Wednesday, 17 March 2010
ماہ محرم اور ہمارا طرز عمل:عبداللہ مدنی جھنڈا نگری Jan-2010 Editorial
ماہ محرم اور ہمارا طرز عمل
شعور وآگہی
عبداللہ مدنی جھنڈا نگری
عبداللہ مدنی جھنڈا نگری
قرآنی وضاحت کے مطابق ابتدائے آفرینش سے ہی سال کے بارہ مہینے ہیں۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ سے اسلامی سن کا آغاز ماہ محرم سے مقرر فرمایا، جو ہجرت نبوی کی مناسبت سے ہجری سن سے معروف ہے۔
امت مسلمہ کے لئے ہجری سن جس عظمت و اہمیت کا حامل ہے اسے عیسوی سن کی شہرت نے دھندلا کردیا ہے، اب حالت یہ ہے کہ چاند کی تاریخ معلوم کرنے کے لئے کسی میاں مولوی یا مولانا صاحب کی تلاش ہوتی ہے جب کہ عیسوی تاریخ سے ہر کہ ومہ واقف ہوتا ہے۔
ماہ محرم کا آغاز ہوچکا ہے، یہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اس ماہ کی دس تاریخ کو فرعونی جبر سے نجات پانے کی خوشی میں یہودی روزہ رکھتے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پر عزیمت رسالت کے پیش نظر یکجہتی کے طور پرہمارے نبی محترم ﷺ نے بھی روزہ رکھا۔
اس سنت کی ادائیگی ایک مسلمان کے لئے کفارۂ معاصی اور باعث سعادت ہے، البتہ یہود جیسی لعین و مغضوب قوم کی مخالفت میں دسویں محرم کے ساتھ ایک روز قبل یا بعد کا دن بھی شامل کرلیا جائے۔اس عمل سے اگلے سال کے اس نبوی پروگرام کی موافقت ہوجائے گی بشرط حیات رسول اکرمﷺ نے جس کا اظہار فرمایا تھا۔
امت مسلمہ جس ہمہ گیر زوال سے دوچار ہوئی اور فکری وعملی طور پر جو گمراہیاں در آئیں، ان کے اسباب پر نظردوڑائیں توایک بڑا سبب ماہ محرم میں انجام دیئے جانے والے وہ اعمال بد بھی ہیں جو دین کے نام پرنواسۂ رسولﷺ ’’نوجوان جنتیوں کے سردار‘‘اور جگر گوشۂ حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے رواج پاگئے ہیں۔
شیعان علی کی اپنی مجبوریاں ہیں، وہ شہادت حسین کے نام پرمحرم الحرام میں ہنگامے برپانہ کریں تو صفحہ ہستی سے ان کا وجود مٹ جائے گا۔ البتہ ہمیں شکایت اہل سنت کے اس طبقے سے ہے جو غم حسین کی ماراماری میں تعزیہ داری کو دین کا جز بنابیٹھے ہیں، آخر انہیں کون سی مجبوری ہے کہ پونے چودہ سو سال کے بعد کسی کی شہادت کا غم اس طرح منائیں کہ اعدائے صحابہ، دشمنان اہل سنت اور معاندین تعلیمات اسلامیہ کے رنگ میں مکمل دس دنوں تک رنگے ہوئے نظر آئیں، اپنے بانئ مسلک کی تعلیمات بھی نظر انداز کردیں اور ان تمام امور کو درست جانیں جو نگاہ شریعت میں بدعت اور شرک ہیں۔
یقیناًتعزیہ داری اور اس سے ملحق جملہ رسوم رسومِ بد ہیں، جو بہر حال اہل سنت کے شایان شان نہیں، پھر اس تعزیہ داری میں امت کا سرمایہ جس طرح ضائع ہوتا ہے اور زر کثیر کے صرفہ سے تیار کردہ تعزیے جس انداز میں ’’ٹھنڈے‘‘ یا برباد کئے جاتے ہیں، صرف یہی عمل اسے غیر شرعی قرار دیئے جانے کے لئے کافی ہے، کاش ہم اس کا ادراک کرسکیں۔
امت مسلمہ کے لئے ہجری سن جس عظمت و اہمیت کا حامل ہے اسے عیسوی سن کی شہرت نے دھندلا کردیا ہے، اب حالت یہ ہے کہ چاند کی تاریخ معلوم کرنے کے لئے کسی میاں مولوی یا مولانا صاحب کی تلاش ہوتی ہے جب کہ عیسوی تاریخ سے ہر کہ ومہ واقف ہوتا ہے۔
ماہ محرم کا آغاز ہوچکا ہے، یہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اس ماہ کی دس تاریخ کو فرعونی جبر سے نجات پانے کی خوشی میں یہودی روزہ رکھتے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پر عزیمت رسالت کے پیش نظر یکجہتی کے طور پرہمارے نبی محترم ﷺ نے بھی روزہ رکھا۔
اس سنت کی ادائیگی ایک مسلمان کے لئے کفارