ماہ محرم اور ہمارا طرز عمل
شعور وآگہی
عبداللہ مدنی جھنڈا نگری
عبداللہ مدنی جھنڈا نگری
قرآنی وضاحت کے مطابق ابتدائے آفرینش سے ہی سال کے بارہ مہینے ہیں۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ سے اسلامی سن کا آغاز ماہ محرم سے مقرر فرمایا، جو ہجرت نبوی کی مناسبت سے ہجری سن سے معروف ہے۔
امت مسلمہ کے لئے ہجری سن جس عظمت و اہمیت کا حامل ہے اسے عیسوی سن کی شہرت نے دھندلا کردیا ہے، اب حالت یہ ہے کہ چاند کی تاریخ معلوم کرنے کے لئے کسی میاں مولوی یا مولانا صاحب کی تلاش ہوتی ہے جب کہ عیسوی تاریخ سے ہر کہ ومہ واقف ہوتا ہے۔
ماہ محرم کا آغاز ہوچکا ہے، یہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اس ماہ کی دس تاریخ کو فرعونی جبر سے نجات پانے کی خوشی میں یہودی روزہ رکھتے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پر عزیمت رسالت کے پیش نظر یکجہتی کے طور پرہمارے نبی محترم ﷺ نے بھی روزہ رکھا۔
اس سنت کی ادائیگی ایک مسلمان کے لئے کفارۂ معاصی اور باعث سعادت ہے، البتہ یہود جیسی لعین و مغضوب قوم کی مخالفت میں دسویں محرم کے ساتھ ایک روز قبل یا بعد کا دن بھی شامل کرلیا جائے۔اس عمل سے اگلے سال کے اس نبوی پروگرام کی موافقت ہوجائے گی بشرط حیات رسول اکرمﷺ نے جس کا اظہار فرمایا تھا۔
امت مسلمہ جس ہمہ گیر زوال سے دوچار ہوئی اور فکری وعملی طور پر جو گمراہیاں در آئیں، ان کے اسباب پر نظردوڑائیں توایک بڑا سبب ماہ محرم میں انجام دیئے جانے والے وہ اعمال بد بھی ہیں جو دین کے نام پرنواسۂ رسولﷺ ’’نوجوان جنتیوں کے سردار‘‘اور جگر گوشۂ حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے رواج پاگئے ہیں۔
شیعان علی کی اپنی مجبوریاں ہیں، وہ شہادت حسین کے نام پرمحرم الحرام میں ہنگامے برپانہ کریں تو صفحہ ہستی سے ان کا وجود مٹ جائے گا۔ البتہ ہمیں شکایت اہل سنت کے اس طبقے سے ہے جو غم حسین کی ماراماری میں تعزیہ داری کو دین کا جز بنابیٹھے ہیں، آخر انہیں کون سی مجبوری ہے کہ پونے چودہ سو سال کے بعد کسی کی شہادت کا غم اس طرح منائیں کہ اعدائے صحابہ، دشمنان اہل سنت اور معاندین تعلیمات اسلامیہ کے رنگ میں مکمل دس دنوں تک رنگے ہوئے نظر آئیں، اپنے بانئ مسلک کی تعلیمات بھی نظر انداز کردیں اور ان تمام امور کو درست جانیں جو نگاہ شریعت میں بدعت اور شرک ہیں۔
یقیناًتعزیہ داری اور اس سے ملحق جملہ رسوم رسومِ بد ہیں، جو بہر حال اہل سنت کے شایان شان نہیں، پھر اس تعزیہ داری میں امت کا سرمایہ جس طرح ضائع ہوتا ہے اور زر کثیر کے صرفہ سے تیار کردہ تعزیے جس انداز میں ’’ٹھنڈے‘‘ یا برباد کئے جاتے ہیں، صرف یہی عمل اسے غیر شرعی قرار دیئے جانے کے لئے کافی ہے، کاش ہم اس کا ادراک کرسکیں۔
امت مسلمہ کے لئے ہجری سن جس عظمت و اہمیت کا حامل ہے اسے عیسوی سن کی شہرت نے دھندلا کردیا ہے، اب حالت یہ ہے کہ چاند کی تاریخ معلوم کرنے کے لئے کسی میاں مولوی یا مولانا صاحب کی تلاش ہوتی ہے جب کہ عیسوی تاریخ سے ہر کہ ومہ واقف ہوتا ہے۔
ماہ محرم کا آغاز ہوچکا ہے، یہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اس ماہ کی دس تاریخ کو فرعونی جبر سے نجات پانے کی خوشی میں یہودی روزہ رکھتے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پر عزیمت رسالت کے پیش نظر یکجہتی کے طور پرہمارے نبی محترم ﷺ نے بھی روزہ رکھا۔
اس سنت کی ادائیگی ایک مسلمان کے لئے کفارۂ معاصی اور باعث سعادت ہے، البتہ یہود جیسی لعین و مغضوب قوم کی مخالفت میں دسویں محرم کے ساتھ ایک روز قبل یا بعد کا دن بھی شامل کرلیا جائے۔اس عمل سے اگلے سال کے اس نبوی پروگرام کی موافقت ہوجائے گی بشرط حیات رسول اکرمﷺ نے جس کا اظہار فرمایا تھا۔
امت مسلمہ جس ہمہ گیر زوال سے دوچار ہوئی اور فکری وعملی طور پر جو گمراہیاں در آئیں، ان کے اسباب پر نظردوڑائیں توایک بڑا سبب ماہ محرم میں انجام دیئے جانے والے وہ اعمال بد بھی ہیں جو دین کے نام پرنواسۂ رسولﷺ ’’نوجوان جنتیوں کے سردار‘‘اور جگر گوشۂ حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے رواج پاگئے ہیں۔
شیعان علی کی اپنی مجبوریاں ہیں، وہ شہادت حسین کے نام پرمحرم الحرام میں ہنگامے برپانہ کریں تو صفحہ ہستی سے ان کا وجود مٹ جائے گا۔ البتہ ہمیں شکایت اہل سنت کے اس طبقے سے ہے جو غم حسین کی ماراماری میں تعزیہ داری کو دین کا جز بنابیٹھے ہیں، آخر انہیں کون سی مجبوری ہے کہ پونے چودہ سو سال کے بعد کسی کی شہادت کا غم اس طرح منائیں کہ اعدائے صحابہ، دشمنان اہل سنت اور معاندین تعلیمات اسلامیہ کے رنگ میں مکمل دس دنوں تک رنگے ہوئے نظر آئیں، اپنے بانئ مسلک کی تعلیمات بھی نظر انداز کردیں اور ان تمام امور کو درست جانیں جو نگاہ شریعت میں بدعت اور شرک ہیں۔
یقیناًتعزیہ داری اور اس سے ملحق جملہ رسوم رسومِ بد ہیں، جو بہر حال اہل سنت کے شایان شان نہیں، پھر اس تعزیہ داری میں امت کا سرمایہ جس طرح ضائع ہوتا ہے اور زر کثیر کے صرفہ سے تیار کردہ تعزیے جس انداز میں ’’ٹھنڈے‘‘ یا برباد کئے جاتے ہیں، صرف یہی عمل اسے غیر شرعی قرار دیئے جانے کے لئے کافی ہے، کاش ہم اس کا ادراک کرسکیں۔
No comments:
Post a Comment