تن ھمہ داغ داغ شد.....
شعور آگہی
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
کتاب وسنت پہ مشتمل دین اسلام کی تعلیمات بہت واضح ہیں، جن سے زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے، عقیدہ وعمل، معاملہ داری اور اخلاق و معاشرت کے باب میں اسلامی ہدایات کے پیش نظر امت مسلمہ کے ہر فرد کو اپنے معاشرہ میں امتیازی حیثیت کا حامل ہونا چاہئے، دوسروں کے مقابلہ میں بہر حال اسے صالح، صادق، صلح پسند اور صاف گو بن کر ہی زندگی گذارنی ہے، اسلامی شریعت کو یہی مطلوب ہے۔
خیرالقرون کے بعد آہستہ آہستہ افراد امت بگاڑ کو قبول کرنے لگے، اس طرح امت کے ہر طبقہ میں انحراف نمایاں ہوتا گیا، نوبت یہاں تک پہونچی کہ مذہب حق کا عطا کردہ روشن عقیدہ ظالمانہ روش کی لپیٹ میں آکر شرک جیسی غلاظت سے آلودہ ہو گیا۔ صاف ستھرے اعمال جو امت کا نشان امتیاز تھے بدعملی کے اندھیروں میں دھندلے ہوگئے۔ اخلاقیات کے باب میں بھی بد خلقی نے اپنے پنجے گاڑ دئیے ، اس طرح دنیا ہمیں بدخلق وبد عمل سمجھ کر بے حیثیت گرداننے لگی۔
جائزہ لیجئے، ہردن جو خبریں آرہی ہیں وہ ہماری بے راہ روی کی دلیل ہیں، مسلم نام کے افراد چوری اور ڈکیتی میں ملوث ملیں گے، شراب خوری اور بدکاری جیسے جرائم کی فہرست میں یہ نام شامل ہیں، گھپلے گھوٹالے اور قانون شکنی کے مرتکب بھی یہ ہوتے ہیں، قید خانوں کو آباد کرنے میں بڑا ہاتھ انہیں کا ہے، معاشی طور پر ملک کی کمر توڑ نے والے نقلی نوٹوں کے کاروبار میں بھی یہ نام سنائی دیتے ہیں، حد یہ کہ جہیز کے حوالے سے دنیاوی لالچ کا اسیر ہوکر افراد امت دختران ملت کو نذر آتش بھی کرنے لگے جو قتل عمد ہے اور جس کی سزا اسلام میں معلوم و معروف ہے۔
بداعمالی کی اس فہرست میں بد عقیدگی سرفہرست ہے، عقیدۂ توحید کی پامالی کے مناظر دیکھنے ہوں تو مزارات کا نظارہ کیجئے، ہر جگہ یہ عقیدہ افسردہ و ملول دکھائی دے گا۔
میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ مذہب اسلام کی حقانیت کا انکار کرنے والے غیر مسلم مزارات پہ جاکر اپنا سر کیوں جھکاتے ہیں؟ کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ انہیں صنم خانوں کی فضا میں جو کچھ میسر ہوتا ہے وہی سب مزاراتی ماحول میں فراہم پاتے ہیں۔ اسی لئے بڑے ذوق وشوق سے چادریں لے کر عقیدتمندانہ طور پر خود حاضر ہوتے ہیں یا اپنے نمائندوں کو بھیج کرحصول اجر کی امید کرتے ہیں۔
حالات سخت ہیں،امت پست ہے، اسے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ مالک کی رضامندی اور انعام کا حصول تبھی ممکن ہے جب مالک کے ساتھ وفا داری کا اظہار ہونے لگے۔ جس کے بعد مالک حقیقی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے گا اور ہم سب دنیا وآخرت میں سرخرو ہوں گے۔
خیرالقرون کے بعد آہستہ آہستہ افراد امت بگاڑ کو قبول کرنے لگے، اس طرح امت کے ہر طبقہ میں انحراف نمایاں ہوتا گیا، نوبت یہاں تک پہونچی کہ مذہب حق کا عطا کردہ روشن عقیدہ ظالمانہ روش کی لپیٹ میں آکر شرک جیسی غلاظت سے آلودہ ہو گیا۔ صاف ستھرے اعمال جو امت کا نشان امتیاز تھے بدعملی کے اندھیروں میں دھندلے ہوگئے۔ اخلاقیات کے باب میں بھی بد خلقی نے اپنے پنجے گاڑ دئیے ، اس طرح دنیا ہمیں بدخلق وبد عمل سمجھ کر بے حیثیت گرداننے لگی۔
جائزہ لیجئے، ہردن جو خبریں آرہی ہیں وہ ہماری بے راہ روی کی دلیل ہیں، مسلم نام کے افراد چوری اور ڈکیتی میں ملوث ملیں گے، شراب خوری اور بدکاری جیسے جرائم کی فہرست میں یہ نام شامل ہیں، گھپلے گھوٹالے اور قانون شکنی کے مرتکب بھی یہ ہوتے ہیں، قید خانوں کو آباد کرنے میں بڑا ہاتھ انہیں کا ہے، معاشی طور پر ملک کی کمر توڑ نے والے نقلی نوٹوں کے کاروبار میں بھی یہ نام سنائی دیتے ہیں، حد یہ کہ جہیز کے حوالے سے دنیاوی لالچ کا اسیر ہوکر افراد امت دختران ملت کو نذر آتش بھی کرنے لگے جو قتل عمد ہے اور جس کی سزا اسلام میں معلوم و معروف ہے۔
بداعمالی کی اس فہرست میں بد عقیدگی سرفہرست ہے، عقیدۂ توحید کی پامالی کے مناظر دیکھنے ہوں تو مزارات کا نظارہ کیجئے، ہر جگہ یہ عقیدہ افسردہ و ملول دکھائی دے گا۔
میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ مذہب اسلام کی حقانیت کا انکار کرنے والے غیر مسلم مزارات پہ جاکر اپنا سر کیوں جھکاتے ہیں؟ کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ انہیں صنم خانوں کی فضا میں جو کچھ میسر ہوتا ہے وہی سب مزاراتی ماحول میں فراہم پاتے ہیں۔ اسی لئے بڑے ذوق وشوق سے چادریں لے کر عقیدتمندانہ طور پر خود حاضر ہوتے ہیں یا اپنے نمائندوں کو بھیج کرحصول اجر کی امید کرتے ہیں۔
حالات سخت ہیں،امت پست ہے، اسے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ مالک کی رضامندی اور انعام کا حصول تبھی ممکن ہے جب مالک کے ساتھ وفا داری کا اظہار ہونے لگے۔ جس کے بعد مالک حقیقی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے گا اور ہم سب دنیا وآخرت میں سرخرو ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment