حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ
تحریر:شیخ عبدالرحمن رافت پاشا
ترجمہ:مولانا ضیاء الدین بخاری
ترجمہ:مولانا ضیاء الدین بخاری
روشن چہرہ، کشاد ہ پیشانی، طویل قامت، خفیف عارض، اگر کوئی دیکھے تو دیکھتا ہی ر ہ جائے۔ ایک بار مل کر بار بار ملنے کو جی چاہے اور ہرملاقات پر قلب کو سکون میسر آئے، جس کا وجود تواضع اور انکساری کی جیتی جاگتی تصویر اور جس کے جسم کا ایک ایک بال حیا کا آئینہ دار لیکن اگر وہ منکسر المزاج حق بات پر اڑ جائے تو بپھرہوا شیر دکھائی دے اور پھر اس کے تلوار کی تیزی دشمن سے اپنا لوہا منواکر دم لے۔ جی ہاں! ہم ذکر کر رہے ہیں امت محمدیہ کے عامر بن عبداللہ بن جراح فہری قریشی کا جن کی کنیت ابو عبید ہ رضی اللہ عنہ ہے۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھوں نے دعوت اسلام پر لبیک کہنے میں پہل کی۔ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے دوسرے دن حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر آپ نے اسلام قبول کیا اور پھر عبدالرحمن بن عوف،عثمان بن مظعون اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ایک ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر کلمہ حق کا اعلان کیا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سرزمین مکہ میں مسلمانوں کو پیش آنے والی تمام تکالیف اور مصائب برداشت کیں اور ان کے ہر دکھ دردمیں برابر کے شریک رہے۔ لیکن جنگ بدر میں انھیں جس امتحان سے گزرنا پڑا ہم اور آپ اس امتحان کے تعلق سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ جنگ اپنے شباب پر تھی اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ مشرکین کی صفوں میں بھگدڑ مچا رہے تھے۔ آپ کا کوئی وار خالی نہ جاتا۔ آپ کے پے در پے حملوں سے مشرکین پر خوف ودہشت طاری ہو گئی تھی اور آپ موت سے بے نیاز ہو کر یکے بعد دیگرے مشرکین کو صفحہ ہستی سے مٹاتے چلے جا رہے تھے۔ آپ کی تلوار کی زد میں جو بھی آتا موت اس کا نصیبہ بن جاتی لیکن مشرکین کی اس بھیڑ میں ایک شخص ایسا بھی تھا کہ اگر وہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آجاتا تو آپ نہ صرف یہ کہ راستے سے ہٹ جاتے بلکہ پوری کوشش کرتے کہ اس شخص سے آمنا سامنا نہ ہو۔ لیکن وہ شحص وقفے وقفے سے آڑے آتا اور اللہ کے دشمنوں اور آپ کے درمیان حائل ہوجاتا۔ جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اور کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو آپ نے اس کے سر پر تلوار کی ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ شخص دو ٹکڑوں میں کٹ کر آپ کے سامنے گر گیا۔
قارئین ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ دو حصوں میں کٹ کر مرنے والاوہ شخص کون تھا؟ کیا میں نے تم سے پہلے نہیں کہا تھا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ایک ایسے امتحان سے گزرے ہیں جس کے تعلق سے ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ شاید تمہارا سر چکرا جائے جب تمھیں یہ معلوم ہو کہ وہ شخص جو کٹ کر گرا تھا کوئی اور نہیں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ بن جراح تھے۔ لیکن نہیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کو قتل نہیں کیا بلکہ شرک جوان کے والد کی شکل میں آیا انھوں نے اس شرک کو اس دنیا سے مٹا دیا۔ شرک چاہے وہ باپ کی شخصیت میں کیوں نہ ہو اسے ختم کرنے والے تو حید پرست ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی شان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل کیں:(سورہ مجادلہ:۲۲)
