نیت
مولانا عبد العظیم فلاحی
دبی، عرب امارات
دبی، عرب امارات
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ
اس مضمون میں ایک مسئلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں اس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے بلکہ اصلاح کے پیش نظر اس مسئلے کو پیش کرنا چاہتے ہیں وہ مسئلہ ہے نیت کا، بعض بھائی نماز پڑھنے سے پہلے نیت کا زبان سے اقرار کرکے نماز کی نیت کرتے ہیں حقیقت میں دیکھا جائے تو نیت کا تعلق زبان سے ہے ہی نہیں ۔ اقراراور ہے، نیت اور ہے، اقرار کا تعلق زبان سے ہے نیت کا تعلق دل ہے۔نیت عربی زبان میں اندر کی چیز کو کہتے ہیں اسی لئے گٹھلی کو عربی میں نوی بولتے ہیں کیونکہ گٹھلی پھل کے اندر ہوتی ہے نیت بھی دل کے اندر ہوتی ہے۔ اسی لئے نیت اور اقرار آپس میں متضاد ہیں اقرار ہے تو نیت نہیں، نیت ہے تو اقرار نہیں ۔اسی لئے اسلام نے دل کے ارادے کو نیت سے تعبیر کیا ہے نہ کہ اقرار کو۔ نمازی جب گھر سے نماز کے لئے نکل کر مسجد میں آکر وضو کرتا ہے اور مسجد میں داخل ہوتا ہے یہ سب نیت ہے قرآن کریم کی آیت ہے انہ علیم بذات الصدور۔ بیشک اللہ تعالیٰ دل کے ارادے کو جاننے والا ہے۔کہ بندہ فرض پڑھ رہا ہے یا سنت یا نوافل۔ سب اللہ کو معلوم ہے زبان سے اقرار کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ملتا ہمارے ملکوں میں نمازی فجر کی نیت، ظہر کی نیت، عصر کی نیت، مغرب کی نیت، عشاء کی نیت، جنازے کی نیت، عیدین کی نیت، وتر کی نیت اور روزہ کی نیت زبان سے ادا کرتے ہیں اور عوام الناس یہ تمام الفاظ یاد کرکے موقع بموقع پڑھتے ہیں اور علماء اپنی کتابوں میں لکھتے بھی ہیں اتفاق سے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو جملہ میں لکھ رہا ہوں اس کا تعلق کتاب و سنت سے ہے بھی یا نہیں؟ حالانکہ نظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ سب مقررہ نیت صریح سنت نبوی کے خلاف ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ تمام صحابہ اور محدثین اور فقہاء نے نیت زبان سے اقرار کرنے کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا۔ اگر اس میں مسلمانوں کے لئے فائدہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ آپ کے اصحاب دیگر محدثین ہم سے پہلے اقرار کرتے اور بعد میں آنے والوں کو تعلیم بھی دیتے۔ کیونکہ نیک اعمال کرنے میں وہ لوگ ہم سے زیادہ سبقت لے جاتے تھے، ہر فائدہ مند عملوں پر انہوں نے خوشی سے عمل کیا اور آنے والوں کو عمل کرنے کے لئے ترغیب دی۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
نیت کا لغوی اور اصطلاحی معنی۔ قصد اور ارادہ ہے تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ قصد اور ارادہ دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور ومعروف کتاب اغاثۃ اللھفان میں نیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ النیۃ ہی القصد والعزم علی فعل شئی ومحلھا القلب لا علاقۃ لھا باللسان اصلا۔ نیت اصل میں کسی فعل کے کرنے کے قصد اور عزم کو کہتے ہیں اسکا مقام ومحل دل ہے زبان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی طرح انورشاہ کشمیری اپنی کتاب فیض الباری شرح بخاری میں نیت کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فالنیۃُ امرقلبی لا علاقۃ لھا باللسان نیت دل کے فعل کو کہتے ہیں اور زبان سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے اور شیخ عبدالحق لمعات شرح مشکوۃ میں نیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا یجوز التلفظ بالنیۃ بمعنی ان ذالک خلاف السنۃ اذ لم ینقل ذالک الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نیت کا لفظوں سے اقرا ر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے اور صحابہ کرام اور ان کے پیروکارو سے یہ چیز قطعاثابت نہیں ہے جو عمل نبی کریم ﷺ ثابت نہ ہو وہ عمل اسلام میں بدعت ہے اور عند اللہ غیر مقبول ہوگا اس پرامام مسلمؒ نے ایک صحیح حدیث نقل کی ہے اس حدیث کا ملاحظہ کرنے سے اس کے بدعت ہونے میں کوئی شک شبہ نہیں رہتا۔ وہ حدیث یہ ہے ۔ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ ہر وہ کام جو نبیﷺ سے ثابت نہ ہو وہ عند اللہ مردود ہے اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ وہ انسان قیامت کے دن پکڑا جائیگا کیونکہ اس نے وہ عمل اسلام سمجھ کر کیا جو اسلام نہیں تھا جیسے قرآن کریم کی آیات میں واضح الفاظ میں یہ چیز ثابت ہے یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ وطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اللہ کی اطاعت کرو اور انکے خلاف عمل کرکے اپنے عملوں کو برباد نہ کرو۔ اور نیت کا زبان سے اقرار کرنا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول کے خلاف ہے۔ جو عمل سنت نہیں ہے اور اس کو سنت سمجھ کر کرنا کس قدر حیرت کی بات ہے! ان کے دل خوف الہی سے بالکل خالی ہیں اسی لئے یہ لوگ سنت نبویﷺ کو چھوڑ کر ایک صریح بدعت کو سنت نبوی کا مقام دے چکے ہیں۔ اس قسم کے عمل پر قرآن کریم سختی سے منع کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں ۔ یا ایھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو ۔جو عمل اللہ نے حکم نہیں دیا اور نبی ﷺ سے ثابت بھی نہیں ہے اور ہم کریں یہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنا ہے۔
اسی لئے مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی نیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں ہے اور صحابہ کرام تابعین عظام اور دیگر محدثین نیت کا زبان سے اقرار نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے صرف اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے۔ اور شیخ عبدالحئی لکھنوی نیت کے متعلق احکام النفائس میں لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنے کے بارے میں بہت دفعہ لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ نماز پڑھتے وقت نیت منہ سے اقرار کرنے کا ثبوت نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں؟ اسکا جواب دیتے ہوئے شیخ عبدالحئی لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ اور آپکے کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔ اور اہل علم کے نزدیک یہ عمل سنت نبویﷺ کے خلاف ہے شیخ عبدالحئی رحمہ اللہ کو جو جواب دینا تھا وہ صحیح طریقے سے دیدیا اب سمجھنے والا نہ سمجھے تو علماء کا کیا قصور ہے؟ اما م ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمان جزری کتاب الفقہ المذہب الأربعہ میں لکھتے ہیں کہ الحنفیۃ قالوا ان التلفظ بالنیۃ بدعۃ۔ حنفی علماء نے کہا ہے کہ نیت کو لفظاً بولنا بدعت ہے اور امام صاحب کبھی بھی بدعت کرنے کا حکم نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ بڑے عالم وعابد خداترس انسان تھے امام صاحب خود فرماتے ہیں ۔ حرام علی من لم یعرف دلیلی ان یفتیٰ بکلامی ۔ جس شخص کو میرے قول کی دلیل قرآن و حدیث سے معلوم نہ ہو اسے میرے کلام پر اکتفا کرتے ہوئے فتویٰ دینا حرام اور نا جائز ہے امام ابوحنیفہؒ سے قطعاً ثابت نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا ہو کہ نیت کا زبان سے اقرار کرو، کوئی بھی عمل ہو اسکی نیت دل میں ہونی چاہئے نہ کہ زبان سے۔ مثلا آپ کا نماز کیلئے گھر سے نکلنا مسجد کی طرف چلنا وضو کرنا مسجد میں داخل ہونا صف میں کھڑا ہونا اور قبلہ کی طرف منہ کرنا یہ سب نیت ہے۔ عقل مند انسان بلا قصد وارادہ کوئی عمل نہیں کرے گا بلا ارادہ وقصد عمل کرنے والے کو بے شعور کہا جائیگا ۔ لہٰذا کوئی بھی حرکت وعمل دل کے ارادے یعنی نیت کے بغیر نہیں ہوتی ہے اسی کا نام نیت ہے منہ سے بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ثابت ہوتا تو باقی ثابت شدہ عملوں کی طرح اس پر بھی عمل کرتے۔ اگر نیت کا لفظوں کے ساتھ اقرار کرنا مشروع ہوتا تو آپ ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے یا اپنے فعل اور قول سے امت کے لئے اسکی وضاحت فرما دیتے اور ہمارے سلف صالحین بھی ہم سے پہلے اس پرعمل کئے ہوئے ہوتے لیکن نہ آپ ﷺ سے یہ منقول ہے اور نہ آپ کے اصحاب کی طرف سے کوئی ثبوت ملتا ہے تو معلوم ہوا کہ نیت کا لفظوں میں اقرار کرنا خلاف سنت ہے اور صریح بدعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔ فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔ یقیناًتمام باتوں سے سب سے اچھی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تمام راستوں سے سب سے اچھا راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے اور تمام کاموں میں سے سب سے برا کام وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل سنت سمجھ کر کیا جائے۔ یاد رکھو دین الٰہی میں جو عمل نیا نکالا جائے گا وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔ یہ وہ جامع خطبہ ہے جو نبی کریم ﷺ اپنے ہر وعظ وتقریر کے شروع میں پڑھا کرتے تھے تاکہ امتی یہ الفاظ سن کر بدعت سے باز رہے تو نماز شروع کرنے سے پہلے نیت کے الفاظ زبان پہ نہ لائے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے۔
امام نوویؒ اپنی کتاب روضۃ الطالبین میں فرماتے ہیں نیت کا مقصد یعنی نماز پڑھنے والا ذہن میں نماز ادا کرنے کا قصد کرتا ہے مثلا ظہر کی نماز، عصر کی نماز، یا نفلی نماز اسی قصد کا نام نیت ہے اور یہ قصد اور ارادہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ ذہن میں موجود ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ اقامت کے بعد فورا اللہ اکبر کیساتھ نماز شروع کرتے تھے اس کے علاوہ زبان پر وہ مشہور نیت کے الفاظ نہیں لاتے تھے جو آج کل لوگوں کی زبان پر مشہور ہیں اور زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے جس پر تمام ائمہ دین متفق ہیں کوئی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو قرآن وحدیث کے مطابق تا حیات عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس مضمون میں ایک مسئلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں اس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے بلکہ اصلاح کے پیش نظر اس مسئلے کو پیش کرنا چاہتے ہیں وہ مسئلہ ہے نیت کا، بعض بھائی نماز پڑھنے سے پہلے نیت کا زبان سے اقرار کرکے نماز کی نیت کرتے ہیں حقیقت میں دیکھا جائے تو نیت کا تعلق زبان سے ہے ہی نہیں ۔ اقراراور ہے، نیت اور ہے، اقرار کا تعلق زبان سے ہے نیت کا تعلق دل ہے۔نیت عربی زبان میں اندر کی چیز کو کہتے ہیں اسی لئے گٹھلی کو عربی میں نوی بولتے ہیں کیونکہ گٹھلی پھل کے اندر ہوتی ہے نیت بھی دل کے اندر ہوتی ہے۔ اسی لئے نیت اور اقرار آپس میں متضاد ہیں اقرار ہے تو نیت نہیں، نیت ہے تو اقرار نہیں ۔اسی لئے اسلام نے دل کے ارادے کو نیت سے تعبیر کیا ہے نہ کہ اقرار کو۔ نمازی جب گھر سے نماز کے لئے نکل کر مسجد میں آکر وضو کرتا ہے اور مسجد میں داخل ہوتا ہے یہ سب نیت ہے قرآن کریم کی آیت ہے انہ علیم بذات الصدور۔ بیشک اللہ تعالیٰ دل کے ارادے کو جاننے والا ہے۔کہ بندہ فرض پڑھ رہا ہے یا سنت یا نوافل۔ سب اللہ کو معلوم ہے زبان سے اقرار کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ملتا ہمارے ملکوں میں نمازی فجر کی نیت، ظہر کی نیت، عصر کی نیت، مغرب کی نیت، عشاء کی نیت، جنازے کی نیت، عیدین کی نیت، وتر کی نیت اور روزہ کی نیت زبان سے ادا کرتے ہیں اور عوام الناس یہ تمام الفاظ یاد کرکے موقع بموقع پڑھتے ہیں اور علماء اپنی کتابوں میں لکھتے بھی ہیں اتفاق سے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو جملہ میں لکھ رہا ہوں اس کا تعلق کتاب و سنت سے ہے بھی یا نہیں؟ حالانکہ نظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ سب مقررہ نیت صریح سنت نبوی کے خلاف ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ تمام صحابہ اور محدثین اور فقہاء نے نیت زبان سے اقرار کرنے کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا۔ اگر اس میں مسلمانوں کے لئے فائدہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ آپ کے اصحاب دیگر محدثین ہم سے پہلے اقرار کرتے اور بعد میں آنے والوں کو تعلیم بھی دیتے۔ کیونکہ نیک اعمال کرنے میں وہ لوگ ہم سے زیادہ سبقت لے جاتے تھے، ہر فائدہ مند عملوں پر انہوں نے خوشی سے عمل کیا اور آنے والوں کو عمل کرنے کے لئے ترغیب دی۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
