صاف ظاہر تھیں ۔ اپنے معاملات کی جلد بازی کی بنا پر وہ مجھ سے سلام کرنے میں پہل کر گیا ،اُسے اپنی بات پیش کرنے میں جلدی تھی ،نذرانۂ سلام پیش کرکے اس نے گفتگوشروع کی، جس کی وجہ سے وہ میرے پاس آیا تھا ،معاملے کی اہمیت وعظمت بیان کرتے ہوئے وہ گویا ہوا: کہ میں آپ سے ایک اہم اور توجہ طلب موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔
’’آپ اپنی بات بشکریہ پیش کیجیے ‘‘ میں نے کہا: میں آپ حضرات کے فائدہ کے لیے حاضر ہوا ہوں آپ مجھے اپنا خیر خواہ پائیں گے خاص طور پر حفاظت اور امانتداری میں ۔
’’آپ کی وہ قیام گاہ کہاں ہے ؟جہاں آپ تشریف فرماہیں ‘‘ اس نے دریافت کیا۔’’ وہ دیکھو فلاں گوشے میں‘‘میں نے اشارہ کرکے اسے بتایا۔
’’کیا رات آپ سکون کی نیند سو ئے ‘‘اس نے سوال کیا۔’’ہاں‘‘ ! میں نے جواب دیا ۔
’’کیا آپ کو خوشگوار نیند آئی...‘‘ میری مرادہے کہ کیا آپ کو کسی چیز نے حیرانی میں نہیں ڈالا؟
مجھے اس کے معمولی سوال سے نہایت تعجب ہوا ،جبکہ اس کے اس بہترین وضع قطع،خوبصورت پیرہن اور قد وقامت کو دیکھ کر میرا گمان تھا ،کہ کوئی ذی عقل اور ہوشیار شخص ہوگا ۔
میں اس کے اشارے کنایے اور ارادے کو نہ بھانپ سکا ، پھر بھی اپنے نفس کو ضبط کرتے ہوئے اس کے ہاں میں ہاں ملاتارہا۔ پھر میں نے کہا :’’میرے بھائی میں تھکن سے چور تھا، قیام گاہ کی نرم گدازی میرے نیند میں مزید مہمیز لگا دیا، یہاں تک اس نیند کے خمار کو صدائے موذن اور صبح کی سفیدی نے اتار دیا‘‘۔
’’میرا خیال تھا کہ شاید آپ اُس کمرے میں تشریف فرما ہیں، جو آپ کے قیام گاہ کے بغل میں ہے، جس میں ،میں کمپنی کے ملازمت کے ایام میں رہتا آیا تھا ‘‘۔
میں نے قدرے تعجب کہا!’’ بھئی : آپ چاہے جس میں رہے ہوں اس سے مجھے کیا لینا دینا، اس میں میرا کوئی فائدہ ہے نہ ہی نقصان ،جہاں تک میری بات ہے میں کسی بھی کمرے میں رہوں ،اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ،اس میں میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، میرا قیام بس دو رات کا ہے ایک گذر گئی ،اور دوسری باقی ہے کل میں یہاں سے رخصت ہوجاؤں گا ۔
’’اب وہ کہنے لگا :کہ شیخ میں جس کمرے کے بارے میں آپ سے گفتگو کررہا ہوں میرے ساتھ اس میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کے ساتھ یہ ناگفتہ بہ واقعہ پیش نہ آجائے‘‘۔
’’کیا آپ میرے بارے میں اندیشہ کرتے ہیں؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ میں آپ کا مقصد سمجھنے سے عاجز ہوں، کیا آپ اپنی بات کی وضاحت کرسکتے ہیں ؟‘‘ میں نے اس سے کہا ۔
کیوں نہیں شیخ ! اب وہ گھڑی آگئ ہے، کہ میں آپ سے اس نحوست زدہ کمرے کے بارے میں آگاہ کردوں ۔ اس سے میرا ارادہ ضیافت والا کمرہ نہیں . ہاں ضیافت والا کمرہ . وہ عجیب کمرہ جس کی دیواروں میں ڈراونے راز چھپے ہیں ۔
اب مجھے معاملے کی سنگینی اور مسئلہ کی نزاکت کا علم ہوا، اور جانا کہ یہ آدمی کوئی بکواس کررہا ہے اور نہ ہی کوئی مذاق ۔ میں نے کہا:’’ اے میرے بھائی اس کمرے کا واقعہ بیان کر، میں اس سیخوف زدہ ہو گیا ہوں ،اور اس کے جاننے کا خواہشمند ہوں‘‘۔
اُس نے بتانا شروع کیا ،اس کی نگاہیں آسمان کی جانب ٹکٹکی باندھے ہوئی تھیں ، ایک رات میں اس کمرے میں تنہا سویا ہوا تھا ، نصف شب کے بعد رات کے دو بج رہے تھے تقریباً فجر کے دو گھنٹہ پہلے کا وقت تھا ،کہ میری آنکھ کھل گئی ،میں دیکھتا ہوں کہ ایک کالا کلوٹا بدشکل آدمی میرے سامنے میرا ہاتھ تھامے ہوئے کھڑا ہے ،پہلے اپنے آپ کو جھٹلانے کی کوشش کی ،اور اپنی نظر کو خطاوار ٹھہرایا ،اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے لگا ،کہ میں حالت خواب میں ہوں بیداری میں نہیں ، اور یہ خواب حقیقت نہیں ہوسکتا ،اپنی انگلیوں سے آنکھوں کو ملا اور اپنے ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ لیا ،تاکہ میں نئے سرے سے دیکھوں. تو کیا ہی تعجب خیز اور ہولناک منظر دیکھتا ہوں جو خواب نہیں ،بلکہ بیدار ی میں میرے سامنے گھبرادینے والی صورت ہے، میرے آنکھوں کے سامنے سچ تھا ،وہم نہیں، لہذا اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا ۔
اللہ کی قسم اس وقت میں مکمل ہوش وحواس میں تھا ، اور وہ وحشی کالا کلوٹا آدمی میرے سامنے مجسمہ بنا تھا ، اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے میر ی طرف متوجہ تھا ، نہیں چھوڑ رہا تھا . اور میں اب تک اس بکھیرنے اور گھبرادینے والی صورت کو دیکھ رہاہوں ،جس سے دل لرزجائے، اور حواس باختہ ہوجائے۔ اور مجھے ابتک یاد ہے وہ کہہ رہا تھا، کہ میں تمہارے اشاروں کا مرہون منت ہوں ،اور تیرا داہنا بازو، جس بات پر چاہو مجھے مامور کرو ، جو چاہت ہے اشارہ کرو ،میں تمہاری خدمت میں حاضر ہوں ،جو تمہارامنشا ہے میرے ساتھ کرو ،جو بھی ارادہ ہے مجھ سے لے لو ۔
اس کی باتوں کو سن کر میں پاگل ہوا جارہا تھا ،گفتگو کو کاٹتے ہوئے میں نے کہا’’ سبحان اللہ سبحان اللہ یہ اس خبیث نے کیا کیا ، اور اس کے ساتھ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا‘‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ’’ میرا وجود لرز رہا تھا اور پسینہ بکثرت میرے رخسار سے بہنے لگا. اور مجھ پر حد درجہ خوف طاری ہوا، اور سانس نیچے اوپر ہونے لگے ،بہر حال میں نے اپنے نفس کو کنٹرول کیا اور اللہ کی عظمت وکبریائی بیان کرنے لگا ،جس کے سامنے مخلوقات کی ساری بڑائیاں کمتر ہیں، اور اس کے قوت کے سامنے دنیا کی تمام طاقت وقوت ہیچ ہے ‘‘۔ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر میں لگ گیا، اور مجھے کوئی چیز اللہ کے ذکر سے دور نہ کرسکی ، میرے زبان ودل کو توانائی مل گئی، وہ اللہ کے ذکر سے تھرااٹھا،اور اللہ کی عظمت سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، اور میرے اعضاء پر جوخوف طاری ہوا تھا ، اللہ کے ذکر سے جاتا رہا ۔ میں نے اللہ کی عظمت کو پہچان لیا ،اور اس کی سرگوشی کی لذت سے محظوظ ہوا، اور اس خوفناک وبھیانک کمرے میں جورات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ، اُن وظائف کا ورد کرنے لگا، جو مجھے یاد تھے ،جبکہ میرے بغل کوئی تھا ،اور نہ ہی میرے کمرے کے ارد گرد، میرا اللہ پربھروسہ تھا، کیونکہ وہ بہترین مدد کرنے والا و مشکل کشا وپریشان حال کی پکار سننے والا ہے ۔
’’وہ اذکار ووظائف جس کو میں برابر پڑھتا رہا، وہ آیت الکرسی و معوذات ( قل أعوذ برب الناس وقل أعوذ برب الفلق) ہیں ،اورمیں نے اس منحوس وبھیانک کالے کلوٹے آدمی کے چہرے سے اپنا چہرہ پھیر لیا ،اور برابر دعاء واذکار میں لگا رہا ، یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ اس کا ناپاک ہاتھ میرے ہاتھ سے دھیرے دھیرے چھوٹ گیا ،اور اس سے میرا تعلق ختم ہوگیا، اوروہ میری نظروں سے اُوجھل ہوگیا‘‘۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا تمہارے کمرے میں ٹیلیویژن تھا ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا،پھر میں نے اس سے کہا کہ کیا تم عریاں وگندی فلمیں دیکھتے تھے ؟ ۔
میرے اس سوال سے وہ متذبذب اور نہایت حیرت میں پڑگیا، اُس سے کچھ جواب نہ بن سکا، لیکن اس کے اس اندازے سے ایک دوسری چیز کا پتہ لگا جس کو وہ چھپانا چاہتا تھا ، اور وہ ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا تھا، لیکن ندامت وشرمندگی سے اس کا سر جھک گیا، پھر گویا ہوا کہ حقیقت میں شیخ معاملہ ایسا ہی ہے؛ کہ کچھ نوجوان میرے کمرے میں آتے تھے، اور پوری رات نہایت گندی و بیہودہ فلمیں دیکھتے تھے۔ میں نے کہا: اسی وجہ سے شیطان تمہارے پاس آیا تھا۔*اللہ تعالی کا فرمان : ( ھل أنبئکم علی من تنزل الشیاطین ، تنزل علی کل أفاک أثیم )
ترجمہ : کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ (سورہ شعراء آیت :۱۲۲،۲۲۲)۔
اور جو بھی اس قسم کی اخلاقی گراوٹ ،گھٹیا، بیہودہ اور عریاں فلمیں جو کہ ا نسانی فطرت کے خلاف ہیں، کا مشاہدہ کرتے ہیں،ان کے پاس شیطان حاضر ہوتا ہے، پھر میں نے اس کو اس سے مشابہ ایک قصہ سنایا ،جسے میں بچپن میں اپنے محلہ کی ایک شادی شدہ عورت کے بارے میں سنا تھا، اس کی حالت یہ تھی کہ وہ اس قسم کی فلمیں دیکھنے کی عاشق تھی ۔
ایک رات ایسا ہوا کہ وہ تن تنہا خالی الذہن گھر میں بیٹھی تھی، اور گھر کے سارے دروازے بند ، اور اندر گھسنے کے سارے راستے مسدود تھے، اس کے باوجودایک جنی شیطان انسانی صورت میں اس کے پاس آیا ،اور اس کے ساتھ جسمانی تعلقات (زنا ) قائم کیا* اور یہ قصہ پڑوس کی ساری عورتوں میں مشہور ہوگیا.
ہم اللہ تعالی سے عافیت کے طالب ہیں، اور اس کی پناہ چاہتے ہیں ،شیطان کے وسو سے ، اوراس کی حاضری سے ۔
***
No comments:
Post a Comment