Friday, 30 July 2010
الکتاب الحکمۃ jun-jul 2010
الکتاب
(وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنیٰ دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجٍعُوْنَ. وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہِ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا، اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ )ترجمہ: بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں۔ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر اس نے ان سے منہ پھیر لیا،(یقین مانو) کہ ہم بھی گنہگاروں سے انتقام لینے والے ہیں۔
تشریح: ۔عذاب ادنیٰ (چھوٹے سے یا قریب کے بعض عذاب) سے دنیا کا عذاب یا دنیا کی مصیبتیں اور بیماریاں وغیرہ مراد ہیں، بعض کے نزدیک وہ قتل اس سے مراد ہے جس سے جنگ بدر میں کافر دو چار ہوئے یا وہ قحط سالی ہے جو اہل مکہ پر مسلط کی گئی تھی، امام شوکانی فرماتے ہیں تمام صورتیں ہی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔
یہ آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب بھیجنے کی علت ہے کہ شاید وہ کفر و شرک اور معصیت سے باز آجائیں۔ یعنی اللہ کی آیتیں سن کر جو ایمان و اطاعت کی موجب ہیں ، جو شخص ان سے اعراض کرتا ہے، اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ یعنی سب سے بڑا ظالم ہے۔
(تفسیر احسن البیان)
الحکمۃ
(وعن أبی سعید الخدریِّ رضی اللّٰہُ عنہ قال: کانَ النَّبیُّ ﷺ یَقُولُ:’’ إذا وُضِعَتِ الجَنَازَۃُ، فاحتَمَلَھَا الرِّجالُ علی أعْنَاقِھِمْ، فإنْ کانَتْ صالحۃً قالتْ: قَدِّمُوْنی، وإنْ کانتْ غیرَ صالحۃٍ قالت لأھلھا: یَا وَیْلَھا! أینَ تَذْھَبُوْنَ بِھَا، یَسْمَعُ صَوْتَھا کُلُّ شئیٍ إلاَّ الإنسانَ، وَلَوْ سمعَ الإنْساَنُ لَصَعِقَ‘‘ (رواہ البخاری)ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھالیتے ہیں پس اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے آگے لے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو لوگوں سے کہتا ہے ہائے ہلاکت! تم اسے کہاں لے جارہے ہو، اس کی آواز انسان کے سوا ہر چیز سنتی ہے اور اگر انسان سن لے تو یقیناًبے ہوش ہوجائے۔
تشریح: میت کس طرح بولتی ہے؟ اس کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے، تاہم اس کا بولنا ممکن نہیں ہے، اللہ تعالیٰ جسے بلوانا چاہے، بلواسکتا ہے مردے کا یہ بولنا صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، لیکن اس سے میت کا عام گفتگو کرنا یا گفتگو سننا اور آنا جانا یا دنیا والوں کی ضروریات پوری کرنا یا مشکلات آسان کرنا وغیرہ ثابت نہیں ہوتا ہے، افسوس کچھ لوگ اس قسم کی احادیث سے اس طرح کی باتیں کشید کرتے ہیں اور اسے عقیدۂ اہل سنت مشتہر کرتے ہیں ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اتباع حق کی توفیق دے۔ آمین۔
(دلیل الطالبین)
ہماری ملی ضرورت اتحاد کا خورشید جہاں تاب Editorial jun-jul 2010
شعور و آگہی
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
ہماری ملی ضرورت
اتحاد کا خورشید جہاں تاب
اتحاد کا خورشید جہاں تاب
گذشتہ دنوں ملکی حالات کچھ عجیب بے جہت سے رہے،اندازہ لگانا مشکل تھا، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، تمام سیاسی جماعتیں دستور نو کے حوالے سے بے یقینی کا شکار رہیں، وزیر اعظم کے استعفاء کا مطالبہ ہوتا رہا، پارلیمنٹ کی کاروائی موقوف کردی گئی، خواتین بھی سرگرم عمل رہیں، ایوان میں ان کی نعرہ بازی نے بڑی مضحکہ خیز صورت پید اکر رکھی تھی۔
بالآخر طے پایا کہ دستور کی تکمیل و تشکیل کے لئے ایک سال کی مدت بڑھادی جائے، ہنگامے کچھ سرد پڑے، مگر استعفاء کی مانگ جاری رہی، یہ ایک طرح سے سرد جنگ تھی۔
اب وزیر اعظم اپنا استعفاء پیش کرچکے ہیں، جملہ سیاسی احزاب باہمی گفت وشنید کے ذریعہ اقتدار کی لیلائے نازک بدن سے ہم آغوشی کی چاہ میں بے قرار ہیں، اضطراب کی یہ وہ کیفیت ہے، جو جہاں بھی پیدا ہوگی، ترقی کی رفتار رک جائے گی، عوام مایوسی سے دوچار ہوں گے، ملکی معیشت کو گھن لگ جائے گا اور امن وامان کے لب پر ایک پھیکی مسکراہٹ پھیلتی چلی جائے گی، جو ہر شہری کو مضطرب رکھنے کے لئے کافی ہے۔
نئے دستور کی تشکیل کی مدت دو برس تھی، جس کے لئے ۶۰۱؍ارکان پر مشتمل جہازی سائز کا ایوان بنا ہوا تھا، مگر مقررہ مدت میں دستور بنانے میں یہ ایوان ناکام رہا، پارلیمان کے قیمتی لمحات لایعنی اورفضول ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہوتے رہے، قومی سرمائے کا یہ زیاں حساس اہل وطن کے لئے بے حد اذیت ناک تھا۔
سیاست داں مزے اڑاتے رہے، وہ قوم کی فکر سے بے نیاز اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کوشاں رہے، دیکھتے دیکھتے دو سال کے گراں قدر صبح و شام یوں ہی گزر گئے، بے بس شہری خالی ہاتھ رہ گیا، اب اسے ایک سال کے غم انگیز روز و شب مزید برداشت کرنے پڑیں گے۔
اب تک دستور میں جو دفعات جگہ پاچکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ سب ہمارے لئے بہت خوش کن ہوں، ہر طبقہ اتحاد اور جہد مسلسل کے ذریعے بہت کچھ پانے کی امید میں ہے، مگر ایک ہم ہیں جو ابھی تک اتحاد کی اہمیت سے واقف ہی نہ ہوسکے، تگ و دو بہت ہوئی، تنظیمیں کئی ایک وجود میں آئیں، سب نے اپنی توانائی صرف کی، اخراجات بھی ہوئے، سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر ان جہود و مساعی کے مقابلے میں جو حصولیابی ہوئی، وہ دلوں کے خوش اور مطمئن ہونے کے لئے ناکافی ہے، دراصل مسئلہ وہی پرانا ہے:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
بکھرے ہوئے تاروں اور جگنووں کی چمک سے اندھیرے کافور نہیں ہوتے، اس کے لئے ایک خورشید جہاں تاب کی ضرورت ہوتی ہے، آج ہمیں اتحاد کے ذریعے ایک ایسا ہی آفتاب تازہ پیدا کرنا ہے، جس سے بے جہتی کا اندھیرا چھٹ جائے، بے یقینی کی سیاہی مٹ جائے اور ہمیں ہمارے حقوق کی ضمانت کی وہ روشنی حاصل ہو، جس سے شاہراہ حیات پہ چلنا سہل ہوجائے، تاریکیاں ہماری پیش قدمی میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی دنیا کے بزر چمہر یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اتحاد و اتفاق کی روشنی والی اس اقلیت کو ساتھ لئے بغیر ان کے گہرے اندھیرے دور نہیں ہو پائیں گے اور اقتدار سے دوری ان کا مقدر بن جائے گی۔پھر وہ خود ہی ہمارے حقوق کے لئے کوشاں نظر آئیں گے۔
بالآخر طے پایا کہ دستور کی تکمیل و تشکیل کے لئے ایک سال کی مدت بڑھادی جائے، ہنگامے کچھ سرد پڑے، مگر استعفاء کی مانگ جاری رہی، یہ ایک طرح سے سرد جنگ تھی۔
اب وزیر اعظم اپنا استعفاء پیش کرچکے ہیں، جملہ سیاسی احزاب باہمی گفت وشنید کے ذریعہ اقتدار کی لیلائے نازک بدن سے ہم آغوشی کی چاہ میں بے قرار ہیں، اضطراب کی یہ وہ کیفیت ہے، جو جہاں بھی پیدا ہوگی، ترقی کی رفتار رک جائے گی، عوام مایوسی سے دوچار ہوں گے، ملکی معیشت کو گھن لگ جائے گا اور امن وامان کے لب پر ایک پھیکی مسکراہٹ پھیلتی چلی جائے گی، جو ہر شہری کو مضطرب رکھنے کے لئے کافی ہے۔
نئے دستور کی تشکیل کی مدت دو برس تھی، جس کے لئے ۶۰۱؍ارکان پر مشتمل جہازی سائز کا ایوان بنا ہوا تھا، مگر مقررہ مدت میں دستور بنانے میں یہ ایوان ناکام رہا، پارلیمان کے قیمتی لمحات لایعنی اورفضول ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہوتے رہے، قومی سرمائے کا یہ زیاں حساس اہل وطن کے لئے بے حد اذیت ناک تھا۔
سیاست داں مزے اڑاتے رہے، وہ قوم کی فکر سے بے نیاز اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کوشاں رہے، دیکھتے دیکھتے دو سال کے گراں قدر صبح و شام یوں ہی گزر گئے، بے بس شہری خالی ہاتھ رہ گیا، اب اسے ایک سال کے غم انگیز روز و شب مزید برداشت کرنے پڑیں گے۔
اب تک دستور میں جو دفعات جگہ پاچکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ سب ہمارے لئے بہت خوش کن ہوں، ہر طبقہ اتحاد اور جہد مسلسل کے ذریعے بہت کچھ پانے کی امید میں ہے، مگر ایک ہم ہیں جو ابھی تک اتحاد کی اہمیت سے واقف ہی نہ ہوسکے، تگ و دو بہت ہوئی، تنظیمیں کئی ایک وجود میں آئیں، سب نے اپنی توانائی صرف کی، اخراجات بھی ہوئے، سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر ان جہود و مساعی کے مقابلے میں جو حصولیابی ہوئی، وہ دلوں کے خوش اور مطمئن ہونے کے لئے ناکافی ہے، دراصل مسئلہ وہی پرانا ہے:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
بکھرے ہوئے تاروں اور جگنووں کی چمک سے اندھیرے کافور نہیں ہوتے، اس کے لئے ایک خورشید جہاں تاب کی ضرورت ہوتی ہے، آج ہمیں اتحاد کے ذریعے ایک ایسا ہی آفتاب تازہ پیدا کرنا ہے، جس سے بے جہتی کا اندھیرا چھٹ جائے، بے یقینی کی سیاہی مٹ جائے اور ہمیں ہمارے حقوق کی ضمانت کی وہ روشنی حاصل ہو، جس سے شاہراہ حیات پہ چلنا سہل ہوجائے، تاریکیاں ہماری پیش قدمی میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی دنیا کے بزر چمہر یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اتحاد و اتفاق کی روشنی والی اس اقلیت کو ساتھ لئے بغیر ان کے گہرے اندھیرے دور نہیں ہو پائیں گے اور اقتدار سے دوری ان کا مقدر بن جائے گی۔پھر وہ خود ہی ہمارے حقوق کے لئے کوشاں نظر آئیں گے۔
سسکتی انسانیت کا مداوا jun-jul 2010
مولانا محمد مظہر اعظمی
سسکتی انسانیت کا مداوا
پوری دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے اور اس سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے روز بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار ہورہے ہیں جہاں انسانیت کا درد رکھنے والے کہنہ مشق ماہرین اکٹھا ہوتے ہیں اور علاج اور اس کی تدبیر کی تلاش میں دل سوزی اور عرق ریزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، دنیا ان کے مظاہرے کا مشاہدہ کرتی ہے اور ایک موہوم سی امید کے ساتھ کانفرنس اپنے اختتام کو پہونچتی ہے۔
کانفرنس کے اختتام کے بعد ایک طرف پاس شدہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں اور اس میں آنے والے اخراجات کے لئے بڑے سے بڑا فنڈ اکٹھا کیا جاتا اور دوسری طرف عوام اس شخص کی طرح کامیابی کی امید لگاتے ہیں جیسے کسی مریض نے عدم شفایابی کی صورت میں ڈاکٹر بدل کر شفایابی کی امید لگا رکھی ہو، مگر کانفرنس اور اس کی تجاویز کا انجام حسب سابق ہی ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مرض بڑھ جاتا ہے اور مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی
اگر یہ کہا جائے کہ اب تک کی تمام کانفرنسیں جو سسکتی انسانیت کے لئے منعقد ہوئی تھیں فیل اور ان میں پاس ہونے والی تمام تجاویز ناکام ہوگئیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ جو صورت حال پہلے تھی اور جن مسائل سے دنیا دوچار تھی ان میں کوئی اور کسی طرح کی تبدیلی اب تک رونما نہیں ہوئی ہے اور اگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو مستقبل جس قدر تاریک ہوگا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مذکورہ مسلسل ناکامیوں کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں انسانیت کے لئے درد ہے اور وہ واقعی مداوا چاہتے ہیں تو اب اس موضوع پر کانفرنس کریں اور سرجوڑ کر بیٹھیں کہ ہماری تمام تجاویزکیوں فیل ہوجاتی ہیں اور اس کے ثمرات و نتائج خاطر خواہ کیوں نہیں برآمد ہوتے ؟ ہماری نیت میں کھوٹ ہے یا تشخیص میں کوئی غلطی ہورہی ہے؟
نیت کا تعلق آدمی کے دل سے ہوتا ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے نیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے البتہ کردار و عمل کی روشنی میں رائے قائم کی جاسکتی مگر اس رائے کے قائم کرنے میں غلطی تو ہوہی سکتی ہے، قوم اور انسانیت کے لئے جو کچھ ہوتا ہے اس سے بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ نیت میں اخلاص کی کمی کی وجہ سے نتائج و ثمرات امید اور توقع کے مطابق نہیں ہوتے۔
دوسرا پہلو تشخیص کی غلطی کا ہے، جس کے متعلق مشاہدات و تجربات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سسکتی ہوئی انسانیت کے مرض کی تشخیص صحیح نہیں ہورہی ہے، اگر صحیح ہوتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ علاج موثر ہونے کے بجائے مرض میں اضافہ ہوتا۔ اور جب یہ متحقق ہے کہ تشخیص کی غلطی صحت و شفا میں مانع ہے تو کیوں نہ صحیح تشخیص پر توجہ دی جائے اور نیک نیتی کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا جائے۔
انسانیت سسک رہی ہے یہ مسلم ہے کیونکہ جان، مال اور آبرو جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں، اگر آج ان تینوں چیزوں کو تحفظ مہیا کیا جائے تو جہاں سے کراہنے اور سسکنے کی آواز آرہی ہے ابھی وہیں سے خوشی اور مسرت کے شادیانے سننے میں آئیں گے، جب اصل مرض یہ ہے جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں تو کیوں نہ ان کو تحفظ مہیا کرایا جائے اور تحفظ کے لئے تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے کہ جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کا مداوا کیسے اور کس طرح اور کہاں سے حاصل کیا گیا۔
مادی ترقی اور ظاہری چم وخم کو چھوڑ کر اگر بنظر غائر انسانیت کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ڈیڑھ ہزار سال پہلے کھڑے تھے، صورت حال میں کوئی فرق نہیں، طاقت و قوت کا راج تب بھی تھا اور اب بھی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو بالادستی تب بھی حاصل تھی اور اب بھی حاصل ہے، گھر کے اندر اور گھر کے باہر جان و مال اور عزت و آبرو تب بھی محفوظ نہیں تھا اور اب بھی محفوظ نہیں ہے مگر ہم ہیں کہ سیاروں پر کمندیں ڈال کر خلا میں پرواز کرکے مگن ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے سب کچھ حاصل کرلیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم انسانیت کو تحفظ نہ دے سکے تو گویا ہم نے بہت کچھ حاصل کرکے بھی کچھ نہیں پایا۔
جان و مال اور عزت و آبرو کو جس طرح ڈیڑھ ہزار سال پہلے سے تحفظ درکار تھا اسی طرح آج بھی درکار ہے اور جن اصولوں کے سایہ میں تب تحفظ ملا تھا اسی میں آج میں ملنا ہے، کیونکہ مذکورہ تمام چیزیں آج بھی اپنی اسی اصل پر ہیں جس پر پہلے تھیں مگر افسوس کہ کچھ انسانیت کے دشمنوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس وقت کے جو اصول و ضوابط تھے وہ اس وقت کی غیر مہذب اور غیر متمدن قوم کے لحاظ سے وضع کئے گئے تھے آج کا مہذب انسان اس اصولوں کا متحمل نہیں ہے، ا ن کے لئے آج کے حالات اور زمان ومکان کو سامنے رکھ کر قانون و ضع کیا جائے گا تو بہتر اور موثر ہوگا۔
جان کی قیمت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، سیم و زر تب بھی معیار تھے اور آج بھی معیار ہیں کسی کی عزت وآبرو سے کھیلنا اس وقت بھی گناہ تھا اور آج بھی گناہ ہے، جب یہ تمام چیزیں اپنی اصل پر ہیں تو پھر کیوں اصول بدل جائے گا؟ کل ایک شخص پراگندہ حال اور پراگندہ بال اپنے ہاتھ میں کنداور زنگ آلود تلوار لے کر آتا اور قتل کردیتا تھا تو وہ قتل کے عوض قتل کئے جانے کا مستحق ہے کیونکہ وہ اپنی شکل و صورت اور ہیئت سے غیر مہذب اور غیر سنجیدہ بلکہ الٹھر دکھلائی دیتا ہے اور آج ایک شخص عمدہ قسم کی گاڑی میں سوار ہوکر آتا ہے، سراپا لباس فاخرہ میں ملبوس ہے اور ہاتھ میں قیمتی آتشی ہتھیار ہے کسی کا قتل کرتا ہے اور شان سے فضا میں فائرنگ کرتا ہوا فرار ہوجاتا ہے، تو کیا ایسا شخص قتل کا مستحق نہیں کیونکہ بڑا مہذب اور باوقار معلوم ہورہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزائیں جرم کے لحاظ سے ہوتی ہیں مجرم کی وضع قطع اور لباس کے لحاظ سے نہیں اس لئے قتل کا مستحق وہ بھی ہے جو پراگندہ حال، کند اور زنگ آلود تلوار سے گردن مارتا ہے اور وہ شخص بھی قتل کا مستحق ہے جو لباس فاخرہ میں ملبوس آتشی ہتھیار سے قتل کرتا ہے کیونکہ قتل دونوں نے کیا ہے، اگرچہ دونوں کا طریقہ کا ر الگ الگ تھا، اس لئے قتل تو دونوں کئے جائیں گے ہاں دونوں کے قتل کا طریقہ کار الگ الگ تھا اس لئے دونوں مجرموں کے قتل کے لئے بھی طریقہ الگ الگ اختیار کیا جاسکتا ایک کو مہذب انداز میں آتشی ہتھیار سے دوسرے کو غیر مہذب انداز میں کند تلوار سے مگر قتل دونوں کا ہوگا۔
جس طرح جان کے تحفظ کا معاملہ ہے اسی طرح مال ودولت اور عزت و آبرو کا بھی ہے ، ان تمام چیزوں کا تحفظ ہر شخص ہر حال میں چاہتا ہے وہ مہذب ہو یا غیر مہذب، جاہل ہو یا عالم اس لئے مذہب اسلام نے ان کے تحفظ کے لئے مستحکم اور مضبوط قانون و اصول عنایت کیا ہے، جس کے سایہ میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی انسانیت کو سکون و اطمینان ملاتھا آج بھی اسی میں ممکن ہے، اس لئے انسانیت کے لئے آنسو بہانے والوں اور کانفرنس کرنے والوں کو چاہئے کہ ایک مرتبہ اسے بھی عملی جامہ پہنا کر دیکھیں کہ کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اور سسکتی ہوئی انسانیت کا کس قدر مداوا ہوپاتا ہے، بلکہ مناسب تو ہوگا کہ ان ملکوں کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھیں جہاں یہ قوانین جزوی طور پر نافذ ہیں کہ وہاں جرائم کی کیا رفتار ہے، جن جرائم سے انسانیت بلک رہی ہے اور ان مہذب ملکوں میں کیا رفتار ہے جن کو اپنی تہذیب و تمدن، کلچر اور ترقی پر ناز ہے۔
اس تہذیب و تمدن کا کیا مطلب،اس کلچر کی کیا حیثیت اور اس ترقی کا کیا مفہوم اور فائدہ جس میں گھر باہر کہیں بھی سکون میسر نہیں ہے، ہر شخص ہر وقت مکمل ذہنی تناؤ میں رہتا ہو اگرچہ آسائش کے تمام تر لوازمات موجود ہوں، اس لئے انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کو چاہئے کہ بجائے مگرمچھ کا آنسو بہانے کے ان اصولوں کو اپنائیں جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں، اگر مذہب کے نام پر اپنانے میں شرم آرہی ہو تو قانون کے نام پر ہی سہی کیونکہ مریض کو تو مفید اور زور اثر دوا چاہئے چاہے اس دوا کا جو بھی نام رکھ لیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر مریض نہ تو دوا کا نام جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو نام سے کیا مطلب ان کو اگر مطلب ہے تو صرف شفاء سے اور وہ بھی جتنی جلدی ہوسکے۔
***
کانفرنس کے اختتام کے بعد ایک طرف پاس شدہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں اور اس میں آنے والے اخراجات کے لئے بڑے سے بڑا فنڈ اکٹھا کیا جاتا اور دوسری طرف عوام اس شخص کی طرح کامیابی کی امید لگاتے ہیں جیسے کسی مریض نے عدم شفایابی کی صورت میں ڈاکٹر بدل کر شفایابی کی امید لگا رکھی ہو، مگر کانفرنس اور اس کی تجاویز کا انجام حسب سابق ہی ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مرض بڑھ جاتا ہے اور مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی
اگر یہ کہا جائے کہ اب تک کی تمام کانفرنسیں جو سسکتی انسانیت کے لئے منعقد ہوئی تھیں فیل اور ان میں پاس ہونے والی تمام تجاویز ناکام ہوگئیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ جو صورت حال پہلے تھی اور جن مسائل سے دنیا دوچار تھی ان میں کوئی اور کسی طرح کی تبدیلی اب تک رونما نہیں ہوئی ہے اور اگر حالات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو مستقبل جس قدر تاریک ہوگا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مذکورہ مسلسل ناکامیوں کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں انسانیت کے لئے درد ہے اور وہ واقعی مداوا چاہتے ہیں تو اب اس موضوع پر کانفرنس کریں اور سرجوڑ کر بیٹھیں کہ ہماری تمام تجاویزکیوں فیل ہوجاتی ہیں اور اس کے ثمرات و نتائج خاطر خواہ کیوں نہیں برآمد ہوتے ؟ ہماری نیت میں کھوٹ ہے یا تشخیص میں کوئی غلطی ہورہی ہے؟
نیت کا تعلق آدمی کے دل سے ہوتا ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے نیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے البتہ کردار و عمل کی روشنی میں رائے قائم کی جاسکتی مگر اس رائے کے قائم کرنے میں غلطی تو ہوہی سکتی ہے، قوم اور انسانیت کے لئے جو کچھ ہوتا ہے اس سے بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ نیت میں اخلاص کی کمی کی وجہ سے نتائج و ثمرات امید اور توقع کے مطابق نہیں ہوتے۔
دوسرا پہلو تشخیص کی غلطی کا ہے، جس کے متعلق مشاہدات و تجربات کی روشنی میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سسکتی ہوئی انسانیت کے مرض کی تشخیص صحیح نہیں ہورہی ہے، اگر صحیح ہوتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ علاج موثر ہونے کے بجائے مرض میں اضافہ ہوتا۔ اور جب یہ متحقق ہے کہ تشخیص کی غلطی صحت و شفا میں مانع ہے تو کیوں نہ صحیح تشخیص پر توجہ دی جائے اور نیک نیتی کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا جائے۔
انسانیت سسک رہی ہے یہ مسلم ہے کیونکہ جان، مال اور آبرو جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں، اگر آج ان تینوں چیزوں کو تحفظ مہیا کیا جائے تو جہاں سے کراہنے اور سسکنے کی آواز آرہی ہے ابھی وہیں سے خوشی اور مسرت کے شادیانے سننے میں آئیں گے، جب اصل مرض یہ ہے جس پر انسانیت کا دارومدار ہے وہ سب غیر محفوظ ہیں تو کیوں نہ ان کو تحفظ مہیا کرایا جائے اور تحفظ کے لئے تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے کہ جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تو اس کا مداوا کیسے اور کس طرح اور کہاں سے حاصل کیا گیا۔
مادی ترقی اور ظاہری چم وخم کو چھوڑ کر اگر بنظر غائر انسانیت کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ڈیڑھ ہزار سال پہلے کھڑے تھے، صورت حال میں کوئی فرق نہیں، طاقت و قوت کا راج تب بھی تھا اور اب بھی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو بالادستی تب بھی حاصل تھی اور اب بھی حاصل ہے، گھر کے اندر اور گھر کے باہر جان و مال اور عزت و آبرو تب بھی محفوظ نہیں تھا اور اب بھی محفوظ نہیں ہے مگر ہم ہیں کہ سیاروں پر کمندیں ڈال کر خلا میں پرواز کرکے مگن ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے سب کچھ حاصل کرلیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم انسانیت کو تحفظ نہ دے سکے تو گویا ہم نے بہت کچھ حاصل کرکے بھی کچھ نہیں پایا۔
جان و مال اور عزت و آبرو کو جس طرح ڈیڑھ ہزار سال پہلے سے تحفظ درکار تھا اسی طرح آج بھی درکار ہے اور جن اصولوں کے سایہ میں تب تحفظ ملا تھا اسی میں آج میں ملنا ہے، کیونکہ مذکورہ تمام چیزیں آج بھی اپنی اسی اصل پر ہیں جس پر پہلے تھیں مگر افسوس کہ کچھ انسانیت کے دشمنوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس وقت کے جو اصول و ضوابط تھے وہ اس وقت کی غیر مہذب اور غیر متمدن قوم کے لحاظ سے وضع کئے گئے تھے آج کا مہذب انسان اس اصولوں کا متحمل نہیں ہے، ا ن کے لئے آج کے حالات اور زمان ومکان کو سامنے رکھ کر قانون و ضع کیا جائے گا تو بہتر اور موثر ہوگا۔
جان کی قیمت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، سیم و زر تب بھی معیار تھے اور آج بھی معیار ہیں کسی کی عزت وآبرو سے کھیلنا اس وقت بھی گناہ تھا اور آج بھی گناہ ہے، جب یہ تمام چیزیں اپنی اصل پر ہیں تو پھر کیوں اصول بدل جائے گا؟ کل ایک شخص پراگندہ حال اور پراگندہ بال اپنے ہاتھ میں کنداور زنگ آلود تلوار لے کر آتا اور قتل کردیتا تھا تو وہ قتل کے عوض قتل کئے جانے کا مستحق ہے کیونکہ وہ اپنی شکل و صورت اور ہیئت سے غیر مہذب اور غیر سنجیدہ بلکہ الٹھر دکھلائی دیتا ہے اور آج ایک شخص عمدہ قسم کی گاڑی میں سوار ہوکر آتا ہے، سراپا لباس فاخرہ میں ملبوس ہے اور ہاتھ میں قیمتی آتشی ہتھیار ہے کسی کا قتل کرتا ہے اور شان سے فضا میں فائرنگ کرتا ہوا فرار ہوجاتا ہے، تو کیا ایسا شخص قتل کا مستحق نہیں کیونکہ بڑا مہذب اور باوقار معلوم ہورہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزائیں جرم کے لحاظ سے ہوتی ہیں مجرم کی وضع قطع اور لباس کے لحاظ سے نہیں اس لئے قتل کا مستحق وہ بھی ہے جو پراگندہ حال، کند اور زنگ آلود تلوار سے گردن مارتا ہے اور وہ شخص بھی قتل کا مستحق ہے جو لباس فاخرہ میں ملبوس آتشی ہتھیار سے قتل کرتا ہے کیونکہ قتل دونوں نے کیا ہے، اگرچہ دونوں کا طریقہ کا ر الگ الگ تھا، اس لئے قتل تو دونوں کئے جائیں گے ہاں دونوں کے قتل کا طریقہ کار الگ الگ تھا اس لئے دونوں مجرموں کے قتل کے لئے بھی طریقہ الگ الگ اختیار کیا جاسکتا ایک کو مہذب انداز میں آتشی ہتھیار سے دوسرے کو غیر مہذب انداز میں کند تلوار سے مگر قتل دونوں کا ہوگا۔
جس طرح جان کے تحفظ کا معاملہ ہے اسی طرح مال ودولت اور عزت و آبرو کا بھی ہے ، ان تمام چیزوں کا تحفظ ہر شخص ہر حال میں چاہتا ہے وہ مہذب ہو یا غیر مہذب، جاہل ہو یا عالم اس لئے مذہب اسلام نے ان کے تحفظ کے لئے مستحکم اور مضبوط قانون و اصول عنایت کیا ہے، جس کے سایہ میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی انسانیت کو سکون و اطمینان ملاتھا آج بھی اسی میں ممکن ہے، اس لئے انسانیت کے لئے آنسو بہانے والوں اور کانفرنس کرنے والوں کو چاہئے کہ ایک مرتبہ اسے بھی عملی جامہ پہنا کر دیکھیں کہ کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اور سسکتی ہوئی انسانیت کا کس قدر مداوا ہوپاتا ہے، بلکہ مناسب تو ہوگا کہ ان ملکوں کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھیں جہاں یہ قوانین جزوی طور پر نافذ ہیں کہ وہاں جرائم کی کیا رفتار ہے، جن جرائم سے انسانیت بلک رہی ہے اور ان مہذب ملکوں میں کیا رفتار ہے جن کو اپنی تہذیب و تمدن، کلچر اور ترقی پر ناز ہے۔
اس تہذیب و تمدن کا کیا مطلب،اس کلچر کی کیا حیثیت اور اس ترقی کا کیا مفہوم اور فائدہ جس میں گھر باہر کہیں بھی سکون میسر نہیں ہے، ہر شخص ہر وقت مکمل ذہنی تناؤ میں رہتا ہو اگرچہ آسائش کے تمام تر لوازمات موجود ہوں، اس لئے انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کو چاہئے کہ بجائے مگرمچھ کا آنسو بہانے کے ان اصولوں کو اپنائیں جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں، اگر مذہب کے نام پر اپنانے میں شرم آرہی ہو تو قانون کے نام پر ہی سہی کیونکہ مریض کو تو مفید اور زور اثر دوا چاہئے چاہے اس دوا کا جو بھی نام رکھ لیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر مریض نہ تو دوا کا نام جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو نام سے کیا مطلب ان کو اگر مطلب ہے تو صرف شفاء سے اور وہ بھی جتنی جلدی ہوسکے۔
***
Wednesday, 28 July 2010
ماہ شعبان، حقیقت کے تناظر میں
مشتاق احمد مختار احمد
جامعۃ الامام، ریاض
آمدم بر سر مطلب! ہمارے یہاں سال میں کچھ ایسے مہینے ہیں جنکی تعظیم میں اس قدر غلو سے کام لیا جاتا ہے کہ اسلام کے دوسرے احکام انکے مد مقابل بہت ہلکے نظر آنے لگتے ہیں اور بے چارہ جاہل انسان پوری زندگی اسی مذموم عمل میں گزارتا رہتا ہے اور خوب خوش فہمی کا شکار رہتا ہے اور دوسرے کوجو ان افعال کو نہیں کرتے ، انہیں بد دین سمجھتا ہے ، در اصل اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں بلکہ غلطی تو ان گمراہ اور امت کے ان مولویوں کی ہے جو انہیں منکرات میں پھنسائے رکھتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
ویسے تو ہمارے یہاں بدعات و خرافات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا شمارناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور جنہیں لوگ بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں ۔اس مضمون میں ہم بات کریں گے ’’شعبان ‘‘ کے تعلق سے کہ آیا اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کی فضیلت میں جو احادیث ذکر کی جاتی ہیں اسکی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ ۔
شعبان کی وجہ تسمیہ: اہل علم نے شعبان کی وجہ تسمیہ یوں بتلائی ہے کہ چونکہ لوگ اسمیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے واسطے قبیلے کی شکل میں تقسیم ہوجاتے ، یا پانی اور چراگاہ کی تلاش میں منتشر ہوجاتے تھے۔ ( دیکھئے:معجم مقاییس اللغۃلابن فارس باب ’’شعر‘‘مادہ’’شعب‘‘)۔چونکہ اس سے قبل ماہ رجب جو کہ حرمت والے مہینے میں سے ایک مہینہ ہے اس میں قتال حرام ہے جب یہ مہینہ ختم ہوجاتا اس کے بعد شعبان کا مہینہ آتا تو سارے کے سارے لوگ قتل و غارت گری کرنے کے واسطے منتشر ہوجاتے تھے ۔
صاحب (العلم المنثور)کے بقول:شعبان یہ ایسا مہینہ ہے جس میں قبائل گروہ در گروہ تقسیم ہوجاتے اور بادشاہوں کا قصد کرتے اور ان سے عطیہ طلب کرتے (العلم المنثور‘‘ص:۱۸۹)
( ’’بدع و أخطاء تتعلق بالأیام والشہور‘‘ جمع و ترتیب :أحمد بن عبد اللہ السلمی)
ملاحظہ:اکثر وبیشتر کیلنڈروں میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ شعبان کے آگے جلی حرف میں ’’ المکرم ‘‘یا بلفظ دیگر’’المعظم‘‘کا اضافہ کئے رہتے ہیں یہ دین میں بدعت کے مترادف ہے ۔ علامہ أبو بکر زید (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ ’’شعبان المکرم‘‘ کہناشعبان مہینے کی فضیلت میں یہ سنت میں ثابت نہیں ہے۔ہاں نبی (ﷺ) سے اتنا ثابت ہے کہ آپ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے ۔ رہی بات اس مہینے کے تعلق سے یہ کہنا کہ ’’فضل شعبان علی سائر الشہور کفضلی علی سائر الأنبیاء‘‘ تو یہ حدیث موضوع ہے۔ جسکی تخریج آگے آرہی ہے ۔(معجم المناہی اللفظیہ۔ لبکر أبی زید (رحمہ اللہ)
شعبان کی فضیلت:انصاف کا تقاضہ یہی ہے جس مہینے کی جتنی فضیلت وارد ہو اس کو اسی طرح ہی بیان کیا جائے ناکہ اس میں غلو سے کام لیا جائے ۔صحیح منہج و فکر والوں کا یہی وطیرہ ہر دور اور زمانہ میں رہا ہے اور رہے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔
شعبان ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ بایں وجہ اللہ کے رسو ل (ﷺ) اس مہینے میں بکثرت روزہ رکھتے تھے ۔اس لئے سنت کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ کی اقتداء اور اتباع میں ہم بھی بکثرت روزہ رکھیں ناکہ ایک خاص دن متعین کرلیں اور اس میں پورے سا ل کی عبادت کی قضا کریں، اور اپنی طرف سے خود ساختہ عبادتوں کو رواج دیں۔
امام نسائی بسند حسن أسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں آپ کو دیگر مہینوں میں کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں جتنا کہ آپ شعبان کے مہینے میں رکھتے ہیں ، اس پر آپ نے جواب دیا : یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ اکثر غافل رہتے ہیں جو کہ رجب اور رمضان کے بیچ پڑتا ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کے اندر رب کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میری خواہش یہی ہوتی ہے کہ میر ے اعمال حالت صوم میں رب کی بارگاہ میں پیش ہوں۔ (سنن نسائی۴؍۴۲۰۱، سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ للألبانی ۴؍۱۸۹۸)۔
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ آپ (ﷺ) کثرت سے روزہ رکھتے تھے نا کہ صرف پندرہویں شعبان کو خاص کرکے خوب عبادت کرتے تھے ۔تو اگر ہمیں سنت رسول سے لگاؤ اور عقیدت کا دعویٰ ہے تو ہم بھی اس مہینے میں کثرت سے روزہ رکھیں۔وگرنہ دعوی سے کوئی فائدہ نہیں ۔ بقول شاعر:
دعوی بغیر دلیل کوئی معتبر نہیں
ہر بات پہ دلیل و برہان چاہےئے
دوسری حدیث جو أم المومنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ : رسول اکرم (ﷺ) اتنی کثرت سے روزہ رکھتے کہ ہم یہی تصور کرتے کہ اب افطار کریں گے ہی نہیں۔ اور جب افطار کرنا شروع کردیتے تو یہ تصور کرتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے ۔اور میں نے رسول اکرم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اسی طرح شعبان مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔(بخاری ،رقم الحدیث؍۱۹۶۹، مسلم،رقم؍۱۱۵۶)
اس مہینے میں کثرت سے روزہ کی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن اتنی بات ضرور ہے آپ (ﷺ) یہ بات پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال صوم کی حالت میں پیش ہوں، جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بعد رمضان کا مہینہ آنے والا ہوتا تھا تو اس کی مشق کے لیے آپ کثرت سے روزہ رکھتے رہے ہوں تاکہ زیادہ گراں نہ گزرے اور پہلے ہی سے عادت بنی رہی۔ ایک حکمت یہ بھی بتلائی جاتی ہے کہ آپ سے جو نفلی روزے چھوٹ جاتے تھے اس کی قضا آپ شعبان میں کرتے تھے یہاں تک کہ رمضان سے قبل آپ مکمل کرلیتے تھے اور اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ام المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا)بھی اپنے ان روزوں کی قضا کرلیتی تھیں جو ان سے حیض وغیرہ کی وجہ سے چھوٹے رہتے تھے چونکہ دوسرے مہینے میں نبی (ﷺ) کے ساتھ مشغول رہنے کی وجہ سے آپ قضا نہیں کرپاتیں اس لیے جب آپ (ﷺ) روزہ رکھتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ اسی مہینے میں اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلیتیں۔
(لطائف المعارف فیمالمواسم العام من الوظائف تالیف؍ الامام الحافظ زین الدین بن رجب الحنبلی(ت:۷۹۵) ص:۱۴۸۔۱۴۹)
شعبان کی فضیلت میں وارد احادیث کا جائزہ:شعبان کی فضیلت میں ڈھیر ساری موضوع اور ضعیف روایتیں ہیں جو کتابوں اور واعظوں اور مقررروں کی زینت بنی ہوئی ہیں جنہیں علماء سوء اور جاہل علماء شعبان کے مہینے میں بڑے کر وفر کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور سامعین سے داد وتحسین حاصل کرلیتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ کچھ لوگ کثرت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر روایتیں ہیں جس سے کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت کا سراغ ملتا ہے ۔ ایسے ہی ایک مرتبہ شعبان کے مہینے میں دہلی کی شاہین باغ کی ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے وہ دن پندرہویں شعبان کا تھا مغرب کی نماز کے بعدمولوی صاحب بے چارے کھڑے ہوئے اور فضیلت شعبان کے تعلق سے تھوڑی موڑی روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر احادیث مروی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت ضرور ہے ۔ان بے چارے مولوی صاحب کو کیا پتہ کہ کسی چیز پر لوگوں کا عمل کرنا یا کسی چیز کا شہرت پاجانا یہ اس کی صحت کی دلیل ہوسکتی ہے تو کیا کسی چیز پر عوام کا کثرت سے عمل کرنا اس کے صحت کی دلیل ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہم یہاں بالاختصار ان موضوع احادیث کا ذکر کرتے ہیں جن سے علماء اہل بدعت استدلال کرتے ہوئے اپنا الّو خوب سیدھا کرتے ہیں۔
(۱)’’اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان‘‘
ترجمہ:اے اللہ تو ہمیں رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور رمضان کا مہینہ نصیب فرما۔
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت کے اندر ’’زائدہ بن ابی رقاد ‘‘ راوی ہے ۔امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے ۔
(میزان الاعتدال للذہبی۲؍۹۶ ، مجمع الزوائد للہیثمی۳؍۱۶۵،وضعیف الجامع للالبانیرقم؍ ۴۳۹۵ )
(۲)’’فضل شہر شعبان کفضلی علی سائر الانبیاء‘‘
شعبان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسی کہ میری فضیلت تمام انبیاء پر ۔ ابن حجر (رحمہ اللہ )نے ’’ تبیین العجب‘‘ کے اندر اس روایت کو موضوع کہا ہے۔
(کشف الخفاء للعجلونی۲؍۸۵، المقاصد الحسنہ للسخاوی۱؍۴۷۹ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع لعلی القاری الہروی المکی، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدہ۱؍۱۲۸)
(۳)’’اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا‘‘الخ...
یعنی جب پندرہویں شعبان ہو تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔
(العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍رقم؍۹۲۳ص؍۵۶۲، مصباح الزجاجہ لشہاب الدین البوصیری الکنانی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ ص؍۵۱، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ’’باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان‘‘جزء۳؍ص؍۳۶۶ ، ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم۱۳۸۸،ضعیف الترغیب والترہیب للالبانی رقم ؍۶۲۳،وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم؍۲۱۳۲)
(۴)’’خمس لیال لا ترد فیہن الدعوۃ: اول لیلۃ من رجب ،ولیلۃ النصف من شعبان، ولیلۃ الجمعۃ، ولیلۃ الفطر ،ولیلۃ النحر‘‘
ترجمہ: پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دعاء رد نہیں ہوتی(۱)رجب کی پہلی رات(۲)پندرہویں شعبان کی رات (۳)جمعہ کی رات (۴)عید الفطر کی رات (۵)عید الاضحی کی رات۔(موضوع)
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی جزء ؍۳رقم؍۱۴۵۲)
(۵)’’اتانی جبریل علیہ السلام فقال لی ہذہ لیلۃ النصف من شعبان وللہ فیہا عتقاء من النار بعدد شعر غنم‘‘(نہایت ضعیف روایت ہے)
ترجمہ:جبریل علیہ السلام میر ے پاس شعبان کی رات آئے اور خبر دی کہ اللہ نے پندرہویں شعبان کی رات جہنم سے بکریوں کے بالوں کی مقدار لوگوں کو آزاد کیا۔
(ضعیف الترغیب والترہیب للالبانیجزء ؍ ، رقم؍ ۱۲۴۷، العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍ص؍ ۵۵۶ )
اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت جس کا متن نہ ذکرکرکے صرف اس کے ترجمے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
(۶)عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات اللہ کے رسول (ﷺ)کو گم پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکل پڑی دیکھا تو آپ بقیع میں تھے، آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تمہیں خوف تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے ، اس پر ام المؤمنین نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں نے سمجھا کہ آپ اپنی دوسری بیویوں کے پاس گئے ہوں گے اس پر آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات سماء دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کے بکریوں کے بال کے مقدار سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
(ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم؍۲۹۵، ضعیف سنن ترمذی للالبانی رقم؍۷۳۹ العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍ ۲،رقم؍۹۱۵)
(۷)’’قولہ (ﷺ) یا علی من صلی لیلۃ النصف من شعبان مءۃ رکعۃ بالف قل ہو اللہ احد قضی اللہ لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ‘‘
ترجمہ:آپ (ﷺ) نے علی (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا اے علی: جو شخص پندرہویں شعبان کو ۱۰۰ رکعت میں ہزار مرتبہ’’ قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے گا اللہ اس کی تمام ضروریات اس رات طلب کرے گا پورا کردے گا۔
( المنار المنیف فی الصحیح والضعیف لابن القیم الجوزیہ، کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶، الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ص؍۵۰، ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۸)’’من قرأ لیلۃ النصف من شعبان ألف مرۃ قل ہو اللہ احد بعث اللہ الیہ مءۃ الف ملک یبشرونہ‘‘
ترجمہ: جو شخص پندرہویں شعبان کو ایک ہزار مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے اللہ تعالی اس کے پاس خوشخبری دینے کے لیے ایک لاکھ فرشتوں کو بھیجے گا۔
(لسان المیزان لابن حجر جزء؍۵،ص؍؍۲۷۱ ، المنار المنیف لابن القیم جزء؍۱،ص؍۹۹۔
(۹)’’ من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثلاث مءۃ رکعۃ(فی لفظ ثنتی عشر رکعۃ)یقرأ فی کل رکعۃ ثلاثین مرۃ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ شفع فی عشرۃ قد استوجبوا النار‘‘
ترجمہ:جس شخص نے پندرہویں شعبان کو ۳۰۰ رکعت (دوسرے لفظ میں ۱۲ رکعت) پڑھا، ہر رکعت میں ۳۰ مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھا، تو ایسا شخص دس ایسے شخص کی سفارش کرسکتا ہے جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
(کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶،ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۱۰)قولہ (ﷺ) ’’رجب شہر اللہ وشعبان شہری ورمضان شہر امتی‘‘
ترجمہ:رجب اللہ کا مہینہ ہے ،شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔
( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانیص:۴۷،۱۰۰،الموضوعات لابن الجوزی ۲؍ص؍۲۰۵، والموضوعات لحسن بن محمدالصغانی جزء ؍۱،رقم؍ ۱۲۹، واللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی جز ؍۲؍ ص ؍۴۶، وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم حدیث؍۴۴۰۰،)
(۱۱)’’من احیا لیلتی العید ولیلۃ النصف من شعبان لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘
ترجمہ:جو شخص عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات زندہ کرے گا(زندہ کرنے کا مطلب عباد ت وغیرہ ہے )تو اس کا دل بروز قیامت مردہ نہ ہوگا جبکہ لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے ۔(یعنی ایسے شخص کا دل بروز قیامت روشن رہے گا۔)
(میزان الاعتدال للذہبی جزء؍ ۳؍ ص؍ ۳۰۸، الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجرجزء؍ ۵؍ ص؍۵۸۰، التلخیص الحبیر لابن حجرجزء ؍۲، ص؍۸۰، العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍۲؍رقم؍۹۲۴، ص؍۵۶۲)
اس کے علاوہ ہزاروں موضوع اور ضعیف روایتیں ایسی ہیں (یہاں بالاختصار کام لیا گیاہے)جو کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ، اور علماء سوء خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ،اور اپنی و عوام الناس کی عاقبت برباد کررہے ہیں۔جبکہ پندرہویں شعبان کی تخصیص ،اس دن کا روزہ اور اس رات کے قیام کے تعلق سے کوئی بھی حدیث ثابت نہیں ہے ، جتنی بھی حدیثیں ہیں سب منکر ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں نہیں ہے۔
صلاۃ الفیہ یا صلاۃ الرغائبکا موجد:امام ابو بکر محمد بن الولید بن محمد طرطوشی (ت:۵۲۰) کہتے ہیں کہ مجھے ابو محمد المقدسی نے بتلایا کہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں صلاۃ الرغائب نامی نماز جو رجب اور شعبان میں پڑھی جاتی ہے اس کاکوئی وجود نہ تھا ، لیکن ۴۴۸ ھ میں ’’ابن ابی الحمراء‘‘ نامی ایک شخص جو کہ اہل نابلس سے تھابیت المقدس آیا ، اور پندرہویں شعبان کی رات مسجد اقصی میں نماز پڑھنا شروع کردیا اور یہ شخص کافی خوش الحان تھا،اس طرح لوگ یکے بعد دیگرے آتے گئے اور اس کے پیچھے صف بناتے چلے گئے ، پھر اسی طرح دوسرے سال بھی آیا اور اس کے پیچھے ایک جم غفیرنے نماز ادا کی ، اس نماز کا خوب چرچا ہوا اور لوگوں میں یہ نماز خوب مقبول ہوئی اور پھر یہ سنت بن گئی۔امام ابو بکر طرطوشی کہتے ہیں کہ میں نے ان ( ابو محمد المقدسی)سے کہا کہ میں آپ کو بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، اس پر انہوں نے کہا ہاں اور اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔
(الحوادث والبدع لامام ابی بکر طرطوشی (رحمہ اللہ ت:۵۲۰)تحقیق وتخریج ؍محمد بشیر عیون)
جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ صلاۃ الفیہ جو نصف شعبان کی رات ادا کی جاتی ہے بدعت ہے ۔ کیونکہ نہ یہ رسول اللہ(ﷺ)سے ثابت ہے اور نہ ہی خلفاء راشدین سے ثابت ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ (رحمہم اللہ)بشمول امام ثوری ،امام اوزاعی امام لیث وغیرہم سے ۔
اور اس قبیل سے جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب باتفاق اہل علم موضوع ہیں یا تو ضعیف ہیں ۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ۲؍۶۲۸،التحذیر من البدع للشیخ ابن باز ، بحوالہ ’’ البدع الحولیہ‘‘ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری)
پندرہویں شعبان کی رات دین کے نام پر اس قدر فواحش ومنکرات و خرافات کا ارتکاب کیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ہم ان خرافات ومنکرات کا نہایت تلخیص کے ساتھ یہاں ذکرکر رہے ہیں جو کہ اس رات انجام دئے جاتے ہیں ،اور جوکہ شرعا ناجائز اور حرام ہیں۔
(۱)دین کے نام پر اسراف اور فضول خرچی جو کہ انتہائی معیوب عمل ہے۔
(۲)مختلف اور متنوع لائٹوں اور قمقموں کا استعمال ،جو کہ مال کا ضیاع کا ایک سبب خاص طور سے جبکہ یہ مال وقف کا ہو یا عوام الناس سے بطور چندہ لیا گیاہو۔
(۳)عورتوں کا گروہ در گروہ اس پروگرام میں شرکت کرنا جو بلا شبہ برائی کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۴)مساجد میں اجتماعی حاضری اور غیرمشروع عبادات کو انجام دینا۔
(۵)مساجد میں لغو باتوں کا استعمال ، اور کثرت سے کلام کرنا جو کہ خشوع وخضوع کے بالکل خلاف ہے۔
(۶)عورتوں کا اس رات قبرستان میں جانا ، (جبکہ شرعی طور سے عورتوں کا قبرستان میں جانا ایک مکروہ عمل ہے)مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط۔
(۷) قبروں کی طرف سج دھج کر جاناجو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قبروں کی زیارت کا مقصود تفریح ہے نا کہ عبرت و موعظت۔ جبکہ قبروں کی زیارت کو اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کیونکہ ذکر آخرت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
(۸)منکرات اور بدعات کا ارتکاب کرکے مسلمان مردوں کو اذیت دینا۔
(۹)لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رات کی عبادت پوری زندگی کے لیے کافی ہے اور تقرب الہی کا ایک عظیم ذریعہ ہے ۔
(حذف واختصار اور اضافہ کے ساتھ’’البدع الحولیہ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری‘‘ ص:۳۰۰،۳۰۱،۳۰۲)
حرف اخیر:ہرایک مسلمان (جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے محبت کا دعویدارہے ) پر یہ فرض ہے کہ دین کے تمام اقوال وافعال میں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو مقدم رکھے،اور ہمیشہ حق بات کی تلاش میں رہے ، اورحق بات جہاں بھی ملے اسے حرزجاں بنالے ،مذہبیت اور عصبیت سے کوسوں دور رہے کیونکہ اسلام میں مذہبیت اور عصبیت نہیں۔ مذہب اسلام اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے فرمودات کے مجموعے کا نام ہے، جس میں کسی اور قول کی ادنی گنجائش نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ،مفتی کیوں نہ ہو۔
***
جامعۃ الامام، ریاض
ماہ شعبان، حقیقت کے تناظر میں
برصغیر ہند وپاک بشمول بنگلہ دیش ونیپال یہ ممالک ایسے ہیں جہاں شرک وبدعات ، خرافات و خزعبلات میں شب و روز اضافہ ہوتا رہتا ہے ،اور روز کوئی نہ کوئی بدعت ایجاد ہوتی ہے اور سنت رسول(ﷺ) کی خوب پامالی کی جاتی ہے۔ اور اس کی طرف دعوت دینے والوں کوطعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔آمدم بر سر مطلب! ہمارے یہاں سال میں کچھ ایسے مہینے ہیں جنکی تعظیم میں اس قدر غلو سے کام لیا جاتا ہے کہ اسلام کے دوسرے احکام انکے مد مقابل بہت ہلکے نظر آنے لگتے ہیں اور بے چارہ جاہل انسان پوری زندگی اسی مذموم عمل میں گزارتا رہتا ہے اور خوب خوش فہمی کا شکار رہتا ہے اور دوسرے کوجو ان افعال کو نہیں کرتے ، انہیں بد دین سمجھتا ہے ، در اصل اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں بلکہ غلطی تو ان گمراہ اور امت کے ان مولویوں کی ہے جو انہیں منکرات میں پھنسائے رکھتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
ویسے تو ہمارے یہاں بدعات و خرافات کی ایک طویل فہرست ہے جن کا شمارناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور جنہیں لوگ بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں ۔اس مضمون میں ہم بات کریں گے ’’شعبان ‘‘ کے تعلق سے کہ آیا اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کی فضیلت میں جو احادیث ذکر کی جاتی ہیں اسکی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ ۔
شعبان کی وجہ تسمیہ: اہل علم نے شعبان کی وجہ تسمیہ یوں بتلائی ہے کہ چونکہ لوگ اسمیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے واسطے قبیلے کی شکل میں تقسیم ہوجاتے ، یا پانی اور چراگاہ کی تلاش میں منتشر ہوجاتے تھے۔ ( دیکھئے:معجم مقاییس اللغۃلابن فارس باب ’’شعر‘‘مادہ’’شعب‘‘)۔چونکہ اس سے قبل ماہ رجب جو کہ حرمت والے مہینے میں سے ایک مہینہ ہے اس میں قتال حرام ہے جب یہ مہینہ ختم ہوجاتا اس کے بعد شعبان کا مہینہ آتا تو سارے کے سارے لوگ قتل و غارت گری کرنے کے واسطے منتشر ہوجاتے تھے ۔
صاحب (العلم المنثور)کے بقول:شعبان یہ ایسا مہینہ ہے جس میں قبائل گروہ در گروہ تقسیم ہوجاتے اور بادشاہوں کا قصد کرتے اور ان سے عطیہ طلب کرتے (العلم المنثور‘‘ص:۱۸۹)
( ’’بدع و أخطاء تتعلق بالأیام والشہور‘‘ جمع و ترتیب :أحمد بن عبد اللہ السلمی)
ملاحظہ:اکثر وبیشتر کیلنڈروں میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ لوگ شعبان کے آگے جلی حرف میں ’’ المکرم ‘‘یا بلفظ دیگر’’المعظم‘‘کا اضافہ کئے رہتے ہیں یہ دین میں بدعت کے مترادف ہے ۔ علامہ أبو بکر زید (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ ’’شعبان المکرم‘‘ کہناشعبان مہینے کی فضیلت میں یہ سنت میں ثابت نہیں ہے۔ہاں نبی (ﷺ) سے اتنا ثابت ہے کہ آپ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے ۔ رہی بات اس مہینے کے تعلق سے یہ کہنا کہ ’’فضل شعبان علی سائر الشہور کفضلی علی سائر الأنبیاء‘‘ تو یہ حدیث موضوع ہے۔ جسکی تخریج آگے آرہی ہے ۔(معجم المناہی اللفظیہ۔ لبکر أبی زید (رحمہ اللہ)
شعبان کی فضیلت:انصاف کا تقاضہ یہی ہے جس مہینے کی جتنی فضیلت وارد ہو اس کو اسی طرح ہی بیان کیا جائے ناکہ اس میں غلو سے کام لیا جائے ۔صحیح منہج و فکر والوں کا یہی وطیرہ ہر دور اور زمانہ میں رہا ہے اور رہے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔
شعبان ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ بایں وجہ اللہ کے رسو ل (ﷺ) اس مہینے میں بکثرت روزہ رکھتے تھے ۔اس لئے سنت کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ کی اقتداء اور اتباع میں ہم بھی بکثرت روزہ رکھیں ناکہ ایک خاص دن متعین کرلیں اور اس میں پورے سا ل کی عبادت کی قضا کریں، اور اپنی طرف سے خود ساختہ عبادتوں کو رواج دیں۔
امام نسائی بسند حسن أسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں آپ کو دیگر مہینوں میں کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں جتنا کہ آپ شعبان کے مہینے میں رکھتے ہیں ، اس پر آپ نے جواب دیا : یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ اکثر غافل رہتے ہیں جو کہ رجب اور رمضان کے بیچ پڑتا ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کے اندر رب کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میری خواہش یہی ہوتی ہے کہ میر ے اعمال حالت صوم میں رب کی بارگاہ میں پیش ہوں۔ (سنن نسائی۴؍۴۲۰۱، سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ للألبانی ۴؍۱۸۹۸)۔
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ آپ (ﷺ) کثرت سے روزہ رکھتے تھے نا کہ صرف پندرہویں شعبان کو خاص کرکے خوب عبادت کرتے تھے ۔تو اگر ہمیں سنت رسول سے لگاؤ اور عقیدت کا دعویٰ ہے تو ہم بھی اس مہینے میں کثرت سے روزہ رکھیں۔وگرنہ دعوی سے کوئی فائدہ نہیں ۔ بقول شاعر:
دعوی بغیر دلیل کوئی معتبر نہیں
ہر بات پہ دلیل و برہان چاہےئے
دوسری حدیث جو أم المومنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ : رسول اکرم (ﷺ) اتنی کثرت سے روزہ رکھتے کہ ہم یہی تصور کرتے کہ اب افطار کریں گے ہی نہیں۔ اور جب افطار کرنا شروع کردیتے تو یہ تصور کرتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے ۔اور میں نے رسول اکرم کو رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ، اسی طرح شعبان مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔(بخاری ،رقم الحدیث؍۱۹۶۹، مسلم،رقم؍۱۱۵۶)
اس مہینے میں کثرت سے روزہ کی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن اتنی بات ضرور ہے آپ (ﷺ) یہ بات پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال صوم کی حالت میں پیش ہوں، جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بعد رمضان کا مہینہ آنے والا ہوتا تھا تو اس کی مشق کے لیے آپ کثرت سے روزہ رکھتے رہے ہوں تاکہ زیادہ گراں نہ گزرے اور پہلے ہی سے عادت بنی رہی۔ ایک حکمت یہ بھی بتلائی جاتی ہے کہ آپ سے جو نفلی روزے چھوٹ جاتے تھے اس کی قضا آپ شعبان میں کرتے تھے یہاں تک کہ رمضان سے قبل آپ مکمل کرلیتے تھے اور اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ام المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا)بھی اپنے ان روزوں کی قضا کرلیتی تھیں جو ان سے حیض وغیرہ کی وجہ سے چھوٹے رہتے تھے چونکہ دوسرے مہینے میں نبی (ﷺ) کے ساتھ مشغول رہنے کی وجہ سے آپ قضا نہیں کرپاتیں اس لیے جب آپ (ﷺ) روزہ رکھتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ اسی مہینے میں اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلیتیں۔
(لطائف المعارف فیمالمواسم العام من الوظائف تالیف؍ الامام الحافظ زین الدین بن رجب الحنبلی(ت:۷۹۵) ص:۱۴۸۔۱۴۹)
شعبان کی فضیلت میں وارد احادیث کا جائزہ:شعبان کی فضیلت میں ڈھیر ساری موضوع اور ضعیف روایتیں ہیں جو کتابوں اور واعظوں اور مقررروں کی زینت بنی ہوئی ہیں جنہیں علماء سوء اور جاہل علماء شعبان کے مہینے میں بڑے کر وفر کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور سامعین سے داد وتحسین حاصل کرلیتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ کچھ لوگ کثرت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر روایتیں ہیں جس سے کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت کا سراغ ملتا ہے ۔ ایسے ہی ایک مرتبہ شعبان کے مہینے میں دہلی کی شاہین باغ کی ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے وہ دن پندرہویں شعبان کا تھا مغرب کی نماز کے بعدمولوی صاحب بے چارے کھڑے ہوئے اور فضیلت شعبان کے تعلق سے تھوڑی موڑی روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ شعبان کے تعلق سے اس قدر احادیث مروی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس کی حقیقت ضرور ہے ۔ان بے چارے مولوی صاحب کو کیا پتہ کہ کسی چیز پر لوگوں کا عمل کرنا یا کسی چیز کا شہرت پاجانا یہ اس کی صحت کی دلیل ہوسکتی ہے تو کیا کسی چیز پر عوام کا کثرت سے عمل کرنا اس کے صحت کی دلیل ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہم یہاں بالاختصار ان موضوع احادیث کا ذکر کرتے ہیں جن سے علماء اہل بدعت استدلال کرتے ہوئے اپنا الّو خوب سیدھا کرتے ہیں۔
(۱)’’اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان‘‘
ترجمہ:اے اللہ تو ہمیں رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور رمضان کا مہینہ نصیب فرما۔
یہ روایت ضعیف ہے اس روایت کے اندر ’’زائدہ بن ابی رقاد ‘‘ راوی ہے ۔امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے ۔
(میزان الاعتدال للذہبی۲؍۹۶ ، مجمع الزوائد للہیثمی۳؍۱۶۵،وضعیف الجامع للالبانیرقم؍ ۴۳۹۵ )
(۲)’’فضل شہر شعبان کفضلی علی سائر الانبیاء‘‘
شعبان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسی کہ میری فضیلت تمام انبیاء پر ۔ ابن حجر (رحمہ اللہ )نے ’’ تبیین العجب‘‘ کے اندر اس روایت کو موضوع کہا ہے۔
(کشف الخفاء للعجلونی۲؍۸۵، المقاصد الحسنہ للسخاوی۱؍۴۷۹ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع لعلی القاری الہروی المکی، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدہ۱؍۱۲۸)
(۳)’’اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا‘‘الخ...
