Wednesday 17 March, 2010

حدود مزدلفہ:ترجمہ:شیخ ابو فوزان المدنیؔ Jan-2010

حدود مزدلفہ
تحریر:شیخ عبدالعزیز احمد محسن الترکی
ترجمہ:شیخ ابو فوزان المدنیؔ


عبداللہ بن عمر سے مروی ان دونوں آثار میں اس امر کی صریح اور صاف دلیل موجود ہے کہ مشعر حرام(مزدلفہ) عرفات سے کوچ کرنے اور وہاں سے نکلنے کے فورا بعد شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی خطہ حرم کا آغاز ہوتا ہے بغیر کسی مسافتی فاصلے کے مزدلفہ کی سرزمین شروع ہوجاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ وادی عرنہ کا حصہ دونوں کے مابین حد فاصل تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
ان دونوں آثار سے اس امرپر دلالت کی چند صورتیں ہیں
استدلال کی پہلی صورت: پہلے اثر میں عمروبن میمون کا یہ فرمان کہ ’’سواریوں کے اگلے پاؤں قریبی پہاڑیوں کے نشیب میں واقع ہوئے‘‘ ’’أدنی‘‘ اقرب کے معنی میں ہے یہ قرب ونزدیکی عرفات سے نکلنے والے متکلم سے متعلق ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کے قول(إذ أنتم بالعدوۃ الدنیا وھم بالعدوۃ القصویٰ والرکب أسفل منکم)۔کی طرح ہے۔
بروزبدر جب مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالاتو صحرائے بدر کے قریبی چھور پر تھے۔اور یہ قرب مدینہ سے آنے والے کے تعلق سے تھا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا:فالدنیا مما یلی المدینۃ والقصویٰ ممایلی مکۃ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عمرو بن میمون کا یہ قول ’’فی أدنی الجبال‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عرفات سے نکلنے والے کے تعلق سے جو قریبی پہاڑی سلسلہ ہے۔
اس کی تائید دوسرے اثر میں وارد لفظ ’’وکنافی أقصیٰ الجبال مما یلی عرفات‘‘ سے ہوتی ہے ۔
جب یہاں کلمہ ’’اقصیٰ‘‘ استعمال کیا۔تو اس وجہ سے کہ اس سے ’’عرفہ سے دور کی پہاڑیوں کے کنارے جو منی اور مکہ کے قریب ہیں‘‘ نہ سمجھ لیا جائے، متکلم نے’’ممایلی عرفات‘‘کا اضافہ کردیا، یعنی پہاڑیوں کے وہ کنارے جو خود عرفات کی جانب ہیں اور اس سے قریب ہیں۔ اس سے پہاڑی سلسلے کے وہ اطراف وجوانب مرادہیں جو عرفات سے نکلنے والے کے سامنے اور متصل اور قریب ہوتے ہیں۔
قدرتی طور پر یہ بات معلوم ہے کہ عرفات سے بوقت کوچ نکلنے والے کا رخ مشرق سے مغرب کی سمت ہوتا ہے جیسے ہی وہ حدود عرفات سے باہر نکلتا ہے اور وادی عرنہ کا نشیب پار کرتا ہے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اس کے بالکل سامنے ہوتی ہیں جن کے اطراف و جوانب وادی کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر اور ان کے ساتھیوں نے جس وقت وادی کو پار کیا اور ان کی سواریاں ان پہاڑیوں کے اطراف وجوانب کے پاس پہونچیں اسی وقت ابن عمر نے عمر وبن میمون سے کہا کہ مشعر حرام کے متعلق پوچھنے اور استفسار کرنے والا کہاں ہے؟اس نے کہا ہاں میں موجود ہوں آپ نے فرمایا کہ تم اس میں داخل ہوچکے ہویا تم اس میں دخول شروع کرچکے ہو ۔
