اخلاقی بحران کی انتہا
مولانا محمد مظہر الاعظمی
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ۔مؤ
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ۔مؤ
ہندوستان کی سرزمین ادیان ومذاہب کی سرزمین ہے اور تمام ادیان ومذاہب اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ومتفق ہیں،اس لئے کسی غیر اخلاقی فعل کو قانونی حیثیت دینے کا تصور سو فیصد ہندوستانیوں کے عقیدہ ومذہب کے ساتھ کھیلواڑ کرنے اور ان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے ۔
ملک اور معاشرے کی بقاوتحفظ بھی اخلاقی تعلیم میں مضمر ہے،جہاں کے لوگ اخلاقیات سے عاری ہوجاتے ہیں ،وہ معاشرہ اور ملک کھوکھلا اور دیوالیہ ہوجاتا ہے ،پھر اسے تاریخ کا قصہ پارینہ بننے سے مادی طاقتیں نہیں روک سکتیں،عصر حاضر میں مختلف ممالک کی صورت حال اور مثال ہمارے سامنے ہے،جو مادی اور نیوکلیائی اعتبار سے خود کو جتنی بھی مضبوط سمجھتی ہوں مگر اندرونی طور پر صورت حال حد درجہ ناگفتہ بہ ہے ،جس کا نتیجہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ لوٹ کر اخلاقی ماحول کی طرف جانا چاہتا ہے اور موجودہ غیر اخلاقی کردار وعمل سے پناہ چاہ رہا ہے ۔ماھنامہ صراط مستقیم برمنگھم دسمبر ۲۰۰۹ ء کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’ آج کا انسان جسمانی اور نفسیاتی امراض میں گھر گیا ہے ،یہ بیماریاں ان معاشروں میں بکثرت پائی جاتی ہیں جو مادیت میں غرق ہیں اور فضائل واخلاق سے بہت دور ہیں ،وہاں ایڈز ،منشیات کی لت ،دل کا دورہ اور شوگر جیسی بیماریاں عام ہورہی ہیں ،ایک جائزہ کے مطابق دس فیصد امریکی عوام نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں ،پچاسی فیصد لوگ ذہنی ودماغی الجھنوں کا شکار ہیں اور شفاخانوں میں پچاس فیصد بیڈ ایسے مریضوں کے لئے خاص ہیں جو ذہنی ودماغی امراض میں مبتلا ہیں‘‘
مذکورہ صورت حال صرف امریکہ کی نہیں بلکہ ان تمام ملکوں کی ہے جہاں اخلاقی قدریں پامال ہوچکی ہیں اور مادیت کی قبروں میں روحانیت کو دفن کر دیا گیا ہے ،وہاں کے عوام امراض خبیثہ کے ساتھ بری طرح ذہنی ودماغی بے چینی اور تناؤ میں مبتلا ہیں۔
جوممالک اخلاقیات سے عاری ہوکر اپنا معاشرہ تباہ کرچکے ہیں اور اب موجودہ تباہ شدہ ماحول سے پناہ مانگ رہے ہیں جیسا کہ مختلف سروے رپورٹ اور مذکورہ اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے ،ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ معاشرے صبح وشام کی طرح نہیں بدلتے ،بلکہ ماہ وسال سے بھی اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ،معاشرے جس طرح بگڑتے بگڑتے بگڑتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مدت میں بنتے بنتے بنتے ہیں ،دونوں کے لئے مدت درکار ہوتی ہے ،اگر ان ممالک میں موجودہ نسلوں کی تعمیر اخلاقی بنیادوں پر ابھی شروع کردی جائے توان شاء اللہ جب یہ نسل اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی توملک بھی اخلاقی تعلیمات سے مزین ہوگا۔
اخلاقیات سے عاری تباہ شدہ معاشرے کی موجودہ صورت حال بصارت وبصیرت رکھنے والوں کو دعوت عبرت دے رہی ہے ،جس طرح امم سابقہ کے کھنڈر چیخ چیخ کر فاعتبروا یا أولی الأبصار کا دل نشین درس دے رہے ہیں ۔
اقوام عالم کے کھنڈرہوں یا تاریخ کے اوراق وہ اسی لئے تو باقی رکھے گئے ہیں یا کتابوں میں محفوظ کئے گئے ہیں کہ اسی کی روشنی میں مستقبل کے خطوط متعین کئے جائیں ،جس پر چل کر کامیاب زندگی گزاری جاسکے ،مگر افسوس کہ ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ بجائے عبرت حاصل کرنے کے انھیں کردار وعمل کی تقلید پر آمادہ ہیں جن کے نتائج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
