Monday, 8 March 2010

Tarashe- \by: Maulana Abdussalam Rehmani- feb, 2010

 تراشے
حضرت مولانا عبدالسلام رحمانیؔ
(جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار
)

امریکہ کس نے دریافت کیا؟ اہل مغرب نے اس بات کا بڑے زور وشور سے ڈھنڈھورا پیٹ رکھا ہے کہ براعظم امریکہ کو کولمبس نے ۱۴۹۳ء ؁ میں دریافت کیا ہے، اس سے قبل وہ نامعلوم تھا اس حد تک تو صحیح بات ہے کہ عموماً لوگ امریکہ سے ناواقف تھے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ کوئی بھی اس سے واقف نہیں تھا واقعات اس دعوے کی تغلیط کرتے ہیں سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی شمارہ ۱۹؍اگست ۱۹۹۳ء ؁ میں اس موضوع پر ایک تحقیقی تحریر شائع ہوئی ہے، جس میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ عرب اور افریقی ملاح کولمبس سے چار صدی قبل امریکہ دریافت کرچکے تھے وہاں سے تجارتی روابط رکھتے تھے ان وجوہ ودلائل کی بنا پر ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر (Leowiene)نے ایک کتاب دو جلدوں میں لکھی ہے جس میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کو دریافت کرنے والے دراصل افریقی ملاح تھے اس کتاب کا نام(African Discovery America Acian)۔
سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ ہے جو ۱۹۲۰ء ؁میں مصر کے اخبار میں شائع ہوئی تھی کہ ایک شامی عرب جو میکسکو میں آباد ہوگیا ہے وہ چاپاس اور بتلاس کے علاقے میں پھیری لگا کر سامان بیچ رہا تھا اس کا گزر کوہستان میں ایک قبیلہ کے پاس سے ہوا اس نے ہسپانوی زبان میں قبیلہ کے سردار سے رات گزارنے کی اجازت مانگی سردار نے عربی زبان میں اجازت دی، اس نے بتایا کہ ہم قدیم زمانے سے اس علاقے میں آباد ہیں ہم عربی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے شامی عرب عربی گفتگو سن کر حیرت زدہ رہ گیا (اعقطم قاہرہ دسمبر۱۹۲۰ء ؁، ’’پیام ‘‘ کلکتہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۲۰ء ؁ بحوالہ عربوں کی جہاز رانی ص:۱۹۸)۔
بحر اٹلانٹک نئی دریافت: سہ روزہ دعوت کے مذکورہ شمارہ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ ماہرین ارضیات و ماہرین بحریات و جغرافیہ دانوں کا بہت بڑا گروہ اس بات کا مدعی ہے کہ جہاں آج بحر اقیانوس (بحراٹلانٹک) واقع ہے وہاں براعظم اطلانطس واقع تھا جس کے ذریعہ افریقہ اور یورپ سے امریکہ جانا آسان تھا ارضیاتی تغیرات کی بنا پر یہ براعظم غرق ہوگیا اور اس کی جگہ بحر اٹلانٹک نمودار ہوگیا غرق ہو جانے کے بعد قدیم مصری روایات میں پھر یونانی روایات میں ’’براعظم اطلانطس‘‘کا ذکر آتا ہے، میں نے جب ۱۹۸۴ء ؁ میں کرۂ ارض کا مدوَّر سفر کیا تو نیویارک سے لندن تک ہمارا جہاز بحر اٹلانٹک ہی پر پرواز کرتا رہا۔
شریعت اسلامیہ نے جیسے مرد اور عورت کے لباس میں نمایاں فرق بیان کیا ہے۔ ایسے ہی عورت کیلئے زیب وزینت نہ کرکے باہر نکلنے اور پردہ کا بھی حکم کیا ہے۔ ان احکام میں سے یہ بھی ہے کہ مرد کے ٹخنے ننگے ہونے چاہئیں اور عورت کے ٹخنے ہی نہیں بلکہ پاؤں بھی چھپے رہنے چاہئیں۔ لیکن موجودہ وقت میں اس حکم کے الٹ ہو رہا ہے اور اس سنت رسول ﷺ پر چلنے والے کوطنز ومزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس حکم کو سطور ذیل میں پڑھئے! کہ اللہ کے رسول ﷺ کا طریقہ اور حکم کیا ہے۔
* صحابی رسول ﷺ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ’’المتشبہین من الرجال بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب: ۲۰۶۸) ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں۔ (شلوار،پاجامہ،پتلون وغیرہ) استعمال کرنے والے سوچیں کہ کہیں ہم عورتوں کی طرح ٹخنے تو نہیں ڈھانپ رہے؟
