ازدواجی زندگی کے آداب
ڈاکٹر عبدالقیوم محمد شفیع بستوی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وجعلنا اللیل لباسا وجعلنا النہار معاشاً) (النبا:۷۸؍۱۰۔۱۱)
عموما انسانی زندگی اسی نظام پر چل رہی ہے، اسی لیے پورے دن معاشی مسائل میں الجھا ہوا انسان تھکا ماندہ جب عشاء کی نماز کے بعد اپنے بستر کا رخ کرتا ہے تو اسے راحت جسم اور سکون قلب کی شدید حاجت محسوس ہوتی ہے۔
اس وقت اگر وہ ازدواجی زندگی کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو مطلوبہ راحت وسکون اس کو اپنی رفیقۂ حیات میں نظر آتی ہے، چنانچہ رات کی اس پر سکون خاموشیوں اور پردہ تاریکیوں میں اس کے قریب آتا ہے۔ اس سے دن بھر کی داستان جدوجہد، روداد نفع وضرر، حکایت رنج والم اور عملی زندگی کے گوناگو ں تجربات بیان کرتا ہے اور اس طرح سے وفادار بیوی دن بھر کی تنہائی اور جدائی کی تکلیف بھلا کر، بصد اشتیاق یہ ساری حکایتیں سن کر محبوب شوہر کو داد تحسین دیتی ہے اور پیارومحبت میں ڈوبے بول بول کر اس کے لیے ذہنی سکون کا سامان مہیا کرتی ہے اور وہ بھی گھر اور بچوں کے دن بھر کے حالات شوہر سے بیان کرتی ہے اور پھر اس طرح سے پیار ومحبت کے جذبات کے تبادلہ کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے لیے سامان راحت وسکون بن جاتے ہیں جو کہ ازدواجی زندگی کا اصل مقصد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ) (الروم:۳۰؍۲۱)
’’ اور اس ( اللہ تعالیٰ) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم لوگوں کے لیے تمہاری جانوں سے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تم کو وہاں سکون ملے اور تمہارے درمیان پر خلوص محبت ورحمت کے جذبات بنائے۔‘‘
ایک دوسری جگہ میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے پوشاک کی حیثیت دیتے ہوئے فرمایا:
(ہن لباس لکم وانتم لباس لہن) (البقرہ:۲؍۱۸۷)
’’وہ تمہاری بیویاں تمہارے لیے پوشاک ہیں اور تم ان کے لیے پوشاک ہو‘‘
شوہر اور بیوی کے درمیان محبت والفت اور ایک دوسرے سے قربت اور یگانگت اور دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی طرف جو حاجت ہے اس کو بیان کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی ہے۔
علامہ اقبال نے عورت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سوز سے ہے زندگی کا ساز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
رات کی خاموش تاریکیوں میں ازدواجی زندگی کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے پر پابندی لگانا انسان کی کمزور طبیعت کے سامنے انتہائی مشکل امر تھا، اس لیے ابتدائے اسلام میں رمضان کے مقدس مہینہ کی راتوں میں جب اس پر جزوی پابندی لگی تو یہ حکم انسانی طبیعت پر بڑا شاق گزرا اور خلاف ورزیاں ہونے لگیں۔
شریعت نے انسان کی اس فطری کمزوری کے پیش نظر ساری پابندی اٹھالی اور اعلان کر دیا کہ اب دونوں کو یہ حق ہے کہ رات کے جس وقت چاہیں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اعتکاف کی حالت میں نہ ہوں۔
اس سلسلہ میں ذرا قرآنی بیان ملاحظہ فرمائیں، ارشاد ہے:
( احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم ہن لباس لکم وانتم لباس لہن علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم وعفاعنکم فالان باشروہن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل ولا تباشروہن وانتم عاکفون فی المساجد تلک حدود اللہ فلا تقربوہا کذالک یبین اللہ آیاتہ للناس لعلہم یتقون) (البقرۃ:۲؍۱۸۷)
’’تمہارے لیے روزے کی رات میں قضائے شہوت کی خاطر تمہاری اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا وہ تمہارے حق میں پوشاک ہیں اور تم ان کے حق میں پوشاک ہو اللہ نے جانا کہ تم سے پابندی نباہی نہیں جارہی تھی لہذا اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی اور تم کو معاف کردیا اور وہی چاہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کے وقت کی سفیدی سیاہی سے نکل کر نمودار ہو جائے، اور پھر اس وقت سے رات آنے تک روزہ کو نباہو اور یادرہے تم لوگ اپنی عورتوں سے اس حال میں لطف اندوز نہ ہونا جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو، یہ سب اللہ کے متعین کردہ پابندیاں ہیں لہذا ان کے قریب بھی نہ جاؤ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگو ں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ متقی بن جائیں۔‘‘
اسلامی شریعت نے انسان کے اس فطری تقاضے کو مد نظر رکھ کر دونوں کو ایک دوسرے کے احساسات وجذبات کا پاس ولحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور جذبات کی ناقدری پر شدید وعید سنائی ہے۔
چنانچہ صحیح حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:(إذا دعا الرجل امراتہ الی فراشہ فلم تاتہ فبات غضبان علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح) (متفق علیہ)
’’اگر مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلایا، پھر وہ ا س کے پاس نہیں آئی، اس کے بعد شوہر نے اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دی تو فرشتے ایسی عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: (اذا باتت المراۃ ہاجرۃ فراش زوجہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح)
’’ اگر عورت نے اپنے شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گزار دی تو فرشتے اس پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں آپ نے قسم کھا کر فرمایا:
(والذین نفسی بیدہ ما من رجل یدعو امراتہ الی فراشہ فتابی علیہ الا کان الذی فی السماء ساخطا علیہا حتی یرضی عنہا) (متفق علیہ)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی بھی اگر اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر وہ انکار کردے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے اس عورت پر اس وقت تک ناراض رہے گی جب تک کہ شوہر اپنی بیوی سے راضی نہ ہو جائے۔‘‘
اس طرح کی اور بھی احادیث ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شریعت نے انسان کے اس طرح کے فطری احساسات وجذبات اور تقاضائے بشریت کو کتنی اہمیت دی ہے۔
بعض روایات کے مطابق انسان کے ان فطری تقاضوں کو پورا کرنے کو نفلی عبادتوں پر ترجیح دی گئی ہے اسی لیے کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزے رکھے، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: (لا یحل لامراۃ ان تصوم وزوجہا شاہد الا باذنہ ولا تاذن فی بیتہ الا باذنہ) (متفق علیہ)
’’ کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ روزے سے رہے اور اس کا شوہر موجود ہو، الا یہ کہ اس کی اجازت ہو اور نہ اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے جب تک اس کی اجازت نہ ہو۔‘‘