راشٹریہ سہارا گورکھپور ۱۱؍دسمبر ۲۰۰۹ ء کے صفحہ گیارہ پر ایک سرخی ہے ’’سپریم کورٹ نے حکومت سے پوچھا ،جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے؟‘‘ اور خبر اس طرح ہے کہ: ’’ سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر وہ جسم فروشی پر قابو پانے میں ناکام ہے تو اسے قانونی طور پر کیوں نہ جائز قرار دے دیا جائے‘‘۔
جسٹس دلبیر بھنڈاری اور اے کے پٹنائک کی بنچ نے سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم سے کہا ہے کہ آپ اسے دنیا کا سب سے پرانا پیشہ بتاتے ہیں ،ساتھ ہی اس پر قانوناً روک بھی لگانے ،سیکس ورکروں کی بازآبادکاری اور انھیں طبی سہولیات مہیا کرانے میں معذوری ظاہر کرتے ہیں ،بنچ نے کہا ہے کہ خواتین کی تسکری کو روکنے کا سب سے اچھا متبادل یہ ہوگا کہ اس پیشہ کو قانونی جامہ پہنا دیا جائے،عدالت نے کہا کہ اس کاروبار کو قانونی قرار دئے جانے سے اس پر نگرانی رکھنے کے ساتھ جسم فروشوں کی بازآبادکاری میں بھی مدد ملے گی‘‘
بد اخلاقی کے نتائج دیکھنے کے باوجود اسے قانونی طور پر جائز قرار دئے جانے کی بات ،دنیا کے ہر مذہبی اور اخلاق پسند آدمی کو تڑپا دینے والی ہے،نیز یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کیا اب انسان انسانی قدروں کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا،اور اگر اسی طرح انسانی قدروں کو پامال کرتا رہا تو کیا انسان اور حیوان کا فرق باقی رہیگا۔کیونکہ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ انسان اخلاقی قدروں کا احترام کرکے فرشتہ صفت بن جاتا ہے بلکہ بسا اوقات فرشتوں سے بھی آگے پرواز کرجاتا ہے
افلاک سے ہے اس کو حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
بر خلاف اس کے انھیں قدروں کو پامال کرکے انسان جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے جیساکہ قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے (أولئک کالأنعام بل ہم أضل أولئک ہم الغافلون)( الاعراف۱۷۹)
مذکورہ آیت میں انسان اور حیوان کی اخلاقی قدروں کے فرق کو بیان کرنے کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سطح اور معیار کے مطابق رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا دائرہ کار بھول جائے اور اس دائرہ میں قدم رکھ دے جو اس کی سطح اور معیار سے بہت نیچے ہے یہانتک کہ وہی سب کچھ کرنے لگے جو حیوان کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کا حکومت سے پوچھنا کہ ’’جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے‘‘ انسان کا اپنے معیار سے اتر کر حیوانیت کے دائرہ میں داخل ہونے کے مترادف ہے ،اور اس کے جواز کے لئے یہ کہنا کہ جب حکومت جسم فروشی پر کنٹرول کرنے میں معذور ہے تو قانوناً جائز قرار دے ،قانون شکنی کرنے اور اس کی دھجی اڑانے کی تعلیم دینا ہے ،جس کے بعد قانون اور اصول صرف کتابوں میں ہوگا ،جو کتب خانوں کی زینت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
حکومت کا کسی غیر قانونی اعمال وکردار پر کنٹرول کرنے میں معذوری ظاہرکرنا اپنی ظاہری وباطنی کمزوری کا اظہار کرنا ہے ،جس سے لاقانونیت کا رجحان فروغ پائیگا اور اس قسم کے رجحان کے فروغ کے بعد ملک کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ،اس لئے ملک کے اس طبقہ کو جس کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے کسی بات کو کہنے اور کسی قانون کو بنانے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کے نتائج اور اثرات کیا مرتب ہوں گے۔
یہاں فطری طور پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس جرم پر کنٹرول مشکل ہو اسے قانون بناکر جائز قرار دے دیا جائے اور اس فعل کے مجرمین کو ارتکاب جرم کا موقع فراہم کیا جائے،اگر ایسا ہے تو پھر قانون اور عدالتوں کا کیا مطلب ہوگا،اگر ایسا کرنا ہے تو پھر قانون کی تمام کتابوں کو عدالتوں میں نذر آتش کرکے عدالتوں کی عمارت کو انسان وحیوان کے تصرف کے لئے کھول دینا چاہئے۔
دہشت گردی جو دن بدن بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود اس پر کنٹرول کرنے میں مجبور ولاچار نظر آتی ہے کیا کل اسے بھی قانونی حیثیت دینے کی بات کی جائے گی اور اس کے لئے حکومت کی مجبوری کو پیش کیا جائیگا،یہ بات صرف جسم فروشی اور دہشت گردی تک محدود نہیں ہے بلکہ ڈھیر سارے مسائل ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے ،خاص طور پر رشوت جس کا دائرہ کار سب سے زیادہ وسیع ہے اور جس کی زد میں تقریباً تمام طبقے آتے ہیں اگر سپریم کورٹ اسے قانونی حیثیت دینے کی بات حکومت سے پوچھے تو لفظاً شاید نکیر کا اظہار کیا جائے مگر عملاً تو اس کی ہر طرح تائید موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ رشوت کو لفظاً قانونی حیثیت حاصل نہ ہونے کے باوجود عملاً قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہر محکمہ میں اس پر صد فیصد عمل بھی ہو رہا ہے۔
خدا نہ خواستہ اگر حکومت نے جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کے متعلق سوچابھی تو پورے ملک میں کہرام مچ جائیگا کیونکہ اس قدر مذہب بیزاری کے باوجود ہندوستانیوں کے دل میں روحانیت کا عنصر دل کے کسی نہ کسی کونے میں موجود ہے ،جو اس بد اخلاقی کو گوارا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کے لئے خاموش بیٹھ سکتاہے۔
ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب اور مغرب کی بداخلاقی کے ثمرات ونتائج کی روشنی میں سوچنا چاہئے اور اس کے خطرات سے تحریر وتقریر کے ذریعہ عوام وخواص کو حتی المقدور باخبر کرنا چاہئے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق بخشے(آمین) ۔
ملک اور معاشرے کی بقاوتحفظ بھی اخلاقی تعلیم میں مضمر ہے،جہاں کے لوگ اخلاقیات سے عاری ہوجاتے ہیں ،وہ معاشرہ اور ملک کھوکھلا اور دیوالیہ ہوجاتا ہے ،پھر اسے تاریخ کا قصہ پارینہ بننے سے مادی طاقتیں نہیں روک سکتیں،عصر حاضر میں مختلف ممالک کی صورت حال اور مثال ہمارے سامنے ہے،جو مادی اور نیوکلیائی اعتبار سے خود کو جتنی بھی مضبوط سمجھتی ہوں مگر اندرونی طور پر صورت حال حد درجہ ناگفتہ بہ ہے ،جس کا نتیجہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ لوٹ کر اخلاقی ماحول کی طرف جانا چاہتا ہے اور موجودہ غیر اخلاقی کردار وعمل سے پناہ چاہ رہا ہے ۔ماھنامہ صراط مستقیم برمنگھم دسمبر ۲۰۰۹ ء کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’ آج کا انسان جسمانی اور نفسیاتی امراض میں گھر گیا ہے ،یہ بیماریاں ان معاشروں میں بکثرت پائی جاتی ہیں جو مادیت میں غرق ہیں اور فضائل واخلاق سے بہت دور ہیں ،وہاں ایڈز ،منشیات کی لت ،دل کا دورہ اور شوگر جیسی بیماریاں عام ہورہی ہیں ،ایک جائزہ کے مطابق دس فیصد امریکی عوام نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں ،پچاسی فیصد لوگ ذہنی ودماغی الجھنوں کا شکار ہیں اور شفاخانوں میں پچاس فیصد بیڈ ایسے مریضوں کے لئے خاص ہیں جو ذہنی ودماغی امراض میں مبتلا ہیں‘‘
مذکورہ صورت حال صرف امریکہ کی نہیں بلکہ ان تمام ملکوں کی ہے جہاں اخلاقی قدریں پامال ہوچکی ہیں اور مادیت کی قبروں میں روحانیت کو دفن کر دیا گیا ہے ،وہاں کے عوام امراض خبیثہ کے ساتھ بری طرح ذہنی ودماغی بے چینی اور تناؤ میں مبتلا ہیں۔