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی، دین کے لیے ان کے نصیحت اور امت محمدیہ میں ان کی امانت داری حددرجہ مقبول تھی۔ اسی لیے محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آپ اپنے صحابہ میں سے جسے پسند فرمائیں ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ مال کے معاملے میں ہمارے درمیان جو اختلاف ہو گیا ہے وہ اس کا فیصلہ کردے۔ اس لیے کہ مسلمان ہمارے درمیان پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم شام کو میرے پاس آنا میں تمھارے ساتھ ایک قوی اور حددرجہ امانت دار شخص کو کردوں گا۔’’ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘ میں اس دن بڑے سویرے ظہر کی نماز کے لیے چلا گیا۔ اس دن میری یہ دلی خواہش تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے قوی اور امین کی جو صفت بیان فرمائی ہے اے کاش کہ اس کا موصوف میں نکلوں۔
جب رسول اللہ ﷺ نماز ظہر پڑھا چکے تو آپ نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا۔ میں بھی اپنی جگہ اچک اچک کر دیکھ رہا تھا تاکہ آپ کی نظر مجھ پر پڑجائے۔ لیکن میری طرف سے بے نیاز آپ ادھر ادھر دیکھ ہی رہے اور جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دکھائی دےئے تو آپ نے بلایا اور فرمایا:’’ اے ابو عبیدہ ! ان عیسائیوں کے ساتھ جاؤ اور جن معاملات میں ان میں اختلاف ہو گیا ہے ان کو فیصلہ حق کے ساتھ انجام دو‘‘۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اپنے دل میں کہا:ابو عبیدہ مبارک ہو کہ صادق الامین نے تمہیں قوی اور امین کے خطاب سے نوازا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہ صرف امین تھے بلکہ وہ امانت داری کو بروئے کارلانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں پوری قوت صرف کردیا کرتے تھے۔ اور بے شمار موقعوں پر انھوں نے اپنی قوت کو امانت کے تحفظ کے لیے صرف کیا۔ لہذا ایک موقعے پر جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے قافلے کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں روانہ کیا تو کھجور کی ٹوکری اس قافلے کا کل زادراہ تھی اور اس کے علاوہ ان کے پاس کھانے کے لیے اور کچھ نہ تھا۔ لہذا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے ہر ایک ساتھی کو روزانہ ایک کھجور دیتے اور وہ اسے چوس کر پانی پی لیتا۔ گویا پورے دن کی غذا صرف ایک عدد کھجور ہوا کرتی۔
جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مشرکین میں سے ایک بدبخت صدادے رہا تھا: مجھے بتلاؤ محمد کہاں ہیں؟ تو اس سخت ترین موقعے پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ایک تھے جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ مشرکین کی طرف سے آپ ﷺ کی جانب پھینکے جانے والے ہر تیر کو وہ اپنے سینے پر روکتے تھے۔ جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی رباعی ٹوٹ چکے تھے، پیشانی زخمی ہو چکی تھی اور آپ کے زرہ کی دو کڑیاں آپ کی داڑھ میں پھنس چکی تھیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے کہ ان دونوں کڑیوں کو نکال سکیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انھیں قسم دی کہ یہ کام میرے لیے چھوڑ دو۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ڈر تھا کہ اگر میں ان کڑیوں کو اپنے ہاتھ سے نکالوں گا تو رسول اللہ ﷺ کو تکلیف ہوگی۔ لہذا آپ نے اپنے ثنایا (پہلو کے دانت) سے مضبوطی سے پکڑکر کھینچا جس سے ایک کڑی تو نکل گئی لیکن آپ کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے درمیان صرف ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ انھوں نے اپنے چار دانت رسول اللہ ﷺ کو راحت پہنچانے کے لیے شہید کر دیے۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور جب آپ ﷺ کی وفات ہو گئی اور صحابہ کرام سقیفہ بنی ساعدہ (ان دنوں وزارت اطلاعات کے سامنے والا تکونہ باغ) میں جمع ہوئے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’آپ اپنا ہاتھ بڑھاےئے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور آپ اس امت کے امین ہیں‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا:’’ میں اس شخص کے مقابلے میں اپنے آپ کو مقدم نہیں کر سکتا جسے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ وہ نماز میں ہماری امامت کرے اور پھر اس نے امامت کی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی‘‘۔ یہ کہہ کر آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کے دور خلافت میں ہمیشہ حق بات کے لیے آپ کو نصیحت کرتے رہے اور بھلائی کے کام میں ہمیشہ آپ کے مددگار رہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کی بھی اطاعت کی اور کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کی سوائے ایک موقعے کے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سا حکم تھا جو خلیفۃ المسلمین نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیا اور انھو ں نے امیر المومنین کے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ شام کے شہروں میں مسلم افواج کی قیادت کر رہے تھے اور ہر جنگ میں انھیں کامیابی نصیب ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھو ں شام کے تمام شہروں میں فتح دلائی اور آپ کی قیادت میں مسلم فوج مشرق میں فرات اور شمال میں ایشیا تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔ فتوحات کے یہ سلسلے جاری تھے کہ ملک شام میں طاعون کا روگ پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس قدر شدید ہوگیا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تھی اور لوگ یکے بعد دیگرے لقمہ اجل ہونے لگے۔ لہذا امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ہاتھوں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا: ’’مجھے تم سے ایک ضروری کام آن پڑا ہے لہذا میرا یہ خط اگر تمہیں رات میں ملے تو میں تمھیں یہ تاکید کرتا ہوں کہ صبح کا انتظار نہ کرنا اور میری طرف چل پڑنا‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ خط پڑھ کر فرمایا:’’میں جانتا ہوں کہ امیرالمومنین کو مجھ سے کیا کام نکل آیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ایک فنا ہونے والے کو بچالیں۔‘‘ پھر آپ نے ایک خط امیرالمومنین کو لکھا:’’یا امیرالمومنین میں جانتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے، میں اس وقت مسلم فوج کے درمیان ہوں اور میری قطعاً یہ خواہش نہیں ہے کہ میں اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچا لوں جس میں میری فوج گرفتار ہے۔ میں ان سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا تا وقتیکہ اللہ میرے اور ان کے معاملے میں فیصلہ نہ کر دے اور جب میرا یہ خط آپ کو ملے تو جو قسم آپ نے مجھے دی ہے اسے اللہ کے لیے ختم کردینا اور مجھے اجازت دینا کہ میں فوج کے ساتھ رہ سکوں۔‘‘ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خط پڑھا تو آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور آپ ہچکیاں لے لے کے رونے لگے۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا:’’ امیرالمومنین! کیا بات ہے کیا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا انتقال فرماگئے‘‘۔ آپ نے فرمایا نہیں لیکن موت اس سے قریب ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ گمان غلط ثابت نہیں ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کوطاعون نے آگھیرا، وفات سے پہلے آپ نے مسلم فوج کو اس طرح وصیت کی:’’ میں تمھیں ایک ایسی وصیت کررہا ہوں کہ اگر تم نے اسے قبول کر لیا تو بھلائی ہمیشہ تمہارا نصیبہ رہے گی۔ نماز قائم کرو، رمضان کے روزے رکھو، صدقات دیا کرو، حج اور عمرہ کرو، اچھی باتوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرو، اپنے سرداروں کو نصیحت کرو تاکہ وہ گمرہی کا شکار نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا تمہیں ہلاکت میں مبتلا کردے۔ اگر کسی شخص کو ایک ہزار سال کی عمر بھی مل جائے تو اس کا بھی انجام وہی ہوگا جو آج تم میرا دیکھ رہے ہو۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘۔ پھر آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا’’ معاذ لوگوں کو نماز پڑھاؤ‘‘ (ان کی امامت قبول کرو) اتنا کہہ کر حددرجہ سکون کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑکر اپنے مالک حقیقی کی طرف کوچ کر گئے۔ معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’لوگو!آج تم ایک ایسے شخص کے غم میں ڈوبے ہوئے ہو جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی قسم بڑے کشادہ دل والاتھا اور جس سے حسد کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ عاقبت کی محبت میں اس سے شدید کوئی نہ گزرا اور عام مسلمانوں کو اس سے اچھا ناصح نصیب نہ ہوا، تم سب اس کے لیے رحمت کی دعا کرو۔‘‘
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھوں نے دعوت اسلام پر لبیک کہنے میں پہل کی۔ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے دوسرے دن حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر آپ نے اسلام قبول کیا اور پھر عبدالرحمن بن عوف،عثمان بن مظعون اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ایک ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر کلمہ حق کا اعلان کیا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سرزمین مکہ میں مسلمانوں کو پیش آنے والی تمام تکالیف اور مصائب برداشت کیں اور ان کے ہر دکھ دردمیں برابر کے شریک رہے۔ لیکن جنگ بدر میں انھیں جس امتحان سے گزرنا پڑا ہم اور آپ اس امتحان کے تعلق سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ جنگ اپنے شباب پر تھی اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ مشرکین کی صفوں میں بھگدڑ مچا رہے تھے۔ آپ کا کوئی وار خالی نہ جاتا۔ آپ کے پے در پے حملوں سے مشرکین پر خوف ودہشت طاری ہو گئی تھی اور آپ موت سے بے نیاز ہو کر یکے بعد دیگرے مشرکین کو صفحہ ہستی سے مٹاتے چلے جا رہے تھے۔ آپ کی تلوار کی زد میں جو بھی آتا موت اس کا نصیبہ بن جاتی لیکن مشرکین کی اس بھیڑ میں ایک شخص ایسا بھی تھا کہ اگر وہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آجاتا تو آپ نہ صرف یہ کہ راستے سے ہٹ جاتے بلکہ پوری کوشش کرتے کہ اس شخص سے آمنا سامنا نہ ہو۔ لیکن وہ شحص وقفے وقفے سے آڑے آتا اور اللہ کے دشمنوں اور آپ کے درمیان حائل ہوجاتا۔ جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اور کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو آپ نے اس کے سر پر تلوار کی ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ شخص دو ٹکڑوں میں کٹ کر آپ کے سامنے گر گیا۔
قارئین ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ دو حصوں میں کٹ کر مرنے والاوہ شخص کون تھا؟ کیا میں نے تم سے پہلے نہیں کہا تھا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ایک ایسے امتحان سے گزرے ہیں جس کے تعلق سے ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ شاید تمہارا سر چکرا جائے جب تمھیں یہ معلوم ہو کہ وہ شخص جو کٹ کر گرا تھا کوئی اور نہیں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ بن جراح تھے۔ لیکن نہیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کو قتل نہیں کیا بلکہ شرک جوان کے والد کی شکل میں آیا انھوں نے اس شرک کو اس دنیا سے مٹا دیا۔ شرک چاہے وہ باپ کی شخصیت میں کیوں نہ ہو اسے ختم کرنے والے تو حید پرست ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی شان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل کیں:(سورہ مجادلہ:۲۲)
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی، دین کے لیے ان کے نصیحت اور امت محمدیہ میں ان کی امانت داری حددرجہ مقبول تھی۔ اسی لیے محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آپ اپنے صحابہ میں سے جسے پسند فرمائیں ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ مال کے معاملے میں ہمارے درمیان جو اختلاف ہو گیا ہے وہ اس کا فیصلہ کردے۔ اس لیے کہ مسلمان ہمارے درمیان پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم شام کو میرے پاس آنا میں تمھارے ساتھ ایک قوی اور حددرجہ امانت دار شخص کو کردوں گا۔’’ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘ میں اس دن بڑے سویرے ظہر کی نماز کے لیے چلا گیا۔ اس دن میری یہ دلی خواہش تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے قوی اور امین کی جو صفت بیان فرمائی ہے اے کاش کہ اس کا موصوف میں نکلوں۔
جب رسول اللہ ﷺ نماز ظہر پڑھا چکے تو آپ نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا۔ میں بھی اپنی جگہ اچک اچک کر دیکھ رہا تھا تاکہ آپ کی نظر مجھ پر پڑجائے۔ لیکن میری طرف سے بے نیاز آپ ادھر ادھر دیکھ ہی رہے اور جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دکھائی دےئے تو آپ نے بلایا اور فرمایا:’’ اے ابو عبیدہ ! ان عیسائیوں کے ساتھ جاؤ اور جن معاملات میں ان میں اختلاف ہو گیا ہے ان کو فیصلہ حق کے ساتھ انجام دو‘‘۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اپنے دل میں کہا:ابو عبیدہ مبارک ہو کہ صادق الامین نے تمہیں قوی اور امین کے خطاب سے نوازا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہ صرف امین تھے بلکہ وہ امانت داری کو بروئے کارلانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں پوری قوت صرف کردیا کرتے تھے۔ اور بے شمار موقعوں پر انھوں نے اپنی قوت کو امانت کے تحفظ کے لیے صرف کیا۔ لہذا ایک موقعے پر جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے قافلے کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں روانہ کیا تو کھجور کی ٹوکری اس قافلے کا کل زادراہ تھی اور اس کے علاوہ ان کے پاس کھانے کے لیے اور کچھ نہ تھا۔ لہذا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے ہر ایک ساتھی کو روزانہ ایک کھجور دیتے اور وہ اسے چوس کر پانی پی لیتا۔ گویا پورے دن کی غذا صرف ایک عدد کھجور ہوا کرتی۔
جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مشرکین میں سے ایک بدبخت صدادے رہا تھا: مجھے بتلاؤ محمد کہاں ہیں؟ تو اس سخت ترین موقعے پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ایک تھے جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ مشرکین کی طرف سے آپ ﷺ کی جانب پھینکے جانے والے ہر تیر کو وہ اپنے سینے پر روکتے تھے۔ جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی رباعی ٹوٹ چکے تھے، پیشانی زخمی ہو چکی تھی اور آپ کے زرہ کی دو کڑیاں آپ کی داڑھ میں پھنس چکی تھیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے کہ ان دونوں کڑیوں کو نکال سکیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انھیں قسم دی کہ یہ کام میرے لیے چھوڑ دو۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ڈر تھا کہ اگر میں ان کڑیوں کو اپنے ہاتھ سے نکالوں گا تو رسول اللہ ﷺ کو تکلیف ہوگی۔ لہذا آپ نے اپنے ثنایا (پہلو کے دانت) سے مضبوطی سے پکڑکر کھینچا جس سے ایک کڑی تو نکل گئی لیکن آپ کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے درمیان صرف ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ انھوں نے اپنے چار دانت رسول اللہ ﷺ کو راحت پہنچانے کے لیے شہید کر دیے۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور جب آپ ﷺ کی وفات ہو گئی اور صحابہ کرام سقیفہ بنی ساعدہ (ان دنوں وزارت اطلاعات کے سامنے والا تکونہ باغ) میں جمع ہوئے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’آپ اپنا ہاتھ بڑھاےئے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور آپ اس امت کے امین ہیں‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا:’’ میں اس شخص کے مقابلے میں اپنے آپ کو مقدم نہیں کر سکتا جسے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ وہ نماز میں ہماری امامت کرے اور پھر اس نے امامت کی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی‘‘۔ یہ کہہ کر آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کے دور خلافت میں ہمیشہ حق بات کے لیے آپ کو نصیحت کرتے رہے اور بھلائی کے کام میں ہمیشہ آپ کے مددگار رہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کی بھی اطاعت کی اور کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کی سوائے ایک موقعے کے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سا حکم تھا جو خلیفۃ المسلمین نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیا اور انھو ں نے امیر المومنین کے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ شام کے شہروں میں مسلم افواج کی قیادت کر رہے تھے اور ہر جنگ میں انھیں کامیابی نصیب ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھو ں شام کے تمام شہروں میں فتح دلائی اور آپ کی قیادت میں مسلم فوج مشرق میں فرات اور شمال میں ایشیا تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔ فتوحات کے یہ سلسلے جاری تھے کہ ملک شام میں طاعون کا روگ پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس قدر شدید ہوگیا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تھی اور لوگ یکے بعد دیگرے لقمہ اجل ہونے لگے۔ لہذا امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ہاتھوں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا: ’’مجھے تم سے ایک ضروری کام آن پڑا ہے لہذا میرا یہ خط اگر تمہیں رات میں ملے تو میں تمھیں یہ تاکید کرتا ہوں کہ صبح کا انتظار نہ کرنا اور میری طرف چل پڑنا‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ خط پڑھ کر فرمایا:’’میں جانتا ہوں کہ امیرالمومنین کو مجھ سے کیا کام نکل آیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ایک فنا ہونے والے کو بچالیں۔‘‘ پھر آپ نے ایک خط امیرالمومنین کو لکھا:’’یا امیرالمومنین میں جانتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے، میں اس وقت مسلم فوج کے درمیان ہوں اور میری قطعاً یہ خواہش نہیں ہے کہ میں اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچا لوں جس میں میری فوج گرفتار ہے۔ میں ان سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا تا وقتیکہ اللہ میرے اور ان کے معاملے میں فیصلہ نہ کر دے اور جب میرا یہ خط آپ کو ملے تو جو قسم آپ نے مجھے دی ہے اسے اللہ کے لیے ختم کردینا اور مجھے اجازت دینا کہ میں فوج کے ساتھ رہ سکوں۔‘‘ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خط پڑھا تو آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور آپ ہچکیاں لے لے کے رونے لگے۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا:’’ امیرالمومنین! کیا بات ہے کیا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا انتقال فرماگئے‘‘۔ آپ نے فرمایا نہیں لیکن موت اس سے قریب ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ گمان غلط ثابت نہیں ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کوطاعون نے آگھیرا، وفات سے پہلے آپ نے مسلم فوج کو اس طرح وصیت کی:’’ میں تمھیں ایک ایسی وصیت کررہا ہوں کہ اگر تم نے اسے قبول کر لیا تو بھلائی ہمیشہ تمہارا نصیبہ رہے گی۔ نماز قائم کرو، رمضان کے روزے رکھو، صدقات دیا کرو، حج اور عمرہ کرو، اچھی باتوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرو، اپنے سرداروں کو نصیحت کرو تاکہ وہ گمرہی کا شکار نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا تمہیں ہلاکت میں مبتلا کردے۔ اگر کسی شخص کو ایک ہزار سال کی عمر بھی مل جائے تو اس کا بھی انجام وہی ہوگا جو آج تم میرا دیکھ رہے ہو۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘۔ پھر آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا’’ معاذ لوگوں کو نماز پڑھاؤ‘‘ (ان کی امامت قبول کرو) اتنا کہہ کر حددرجہ سکون کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑکر اپنے مالک حقیقی کی طرف کوچ کر گئے۔ معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’لوگو!آج تم ایک ایسے شخص کے غم میں ڈوبے ہوئے ہو جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی قسم بڑے کشادہ دل والاتھا اور جس سے حسد کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ عاقبت کی محبت میں اس سے شدید کوئی نہ گزرا اور عام مسلمانوں کو اس سے اچھا ناصح نصیب نہ ہوا، تم سب اس کے لیے رحمت کی دعا کرو۔‘‘
No comments:
Post a Comment