اگر ایک طرف عورت کو اپنے مرد کے جذبات واحساسات کی قدردانی کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طرف شوہر کو بھی اپنی بیوی کے تئیں اسی طرح کا معاملہ کرنے کا حکم ہے چنانچہ اس پر واجب ہے کہ وہ عورت کے احساسات وجذبات کی قدردانی کرے، اور اس کے بھی فطری تقاضوں کو پورا کرے اور اگر نفلی عبادت میں کثرت سے انہماک عورت کے حقوق کی ادائیگی میں مانع تو اسے ترک کرکے عورت اور بچوں کے حقوق کو نباہنے کو ترجیح دے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’بلغنی انک تصوم النہار وتقوم اللیل فلا تفعل فان لجسدک علیک حقا ولعینک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا‘‘ (بخاری ومسلم)
’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تمہارے اوپر حق ہے۔
بعض روایات کے مطابق آپ نے حکم دیا کہ تم روزہ بھی رہو اور افطار بھی کرو اور سوؤ بھی اور قیام بھی کرو۔
نبی کریم ﷺ نے ایسی نفلی عبادت کو پسند نہیں فرمایا جس سے بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں خلل آتا ہو اور ان کا حق مارا جاتاہو۔ اور اگر اس صورت حال میں نفلی عبادت کو پسندنہیں فرمایا تو پھر ایسی دنیاوی مشغولیت بدرجۂ اولیٰ ناپسندیدہ ہوگی جس کی وجہ سے اہل وعیال کے حقوق پامال ہوتے ہوں یا ان سے لاپرواہی لازم آتی ہو۔یقیناًیہ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ آدمی اپنے دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک ہوجائے کہ بیوی بچوں کے درمیان بیٹھنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے ان کے احساسات وجذبات جاننے اور اپنے احساسات وجذبات کو ظاہر کرنے سے محروم ہوجائے۔
یہ صورت حال عائلی زندگی کے لیے ایک صدمہ سے کم نہیں ہے اس لیے انسان کو اپنے روز مرہ کے مشاغل میں سے اگر بہت بڑی مجبوری نہ ہو تو تھوڑا بہت وقت ان کے بیچ گزارنا چاہئے، ان کو زندگی کے اپنے مفید تجربات سکھانے چاہئے ان کی زندگی میں خوشی ومسرت کی فضا بنانی چاہئے۔
بسا اوقات بیوی یا شوہر کو زبانی مفید قسم کے تاریخی اور ادبی قصوں اور لطیفوں کے ذکر سے گھر کے ماحول کو پر لطف بنانا چاہئے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں کبھی کبھی اس طرح کا سماں ہوتا تھا۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک نہایت ہی پر لطف حکایت بیان کی جس سے نبی کریم ﷺ محظوظ ہوئے، آخر میں آپ نے اس پر اپنے ظریفانہ جذبات کا اظہار بھی فرمایا جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی اور ہمت افزائی مقصود تھی۔
یہ قصہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ دیگر احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے طوالت کے خوف سے اس قصہ کا بامحاورہ ترجمہ درج ذیل ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ:
گیارہ عورتیں مل کر بیٹھیں اور آپس میں انہوں نے یہ عہد وپیمان کیا کہ وہ اپنے اپنے شوہروں کے متعلق کچھ بھی نہیں چھپائیں گی، یعنی سب کچھ اس نشست میں بیان کردیں گی۔
چنانچہ پہلی عورت بولی:میرا شوہر دبلا پتلا اونٹ کا ایسا گوشت ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو جہاں چڑھ کر جانا آسان نہیں ہے اور نہ ہی اتنا فربہ ہے کہ وہاں جانے کا تکلف کیا جائے۔ یعنی اتنا ناتواں ولا غر ہے کہ جس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسری بولی:میں اپنے شوہر کی خبریں نہیں بتاؤں گی مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کو تکمیل تک نہ پہنچا سکوں، کیوں کہ وہ بہت لمبی ہیں، اگر انہیں ذکر بھی کروں گی تو ان میں حزن والم کی داستان ہی ہوگی۔