جوممالک اخلاقیات سے عاری ہوکر اپنا معاشرہ تباہ کرچکے ہیں اور اب موجودہ تباہ شدہ ماحول سے پناہ مانگ رہے ہیں جیسا کہ مختلف سروے رپورٹ اور مذکورہ اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے ،ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ معاشرے صبح وشام کی طرح نہیں بدلتے ،بلکہ ماہ وسال سے بھی اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ،معاشرے جس طرح بگڑتے بگڑتے بگڑتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مدت میں بنتے بنتے بنتے ہیں ،دونوں کے لئے مدت درکار ہوتی ہے ،اگر ان ممالک میں موجودہ نسلوں کی تعمیر اخلاقی بنیادوں پر ابھی شروع کردی جائے توان شاء اللہ جب یہ نسل اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی توملک بھی اخلاقی تعلیمات سے مزین ہوگا۔
اخلاقیات سے عاری تباہ شدہ معاشرے کی موجودہ صورت حال بصارت وبصیرت رکھنے والوں کو دعوت عبرت دے رہی ہے ،جس طرح امم سابقہ کے کھنڈر چیخ چیخ کر فاعتبروا یا أولی الأبصار کا دل نشین درس دے رہے ہیں ۔
اقوام عالم کے کھنڈرہوں یا تاریخ کے اوراق وہ اسی لئے تو باقی رکھے گئے ہیں یا کتابوں میں محفوظ کئے گئے ہیں کہ اسی کی روشنی میں مستقبل کے خطوط متعین کئے جائیں ،جس پر چل کر کامیاب زندگی گزاری جاسکے ،مگر افسوس کہ ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ بجائے عبرت حاصل کرنے کے انھیں کردار وعمل کی تقلید پر آمادہ ہیں جن کے نتائج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
راشٹریہ سہارا گورکھپور ۱۱؍دسمبر ۲۰۰۹ ء کے صفحہ گیارہ پر ایک سرخی ہے ’’سپریم کورٹ نے حکومت سے پوچھا ،جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے؟‘‘ اور خبر اس طرح ہے کہ: ’’ سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر وہ جسم فروشی پر قابو پانے میں ناکام ہے تو اسے قانونی طور پر کیوں نہ جائز قرار دے دیا جائے‘‘۔
جسٹس دلبیر بھنڈاری اور اے کے پٹنائک کی بنچ نے سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم سے کہا ہے کہ آپ اسے دنیا کا سب سے پرانا پیشہ بتاتے ہیں ،ساتھ ہی اس پر قانوناً روک بھی لگانے ،سیکس ورکروں کی بازآبادکاری اور انھیں طبی سہولیات مہیا کرانے میں معذوری ظاہر کرتے ہیں ،بنچ نے کہا ہے کہ خواتین کی تسکری کو روکنے کا سب سے اچھا متبادل یہ ہوگا کہ اس پیشہ کو قانونی جامہ پہنا دیا جائے،عدالت نے کہا کہ اس کاروبار کو قانونی قرار دئے جانے سے اس پر نگرانی رکھنے کے ساتھ جسم فروشوں کی بازآبادکاری میں بھی مدد ملے گی‘‘
بد اخلاقی کے نتائج دیکھنے کے باوجود اسے قانونی طور پر جائز قرار دئے جانے کی بات ،دنیا کے ہر مذہبی اور اخلاق پسند آدمی کو تڑپا دینے والی ہے،نیز یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کیا اب انسان انسانی قدروں کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا،اور اگر اسی طرح انسانی قدروں کو پامال کرتا رہا تو کیا انسان اور حیوان کا فرق باقی رہیگا۔کیونکہ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ انسان اخلاقی قدروں کا احترام کرکے فرشتہ صفت بن جاتا ہے بلکہ بسا اوقات فرشتوں سے بھی آگے پرواز کرجاتا ہے
افلاک سے ہے اس کو حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
بر خلاف اس کے انھیں قدروں کو پامال کرکے انسان جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے جیساکہ قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے (أولئک کالأنعام بل ہم أضل أولئک ہم الغافلون)( الاعراف۱۷۹)
مذکورہ آیت میں انسان اور حیوان کی اخلاقی قدروں کے فرق کو بیان کرنے کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سطح اور معیار کے مطابق رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا دائرہ کار بھول جائے اور اس دائرہ میں قدم رکھ دے جو اس کی سطح اور معیار سے بہت نیچے ہے یہانتک کہ وہی سب کچھ کرنے لگے جو حیوان کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کا حکومت سے پوچھنا کہ ’’جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے‘‘ انسان کا اپنے معیار سے اتر کر حیوانیت کے دائرہ میں داخل ہونے کے مترادف ہے ،اور اس کے جواز کے لئے یہ کہنا کہ جب حکومت جسم فروشی پر کنٹرول کرنے میں معذور ہے تو قانوناً جائز قرار دے ،قانون شکنی کرنے اور اس کی دھجی اڑانے کی تعلیم دینا ہے ،جس کے بعد قانون اور اصول صرف کتابوں میں ہوگا ،جو کتب خانوں کی زینت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
حکومت کا کسی غیر قانونی اعمال وکردار پر کنٹرول کرنے میں معذوری ظاہرکرنا اپنی ظاہری وباطنی کمزوری کا اظہار کرنا ہے ،جس سے لاقانونیت کا رجحان فروغ پائیگا اور اس قسم کے رجحان کے فروغ کے بعد ملک کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ،اس لئے ملک کے اس طبقہ کو جس کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے کسی بات کو کہنے اور کسی قانون کو بنانے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کے نتائج اور اثرات کیا مرتب ہوں گے۔
یہاں فطری طور پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس جرم پر کنٹرول مشکل ہو اسے قانون بناکر جائز قرار دے دیا جائے اور اس فعل کے مجرمین کو ارتکاب جرم کا موقع فراہم کیا جائے،اگر ایسا ہے تو پھر قانون اور عدالتوں کا کیا مطلب ہوگا،اگر ایسا کرنا ہے تو پھر قانون کی تمام کتابوں کو عدالتوں میں نذر آتش کرکے عدالتوں کی عمارت کو انسان وحیوان کے تصرف کے لئے کھول دینا چاہئے۔
دہشت گردی جو دن بدن بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود اس پر کنٹرول کرنے میں مجبور ولاچار نظر آتی ہے کیا کل اسے بھی قانونی حیثیت دینے کی بات کی جائے گی اور اس کے لئے حکومت کی مجبوری کو پیش کیا جائیگا،یہ بات صرف جسم فروشی اور دہشت گردی تک محدود نہیں ہے بلکہ ڈھیر سارے مسائل ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے ،خاص طور پر رشوت جس کا دائرہ کار سب سے زیادہ وسیع ہے اور جس کی زد میں تقریباً تمام طبقے آتے ہیں اگر سپریم کورٹ اسے قانونی حیثیت دینے کی بات حکومت سے پوچھے تو لفظاً شاید نکیر کا اظہار کیا جائے مگر عملاً تو اس کی ہر طرح تائید موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ رشوت کو لفظاً قانونی حیثیت حاصل نہ ہونے کے باوجود عملاً قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہر محکمہ میں اس پر صد فیصد عمل بھی ہو رہا ہے۔
خدا نہ خواستہ اگر حکومت نے جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کے متعلق سوچابھی تو پورے ملک میں کہرام مچ جائیگا کیونکہ اس قدر مذہب بیزاری کے باوجود ہندوستانیوں کے دل میں روحانیت کا عنصر دل کے کسی نہ کسی کونے میں موجود ہے ،جو اس بد اخلاقی کو گوارا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کے لئے خاموش بیٹھ سکتاہے۔
ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب اور مغرب کی بداخلاقی کے ثمرات ونتائج کی روشنی میں سوچنا چاہئے اور اس کے خطرات سے تحریر وتقریر کے ذریعہ عوام وخواص کو حتی المقدور باخبر کرنا چاہئے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق بخشے(آمین) ۔
No comments:
Post a Comment