یعنی جب پندرہویں شعبان ہو تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔
(العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍رقم؍۹۲۳ص؍۵۶۲، مصباح الزجاجہ لشہاب الدین البوصیری الکنانی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ ص؍۵۱، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ’’باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان‘‘جزء۳؍ص؍۳۶۶ ، ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم۱۳۸۸،ضعیف الترغیب والترہیب للالبانی رقم ؍۶۲۳،وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم؍۲۱۳۲)
(۴)’’خمس لیال لا ترد فیہن الدعوۃ: اول لیلۃ من رجب ،ولیلۃ النصف من شعبان، ولیلۃ الجمعۃ، ولیلۃ الفطر ،ولیلۃ النحر‘‘
ترجمہ: پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دعاء رد نہیں ہوتی(۱)رجب کی پہلی رات(۲)پندرہویں شعبان کی رات (۳)جمعہ کی رات (۴)عید الفطر کی رات (۵)عید الاضحی کی رات۔(موضوع)
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی جزء ؍۳رقم؍۱۴۵۲)
(۵)’’اتانی جبریل علیہ السلام فقال لی ہذہ لیلۃ النصف من شعبان وللہ فیہا عتقاء من النار بعدد شعر غنم‘‘(نہایت ضعیف روایت ہے)
ترجمہ:جبریل علیہ السلام میر ے پاس شعبان کی رات آئے اور خبر دی کہ اللہ نے پندرہویں شعبان کی رات جہنم سے بکریوں کے بالوں کی مقدار لوگوں کو آزاد کیا۔
(ضعیف الترغیب والترہیب للالبانیجزء ؍ ، رقم؍ ۱۲۴۷، العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۲؍ص؍ ۵۵۶ )
اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت جس کا متن نہ ذکرکرکے صرف اس کے ترجمے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
(۶)عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات اللہ کے رسول (ﷺ)کو گم پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکل پڑی دیکھا تو آپ بقیع میں تھے، آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تمہیں خوف تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے ، اس پر ام المؤمنین نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں نے سمجھا کہ آپ اپنی دوسری بیویوں کے پاس گئے ہوں گے اس پر آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات سماء دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کے بکریوں کے بال کے مقدار سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
(ضعیف سنن ابن ماجہ للالبانی رقم؍۲۹۵، ضعیف سنن ترمذی للالبانی رقم؍۷۳۹ العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍ ۲،رقم؍۹۱۵)
(۷)’’قولہ (ﷺ) یا علی من صلی لیلۃ النصف من شعبان مءۃ رکعۃ بالف قل ہو اللہ احد قضی اللہ لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ‘‘
ترجمہ:آپ (ﷺ) نے علی (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا اے علی: جو شخص پندرہویں شعبان کو ۱۰۰ رکعت میں ہزار مرتبہ’’ قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے گا اللہ اس کی تمام ضروریات اس رات طلب کرے گا پورا کردے گا۔
( المنار المنیف فی الصحیح والضعیف لابن القیم الجوزیہ، کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶، الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ للشوکانی جزء؍۱ص؍۵۰، ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۸)’’من قرأ لیلۃ النصف من شعبان ألف مرۃ قل ہو اللہ احد بعث اللہ الیہ مءۃ الف ملک یبشرونہ‘‘
ترجمہ: جو شخص پندرہویں شعبان کو ایک ہزار مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے اللہ تعالی اس کے پاس خوشخبری دینے کے لیے ایک لاکھ فرشتوں کو بھیجے گا۔
(لسان المیزان لابن حجر جزء؍۵،ص؍؍۲۷۱ ، المنار المنیف لابن القیم جزء؍۱،ص؍۹۹۔
(۹)’’ من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثلاث مءۃ رکعۃ(فی لفظ ثنتی عشر رکعۃ)یقرأ فی کل رکعۃ ثلاثین مرۃ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ شفع فی عشرۃ قد استوجبوا النار‘‘
ترجمہ:جس شخص نے پندرہویں شعبان کو ۳۰۰ رکعت (دوسرے لفظ میں ۱۲ رکعت) پڑھا، ہر رکعت میں ۳۰ مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھا، تو ایسا شخص دس ایسے شخص کی سفارش کرسکتا ہے جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
(کشف الخفاء للعجلونی ۲؍۵۶۶،ونقد المنقول والمحک الممیزبین المردود والقبول لابن القیم جزء؍۱؍ص؍۸۵)
(۱۰)قولہ (ﷺ) ’’رجب شہر اللہ وشعبان شہری ورمضان شہر امتی‘‘
ترجمہ:رجب اللہ کا مہینہ ہے ،شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔
( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانیص:۴۷،۱۰۰،الموضوعات لابن الجوزی ۲؍ص؍۲۰۵، والموضوعات لحسن بن محمدالصغانی جزء ؍۱،رقم؍ ۱۲۹، واللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی جز ؍۲؍ ص ؍۴۶، وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم حدیث؍۴۴۰۰،)
(۱۱)’’من احیا لیلتی العید ولیلۃ النصف من شعبان لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘
ترجمہ:جو شخص عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات زندہ کرے گا(زندہ کرنے کا مطلب عباد ت وغیرہ ہے )تو اس کا دل بروز قیامت مردہ نہ ہوگا جبکہ لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے ۔(یعنی ایسے شخص کا دل بروز قیامت روشن رہے گا۔)
(میزان الاعتدال للذہبی جزء؍ ۳؍ ص؍ ۳۰۸، الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجرجزء؍ ۵؍ ص؍۵۸۰، التلخیص الحبیر لابن حجرجزء ؍۲، ص؍۸۰، العلل المتناہیہ لابن الجوزی جزء؍۲؍رقم؍۹۲۴، ص؍۵۶۲)
اس کے علاوہ ہزاروں موضوع اور ضعیف روایتیں ایسی ہیں (یہاں بالاختصار کام لیا گیاہے)جو کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ، اور علماء سوء خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ،اور اپنی و عوام الناس کی عاقبت برباد کررہے ہیں۔جبکہ پندرہویں شعبان کی تخصیص ،اس دن کا روزہ اور اس رات کے قیام کے تعلق سے کوئی بھی حدیث ثابت نہیں ہے ، جتنی بھی حدیثیں ہیں سب منکر ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں نہیں ہے۔
صلاۃ الفیہ یا صلاۃ الرغائبکا موجد:امام ابو بکر محمد بن الولید بن محمد طرطوشی (ت:۵۲۰) کہتے ہیں کہ مجھے ابو محمد المقدسی نے بتلایا کہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں صلاۃ الرغائب نامی نماز جو رجب اور شعبان میں پڑھی جاتی ہے اس کاکوئی وجود نہ تھا ، لیکن ۴۴۸ ھ میں ’’ابن ابی الحمراء‘‘ نامی ایک شخص جو کہ اہل نابلس سے تھابیت المقدس آیا ، اور پندرہویں شعبان کی رات مسجد اقصی میں نماز پڑھنا شروع کردیا اور یہ شخص کافی خوش الحان تھا،اس طرح لوگ یکے بعد دیگرے آتے گئے اور اس کے پیچھے صف بناتے چلے گئے ، پھر اسی طرح دوسرے سال بھی آیا اور اس کے پیچھے ایک جم غفیرنے نماز ادا کی ، اس نماز کا خوب چرچا ہوا اور لوگوں میں یہ نماز خوب مقبول ہوئی اور پھر یہ سنت بن گئی۔امام ابو بکر طرطوشی کہتے ہیں کہ میں نے ان ( ابو محمد المقدسی)سے کہا کہ میں آپ کو بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، اس پر انہوں نے کہا ہاں اور اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔
(الحوادث والبدع لامام ابی بکر طرطوشی (رحمہ اللہ ت:۵۲۰)تحقیق وتخریج ؍محمد بشیر عیون)
جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ صلاۃ الفیہ جو نصف شعبان کی رات ادا کی جاتی ہے بدعت ہے ۔ کیونکہ نہ یہ رسول اللہ(ﷺ)سے ثابت ہے اور نہ ہی خلفاء راشدین سے ثابت ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ (رحمہم اللہ)بشمول امام ثوری ،امام اوزاعی امام لیث وغیرہم سے ۔
اور اس قبیل سے جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب باتفاق اہل علم موضوع ہیں یا تو ضعیف ہیں ۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ۲؍۶۲۸،التحذیر من البدع للشیخ ابن باز ، بحوالہ ’’ البدع الحولیہ‘‘ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری)
پندرہویں شعبان کی رات دین کے نام پر اس قدر فواحش ومنکرات و خرافات کا ارتکاب کیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ہم ان خرافات ومنکرات کا نہایت تلخیص کے ساتھ یہاں ذکرکر رہے ہیں جو کہ اس رات انجام دئے جاتے ہیں ،اور جوکہ شرعا ناجائز اور حرام ہیں۔
(۱)دین کے نام پر اسراف اور فضول خرچی جو کہ انتہائی معیوب عمل ہے۔
(۲)مختلف اور متنوع لائٹوں اور قمقموں کا استعمال ،جو کہ مال کا ضیاع کا ایک سبب خاص طور سے جبکہ یہ مال وقف کا ہو یا عوام الناس سے بطور چندہ لیا گیاہو۔
(۳)عورتوں کا گروہ در گروہ اس پروگرام میں شرکت کرنا جو بلا شبہ برائی کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۴)مساجد میں اجتماعی حاضری اور غیرمشروع عبادات کو انجام دینا۔
(۵)مساجد میں لغو باتوں کا استعمال ، اور کثرت سے کلام کرنا جو کہ خشوع وخضوع کے بالکل خلاف ہے۔
(۶)عورتوں کا اس رات قبرستان میں جانا ، (جبکہ شرعی طور سے عورتوں کا قبرستان میں جانا ایک مکروہ عمل ہے)مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط۔
(۷) قبروں کی طرف سج دھج کر جاناجو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قبروں کی زیارت کا مقصود تفریح ہے نا کہ عبرت و موعظت۔ جبکہ قبروں کی زیارت کو اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کیونکہ ذکر آخرت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
(۸)منکرات اور بدعات کا ارتکاب کرکے مسلمان مردوں کو اذیت دینا۔
(۹)لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رات کی عبادت پوری زندگی کے لیے کافی ہے اور تقرب الہی کا ایک عظیم ذریعہ ہے ۔
(حذف واختصار اور اضافہ کے ساتھ’’البدع الحولیہ لعبداللہ بن عبدالعزیز بن احمد التویجری‘‘ ص:۳۰۰،۳۰۱،۳۰۲)
حرف اخیر:ہرایک مسلمان (جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے محبت کا دعویدارہے ) پر یہ فرض ہے کہ دین کے تمام اقوال وافعال میں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو مقدم رکھے،اور ہمیشہ حق بات کی تلاش میں رہے ، اورحق بات جہاں بھی ملے اسے حرزجاں بنالے ،مذہبیت اور عصبیت سے کوسوں دور رہے کیونکہ اسلام میں مذہبیت اور عصبیت نہیں۔ مذہب اسلام اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے فرمودات کے مجموعے کا نام ہے، جس میں کسی اور قول کی ادنی گنجائش نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ،مفتی کیوں نہ ہو۔
***
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
تحریر: عبد الرحمن رافت پاشا
ترجمہ: ضیاء الدین بخاری
ان آیتوں کا تعلق ایک ایسے واقعے سے ہے جس میں ایک نوجوان شرکے مقابلے میں خیر اور کفر کے مقابلے میں ایمان کو اپنا مقصد حیات بناتاہے، یہ جس جواں سال کا واقعہ ہے وہ مکہ مکرمہ کے نوجوانوں میں اپنے ماں باپ دونوں کے اعلیٰ اور پر وقار خاندان کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور نوجوان کا نام تھا سعد بن ابی وقاص۔
جن دنوں رسول اللہ ﷺ نے سرزمین مکہ میں نبوت کا اعلان فرمایا تو سعد نو عمر تھے، خوبصورت و جمیل تھے، حد درجہ رحم دل تھے، والدین اور بالخصوص والدہ کا حد درجہ احترام کرتے، عمر کے اعتبار سے وہ صرف سترہ سال کے تھے، لیکن ذہانت، ذکاوت اور بالغ نظری میں بہت سے پختہ عمر آپ کے مقابلے میں بچے دکھائی دیتے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے اپنا بچپن اور بچوں کی طرح کھیل کود اور لہو لعب میں برباد نہیں کیا بلکہ تیر اندازی کمانوں کی درستگی میں وہ اپنا وقت صرف کرتے۔ گویا اس طرح وہ کسی آنے والے بڑے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے، ساتھ ہی اپنی قوم کے مفسد عقیدوں اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے وہ حد درجہ غیر مطمئن رہا کرتے اور یہ محسوس ہوتا کہ انہیں کسی مضبوط ہاتھوں کا انتظار ہے جو ان کی قوم کو ان اندھیاروں سے نکال سکے۔
ان کی انہی کیفیات کے درمیان اللہ تعالی نے عالم انسانیت کے لئے اس انسان کو مبعوث فرمادیا جس کا انتظار تھا اور یہ ہاتھ مخلوق کے سردار محمد بن عبداللہ ﷺ کا اور آپ کے دست مبارک میں نور الٰہی کا وہ ستارہ موجود تھا جو کبھی غروب نہیں ہوتا یعنی ’’اللہ کی کتاب‘‘۔ سعد بن ابی وقاص حق و ہدایت کی اس دعوت کی جانب لپک پڑے اور یہ خوش نصیبی آپ کے حصہ میں آئی کہ آپ تین اولین اسلام قبول کرنے والوں میں تیسرے یا چار اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے تھے اور اکثر سعد رضی اللہ عنہ فخر سے کہا کرتے: میں نے قبول اسلام میں ہفتہ بھر تاخیر کی لیکن بحمدللہ میں اولین اسلام کا تہائی ہوں۔
سعد کے اسلام سے رسول اللہ ﷺ کو بے پناہ مسرت ہوئی، اس لئے کہ آپ میں شرافت کی جملہ علامتیں موجود تھیں جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہلال بہت جلد بدر کامل بن جائے گا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ نسبی نے مکہ کے دیگر نوجوانوں کو بھی اس امر پر اکسایا کہ وہ بھی اپنے ہم عمر سعد کے نقوش پا کو اپنالیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ سعد رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا ننہال کا رشتہ بھی تھا، اس لئے کہ سعد رضی اللہ عنہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ ﷺ کی والدہ آمنہ بھی اسی قبیلے سے تھیں، لیکن سعد بن ابی وقاص کو قبول اسلام کے بعد اپنی زندگی کے بدترین امتحان سے گزنا پڑا اور بے پناہ روحانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ نوجوان ان تمام دشوار گزار مراحل سے بایں انداز گزر گیا کہ ان کی مدح اور تعریف میں اللہ بزرگ و برتر نے قرآنی آیتیں نازل فرمائیں۔
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اسلام قبول کرنے سے پہلے میں تین راتوں تک ہر رات یہ خواب دیکھتا رہا کہ میں گہرے اندھیرے میں کھو گیاہوں، اور اس اندھیارے کے گہرے سمندر سے جوں ہی میں نے اپنا سر اٹھایاتو مجھے چاند کی ایک روشنی دکھائی دی اور میں نے دیکھا کہ ایک صاحب مجھ سے پہلے اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اس کے بعد میں نے زید بن حارث ، علی بن ابی طالب اور ابوبکر صدیق کو دیکھا اور ان سے دریافت کیا: تم یہاں کب سے ہو، انہوں نے کہا : کچھ دیر پہلے ہم یہاں پہنچے ہیں۔
آنکھ کھلی تومجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺ خفیہ طریقے پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی، یوں محسوس ہوا کہ اللہ میری بھلائی چاہتاہے اور اپنے رسول کے ذریعے مجھے اندھیاروں سے روشنی تک پہونچانا چاہتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں تیزی سے آپ ﷺ کی جانب چل پڑا، جیاد کی گھاٹی میں آپ سے ملاقات کی، اس وقت آپﷺنماز عصر ادا فرماچکے تھے، میں نے سلام کیا اوردیکھا کہ میرے علاوہ صرف وہی تین افراد آپ ﷺ کی خدمت میں ہیں جنہیں میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔
سعد رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کے بعد کے حالات یوں سناتے ہیں :جب میری والدہ کو میرے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو بہت سخت ناراض ہوگئیں اور مجھے بلا کر ڈانٹتے ہوئے کہا :سعد! یہ کون سا دین تم نے قبول کرلیا اور اپنی ماں اور باپ کے دین کو چھوڑ بیٹھا۔ اللہ کی قسم یا تو تو اپنا نیا دین چھوڑ دے یا پھر میں موت تک کھانا پینا چھوڑدوں گی، پھر میری موت کے بعد تو اپنے کئے پر پچھتائے گا اورلوگ زندگی بھر تجھے طعنے دیتے رہیں گے۔
میں بولا: ماں ! ایسا نہ کرو، میں کسی بھی قیمت پر اپنا نیا دین نہیں چھوڑنا چاہتا،لیکن وہ دھمکی پر قائم رہی اور عرصہ بیت گیا کہ اس نے کھانے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا، اس کا جسم ڈھل گیا، ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور ہاتھ پیر نے جواب دے دیا، میں وقفے وقفے سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتارہتا اور انہیں اس قدر کھانے پینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا کہ جس سے ان کی زندگی بچ جائے۔ لیکن میرے ہر مطالبے کو وہ شدت سے رد کردیا کرتی اور بار بار قسم کھاتی کہ یا تو میں اپنا نیا دین چھوڑ دوں یا ان کی موت کا انتظار کروں۔
بالآخر میں نے فیصلہ کن انداز میں اپنی ماں کو بتلایا کہ ’’اے ماں! مجھے اللہ اور رسول کے بعدتجھ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن آج تم اچھی طرح سن لو کہ اگر اللہ تمہیں ایک ہزار جان دیااور یکے بعد دیگرے تمہاری جان جاتی رہے تب بھی میں تمہاری جان بچانے کے لئے اپنا دین ہرگز نہ چھوڑوں گا۔
جب میری والدہ نے میرے پختہ ارادے کو بھانپ لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پینا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ہم ماں بیٹوں سے متعلق یہ آیتیں نازل فرمائیں، اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا،ہاں دنیا کے کاموں میں اچھی طرح ساتھ دینا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بھلائی کی راہ دکھلائی اور انہیں دین اسلام کی قبولیت کی جانب راغب کیا، جنگ بدر کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ کا ایثار ناقابل فراموش ہے ، ابھی عمیر رضی اللہ عنہ نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا، ادھر جب آپ ﷺجنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا بنفس نفیس معائنہ فرمایا تو عمیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کے پیچھے چھپ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صغر سنی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ انہیں اپنے ساتھ لے جانے اور جنگ بدر میں شرکت سے منع فرمادیں اور ساتھ ہی زور زور سے رونے لگے،جب آپ ﷺ نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عمیر کا جواب سن کر آپ ﷺ کا دل پسیجا اور آپ نے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، یہ دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ خوشی خوشی سامنے آئے اور اپنے چھوٹے بھائی کے بدن پر تلوار لگائی کیونکہ بچپنے کی وجہ سے عمیر تلوار لگانا بھی نہیں جانتے تھے اور پھر دونوں بھائی اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے، جنگ کے خاتمے پر سعد رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ لوٹے، اس لئے کہ ان کے بھائی شہید کردئیے گئے تھے۔
جنگ احد میں جب مسلم افواج کے قدم اکھڑنے لگے اور آپ ﷺ سے دور ہوتے چلے گئے اور دس افراد سے زیادہ صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد نہ رہے، ایسے نازک اور صبر آزما موقعے پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی کمان سے آپ ﷺ کے دفاع میں تیر برسارہے تھے، ادھر آپ کا تیر کمان سے نکلتا ادھر مشرک ڈھیر ہوجاتا، جب آپ ﷺ نے تیز اندازی کی یہ شان دیکھی تو آپﷺ یہ کہہ کر سعد رضی اللہ عنہ کی ہمت افرائی فرماتے رہے، سعد تیر چلاؤ! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
سعد رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے اس جملے کو زندگی بھر فخریہ انداز میں لوگوں کو سناتے اور فرماتے : سوائے میرے اور کسی کے لئے آپ نے بیک وقت اپنے ماں باپ دونوں کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔
سعد رضی اللہ عنہ اس وقت سعادت کے نقطہ عروج پر پہنچے جب امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اہل فارس سے جنگ کی تیاریاں شروع کیں، امیر المومنین نے اہل فارس کے اثر و رسوخ کو انجام تک پہنچادینے کا فیصلہ کیا نیز فیصلہ فرمایا کہ اب بتوں کی پرستش کے جملہ اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، لہٰذا آپ نے تمام اسلامی ریاستوں کے عمال کو حکم دیا کہ وہ جس قدر ممکن ہو نہ صرف اسلحہ، گھوڑے اور دیگر سامان جنگ مدینہ روانہ کریں بلکہ تاکید کی کہ اگر اس جنگ میں فتح کے لئے کوئی رائے، کسی شاعر کا کلام یا کسی خطیب کا خطبہ ضروری جانو تو بلا تکلف بھیج دو تاکہ ہر محاذ پر مکمل تیاری کے ساتھ یلغار کردی جائے۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہر سمت سے مدینہ منورہ میں مجاہدین کے وفود آنے شروع ہوگئے،جب پوری تیاریاں مکمل ہوگئیں تو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے ذمہ دار اور صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس جنگ میں کسے سپہ سالار بنایا جائے؟ تمام ذمہ داروں نے بیک زبان سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ لہٰذا امیر المومنین نے سعد رضی اللہ عنہ سے استدعا کی اورفوج کا جھنڈا آپ کے حوالے کیا۔
جب اسلامی فوج کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینہ سے روانہ ہونے لگاتو عمر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو الوداع کہتے ہوئے سپہ سالار فوج کویوں نصیحت فرمائی: ’’اے سعد! یہ بات تمہیں کہیں اللہ سے دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تم محمدﷺ کے رشتے دار ہو یا یہ کہ تم صحابی رسول ہو۔ اس لئے کسی گناہ کو گناہ سے نہیں بلکہ ہر گناہ کو نیکی سے مٹاناہے۔اے سعد! کسی بھی شخص اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اطاعت و فرماں برداری کے سوا کوئی رشتہ نہیں، شریف اور بد ذات اللہ کے نزدیک برابر ہیں، اللہ ان کا رب اور وہ سب اس کے بندے ہیں، لیکن اگر ان میں کسی کو کسی پر برتری ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ بھی پائیں گے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے پائیں گے، لہٰذا اے سعد! جس بات کا حکم محمد ﷺ نے دیا ہے یاد رکھو کہ وہی حکم لائق عمل ہے۔
اسلامی فوج کا یہ عظیم قافلہ اس شان سے چل پڑا کہ اس میں ۹۹ صحابہ کرام جنگ بدر کے شریک تھے،۳۱۳ صحابہ کرام بیعت رضوان کے شریک تھے، ۳۰۰صحابہ کرام فتح مکہ کے شریک تھے ۷۰۰صحابہ کرام کی اولاد تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر قادسیہ پہنچے اور مسلمانوں نے اس جنگ کو فیصلہ کن بنادیا،فارس کی فوج کے سپہ سالار ’’رستم‘‘ کا سر مسلمانوں نے اپنے نیزے پر اٹھا رکھا تھا،جس کی وجہ سے اللہ کے دشمنوں کے دلوں میں ایسا رعب بیٹھ گیا کہ مسلم فوجی جس فارسی کو بھی آواز دیتا وہ بلا چوں چرا حاضر ہوجاتا اور اسے قتل کردیا جاتا، بلکہ بعض اوقا ت اسی بلائے جانے والے کا ہتھیار لے کر اسی کے ہتھیار سے مارڈالا جاتااور وہ مارے خوف کے مقابلہ نہ کرتا،بے پناہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی اور انہیں اللہ نے بے پناہ مال و دولت سے نوازا، لیکن جب وفات کی گھڑی آن پہنچی تو آپ نے اپنا پرانا اونی پیراہن طلب فرمایا اور کہا: مجھے اسی پیراہن کا کفن دینا، اس لئے کہ بدر کے موقع پر اسی کو پہن کر میں نے مشرکین سے مقابلہ کیا تھا اور میری دلی خواہش ہے کہ اسی پیراہن کو پہن کر میں اپنے رب سے ملوں۔
ترجمہ: ضیاء الدین بخاری
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
اور ہم نے انسان کو جسے اس کی ماں تکلیف پرتکلیف سہ کر اٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور آخر کار دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کرآنا ہے اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا، ہاں دنیا کے کاموں میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے اس کے رستے پر چلنا، پھر تم کو میری طرف لوٹ کرآنا ہے تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا۔ (سورہ لقمان:۱۴)ان آیتوں کا تعلق ایک ایسے واقعے سے ہے جس میں ایک نوجوان شرکے مقابلے میں خیر اور کفر کے مقابلے میں ایمان کو اپنا مقصد حیات بناتاہے، یہ جس جواں سال کا واقعہ ہے وہ مکہ مکرمہ کے نوجوانوں میں اپنے ماں باپ دونوں کے اعلیٰ اور پر وقار خاندان کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور نوجوان کا نام تھا سعد بن ابی وقاص۔
جن دنوں رسول اللہ ﷺ نے سرزمین مکہ میں نبوت کا اعلان فرمایا تو سعد نو عمر تھے، خوبصورت و جمیل تھے، حد درجہ رحم دل تھے، والدین اور بالخصوص والدہ کا حد درجہ احترام کرتے، عمر کے اعتبار سے وہ صرف سترہ سال کے تھے، لیکن ذہانت، ذکاوت اور بالغ نظری میں بہت سے پختہ عمر آپ کے مقابلے میں بچے دکھائی دیتے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے اپنا بچپن اور بچوں کی طرح کھیل کود اور لہو لعب میں برباد نہیں کیا بلکہ تیر اندازی کمانوں کی درستگی میں وہ اپنا وقت صرف کرتے۔ گویا اس طرح وہ کسی آنے والے بڑے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے، ساتھ ہی اپنی قوم کے مفسد عقیدوں اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے وہ حد درجہ غیر مطمئن رہا کرتے اور یہ محسوس ہوتا کہ انہیں کسی مضبوط ہاتھوں کا انتظار ہے جو ان کی قوم کو ان اندھیاروں سے نکال سکے۔
ان کی انہی کیفیات کے درمیان اللہ تعالی نے عالم انسانیت کے لئے اس انسان کو مبعوث فرمادیا جس کا انتظار تھا اور یہ ہاتھ مخلوق کے سردار محمد بن عبداللہ ﷺ کا اور آپ کے دست مبارک میں نور الٰہی کا وہ ستارہ موجود تھا جو کبھی غروب نہیں ہوتا یعنی ’’اللہ کی کتاب‘‘۔ سعد بن ابی وقاص حق و ہدایت کی اس دعوت کی جانب لپک پڑے اور یہ خوش نصیبی آپ کے حصہ میں آئی کہ آپ تین اولین اسلام قبول کرنے والوں میں تیسرے یا چار اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے تھے اور اکثر سعد رضی اللہ عنہ فخر سے کہا کرتے: میں نے قبول اسلام میں ہفتہ بھر تاخیر کی لیکن بحمدللہ میں اولین اسلام کا تہائی ہوں۔
سعد کے اسلام سے رسول اللہ ﷺ کو بے پناہ مسرت ہوئی، اس لئے کہ آپ میں شرافت کی جملہ علامتیں موجود تھیں جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہلال بہت جلد بدر کامل بن جائے گا اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ نسبی نے مکہ کے دیگر نوجوانوں کو بھی اس امر پر اکسایا کہ وہ بھی اپنے ہم عمر سعد کے نقوش پا کو اپنالیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ سعد رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا ننہال کا رشتہ بھی تھا، اس لئے کہ سعد رضی اللہ عنہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ ﷺ کی والدہ آمنہ بھی اسی قبیلے سے تھیں، لیکن سعد بن ابی وقاص کو قبول اسلام کے بعد اپنی زندگی کے بدترین امتحان سے گزنا پڑا اور بے پناہ روحانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ نوجوان ان تمام دشوار گزار مراحل سے بایں انداز گزر گیا کہ ان کی مدح اور تعریف میں اللہ بزرگ و برتر نے قرآنی آیتیں نازل فرمائیں۔
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اسلام قبول کرنے سے پہلے میں تین راتوں تک ہر رات یہ خواب دیکھتا رہا کہ میں گہرے اندھیرے میں کھو گیاہوں، اور اس اندھیارے کے گہرے سمندر سے جوں ہی میں نے اپنا سر اٹھایاتو مجھے چاند کی ایک روشنی دکھائی دی اور میں نے دیکھا کہ ایک صاحب مجھ سے پہلے اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اس کے بعد میں نے زید بن حارث ، علی بن ابی طالب اور ابوبکر صدیق کو دیکھا اور ان سے دریافت کیا: تم یہاں کب سے ہو، انہوں نے کہا : کچھ دیر پہلے ہم یہاں پہنچے ہیں۔
آنکھ کھلی تومجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺ خفیہ طریقے پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی، یوں محسوس ہوا کہ اللہ میری بھلائی چاہتاہے اور اپنے رسول کے ذریعے مجھے اندھیاروں سے روشنی تک پہونچانا چاہتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں تیزی سے آپ ﷺ کی جانب چل پڑا، جیاد کی گھاٹی میں آپ سے ملاقات کی، اس وقت آپﷺنماز عصر ادا فرماچکے تھے، میں نے سلام کیا اوردیکھا کہ میرے علاوہ صرف وہی تین افراد آپ ﷺ کی خدمت میں ہیں جنہیں میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔
سعد رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کے بعد کے حالات یوں سناتے ہیں :جب میری والدہ کو میرے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو بہت سخت ناراض ہوگئیں اور مجھے بلا کر ڈانٹتے ہوئے کہا :سعد! یہ کون سا دین تم نے قبول کرلیا اور اپنی ماں اور باپ کے دین کو چھوڑ بیٹھا۔ اللہ کی قسم یا تو تو اپنا نیا دین چھوڑ دے یا پھر میں موت تک کھانا پینا چھوڑدوں گی، پھر میری موت کے بعد تو اپنے کئے پر پچھتائے گا اورلوگ زندگی بھر تجھے طعنے دیتے رہیں گے۔
میں بولا: ماں ! ایسا نہ کرو، میں کسی بھی قیمت پر اپنا نیا دین نہیں چھوڑنا چاہتا،لیکن وہ دھمکی پر قائم رہی اور عرصہ بیت گیا کہ اس نے کھانے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا، اس کا جسم ڈھل گیا، ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور ہاتھ پیر نے جواب دے دیا، میں وقفے وقفے سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتارہتا اور انہیں اس قدر کھانے پینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا کہ جس سے ان کی زندگی بچ جائے۔ لیکن میرے ہر مطالبے کو وہ شدت سے رد کردیا کرتی اور بار بار قسم کھاتی کہ یا تو میں اپنا نیا دین چھوڑ دوں یا ان کی موت کا انتظار کروں۔
بالآخر میں نے فیصلہ کن انداز میں اپنی ماں کو بتلایا کہ ’’اے ماں! مجھے اللہ اور رسول کے بعدتجھ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہے لیکن آج تم اچھی طرح سن لو کہ اگر اللہ تمہیں ایک ہزار جان دیااور یکے بعد دیگرے تمہاری جان جاتی رہے تب بھی میں تمہاری جان بچانے کے لئے اپنا دین ہرگز نہ چھوڑوں گا۔
جب میری والدہ نے میرے پختہ ارادے کو بھانپ لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پینا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ہم ماں بیٹوں سے متعلق یہ آیتیں نازل فرمائیں، اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا،ہاں دنیا کے کاموں میں اچھی طرح ساتھ دینا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بھلائی کی راہ دکھلائی اور انہیں دین اسلام کی قبولیت کی جانب راغب کیا، جنگ بدر کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ کا ایثار ناقابل فراموش ہے ، ابھی عمیر رضی اللہ عنہ نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا، ادھر جب آپ ﷺجنگ بدر میں شریک ہونے والوں کا بنفس نفیس معائنہ فرمایا تو عمیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کے پیچھے چھپ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صغر سنی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ انہیں اپنے ساتھ لے جانے اور جنگ بدر میں شرکت سے منع فرمادیں اور ساتھ ہی زور زور سے رونے لگے،جب آپ ﷺ نے رونے کی وجہ دریافت کی تو عمیر کا جواب سن کر آپ ﷺ کا دل پسیجا اور آپ نے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، یہ دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ خوشی خوشی سامنے آئے اور اپنے چھوٹے بھائی کے بدن پر تلوار لگائی کیونکہ بچپنے کی وجہ سے عمیر تلوار لگانا بھی نہیں جانتے تھے اور پھر دونوں بھائی اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے، جنگ کے خاتمے پر سعد رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ لوٹے، اس لئے کہ ان کے بھائی شہید کردئیے گئے تھے۔
جنگ احد میں جب مسلم افواج کے قدم اکھڑنے لگے اور آپ ﷺ سے دور ہوتے چلے گئے اور دس افراد سے زیادہ صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد نہ رہے، ایسے نازک اور صبر آزما موقعے پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی کمان سے آپ ﷺ کے دفاع میں تیر برسارہے تھے، ادھر آپ کا تیر کمان سے نکلتا ادھر مشرک ڈھیر ہوجاتا، جب آپ ﷺ نے تیز اندازی کی یہ شان دیکھی تو آپﷺ یہ کہہ کر سعد رضی اللہ عنہ کی ہمت افرائی فرماتے رہے، سعد تیر چلاؤ! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
سعد رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے اس جملے کو زندگی بھر فخریہ انداز میں لوگوں کو سناتے اور فرماتے : سوائے میرے اور کسی کے لئے آپ نے بیک وقت اپنے ماں باپ دونوں کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔
سعد رضی اللہ عنہ اس وقت سعادت کے نقطہ عروج پر پہنچے جب امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اہل فارس سے جنگ کی تیاریاں شروع کیں، امیر المومنین نے اہل فارس کے اثر و رسوخ کو انجام تک پہنچادینے کا فیصلہ کیا نیز فیصلہ فرمایا کہ اب بتوں کی پرستش کے جملہ اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، لہٰذا آپ نے تمام اسلامی ریاستوں کے عمال کو حکم دیا کہ وہ جس قدر ممکن ہو نہ صرف اسلحہ، گھوڑے اور دیگر سامان جنگ مدینہ روانہ کریں بلکہ تاکید کی کہ اگر اس جنگ میں فتح کے لئے کوئی رائے، کسی شاعر کا کلام یا کسی خطیب کا خطبہ ضروری جانو تو بلا تکلف بھیج دو تاکہ ہر محاذ پر مکمل تیاری کے ساتھ یلغار کردی جائے۔
اس پیغام کے ساتھ ہی ہر سمت سے مدینہ منورہ میں مجاہدین کے وفود آنے شروع ہوگئے،جب پوری تیاریاں مکمل ہوگئیں تو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے ذمہ دار اور صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس جنگ میں کسے سپہ سالار بنایا جائے؟ تمام ذمہ داروں نے بیک زبان سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔ لہٰذا امیر المومنین نے سعد رضی اللہ عنہ سے استدعا کی اورفوج کا جھنڈا آپ کے حوالے کیا۔
جب اسلامی فوج کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینہ سے روانہ ہونے لگاتو عمر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو الوداع کہتے ہوئے سپہ سالار فوج کویوں نصیحت فرمائی: ’’اے سعد! یہ بات تمہیں کہیں اللہ سے دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تم محمدﷺ کے رشتے دار ہو یا یہ کہ تم صحابی رسول ہو۔ اس لئے کسی گناہ کو گناہ سے نہیں بلکہ ہر گناہ کو نیکی سے مٹاناہے۔اے سعد! کسی بھی شخص اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اطاعت و فرماں برداری کے سوا کوئی رشتہ نہیں، شریف اور بد ذات اللہ کے نزدیک برابر ہیں، اللہ ان کا رب اور وہ سب اس کے بندے ہیں، لیکن اگر ان میں کسی کو کسی پر برتری ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ بھی پائیں گے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے پائیں گے، لہٰذا اے سعد! جس بات کا حکم محمد ﷺ نے دیا ہے یاد رکھو کہ وہی حکم لائق عمل ہے۔
اسلامی فوج کا یہ عظیم قافلہ اس شان سے چل پڑا کہ اس میں ۹۹ صحابہ کرام جنگ بدر کے شریک تھے،۳۱۳ صحابہ کرام بیعت رضوان کے شریک تھے، ۳۰۰صحابہ کرام فتح مکہ کے شریک تھے ۷۰۰صحابہ کرام کی اولاد تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر قادسیہ پہنچے اور مسلمانوں نے اس جنگ کو فیصلہ کن بنادیا،فارس کی فوج کے سپہ سالار ’’رستم‘‘ کا سر مسلمانوں نے اپنے نیزے پر اٹھا رکھا تھا،جس کی وجہ سے اللہ کے دشمنوں کے دلوں میں ایسا رعب بیٹھ گیا کہ مسلم فوجی جس فارسی کو بھی آواز دیتا وہ بلا چوں چرا حاضر ہوجاتا اور اسے قتل کردیا جاتا، بلکہ بعض اوقا ت اسی بلائے جانے والے کا ہتھیار لے کر اسی کے ہتھیار سے مارڈالا جاتااور وہ مارے خوف کے مقابلہ نہ کرتا،بے پناہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔
سعد رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی اور انہیں اللہ نے بے پناہ مال و دولت سے نوازا، لیکن جب وفات کی گھڑی آن پہنچی تو آپ نے اپنا پرانا اونی پیراہن طلب فرمایا اور کہا: مجھے اسی پیراہن کا کفن دینا، اس لئے کہ بدر کے موقع پر اسی کو پہن کر میں نے مشرکین سے مقابلہ کیا تھا اور میری دلی خواہش ہے کہ اسی پیراہن کو پہن کر میں اپنے رب سے ملوں۔
کہانی ایک مومن خاتون کی
عبد ا لصبور ندوی جھنڈا نگری
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نیک شخص نے نہایت خوبرو و پرہیز گار خاتون سے شادی کی، دونوں ایک دوسرے سے خوب محبت کرتے تھے، مسرت بھرے دن گزر رہے تھے،ایک مرتبہ شوہر کو طلب رزق کے لئے سفر کی حاجت آپڑی، فکر لاحق ہوئی کہ اپنی بیوی کو گھر میں تنہا کیسے چھوڑے، قرابت داروں میں کسی معتبر شخص کی تلاش شروع کی، اسے اپنے سگے بھائی کے علاوہ کوئی معتبر ذمہ دار نہ ملا، بھائی کے گھر میں بیوی کو چھوڑا ، مگر پیارے نبیﷺ کا یہ فرمان بھول گیا ’’الحمو الموت‘‘ دیور موت ہے، اور وہ سفر پر روانہ ہوگیا۔
دن گزرتے گئے، ایک روز دیور نے اپنی بھابھی کو شہوت رانی پر اکسایا، مگر اس پاکباز خاتون نے اسے سختی سے ڈانٹا اور کہا : تم چاہتے ہو کہ میری عزت کی دھجیاں بکھیرو اور میں شوہر کی خائن بن جاؤں، ہرگز نہیں! دیور نے بھابھی کو رسوا کرنے کی دھمکی دی ، مگر بھابھی پر دھمکی کا اثر نہیں ہوا، کہا :تم جو کرنا چاہو کرو، میرے ساتھ میرا رب ہے۔ اس نیک خاتون کا شوہر جب سفر سے لوٹا تو اس کے بھائی نے فوراً اپنی بھابھی پر الزام لگادیا کہ تمہاری بیوی نے مجھے بدکاری پر اکسایا تھالیکن میں نے منع کیا، شوہر نے بغیر سوچے سمجھے اسی وقت پارسا بیوی کو طلاق دیدی اور کہا: مجھے اپنی بیوی سے کچھ نہیں سننا ہے، میرا بھائی سچا ہے۔
وہ متقی اور خدا ترس خاتون گھر سے انجان منزل کی طرف نکل پڑی، راستے میں ایک عابد و زاہد کا گھر پڑا، دروازہ پر دستک دی اور اپنی ساری کہانی عابد سے کہہ ڈالی، اس عبادت گزار بندے نے اپنے چھوٹے بیٹے کی نگہداشت پر اسے مامور کردیا، ایک دن عابد گھر سے کسی کام کے لئے باہر گیا، گھر کا نوکر موقع پاکر اس خاتون پر ڈورے ڈالنے لگا، مگر عزم و ثبات کی پیکر نے اللہ کی معصیت سے انکار کیا، اور کہا: نبی ﷺ نے ہم سب کو تنبیہ کی ہے کہ کوئی شخص کسی اجنبی خاتون کے ساتھ خلوت میں ہرگز نہ ہو، اس لئے کہ ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے، نوکر نے خاتون کو دھمکی دی کہ میں تمہیں بڑی مصیبت میں پھنسا دونگا، مگر اس پیکر عفت کے پاؤں میں لغزش بھی نہیں آئی، نوکر نے عابد کے بچے کو قتل کردیا اور عابد کے گھر لوٹنے پر قتل کا الزام اس خاتون پر عائد کردیا، اس اللہ والے عابد کو غصہ تو بہت آیا مگر اللہ سے اجر کی امید باندھ کر صبر کر گیا، دو دینار اجرت کے طور پر خاتون کو دئے اور گھر چھوڑنے کا حکم دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: غصہ پی جانے والوں اور عفو ودرگزر کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے۔
عابد کا گھر چھوڑا ،شہر کی طرف رخ کیا، وہاں دیکھا کہ ایک بھیڑ ایک شخص کو پیٹے جارہی ہے، اس نے پوچھا تم لوگ اسے کیوں مار رہے ہو؟ ایک آدمی نے بتایا اس کے ذمہ قرض ہے یا تو قرض ادا کرے یا ہماری غلامی کرے، خاتون نے پوچھا اس پر کتنا قرض ؟ کہا: دو دینار، اس پر خاتون نے انہیں دو دینار دیکر اس شخص کو آزاد کرایا، آزاد ہونے والے شخص نے پوچھا تم کون ہو؟ اس خاتون نے اپنی پوری کہانی بیان کردی، اس پر اس آدمی نے کہا: کہ ہم دونوں ساتھ کام کریں گے اور نفع برابر بانٹ لیں گے، خاتون نے حامی بھر دی، اس آدمی نے کہا: ہم یہ گندی بستی چھوڑ کر سمندری سفر پر نکلتے ہیں، خاتون نے کہا ٹھیک ہے، دونوں کشتی کے پاس پہونچے ، نوجوان نے کہا کہ پہلے تم کشتی پر سوار ہو، وہ سوار ہوگئی اور وہ شخص کشتی کے مالک کے پاس گیا اور کہا: یہ میری لونڈی ہے میں اسے فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ کشتی کے مالک نے پیسے چکائے اور خاتون کو اس کی لاعلمی میں اسے خرید لیا، وہ شخص پیسہ لیکر بھاگ نکلا، کشتی روانہ ہوئی، خاتون اس شخص کو ڈھونڈنے لگی مگر نہیں پایا، کشتی کے عملہ نے اسے گھیر لیا اور اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے، خاتون کو تعجب ہوا، اس پر کشتی کے کپتان نے بتایا کہ میں نے تمہیں تمہارے مالک سے خرید لیا ہے اور اب تم وہ سب کرو جس کا حکم دیا جائے، اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا: میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتی مجھے چھوڑ دو ، یہ کہنا ہی تھا کہ سمندر میں آندھی اور طوفان آیا، کشتی ڈوب گئی ، جہاز کا عملہ اور سارے مسافر ڈوب گئے لیکن وہ صابر خاتون بچ گئی، اس وقت امیر شہر ساحل سمندر پر تفریح میں مشغول تھا، بے موسم کی آندھی کو دیکھ کر وہ بھی گھبرایا لیکن اس کا اثر ساحل پر نہیں تھا، پھر یکایک اس کی نگاہ اس خاتون پر پڑی جو ایک تختہ کے سہارے ساحل کی طرف آرہی تھی، امیر نے گارڈوں کو حکم دیا کہ اسے میرے پاس لایا جائے۔
اس خاتون کو محل لے جایا گیا، ماہر اطباء کی نگرانی میں اس کا علاج شروع ہوا، جب اسے افاقہ ہوا تو امیر شہر نے اس سے دریافت کیا تو اس نے ساری حکایت بیان کر ڈالی، دیور کی خیانت سے لیکر کشتی والوں کی شرارت تک سارے واقعے بیان کئے، حاکم شہر کو اس کے صبر نے موہ لیااور اس سے شادی کرلی، امور سلطنت میں مشیر کار کی حیثیت ملی اور چند ہی دنوں میں اس کی زبردست رائے اور قوت فیصلہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
وقت گزرتا رہا، نیک حاکم کا انتقال ہوگیا، اعیان شہر اکٹھا ہوئے، کہ کس کو اب حاکم بنایا جائے، متفقہ طور پہ لوگوں نے اس ذہین اور عاقل خاتون (زوجۂ امیر شہر) کو اپنا امیر منتخب کرلیا، حاکم بنتے ہی اس خاتون نے ایک وسیع میدان میں کرسی لگانے کا اور شہر کے تمام مردوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا، تمام مرد حضرات اس کے سامنے سے گزرنے لگے، اس نے اپنے سابق شوہر کو دیکھا اور کنارے ہوجانے کا اشارہ کیا، پھر اس کے بھائی (دیور) کو کنارے ہونے کا حکم دیا، عابد کو بھی ایک کنارے کیا، پھر اس نے عابد کے نوکر کو دیکھا اسے بھی مجمع سے الگ کھڑے ہونے کا حکم دیا پھر اس خبیث شخص کو دیکھا جسے اس خاتون نے آزاد کرایا تھا، اسے بھی کنارے کھڑے ہونے کا حکم دیا۔
اب باری باری فیصلہ کرنے لگی، سب سے پہلے سابق شوہر سے مخاطب ہوئی: تم کو تمہارے بھائی نے دھوکے میں رکھا اس لئے بری ہو، لیکن تمہارے بھائی کو حد قذف لگائی جائے گی اس لئے کہ اس نے مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی تھی، پھر عابد سے مخاطب ہوئی اور کہا: تم کو تمہارے خادم نے گمراہ کیا لہٰذا تم بھی بری ہو ، لیکن تمہارا خادم قصاصاً قتل کیا جائے گا، کیونکہ اسی نے تمہارے بچے کو قتل کیا تھا، پھر وہ مخاطب ہوئی اس خبیث سے: تمہیں حبس دوام کی سزا دی جاتی ہے، تمہاری خیانت اور ایسی عورت کو فروخت کردینے کے جرم میں، جس نے تجھے غلامی سے نجات دلائی تھی۔
اللہ کی ذات پاک ہے ، کسی کے اچھے عمل کو ضائع ہونے نہیں دیتا، فرماتا ہے: جو اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے ایسے راستے ہموار کردیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان نہیں ہوتا۔
دیکھا آپ نے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کرب و بلاء میں گرفتار خاتون کی مدد کی، تقویٰ مومن کا شعار ہے یہ شعار ہمیشہ باقی رہنا چاہئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ ہی کی وجہ سے سخت حالات کو موافق و سازگار بنادیتا ہے۔ (عربی سے ترجمہ
کہانی ایک مومن خاتون کی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نیک شخص نے نہایت خوبرو و پرہیز گار خاتون سے شادی کی، دونوں ایک دوسرے سے خوب محبت کرتے تھے، مسرت بھرے دن گزر رہے تھے،ایک مرتبہ شوہر کو طلب رزق کے لئے سفر کی حاجت آپڑی، فکر لاحق ہوئی کہ اپنی بیوی کو گھر میں تنہا کیسے چھوڑے، قرابت داروں میں کسی معتبر شخص کی تلاش شروع کی، اسے اپنے سگے بھائی کے علاوہ کوئی معتبر ذمہ دار نہ ملا، بھائی کے گھر میں بیوی کو چھوڑا ، مگر پیارے نبیﷺ کا یہ فرمان بھول گیا ’’الحمو الموت‘‘ دیور موت ہے، اور وہ سفر پر روانہ ہوگیا۔
دن گزرتے گئے، ایک روز دیور نے اپنی بھابھی کو شہوت رانی پر اکسایا، مگر اس پاکباز خاتون نے اسے سختی سے ڈانٹا اور کہا : تم چاہتے ہو کہ میری عزت کی دھجیاں بکھیرو اور میں شوہر کی خائن بن جاؤں، ہرگز نہیں! دیور نے بھابھی کو رسوا کرنے کی دھمکی دی ، مگر بھابھی پر دھمکی کا اثر نہیں ہوا، کہا :تم جو کرنا چاہو کرو، میرے ساتھ میرا رب ہے۔ اس نیک خاتون کا شوہر جب سفر سے لوٹا تو اس کے بھائی نے فوراً اپنی بھابھی پر الزام لگادیا کہ تمہاری بیوی نے مجھے بدکاری پر اکسایا تھالیکن میں نے منع کیا، شوہر نے بغیر سوچے سمجھے اسی وقت پارسا بیوی کو طلاق دیدی اور کہا: مجھے اپنی بیوی سے کچھ نہیں سننا ہے، میرا بھائی سچا ہے۔
وہ متقی اور خدا ترس خاتون گھر سے انجان منزل کی طرف نکل پڑی، راستے میں ایک عابد و زاہد کا گھر پڑا، دروازہ پر دستک دی اور اپنی ساری کہانی عابد سے کہہ ڈالی، اس عبادت گزار بندے نے اپنے چھوٹے بیٹے کی نگہداشت پر اسے مامور کردیا، ایک دن عابد گھر سے کسی کام کے لئے باہر گیا، گھر کا نوکر موقع پاکر اس خاتون پر ڈورے ڈالنے لگا، مگر عزم و ثبات کی پیکر نے اللہ کی معصیت سے انکار کیا، اور کہا: نبی ﷺ نے ہم سب کو تنبیہ کی ہے کہ کوئی شخص کسی اجنبی خاتون کے ساتھ خلوت میں ہرگز نہ ہو، اس لئے کہ ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے، نوکر نے خاتون کو دھمکی دی کہ میں تمہیں بڑی مصیبت میں پھنسا دونگا، مگر اس پیکر عفت کے پاؤں میں لغزش بھی نہیں آئی، نوکر نے عابد کے بچے کو قتل کردیا اور عابد کے گھر لوٹنے پر قتل کا الزام اس خاتون پر عائد کردیا، اس اللہ والے عابد کو غصہ تو بہت آیا مگر اللہ سے اجر کی امید باندھ کر صبر کر گیا، دو دینار اجرت کے طور پر خاتون کو دئے اور گھر چھوڑنے کا حکم دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: غصہ پی جانے والوں اور عفو ودرگزر کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے۔
عابد کا گھر چھوڑا ،شہر کی طرف رخ کیا، وہاں دیکھا کہ ایک بھیڑ ایک شخص کو پیٹے جارہی ہے، اس نے پوچھا تم لوگ اسے کیوں مار رہے ہو؟ ایک آدمی نے بتایا اس کے ذمہ قرض ہے یا تو قرض ادا کرے یا ہماری غلامی کرے، خاتون نے پوچھا اس پر کتنا قرض ؟ کہا: دو دینار، اس پر خاتون نے انہیں دو دینار دیکر اس شخص کو آزاد کرایا، آزاد ہونے والے شخص نے پوچھا تم کون ہو؟ اس خاتون نے اپنی پوری کہانی بیان کردی، اس پر اس آدمی نے کہا: کہ ہم دونوں ساتھ کام کریں گے اور نفع برابر بانٹ لیں گے، خاتون نے حامی بھر دی، اس آدمی نے کہا: ہم یہ گندی بستی چھوڑ کر سمندری سفر پر نکلتے ہیں، خاتون نے کہا ٹھیک ہے، دونوں کشتی کے پاس پہونچے ، نوجوان نے کہا کہ پہلے تم کشتی پر سوار ہو، وہ سوار ہوگئی اور وہ شخص کشتی کے مالک کے پاس گیا اور کہا: یہ میری لونڈی ہے میں اسے فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ کشتی کے مالک نے پیسے چکائے اور خاتون کو اس کی لاعلمی میں اسے خرید لیا، وہ شخص پیسہ لیکر بھاگ نکلا، کشتی روانہ ہوئی، خاتون اس شخص کو ڈھونڈنے لگی مگر نہیں پایا، کشتی کے عملہ نے اسے گھیر لیا اور اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے، خاتون کو تعجب ہوا، اس پر کشتی کے کپتان نے بتایا کہ میں نے تمہیں تمہارے مالک سے خرید لیا ہے اور اب تم وہ سب کرو جس کا حکم دیا جائے، اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا: میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتی مجھے چھوڑ دو ، یہ کہنا ہی تھا کہ سمندر میں آندھی اور طوفان آیا، کشتی ڈوب گئی ، جہاز کا عملہ اور سارے مسافر ڈوب گئے لیکن وہ صابر خاتون بچ گئی، اس وقت امیر شہر ساحل سمندر پر تفریح میں مشغول تھا، بے موسم کی آندھی کو دیکھ کر وہ بھی گھبرایا لیکن اس کا اثر ساحل پر نہیں تھا، پھر یکایک اس کی نگاہ اس خاتون پر پڑی جو ایک تختہ کے سہارے ساحل کی طرف آرہی تھی، امیر نے گارڈوں کو حکم دیا کہ اسے میرے پاس لایا جائے۔
اس خاتون کو محل لے جایا گیا، ماہر اطباء کی نگرانی میں اس کا علاج شروع ہوا، جب اسے افاقہ ہوا تو امیر شہر نے اس سے دریافت کیا تو اس نے ساری حکایت بیان کر ڈالی، دیور کی خیانت سے لیکر کشتی والوں کی شرارت تک سارے واقعے بیان کئے، حاکم شہر کو اس کے صبر نے موہ لیااور اس سے شادی کرلی، امور سلطنت میں مشیر کار کی حیثیت ملی اور چند ہی دنوں میں اس کی زبردست رائے اور قوت فیصلہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
وقت گزرتا رہا، نیک حاکم کا انتقال ہوگیا، اعیان شہر اکٹھا ہوئے، کہ کس کو اب حاکم بنایا جائے، متفقہ طور پہ لوگوں نے اس ذہین اور عاقل خاتون (زوجۂ امیر شہر) کو اپنا امیر منتخب کرلیا، حاکم بنتے ہی اس خاتون نے ایک وسیع میدان میں کرسی لگانے کا اور شہر کے تمام مردوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا، تمام مرد حضرات اس کے سامنے سے گزرنے لگے، اس نے اپنے سابق شوہر کو دیکھا اور کنارے ہوجانے کا اشارہ کیا، پھر اس کے بھائی (دیور) کو کنارے ہونے کا حکم دیا، عابد کو بھی ایک کنارے کیا، پھر اس نے عابد کے نوکر کو دیکھا اسے بھی مجمع سے الگ کھڑے ہونے کا حکم دیا پھر اس خبیث شخص کو دیکھا جسے اس خاتون نے آزاد کرایا تھا، اسے بھی کنارے کھڑے ہونے کا حکم دیا۔
اب باری باری فیصلہ کرنے لگی، سب سے پہلے سابق شوہر سے مخاطب ہوئی: تم کو تمہارے بھائی نے دھوکے میں رکھا اس لئے بری ہو، لیکن تمہارے بھائی کو حد قذف لگائی جائے گی اس لئے کہ اس نے مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی تھی، پھر عابد سے مخاطب ہوئی اور کہا: تم کو تمہارے خادم نے گمراہ کیا لہٰذا تم بھی بری ہو ، لیکن تمہارا خادم قصاصاً قتل کیا جائے گا، کیونکہ اسی نے تمہارے بچے کو قتل کیا تھا، پھر وہ مخاطب ہوئی اس خبیث سے: تمہیں حبس دوام کی سزا دی جاتی ہے، تمہاری خیانت اور ایسی عورت کو فروخت کردینے کے جرم میں، جس نے تجھے غلامی سے نجات دلائی تھی۔
اللہ کی ذات پاک ہے ، کسی کے اچھے عمل کو ضائع ہونے نہیں دیتا، فرماتا ہے: جو اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے ایسے راستے ہموار کردیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان نہیں ہوتا۔
دیکھا آپ نے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کرب و بلاء میں گرفتار خاتون کی مدد کی، تقویٰ مومن کا شعار ہے یہ شعار ہمیشہ باقی رہنا چاہئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ ہی کی وجہ سے سخت حالات کو موافق و سازگار بنادیتا ہے۔ (عربی سے ترجمہ
مولانا محمد عمر سلفی، ایک باکمال مربی
مطیع اللہ المدنی
مولانا محمد عمر صاحب کا قدیم آبائی وطن ٹیرا ٹکرا، بارہ بنکی تھا، آپ کے والد گرامی نقل مکانی کرکے ضلع گونڈہ کے کرنیل گنج کے قریب موضع سسئی چلے آئے وہیں پر ۱۹۲۰ء میں مولانا کی ولادت ہوئی، پھر والد نے اس گاؤں کو ترک کرکے قریہ دال ڈیہہ، گونڈہ اور آخر میں قریہ اوسانی ، فیروز آباد، گونڈہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد جماعت کے معروف مدرسہ ’’سراج العلوم‘‘ بونڈیہار میں عربی تعلیم کا آغاز کیااور اس کے بعد مدرسہ عالیہ عربیہ ، مؤ ناتھ بھنجن میں داخلہ لے کر جماعت رابعہ تک کی تعلیم مکمل کی، پھر آپ نے دہلی کا رخت سفر باندھا اور محلہ کشن گنج کے مدرسہ سعیدیہ میں داخل ہوکر مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑھی رحمہ اللہ سے خصوصی طورپر بھرپور استفادہ کیا، آپ کی علمی شخصیت کی تعمیرمیں انہیں دونوں بزرگوں کا زبردست اثر تھا ۱۹۴۰ء میں اسی مدرسہ سے سند فراغت حاصل کی۔
مولانا محمد عمر صاحب نے پوری حیات مستعار تدریسی خدمات کی انجام دہی میں صرف کی اور جب تک جسم میں تاب و توانائی باقی تھی اسی اشرف ترین عمل سے وابستہ رہے۔
آپ کی تدریس کا زمانہ بہت طویل ہے ۱۹۴۰ء کے بعد سے۲۰۰۴ء تک جب تلک مکمل طور پر معذور نہ تھے آپ نے تدریس کا شغل جاری رکھا۔
اس طویل مدت میں آپ نے متعدد مدارس و جامعات میں تدریسی و تربیتی اور دعوتی کام انجام دیا جس کی مختصر تفصیل یہ ہے:
فارغ التحصیل ہونے کے بعدقصبہ بارہ، ضلع غازی پور میں ایک سال مدرس رہے، پھر ریاست پٹیالہ پنجاب میں تعلیمی خدمات پر مامور ہوئے ۱۹۴۷ء کے بعد ایک سال تک ناگپور، مہاراشٹر میں بطور مدرس و داعی کام کیا۔
اس کے بعد آپ مغربی بنگال کے ایک معروف مدرسہ شمس الہدیٰ، دلال پور میں برسوں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اسی اثناء میں آپ نے بنگالی زبان سیکھی اور اس میں مہارت پیدا کی اس طرح آپ اردو، عربی اور بنگلہ زبان کے ماہر تھے فارسی میں بھی آپ کو درک حاصل تھا۔
۱۹۶۴ء کا زمانہ تھا جب آپ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے اور صرف ایک سال تک وہاں پر ان کا قیام رہا، پھر ۱۹۶۵ء سے ۲۰۰۴ء تک مسلسل ۳۹؍برس تک مدرسہ سراج العلوم ، کنڈؤ،بونڈیہار سے وابستہ رہے، بہرنوع خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ نے وہاں پر تدریسی، تربیتی، دعوتی کام انتہائی اخلاص، دیانت، لگن اور دل سوزی کے ساتھ انجام دیا۔ اور آپ اور سراج العلوم دونوں کا نام لازم و ملزوم ہوگیا۔
ایک وقت تھاجب بستی و گونڈہ کے چند مدارس اپنی تعلیم و تربیت میں اپنی شہرت آپ تھے۔ان دنوں اکثر مدارس بتی و گونڈہ میں جماعت رابعہ اور اس سے نیچے کے درجات تک کی تعلیم ہوتی تھی۔ ان کا تعلیمی معیار اور تربیتی مقام و مرتبہ بہت بلند تھا، ان میں بقیۃالسلف حضرۃ العلام المحدث الکبیر ابوالعلی عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃالاحوذی کا قائم کردہ مدرسہ سراج العلوم بونڈیہارسرفہرست تھا۔
اس ادارہ میں تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ۱۹۶۵ء کے بعد سے مولانا ابوالعرفان محمد عمر صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ انتظامی ذمہ دار مولانا محمد اقبال صاحب رحمانی رحمہ اللہ تھے اور مولانا رحمانی علیہ الرحمہ انتظام و انصرام کی گوناگوں ذمہ داریوں کے ساتھ بعض کتابوں کی تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔آپ کے بلوغ المرام کی تدریس، انداز واسلوب تدریس کا بڑا شہرہ تھا۔
مولانا محمد عمر صاحب اس مدرسہ کے صدر المدرسین تھے اور اہم اسباق آپ کے ذمہ ہوتے تھے اور ان کے ساتھ باذوق باصلاحیت اساتذہ کی ٹیم تھی جو شبانہ روز محنت ومشقت اور اخلاص و دیانت کے ساتھ محو عمل تھی اور طلبہ بھی محنت و مشقت کے عادی بنائے جاتے تھے۔
صدر مدرس مولانامحمد عمر صاحب کی نگرانی اور شب وروز کی جد وجہد اور ساتھ ہی ان کی سخت گیری نیز تعلیم و تربیت میں بہترین اسوہ ہونے، ان کی بے لوث خدمت اور بے غرض تربیت و تزکیہ کا بہتر نتیجہ یہ تھا اس مدرسہ کی تعلیم و تربیت مثالی بن چکی تھی۔نہ جانے کتنے لعل و گہر پیدا ہوئے اور اپنا اور اپنے اساتذہ اور مدرسہ کا نام روشن کیا۔
ان سے استفادہ کرنے والوں کا بیان ہے کہ مولانا سخت گیر تھے بسا اوقات تادیبی سزا دینے میں بھی قدرے سختی کا مظاہرہ ہوتاتھا۔
آپ کی طبعی افتاد شان جلالی کی آئینہ دار تھی، اس ظاہری شان جلالی کے ساتھ وہ شان جمالی بھی رکھتے تھے، در حقیقت مدراس کی دنیا میں ظاہری سخت گیری کا رویہ ہی طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہتر نتیجہ کا باعث بنتا ہے، ورنہ جن مدارس میں حد درجہ نرمی پائی جاتی ہے وہاں پر بے راہ روی کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، عمومی طور پر وہاں علمی معیار قائم نہیں ہوپاتا ہے۔اور تربیتی کمزوری عام ہوتی ہیں۔
سراج العلوم بونڈیہار کے تعلق سے شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہاں پر مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اللہ کی شان جمالی نرم خوئی، ملاطفت اور پدرانہ شفقت اور مولانا محمد عمرسلفی رحمہ اللہ کی شان جلالی، رعب دار شخصیت اور تربیت و تہذیب کے باب میں بظاہر سخت گیری اور ساتھ ہی باطنی رحم دلی کا نتیجہ تھا کہ سراج العلوم کے طلبہ ممتاز اور لائق و فائق ثابت ہوئے۔
مولانا کا یہ زبردست کا رنامہ ہے کہ ۳۹؍سال تک ایک مدرسہ میں رہ کر زندگی بسر کردی، اپنی زبردست خدمت کے ذریعہ مدرسہ کو نیک نام کیا اور اسے بام عروج پر پہونچایا۔ اور درجات علیا کی تعلیم کا بندوبست ہوا اور وہاں فضیلت تک کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
آپ اس مدرسہ میں شیخ الحدیث تھے، عرصہ تک درس صحیحین دیا، مولانا اقبال صاحب رحمانی کی وفات کے بعد آپ ہی جامعہ کے داخلی و خارجی معاملات کے منتظم رہے اور اپنی کاوش مسلسل اور سعی پیہم سے ادارہ کو ترقی کی راہوں پر لے آئے۔
طلبہ سراج العلوم بونڈیہار اپنے اس محسن اور مشفق مربی کا ذکر جمیل کرتے رہتے ہیں، جس نے نام لیا ادب و احترام کا سمندر موجزن ہونے لگتا، محبتوں کا دریا رواں ہوجاتا، کسی کی عنداللہ مقبولیت کا یہی تو معیار ہے۔
آپ ایک طرف ماہر و کہنہ مشق مدرس تھے وہیں آپ انتہائی عمدہ مربی تھے تو دوسری طرف آپ میدان دعوت و ارشاد کے ایک سرگرم مخلص داعی و مبلغ تھے۔
آپ علاقہ و جوار کے دینی اجلاس اور اصلاحی پروگرام میں شرکت فرماکر لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے، آپ کا وعظ کتاب و سنت کے دلائل سے مدلل ہوتا تھا، انداز سادہ ہوا کرتا تھا۔آپ جمعیت و جماعت سے وابستہ رہے، ایک عرصہ تک ضلع گونڈہ کی جمعیت اہل حدیث کے صدر رہ چکے ہیں اور اس پلیٹ فارم سے دعوتی و اصلاحی تعلیمی و تنظیمی خدمات انجام دے چکے ہیں۔اور صوبائی و مرکزی جمعیت کے ساتھ دعوتی کاز میں ہمیشہ تعاون کرتے رہے، آپ مرکز ابوالکلام آزاد للتوعیہ الاسلامیہ نئی دہلی کے ممبر اور سابق نائب صدر مجلس منتظمہ رہ چکے ہیں۔
آپ نے جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں تدریس کے ساتھ افتاء کا کام بھی کیا ہے اور شرعی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے، اگر آپ کے فتاؤوں کا تحریری ریکارڈ جامعہ سراج العلوم میں موجود ہو تو وہاں کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ کسی معتبر عالم دین کی تحقیق و جائزہ کے ساتھ ان فتاؤوں کی طباعت کا اہتمام کریں تاکہ افادیت عام ہو سکے۔
آپ کی تدریسی اور دیگر گوناگوں دعوتی و تربیتی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکوڑ کانفرنس میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہی ۲۰۰۴ء کا زمانہ تھا جب آپ درس وتدریس سے معذوری کی بناپر کنارہ کش ہوگئے۔
اوصاف و اخلاق میں مولانا محمد عمرسلفی صاحب بہت بلند مقام پر فائز تھے، عادات و اطوار، اخلاق و معاملات ، عقائد ومعاملات میں آپ سلف صالح کا نمونہ تھے، آپ جرأت بے باکی اور حق گوئی وصداقت شعاری کا پیکر تھے، امربالمعروف و نہی عن المنکر کے متعلق کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
آپ ایک شب زندہ دار عالم دین تھے، اس عصر حاضر میں آپ جیسی مغتنم شخصیت کا وجود تقریباً معدوم ہے۔ علم وفن اور بحث و تحقیق کے شہ سواروں کی یقیناًکثرت ہے مگر ’’ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے ‘‘والی بات خال خال علماء ہی میں پائی جاتی ہے۔
مولانا کے تلامذہ کی ایک بہت بڑی تعداد علم و دعوت کے میدان میں سرگرم عمل ہے، یہ ہزاروں کی تعداد میں آپ سے حسب استعداد استفادہ کرنے والے تلامذہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے ۔ ان شاء اللہ۔
آپ کے پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ان میں برادر مکرم مولانا عبیدالرحمن سلفی سے میری واقفیت ہے وہ جامعہ سلفیہ بنارس کے فارغ التحصیل ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی جملہ اولاد کو بھی آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔اللہ رب العالمین آپ کی بشری لغزشوں سے درگذر کرتے ہوئے ان کے حسنات کو قبول کرکے بال بال مغفرت فرمائے۔ آمین۔
***
مولانا محمد عمر سلفی، ایک باکمال مربی
جماعت کے ایک انتہائی بزرگ عالم دین، باکمال مدرس، بے لوث مربی زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت میں نمونۂ سلف، شیخ الحدیث مولانا أبوالعرفان محمد عمر سلفی طویل عرصہ تک علیل رہنے کے بعد بالآخر ۹؍مارچ ۲۰۱۰ء کو انتقال کر گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔مولانا محمد عمر صاحب کا قدیم آبائی وطن ٹیرا ٹکرا، بارہ بنکی تھا، آپ کے والد گرامی نقل مکانی کرکے ضلع گونڈہ کے کرنیل گنج کے قریب موضع سسئی چلے آئے وہیں پر ۱۹۲۰ء میں مولانا کی ولادت ہوئی، پھر والد نے اس گاؤں کو ترک کرکے قریہ دال ڈیہہ، گونڈہ اور آخر میں قریہ اوسانی ، فیروز آباد، گونڈہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد جماعت کے معروف مدرسہ ’’سراج العلوم‘‘ بونڈیہار میں عربی تعلیم کا آغاز کیااور اس کے بعد مدرسہ عالیہ عربیہ ، مؤ ناتھ بھنجن میں داخلہ لے کر جماعت رابعہ تک کی تعلیم مکمل کی، پھر آپ نے دہلی کا رخت سفر باندھا اور محلہ کشن گنج کے مدرسہ سعیدیہ میں داخل ہوکر مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑھی رحمہ اللہ سے خصوصی طورپر بھرپور استفادہ کیا، آپ کی علمی شخصیت کی تعمیرمیں انہیں دونوں بزرگوں کا زبردست اثر تھا ۱۹۴۰ء میں اسی مدرسہ سے سند فراغت حاصل کی۔
مولانا محمد عمر صاحب نے پوری حیات مستعار تدریسی خدمات کی انجام دہی میں صرف کی اور جب تک جسم میں تاب و توانائی باقی تھی اسی اشرف ترین عمل سے وابستہ رہے۔
آپ کی تدریس کا زمانہ بہت طویل ہے ۱۹۴۰ء کے بعد سے۲۰۰۴ء تک جب تلک مکمل طور پر معذور نہ تھے آپ نے تدریس کا شغل جاری رکھا۔
اس طویل مدت میں آپ نے متعدد مدارس و جامعات میں تدریسی و تربیتی اور دعوتی کام انجام دیا جس کی مختصر تفصیل یہ ہے:
فارغ التحصیل ہونے کے بعدقصبہ بارہ، ضلع غازی پور میں ایک سال مدرس رہے، پھر ریاست پٹیالہ پنجاب میں تعلیمی خدمات پر مامور ہوئے ۱۹۴۷ء کے بعد ایک سال تک ناگپور، مہاراشٹر میں بطور مدرس و داعی کام کیا۔
اس کے بعد آپ مغربی بنگال کے ایک معروف مدرسہ شمس الہدیٰ، دلال پور میں برسوں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اسی اثناء میں آپ نے بنگالی زبان سیکھی اور اس میں مہارت پیدا کی اس طرح آپ اردو، عربی اور بنگلہ زبان کے ماہر تھے فارسی میں بھی آپ کو درک حاصل تھا۔
۱۹۶۴ء کا زمانہ تھا جب آپ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے اور صرف ایک سال تک وہاں پر ان کا قیام رہا، پھر ۱۹۶۵ء سے ۲۰۰۴ء تک مسلسل ۳۹؍برس تک مدرسہ سراج العلوم ، کنڈؤ،بونڈیہار سے وابستہ رہے، بہرنوع خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ نے وہاں پر تدریسی، تربیتی، دعوتی کام انتہائی اخلاص، دیانت، لگن اور دل سوزی کے ساتھ انجام دیا۔ اور آپ اور سراج العلوم دونوں کا نام لازم و ملزوم ہوگیا۔
ایک وقت تھاجب بستی و گونڈہ کے چند مدارس اپنی تعلیم و تربیت میں اپنی شہرت آپ تھے۔ان دنوں اکثر مدارس بتی و گونڈہ میں جماعت رابعہ اور اس سے نیچے کے درجات تک کی تعلیم ہوتی تھی۔ ان کا تعلیمی معیار اور تربیتی مقام و مرتبہ بہت بلند تھا، ان میں بقیۃالسلف حضرۃ العلام المحدث الکبیر ابوالعلی عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃالاحوذی کا قائم کردہ مدرسہ سراج العلوم بونڈیہارسرفہرست تھا۔
اس ادارہ میں تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ۱۹۶۵ء کے بعد سے مولانا ابوالعرفان محمد عمر صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ انتظامی ذمہ دار مولانا محمد اقبال صاحب رحمانی رحمہ اللہ تھے اور مولانا رحمانی علیہ الرحمہ انتظام و انصرام کی گوناگوں ذمہ داریوں کے ساتھ بعض کتابوں کی تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔آپ کے بلوغ المرام کی تدریس، انداز واسلوب تدریس کا بڑا شہرہ تھا۔
مولانا محمد عمر صاحب اس مدرسہ کے صدر المدرسین تھے اور اہم اسباق آپ کے ذمہ ہوتے تھے اور ان کے ساتھ باذوق باصلاحیت اساتذہ کی ٹیم تھی جو شبانہ روز محنت ومشقت اور اخلاص و دیانت کے ساتھ محو عمل تھی اور طلبہ بھی محنت و مشقت کے عادی بنائے جاتے تھے۔
صدر مدرس مولانامحمد عمر صاحب کی نگرانی اور شب وروز کی جد وجہد اور ساتھ ہی ان کی سخت گیری نیز تعلیم و تربیت میں بہترین اسوہ ہونے، ان کی بے لوث خدمت اور بے غرض تربیت و تزکیہ کا بہتر نتیجہ یہ تھا اس مدرسہ کی تعلیم و تربیت مثالی بن چکی تھی۔نہ جانے کتنے لعل و گہر پیدا ہوئے اور اپنا اور اپنے اساتذہ اور مدرسہ کا نام روشن کیا۔
ان سے استفادہ کرنے والوں کا بیان ہے کہ مولانا سخت گیر تھے بسا اوقات تادیبی سزا دینے میں بھی قدرے سختی کا مظاہرہ ہوتاتھا۔
آپ کی طبعی افتاد شان جلالی کی آئینہ دار تھی، اس ظاہری شان جلالی کے ساتھ وہ شان جمالی بھی رکھتے تھے، در حقیقت مدراس کی دنیا میں ظاہری سخت گیری کا رویہ ہی طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بہتر نتیجہ کا باعث بنتا ہے، ورنہ جن مدارس میں حد درجہ نرمی پائی جاتی ہے وہاں پر بے راہ روی کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، عمومی طور پر وہاں علمی معیار قائم نہیں ہوپاتا ہے۔اور تربیتی کمزوری عام ہوتی ہیں۔
سراج العلوم بونڈیہار کے تعلق سے شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہاں پر مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اللہ کی شان جمالی نرم خوئی، ملاطفت اور پدرانہ شفقت اور مولانا محمد عمرسلفی رحمہ اللہ کی شان جلالی، رعب دار شخصیت اور تربیت و تہذیب کے باب میں بظاہر سخت گیری اور ساتھ ہی باطنی رحم دلی کا نتیجہ تھا کہ سراج العلوم کے طلبہ ممتاز اور لائق و فائق ثابت ہوئے۔
مولانا کا یہ زبردست کا رنامہ ہے کہ ۳۹؍سال تک ایک مدرسہ میں رہ کر زندگی بسر کردی، اپنی زبردست خدمت کے ذریعہ مدرسہ کو نیک نام کیا اور اسے بام عروج پر پہونچایا۔ اور درجات علیا کی تعلیم کا بندوبست ہوا اور وہاں فضیلت تک کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
آپ اس مدرسہ میں شیخ الحدیث تھے، عرصہ تک درس صحیحین دیا، مولانا اقبال صاحب رحمانی کی وفات کے بعد آپ ہی جامعہ کے داخلی و خارجی معاملات کے منتظم رہے اور اپنی کاوش مسلسل اور سعی پیہم سے ادارہ کو ترقی کی راہوں پر لے آئے۔
طلبہ سراج العلوم بونڈیہار اپنے اس محسن اور مشفق مربی کا ذکر جمیل کرتے رہتے ہیں، جس نے نام لیا ادب و احترام کا سمندر موجزن ہونے لگتا، محبتوں کا دریا رواں ہوجاتا، کسی کی عنداللہ مقبولیت کا یہی تو معیار ہے۔
آپ ایک طرف ماہر و کہنہ مشق مدرس تھے وہیں آپ انتہائی عمدہ مربی تھے تو دوسری طرف آپ میدان دعوت و ارشاد کے ایک سرگرم مخلص داعی و مبلغ تھے۔
آپ علاقہ و جوار کے دینی اجلاس اور اصلاحی پروگرام میں شرکت فرماکر لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے، آپ کا وعظ کتاب و سنت کے دلائل سے مدلل ہوتا تھا، انداز سادہ ہوا کرتا تھا۔آپ جمعیت و جماعت سے وابستہ رہے، ایک عرصہ تک ضلع گونڈہ کی جمعیت اہل حدیث کے صدر رہ چکے ہیں اور اس پلیٹ فارم سے دعوتی و اصلاحی تعلیمی و تنظیمی خدمات انجام دے چکے ہیں۔اور صوبائی و مرکزی جمعیت کے ساتھ دعوتی کاز میں ہمیشہ تعاون کرتے رہے، آپ مرکز ابوالکلام آزاد للتوعیہ الاسلامیہ نئی دہلی کے ممبر اور سابق نائب صدر مجلس منتظمہ رہ چکے ہیں۔
آپ نے جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں تدریس کے ساتھ افتاء کا کام بھی کیا ہے اور شرعی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے، اگر آپ کے فتاؤوں کا تحریری ریکارڈ جامعہ سراج العلوم میں موجود ہو تو وہاں کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ کسی معتبر عالم دین کی تحقیق و جائزہ کے ساتھ ان فتاؤوں کی طباعت کا اہتمام کریں تاکہ افادیت عام ہو سکے۔
آپ کی تدریسی اور دیگر گوناگوں دعوتی و تربیتی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکوڑ کانفرنس میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہی ۲۰۰۴ء کا زمانہ تھا جب آپ درس وتدریس سے معذوری کی بناپر کنارہ کش ہوگئے۔
اوصاف و اخلاق میں مولانا محمد عمرسلفی صاحب بہت بلند مقام پر فائز تھے، عادات و اطوار، اخلاق و معاملات ، عقائد ومعاملات میں آپ سلف صالح کا نمونہ تھے، آپ جرأت بے باکی اور حق گوئی وصداقت شعاری کا پیکر تھے، امربالمعروف و نہی عن المنکر کے متعلق کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
آپ ایک شب زندہ دار عالم دین تھے، اس عصر حاضر میں آپ جیسی مغتنم شخصیت کا وجود تقریباً معدوم ہے۔ علم وفن اور بحث و تحقیق کے شہ سواروں کی یقیناًکثرت ہے مگر ’’ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے ‘‘والی بات خال خال علماء ہی میں پائی جاتی ہے۔
مولانا کے تلامذہ کی ایک بہت بڑی تعداد علم و دعوت کے میدان میں سرگرم عمل ہے، یہ ہزاروں کی تعداد میں آپ سے حسب استعداد استفادہ کرنے والے تلامذہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے ۔ ان شاء اللہ۔
آپ کے پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ان میں برادر مکرم مولانا عبیدالرحمن سلفی سے میری واقفیت ہے وہ جامعہ سلفیہ بنارس کے فارغ التحصیل ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی جملہ اولاد کو بھی آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔اللہ رب العالمین آپ کی بشری لغزشوں سے درگذر کرتے ہوئے ان کے حسنات کو قبول کرکے بال بال مغفرت فرمائے۔ آمین۔
***
دینی تعلیم ایک بنیادی ضرورت
طوبیٰ مظہر بنت مولانا مظہر اعظمی
اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا جس میں انسانوں کے لئے احکامات ناز ل کرنے کے ساتھ رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ ان احکامات کو نافذ و عمل کے ذریعہ یہ بتادیں کہ یہ ایسے احکامات نہیں جو عمل کے لحاظ سے انسانی قدرت سے باہر ہوں، بلکہ اس کے حرف حرف پر ایسے ہی عمل کیا جاسکتا ہے جس طرح میں کر رہا ہوں اور تمہاری اور پوری امت کی کامیابی بھی اس پر عمل کرنے میں ہے اس سے بیزاری دنیا وآخرت دونوں جہاں میں نقصان و خسران کا سبب ہے۔
قرآن کا دوسرا حصہ رموز کائنات پر غور و فکر سے متعلق ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے تفکر و تدبر کی تلقین کرکے چھوڑ دیا ہے مگر وہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، رسول ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں کے باشندوں کو کھجوروں کی تابیر کرتے ہوئے دیکھا تو منع فرمادیا، مگر بعد میں جب معلوم ہوا کہ، پھل کم اور خراب آئے تو آپ نے دوبارہ اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’انتم اعلم بامور دنیاکم‘‘ کہ تم لوگ اپنے دنیوی امور کو زیادہ بہتر جانتے ہو،کیونکہ اس کا تمام تر دارومدار تجربات و مشاہدات پر ہے، جس میں کامیاب وہی ہو سکتا ہے جس کو یہ تمام چیزیں حاصل ہوں۔
عصری تعلیم پر صرف ایک اشارہ کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے، مگر دینی تعلیم تو ہماری بنیادی ضرورت ہے جس پر میں اپنی محدود معلومات سپرد قلم کرنا چاہتی ہوں۔
میں پہلے اس نکتہ پر اپنی بات مرکوز رکھنا چاہتی ہوں کہ آخر یہ دینی تعلیم کیوں ہماری بنیادی ضرورت ہے؟ جسے میں ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کرونگی۔
ہم کو، آپ کو اور سب کو اس بات کا تجربہ ہے کہ مختلف کمپنیاں چھوٹے بڑے سامان اور مشین تیار کرتی اور بناتی ہیں، جن کو کس طرح آپریٹ کرنا اور چلانا و استعمال کرنا ہوگا، کمپنیاں اس کے ساتھ ایک کتابچہ بھی رکھتی ہیں، جس میں اس مشین کے استعمال کا پورا طریقہ موجود ہوتا ہے، ہم اس سامان اور مشین کو اسی کتابچہ کی روشنی میں استعمال کرنا اپنے لئے اور مشین کے لئے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جس نے اس مشین کو بنایا ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ اسے کس طرح استعمال کرنا ہوگا، اس لئے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو مشین تو کسی کمپنی کی استعمال کرے اور کتابچہ کسی اور کمپنی کا، کیونکہ اسے معلوم ہے ایسا کرنے کی صورت میں مشین کی کیا درگت بنے گی اور اس کا کیا حشر ہوگا۔
اس مثال کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ جس انسان کا خالق اللہ ہے تو اسے بھی زندگی گزارنے دنیا وآخرت سنوارنے کے لئے اسی اللہ کا کتابچہ خود رسول ﷺ پر قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوا جس کو استعمال کرنا نہایت ضروری ہے، بصورت دیگرجس طرح مشین کی درگت بن سکتی ہے اسی طرح انسان اپنی منزل مقصود نہیں پاسکتا، اس لئے دینی تعلیم کا حصول ہمارے لئے ضروری ہے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے۔
جولوگ دینی علوم سے ناآشنا ہیں اور اپنی چند روزہ زندگی کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف گزار رہے ہیں، ان کی مثال اس آپریٹر کی ہے جو مشین کو کتابچہ کی روشنی میں نہیں بلکہ من مانی طور پر چلا رہا ہے اور اگر کوئی بھی شخص مشین کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے ، مشین کے مالک اور کتابچہ کے مطابق نہ چلائے تو ظاہر ہے کہ اس آپریٹر کے ساتھ مالک کوئی بھی سلوک کرسکتا ہے، بلکہ اسے اس کی ذمہ داری سے محروم بھی کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تخلیق اور مقصد تخلیق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس جسم کے تحفظ و بقاء اور دنیوی و اُخروی کامیابی کا راز عبادت الٰہی میں مضمر ہے اور جب عبادت الٰہی کا مقصد اور کامیابی اسی میں مضمر ہے تو پھر ضروری ہے کہ عبادت کا مفہوم اور مطلب سمجھا جائے، اس کے آداب اور حدود و شروط جانے جائیں اور یہ بنیادی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے،اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ و خطہ کا بسنے والا اسلام کی بنیادی تعلیم اور بنیادی اصول و ضوابط سے واقف رہے۔
اس وقت مسلمانوں کی جو پوری دنیا میں صورت حال ہے اس کے مختلف اسباب میں سے ایک اہم سبب اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقفیت اور بیزاری ہے، ہم عصر حاضر کی چم خم اور چمک دمک کو دیکھ کر یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو بھی وہی سب کچھ حاصل ہو جائے جو غیروں کو حاصل ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے مرصع کرنے کی بجائے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے کسی ایسے ادارے میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دین کے علاوہ سب کچھ سکھایا اور بتایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ادارے میں پڑھنے والا بچہ جب تعلیم ادھوری چھوڑ کر تعلیم سے اپنا تعلق ختم کرلیتا ہے تو اس کی مثال دھوبی کے کتے کی ہوتی ہے ، ’’گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی نہ تو اسلام کے بنیادی اصول و ضوابط سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی عصری علوم میں کمال حاصل کرسکتا ہے۔
دینی تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے جس کا آغاز ماں کی گود اور گھر کے ماحول سے ہوتا ہے، نبیﷺ نے سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دینے کے لئے کہا اور دس سال کے بعد مارنے کا، جواس بات کا ثبوت ہے کہ والدین اس کا آغاز عملی زندگی سے کریں، یعنی نمازی ہوں نماز پڑھنے کا حکم دیں، اچھا کام خود کریں اور کرنے کا حکم دیں، برائیوں سے پرہیز کریں اور کرنے کاحکم دیں یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص تو خود نہ کرے اور کرنے حکم دے اور اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں، بلکہ ایسی صورت میں کبھی کبھی نتائج خراب ہوجاتے ہیں اور بچے والدین سے بد ظن ہوجاتے ہیں۔
وحدہ لاشریک سے دعا ہے کہ ہم سب کو دینی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)
دینی تعلیم ایک بنیادی ضرورت
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر پہلی وحی ’’إقرأ‘‘ نازل کرکے تعلیم و تعلم کی اہمیت و ضرورت سے انسان کو آگاہ کیا، جسے آپﷺ نے اپنی امت کو پڑھ کر سنانے کے ساتھ ’’طلب العلم فریضۃ‘‘ کہہ کر اس کی فرضیت سے امت کو روشناس کرایا، تعلیم وتعلم کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کے ان دونوں فرمودات کا موازنہ کسی بھی بڑے سے بڑے ماہر تعلیم اور اس کے نظریات سے نہیں کیا جاسکتا ، یہی وجہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اسلام نے حصول تعلیم پر جس قدر مضبوطی کے ساتھ زور دیا ہے اگر مسلمان اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار ہوجائیں تو جس طرح مسلمانوں نے ابتدائی چند صدیوں میں دنیا کی امامت کی تھی پھراس امامت کے عہدہ جلیلہ پر واپس آسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا جس میں انسانوں کے لئے احکامات ناز ل کرنے کے ساتھ رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ ان احکامات کو نافذ و عمل کے ذریعہ یہ بتادیں کہ یہ ایسے احکامات نہیں جو عمل کے لحاظ سے انسانی قدرت سے باہر ہوں، بلکہ اس کے حرف حرف پر ایسے ہی عمل کیا جاسکتا ہے جس طرح میں کر رہا ہوں اور تمہاری اور پوری امت کی کامیابی بھی اس پر عمل کرنے میں ہے اس سے بیزاری دنیا وآخرت دونوں جہاں میں نقصان و خسران کا سبب ہے۔
قرآن کا دوسرا حصہ رموز کائنات پر غور و فکر سے متعلق ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے تفکر و تدبر کی تلقین کرکے چھوڑ دیا ہے مگر وہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، رسول ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں کے باشندوں کو کھجوروں کی تابیر کرتے ہوئے دیکھا تو منع فرمادیا، مگر بعد میں جب معلوم ہوا کہ، پھل کم اور خراب آئے تو آپ نے دوبارہ اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’انتم اعلم بامور دنیاکم‘‘ کہ تم لوگ اپنے دنیوی امور کو زیادہ بہتر جانتے ہو،کیونکہ اس کا تمام تر دارومدار تجربات و مشاہدات پر ہے، جس میں کامیاب وہی ہو سکتا ہے جس کو یہ تمام چیزیں حاصل ہوں۔
عصری تعلیم پر صرف ایک اشارہ کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے، مگر دینی تعلیم تو ہماری بنیادی ضرورت ہے جس پر میں اپنی محدود معلومات سپرد قلم کرنا چاہتی ہوں۔
میں پہلے اس نکتہ پر اپنی بات مرکوز رکھنا چاہتی ہوں کہ آخر یہ دینی تعلیم کیوں ہماری بنیادی ضرورت ہے؟ جسے میں ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کرونگی۔
ہم کو، آپ کو اور سب کو اس بات کا تجربہ ہے کہ مختلف کمپنیاں چھوٹے بڑے سامان اور مشین تیار کرتی اور بناتی ہیں، جن کو کس طرح آپریٹ کرنا اور چلانا و استعمال کرنا ہوگا، کمپنیاں اس کے ساتھ ایک کتابچہ بھی رکھتی ہیں، جس میں اس مشین کے استعمال کا پورا طریقہ موجود ہوتا ہے، ہم اس سامان اور مشین کو اسی کتابچہ کی روشنی میں استعمال کرنا اپنے لئے اور مشین کے لئے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جس نے اس مشین کو بنایا ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ اسے کس طرح استعمال کرنا ہوگا، اس لئے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو مشین تو کسی کمپنی کی استعمال کرے اور کتابچہ کسی اور کمپنی کا، کیونکہ اسے معلوم ہے ایسا کرنے کی صورت میں مشین کی کیا درگت بنے گی اور اس کا کیا حشر ہوگا۔
اس مثال کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ جس انسان کا خالق اللہ ہے تو اسے بھی زندگی گزارنے دنیا وآخرت سنوارنے کے لئے اسی اللہ کا کتابچہ خود رسول ﷺ پر قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوا جس کو استعمال کرنا نہایت ضروری ہے، بصورت دیگرجس طرح مشین کی درگت بن سکتی ہے اسی طرح انسان اپنی منزل مقصود نہیں پاسکتا، اس لئے دینی تعلیم کا حصول ہمارے لئے ضروری ہے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے۔
جولوگ دینی علوم سے ناآشنا ہیں اور اپنی چند روزہ زندگی کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف گزار رہے ہیں، ان کی مثال اس آپریٹر کی ہے جو مشین کو کتابچہ کی روشنی میں نہیں بلکہ من مانی طور پر چلا رہا ہے اور اگر کوئی بھی شخص مشین کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے ، مشین کے مالک اور کتابچہ کے مطابق نہ چلائے تو ظاہر ہے کہ اس آپریٹر کے ساتھ مالک کوئی بھی سلوک کرسکتا ہے، بلکہ اسے اس کی ذمہ داری سے محروم بھی کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تخلیق اور مقصد تخلیق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس جسم کے تحفظ و بقاء اور دنیوی و اُخروی کامیابی کا راز عبادت الٰہی میں مضمر ہے اور جب عبادت الٰہی کا مقصد اور کامیابی اسی میں مضمر ہے تو پھر ضروری ہے کہ عبادت کا مفہوم اور مطلب سمجھا جائے، اس کے آداب اور حدود و شروط جانے جائیں اور یہ بنیادی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے،اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ و خطہ کا بسنے والا اسلام کی بنیادی تعلیم اور بنیادی اصول و ضوابط سے واقف رہے۔
اس وقت مسلمانوں کی جو پوری دنیا میں صورت حال ہے اس کے مختلف اسباب میں سے ایک اہم سبب اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقفیت اور بیزاری ہے، ہم عصر حاضر کی چم خم اور چمک دمک کو دیکھ کر یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو بھی وہی سب کچھ حاصل ہو جائے جو غیروں کو حاصل ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے مرصع کرنے کی بجائے جو ہماری بنیادی ضرورت ہے کسی ایسے ادارے میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دین کے علاوہ سب کچھ سکھایا اور بتایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ادارے میں پڑھنے والا بچہ جب تعلیم ادھوری چھوڑ کر تعلیم سے اپنا تعلق ختم کرلیتا ہے تو اس کی مثال دھوبی کے کتے کی ہوتی ہے ، ’’گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی نہ تو اسلام کے بنیادی اصول و ضوابط سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی عصری علوم میں کمال حاصل کرسکتا ہے۔
دینی تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے جس کا آغاز ماں کی گود اور گھر کے ماحول سے ہوتا ہے، نبیﷺ نے سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دینے کے لئے کہا اور دس سال کے بعد مارنے کا، جواس بات کا ثبوت ہے کہ والدین اس کا آغاز عملی زندگی سے کریں، یعنی نمازی ہوں نماز پڑھنے کا حکم دیں، اچھا کام خود کریں اور کرنے کا حکم دیں، برائیوں سے پرہیز کریں اور کرنے کاحکم دیں یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص تو خود نہ کرے اور کرنے حکم دے اور اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں، بلکہ ایسی صورت میں کبھی کبھی نتائج خراب ہوجاتے ہیں اور بچے والدین سے بد ظن ہوجاتے ہیں۔
وحدہ لاشریک سے دعا ہے کہ ہم سب کو دینی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)
شیطان والی رات
تحریر: شیخ عبد الاحد عبد القدوس ایم،اے
ترجمہ: محمد عثمان رفیق، جامعۃ الملک سعود، ریاض
اپنے معاملات کی جلد بازی کی بنا پر وہ مجھ سے سلام کرنے میں پہل کر گیا ،اُسے اپنی بات پیش کرنے میں جلدی تھی ،نذرانۂ سلام پیش کرکے اس نے گفتگوشروع کی، جس کی وجہ سے وہ میرے پاس آیا تھا ،معاملے کی اہمیت وعظمت بیان کرتے ہوئے وہ گویا ہوا: کہ میں آپ سے ایک اہم اور توجہ طلب موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔
’’آپ اپنی بات بشکریہ پیش کیجیے ‘‘ میں نے کہا: میں آپ حضرات کے فائدہ کے لیے حاضر ہوا ہوں آپ مجھے اپنا خیر خواہ پائیں گے خاص طور پر حفاظت اور امانتداری میں ۔
’’آپ کی وہ قیام گاہ کہاں ہے ؟جہاں آپ تشریف فرماہیں ‘‘ اس نے دریافت کیا۔’’ وہ دیکھو فلاں گوشے میں‘‘میں نے اشارہ کرکے اسے بتایا۔
’’کیا رات آپ سکون کی نیند سو ئے ‘‘اس نے سوال کیا۔’’ہاں‘‘ ! میں نے جواب دیا ۔
’’کیا آپ کو خوشگوار نیند آئی...‘‘ میری مرادہے کہ کیا آپ کو کسی چیز نے حیرانی میں نہیں ڈالا؟
مجھے اس کے معمولی سوال سے نہایت تعجب ہوا ،جبکہ اس کے اس بہترین وضع قطع،خوبصورت پیرہن اور قد وقامت کو دیکھ کر میرا گمان تھا ،کہ کوئی ذی عقل اور ہوشیار شخص ہوگا ۔
میں اس کے اشارے کنایے اور ارادے کو نہ بھانپ سکا ، پھر بھی اپنے نفس کو ضبط کرتے ہوئے اس کے ہاں میں ہاں ملاتارہا۔ پھر میں نے کہا :’’میرے بھائی میں تھکن سے چور تھا، قیام گاہ کی نرم گدازی میرے نیند میں مزید مہمیز لگا دیا، یہاں تک اس نیند کے خمار کو صدائے موذن اور صبح کی سفیدی نے اتار دیا‘‘۔
’’میرا خیال تھا کہ شاید آپ اُس کمرے میں تشریف فرما ہیں، جو آپ کے قیام گاہ کے بغل میں ہے، جس میں ،میں کمپنی کے ملازمت کے ایام میں رہتا آیا تھا ‘‘۔
میں نے قدرے تعجب کہا!’’ بھئی : آپ چاہے جس میں رہے ہوں اس سے مجھے کیا لینا دینا، اس میں میرا کوئی فائدہ ہے نہ ہی نقصان ،جہاں تک میری بات ہے میں کسی بھی کمرے میں رہوں ،اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ،اس میں میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، میرا قیام بس دو رات کا ہے ایک گذر گئی ،اور دوسری باقی ہے کل میں یہاں سے رخصت ہوجاؤں گا ۔
’’اب وہ کہنے لگا :کہ شیخ میں جس کمرے کے بارے میں آپ سے گفتگو کررہا ہوں میرے ساتھ اس میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کے ساتھ یہ ناگفتہ بہ واقعہ پیش نہ آجائے‘‘۔
’’کیا آپ میرے بارے میں اندیشہ کرتے ہیں؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ میں آپ کا مقصد سمجھنے سے عاجز ہوں، کیا آپ اپنی بات کی وضاحت کرسکتے ہیں ؟‘‘ میں نے اس سے کہا ۔
کیوں نہیں شیخ ! اب وہ گھڑی آگئ ہے، کہ میں آپ سے اس نحوست زدہ کمرے کے بارے میں آگاہ کردوں ۔ اس سے میرا ارادہ ضیافت والا کمرہ نہیں . ہاں ضیافت والا کمرہ . وہ عجیب کمرہ جس کی دیواروں میں ڈراونے راز چھپے ہیں ۔
اب مجھے معاملے کی سنگینی اور مسئلہ کی نزاکت کا علم ہوا، اور جانا کہ یہ آدمی کوئی بکواس کررہا ہے اور نہ ہی کوئی مذاق ۔ میں نے کہا:’’ اے میرے بھائی اس کمرے کا واقعہ بیان کر، میں اس سیخوف زدہ ہو گیا ہوں ،اور اس کے جاننے کا خواہشمند ہوں‘‘۔
اُس نے بتانا شروع کیا ،اس کی نگاہیں آسمان کی جانب ٹکٹکی باندھے ہوئی تھیں ، ایک رات میں اس کمرے میں تنہا سویا ہوا تھا ، نصف شب کے بعد رات کے دو بج رہے تھے تقریباً فجر کے دو گھنٹہ پہلے کا وقت تھا ،کہ میری آنکھ کھل گئی ،میں دیکھتا ہوں کہ ایک کالا کلوٹا بدشکل آدمی میرے سامنے میرا ہاتھ تھامے ہوئے کھڑا ہے ،پہلے اپنے آپ کو جھٹلانے کی کوشش کی ،اور اپنی نظر کو خطاوار ٹھہرایا ،اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے لگا ،کہ میں حالت خواب میں ہوں بیداری میں نہیں ، اور یہ خواب حقیقت نہیں ہوسکتا ،اپنی انگلیوں سے آنکھوں کو ملا اور اپنے ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ لیا ،تاکہ میں نئے سرے سے دیکھوں. تو کیا ہی تعجب خیز اور ہولناک منظر دیکھتا ہوں جو خواب نہیں ،بلکہ بیدار ی میں میرے سامنے گھبرادینے والی صورت ہے، میرے آنکھوں کے سامنے سچ تھا ،وہم نہیں، لہذا اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا ۔
اللہ کی قسم اس وقت میں مکمل ہوش وحواس میں تھا ، اور وہ وحشی کالا کلوٹا آدمی میرے سامنے مجسمہ بنا تھا ، اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے میر ی طرف متوجہ تھا ، نہیں چھوڑ رہا تھا . اور میں اب تک اس بکھیرنے اور گھبرادینے والی صورت کو دیکھ رہاہوں ،جس سے دل لرزجائے، اور حواس باختہ ہوجائے۔ اور مجھے ابتک یاد ہے وہ کہہ رہا تھا، کہ میں تمہارے اشاروں کا مرہون منت ہوں ،اور تیرا داہنا بازو، جس بات پر چاہو مجھے مامور کرو ، جو چاہت ہے اشارہ کرو ،میں تمہاری خدمت میں حاضر ہوں ،جو تمہارامنشا ہے میرے ساتھ کرو ،جو بھی ارادہ ہے مجھ سے لے لو ۔
اس کی باتوں کو سن کر میں پاگل ہوا جارہا تھا ،گفتگو کو کاٹتے ہوئے میں نے کہا’’ سبحان اللہ سبحان اللہ یہ اس خبیث نے کیا کیا ، اور اس کے ساتھ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا‘‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ’’ میرا وجود لرز رہا تھا اور پسینہ بکثرت میرے رخسار سے بہنے لگا. اور مجھ پر حد درجہ خوف طاری ہوا، اور سانس نیچے اوپر ہونے لگے ،بہر حال میں نے اپنے نفس کو کنٹرول کیا اور اللہ کی عظمت وکبریائی بیان کرنے لگا ،جس کے سامنے مخلوقات کی ساری بڑائیاں کمتر ہیں، اور اس کے قوت کے سامنے دنیا کی تمام طاقت وقوت ہیچ ہے ‘‘۔ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر میں لگ گیا، اور مجھے کوئی چیز اللہ کے ذکر سے دور نہ کرسکی ، میرے زبان ودل کو توانائی مل گئی، وہ اللہ کے ذکر سے تھرااٹھا،اور اللہ کی عظمت سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، اور میرے اعضاء پر جوخوف طاری ہوا تھا ، اللہ کے ذکر سے جاتا رہا ۔ میں نے اللہ کی عظمت کو پہچان لیا ،اور اس کی سرگوشی کی لذت سے محظوظ ہوا، اور اس خوفناک وبھیانک کمرے میں جورات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ، اُن وظائف کا ورد کرنے لگا، جو مجھے یاد تھے ،جبکہ میرے بغل کوئی تھا ،اور نہ ہی میرے کمرے کے ارد گرد، میرا اللہ پربھروسہ تھا، کیونکہ وہ بہترین مدد کرنے والا و مشکل کشا وپریشان حال کی پکار سننے والا ہے ۔
’’وہ اذکار ووظائف جس کو میں برابر پڑھتا رہا، وہ آیت الکرسی و معوذات ( قل أعوذ برب الناس وقل أعوذ برب الفلق) ہیں ،اورمیں نے اس منحوس وبھیانک کالے کلوٹے آدمی کے چہرے سے اپنا چہرہ پھیر لیا ،اور برابر دعاء واذکار میں لگا رہا ، یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ اس کا ناپاک ہاتھ میرے ہاتھ سے دھیرے دھیرے چھوٹ گیا ،اور اس سے میرا تعلق ختم ہوگیا، اوروہ میری نظروں سے اُوجھل ہوگیا‘‘۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا تمہارے کمرے میں ٹیلیویژن تھا ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا،پھر میں نے اس سے کہا کہ کیا تم عریاں وگندی فلمیں دیکھتے تھے ؟ ۔
میرے اس سوال سے وہ متذبذب اور نہایت حیرت میں پڑگیا، اُس سے کچھ جواب نہ بن سکا، لیکن اس کے اس اندازے سے ایک دوسری چیز کا پتہ لگا جس کو وہ چھپانا چاہتا تھا ، اور وہ ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا تھا، لیکن ندامت وشرمندگی سے اس کا سر جھک گیا، پھر گویا ہوا کہ حقیقت میں شیخ معاملہ ایسا ہی ہے؛ کہ کچھ نوجوان میرے کمرے میں آتے تھے، اور پوری رات نہایت گندی و بیہودہ فلمیں دیکھتے تھے۔ میں نے کہا: اسی وجہ سے شیطان تمہارے پاس آیا تھا۔*اللہ تعالی کا فرمان : ( ھل أنبئکم علی من تنزل الشیاطین ، تنزل علی کل أفاک أثیم )
ترجمہ : کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ (سورہ شعراء آیت :۱۲۲،۲۲۲)۔
اور جو بھی اس قسم کی اخلاقی گراوٹ ،گھٹیا، بیہودہ اور عریاں فلمیں جو کہ ا نسانی فطرت کے خلاف ہیں، کا مشاہدہ کرتے ہیں،ان کے پاس شیطان حاضر ہوتا ہے، پھر میں نے اس کو اس سے مشابہ ایک قصہ سنایا ،جسے میں بچپن میں اپنے محلہ کی ایک شادی شدہ عورت کے بارے میں سنا تھا، اس کی حالت یہ تھی کہ وہ اس قسم کی فلمیں دیکھنے کی عاشق تھی ۔
ایک رات ایسا ہوا کہ وہ تن تنہا خالی الذہن گھر میں بیٹھی تھی، اور گھر کے سارے دروازے بند ، اور اندر گھسنے کے سارے راستے مسدود تھے، اس کے باوجودایک جنی شیطان انسانی صورت میں اس کے پاس آیا ،اور اس کے ساتھ جسمانی تعلقات (زنا ) قائم کیا* اور یہ قصہ پڑوس کی ساری عورتوں میں مشہور ہوگیا.
ہم اللہ تعالی سے عافیت کے طالب ہیں، اور اس کی پناہ چاہتے ہیں ،شیطان کے وسو سے ، اوراس کی حاضری سے ۔
***
ترجمہ: محمد عثمان رفیق، جامعۃ الملک سعود، ریاض
شیطان والی رات
سفر کی طوالت وصعوبت کی بنا پر میں تھکن سے چور ہوگیا تھا، رات لیٹتے ہی مجھے گہری نیند آگء، فجر کے بعد دینی باتیں ذکر کرکے جوں ہی میں مسجد سے نکل کر اپنے اُس قیام گاہ کی جانب بڑھنے لگا ،جوبحر احمر کی ساحل پرکمپنی نے میری ضیافت کے لیے منتخب کیا تھا،کہ اچانک ایک نوجوان میری راہ میں حائل ہوا... اب وہ میرے رو برو کھڑا تھا ، خوف و ہراس کی علامتیں جس کی پیشانی پر صاف ظاہر تھیں ۔ اپنے معاملات کی جلد بازی کی بنا پر وہ مجھ سے سلام کرنے میں پہل کر گیا ،اُسے اپنی بات پیش کرنے میں جلدی تھی ،نذرانۂ سلام پیش کرکے اس نے گفتگوشروع کی، جس کی وجہ سے وہ میرے پاس آیا تھا ،معاملے کی اہمیت وعظمت بیان کرتے ہوئے وہ گویا ہوا: کہ میں آپ سے ایک اہم اور توجہ طلب موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔
’’آپ اپنی بات بشکریہ پیش کیجیے ‘‘ میں نے کہا: میں آپ حضرات کے فائدہ کے لیے حاضر ہوا ہوں آپ مجھے اپنا خیر خواہ پائیں گے خاص طور پر حفاظت اور امانتداری میں ۔
’’آپ کی وہ قیام گاہ کہاں ہے ؟جہاں آپ تشریف فرماہیں ‘‘ اس نے دریافت کیا۔’’ وہ دیکھو فلاں گوشے میں‘‘میں نے اشارہ کرکے اسے بتایا۔
’’کیا رات آپ سکون کی نیند سو ئے ‘‘اس نے سوال کیا۔’’ہاں‘‘ ! میں نے جواب دیا ۔
’’کیا آپ کو خوشگوار نیند آئی...‘‘ میری مرادہے کہ کیا آپ کو کسی چیز نے حیرانی میں نہیں ڈالا؟
مجھے اس کے معمولی سوال سے نہایت تعجب ہوا ،جبکہ اس کے اس بہترین وضع قطع،خوبصورت پیرہن اور قد وقامت کو دیکھ کر میرا گمان تھا ،کہ کوئی ذی عقل اور ہوشیار شخص ہوگا ۔
میں اس کے اشارے کنایے اور ارادے کو نہ بھانپ سکا ، پھر بھی اپنے نفس کو ضبط کرتے ہوئے اس کے ہاں میں ہاں ملاتارہا۔ پھر میں نے کہا :’’میرے بھائی میں تھکن سے چور تھا، قیام گاہ کی نرم گدازی میرے نیند میں مزید مہمیز لگا دیا، یہاں تک اس نیند کے خمار کو صدائے موذن اور صبح کی سفیدی نے اتار دیا‘‘۔
’’میرا خیال تھا کہ شاید آپ اُس کمرے میں تشریف فرما ہیں، جو آپ کے قیام گاہ کے بغل میں ہے، جس میں ،میں کمپنی کے ملازمت کے ایام میں رہتا آیا تھا ‘‘۔
میں نے قدرے تعجب کہا!’’ بھئی : آپ چاہے جس میں رہے ہوں اس سے مجھے کیا لینا دینا، اس میں میرا کوئی فائدہ ہے نہ ہی نقصان ،جہاں تک میری بات ہے میں کسی بھی کمرے میں رہوں ،اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ،اس میں میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، میرا قیام بس دو رات کا ہے ایک گذر گئی ،اور دوسری باقی ہے کل میں یہاں سے رخصت ہوجاؤں گا ۔
’’اب وہ کہنے لگا :کہ شیخ میں جس کمرے کے بارے میں آپ سے گفتگو کررہا ہوں میرے ساتھ اس میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کے ساتھ یہ ناگفتہ بہ واقعہ پیش نہ آجائے‘‘۔
’’کیا آپ میرے بارے میں اندیشہ کرتے ہیں؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ میں آپ کا مقصد سمجھنے سے عاجز ہوں، کیا آپ اپنی بات کی وضاحت کرسکتے ہیں ؟‘‘ میں نے اس سے کہا ۔
کیوں نہیں شیخ ! اب وہ گھڑی آگئ ہے، کہ میں آپ سے اس نحوست زدہ کمرے کے بارے میں آگاہ کردوں ۔ اس سے میرا ارادہ ضیافت والا کمرہ نہیں . ہاں ضیافت والا کمرہ . وہ عجیب کمرہ جس کی دیواروں میں ڈراونے راز چھپے ہیں ۔
اب مجھے معاملے کی سنگینی اور مسئلہ کی نزاکت کا علم ہوا، اور جانا کہ یہ آدمی کوئی بکواس کررہا ہے اور نہ ہی کوئی مذاق ۔ میں نے کہا:’’ اے میرے بھائی اس کمرے کا واقعہ بیان کر، میں اس سیخوف زدہ ہو گیا ہوں ،اور اس کے جاننے کا خواہشمند ہوں‘‘۔
اُس نے بتانا شروع کیا ،اس کی نگاہیں آسمان کی جانب ٹکٹکی باندھے ہوئی تھیں ، ایک رات میں اس کمرے میں تنہا سویا ہوا تھا ، نصف شب کے بعد رات کے دو بج رہے تھے تقریباً فجر کے دو گھنٹہ پہلے کا وقت تھا ،کہ میری آنکھ کھل گئی ،میں دیکھتا ہوں کہ ایک کالا کلوٹا بدشکل آدمی میرے سامنے میرا ہاتھ تھامے ہوئے کھڑا ہے ،پہلے اپنے آپ کو جھٹلانے کی کوشش کی ،اور اپنی نظر کو خطاوار ٹھہرایا ،اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے لگا ،کہ میں حالت خواب میں ہوں بیداری میں نہیں ، اور یہ خواب حقیقت نہیں ہوسکتا ،اپنی انگلیوں سے آنکھوں کو ملا اور اپنے ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ لیا ،تاکہ میں نئے سرے سے دیکھوں. تو کیا ہی تعجب خیز اور ہولناک منظر دیکھتا ہوں جو خواب نہیں ،بلکہ بیدار ی میں میرے سامنے گھبرادینے والی صورت ہے، میرے آنکھوں کے سامنے سچ تھا ،وہم نہیں، لہذا اس منظر نے مجھے خوفزدہ کردیا ۔
اللہ کی قسم اس وقت میں مکمل ہوش وحواس میں تھا ، اور وہ وحشی کالا کلوٹا آدمی میرے سامنے مجسمہ بنا تھا ، اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے میر ی طرف متوجہ تھا ، نہیں چھوڑ رہا تھا . اور میں اب تک اس بکھیرنے اور گھبرادینے والی صورت کو دیکھ رہاہوں ،جس سے دل لرزجائے، اور حواس باختہ ہوجائے۔ اور مجھے ابتک یاد ہے وہ کہہ رہا تھا، کہ میں تمہارے اشاروں کا مرہون منت ہوں ،اور تیرا داہنا بازو، جس بات پر چاہو مجھے مامور کرو ، جو چاہت ہے اشارہ کرو ،میں تمہاری خدمت میں حاضر ہوں ،جو تمہارامنشا ہے میرے ساتھ کرو ،جو بھی ارادہ ہے مجھ سے لے لو ۔
اس کی باتوں کو سن کر میں پاگل ہوا جارہا تھا ،گفتگو کو کاٹتے ہوئے میں نے کہا’’ سبحان اللہ سبحان اللہ یہ اس خبیث نے کیا کیا ، اور اس کے ساتھ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا‘‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ’’ میرا وجود لرز رہا تھا اور پسینہ بکثرت میرے رخسار سے بہنے لگا. اور مجھ پر حد درجہ خوف طاری ہوا، اور سانس نیچے اوپر ہونے لگے ،بہر حال میں نے اپنے نفس کو کنٹرول کیا اور اللہ کی عظمت وکبریائی بیان کرنے لگا ،جس کے سامنے مخلوقات کی ساری بڑائیاں کمتر ہیں، اور اس کے قوت کے سامنے دنیا کی تمام طاقت وقوت ہیچ ہے ‘‘۔ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر میں لگ گیا، اور مجھے کوئی چیز اللہ کے ذکر سے دور نہ کرسکی ، میرے زبان ودل کو توانائی مل گئی، وہ اللہ کے ذکر سے تھرااٹھا،اور اللہ کی عظمت سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، اور میرے اعضاء پر جوخوف طاری ہوا تھا ، اللہ کے ذکر سے جاتا رہا ۔ میں نے اللہ کی عظمت کو پہچان لیا ،اور اس کی سرگوشی کی لذت سے محظوظ ہوا، اور اس خوفناک وبھیانک کمرے میں جورات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ، اُن وظائف کا ورد کرنے لگا، جو مجھے یاد تھے ،جبکہ میرے بغل کوئی تھا ،اور نہ ہی میرے کمرے کے ارد گرد، میرا اللہ پربھروسہ تھا، کیونکہ وہ بہترین مدد کرنے والا و مشکل کشا وپریشان حال کی پکار سننے والا ہے ۔
’’وہ اذکار ووظائف جس کو میں برابر پڑھتا رہا، وہ آیت الکرسی و معوذات ( قل أعوذ برب الناس وقل أعوذ برب الفلق) ہیں ،اورمیں نے اس منحوس وبھیانک کالے کلوٹے آدمی کے چہرے سے اپنا چہرہ پھیر لیا ،اور برابر دعاء واذکار میں لگا رہا ، یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ اس کا ناپاک ہاتھ میرے ہاتھ سے دھیرے دھیرے چھوٹ گیا ،اور اس سے میرا تعلق ختم ہوگیا، اوروہ میری نظروں سے اُوجھل ہوگیا‘‘۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا تمہارے کمرے میں ٹیلیویژن تھا ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا،پھر میں نے اس سے کہا کہ کیا تم عریاں وگندی فلمیں دیکھتے تھے ؟ ۔
میرے اس سوال سے وہ متذبذب اور نہایت حیرت میں پڑگیا، اُس سے کچھ جواب نہ بن سکا، لیکن اس کے اس اندازے سے ایک دوسری چیز کا پتہ لگا جس کو وہ چھپانا چاہتا تھا ، اور وہ ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا تھا، لیکن ندامت وشرمندگی سے اس کا سر جھک گیا، پھر گویا ہوا کہ حقیقت میں شیخ معاملہ ایسا ہی ہے؛ کہ کچھ نوجوان میرے کمرے میں آتے تھے، اور پوری رات نہایت گندی و بیہودہ فلمیں دیکھتے تھے۔ میں نے کہا: اسی وجہ سے شیطان تمہارے پاس آیا تھا۔*اللہ تعالی کا فرمان : ( ھل أنبئکم علی من تنزل الشیاطین ، تنزل علی کل أفاک أثیم )
ترجمہ : کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ (سورہ شعراء آیت :۱۲۲،۲۲۲)۔
اور جو بھی اس قسم کی اخلاقی گراوٹ ،گھٹیا، بیہودہ اور عریاں فلمیں جو کہ ا نسانی فطرت کے خلاف ہیں، کا مشاہدہ کرتے ہیں،ان کے پاس شیطان حاضر ہوتا ہے، پھر میں نے اس کو اس سے مشابہ ایک قصہ سنایا ،جسے میں بچپن میں اپنے محلہ کی ایک شادی شدہ عورت کے بارے میں سنا تھا، اس کی حالت یہ تھی کہ وہ اس قسم کی فلمیں دیکھنے کی عاشق تھی ۔
ایک رات ایسا ہوا کہ وہ تن تنہا خالی الذہن گھر میں بیٹھی تھی، اور گھر کے سارے دروازے بند ، اور اندر گھسنے کے سارے راستے مسدود تھے، اس کے باوجودایک جنی شیطان انسانی صورت میں اس کے پاس آیا ،اور اس کے ساتھ جسمانی تعلقات (زنا ) قائم کیا* اور یہ قصہ پڑوس کی ساری عورتوں میں مشہور ہوگیا.
ہم اللہ تعالی سے عافیت کے طالب ہیں، اور اس کی پناہ چاہتے ہیں ،شیطان کے وسو سے ، اوراس کی حاضری سے ۔
***
حیا: فضیلت و اہمیت اور فوائد
تحریر: خالد الجندی
ترجمہ: رضوان اللہ عبد الرؤف
چوں کہ جب کسی انسان کے اندر حیا جیسی دولت پنہاں ہوتی ہے تو خود بخود اس کی شخصیت لوگوں کی نگاہوں میں متعارف ہوجاتی ہے، لیکن جب یہی صفت کسی انسان کے اندر سے معدوم ہوجائے تو وہ مکمل خسارے میں رہے گا، حیا انسانوں کو قباحتوں سے روکنے کا وسیلہ ہے، جب کوئی شخص حیا کرتا ہے تو وہ نفس کی پیروی کرنے سے باز رہتا ہے، کیوں کہ خواہش نفس آدمی کو عموما معصیت ہی پر ابھارتی ہے اور جب آدمی شرم وحیا سے سرشار رہے گا تو وہ گناہ کے قریب نہ جائیگا، شرم وحیا اپنے رفیق کی ظاہری و باطنی دونوں حالتیں درست کرتا ہے جیسے وہ شخص جو صر ف حلال کمائی کی تلاش میں رہے گا کسی ہوٹل، ریسٹورنٹ وغیرہ میں حلال خوراک کی فرمائش کرے گا تو وہ حلال ہی منتخب کرے گا، کیوں کہ وہ شخص حرام کمائی نہ کھایا اور نہ اس کے قریب گیا اس کی خصلت صرف اور صرف حلال کمائی ہی کی طرف اس کو لے گئی، وہ حرام سے شرم و حیا کی بناپر ہمہ وقت دور رہا، اسی بنا پر اس کے ایمان میں پختگی رہی اور ’’الحیاء من شعبۃ الإیمان‘‘ کا نقشہ سامنے موجود رہا۔
نبی ﷺ نے ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’إن لکل دین خلق و خلق الإسلام الحیاء‘‘ یقیناًہر دین کا ایک اخلاق ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔ (ابن ماجہ ۲؍۱۳۹۹)
اگر انسان حیا سے عاری ہے تو اس کا اخلاق و کردار غیر اطمینان بخش ہے اورجب اخلاق ہی صحیح نہیں ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ برائی کا مجسمہ ہے، بنایریں محمد ﷺ نے ایسے شخص کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، فرمایا: إذا لم تستح فاضع ما شئت‘‘ جب تمہیں شرم نہیں آتی تو جو چاہو کرو۔ (بخاری:۱؍۲۲۶۸)
یعنی حیا سے خالی شخص کے لئے وعید ہے کہ تمہیں اپنے کرتوتوں کا بدلہ ملے گا۔
جب کہ رسول اللہ ﷺ کے شرم و حیا کا عالم یہ تھا کہ ایک کنواری صنف نازک بھی اتنا شرمیلی نہیں ہوتی تھی،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ’’کان رسول اللہﷺ اشد حیا من الغدراء فی خدرھا فإذا ارای شیئا یکرھہ عرفناہ فی وجھہ‘‘رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیا تھے، جب وہ کسی چیز کو دیکھ کر کراہت محسوس کرتے تو ان کے چہرے ہی سے ہم انہیں پہچان لیتے۔ (بخاری:۲؍۱۳۰۶)
ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ کو روتے ہوئے پایا، کہا: اے اللہ کے رسول ﷺآپ کو کس چیز نے رلایا، فرمایا ’’ مجھے جبریل علیہ السلام نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو عذاب دیتے ہوئے شرماتا ہے جو حالت اسلام میں بوڑھا ہوتا ہے،توکیا بندے کو گناہ کرنے سے نہیں شرمانا چاہئے جبکہ وہ حالت اسلام میں بوڑھا ہواہو۔ (حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم:۲؍۳۸۶)
یہ ان لوگوں پر منطبق ہوتی ہے جو بحالت اسلام بوڑھاپے کی عمر کو پہونچے لیکن بجائے اس کے کہ وہ نیکیاں کریں، گناہوں سے اپنی جھولیوں کو مزین کرتے ہیں۔
حیا کی اہمیت ہی کی بنا پر رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا ’’اللہ تعالیٰ سے حیا کرو، جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس کی حمد وثنا بھی کرتے ہیں، فرمایا اس طرح نہیں بلکہ اللہ سے اس طرح حیا کرو جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے، سرکی حفاظت کرو اور اس چیز کی بھی حفاظت کو جو سرکی حفاظت میں ہے، پیٹ کی حفاظت کرو اور اس چیز کی جو وہ سمیٹے، موت اور آزمائش کو خوب یاد کرو، جس نے دنیوی آسائش کو چھوڑ کرآخرت کا قصد کیا اس نے اللہ تعالیٰ سے ایسے ہی حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق تھا۔ (سنن ترمذی: ۴؍۶۳۷)
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ بات صحابہ کرام کے اذہان و قلوب میں اتر گئی پھر ہوا یہ کہ ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) کے تحت حیا سے معمور زندگی گزارنے لگے، جیسا کہ دلائل موجود ہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک تاریک مکان میں غسل کرتا تھا جب میری پیٹھ جھکی تو میں نے شرم سے اپنے کپڑے کو پکڑ لیا۔ (مصنف بن أبی شیبہ: ۱؍۱۲۹)
دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’میں جب سے اسلام لایا تب سے دوران غسل اپنی پیٹھ کھڑا نہیں کیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ لوگوں سے کہا اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ سے شرم کرو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جس وقت قضاء حاجت کے لئے جاتا ہوں تو اپنے رب سے شرم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو چھپاتا ہوں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شرمیلے تھے، رسول ﷺ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’کیا آپ اس شخص سے حیا نہیں کریں گے جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں‘‘۔
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو کہا گیا کہ جب حیا کسی انسان کے پاس سے چلی جائے تو گویا نصف دین چلا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا جب حیا چلی جاتی ہے تو پورا دین چلا جاتا ہے۔ جب کسی عورت کے اندر حیا ہو تو وہ عورت تمام عورتوں میں احسن و اجمل ہوتی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت مشہور ہے انہیں خوف تھا کہ ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ ان کی لاش اپنے کاندھے پر لے جائیں گے، جب انہوں نے یہ بات اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو بتلائی تو اسماءؓ نے کہا کیا تمہارے لئے حبشیوں کی مانند ایک ایسا آلہ نہ بنادیں جس کے چاروں طرف سے لاش ڈھکی رہتی ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تب فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کتنا بہتر ہے یہ اللہ تم کوبھی چھپائے جیسا کہ آپ نے مجھے چھپایا۔
مذکورہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہے کہ شرم و حیا انبیاء کرام و اصحاب رسولﷺ کا شیوہ رہا ہے کیوں کہ یہ شرم وحیا کی اہمیت و فضیلت جانتے تھے اور اس کے فائدے سے آشنا تھے۔
فوائد:
۱۔ باحیا شخص صرف نیکیاں ہی کرتا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’الحیاء لایاتی إلا بخیر‘‘حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (بخاری: ۵؍۳۲۶۸)
۲۔ حیا محبت الٰہی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب اللہ کسی بند ے پر انعام کرتا ہے تو اس پر نعمتوں کی علامتیں بھی دیکھنا چاہتا ہے وہ بدحالی و تنگ دستی اور فقیری کو ناپسند کرتا ہے نیز پاک و صاف ستھری زندگی چاہتا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی:۵؍۱۶۳)
۳۔ حیا طاعت و بھلائی کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کاا قرار کرنا ہے او ر سب سے اسفل تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری:۱؍۱۲)
۴۔ حیا خوبصورتی و دلفریبی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ’’فحش صرف اس کی شان میں ہے اور حیا اس کی زان (زیب و زینت) میں ہے۔(مسند الشہاب:۲؍۱۶)
علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ اہل حیا باوقار و باعظمت ہوتے ہیں، دیگر لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اوروہ خود اپنے آپ کی عزت کرتا ہے۔
۵۔ بروز قیامت امن کا راستہ ہوگا۔ نبی رحمتﷺ فرماتے ہیں ’’ سات لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۱۔امام عادل، ۲۔وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پرورش پاتا ہو، ۳ ۔ ایسا شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ۴۔ ایسے دو آدمی جو اللہ ہی کی خاطر متفق اور متفرق ہوں، ۵۔ ایسا شخص جس کو خوبصورت اور منصب والی عورت بلائے تو یہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، ۶۔ وہ آدمی جو صدقہ اس طرح کرے کہ اس کا دایاں جو خرچ کرے بائیں کو پتہ نہ چلے، ۷۔ وہ شخص جس کے سامنے اللہ کا ذکر ہو تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ (بخاری: ۱؍۲۳۴)
مذکورہ روایت میں حقیقی حیا و داخلی ایمان کی بابت کتنے اچھے انداز میں رسول ﷺ نے پیشین گوئی فرمادی کہ ایک خوبصورت اور منصب والی نیز مالدار عورت زنا کی دعوت دے، لیکن اس پر بھی انکار کرنا پکے مومن کی علامت ہے، ایسا شخص اللہ کے سائے میں اس دن ہوگا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۶۔ حیا جنت کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا راستہ ہے، برائی سنگ دلی کا نام ہے اور سنگ دلی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ (سنن ترمذی:۴؍۳۶۵)
رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں اخلاص کے ساتھ اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین۔***
ترجمہ: رضوان اللہ عبد الرؤف
حیا: فضیلت و اہمیت اور فوائد
شرم وحیا اسلام کا ایک دستور اور ایک شعار ہے، جس کے ذریعہ ہر شخص خصوصاً مسلم عوام اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتے ہیں، کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’الحیاء من شعبۃ الإیمان‘‘ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (بخاری:۱؍۶۳)چوں کہ جب کسی انسان کے اندر حیا جیسی دولت پنہاں ہوتی ہے تو خود بخود اس کی شخصیت لوگوں کی نگاہوں میں متعارف ہوجاتی ہے، لیکن جب یہی صفت کسی انسان کے اندر سے معدوم ہوجائے تو وہ مکمل خسارے میں رہے گا، حیا انسانوں کو قباحتوں سے روکنے کا وسیلہ ہے، جب کوئی شخص حیا کرتا ہے تو وہ نفس کی پیروی کرنے سے باز رہتا ہے، کیوں کہ خواہش نفس آدمی کو عموما معصیت ہی پر ابھارتی ہے اور جب آدمی شرم وحیا سے سرشار رہے گا تو وہ گناہ کے قریب نہ جائیگا، شرم وحیا اپنے رفیق کی ظاہری و باطنی دونوں حالتیں درست کرتا ہے جیسے وہ شخص جو صر ف حلال کمائی کی تلاش میں رہے گا کسی ہوٹل، ریسٹورنٹ وغیرہ میں حلال خوراک کی فرمائش کرے گا تو وہ حلال ہی منتخب کرے گا، کیوں کہ وہ شخص حرام کمائی نہ کھایا اور نہ اس کے قریب گیا اس کی خصلت صرف اور صرف حلال کمائی ہی کی طرف اس کو لے گئی، وہ حرام سے شرم و حیا کی بناپر ہمہ وقت دور رہا، اسی بنا پر اس کے ایمان میں پختگی رہی اور ’’الحیاء من شعبۃ الإیمان‘‘ کا نقشہ سامنے موجود رہا۔
نبی ﷺ نے ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’إن لکل دین خلق و خلق الإسلام الحیاء‘‘ یقیناًہر دین کا ایک اخلاق ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔ (ابن ماجہ ۲؍۱۳۹۹)
اگر انسان حیا سے عاری ہے تو اس کا اخلاق و کردار غیر اطمینان بخش ہے اورجب اخلاق ہی صحیح نہیں ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ برائی کا مجسمہ ہے، بنایریں محمد ﷺ نے ایسے شخص کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، فرمایا: إذا لم تستح فاضع ما شئت‘‘ جب تمہیں شرم نہیں آتی تو جو چاہو کرو۔ (بخاری:۱؍۲۲۶۸)
یعنی حیا سے خالی شخص کے لئے وعید ہے کہ تمہیں اپنے کرتوتوں کا بدلہ ملے گا۔
جب کہ رسول اللہ ﷺ کے شرم و حیا کا عالم یہ تھا کہ ایک کنواری صنف نازک بھی اتنا شرمیلی نہیں ہوتی تھی،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ’’کان رسول اللہﷺ اشد حیا من الغدراء فی خدرھا فإذا ارای شیئا یکرھہ عرفناہ فی وجھہ‘‘رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیا تھے، جب وہ کسی چیز کو دیکھ کر کراہت محسوس کرتے تو ان کے چہرے ہی سے ہم انہیں پہچان لیتے۔ (بخاری:۲؍۱۳۰۶)
ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ کو روتے ہوئے پایا، کہا: اے اللہ کے رسول ﷺآپ کو کس چیز نے رلایا، فرمایا ’’ مجھے جبریل علیہ السلام نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو عذاب دیتے ہوئے شرماتا ہے جو حالت اسلام میں بوڑھا ہوتا ہے،توکیا بندے کو گناہ کرنے سے نہیں شرمانا چاہئے جبکہ وہ حالت اسلام میں بوڑھا ہواہو۔ (حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم:۲؍۳۸۶)
یہ ان لوگوں پر منطبق ہوتی ہے جو بحالت اسلام بوڑھاپے کی عمر کو پہونچے لیکن بجائے اس کے کہ وہ نیکیاں کریں، گناہوں سے اپنی جھولیوں کو مزین کرتے ہیں۔
حیا کی اہمیت ہی کی بنا پر رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا ’’اللہ تعالیٰ سے حیا کرو، جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس کی حمد وثنا بھی کرتے ہیں، فرمایا اس طرح نہیں بلکہ اللہ سے اس طرح حیا کرو جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے، سرکی حفاظت کرو اور اس چیز کی بھی حفاظت کو جو سرکی حفاظت میں ہے، پیٹ کی حفاظت کرو اور اس چیز کی جو وہ سمیٹے، موت اور آزمائش کو خوب یاد کرو، جس نے دنیوی آسائش کو چھوڑ کرآخرت کا قصد کیا اس نے اللہ تعالیٰ سے ایسے ہی حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق تھا۔ (سنن ترمذی: ۴؍۶۳۷)
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی یہ بات صحابہ کرام کے اذہان و قلوب میں اتر گئی پھر ہوا یہ کہ ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) کے تحت حیا سے معمور زندگی گزارنے لگے، جیسا کہ دلائل موجود ہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک تاریک مکان میں غسل کرتا تھا جب میری پیٹھ جھکی تو میں نے شرم سے اپنے کپڑے کو پکڑ لیا۔ (مصنف بن أبی شیبہ: ۱؍۱۲۹)
دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’میں جب سے اسلام لایا تب سے دوران غسل اپنی پیٹھ کھڑا نہیں کیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ لوگوں سے کہا اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ سے شرم کرو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جس وقت قضاء حاجت کے لئے جاتا ہوں تو اپنے رب سے شرم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو چھپاتا ہوں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شرمیلے تھے، رسول ﷺ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’کیا آپ اس شخص سے حیا نہیں کریں گے جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں‘‘۔
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو کہا گیا کہ جب حیا کسی انسان کے پاس سے چلی جائے تو گویا نصف دین چلا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا جب حیا چلی جاتی ہے تو پورا دین چلا جاتا ہے۔ جب کسی عورت کے اندر حیا ہو تو وہ عورت تمام عورتوں میں احسن و اجمل ہوتی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت مشہور ہے انہیں خوف تھا کہ ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ ان کی لاش اپنے کاندھے پر لے جائیں گے، جب انہوں نے یہ بات اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو بتلائی تو اسماءؓ نے کہا کیا تمہارے لئے حبشیوں کی مانند ایک ایسا آلہ نہ بنادیں جس کے چاروں طرف سے لاش ڈھکی رہتی ہے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تب فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کتنا بہتر ہے یہ اللہ تم کوبھی چھپائے جیسا کہ آپ نے مجھے چھپایا۔
مذکورہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہے کہ شرم و حیا انبیاء کرام و اصحاب رسولﷺ کا شیوہ رہا ہے کیوں کہ یہ شرم وحیا کی اہمیت و فضیلت جانتے تھے اور اس کے فائدے سے آشنا تھے۔
فوائد:
۱۔ باحیا شخص صرف نیکیاں ہی کرتا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’الحیاء لایاتی إلا بخیر‘‘حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (بخاری: ۵؍۳۲۶۸)
۲۔ حیا محبت الٰہی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب اللہ کسی بند ے پر انعام کرتا ہے تو اس پر نعمتوں کی علامتیں بھی دیکھنا چاہتا ہے وہ بدحالی و تنگ دستی اور فقیری کو ناپسند کرتا ہے نیز پاک و صاف ستھری زندگی چاہتا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی:۵؍۱۶۳)
۳۔ حیا طاعت و بھلائی کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کاا قرار کرنا ہے او ر سب سے اسفل تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری:۱؍۱۲)
۴۔ حیا خوبصورتی و دلفریبی کا ذریعہ ہے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ’’فحش صرف اس کی شان میں ہے اور حیا اس کی زان (زیب و زینت) میں ہے۔(مسند الشہاب:۲؍۱۶)
علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ اہل حیا باوقار و باعظمت ہوتے ہیں، دیگر لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اوروہ خود اپنے آپ کی عزت کرتا ہے۔
۵۔ بروز قیامت امن کا راستہ ہوگا۔ نبی رحمتﷺ فرماتے ہیں ’’ سات لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۱۔امام عادل، ۲۔وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پرورش پاتا ہو، ۳ ۔ ایسا شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ۴۔ ایسے دو آدمی جو اللہ ہی کی خاطر متفق اور متفرق ہوں، ۵۔ ایسا شخص جس کو خوبصورت اور منصب والی عورت بلائے تو یہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، ۶۔ وہ آدمی جو صدقہ اس طرح کرے کہ اس کا دایاں جو خرچ کرے بائیں کو پتہ نہ چلے، ۷۔ وہ شخص جس کے سامنے اللہ کا ذکر ہو تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ (بخاری: ۱؍۲۳۴)
مذکورہ روایت میں حقیقی حیا و داخلی ایمان کی بابت کتنے اچھے انداز میں رسول ﷺ نے پیشین گوئی فرمادی کہ ایک خوبصورت اور منصب والی نیز مالدار عورت زنا کی دعوت دے، لیکن اس پر بھی انکار کرنا پکے مومن کی علامت ہے، ایسا شخص اللہ کے سائے میں اس دن ہوگا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
۶۔ حیا جنت کی کنجی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا راستہ ہے، برائی سنگ دلی کا نام ہے اور سنگ دلی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ (سنن ترمذی:۴؍۳۶۵)
رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں اخلاص کے ساتھ اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین۔***
Thursday, 22 July 2010
قافلۂ دعوت و ارشاد پہاڑوں کی وادی میں june-jul 2010
مولانا مطیع اللہ مدنی
نیپال ایشیا کا ایک چھوٹا غریب اور پسماندہ ملک ہے، چند سال قبل تک یہ ایک ہندو ملک تھا، جہاں شاہی نظام حکومت کی فرمانراوئی تھی، مگر جمہوریت پسندوں کی مساعی سے یہ ملک اب ایک سیکولر اسٹیٹ بن چکا ہے۔
علمی، تہذیبی اورمعاشی اعتبار سے کافی پسماندہ ملک ہے، جغرافیائی اعتبار سے یہ ملک تین بنیادی حصوں میں منقسم ہے:
۱۔ میدانی خطہ جس کی بیشتر اراضی قابل کاشت ہے اور گنا، دھان ، گیہوں، مکئی وغیرہ کی بہترین پیداوار ہوتی ہے، پہاڑوں سے نکلنے والی ندیاں اور نالے میدانی علاقہ سے گزرتے ہیں جس سے نفع اور نقصان دونوں وابستہ ہیں۔
۲۔ جنگلات، ندیاں اور نالے: اس ملک میں چھوٹی بڑی کئی ندیاں ہیں جو پہاڑوں سے نکلتی ہیں ان میں نارائنی، باگمتی، کالی گنڈکی،کوسی اور راپتی وغیرہ نام کی ندیاں بہت مشہور ہیں، کوسی کا سیلاب بڑا ضرر رساں ہوتا ہے اور اسے تو ’’غم بہار‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ پہاڑی خطہ : اس ملک کا ایک بہت بڑا حصہ چھوٹی پہاڑیوں اور کچھ بڑی اور بلند وبالا پہاڑیوں پر مشتمل ہے، ہمالیہ پہاڑ بھی اس میں واقع ہے اور اس کی چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ہے جو ایورسٹ چوٹی کے نام سے معروف ہے، جس کی بلندی 16880فٹ ہے۔
کچھ پہاڑیاں برف پوش ہیں، جن پر سالہاسال برف جمی رہتی ہے اور گرمیوں میں یہی برف پگھل کر ندیوں کو پانی فراہم کرتی رہتی ہے۔
بیشتر پہاڑیاں ایسی ہیں جن میں مختلف قسم کے درخت ہیں، جن کی وجہ سے یہ پہاڑیاں حد درجہ سرسبز نظر آتی ہیں اور سلسلہ کوہ ایک انتہائی حسین منظر پیش کرتا ہے۔
ان پہاڑوں کی وادیاں بھی حددرجہ شاداب ہیں، قدرت کی حسین شاہکار ہیں، سلسلہ وار پہاڑ اور ان کے درمیان وادیاں اور گھاٹیاں ایسا حسین منظر پیش کرتی ہیں کہ ان کے درمیان گزر گاہوں سے اور پیچیدہ اور انتہائی دشوار راہوں سے گزرنے والا مسافر ان کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوکر عش عش کر اٹھتا ہے۔
یوں اس ملک کا ایک بہت بڑا پہاڑی حصہ اپنی ہریالی، شادابی اور خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کی کشش کا باعث بنتا ہے، اس ملک کی آبادی تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ ہے، ہندو مذہب کے ماننے والوں کی تعداد سب سے بڑی ہے، اس میں بودھ مذہب کے پیروکار بھی پائے جاتے ہیں ایک انتہائی معمولی تعداد عیسائیوں کی بھی ہے۔
اس ملک میں اسلام کی آمد بہت پہلے ہوئی ہے اور میدانی علاقوں میں ہند نژاد مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد آباد ہے۔
پہاڑوں کی وادیوں اور اس کی تنگ گھاٹیوں میں بھی اوروں کے ساتھ مسلمان بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں۔
یوں تو نیپال میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی مسلمان عقیدہ و عمل کی بہت سی خرابیوں، شرک و بدعت اور بے عملی و بدعملی میں گرفتار ہیں، مگر نیپال کے پہاڑی مسلمانوں میں جہل بہت عام ہے، صحیح عقیدہ اور خالص توحید اور سنت کے پیرو کار بہت کم ہیں، اغلب تعداد شرک اور بدعت اور جاہلانہ رسوم ورواج میں ملوث ہے۔
بعض وادیوں میں بسنے والے مسلمانوں میں کچھ عملی بیداری شروع ہوئی ہے بعض مسلمان بچے سرحد پر واقع مدارس اور یوپی اور بہار کے مدارس اسلامیہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کی مساعی سے ان علاقوں میں دعوت واصلاح کے عمل کا آغاز ہوا ہے اور بعض اسلامی مدارس کی بنیاد پڑی ہے مگر ابھی سب کچھ ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم وہاں کی تعلیم و تربیت سازی کا عمل شروع ہوچکا ہے، طلبہ و طالبات رخت سفر باندھ کر مشہور نیپالی اور بھارتی اسلامی درسگاہوں کا رخ کرکے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں، مستقبل میں خیر کی امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے نیپالی، مسلمان بالعموم اور بالخصوص جبلی مسلمان تعلیم و تربیت اور دعوت و ارشاد کے بہت ہی زیادہ مستحق ہیں، مخلص دعاۃ اور سوز دل رکھنے والے مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ وہاں پر وقتا فوقتا پہونچ کروہاں کے حالات کا جائزہ لیں، ان کے احتیاجات سے واقفیت حاصل کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کے نظم و نسق کے قیام کی بابت خیر خواہانہ مشورے دیں اور ان میں چند ایام قیام کرکے ان میں دعوت و ارشاد کا کام کریں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں، ان اعمال میں تسلسل بھی چاہئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ عملی طور پر دعوتی ذمہ داریاں نبھانے میں دعاۃ و مخلصین میں کوتاہی ہے، سوز دل کا فقدان ہے، دعوتی درد عنقاء ہے ’’ہم الدعوۃ‘‘کی حامل شخصیات کی کمیابی بلکہ نایابی ہے۔
ہند و نیپال سرحد پر واقع بعض اسلامی مدارس و مراکز اپنی بساط بھر کام اپنے علاقوں میں کر رہے ہیں، تدریس کا کام اطمینان بخش ہے مگر کار دعوت میں ضعف و کمزوری ہے، میدانی علاقوں میں بھی صحیح معنوں میں دعوتی کام کا معیار و مقدار اطمینان بخش کہنا مناسب نہیں ہے۔
مگر پہاڑی علاقوں میں کار دعوت و اصلاح انجام دینے والوں کی کمی ہی نہیں بلکہ فقدان ہے، یہی وجہ ہے بسا اوقات خرافی، بدعقیدہ جعلی پیرو مرشد وہاں ان کے بیچ پہنچ کر سادہ لوح عوام کو اپنی پرفریب باتوں سے مسحور کرلیتے ہیں اور مختلف باطل عقائد اور توحید مخالف امور اور شرکیہ و بدعیہ رسوم و رواج کی زنجیروں میں انہیں جکڑ دیتے ہیں۔
بسا اوقات کوئی قادیانی وہاں پر رسائی حاصل کرلیتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کا یہ دشمن اپنی عیاری و مکاری کے ذریعہ اپنے زہر آلود افکار پھیلانا شروع کردیتا ہے، تو کبھی کوئی عیسائی مشنری محرف نصرانیت میں رفاہی و خیراتی اعمال انجام دیکر اور مادہ کا جھانسہ دیکرگرفتار کرلیتا ہے۔
ان گمراہ و باطل افکار و نظریات کے حاملین اپنا شکار بلاتفریق مذہب وملت تمام لوگوں کو بناتے ہیں، بسا اوقات ایک بدحال مسلمان بھی ان کے دام تزویر میں پھنس کر اپنے دین وایمان کا سودا کر بیٹھتا ہے۔
اس صورت حال میں یہ امر بہت ہی ضروری ہے کہ اسلامی دعاۃ و مبلغین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور جملہ مسلمان بالخصوص پہاڑی وادیوں میں سکونت پذیر مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کا فریضہ انجام دینے کی فکر کریں۔
مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک دینی، تعلیمی، دعوتی اور رفاہی ادارہ ہے اس کی نگرانی میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ مسلم بچیوں میں تعلیم وتربیت کا فریضہ ادا کررہا ہے،جہاں پر تقریبا ساڑھے چھ سو بچیاں زیر تعلیم ہیں ،تقریباً ۴۰۰؍ طالبات ہاسٹل میں مقیم ہیں، فضیلت تک کی معیاری تعلیم ہوتی ہے، ایک سالہ تخصص فی التدریس کا کورس بھی قائم ہے۔
اس مرکز کا رفاہی شعبہ بھی سرگرم عمل رہتا ہے، موسمی مشاریع کے علاوہ مصیبت زدگان، سیلاب زدگان اور فقراء میں اپنی بساط بھر رفاہی خدمات انجام دیتا ہے۔
اس مرکز کا ایک اہم شعبہ دعوتی شعبہ ہے، جس کی جانب سے بائیس سال سے مجلہ ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ شائع ہوتا ہے۔
کئی اہم دعوتی، ادبی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں، بعض اہم کتابوں کی اشاعت کا عزم بھی ہے۔
اسی طرح منسوبین و مسؤلین مرکز، اساتذہ اور معلمات بھی اپنے دائروں میں حسب استطاعت دعوتی واصلاحی فریضہ کی انجام دہی میں مصروف کار ہیں۔
خطبات اور دروس کا اہتمام رہتا ہے، سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔
رئیس مرکز التوحید فضیلۃ الشیخ عبداللہ عبدالتواب مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ و تولاہ نے پہاڑوں میں ایک ’’کاروان دعوت‘‘ یا ’’دعوتی قافلہ‘‘ کی منصوبہ بندی فرمائی، طے پایا کہ صدر مرکز کے ہمراہ مولانا عبدالقیوم بسم اللہ مدنیؔ اور راقم السطور مطیع اللہ حقیق اللہ مدنیؔ ہوں گے۔ اور یہ قافلہ پہاڑوں کی وادی میں آباد مسلمانوں کے بیچ پہونچ کر ان کے حالات کا جائزہ لے گا، ان کے ہمراہ نشست کرکے ان سے تبادلہ خیالات کرے گا، وہاں پر دروس و خطبات کا بھرپور اہتمام کرے گا، ان کے دینی و تعلیمی و معاشی احتیاجات کا جائزہ لے گا۔
چنانچہ یہ ’’قافلۂ دعوت و ارشاد‘‘ تین روزہ سفر پر روانہ ہوکر دشوار گزار راہوں سے گذر کر ضلع پالپا کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد بستی رام پور میں فروکش ہوا، آئندہ سطور میں اسی دعوتی قافلہ کی سرگرمیوں کی سرگزشت پیش کی جارہی ہے۔
اس دعوتی سفر کے لئے ایک جیپ کرایہ پر لی گئی تھی جس کا ڈرائیور ایک مشاق اور پہاڑی راستوں پر گاڑی چلانے کا ماہر تھا، یہ دعوتی قافلہ جو صدر مرکز شیخ عبداللہ مدنیؔ ، شیخ عبدالقیوم مدنیؔ ، مطیع اللہ مدنیؔ اورجواد عبداللہ مدنیؔ بھی جو قافلہ کے ہمراہ تھے، مورخہ ۷؍۷؍۲۰۱۰ء بروز بدھ روانہ ہوا۔
دوپہر کو ہم بٹول پہونچے ، مشہور مطعم عبداللہ ہوٹل میں وارد ہوئے، رئیس مرکز کے تعلقات مالکان ہوٹل سے بالکل گھریلو قسم کے ہیں اور وہ سب صدر مرکز کی غایت درجہ تکریم کرتے ہیں، ہوٹل میں طعام پیش کرنے کا انداز بالکل الگ ہوتا ہے، جس پر عزیز برنی جیسے لوگ بھی کبھی جب ان کا اس انداز میں ضیافت کا سامنا ہوا، حیرت و استعجاب کا شکار ہوکر رہ گئے تھے اور داد وتحسین سے نوازا۔
طعام تناول کرنے کے معاً بعد ہم لوگ جانب منزل روانہ ہوئے، ہم لوگوں کے لئے منزل بالکل نئی تھی، بٹول کے بعد کا راستہ بھی ہمارے لئے بالکل اجنبی تھا، ہمارے صدر مرکز شاید چالیس برس قبل اس راہ گزر سے گذرے تھے جب انہوں نے اس وقت پوکھرا کی اولین زیارت ، سیاحت کی تھی، البتہ آریہ بھنجن سے ہم تمام ارکان قافلہ کے لئے جادہ ومنزل دونوں ہی غیر معروف تھے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر مرکز امیر القافلہ نے رامپور کے اپنے میزبان سے راستہ کی بابت معلومات حاصل کرلی تھی اور راستہ میں واقع اہم مقامات کے نام نوٹ کرلئے تھے۔
آریہ بھنجن کے بعد راستہ نامعلوم تھا ہی، ۱۵؍کلومیٹر کے بعد راستہ کچا اور غیر ہموار ہوگیا، بٹول کے بعد ہی پہاڑوں کا سلسلہ شروع تھا، اب انتہائی دشوار پہاڑی راہ سے انتہائی سست رفتاری کے ساتھ جانب منزل محو سفر تھے۔ ہمارے میزبان برابر فون پر رابطہ قائم کئے ہوئے تھے، مگر اب ایسے علاقے میں تھے جہاں نیٹ ورک معدوم ہوگیا، پھر آگے ایک آباد مقام پر دو اشخاص ہماری جیپ کی جانب اشارہ کر رہے تھے، ہم میں سے بعض نے انہیں عام مسافر سمجھا جو بسا اوقات جیپ ، ٹیکسی سمجھ کر اشارہ کرتے ہیں، مگر وہ دونوں ہمارے اس قافلہ کے استقبال و امداد کے لئے آنے والے ہمارے کرم فرما برادر مکرم محمد ایوب اور عزیزمکرم محمد ابراہیم میاں صاحبان تھے جو موٹر سائیکل سے اپنی بستی سے کافی دور نکل کر استقبال کے لئے آئے تھے۔
صدر مرکز اور برادر مکرم محمد ایوب میں سابقہ تعارف رہا تھا، انہیں کے ذریعہ اس دعوتی قافلہ کے پروگرام کی تفصیلات طے کی گئیں تھیں۔
ہم لوگوں نے اولاً یہ سوچا کہ ہمارے محترم میزبان نے کافی تکلف سے کام لیا ہے، مگر ہم اس اجنبی پہاڑی خطہ میں انہیں دیکھ کر کافی مطمئن ہوگئے اور بعد کے حالات سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اگر وہ نہ آتے تو ہم راستہ بھٹک سکتے تھے اور سفر کی دشواریوں سے کسی قدر پریشان ہوسکتے تھے، مگر وہ آئے، رہنمائی کی، راستوں میں کھسکے بعض چٹانوں کو ہٹا کر راستہ ہموار کیا، یوں ہم تسلی بخش حالت میں سفر جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف سست گامی کے ساتھ رواں دواں رہے ، اس لئے کہ تیز رفتاری کے لئے اس مشکل ترین راہ میں گنجائش نہیں تھی،ایسے میں ذرا سی تیزی جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی۔
ایک مقام پر پہونچ کر ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ یہاں سے رام پور کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوگا دوسراراستہ ڈھائی گھنٹہ میں طے ہوگا، معمولی سی بحث کے بعد مختصر الوقت راستہ منتخب کیا گیا، جو پچھلی رات اور آج صبح بارش سے کافی ابتر ہو چکا تھا اور وہاں پر چلتے ہوئے بہرحال انسان کے اندر طبعی خوف سرایت ہونے لگتا ہے، چنانچہ ابترئ راہ کا اندازہ یوں کرسکتے ہیں وہ راستہ ایک گھنٹہ ۱۵؍منٹ میں طے کیا جاسکا۔
تاہو نامی مقام سے رام پور کی کل مسافت ۳۳؍ کلو میٹر ہے یہ معمولی سی مسافت ہم نے تقریباً ۴؍ گھنٹے میں طے کی، اس سے اس پہاڑی راہ کی پیچیدگی ، دشواری اور ناہمواری کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
بہر حال ہمارا یہ قافلہ باذن اللہ ومشیئتہ وبفضلہ ورحمتہ بعد مغرب رام پور پہونچ کر اپنے ان دینی بھائیوں سے سلام و معانقہ کرتا ہوا ان سے دینی محبت کا ثبوت دیتا رہا تھا جو کافی دیر سے اپنے مہمانوں کے انتظار میں تھے،فجزاہم اللہ أحسن الجزاء۔
ابتدائی ضیافت کے بعد نماز مغرب ادا کی گئی، پھر میزبانوں کے ہمراہ مدرسہ نورالہدیٰ ، رامپور کے صحن میں ہم اذان عشاء تک بیٹھے رہے، ایک دوسرے کی مزاج پرسی کے ساتھ ہی مختلف تعلیمی و دعوتی امور پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، مدرسہ کی تاریخ، علاقہ کے احوال کے بارے میں ہم لوگ ان سے سوالات کرتے رہے، رام پور میں موجودہ عقیدہ کی خرابی کے حامل خرافی لوگوں کا بھی تذکرہ کرتے رہے، ان کی اصلاح کی تدابیر پر بھی بات چیت ہوتی رہی، عشاء کی نماز اداکی گئی اور عشائیہ برادرم محمد ایوب کے دولت خانہ پر ان کے بزرگ والد محترم محمد یونس صاحب کے ساتھ تناول کیا گیا، قافلہ کی خدمت میں محمد ایوب کے برادر صغیر جلال الدین اور ان کے رفقاء ہمیشہ پیش پیش رہے۔
محمد ایوب اور ان کے اہل خانہ اور دیگر احباب نے جس اسلامی اخلاق اور حسن ضیافت کا نمونہ پیش کیا اس کو میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، ہماری رہائش کے لئے انہوں نے برادر مکرم رضوان احمد مقیم حال قطر کے جدید ولا میں پہلی منزل خالی کروالیا تھا اور دوروم ہمارے لئے مختص کر دیا، ولا ضروریات سے آراستہ ہے، یوں ہمیں اس حسین وادی میں آرام دہ رہائش گاہ فراہم کی گئی، تاکہ کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ہم تھکے ہوئے مسافر آرام کی نیند سوسکیں۔
نماز فجر کے بعد راقم ؍مطیع اللہ مدنی نے درس قرآن دیا سورۃ العصر کی ترجمانی و تشریح کرتے ہوئے سورہ کے اساسی پیغام کو اجاگر کیا کہ انسانیت کے لئے خسارہ سے نجات کا نسخہ کیمیا ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) اور تواصی بالصبر ہے۔
ناشتہ کے بعد مدرسہ نورالہدی رامپور کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام کے ساتھ نشست کا جامع پروگرام تھا جس کا آغاز دس بجے دن میں ہوا، ایک طالب علم نے تلاوت کی اس کے بعد برادر گرامی ابوالکلام الفلاحی نے مدرسہ کا جامع تعارف پیش کیا انہوں نے بتایا کہ یہاں پر لوگ بدعات و خرافات اور باطل رسوم ورواج میں گرفتار تھے، پھر بعض مصلحین کی آمد اور ان کے وعظ سے کچھ لوگ شرک جلی اور بدعات سے کنارہ کش ہوئے اور یہاں کے بعض طلبہ براٹ نگر اور دیگر اسلامی مدارس میں پڑھنے گئے، پھر علم کی روشنی پیدا ہوئی اور آج سے چودہ سال قبل اس مدرسہ کی تا سیس عمل میں آئی۔
یہاں کے طلبہ و طالبات نیپال و ہند کے معروف اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کئی ایک فارغ ہوچکے ہیں،بعض طالبات مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ اور عائشہ صدیقہ کی فارغ التحصیل ہیں اور کئی ایک متعدد مدارس نسواں میں زیر تعلیم ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رام پور میں مسلمان تقریبا ۸۰؍ گھر ہیں جن میں تقریبا نصف خرافی عقیدہ کے حامل ہیں جن کے یہاں شرک وبدعت کی ساری بلائیں موجود ہیں، آبادی کی اکیلی مسجد پر جو سب کی مشترک مسجد تھی، ان خرافیوں کا قبضہ ہے، شرک جلی سے پاک لوگوں نے جدید مسجد کی بنیاد ڈال رکھی ہے جس کی چھت سازی کا عمل شروع ہے اللہ کرے جلد ہی چھت کا کام مکمل ہوجائے اور دیگر مرافق و لوازم کی تکمیل کا سامان پیدا ہوجائے، ابھی تک یہ لوگ مدرسہ کے ایک ٹین کے شیڈ کے نیچے صلاۃ ادا کرتے ہیں ۔
پھرمدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کی نظموں،دعاؤں اور اردو، نیپالی، انگریزی تقاریر کا سلسلہ چلتا رہا، بچوں اور بچیوں کے اس ثقافتی پروگرام کو سن کر یہ اندازہ ہوا کہ یہاں کے ذمہ دار اور اساتذہ کرام بچوں کی تعلیم و تربیت پر محنت صرف کررہے ہیں۔
اس کے بعد مولانا عبدالقیوم مدنی کو دعوت خطاب دی گئی، آپ نے علم کی فضیلت پر کتاب و سنت کی روشنی میں خطاب کیا اور ذمہ داران مدرسہ کو تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ادا کرنے پر ابھارا اور بتایا کہ کوئی بھی قوم بلا تعلیم ترقی کے مراحل نہیں طے کرسکتی ہے۔
پھر راقم نے حاضرین کو خطاب کیا، اولا وہاں کے احباب کے وفد کا شاندار خیر مقدم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا،پھر مدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کو خطاب کرتے ہوئے علم کی فضیلت و برتری واضح کی اوریہ بھی بتایا کہ اصل علم علم الایمان والعقیدہ والتوحید ہے اس کی تحصیل واجب ہے، پھر میں نے ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کی روشنی میں یہ بتایا کہ تم طالبان علم دین اس دنیا کے سب سے بہترین لوگ ہو اور توحید کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ قرآن و سنت کے علم سے حقیقت توحید آشکار ہوتی ہے اور اسی علم سے ہی انسان شرک و بدعت سے دور رہ سکتا ہے اور مختلف نصائح پر گفتگو مرکوز رہی۔
علمی، تہذیبی اورمعاشی اعتبار سے کافی پسماندہ ملک ہے، جغرافیائی اعتبار سے یہ ملک تین بنیادی حصوں میں منقسم ہے:
۱۔ میدانی خطہ جس کی بیشتر اراضی قابل کاشت ہے اور گنا، دھان ، گیہوں، مکئی وغیرہ کی بہترین پیداوار ہوتی ہے، پہاڑوں سے نکلنے والی ندیاں اور نالے میدانی علاقہ سے گزرتے ہیں جس سے نفع اور نقصان دونوں وابستہ ہیں۔
۲۔ جنگلات، ندیاں اور نالے: اس ملک میں چھوٹی بڑی کئی ندیاں ہیں جو پہاڑوں سے نکلتی ہیں ان میں نارائنی، باگمتی، کالی گنڈکی،کوسی اور راپتی وغیرہ نام کی ندیاں بہت مشہور ہیں، کوسی کا سیلاب بڑا ضرر رساں ہوتا ہے اور اسے تو ’’غم بہار‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
۳۔ پہاڑی خطہ : اس ملک کا ایک بہت بڑا حصہ چھوٹی پہاڑیوں اور کچھ بڑی اور بلند وبالا پہاڑیوں پر مشتمل ہے، ہمالیہ پہاڑ بھی اس میں واقع ہے اور اس کی چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ہے جو ایورسٹ چوٹی کے نام سے معروف ہے، جس کی بلندی 16880فٹ ہے۔
کچھ پہاڑیاں برف پوش ہیں، جن پر سالہاسال برف جمی رہتی ہے اور گرمیوں میں یہی برف پگھل کر ندیوں کو پانی فراہم کرتی رہتی ہے۔
بیشتر پہاڑیاں ایسی ہیں جن میں مختلف قسم کے درخت ہیں، جن کی وجہ سے یہ پہاڑیاں حد درجہ سرسبز نظر آتی ہیں اور سلسلہ کوہ ایک انتہائی حسین منظر پیش کرتا ہے۔
ان پہاڑوں کی وادیاں بھی حددرجہ شاداب ہیں، قدرت کی حسین شاہکار ہیں، سلسلہ وار پہاڑ اور ان کے درمیان وادیاں اور گھاٹیاں ایسا حسین منظر پیش کرتی ہیں کہ ان کے درمیان گزر گاہوں سے اور پیچیدہ اور انتہائی دشوار راہوں سے گزرنے والا مسافر ان کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوکر عش عش کر اٹھتا ہے۔
یوں اس ملک کا ایک بہت بڑا پہاڑی حصہ اپنی ہریالی، شادابی اور خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کی کشش کا باعث بنتا ہے، اس ملک کی آبادی تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ ہے، ہندو مذہب کے ماننے والوں کی تعداد سب سے بڑی ہے، اس میں بودھ مذہب کے پیروکار بھی پائے جاتے ہیں ایک انتہائی معمولی تعداد عیسائیوں کی بھی ہے۔
اس ملک میں اسلام کی آمد بہت پہلے ہوئی ہے اور میدانی علاقوں میں ہند نژاد مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد آباد ہے۔
پہاڑوں کی وادیوں اور اس کی تنگ گھاٹیوں میں بھی اوروں کے ساتھ مسلمان بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں۔
یوں تو نیپال میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی مسلمان عقیدہ و عمل کی بہت سی خرابیوں، شرک و بدعت اور بے عملی و بدعملی میں گرفتار ہیں، مگر نیپال کے پہاڑی مسلمانوں میں جہل بہت عام ہے، صحیح عقیدہ اور خالص توحید اور سنت کے پیرو کار بہت کم ہیں، اغلب تعداد شرک اور بدعت اور جاہلانہ رسوم ورواج میں ملوث ہے۔
بعض وادیوں میں بسنے والے مسلمانوں میں کچھ عملی بیداری شروع ہوئی ہے بعض مسلمان بچے سرحد پر واقع مدارس اور یوپی اور بہار کے مدارس اسلامیہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کی مساعی سے ان علاقوں میں دعوت واصلاح کے عمل کا آغاز ہوا ہے اور بعض اسلامی مدارس کی بنیاد پڑی ہے مگر ابھی سب کچھ ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم وہاں کی تعلیم و تربیت سازی کا عمل شروع ہوچکا ہے، طلبہ و طالبات رخت سفر باندھ کر مشہور نیپالی اور بھارتی اسلامی درسگاہوں کا رخ کرکے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں، مستقبل میں خیر کی امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے نیپالی، مسلمان بالعموم اور بالخصوص جبلی مسلمان تعلیم و تربیت اور دعوت و ارشاد کے بہت ہی زیادہ مستحق ہیں، مخلص دعاۃ اور سوز دل رکھنے والے مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ وہاں پر وقتا فوقتا پہونچ کروہاں کے حالات کا جائزہ لیں، ان کے احتیاجات سے واقفیت حاصل کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کے نظم و نسق کے قیام کی بابت خیر خواہانہ مشورے دیں اور ان میں چند ایام قیام کرکے ان میں دعوت و ارشاد کا کام کریں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں، ان اعمال میں تسلسل بھی چاہئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ عملی طور پر دعوتی ذمہ داریاں نبھانے میں دعاۃ و مخلصین میں کوتاہی ہے، سوز دل کا فقدان ہے، دعوتی درد عنقاء ہے ’’ہم الدعوۃ‘‘کی حامل شخصیات کی کمیابی بلکہ نایابی ہے۔
ہند و نیپال سرحد پر واقع بعض اسلامی مدارس و مراکز اپنی بساط بھر کام اپنے علاقوں میں کر رہے ہیں، تدریس کا کام اطمینان بخش ہے مگر کار دعوت میں ضعف و کمزوری ہے، میدانی علاقوں میں بھی صحیح معنوں میں دعوتی کام کا معیار و مقدار اطمینان بخش کہنا مناسب نہیں ہے۔
مگر پہاڑی علاقوں میں کار دعوت و اصلاح انجام دینے والوں کی کمی ہی نہیں بلکہ فقدان ہے، یہی وجہ ہے بسا اوقات خرافی، بدعقیدہ جعلی پیرو مرشد وہاں ان کے بیچ پہنچ کر سادہ لوح عوام کو اپنی پرفریب باتوں سے مسحور کرلیتے ہیں اور مختلف باطل عقائد اور توحید مخالف امور اور شرکیہ و بدعیہ رسوم و رواج کی زنجیروں میں انہیں جکڑ دیتے ہیں۔
بسا اوقات کوئی قادیانی وہاں پر رسائی حاصل کرلیتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کا یہ دشمن اپنی عیاری و مکاری کے ذریعہ اپنے زہر آلود افکار پھیلانا شروع کردیتا ہے، تو کبھی کوئی عیسائی مشنری محرف نصرانیت میں رفاہی و خیراتی اعمال انجام دیکر اور مادہ کا جھانسہ دیکرگرفتار کرلیتا ہے۔
ان گمراہ و باطل افکار و نظریات کے حاملین اپنا شکار بلاتفریق مذہب وملت تمام لوگوں کو بناتے ہیں، بسا اوقات ایک بدحال مسلمان بھی ان کے دام تزویر میں پھنس کر اپنے دین وایمان کا سودا کر بیٹھتا ہے۔
اس صورت حال میں یہ امر بہت ہی ضروری ہے کہ اسلامی دعاۃ و مبلغین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور جملہ مسلمان بالخصوص پہاڑی وادیوں میں سکونت پذیر مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کا فریضہ انجام دینے کی فکر کریں۔
مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک دینی، تعلیمی، دعوتی اور رفاہی ادارہ ہے اس کی نگرانی میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ مسلم بچیوں میں تعلیم وتربیت کا فریضہ ادا کررہا ہے،جہاں پر تقریبا ساڑھے چھ سو بچیاں زیر تعلیم ہیں ،تقریباً ۴۰۰؍ طالبات ہاسٹل میں مقیم ہیں، فضیلت تک کی معیاری تعلیم ہوتی ہے، ایک سالہ تخصص فی التدریس کا کورس بھی قائم ہے۔
اس مرکز کا رفاہی شعبہ بھی سرگرم عمل رہتا ہے، موسمی مشاریع کے علاوہ مصیبت زدگان، سیلاب زدگان اور فقراء میں اپنی بساط بھر رفاہی خدمات انجام دیتا ہے۔
اس مرکز کا ایک اہم شعبہ دعوتی شعبہ ہے، جس کی جانب سے بائیس سال سے مجلہ ماہنامہ ’’نور توحید‘‘ شائع ہوتا ہے۔
کئی اہم دعوتی، ادبی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں، بعض اہم کتابوں کی اشاعت کا عزم بھی ہے۔
اسی طرح منسوبین و مسؤلین مرکز، اساتذہ اور معلمات بھی اپنے دائروں میں حسب استطاعت دعوتی واصلاحی فریضہ کی انجام دہی میں مصروف کار ہیں۔
خطبات اور دروس کا اہتمام رہتا ہے، سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔
رئیس مرکز التوحید فضیلۃ الشیخ عبداللہ عبدالتواب مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ و تولاہ نے پہاڑوں میں ایک ’’کاروان دعوت‘‘ یا ’’دعوتی قافلہ‘‘ کی منصوبہ بندی فرمائی، طے پایا کہ صدر مرکز کے ہمراہ مولانا عبدالقیوم بسم اللہ مدنیؔ اور راقم السطور مطیع اللہ حقیق اللہ مدنیؔ ہوں گے۔ اور یہ قافلہ پہاڑوں کی وادی میں آباد مسلمانوں کے بیچ پہونچ کر ان کے حالات کا جائزہ لے گا، ان کے ہمراہ نشست کرکے ان سے تبادلہ خیالات کرے گا، وہاں پر دروس و خطبات کا بھرپور اہتمام کرے گا، ان کے دینی و تعلیمی و معاشی احتیاجات کا جائزہ لے گا۔
چنانچہ یہ ’’قافلۂ دعوت و ارشاد‘‘ تین روزہ سفر پر روانہ ہوکر دشوار گزار راہوں سے گذر کر ضلع پالپا کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد بستی رام پور میں فروکش ہوا، آئندہ سطور میں اسی دعوتی قافلہ کی سرگرمیوں کی سرگزشت پیش کی جارہی ہے۔
اس دعوتی سفر کے لئے ایک جیپ کرایہ پر لی گئی تھی جس کا ڈرائیور ایک مشاق اور پہاڑی راستوں پر گاڑی چلانے کا ماہر تھا، یہ دعوتی قافلہ جو صدر مرکز شیخ عبداللہ مدنیؔ ، شیخ عبدالقیوم مدنیؔ ، مطیع اللہ مدنیؔ اورجواد عبداللہ مدنیؔ بھی جو قافلہ کے ہمراہ تھے، مورخہ ۷؍۷؍۲۰۱۰ء بروز بدھ روانہ ہوا۔
دوپہر کو ہم بٹول پہونچے ، مشہور مطعم عبداللہ ہوٹل میں وارد ہوئے، رئیس مرکز کے تعلقات مالکان ہوٹل سے بالکل گھریلو قسم کے ہیں اور وہ سب صدر مرکز کی غایت درجہ تکریم کرتے ہیں، ہوٹل میں طعام پیش کرنے کا انداز بالکل الگ ہوتا ہے، جس پر عزیز برنی جیسے لوگ بھی کبھی جب ان کا اس انداز میں ضیافت کا سامنا ہوا، حیرت و استعجاب کا شکار ہوکر رہ گئے تھے اور داد وتحسین سے نوازا۔
طعام تناول کرنے کے معاً بعد ہم لوگ جانب منزل روانہ ہوئے، ہم لوگوں کے لئے منزل بالکل نئی تھی، بٹول کے بعد کا راستہ بھی ہمارے لئے بالکل اجنبی تھا، ہمارے صدر مرکز شاید چالیس برس قبل اس راہ گزر سے گذرے تھے جب انہوں نے اس وقت پوکھرا کی اولین زیارت ، سیاحت کی تھی، البتہ آریہ بھنجن سے ہم تمام ارکان قافلہ کے لئے جادہ ومنزل دونوں ہی غیر معروف تھے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر مرکز امیر القافلہ نے رامپور کے اپنے میزبان سے راستہ کی بابت معلومات حاصل کرلی تھی اور راستہ میں واقع اہم مقامات کے نام نوٹ کرلئے تھے۔
آریہ بھنجن کے بعد راستہ نامعلوم تھا ہی، ۱۵؍کلومیٹر کے بعد راستہ کچا اور غیر ہموار ہوگیا، بٹول کے بعد ہی پہاڑوں کا سلسلہ شروع تھا، اب انتہائی دشوار پہاڑی راہ سے انتہائی سست رفتاری کے ساتھ جانب منزل محو سفر تھے۔ ہمارے میزبان برابر فون پر رابطہ قائم کئے ہوئے تھے، مگر اب ایسے علاقے میں تھے جہاں نیٹ ورک معدوم ہوگیا، پھر آگے ایک آباد مقام پر دو اشخاص ہماری جیپ کی جانب اشارہ کر رہے تھے، ہم میں سے بعض نے انہیں عام مسافر سمجھا جو بسا اوقات جیپ ، ٹیکسی سمجھ کر اشارہ کرتے ہیں، مگر وہ دونوں ہمارے اس قافلہ کے استقبال و امداد کے لئے آنے والے ہمارے کرم فرما برادر مکرم محمد ایوب اور عزیزمکرم محمد ابراہیم میاں صاحبان تھے جو موٹر سائیکل سے اپنی بستی سے کافی دور نکل کر استقبال کے لئے آئے تھے۔
صدر مرکز اور برادر مکرم محمد ایوب میں سابقہ تعارف رہا تھا، انہیں کے ذریعہ اس دعوتی قافلہ کے پروگرام کی تفصیلات طے کی گئیں تھیں۔
ہم لوگوں نے اولاً یہ سوچا کہ ہمارے محترم میزبان نے کافی تکلف سے کام لیا ہے، مگر ہم اس اجنبی پہاڑی خطہ میں انہیں دیکھ کر کافی مطمئن ہوگئے اور بعد کے حالات سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اگر وہ نہ آتے تو ہم راستہ بھٹک سکتے تھے اور سفر کی دشواریوں سے کسی قدر پریشان ہوسکتے تھے، مگر وہ آئے، رہنمائی کی، راستوں میں کھسکے بعض چٹانوں کو ہٹا کر راستہ ہموار کیا، یوں ہم تسلی بخش حالت میں سفر جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف سست گامی کے ساتھ رواں دواں رہے ، اس لئے کہ تیز رفتاری کے لئے اس مشکل ترین راہ میں گنجائش نہیں تھی،ایسے میں ذرا سی تیزی جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی۔
ایک مقام پر پہونچ کر ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ یہاں سے رام پور کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوگا دوسراراستہ ڈھائی گھنٹہ میں طے ہوگا، معمولی سی بحث کے بعد مختصر الوقت راستہ منتخب کیا گیا، جو پچھلی رات اور آج صبح بارش سے کافی ابتر ہو چکا تھا اور وہاں پر چلتے ہوئے بہرحال انسان کے اندر طبعی خوف سرایت ہونے لگتا ہے، چنانچہ ابترئ راہ کا اندازہ یوں کرسکتے ہیں وہ راستہ ایک گھنٹہ ۱۵؍منٹ میں طے کیا جاسکا۔
تاہو نامی مقام سے رام پور کی کل مسافت ۳۳؍ کلو میٹر ہے یہ معمولی سی مسافت ہم نے تقریباً ۴؍ گھنٹے میں طے کی، اس سے اس پہاڑی راہ کی پیچیدگی ، دشواری اور ناہمواری کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
بہر حال ہمارا یہ قافلہ باذن اللہ ومشیئتہ وبفضلہ ورحمتہ بعد مغرب رام پور پہونچ کر اپنے ان دینی بھائیوں سے سلام و معانقہ کرتا ہوا ان سے دینی محبت کا ثبوت دیتا رہا تھا جو کافی دیر سے اپنے مہمانوں کے انتظار میں تھے،فجزاہم اللہ أحسن الجزاء۔
ابتدائی ضیافت کے بعد نماز مغرب ادا کی گئی، پھر میزبانوں کے ہمراہ مدرسہ نورالہدیٰ ، رامپور کے صحن میں ہم اذان عشاء تک بیٹھے رہے، ایک دوسرے کی مزاج پرسی کے ساتھ ہی مختلف تعلیمی و دعوتی امور پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، مدرسہ کی تاریخ، علاقہ کے احوال کے بارے میں ہم لوگ ان سے سوالات کرتے رہے، رام پور میں موجودہ عقیدہ کی خرابی کے حامل خرافی لوگوں کا بھی تذکرہ کرتے رہے، ان کی اصلاح کی تدابیر پر بھی بات چیت ہوتی رہی، عشاء کی نماز اداکی گئی اور عشائیہ برادرم محمد ایوب کے دولت خانہ پر ان کے بزرگ والد محترم محمد یونس صاحب کے ساتھ تناول کیا گیا، قافلہ کی خدمت میں محمد ایوب کے برادر صغیر جلال الدین اور ان کے رفقاء ہمیشہ پیش پیش رہے۔
محمد ایوب اور ان کے اہل خانہ اور دیگر احباب نے جس اسلامی اخلاق اور حسن ضیافت کا نمونہ پیش کیا اس کو میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، ہماری رہائش کے لئے انہوں نے برادر مکرم رضوان احمد مقیم حال قطر کے جدید ولا میں پہلی منزل خالی کروالیا تھا اور دوروم ہمارے لئے مختص کر دیا، ولا ضروریات سے آراستہ ہے، یوں ہمیں اس حسین وادی میں آرام دہ رہائش گاہ فراہم کی گئی، تاکہ کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ہم تھکے ہوئے مسافر آرام کی نیند سوسکیں۔
نماز فجر کے بعد راقم ؍مطیع اللہ مدنی نے درس قرآن دیا سورۃ العصر کی ترجمانی و تشریح کرتے ہوئے سورہ کے اساسی پیغام کو اجاگر کیا کہ انسانیت کے لئے خسارہ سے نجات کا نسخہ کیمیا ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) اور تواصی بالصبر ہے۔
ناشتہ کے بعد مدرسہ نورالہدی رامپور کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام کے ساتھ نشست کا جامع پروگرام تھا جس کا آغاز دس بجے دن میں ہوا، ایک طالب علم نے تلاوت کی اس کے بعد برادر گرامی ابوالکلام الفلاحی نے مدرسہ کا جامع تعارف پیش کیا انہوں نے بتایا کہ یہاں پر لوگ بدعات و خرافات اور باطل رسوم ورواج میں گرفتار تھے، پھر بعض مصلحین کی آمد اور ان کے وعظ سے کچھ لوگ شرک جلی اور بدعات سے کنارہ کش ہوئے اور یہاں کے بعض طلبہ براٹ نگر اور دیگر اسلامی مدارس میں پڑھنے گئے، پھر علم کی روشنی پیدا ہوئی اور آج سے چودہ سال قبل اس مدرسہ کی تا سیس عمل میں آئی۔
یہاں کے طلبہ و طالبات نیپال و ہند کے معروف اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کئی ایک فارغ ہوچکے ہیں،بعض طالبات مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ اور عائشہ صدیقہ کی فارغ التحصیل ہیں اور کئی ایک متعدد مدارس نسواں میں زیر تعلیم ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رام پور میں مسلمان تقریبا ۸۰؍ گھر ہیں جن میں تقریبا نصف خرافی عقیدہ کے حامل ہیں جن کے یہاں شرک وبدعت کی ساری بلائیں موجود ہیں، آبادی کی اکیلی مسجد پر جو سب کی مشترک مسجد تھی، ان خرافیوں کا قبضہ ہے، شرک جلی سے پاک لوگوں نے جدید مسجد کی بنیاد ڈال رکھی ہے جس کی چھت سازی کا عمل شروع ہے اللہ کرے جلد ہی چھت کا کام مکمل ہوجائے اور دیگر مرافق و لوازم کی تکمیل کا سامان پیدا ہوجائے، ابھی تک یہ لوگ مدرسہ کے ایک ٹین کے شیڈ کے نیچے صلاۃ ادا کرتے ہیں ۔
پھرمدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کی نظموں،دعاؤں اور اردو، نیپالی، انگریزی تقاریر کا سلسلہ چلتا رہا، بچوں اور بچیوں کے اس ثقافتی پروگرام کو سن کر یہ اندازہ ہوا کہ یہاں کے ذمہ دار اور اساتذہ کرام بچوں کی تعلیم و تربیت پر محنت صرف کررہے ہیں۔
اس کے بعد مولانا عبدالقیوم مدنی کو دعوت خطاب دی گئی، آپ نے علم کی فضیلت پر کتاب و سنت کی روشنی میں خطاب کیا اور ذمہ داران مدرسہ کو تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ادا کرنے پر ابھارا اور بتایا کہ کوئی بھی قوم بلا تعلیم ترقی کے مراحل نہیں طے کرسکتی ہے۔
پھر راقم نے حاضرین کو خطاب کیا، اولا وہاں کے احباب کے وفد کا شاندار خیر مقدم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا،پھر مدرسہ نورالہدی کے طلبہ و طالبات کو خطاب کرتے ہوئے علم کی فضیلت و برتری واضح کی اوریہ بھی بتایا کہ اصل علم علم الایمان والعقیدہ والتوحید ہے اس کی تحصیل واجب ہے، پھر میں نے ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کی روشنی میں یہ بتایا کہ تم طالبان علم دین اس دنیا کے سب سے بہترین لوگ ہو اور توحید کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ قرآن و سنت کے علم سے حقیقت توحید آشکار ہوتی ہے اور اسی علم سے ہی انسان شرک و بدعت سے دور رہ سکتا ہے اور مختلف نصائح پر گفتگو مرکوز رہی۔
اس کے بعد اناؤنسر نے صدر مرکز کا والہانہ انداز میں تعارف کرایا اور یہ واضح کیا کہ ہم یہاں کے باشندگان ’’پیس ٹی وی‘‘ کے ذریعہ صدرمرکز کے لیکچر سماعت و مشاہدہ کرتے رہے، آج ان سے بالمشافہ ان کا خطاب سماعت کریں گے۔
آپ نے اپنی جامع گفتگو میں علم کی قدر و منزلت کو ابھارا اور کتاب و سنت کی روشنی میں علم اور اہل علم کی فضیلت کو اجاگر کیا اور مدرسہ نورالہدی کی سرگرمیوں کو سراہا اور ہر ممکن امداد و اعانت کا وعدہ کیا اور مختلف قیمتی آرا ء سے مستفید کیا بعض تجاویز بھی آپ نے پیش کیں مثلا یہ کہ بچیوں کی تعلیم بچوں سے الگ اور علاحدہ کلاس روم میں ہو۔
اس طرح مستقبل کے مدرسہ نسواں کی سنگ بنیاد پڑجائے گی اور جس دن مدرسہ نسواں عملی طورپر وجود میں آیا میں مرکز کی طرف سے ایک معلمہ کا تقرر کروں گا ۔ ان شاء اللہ۔
آپ کا خطاب اذان ظہر کے قریب تک جاری رہا، صلاۃ ظہر ادا کی گئی، پھر کھانا تناول کرنے کے بعد استراحت کے لئے وقفہ تھا۔
بعد صلاۃ عصر وہاں میزبانوں اور ذمہ داران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ علاقہ و جوار کی سیر و زیارت کا پروگرام تھا، ہمارے ہمراہ مدرسہ کے ناظم محمد اسماعیل صاحب تھے، ہم لوگ کالی گنڈکی نامی ندی کے پاس ایسے مقام پر پہونچے جو چار ضلعوں کا سنگم تھا، ہم لوگ ضلع پالپا کی آخری سرحد پر کھڑے تھے اور کالی گنڈکی ندی کے اس پار ضلع سیانجہ واقع تھا اورشمال کی طرف تھوڑی دور پر ضلع تنہو شروع تھا، اورجنوب مشرق کی سمت میں معمولی سے فاصلہ پر ضلع نول پراسی کی سرحد شروع ہورہی تھی۔
اور یہ مقام انتہائی دلکش اور حسین منظر پیش کررہا تھا، وہاں سے واپس ہوئے تو ہماری منزل رام پور کے مسلمانوں کی قبرستان تھی وہاں زیارت قبر کی دعا پڑھی گئی اور قبرستان کی کشادہ زمین کا معائنہ کیا گیا۔
ہمارے میزبان بھائیوں نے بتایا کہ جلد ہی اس مقبرہ کے تئیں کچھ شرپسند عناصر نے ایک بحران پیدا کرنے کی ناروا کوشش کی مگر ہماری چوکسی اور موقف کی پختگی سے یہ فتنہ فرو ہوگیا، ہوا یہ تھا کہ ایک صلیبی شخص کا انتقال ہوا، وہاں کے ہندو وغیرہ طبقہ نے اس صلیبی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی مذموم کوشش کی تاکہ کل اس وسیع اراضی پر اپنا حق جتلایا جاسکے مگر اللہ کی رحمت سے مسلمانوں نے اس مذموم کوشش کو ناکام بنا دیا۔