استدلال کی دوسری صورت: المشعر الحرام کا لفظ دو وصف کا جامع ہے، ایک مشعر،دوسرے حرام۔ مزدلفہ مشعر ہے اور حرام یعنی وہ حرم کا حصہ ہے۔اور یہ امر معلوم ہے کہ عرفات حل ہے ،حرم نہیں ہے ،لیکن وہ ایک مشعر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے چن رکھا ہے یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی میراث ہے اور اس میں خاتم النبیین محمدﷺ نے وقوف فرمایا ہے۔
عرفات کے بعد( مزدلفہ کی جانب)وادی عرنہ واقع ہے وہ حل ہے، وہ نہ حرم ہے نہ ہی مشعر ،کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ وقوف عرفہ میں وادی عرنہ سے دور رہو ،وہاں وقوف نہ کرو۔
اس وادی عرنہ کے بعد فوراً وہ سرزمین شروع ہوجاتی ہے جو دونوں وصف’’ مشعر‘‘ اور’’ حرام‘‘ کی جامع یعنی المشعرالحرام ہے اور اسی کا فتویٰ ابن عمر نے عمروبن میمون کو دیا۔ اس پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہوجاتی ہے۔
استدلال کی تیسری صورت: صحابی رسول عبداللہ بن عمر کا عمروبن میمون سے یہ فرمانا کہ ’’أخذت فیہ‘‘ تم مشعر حرام میں آغاز کرچکے ہواس کا مطلب یہ ہوایہ اس کا اولین و ابتدائی حصہ ہے اور یہ سلسلہ حدود منیٰ تک مسلسل دراز ہے۔
استدلال کی چوتھی صورت: عمروبن میمون کا اظہار حیرت و استعجاب کہ انہوں نے اپنی حیرت اور تعجب کا اظہار ’’ماأخذتُ فیہ‘‘ کہہ کر کیا یعنی ابھی میں نے اس کا آغاز نہیں کیا اس استغراب و استعجاب کی وجہ عبداللہ بن عمر کا عرفات سے مجرد خروج کرنے اور وادی عرنہ کو پار کرنے کے ساتھ جلدی جواب دینا تھاکہ تم اب مزدلفہ میں دخول کرچکے ہو۔
وادی عرنہ طے کرنے کے بعد ہی فوری طور پر مشعر حرام کا آغاز ہوتا ہے۔اس کی تاکید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عبداللہ بن عمر مزدلفہ کے درمیان واقع ایک چھوٹی پہاڑی۔ جس کا قزح نام ہے۔ پر لوگوں کے بھیڑ بھاڑ کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔یہ بتلاتے اور اس کا فتویٰ دیتے تھے کہ مزدلفہ پورا مشعرحرام ہے جیسا کہ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔
اس سلسلے میں ان سے مروی بعض روایات اور آثار ملاحظہ ہوں:
(۱) سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ مشعر حرام پورا مزدلفہ ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۳۰۰ بسند صحیح)
(۲) عبداللہ بن عمر نے مزدلفہ میں ایک پہاڑ پر لوگوں کو ازدحام کرتے دیکھا تو آپ نے فرمایا لوگو! درحقیقت مزدلفہ پورا ہی مشعر ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۲۹۹ بسند صحیح)
(۳) ابن عمر نے لوگوں کو جبل قزح پر ازدحام کرتے دیکھا تو آپ نے کہا کہ یہ لوگ یہاں پر کس وجہ سے ازدحام کرتے ہیں جبکہ مزدلفہ کی یہ پوری جگہ مشعر ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۲۹۹)
(۴) اثر عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما
عمروبن میمون ہی سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مشعر حرام کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا کہ اگر تم ہمارے پیچھے لگے رہو تو میں تمہیں بتادوں گا کہ وہ کہاں ہے، ان کا بیان ہے کہ میں ان کے ساتھ لگا رہا، چنانچہ جب انہوں نے عرفہ سے کوچ کیا اور سواریوں نے اپنے اگلے پاؤں حرم میں رکھا انہوں نے کہا مشعر سے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ میں نے کہا وہ یہاں موجود ہے ۔ انہوں نے کہا تم اس میں داخل ہوچکے ہومیں نے کہا کہاں تک ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ تم اس میں سے باہر نکل جاؤ۔ (اخرجہ الفاکہی فی اخبارمکۃ۴؍۳۱۹۔۳۲۰ بسند صحیح)