تیسری بولی:میرا شوہر تو لمبا اور احمق ہے، اگر بولی تو مجھے طلاق ہو جائے گی، اور اگر خاموش رہی تو لٹکی رہوں گی، یعنی نہ شوہر والی ہونے کا احساس ہے نہ مطلقہ ہونے کا۔
چوتھی بولی:میرا شوہر وادی تہامہ کی رات کے مانند ہے نہ گرم ہے نہ ٹھنڈا، نہ باعث خوف نہ باعث اکتاہٹ، یعنی متوسط قسم کا آدمی ہے ، جو کسی حد تک قابل تعریف ہی ہے۔
پانچویں بولی: میرا شوہر جب گھر کے اندر ہوتا ہے تو تندوا ہوتا ہے، اور جب گھرسے نکلتا ہے تو شیر ہوتا ہے، اور جو رکھنے کو دیتا ہے اس کے متعلق پوچھتا ہی نہیں ہے۔ گویا ایک طرح قابل تعریف ہے۔
چھٹی بولی: میرا شوہر اگر کھانا کھاتا ہے تو پورا ہی چٹ کر جاتا ہے اور اگر پیتا ہے تو آخری قطرہ تک پی جاتا ہے اور جب لیٹتا ہے تو چادر سے لپٹ کر سو جاتا ہے اور ہاتھ بھی نہیں ملاتا ہے کہ وہ ہمارے جذبات کو جان سکے۔ گویا اپنے شوہر کی مذمت کر رہی ہے۔
ساتویں بولی: میرا شوہر مکمل احمق اور بے مقصد انسان ہے، ہر بیماری اس کی بیماری ہے (یعنی ہر طرح کا عیب اس میں ہے) کچھ پتہ نہیں وہ مار کے سرپھوڑدے گا یا زخمی کر دے گا یا سب کچھ کر بیٹھے گا۔ یعنی انتہائی ظالم۔
آٹھویں بولی: میرا شوہر چھونے میں خرگوش جیسا نرم وملائم ہے اور خوشبو میں زعفران جیسی مہک والا ہے۔ یعنی بہت نرم خواور اچھے اخلاق والا ہے۔
نوویں بولی: میرا شوہر لمبے ستونوں والا ہے، اور اونچی نیاموں والا ہے، اور بڑی راکھوں والا ہے، قبیلہ کی اجتماعی مجلس سے اس کا گھر قریب ہے یعنی بہت دل دار اور سخی ہے۔
دسویں بولی: میرا شوہر مالک ہے اور مالک کیا چیز ہے اس کے شوہر سے اچھا ہے اس کے پاس ایسے اونٹ ہیں جنہیں باڑوں کی ضرورت زیادہ ہے اور چراگاہوں کی ضرورت کم ہے اور جب انہیں باجے کی آواز سنائی پڑی تو اپنے قربان کیے جانے کا یقین ہو گیا یعنی بہت اچھا میزبان ہے مہمانوں کی ضیافت کے لیے اونٹوں کو کسی بھی وقت ذبح کرنے کی خاطر باڑے میں باندھ کر رکھتا ہے۔
گیارہویں بولی:میرا شوہر ابو زرع ہے۔ ابو زرع کیا انسان ہے! اس نے میرے کانوں کو زیورات سے بوجھل کردیا اور میرے بازؤں کو موٹاپے سے بھردیا اور مجھے خوش کردیا پھر میں اپنے میں مگن بھی ہو گئی، مجھے چند بکریوں کے مالک گھرانے میں پایا، جہاں زندگی بڑی مشکل تھی، پھر مجھے گھوڑے، اونٹ،بیل، مرغی اور کھیتی باڑی کے مالک گھرانے میں لا بسایا، جو عربی گھوڑے کی سواری کرتا تھا اور نیزہ اپنے پاس رکھتا تھا، اس نے اپنے کروفر سے مجھے مالا مال کردیا اور ہر قسم کی خوشبوؤں کا جوڑا عطا کیا، اور بولا:
ام زرع تم خودبھی کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاؤ، یہ خاتون( اپنے پہلے شوہر کو یاد کرتے ہوئے) کہتی ہے: اگر میں وہ سب کچھ جمع کرتی جو اس نے ہمیں دیا تو بھی ابو زرع کے سب سے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا: میں تمہارے لیے ویسے ہی ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا، لیکن میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا جس طرح ابو زرع نے ام زرع کو دے دی تھی۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر۵۱۹۸)
اس حدیث سے نبی کریم ﷺ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ گفتگو میں ظرافت کا پہلو اختیار کرنا ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا) (الاحزاب:۳۳؍۴۱)
یقیناًتم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول کے اندر بہترین اسوہ ہے تم میں سے جو لوگ اللہ سے اور یوم آخرت سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔‘‘
***
عموما انسانی زندگی اسی نظام پر چل رہی ہے، اسی لیے پورے دن معاشی مسائل میں الجھا ہوا انسان تھکا ماندہ جب عشاء کی نماز کے بعد اپنے بستر کا رخ کرتا ہے تو اسے راحت جسم اور سکون قلب کی شدید حاجت محسوس ہوتی ہے۔
اس وقت اگر وہ ازدواجی زندگی کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو مطلوبہ راحت وسکون اس کو اپنی رفیقۂ حیات میں نظر آتی ہے، چنانچہ رات کی اس پر سکون خاموشیوں اور پردہ تاریکیوں میں اس کے قریب آتا ہے۔ اس سے دن بھر کی داستان جدوجہد، روداد نفع وضرر، حکایت رنج والم اور عملی زندگی کے گوناگو ں تجربات بیان کرتا ہے اور اس طرح سے وفادار بیوی دن بھر کی تنہائی اور جدائی کی تکلیف بھلا کر، بصد اشتیاق یہ ساری حکایتیں سن کر محبوب شوہر کو داد تحسین دیتی ہے اور پیارومحبت میں ڈوبے بول بول کر اس کے لیے ذہنی سکون کا سامان مہیا کرتی ہے اور وہ بھی گھر اور بچوں کے دن بھر کے حالات شوہر سے بیان کرتی ہے اور پھر اس طرح سے پیار ومحبت کے جذبات کے تبادلہ کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے لیے سامان راحت وسکون بن جاتے ہیں جو کہ ازدواجی زندگی کا اصل مقصد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ) (الروم:۳۰؍۲۱)
’’ اور اس ( اللہ تعالیٰ) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم لوگوں کے لیے تمہاری جانوں سے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تم کو وہاں سکون ملے اور تمہارے درمیان پر خلوص محبت ورحمت کے جذبات بنائے۔‘‘
ایک دوسری جگہ میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے پوشاک کی حیثیت دیتے ہوئے فرمایا:
(ہن لباس لکم وانتم لباس لہن) (البقرہ:۲؍۱۸۷)
’’وہ تمہاری بیویاں تمہارے لیے پوشاک ہیں اور تم ان کے لیے پوشاک ہو‘‘
شوہر اور بیوی کے درمیان محبت والفت اور ایک دوسرے سے قربت اور یگانگت اور دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی طرف جو حاجت ہے اس کو بیان کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی ہے۔
علامہ اقبال نے عورت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سوز سے ہے زندگی کا ساز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
رات کی خاموش تاریکیوں میں ازدواجی زندگی کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے پر پابندی لگانا انسان کی کمزور طبیعت کے سامنے انتہائی مشکل امر تھا، اس لیے ابتدائے اسلام میں رمضان کے مقدس مہینہ کی راتوں میں جب اس پر جزوی پابندی لگی تو یہ حکم انسانی طبیعت پر بڑا شاق گزرا اور خلاف ورزیاں ہونے لگیں۔
شریعت نے انسان کی اس فطری کمزوری کے پیش نظر ساری پابندی اٹھالی اور اعلان کر دیا کہ اب دونوں کو یہ حق ہے کہ رات کے جس وقت چاہیں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اعتکاف کی حالت میں نہ ہوں۔
اس سلسلہ میں ذرا قرآنی بیان ملاحظہ فرمائیں، ارشاد ہے:
( احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم ہن لباس لکم وانتم لباس لہن علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم وعفاعنکم فالان باشروہن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل ولا تباشروہن وانتم عاکفون فی المساجد تلک حدود اللہ فلا تقربوہا کذالک یبین اللہ آیاتہ للناس لعلہم یتقون) (البقرۃ:۲؍۱۸۷)
