وفات پرملال
جناب قاری عبدالجلیل صاحب گونڈوی رحمہ اللہ
جناب قاری عبدالجلیل صاحب گونڈوی رحمہ اللہ
حافظ ابوالبشریٰ عبدالحکیم گونڈوی
جامعہ سلفیہ۔ بنارس
جامعہ سلفیہ۔ بنارس
ضلع بلرامپور کے مضافات میں دریائے راپتی کے کنارے ایک عظیم اور مشہور قریہ ’’شنکرنگر‘‘ نامی آباد ہے، قاری صاحب کی جائے پیدائش یہی گاؤں ہے۔ قاری صاحب کی تعلیم و تربیت کی ابتداء اسی گاؤں کے ’’پُرَوَّہْ‘‘ نامی محلے کی مسجد سے جناب میاں عین اللہ صاحب کے ہاتھوں ہوئی ( میاں عین اللہ صاحب اپنے وقت کے سب سے ذہین باصلاحیت اور نیک مدرس مانے جاتے تھے) قاری صاحب اپنی فطری سنجیدگی، شرافت اور غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے بہت جلد نہ صرف یہ کہ استاذ کے منظورنگاہ ہوگئے بلکہ پورے گاؤں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔
مسجد کی جو کچھ تعلیم تھی اسے مکمل کرنے کے بعد والد علیہ الرحمہ کی خواہش کے مطابق حفظ قرآن کی ابتداء کی، اس وقت گاؤں میں کوئی باقاعدہ حفظ کا نظام نہیں تھا، اسی لئے والد صاحب نے اپنے ایک رشتہ کے بھائی محترم حافظ حبیب اللہ صاحب(جو نابیناتھے)کی خدمت میں قاری صاحب کو پیش کیا انہوں نے بڑی خوشی سے انہیں حفظ کرانا منظور فرمایا۔ اس طرح قاری صاحب نے ان کے گھر پر ہی پورے ذوق و شوق کے ساتھ حفظ القرآن الکریم میں مشغول ہوگئے، تقریباً ایک سال کی مدت میں دس پارے مکمل کرلئے۔ اس کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ کا رخ کیا اور مزید دو سال صرف کرکے ایک بہت اچھے حافظ بن گئے۔ حفظ قرآن کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ ہی میں دینیات کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے عربی کی جماعت اولیٰ میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہیں محترم قاری خلیل الرحمن صاحب مؤی (جو اپنی نادر اور پرکشش آواز میں اپنی مثال آپ تھے) کے پاس تجوید و قرأت کی مشق کے لئے بھی جانے لگے۔
قاری عبدالجلیل صاحب کو بھی اللہ نے ایسی پر کشش آواز دی تھی کہ اس میں بھی نمایاں ہوگئے۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۱ء میںآل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا نوگڑھ میں اجلاس منعقد ہوا۔ اس زمانے میں مدرسہ فیض عام مؤ تمام ہندوستان کے جماعتی اداروں میں سب سے معیاری مدرسہ سمجھا جاتا تھا۔جلسے میں تلاوت قرآن کے لئے شعبۂ قرأت کے استاذ محترم قاری خلیل الرحمن صاحب سے گذارش کی گئی تو آپ نے اپنے مدرسہ فیض عام مؤ کے شاگرد رشید عبدالجلیل گونڈوی کو حکم دیاکہ تم کو نوگڑھ کے جلسے میں تلاوت کرنا ہے ۔ ان کے حکم کے مطابق قاری عبدالجلیل صاحب نے تلاوت کی اورمدرسہ کا وقار بلند کیا اور وہیں سے قاری کے لقب سے اس طرح مشہور ہوئے کہ تاحیات اسی نام سے یاد کئے جاتے رہے۔
فیض عام کی تعلیم جماعت رابعہ تک ہے،اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کی ایک شاخ مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لے لیا اور وہیں حدیث و فقہ اور منطق و فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ قرأت سبعہ میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی اور وہاں سے دستار فضیلت، دستار قرأت اور قاسمی نسبت لے کر واپس ہوئے، یہ غالباً اوائل ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔
تعلیم سے فراغت کے معاً بعد آپ کو مدراس کے حاجی عبدالعزیز صاحب باؤٹا بیڑی نے اپنی مسجد میں امامت و خطابت کے منصب کے لئے دعوت دی۔ آپ مدراس پہنچ گئے مدراس میں تین سال تک بہت عزت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، لیکن صرف امامت و خطابت آپ کو راس نہ آئی اور مدراس کو خیر آباد کہہ دیا۔ اس کے بعد راجستھان کے ایک مشہور قصبہ کھنڈیلہ میں جاوارد ہوئے اور بڑے عظمت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیا۔آپ نے اپنے آخری حیات میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں مختصر مدت تک تدریسی فریضہ انجام دیا۔
بہت سے شاگرد پیدا کئے۔ بھائی صاحب کے اندر تدریس کی بہت نادر صلاحیت تھی، بہت مختصر مگر جامع نصاب کے ساتھ بہت قلیل مدت میں بڑی عمر والوں کو باقاعدہ عالم بنا دیا اور جب انہیں دل کا سخت عارضہ لاحق ہوگیا تو بغرض علاج جے پور میں تقریباً دو سال رہے۔ اس کے بعد گھر چلے آئے، گھر آئے کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ فالج کا سخت حملہ ہوگیا۔ اور پھر صاحب فراش ہوگئے اور کافی دنوں تک بستر علالت پر پڑے رہے یہاں تک کہ ۵؍محرم الحرام ۱۴۳۱ھ مطابق۲۳؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز چہار شنبہ مغرب کی اذان سے دس منٹ قبل اپنی جان جان آفریں کے سپر کردیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
۲۴؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز جمعرات بعد نماز ظہر آپ کی تجہیز وتکفین اور تدفین عمل میں آئی۔نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے، مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک وفدمولانا مطیع اللہ مدنیؔ ، زاہدؔ آزاد جھنڈانگری،مولانا عبدالنور سراجی، مولانا محمد اکرم عالیاویؔ ، عبدالعظیم سلفی جھنڈانگری پرمشتمل قاری صاحب کے جنازہ میں شریک تھا، نیز جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال سے اساتذہ نے شرکت کی۔نماز جنازہ قاری صاحب کے برادر خورد راقم کی امامت میں اداکی گئی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قاری عبدالجلیل صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت النعیم میں جگہ عطاکرے۔آمین۔
ادارہ مرکز التوحید کرشنانگر،نیپال قاری صاحب موصوف کے پسماندگان کے غم میں شریک اور ان کے لئے دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطافرمائے۔(ادارہ)
مسجد کی جو کچھ تعلیم تھی اسے مکمل کرنے کے بعد والد علیہ الرحمہ کی خواہش کے مطابق حفظ قرآن کی ابتداء کی، اس وقت گاؤں میں کوئی باقاعدہ حفظ کا نظام نہیں تھا، اسی لئے والد صاحب نے اپنے ایک رشتہ کے بھائی محترم حافظ حبیب اللہ صاحب(جو نابیناتھے)کی خدمت میں قاری صاحب کو پیش کیا انہوں نے بڑی خوشی سے انہیں حفظ کرانا منظور فرمایا۔ اس طرح قاری صاحب نے ان کے گھر پر ہی پورے ذوق و شوق کے ساتھ حفظ القرآن الکریم میں مشغول ہوگئے، تقریباً ایک سال کی مدت میں دس پارے مکمل کرلئے۔ اس کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ کا رخ کیا اور مزید دو سال صرف کرکے ایک بہت اچھے حافظ بن گئے۔ حفظ قرآن کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ ہی میں دینیات کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے عربی کی جماعت اولیٰ میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہیں محترم قاری خلیل الرحمن صاحب مؤی (جو اپنی نادر اور پرکشش آواز میں اپنی مثال آپ تھے) کے پاس تجوید و قرأت کی مشق کے لئے بھی جانے لگے۔