پھر ہم لوگوں نے کافی بلند پہاڑی پر آباد بعض مسلمانوں سے ملاقات کے لئے وہاں جانے کا ارادہ کیا، مگر کچھ دور چلنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ راستہ خراب ہے آج وہاں پر سواری کے ذریعہ پہونچنے کا امکان معدوم ہے پھر ہم رامپور وادی کا چکر کاٹ کر مدرسہ نورالہدی کے مصلی میں پہونچے جہاں صلاۃ مغرب ادا کی گئی۔
صلاۃ مغرب کے کے بعد قافلہ دعوت کے ممبران کا خطاب عام تھا جس کے لئے اعلان کیا جاچکا تھا، تمام مسلمان مردوزن کو شرکت کی دعوت دی جاچکی تھی اور خواتین کے لئے الگ بیٹھنے کا انتظام تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد تلاوت آیات کریمہ کے ساتھ ہی پروگرام کا آغاز ہوا اور مولانا عبدالقیوم مدنی نے قبولیت اعمال کے شروط کے موضوع پر مفصل خطاب کیا اور سنت کی اہمیت اور بدعت و خرافات کی قباحت کو واضح کیا۔
اس کے بعد راقم نے حاضرین کو خطاب کیا میں نے بیک وقت دو الگ الگ موضوع پر گفتگو کی پہلا موضوع ’’توحید‘‘ تھا میں نے غایت تخلیق انس و جان کو واضح کیا اور توحید کی اہمیت و فضیلت پر نیز شرک اور اس کی ہولناکی اور
انجام بد پر روشنی ڈالی اور کتاب وسنت سے مدلل خطاب کیا۔
دوسرا موضوع اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ تھا ماں، بیٹی، بہن، بیوی ہر روپ میں عورت کے مقام بلند کوواضح کرتے ہوئے ان کے حقوق و فرائض کو اختصار سے بیان کرتے ہوئے پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
آخر میں صدر مرکز اور قافلہ دعوت کے امیر مولانا عبداللہ مدنی حفظہ اللہ کا مکمل تعارف کراتے ہوئے منصرم نے انہیں دعوت سخن دی۔
آپ نے تذکیر کی اہمیت و فائدہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف نصائح و مواعظ سے سامعین کو محفوظ فرمایا، عورت کے حجاب پر مفصل گفتگو کی اور پورے عالم میں مسئلہ حجاب کی بحث کا خلاصہ کیا، آپ نے بتایا کہ عورتیں حجاب کی پابندی کریں اور حجاب ان کی ترقی کی راہ میں کوئی روڑا نہیں بلکہ وہ ان کے لئے حشمت وقار کا عنوان ہے۔
آپ نے اپنی اس تجویز کا اعادہ کیا کہ مدرسہ میں بچیوں کو درجہ سوم کے بعد الگ تھلگ کلاس روم میں پڑھانا چاہئے اور آپ لوگ اس کی کوشش کریں، کہ یہاں پر مدرسہ نسواں کا قیام عمل میں آجائے، آپ نے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔اور صدر مرکز کی پرسوز دعاؤں پر مجلس دعوت وارشاد کا اختتام ہوا۔
عِشاء اورعَشاء سے فارغ ہوکر پھر اپنے کمروں میں نیند کی آغوش میں چلے گئے، جمعہ کی صبح کو چائے نوشی کے بعد ممبران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ مختصر سی میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ اور تعلیم و تدریس ، تربیت اور نصاب تعلیم وغیرہ موضوعات زیر بحث آئے اور صدر مرکز نے اپنے مفید مشوروں سے نواز۔
اسی مجلس کے اختتام پر اس دعوتی وفد نے مدرسہ کی بابت اپنے تاثرات کو ’’تاثرات رجسٹر‘‘میں قلمبند کیا اوراس میں اپنے مشاہداتی تاثرکے ساتھ ادارہ کی امداد کی اپیل کی گئی ہے، تاکہ یہ مدرسہ اس پہاڑی خطہ کا مرکز تعلیم و تربیت ہوجائے اوراپنے اہداف و غایات کی تکمیل ہوسکے اور رشد و ہدایت کا منبع بن جائے۔
آج ۹؍جولائی کوجمعہ کا دن تھا ، وادی میں دو مسجدیں تھیں، ان میں سے ایک خرافیوں کی مسجد ہے، اسمیں ہم کو خطابت و امامت کی اجازت کا امکان معدوم تھا، اسلئے اکٹھا صلاۃ جمعہ ادا کرنا پڑی، صدر مرکز نے خطبہ دیا اور راقم نے صلاۃ کی امامت کی اور صلاۃ کے بعد درس حدیث دیا موضوع حب رسول ﷺتھا، حدیث انس ’’لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین‘‘ کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی اور میں نے بتایا کہ حب رسولﷺ جزء ایمان ہے اور محبت نبوی اطاعت و اتباع کی مقتضی ہے۔
اطاعت و اتباع سے خالی محبت یا غلوآمیز محبت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ابوبکرکی محبت اطاعت سے معمور تھی سو وہ ’’افضل ہذہ الامۃ بعد نبیہا‘‘ قرار پائے اور ابوطالب کی محبت اطاعت واتباع سے خالی تھی وہ محروم ہدایت اور جہنمی قرار پائے۔
ارکان وفد نے قبل از صلاۃ جمعہ کھانا تناول کرلیا تھا، جس کا اہتمام وہاں کی (آما سمودائے) ’’جمعیۃ الامہات‘‘نے کیا تھا، نماز سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی قافلہ کرشنانگر کے لئے روانہ ہوگیا، ہم سب نے وہاں کے جملہ احباب و اخوان کا شکریہ ادا کیا اور سلام ودعا کے ساتھ ان سے جدا ہوئے۔
برادرمحمد ایوب اور ان کے ساتھ جناب محمد علی صاحب کافی دور تک الوداع کہنے آئے، درحقیقت جس بہتر سلوک کا مظاہرہ وہاں سبھوں نے کیا اس کے لئے ہمارے پاس شکریہ کے الفاظ نہیں ہیں، اللہ کرے ہماری دعوت وارشاد کا بہترین نتیجہ برآمد ہو اور اس نوعیت کا سلسلہ قائم رہے، اللہ کے فضل سے یہ قافلہ سلامتی کے ساتھ تقریبا ساڑھے نوبجے کرشنا نگر واپس پہونچ گیا۔ وصلی اللہ علی النبی الکریم۔
آپ نے اپنی جامع گفتگو میں علم کی قدر و منزلت کو ابھارا اور کتاب و سنت کی روشنی میں علم اور اہل علم کی فضیلت کو اجاگر کیا اور مدرسہ نورالہدی کی سرگرمیوں کو سراہا اور ہر ممکن امداد و اعانت کا وعدہ کیا اور مختلف قیمتی آرا ء سے مستفید کیا بعض تجاویز بھی آپ نے پیش کیں مثلا یہ کہ بچیوں کی تعلیم بچوں سے الگ اور علاحدہ کلاس روم میں ہو۔
اس طرح مستقبل کے مدرسہ نسواں کی سنگ بنیاد پڑجائے گی اور جس دن مدرسہ نسواں عملی طورپر وجود میں آیا میں مرکز کی طرف سے ایک معلمہ کا تقرر کروں گا ۔ ان شاء اللہ۔
آپ کا خطاب اذان ظہر کے قریب تک جاری رہا، صلاۃ ظہر ادا کی گئی، پھر کھانا تناول کرنے کے بعد استراحت کے لئے وقفہ تھا۔
بعد صلاۃ عصر وہاں میزبانوں اور ذمہ داران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ علاقہ و جوار کی سیر و زیارت کا پروگرام تھا، ہمارے ہمراہ مدرسہ کے ناظم محمد اسماعیل صاحب تھے، ہم لوگ کالی گنڈکی نامی ندی کے پاس ایسے مقام پر پہونچے جو چار ضلعوں کا سنگم تھا، ہم لوگ ضلع پالپا کی آخری سرحد پر کھڑے تھے اور کالی گنڈکی ندی کے اس پار ضلع سیانجہ واقع تھا اورشمال کی طرف تھوڑی دور پر ضلع تنہو شروع تھا، اورجنوب مشرق کی سمت میں معمولی سے فاصلہ پر ضلع نول پراسی کی سرحد شروع ہورہی تھی۔
اور یہ مقام انتہائی دلکش اور حسین منظر پیش کررہا تھا، وہاں سے واپس ہوئے تو ہماری منزل رام پور کے مسلمانوں کی قبرستان تھی وہاں زیارت قبر کی دعا پڑھی گئی اور قبرستان کی کشادہ زمین کا معائنہ کیا گیا۔
ہمارے میزبان بھائیوں نے بتایا کہ جلد ہی اس مقبرہ کے تئیں کچھ شرپسند عناصر نے ایک بحران پیدا کرنے کی ناروا کوشش کی مگر ہماری چوکسی اور موقف کی پختگی سے یہ فتنہ فرو ہوگیا، ہوا یہ تھا کہ ایک صلیبی شخص کا انتقال ہوا، وہاں کے ہندو وغیرہ طبقہ نے اس صلیبی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی مذموم کوشش کی تاکہ کل اس وسیع اراضی پر اپنا حق جتلایا جاسکے مگر اللہ کی رحمت سے مسلمانوں نے اس مذموم کوشش کو ناکام بنا دیا۔
پھر ہم لوگوں نے کافی بلند پہاڑی پر آباد بعض مسلمانوں سے ملاقات کے لئے وہاں جانے کا ارادہ کیا، مگر کچھ دور چلنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ راستہ خراب ہے آج وہاں پر سواری کے ذریعہ پہونچنے کا امکان معدوم ہے پھر ہم رامپور وادی کا چکر کاٹ کر مدرسہ نورالہدی کے مصلی میں پہونچے جہاں صلاۃ مغرب ادا کی گئی۔
صلاۃ مغرب کے کے بعد قافلہ دعوت کے ممبران کا خطاب عام تھا جس کے لئے اعلان کیا جاچکا تھا، تمام مسلمان مردوزن کو شرکت کی دعوت دی جاچکی تھی اور خواتین کے لئے الگ بیٹھنے کا انتظام تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد تلاوت آیات کریمہ کے ساتھ ہی پروگرام کا آغاز ہوا اور مولانا عبدالقیوم مدنی نے قبولیت اعمال کے شروط کے موضوع پر مفصل خطاب کیا اور سنت کی اہمیت اور بدعت و خرافات کی قباحت کو واضح کیا۔
اس کے بعد راقم نے حاضرین کو خطاب کیا میں نے بیک وقت دو الگ الگ موضوع پر گفتگو کی پہلا موضوع ’’توحید‘‘ تھا میں نے غایت تخلیق انس و جان کو واضح کیا اور توحید کی اہمیت و فضیلت پر نیز شرک اور اس کی ہولناکی اور
انجام بد پر روشنی ڈالی اور کتاب وسنت سے مدلل خطاب کیا۔
دوسرا موضوع اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ تھا ماں، بیٹی، بہن، بیوی ہر روپ میں عورت کے مقام بلند کوواضح کرتے ہوئے ان کے حقوق و فرائض کو اختصار سے بیان کرتے ہوئے پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
آخر میں صدر مرکز اور قافلہ دعوت کے امیر مولانا عبداللہ مدنی حفظہ اللہ کا مکمل تعارف کراتے ہوئے منصرم نے انہیں دعوت سخن دی۔
آپ نے تذکیر کی اہمیت و فائدہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف نصائح و مواعظ سے سامعین کو محفوظ فرمایا، عورت کے حجاب پر مفصل گفتگو کی اور پورے عالم میں مسئلہ حجاب کی بحث کا خلاصہ کیا، آپ نے بتایا کہ عورتیں حجاب کی پابندی کریں اور حجاب ان کی ترقی کی راہ میں کوئی روڑا نہیں بلکہ وہ ان کے لئے حشمت وقار کا عنوان ہے۔
آپ نے اپنی اس تجویز کا اعادہ کیا کہ مدرسہ میں بچیوں کو درجہ سوم کے بعد الگ تھلگ کلاس روم میں پڑھانا چاہئے اور آپ لوگ اس کی کوشش کریں، کہ یہاں پر مدرسہ نسواں کا قیام عمل میں آجائے، آپ نے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔اور صدر مرکز کی پرسوز دعاؤں پر مجلس دعوت وارشاد کا اختتام ہوا۔
عِشاء اورعَشاء سے فارغ ہوکر پھر اپنے کمروں میں نیند کی آغوش میں چلے گئے، جمعہ کی صبح کو چائے نوشی کے بعد ممبران مدرسہ نورالہدی کے ساتھ مختصر سی میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ اور تعلیم و تدریس ، تربیت اور نصاب تعلیم وغیرہ موضوعات زیر بحث آئے اور صدر مرکز نے اپنے مفید مشوروں سے نواز۔
اسی مجلس کے اختتام پر اس دعوتی وفد نے مدرسہ کی بابت اپنے تاثرات کو ’’تاثرات رجسٹر‘‘میں قلمبند کیا اوراس میں اپنے مشاہداتی تاثرکے ساتھ ادارہ کی امداد کی اپیل کی گئی ہے، تاکہ یہ مدرسہ اس پہاڑی خطہ کا مرکز تعلیم و تربیت ہوجائے اوراپنے اہداف و غایات کی تکمیل ہوسکے اور رشد و ہدایت کا منبع بن جائے۔
آج ۹؍جولائی کوجمعہ کا دن تھا ، وادی میں دو مسجدیں تھیں، ان میں سے ایک خرافیوں کی مسجد ہے، اسمیں ہم کو خطابت و امامت کی اجازت کا امکان معدوم تھا، اسلئے اکٹھا صلاۃ جمعہ ادا کرنا پڑی، صدر مرکز نے خطبہ دیا اور راقم نے صلاۃ کی امامت کی اور صلاۃ کے بعد درس حدیث دیا موضوع حب رسول ﷺتھا، حدیث انس ’’لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین‘‘ کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی اور میں نے بتایا کہ حب رسولﷺ جزء ایمان ہے اور محبت نبوی اطاعت و اتباع کی مقتضی ہے۔
اطاعت و اتباع سے خالی محبت یا غلوآمیز محبت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ابوبکرکی محبت اطاعت سے معمور تھی سو وہ ’’افضل ہذہ الامۃ بعد نبیہا‘‘ قرار پائے اور ابوطالب کی محبت اطاعت واتباع سے خالی تھی وہ محروم ہدایت اور جہنمی قرار پائے۔
ارکان وفد نے قبل از صلاۃ جمعہ کھانا تناول کرلیا تھا، جس کا اہتمام وہاں کی (آما سمودائے) ’’جمعیۃ الامہات‘‘نے کیا تھا، نماز سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی قافلہ کرشنانگر کے لئے روانہ ہوگیا، ہم سب نے وہاں کے جملہ احباب و اخوان کا شکریہ ادا کیا اور سلام ودعا کے ساتھ ان سے جدا ہوئے۔
برادرمحمد ایوب اور ان کے ساتھ جناب محمد علی صاحب کافی دور تک الوداع کہنے آئے، درحقیقت جس بہتر سلوک کا مظاہرہ وہاں سبھوں نے کیا اس کے لئے ہمارے پاس شکریہ کے الفاظ نہیں ہیں، اللہ کرے ہماری دعوت وارشاد کا بہترین نتیجہ برآمد ہو اور اس نوعیت کا سلسلہ قائم رہے، اللہ کے فضل سے یہ قافلہ سلامتی کے ساتھ تقریبا ساڑھے نوبجے کرشنا نگر واپس پہونچ گیا۔ وصلی اللہ علی النبی الکریم۔
سہ روزہ مفت طبی کیمپ کا انعقاد- زاہد آزاد جھنڈانگری june-jul 2010
سہ روزہ مفت طبی کیمپ کا انعقاد
زاہد آزاد جھنڈانگری
نیپال کے معروف تعلیمی،دعوتی ورفاہی ادارہ مرکز التوحید کرشنانگر میں عزت مآب شیخ آفتاب عالم وزیر محنت و مواصلات حکومت نیپال کے ہاتھوں دل اور نسوں کے امراض کے مفت طبی کیمپ کا افتتاح کیاگیا، کیمپ کا انعقاد میڈنٹا۔ دی میڈی سٹی ، گڑگاؤں، (دہلی )کے تعاون اور اس کے لائق و فائق ڈاکٹرس کی ایک بڑی ٹیم کے اشتراک سے عمل میں آیا ۔
وزیر موصوف نے اپنے خطاب میں کہا’’ اس طرح کے طبی پروگرام ملک کے کونے کونے میں ہونا چاہئے، توحید سینٹر کے ذریعہ اٹھایا گیا یہ ایک نیک قدم ہے۔آپ نے اس طبی کیمپ اور ڈاکٹروں کی اعلیٰ صلاحیت کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے مرکز التوحید کے صدر کو مبارکباد پیش کی۔ وزیر موصوف نے ہند ونیپال کے بہتر تعلقات سے متعلق بتایا اس سے زیادہ اہم بات کیا ہوگی کہ ہم سرحد پار کسی پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ہندوستان آتے اور جاتے رہتے ہیں، ہندوستان ہمارا محبوب پڑوسی دوست ملک ہے۔انہوں نے اپنے خطاب میں نیپال و ہند تعلقات کی مضبوطی پر روشنی ڈالی، آپ نے بتایا کہ دونوں بے حد قریبی دوست ممالک ہیں ۔ آپ نے نیپال میں جمہوری دستور کی افادیت پر زور صرف کیا اور موجودہ کانگریسی حکومت کی کاوشوں اور خواہشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ماؤ وادی جمہوری دستور سازی کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہیں۔
مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری صدر مرکز التوحید نے جامع اور مختصر انداز میں مرکز التوحید کی سرگرمیوں کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے کیمپ کے انعقاد کے مقاصد پر بھرپور روشنی ڈالی اور جملہ مہمانان اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا، آپ نے بتایا کہ اس طبی کیمپ کا انعقاد خالص انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے عمل میں آیا ہے۔ اس کے بعد C.D.O. (چیف ڈسٹرکٹ آفیسر) کپل وستو نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اسے ایک بہترین سماجی خدمت قرار دیتے ہوئے مرکز التوحید کا عظیم کارنامہ بتایا۔
نیپال کسٹم آفیسر،کرشنانگر نے اپنے بیان میں مرکز التوحید کے ذریعہ لگائے گئے اس کیمپ کو ایک مبارک قدم قرار دیا، مشہور سماجی و سیاسی کارکن(کانگریس)مسٹر منگل پرساد گپتا نے بہترین انداز میں اپنے قیمتی تاثرات کو پیش کرتے ہوئے اس طبی کیمپ کے انعقاد پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور مولانا مدنیؔ صاحب کے عظیم کارناموں کی سراہنا کی۔
جج جناب صلاح الدین اختر نے اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے اسے ایک اہم قدم بتایا۔آخر میں صدر اجلاس مولانا عبدالوہاب ریاضیؔ مہتمم مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی نیابت کرتے ہوتے مولانا عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری نے اختتامی کلمات پیش کئے اور کیمپ کی افادیت پر زور دیتے ہوئے تمام مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور بحسن و خوبی افتتاحی پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
پروگرام کی صدارت مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے مہتمم مولاناعبدالوہاب صاحب ریاضیؔ ؍حفظہ اللہ نے فرمائی اور نظامت کا فریضہ مکتی قافلے ڈائریکٹر ’’قافلے انسٹیٹیوٹ‘‘ نے سلیقہ مندی سے انجام دیا، پروگرام کا آغاز شیخ مطیع اللہ مدنیؔ کی تلاوت سے ہوا۔
ٹیم کے سینئر لیڈر ڈاکٹر الحاج فرحان اختر (D.M.) نے بتایا کہ پہلے دن 110مریض، دوسرے دن 410مریض تیسرے دن 250مریض مکمل 770مریضوں کا ایکو، ای سی جی، بلڈ شوگر ٹیسٹ کئے گئے، وقت کی تنگ دامانی کی وجہ سے بے شمار مریضوں کو واپس جانا پڑا، خود صدر مرکز ازدحام کی رعایت کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوا کی تجویز کے لئے ڈاکٹر کے سامنے پیش نہ کرسکے، جس کی بہرحال انہیں ضرورت تھی۔
کیمپ میں جانچ کے لئے تشریف لانے والی بعض اہم شخصیات میں حضرت مولانا عبدالسلام صاحب رحمانی (ریکٹر جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار)، حضرت مولانا عبدالحنان صاحب فیضیؔ (مفتی جامعہ سراج العلوم السلفیہ) جھنڈانگر، مولانا شمیم احمد صاحب ندویؔ (ناظم جامعہ سراج العلوم السلفیہ) جھنڈانگر،جج جناب صلاح الدین صدیقی، وکیل محی الدین صاحب،حاجی عبدالسلام شاہ قابل ذکر ہیں۔
صدرمرکز کے مطابق میڈنٹا۔دی میڈی سٹی کے سربراہ، امراض قلب کے عالمگیر شہرت کے حامل ڈاکٹر نریش تریہان نے مرکز التوحید کی گذارش اور دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس ٹیم کی روانگی پر آمادگی کا اظہار کیا۔
(۱) جناب ڈاکٹر ایس کے سنگھ
(۲) جناب ڈاکٹر فرحان خان
(۳) جناب ڈاکٹر ایس کے تنیجا
(۴) جناب ڈاکٹر بھوپیش چندی
(۵) محترمہ ڈاکٹر مونیکا دیسوال
(۶) مسٹر ابھجیت سنگھ (۷) مسٹر فرید خان
(۸) مسٹر پونیت سنگھ (۹) مسٹر کمار دھننجے
(۱۰) مسز رشمی ورما (۱۱) مسز رنس پی جارج
(۱۲) مسز لگیا (۱۳) مسز جوتش
(۱۴) مسز شوکین
۱۴؍افراد پر مشتمل یہ ٹیم تین دنوں تک مریضوں کی تشخیص، ان کے لئے دواؤ ں کی تجویز اور انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے رہی،ان کے قیام و طعام کا مناسب بندوبست کیا گیا تھا، ٹیم کے جملہ افراد مرکز کے انتظامات سے مطمئن نظر آئے۔
ڈاکٹر نریش تریہان کی اس عظیم عنایت اور نوازش پر جذبہ شکر کا اظہار کرتے ہوئے مرکز التوحید کی جانب سے ہاسپیٹل میڈنٹا۔دی میڈی سٹی کے لئے مومنٹو پیش کیا گیا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹیم کے سبھی ارکان کو مرکز کی جانب سے پروگرام میں شرکت اور ادائے خدمت کے لئے ’’سند تشکر وامتنان‘‘ سے نوازا گیا،صدر مرکز نے اس موقع پر خصوصی طور سے محترم مولانا عبدالوہاب صاحب خلجی، محترم ڈاکٹر محمد تسلیم رحمانی (دہلی)، جناب ڈاکٹر عزیز احمد (احمد نرسنگ ہوم، گورکھپور) اور محترم شیخ صلاح الدین مقبول احمد کی خدمت میں ان کی مخلصانہ شرکت کے پیش نظر ’’ارمغان سپاس ‘‘ پیش کرتے ہوئے مسرت کا اظہار فرمایا۔
اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مرکز التوحید کے ذمہ داران، عملہ و وابستگان کی ایک بڑی تعداد سرگرم عمل رہی۔
سہ روزہ مفت طبی کیمپ کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد مرکز التوحید کے ہیڈ آفس میں رضاکاران و کارکنان کی ایک باوقار تقریب میں حوصلہ افزائی کے پیش نظراسناد و انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔
صدر مرکز التوحید، کرشنانگر، نیپال نے اس موقع پر انسانیت کی بھلائی کے لئے اٹھائے گئے قدم کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے جذبۂ شکر کا اظہار کیا اور کہا کہ انسانیت کار خیر کی محتاج ہے، اصحاب خیر کو آگے بڑھ کر ان کی خدمت کا فریضہ ادا کرنا چاہئے، اس موقع پر حدیث نبوی کی روشنی میں آپ نے فرمایا کہ انسانوں کو فائدہ پہونچانے والے لوگ اللہ کے نزدیک بڑے ہی پسندیدہ ہوتے ہیں، آپ نے فرمایا یہی وجہ ہے کہ میڈنٹا۔ دی میڈی سٹی، گڑگاؤں ، ہریانہ کے ذمہ داروں کو اس فری کیمپ پر آمادہ کیا گیا تاکہ دل جیسے نازک مگر مرکزی حیثیت والے گوشت کے لوتھڑے کی مناسب جانچ ہوسکے اور اعصابی مریض بھی فائدہ حاصل کرسکیں۔
بحمد للہ۔ توحید سینٹر کا یہ تجربہ بے حد کامیاب رہا، عوام کے ساتھ خواص کی ایک بڑی تعدادبلاتفریق مذہب وجنس اس کیمپ سے فیض یاب ہوئی۔ صدر مرکز کے مطابق ان شاء اللہ آئندہ بھی ایسے مؤثر پروگرام کا انعقاد ہوتا رہے گا۔
استاذ حدیث مولانا مطیع اللہ مدنی نے رفاہی امور کی افادیت واضح کرتے ہوئے اس پروگرام کو بہت ہی کامیاب بتایا۔ کافلے فاؤنڈیشن (N.G.O.) کے مسٹر مکتی کافلے نے پروگرام کو اس علاقے کے لئے ایک خوشگوار تجربہ بتایا اور اس کے مفید اثرات پر روشنی ڈالی۔
جناب ڈاکٹر سعید احمد اثری نے انسانی صحت کے حوالے سے ماہر ڈاکٹر صاحبان کی آمد اور مریضوں کی جانچ کو مرہم شفا قرار دیا۔ مسٹر جنید فیصل نے پورے پروگرام کو قریب سے دیکھ کر اور ڈاکٹرس سے گفتگو کرکے اس کی اہمیت بتائی۔
اس کیمپ کے انعقاد سے ایک مومن کے دل میں پیدا ہونے والے احساس شکر کا بہت ہی مخلصانہ اظہار سامنے آیا۔
***
وزیر موصوف نے اپنے خطاب میں کہا’’ اس طرح کے طبی پروگرام ملک کے کونے کونے میں ہونا چاہئے، توحید سینٹر کے ذریعہ اٹھایا گیا یہ ایک نیک قدم ہے۔آپ نے اس طبی کیمپ اور ڈاکٹروں کی اعلیٰ صلاحیت کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے مرکز التوحید کے صدر کو مبارکباد پیش کی۔ وزیر موصوف نے ہند ونیپال کے بہتر تعلقات سے متعلق بتایا اس سے زیادہ اہم بات کیا ہوگی کہ ہم سرحد پار کسی پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ہندوستان آتے اور جاتے رہتے ہیں، ہندوستان ہمارا محبوب پڑوسی دوست ملک ہے۔انہوں نے اپنے خطاب میں نیپال و ہند تعلقات کی مضبوطی پر روشنی ڈالی، آپ نے بتایا کہ دونوں بے حد قریبی دوست ممالک ہیں ۔ آپ نے نیپال میں جمہوری دستور کی افادیت پر زور صرف کیا اور موجودہ کانگریسی حکومت کی کاوشوں اور خواہشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ماؤ وادی جمہوری دستور سازی کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہیں۔
مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری صدر مرکز التوحید نے جامع اور مختصر انداز میں مرکز التوحید کی سرگرمیوں کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے کیمپ کے انعقاد کے مقاصد پر بھرپور روشنی ڈالی اور جملہ مہمانان اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا، آپ نے بتایا کہ اس طبی کیمپ کا انعقاد خالص انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے عمل میں آیا ہے۔ اس کے بعد C.D.O. (چیف ڈسٹرکٹ آفیسر) کپل وستو نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اسے ایک بہترین سماجی خدمت قرار دیتے ہوئے مرکز التوحید کا عظیم کارنامہ بتایا۔
نیپال کسٹم آفیسر،کرشنانگر نے اپنے بیان میں مرکز التوحید کے ذریعہ لگائے گئے اس کیمپ کو ایک مبارک قدم قرار دیا، مشہور سماجی و سیاسی کارکن(کانگریس)مسٹر منگل پرساد گپتا نے بہترین انداز میں اپنے قیمتی تاثرات کو پیش کرتے ہوئے اس طبی کیمپ کے انعقاد پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور مولانا مدنیؔ صاحب کے عظیم کارناموں کی سراہنا کی۔
جج جناب صلاح الدین اختر نے اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے اسے ایک اہم قدم بتایا۔آخر میں صدر اجلاس مولانا عبدالوہاب ریاضیؔ مہتمم مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی نیابت کرتے ہوتے مولانا عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری نے اختتامی کلمات پیش کئے اور کیمپ کی افادیت پر زور دیتے ہوئے تمام مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور بحسن و خوبی افتتاحی پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
پروگرام کی صدارت مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے مہتمم مولاناعبدالوہاب صاحب ریاضیؔ ؍حفظہ اللہ نے فرمائی اور نظامت کا فریضہ مکتی قافلے ڈائریکٹر ’’قافلے انسٹیٹیوٹ‘‘ نے سلیقہ مندی سے انجام دیا، پروگرام کا آغاز شیخ مطیع اللہ مدنیؔ کی تلاوت سے ہوا۔
ٹیم کے سینئر لیڈر ڈاکٹر الحاج فرحان اختر (D.M.) نے بتایا کہ پہلے دن 110مریض، دوسرے دن 410مریض تیسرے دن 250مریض مکمل 770مریضوں کا ایکو، ای سی جی، بلڈ شوگر ٹیسٹ کئے گئے، وقت کی تنگ دامانی کی وجہ سے بے شمار مریضوں کو واپس جانا پڑا، خود صدر مرکز ازدحام کی رعایت کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوا کی تجویز کے لئے ڈاکٹر کے سامنے پیش نہ کرسکے، جس کی بہرحال انہیں ضرورت تھی۔
کیمپ میں جانچ کے لئے تشریف لانے والی بعض اہم شخصیات میں حضرت مولانا عبدالسلام صاحب رحمانی (ریکٹر جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار)، حضرت مولانا عبدالحنان صاحب فیضیؔ (مفتی جامعہ سراج العلوم السلفیہ) جھنڈانگر، مولانا شمیم احمد صاحب ندویؔ (ناظم جامعہ سراج العلوم السلفیہ) جھنڈانگر،جج جناب صلاح الدین صدیقی، وکیل محی الدین صاحب،حاجی عبدالسلام شاہ قابل ذکر ہیں۔
صدرمرکز کے مطابق میڈنٹا۔دی میڈی سٹی کے سربراہ، امراض قلب کے عالمگیر شہرت کے حامل ڈاکٹر نریش تریہان نے مرکز التوحید کی گذارش اور دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس ٹیم کی روانگی پر آمادگی کا اظہار کیا۔
(۱) جناب ڈاکٹر ایس کے سنگھ
(۲) جناب ڈاکٹر فرحان خان
(۳) جناب ڈاکٹر ایس کے تنیجا
(۴) جناب ڈاکٹر بھوپیش چندی
(۵) محترمہ ڈاکٹر مونیکا دیسوال
(۶) مسٹر ابھجیت سنگھ (۷) مسٹر فرید خان
(۸) مسٹر پونیت سنگھ (۹) مسٹر کمار دھننجے
(۱۰) مسز رشمی ورما (۱۱) مسز رنس پی جارج
(۱۲) مسز لگیا (۱۳) مسز جوتش
(۱۴) مسز شوکین
۱۴؍افراد پر مشتمل یہ ٹیم تین دنوں تک مریضوں کی تشخیص، ان کے لئے دواؤ ں کی تجویز اور انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے رہی،ان کے قیام و طعام کا مناسب بندوبست کیا گیا تھا، ٹیم کے جملہ افراد مرکز کے انتظامات سے مطمئن نظر آئے۔
ڈاکٹر نریش تریہان کی اس عظیم عنایت اور نوازش پر جذبہ شکر کا اظہار کرتے ہوئے مرکز التوحید کی جانب سے ہاسپیٹل میڈنٹا۔دی میڈی سٹی کے لئے مومنٹو پیش کیا گیا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹیم کے سبھی ارکان کو مرکز کی جانب سے پروگرام میں شرکت اور ادائے خدمت کے لئے ’’سند تشکر وامتنان‘‘ سے نوازا گیا،صدر مرکز نے اس موقع پر خصوصی طور سے محترم مولانا عبدالوہاب صاحب خلجی، محترم ڈاکٹر محمد تسلیم رحمانی (دہلی)، جناب ڈاکٹر عزیز احمد (احمد نرسنگ ہوم، گورکھپور) اور محترم شیخ صلاح الدین مقبول احمد کی خدمت میں ان کی مخلصانہ شرکت کے پیش نظر ’’ارمغان سپاس ‘‘ پیش کرتے ہوئے مسرت کا اظہار فرمایا۔
اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مرکز التوحید کے ذمہ داران، عملہ و وابستگان کی ایک بڑی تعداد سرگرم عمل رہی۔
سہ روزہ مفت طبی کیمپ کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد مرکز التوحید کے ہیڈ آفس میں رضاکاران و کارکنان کی ایک باوقار تقریب میں حوصلہ افزائی کے پیش نظراسناد و انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔
صدر مرکز التوحید، کرشنانگر، نیپال نے اس موقع پر انسانیت کی بھلائی کے لئے اٹھائے گئے قدم کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے جذبۂ شکر کا اظہار کیا اور کہا کہ انسانیت کار خیر کی محتاج ہے، اصحاب خیر کو آگے بڑھ کر ان کی خدمت کا فریضہ ادا کرنا چاہئے، اس موقع پر حدیث نبوی کی روشنی میں آپ نے فرمایا کہ انسانوں کو فائدہ پہونچانے والے لوگ اللہ کے نزدیک بڑے ہی پسندیدہ ہوتے ہیں، آپ نے فرمایا یہی وجہ ہے کہ میڈنٹا۔ دی میڈی سٹی، گڑگاؤں ، ہریانہ کے ذمہ داروں کو اس فری کیمپ پر آمادہ کیا گیا تاکہ دل جیسے نازک مگر مرکزی حیثیت والے گوشت کے لوتھڑے کی مناسب جانچ ہوسکے اور اعصابی مریض بھی فائدہ حاصل کرسکیں۔
بحمد للہ۔ توحید سینٹر کا یہ تجربہ بے حد کامیاب رہا، عوام کے ساتھ خواص کی ایک بڑی تعدادبلاتفریق مذہب وجنس اس کیمپ سے فیض یاب ہوئی۔ صدر مرکز کے مطابق ان شاء اللہ آئندہ بھی ایسے مؤثر پروگرام کا انعقاد ہوتا رہے گا۔
استاذ حدیث مولانا مطیع اللہ مدنی نے رفاہی امور کی افادیت واضح کرتے ہوئے اس پروگرام کو بہت ہی کامیاب بتایا۔ کافلے فاؤنڈیشن (N.G.O.) کے مسٹر مکتی کافلے نے پروگرام کو اس علاقے کے لئے ایک خوشگوار تجربہ بتایا اور اس کے مفید اثرات پر روشنی ڈالی۔
جناب ڈاکٹر سعید احمد اثری نے انسانی صحت کے حوالے سے ماہر ڈاکٹر صاحبان کی آمد اور مریضوں کی جانچ کو مرہم شفا قرار دیا۔ مسٹر جنید فیصل نے پورے پروگرام کو قریب سے دیکھ کر اور ڈاکٹرس سے گفتگو کرکے اس کی اہمیت بتائی۔
اس کیمپ کے انعقاد سے ایک مومن کے دل میں پیدا ہونے والے احساس شکر کا بہت ہی مخلصانہ اظہار سامنے آیا۔
***
Subscribe to:
Posts (Atom)