نیت کا لغوی اور اصطلاحی معنی۔ قصد اور ارادہ ہے تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ قصد اور ارادہ دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور ومعروف کتاب اغاثۃ اللھفان میں نیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ النیۃ ہی القصد والعزم علی فعل شئی ومحلھا القلب لا علاقۃ لھا باللسان اصلا۔ نیت اصل میں کسی فعل کے کرنے کے قصد اور عزم کو کہتے ہیں اسکا مقام ومحل دل ہے زبان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی طرح انورشاہ کشمیری اپنی کتاب فیض الباری شرح بخاری میں نیت کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فالنیۃُ امرقلبی لا علاقۃ لھا باللسان نیت دل کے فعل کو کہتے ہیں اور زبان سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے اور شیخ عبدالحق لمعات شرح مشکوۃ میں نیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا یجوز التلفظ بالنیۃ بمعنی ان ذالک خلاف السنۃ اذ لم ینقل ذالک الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نیت کا لفظوں سے اقرا ر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے اور صحابہ کرام اور ان کے پیروکارو سے یہ چیز قطعاثابت نہیں ہے جو عمل نبی کریم ﷺ ثابت نہ ہو وہ عمل اسلام میں بدعت ہے اور عند اللہ غیر مقبول ہوگا اس پرامام مسلمؒ نے ایک صحیح حدیث نقل کی ہے اس حدیث کا ملاحظہ کرنے سے اس کے بدعت ہونے میں کوئی شک شبہ نہیں رہتا۔ وہ حدیث یہ ہے ۔ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ ہر وہ کام جو نبیﷺ سے ثابت نہ ہو وہ عند اللہ مردود ہے اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ وہ انسان قیامت کے دن پکڑا جائیگا کیونکہ اس نے وہ عمل اسلام سمجھ کر کیا جو اسلام نہیں تھا جیسے قرآن کریم کی آیات میں واضح الفاظ میں یہ چیز ثابت ہے یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ وطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اللہ کی اطاعت کرو اور انکے خلاف عمل کرکے اپنے عملوں کو برباد نہ کرو۔ اور نیت کا زبان سے اقرار کرنا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول کے خلاف ہے۔ جو عمل سنت نہیں ہے اور اس کو سنت سمجھ کر کرنا کس قدر حیرت کی بات ہے! ان کے دل خوف الہی سے بالکل خالی ہیں اسی لئے یہ لوگ سنت نبویﷺ کو چھوڑ کر ایک صریح بدعت کو سنت نبوی کا مقام دے چکے ہیں۔ اس قسم کے عمل پر قرآن کریم سختی سے منع کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں ۔ یا ایھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو ۔جو عمل اللہ نے حکم نہیں دیا اور نبی ﷺ سے ثابت بھی نہیں ہے اور ہم کریں یہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنا ہے۔
اسی لئے مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی نیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں ہے اور صحابہ کرام تابعین عظام اور دیگر محدثین نیت کا زبان سے اقرار نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے صرف اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے۔ اور شیخ عبدالحئی لکھنوی نیت کے متعلق احکام النفائس میں لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنے کے بارے میں بہت دفعہ لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ نماز پڑھتے وقت نیت منہ سے اقرار کرنے کا ثبوت نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں؟ اسکا جواب دیتے ہوئے شیخ عبدالحئی لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ اور آپکے کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔ اور اہل علم کے نزدیک یہ عمل سنت نبویﷺ کے خلاف ہے شیخ عبدالحئی رحمہ اللہ کو جو جواب دینا تھا وہ صحیح طریقے سے دیدیا اب سمجھنے والا نہ سمجھے تو علماء کا کیا قصور ہے؟ اما م ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمان جزری کتاب الفقہ المذہب الأربعہ میں لکھتے ہیں کہ الحنفیۃ قالوا ان التلفظ بالنیۃ بدعۃ۔ حنفی علماء نے کہا ہے کہ نیت کو لفظاً بولنا بدعت ہے اور امام صاحب کبھی بھی بدعت کرنے کا حکم نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ بڑے عالم وعابد خداترس انسان تھے امام صاحب خود فرماتے ہیں ۔ حرام علی من لم یعرف دلیلی ان یفتیٰ بکلامی ۔ جس شخص کو میرے قول کی دلیل قرآن و حدیث سے معلوم نہ ہو اسے میرے کلام پر اکتفا کرتے ہوئے فتویٰ دینا حرام اور نا جائز ہے امام ابوحنیفہؒ سے قطعاً ثابت نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا ہو کہ نیت کا زبان سے اقرار کرو، کوئی بھی عمل ہو اسکی نیت دل میں ہونی چاہئے نہ کہ زبان سے۔ مثلا آپ کا نماز کیلئے گھر سے نکلنا مسجد کی طرف چلنا وضو کرنا مسجد میں داخل ہونا صف میں کھڑا ہونا اور قبلہ کی طرف منہ کرنا یہ سب نیت ہے۔ عقل مند انسان بلا قصد وارادہ کوئی عمل نہیں کرے گا بلا ارادہ وقصد عمل کرنے والے کو بے شعور کہا جائیگا ۔ لہٰذا کوئی بھی حرکت وعمل دل کے ارادے یعنی نیت کے بغیر نہیں ہوتی ہے اسی کا نام نیت ہے منہ سے بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ثابت ہوتا تو باقی ثابت شدہ عملوں کی طرح اس پر بھی عمل کرتے۔ اگر نیت کا لفظوں کے ساتھ اقرار کرنا مشروع ہوتا تو آپ ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے یا اپنے فعل اور قول سے امت کے لئے اسکی وضاحت فرما دیتے اور ہمارے سلف صالحین بھی ہم سے پہلے اس پرعمل کئے ہوئے ہوتے لیکن نہ آپ ﷺ سے یہ منقول ہے اور نہ آپ کے اصحاب کی طرف سے کوئی ثبوت ملتا ہے تو معلوم ہوا کہ نیت کا لفظوں میں اقرار کرنا خلاف سنت ہے اور صریح بدعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔ فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔ یقیناًتمام باتوں سے سب سے اچھی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تمام راستوں سے سب سے اچھا راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے اور تمام کاموں میں سے سب سے برا کام وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل سنت سمجھ کر کیا جائے۔ یاد رکھو دین الٰہی میں جو عمل نیا نکالا جائے گا وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔ یہ وہ جامع خطبہ ہے جو نبی کریم ﷺ اپنے ہر وعظ وتقریر کے شروع میں پڑھا کرتے تھے تاکہ امتی یہ الفاظ سن کر بدعت سے باز رہے تو نماز شروع کرنے سے پہلے نیت کے الفاظ زبان پہ نہ لائے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے۔
امام نوویؒ اپنی کتاب روضۃ الطالبین میں فرماتے ہیں نیت کا مقصد یعنی نماز پڑھنے والا ذہن میں نماز ادا کرنے کا قصد کرتا ہے مثلا ظہر کی نماز، عصر کی نماز، یا نفلی نماز اسی قصد کا نام نیت ہے اور یہ قصد اور ارادہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ ذہن میں موجود ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ اقامت کے بعد فورا اللہ اکبر کیساتھ نماز شروع کرتے تھے اس کے علاوہ زبان پر وہ مشہور نیت کے الفاظ نہیں لاتے تھے جو آج کل لوگوں کی زبان پر مشہور ہیں اور زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے جس پر تمام ائمہ دین متفق ہیں کوئی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو قرآن وحدیث کے مطابق تا حیات عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
No comments:
Post a Comment