قاری عبدالجلیل صاحب کو بھی اللہ نے ایسی پر کشش آواز دی تھی کہ اس میں بھی نمایاں ہوگئے۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۱ء میںآل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا نوگڑھ میں اجلاس منعقد ہوا۔ اس زمانے میں مدرسہ فیض عام مؤ تمام ہندوستان کے جماعتی اداروں میں سب سے معیاری مدرسہ سمجھا جاتا تھا۔جلسے میں تلاوت قرآن کے لئے شعبۂ قرأت کے استاذ محترم قاری خلیل الرحمن صاحب سے گذارش کی گئی تو آپ نے اپنے مدرسہ فیض عام مؤ کے شاگرد رشید عبدالجلیل گونڈوی کو حکم دیاکہ تم کو نوگڑھ کے جلسے میں تلاوت کرنا ہے ۔ ان کے حکم کے مطابق قاری عبدالجلیل صاحب نے تلاوت کی اورمدرسہ کا وقار بلند کیا اور وہیں سے قاری کے لقب سے اس طرح مشہور ہوئے کہ تاحیات اسی نام سے یاد کئے جاتے رہے۔
فیض عام کی تعلیم جماعت رابعہ تک ہے،اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کی ایک شاخ مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لے لیا اور وہیں حدیث و فقہ اور منطق و فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ قرأت سبعہ میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی اور وہاں سے دستار فضیلت، دستار قرأت اور قاسمی نسبت لے کر واپس ہوئے، یہ غالباً اوائل ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔
تعلیم سے فراغت کے معاً بعد آپ کو مدراس کے حاجی عبدالعزیز صاحب باؤٹا بیڑی نے اپنی مسجد میں امامت و خطابت کے منصب کے لئے دعوت دی۔ آپ مدراس پہنچ گئے مدراس میں تین سال تک بہت عزت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، لیکن صرف امامت و خطابت آپ کو راس نہ آئی اور مدراس کو خیر آباد کہہ دیا۔ اس کے بعد راجستھان کے ایک مشہور قصبہ کھنڈیلہ میں جاوارد ہوئے اور بڑے عظمت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیا۔آپ نے اپنے آخری حیات میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں مختصر مدت تک تدریسی فریضہ انجام دیا۔
بہت سے شاگرد پیدا کئے۔ بھائی صاحب کے اندر تدریس کی بہت نادر صلاحیت تھی، بہت مختصر مگر جامع نصاب کے ساتھ بہت قلیل مدت میں بڑی عمر والوں کو باقاعدہ عالم بنا دیا اور جب انہیں دل کا سخت عارضہ لاحق ہوگیا تو بغرض علاج جے پور میں تقریباً دو سال رہے۔ اس کے بعد گھر چلے آئے، گھر آئے کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ فالج کا سخت حملہ ہوگیا۔ اور پھر صاحب فراش ہوگئے اور کافی دنوں تک بستر علالت پر پڑے رہے یہاں تک کہ ۵؍محرم الحرام ۱۴۳۱ھ مطابق۲۳؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز چہار شنبہ مغرب کی اذان سے دس منٹ قبل اپنی جان جان آفریں کے سپر کردیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
۲۴؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز جمعرات بعد نماز ظہر آپ کی تجہیز وتکفین اور تدفین عمل میں آئی۔نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے، مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک وفدمولانا مطیع اللہ مدنیؔ ، زاہدؔ آزاد جھنڈانگری،مولانا عبدالنور سراجی، مولانا محمد اکرم عالیاویؔ ، عبدالعظیم سلفی جھنڈانگری پرمشتمل قاری صاحب کے جنازہ میں شریک تھا، نیز جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال سے اساتذہ نے شرکت کی۔نماز جنازہ قاری صاحب کے برادر خورد راقم کی امامت میں اداکی گئی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قاری عبدالجلیل صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت النعیم میں جگہ عطاکرے۔آمین۔
ادارہ مرکز التوحید کرشنانگر،نیپال قاری صاحب موصوف کے پسماندگان کے غم میں شریک اور ان کے لئے دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطافرمائے۔(ادارہ)
No comments:
Post a Comment