’’تمہارے لیے روزے کی رات میں قضائے شہوت کی خاطر تمہاری اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا وہ تمہارے حق میں پوشاک ہیں اور تم ان کے حق میں پوشاک ہو اللہ نے جانا کہ تم سے پابندی نباہی نہیں جارہی تھی لہذا اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی اور تم کو معاف کردیا اور وہی چاہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کے وقت کی سفیدی سیاہی سے نکل کر نمودار ہو جائے، اور پھر اس وقت سے رات آنے تک روزہ کو نباہو اور یادرہے تم لوگ اپنی عورتوں سے اس حال میں لطف اندوز نہ ہونا جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو، یہ سب اللہ کے متعین کردہ پابندیاں ہیں لہذا ان کے قریب بھی نہ جاؤ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگو ں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ متقی بن جائیں۔‘‘
اسلامی شریعت نے انسان کے اس فطری تقاضے کو مد نظر رکھ کر دونوں کو ایک دوسرے کے احساسات وجذبات کا پاس ولحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور جذبات کی ناقدری پر شدید وعید سنائی ہے۔
چنانچہ صحیح حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:(إذا دعا الرجل امراتہ الی فراشہ فلم تاتہ فبات غضبان علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح) (متفق علیہ)
’’اگر مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلایا، پھر وہ ا س کے پاس نہیں آئی، اس کے بعد شوہر نے اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دی تو فرشتے ایسی عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: (اذا باتت المراۃ ہاجرۃ فراش زوجہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح)
’’ اگر عورت نے اپنے شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گزار دی تو فرشتے اس پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں آپ نے قسم کھا کر فرمایا:
(والذین نفسی بیدہ ما من رجل یدعو امراتہ الی فراشہ فتابی علیہ الا کان الذی فی السماء ساخطا علیہا حتی یرضی عنہا) (متفق علیہ)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی بھی اگر اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر وہ انکار کردے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے اس عورت پر اس وقت تک ناراض رہے گی جب تک کہ شوہر اپنی بیوی سے راضی نہ ہو جائے۔‘‘
اس طرح کی اور بھی احادیث ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شریعت نے انسان کے اس طرح کے فطری احساسات وجذبات اور تقاضائے بشریت کو کتنی اہمیت دی ہے۔
بعض روایات کے مطابق انسان کے ان فطری تقاضوں کو پورا کرنے کو نفلی عبادتوں پر ترجیح دی گئی ہے اسی لیے کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزے رکھے، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: (لا یحل لامراۃ ان تصوم وزوجہا شاہد الا باذنہ ولا تاذن فی بیتہ الا باذنہ) (متفق علیہ)
’’ کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ روزے سے رہے اور اس کا شوہر موجود ہو، الا یہ کہ اس کی اجازت ہو اور نہ اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے جب تک اس کی اجازت نہ ہو۔‘‘