عمرو بن میمون پر اللہ کی رحمت نازل ہو انہوں نے اس مسئلہ پر کافی اہتمام و توجہ مبذول کر رکھا، انہوں نے اس کے بارے میں عبداللہ بن عمر سے استفسار کیا جیسا کہ اس کا بیان ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں دو بارہ عبداللہ بن عمروبن العاص سے بھی استفسار کیا۔
یہ اثر بھی اس امر پر واضح دلیل ہے کہ مشعر حرام مجرد عرفات سے نکلتے اور حدود حرم میں داخل ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ہاں دونوں کے درمیان وادی عرنہ کا فاصلہ ہے جو مشعر نہیں ہے۔
اس مسئلہ پر اس اثر سے چند طریقوں سے استدلال کیا جاتا ہے:
پہلا طریقہ: ’’وضعت الرکاب أیدیھا فی الحرم‘‘ کا لفظ مسئلہ پر واضح دلیل ہے اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عرنہ سے نکلنے والا (اور عرنہ پورا حل ہے) مجرد خروج سے ہی منطقہ حرم میں داخل ہوجاتا ہے چنانچہ مشعر حرام عرفہ سے نکلتے ہی شروع ہوجاتا ہے إلا یہ کہ وادی عرنہ کو چھوڑ دیا جائے تاکہ دونوں’’ مشعر حلال‘‘ عرفہ اور’’ مشعر حرام‘‘ مزدلفہ کے درمیان قدرتی حد فاصل کا کام دے۔
دوسرا طریقہ: اثر میں وارد لفظ ’’قددخلت فیہ‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے یہ مشعر حرام میں دخول کی شروعات ہے۔
تیسرا طریقہ: جب عمرو بن میمون نے مشعر حرام کا نقطۂ آغاز جان لیا اور دونوں جلیل القدر صحابیوں سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے مطمئن ہوگئے تو ان کے سامنے یہ سوال باقی رہ گیا کہ مشعر حرام کی حد کہاں پر ختم ہوتی ہے۔
چنانچہ یہ سوال انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے کیا انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ مشعر حرام کا سلسلہ وہاں تک دراز ہے کہ تم اس سے باہر آجاؤ اور یہ امر معلوم ہے کہ وہ اس سے باہر اس وقت ہوں گے جب وہ دوسرے مشعر میں داخل ہو جائیں اور وہ منیٰ ہے۔اس طرح ہمیں مشرق سے مغرب تک طول و عرض میں مشعر حرام مزدلفہ کے حدود کی واقفیت حاصل ہوگئی۔
یعنی مزدلفہ ۔ عرفات سے خروج اور وادی عرنہ کے فوراً بعد سے شروع ہوکر حدود منیٰ تک دراز ہے۔ اسی پر ان دونوں صحابی ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو کا کلام دلالت کرتا ہے۔
۳۔اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
ایک نادر علمی مذاکرہ میں امام وفقیہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے جلیل القدر تابعی عطابن أبی رباح سے مشاعر اور ان کے حدود کے بارے میں استفسار کیا، نیز ان سے مزدلفہ کے بارے میں پوچھا؟
عطاء بن ابی رباح نے مزدلفہ کے حدود عرض وطول بیان کرنے کے لئے عبداللہ بن عباس کے قول سے استشہادکیا۔