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ’’ أخذ رسول اللہ ﷺ بعضلۃ ساقی‘‘ میری پنڈلی کے گوشت کو پکڑا او ر فرمایا:’’ ہذا موضع الإزارر فإن أبیت فأسفل من ذلک فان أبیت فلا حق للإزار فی الکعبین‘‘ (ترمذی:۱۷۸۳) یہ ہے چادر(لٹکانے) کی جگہ اگر یہاں تک تو مناسب نہیں سمجھتا تو تھوڑا نیچے کر لے اور اگر یہاں (تھوڑا نیچے) بھی تو مناسب نہیں سمجھتا تو پھر ٹخنوں پر چادر رکھنے کا کوئی حق نہیں۔
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ ما أسفل من الکعبین من الإزار ففی النار‘‘ (بخاری ۵۷۸۷، کتاب اللباس) چادر کا جتنا حصہ بھی ٹخنوں سے نیچے ہوا وہ آگ میں ہوگا۔
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ إن الذی یجرثوبہ من الخیلاء لا ینظر اللہ إلیہ یوم القیامۃ، قال: فانبئت أن أم سلمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قالت: فکیف بنا؟ قال:’’ شبرا‘‘ قالت: إذاً تبدوأقدامنا، قال:’’ ذراعا لا تزدن علیہ‘‘ (مسنداحمد) کہ فخر سے کپڑا لٹکانے والے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا، تو ام المومنین سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پوچھتی ہیں کہ کیا عورتوں کے لئے بھی یہی حکم ہے؟ فرمایا: کہ وہ ایک بالشت کپڑا ٹخنو ں سے نیچا رکھا کریں! پھر پوچھتی ہیں اس طرح کرنے سے تو چلتے وقت ہمارے قدم ننگے ہونگے، دکھائی دیں گے، تو فرمایا: ایک ہاتھ مزید نیچے لٹکا لیا کرو ( تاکہ قدم ظاہر نہ ہوں) اس سے زیادہ نہیں ( تو معلوم ہوا کہ عورت کا پاؤں ڈھانپنا بھی بہت ضروری ہے) اور جو عورتیں ایک ایک دو۔دو میٹر لمبے کپڑے کا حصہ پیچھے گھسیٹتی رہتی ہیں وہ بھی منع ہے اس میں کوئی فخر نہیں بلکہ جہالت ہے۔
* صحابئ رسولﷺ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ثلاثۃ لا یکلمہم اللہ یوم القیامۃ ولا ینظر الیہم ولا یزکیہم ولہم عذاب الیم فقرأہا رسول اللہ ﷺ ثلاث مرات، قال أبو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خابوا وخسروا من ہم یا رسول اللہ ﷺ قال المسبل والمنان والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب‘‘ ( مسلم۳۰۶ کتاب الایمان، ابو داؤد:۴۰۸۷) تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ نبی ﷺ نے تین دفعہ یہ بات دہرائی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ نامراد،گھاٹے اور خسارے میں رہے کون ہیں وہ لوگ اے اللہ کے رسول ﷺ؟ تو فرمایا:(۱) مسبل ازار یعنی چادر ، تہ بند، پاجامہ وغیرہ ٹخنو ں سے نیچے لٹکانے والا (۲) منان، یعنی احسان کرنے کے بعد احسان جتلانے والا(۳) جھوٹی قسم کے ذریعے اپنے مال کو فروخت کرنے والا۔
* پیارے رسول ﷺ نے قبیلہ ثقیف کے ایک آدمی کو دیکھا: کہ وہ اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے کئے ہوئے جارہا ہے آپ ﷺ تیزی سے اس کے پیچھے گئے اور پکڑ کر فرمایا’’ أرفع إزارک واتق اللہ‘‘ اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس نے اپنی مجبوری پیش کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول ﷺ میری پنڈلیاں پتلی اور پاؤں ٹیڑھے ہیں اس لئے چادر سے اپنے پاؤں کو چھپا کے رکھتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا’’ارفع إزارک کل خلق اللہ حسن‘‘ اللہ نے جو بنایا ہے اچھا ہے تو اپنی چادر اونچی رکھ۔ (مسند أحمد) ایک دوسری روایت میں ہے ’’ ذاک أقبح مما بساقک‘‘ تیری پنڈلی کے عیب سے چادر کا نیچے کرنا زیادہ برا ہے۔

No comments:

Post a Comment