اگر ایک طرف عورت کو اپنے مرد کے جذبات واحساسات کی قدردانی کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طرف شوہر کو بھی اپنی بیوی کے تئیں اسی طرح کا معاملہ کرنے کا حکم ہے چنانچہ اس پر واجب ہے کہ وہ عورت کے احساسات وجذبات کی قدردانی کرے، اور اس کے بھی فطری تقاضوں کو پورا کرے اور اگر نفلی عبادت میں کثرت سے انہماک عورت کے حقوق کی ادائیگی میں مانع تو اسے ترک کرکے عورت اور بچوں کے حقوق کو نباہنے کو ترجیح دے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’بلغنی انک تصوم النہار وتقوم اللیل فلا تفعل فان لجسدک علیک حقا ولعینک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا‘‘ (بخاری ومسلم)
’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تمہارے اوپر حق ہے۔
بعض روایات کے مطابق آپ نے حکم دیا کہ تم روزہ بھی رہو اور افطار بھی کرو اور سوؤ بھی اور قیام بھی کرو۔
نبی کریم ﷺ نے ایسی نفلی عبادت کو پسند نہیں فرمایا جس سے بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں خلل آتا ہو اور ان کا حق مارا جاتاہو۔ اور اگر اس صورت حال میں نفلی عبادت کو پسندنہیں فرمایا تو پھر ایسی دنیاوی مشغولیت بدرجۂ اولیٰ ناپسندیدہ ہوگی جس کی وجہ سے اہل وعیال کے حقوق پامال ہوتے ہوں یا ان سے لاپرواہی لازم آتی ہو۔یقیناًیہ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ آدمی اپنے دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک ہوجائے کہ بیوی بچوں کے درمیان بیٹھنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے ان کے احساسات وجذبات جاننے اور اپنے احساسات وجذبات کو ظاہر کرنے سے محروم ہوجائے۔
یہ صورت حال عائلی زندگی کے لیے ایک صدمہ سے کم نہیں ہے اس لیے انسان کو اپنے روز مرہ کے مشاغل میں سے اگر بہت بڑی مجبوری نہ ہو تو تھوڑا بہت وقت ان کے بیچ گزارنا چاہئے، ان کو زندگی کے اپنے مفید تجربات سکھانے چاہئے ان کی زندگی میں خوشی ومسرت کی فضا بنانی چاہئے۔
بسا اوقات بیوی یا شوہر کو زبانی مفید قسم کے تاریخی اور ادبی قصوں اور لطیفوں کے ذکر سے گھر کے ماحول کو پر لطف بنانا چاہئے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں کبھی کبھی اس طرح کا سماں ہوتا تھا۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک نہایت ہی پر لطف حکایت بیان کی جس سے نبی کریم ﷺ محظوظ ہوئے، آخر میں آپ نے اس پر اپنے ظریفانہ جذبات کا اظہار بھی فرمایا جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی اور ہمت افزائی مقصود تھی۔
یہ قصہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ دیگر احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے طوالت کے خوف سے اس قصہ کا بامحاورہ ترجمہ درج ذیل ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ:
گیارہ عورتیں مل کر بیٹھیں اور آپس میں انہوں نے یہ عہد وپیمان کیا کہ وہ اپنے اپنے شوہروں کے متعلق کچھ بھی نہیں چھپائیں گی، یعنی سب کچھ اس نشست میں بیان کردیں گی۔
چنانچہ پہلی عورت بولی:میرا شوہر دبلا پتلا اونٹ کا ایسا گوشت ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو جہاں چڑھ کر جانا آسان نہیں ہے اور نہ ہی اتنا فربہ ہے کہ وہاں جانے کا تکلف کیا جائے۔ یعنی اتنا ناتواں ولا غر ہے کہ جس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسری بولی:میں اپنے شوہر کی خبریں نہیں بتاؤں گی مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کو تکمیل تک نہ پہنچا سکوں، کیوں کہ وہ بہت لمبی ہیں، اگر انہیں ذکر بھی کروں گی تو ان میں حزن والم کی داستان ہی ہوگی۔
تیسری بولی:میرا شوہر تو لمبا اور احمق ہے، اگر بولی تو مجھے طلاق ہو جائے گی، اور اگر خاموش رہی تو لٹکی رہوں گی، یعنی نہ شوہر والی ہونے کا احساس ہے نہ مطلقہ ہونے کا۔
چوتھی بولی:میرا شوہر وادی تہامہ کی رات کے مانند ہے نہ گرم ہے نہ ٹھنڈا، نہ باعث خوف نہ باعث اکتاہٹ، یعنی متوسط قسم کا آدمی ہے ، جو کسی حد تک قابل تعریف ہی ہے۔
پانچویں بولی: میرا شوہر جب گھر کے اندر ہوتا ہے تو تندوا ہوتا ہے، اور جب گھرسے نکلتا ہے تو شیر ہوتا ہے، اور جو رکھنے کو دیتا ہے اس کے متعلق پوچھتا ہی نہیں ہے۔ گویا ایک طرح قابل تعریف ہے۔
چھٹی بولی: میرا شوہر اگر کھانا کھاتا ہے تو پورا ہی چٹ کر جاتا ہے اور اگر پیتا ہے تو آخری قطرہ تک پی جاتا ہے اور جب لیٹتا ہے تو چادر سے لپٹ کر سو جاتا ہے اور ہاتھ بھی نہیں ملاتا ہے کہ وہ ہمارے جذبات کو جان سکے۔ گویا اپنے شوہر کی مذمت کر رہی ہے۔
ساتویں بولی: میرا شوہر مکمل احمق اور بے مقصد انسان ہے، ہر بیماری اس کی بیماری ہے (یعنی ہر طرح کا عیب اس میں ہے) کچھ پتہ نہیں وہ مار کے سرپھوڑدے گا یا زخمی کر دے گا یا سب کچھ کر بیٹھے گا۔ یعنی انتہائی ظالم۔
آٹھویں بولی: میرا شوہر چھونے میں خرگوش جیسا نرم وملائم ہے اور خوشبو میں زعفران جیسی مہک والا ہے۔ یعنی بہت نرم خواور اچھے اخلاق والا ہے۔
نوویں بولی: میرا شوہر لمبے ستونوں والا ہے، اور اونچی نیاموں والا ہے، اور بڑی راکھوں والا ہے، قبیلہ کی اجتماعی مجلس سے اس کا گھر قریب ہے یعنی بہت دل دار اور سخی ہے۔
دسویں بولی: میرا شوہر مالک ہے اور مالک کیا چیز ہے اس کے شوہر سے اچھا ہے اس کے پاس ایسے اونٹ ہیں جنہیں باڑوں کی ضرورت زیادہ ہے اور چراگاہوں کی ضرورت کم ہے اور جب انہیں باجے کی آواز سنائی پڑی تو اپنے قربان کیے جانے کا یقین ہو گیا یعنی بہت اچھا میزبان ہے مہمانوں کی ضیافت کے لیے اونٹوں کو کسی بھی وقت ذبح کرنے کی خاطر باڑے میں باندھ کر رکھتا ہے۔
گیارہویں بولی:میرا شوہر ابو زرع ہے۔ ابو زرع کیا انسان ہے! اس نے میرے کانوں کو زیورات سے بوجھل کردیا اور میرے بازؤں کو موٹاپے سے بھردیا اور مجھے خوش کردیا پھر میں اپنے میں مگن بھی ہو گئی، مجھے چند بکریوں کے مالک گھرانے میں پایا، جہاں زندگی بڑی مشکل تھی، پھر مجھے گھوڑے، اونٹ،بیل، مرغی اور کھیتی باڑی کے مالک گھرانے میں لا بسایا، جو عربی گھوڑے کی سواری کرتا تھا اور نیزہ اپنے پاس رکھتا تھا، اس نے اپنے کروفر سے مجھے مالا مال کردیا اور ہر قسم کی خوشبوؤں کا جوڑا عطا کیا، اور بولا:
ام زرع تم خودبھی کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاؤ، یہ خاتون( اپنے پہلے شوہر کو یاد کرتے ہوئے) کہتی ہے: اگر میں وہ سب کچھ جمع کرتی جو اس نے ہمیں دیا تو بھی ابو زرع کے سب سے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا: میں تمہارے لیے ویسے ہی ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا، لیکن میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا جس طرح ابو زرع نے ام زرع کو دے دی تھی۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر۵۱۹۸)
اس حدیث سے نبی کریم ﷺ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ گفتگو میں ظرافت کا پہلو اختیار کرنا ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا) (الاحزاب:۳۳؍۴۱)
یقیناًتم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول کے اندر بہترین اسوہ ہے تم میں سے جو لوگ اللہ سے اور یوم آخرت سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔‘‘
***
No comments:
Post a Comment