۱۔ابن جریج نے فرمایا کہ مجھ سے عطاء بن ابی رباح نے ابن عباس سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ فرمارہے تھے ’’وادی محسر سے دور رہئے اور عرفات سے دور رہئے‘‘ (أخرج ھذالاثر الفاکہی فی اخبار مکۃ ۴؍۳۸۔ وابراہیم الحربی فی کتاب المناسک ۵۰۷ والأزرقی فی اخبار مکۃ ۲؍۱۹۳۱۹۲۔ بسند صحیح)۔
مشرق میں اس کے حدود کو ’’ارفعوا عن عرفات‘‘ کہہ کر بیان کیا۔ یعنی جب آپ عرفات سے نکل کر باہر ہوں گے مزدلفہ کی حد شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ مغرب میں وادی محسر تک دراز ہے۔ لہذا آپ نے ’’ارفعوا عن محسر‘‘ کہا۔
وادی محسر تک کا پورا حصہ زمین مشعر حرام ہے کسی بھی جگہ کا کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ نہ اس میں سے ،نہ اس میں سے۔
۴۔ اثر عبداللہ بن الزبیررضی اللہ عنہما
عبداللہ بن الزبیر سے مروی ہے آپ نے فرمایا ’’تم سب یہ جان لو کہ پورا عرفہ موقف ہے سوائے بطن عرنہ کے۔
اور تم لوگ یہ بھی جان لو کہ پورا مزدلفہ موقف ہے سوائے وادی محسر کے(أخرجہ الطبری بسند صحیح ۲؍۳۰۲)۔
اس اثر میں اسی بات کا بیان ہے جو عبداللہ بن عباس کے سابق کلام میں ہے۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ مشاعر کی تعداد تین ہے:
۱۔ عرفہ یہ مشعر ہے حرم نہیں ہے
۲۔ مزدلفہ یہ مشعر ہے اور حرم بھی اور اس کو عرفہ سے وادی عرنہ جدا اور الگ کرتا ہے، جونہ حرم ہے نہ مشعر نہ ہی وہ عرفہ کا حصہ ہے نہ مزدلفہ کا۔
۳۔ منیٰ یہ حرم ہے اور مشعر اور اس کو مزدلفہ سے وادی محسر جدا کرتی ہے جو حرم ہے مشعر نہیں ہے۔نہ ہی وہ منیٰ کا حصہ ہے نہ مزدلفہ کا۔
یہ امر باعث حیرت ہے کہ ان دنوں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ وادی محسر میں ’’مبیت‘‘ کرتے ہیںیہ سمجھ کر کہ وہ مزدلفہ ہے۔ اور اس میں مبیت کرتے ہیںیہ سمجھتے ہوئے کہ وہ منیٰ ہے۔
حالانکہ (صحیح حدیث نبوی) اور صحابہ سے منقول آثار بکثرت موجود ہیں کہ وادی محسرسے الگ رہنا چاہئے نہ وہاں مزدلفہ کی شب گذاری درست ہے نہ ہی منیٰ کا قیام۔
اور وہ مزدلفہ کی وسیع و عریض زمین مہمل ،بیکار اور غیر آباد چھوڑے رکھتے ہیں جو عرفات کی جانب واقع ہے۔ جب کہ صحابہ کرام کے مذکورہ نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں وہ مشعر حرام یعنی مزدلفہ ہی ہے۔
۵۔ اثر جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ
جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میرا اونٹ گم ہوگیا تھا میں عرفہ کے دن اس کو ڈھونڈنے نکلا۔ میں نے نبی ﷺ کو عرفہ میں وقوف کی حالت میں دیکھا۔ میں نے کہا:یہ شخص اللہ کی قسم حمس میں سے ہے یعنی قریشی ہے وہ آخر یہاں اس جگہ کیوں ہے؟ (أخرجہ البخاری مع ۷؍۳۱۸)
حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں :
اسماعیلي کی روایت میں عثمان بن ابی شیبہ اور ابن ابی عمر کے طریق سے مروی ہے جس میں دونوں سفیان بن عیینہ سے روایت کرتے ہیں۔اس میں یہ لفظ وارد ہے ’’فمالہ خرج من الحرم؟‘‘ اس شخص کو کیا ہوگیا کہ وہ حرم سے باہر یعنی حل میں آگیا ؟ سفیان کا بیان ہے کہ حمس سے مراد قریش ہے اور قریش (جاہلیت میں حج کے وقت)حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔اور کہتے تھے کہ ہم ’’اہل اللہ‘‘ ہیں۔ہم حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ بقیہ تمام لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔
جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: قریش مزدلفہ سے کوچ کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم حمس ہیں ہم حرم سے باہر نہیں نکلیں گے۔ انہوں نے عرفہ میں وقوف چھوڑ رکھا تھا۔ اس اثر کو ابن خزیمہ اور اسحاق بن راہویہ نے نکالا ہے۔(انظر فتح الباری۷؍۳۱۹)
یہ اثر اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مزدلفہ حرم کا علاقہ ہے جو حرم کے آخری حدود تک دراز ہے جو عرفات سے متصل ہے۔
جبیر بن مطعم کا قول ’’کانت قریش تدفع من المزدلفۃ ویقولون لانخرج من الحرم‘‘ قابل غور ہے۔اس کی تائید اس طور پر ہوتی ہے :اللہ تعالیٰ نے انساک حج و عمرہ کو مشروع کیا ہے اور اس کی تشریع میں سے یہ ہے کہ حج وعمرہ میں سے ہر ایک میں حل وحرم کے درمیان جمع ضروری ہے۔
جو شخص مکہ سے باہر سے عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے گا وہ میقات (حل سرزمین)سے احرام باندھے گا تاکہ حرم میں محرم کی صورت میں داخل ہو۔یہاں تک کہ اگر اندرون مکہ کا کوئی شخص جو عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو اس پر حدود حرم سے باہرحل کی طرف نکلنا لازم ہے جہاں سے وہ احرام باندھ کر محرم بن کر ہی حرم میں داخل ہوگا۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عائشہ کو تنعیم سے عمرہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایسے ہی حج کا معاملہ ہے تمام حجاج حج کا احرام باندھیں گے اور ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کا دن منیٰ میں گذاریں گے اور نویں رات بھی منیٰ ہی میں بسر کریں گے۔
پھر نو ذی الحجہ کو دن میں عرفات کی جانب روانہ ہوں گے۔ یہ عرفات حدود حرم سے باہر حل ہے۔ پھر وہ وہاں سے کوچ کرنے کے بعد حالت احرام میں أرض حرام(مزدلفہ) پہونچیں گے تاکہ حل وحرم میں اکٹھا(جمع) کرسکیں۔
قبل از اسلام قریش کے مشرکین کی بدعات میں سے یہ بات بھی تھی کہ ان کا زعم تھا کہ وہ ’’اہل اللہ ‘اور اہل حرم ہیں لہذا وہ نویں ذی الحجہ کو حرم سے باہر نہیں نکلیں گے، وہ مشعر حرام ہی میں اس دن وقوف کریں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور آپ نے عرفہ میں وقوف کیا جیسا کہ صحیح مسلم میں مروی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا بیان موجود ہے۔
ان کا بیان ہے کہ ’’وکانت العرب یدفع بہم أبوسیارۃ علی حمار عری فلما أجاز رسول اللہ ﷺ من المزدلفہ بالمشعر الحرام، لم تشک قریش أنہ سیقتصر علیہ ویکون منزلہ ثم، فأجاز ولم یعرض لہ حتی أتی عرفات فنزل(صحیح مسلم حدیث رقم ۱۴۸)
ایک بے نمدہ گدھے پر سوار ابوسیارہ عربوں کے ساتھ کوچ کررہے تھے۔جب رسول اللہ ﷺ مشعر حرام میں مزدلفہ سے گذررہے تھے تو قریش کو یقین تھا کہ آپ اس پر بس کریں گے یعنی حرم سے باہر نہیں نکلیں گے اور یہی ان کی منزل ہوگی۔ پھر آپ نے اس کو پار کیا اور اس پر قیام ووقوف نہیں کیا یہاں تک عرفات پہونچے اور وہاں پر نزول فرمایا۔
***

No comments:

Post a Comment