Wednesday, 17 March 2010

تراشے:جناب مولانا عبدالسلام صاحب رحمانیؔ jan-2010

تراشے
جناب مولانا عبدالسلام صاحب رحمانیؔ
جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار،بلرامپور

قسط13:

تربیت کے لئے سزا دینا:
رسول اللہ ﷺ نے حضر معاذ رضی اللہ عنہ کو خصوصی وصیت میں فرمایا: ’’لا ترفع عنہم عصاک ادبا و اخفہم فی اللہ‘‘ اپنی اولاد کو ادب کے لئے مارنے سے بھی گریز نہ کرو اور ان کے دل میں اللہ کا خوف پیداکرو (رواہ احمد والطبرانی)
نیز فرمایا: ’’مرو اولادکم بالصلوٰۃ وہم ابناء سبع سنین و اضربوہم علیھا وہم ابناء عشر سنین وفر قوھم بینہم فی المضاجع‘‘ تمہاری اولاد جب سات سال کی ہوجائے تو اس کو نماز کا حکم دو اورجب دس سال کی ہو جائے تونماز چھوڑنے پر اسے مارو اور اس عمر کے بعد الگ الگ بستروں پر انہیں سلاؤ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی و احمد و ابن خزیمہ والدار قطنی وقال الحاکم صحیح علی شرط مسلم وقال الترمذی حسن صحیح)
ناقص تربیت کی مثال:
ایک شخص نے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ یہ میرا کہا نہیں مانتا اور میرے حقوق ادا نہیں کرتا، حضرت عمر نے اسے بلا کر سمجھا یا اور آئندہ باپ کی خدمت کی تلقین کی تو بیٹے نے کہا کیاباپ پر اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا کیوں نہیں۔ بیٹے نے کہاوہ کیا حقوق ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا تین حقوق ہیں:
(۱) باپ کا فرض ہے کے نسل انسانی کے اضافے کے لئے اخلاقی اور خاندانی لحاظ سے بہترین عورت کا انتخاب کرے۔
(۲)بچے کا اچھا نام رکھے۔
(۳) بچے کو قرآن کی تعلیم دے۔
لڑکے نے کہا امیر المؤمنین ! میرے باپ نے اپنا کوئی حق ادانہیں کیاہے
(۱) میری ماں ایک مجوسی کی حبشی رنڈی ہے۔
(۲) اس نے میرا نام کھٹمل رکھا ہے۔
(۳) اس نے مجھے قرآن کا ایک حرف نہیں پڑھایا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تو اپنے بیٹے کا شکوہ لے کر آیا ہے حالانکہ تو نے خود اس کا حق تلف کیا ہے اور اس کے ساتھ برا معاملہ کیا ہے۔ (المسلمون دمشق)

No comments:

Post a Comment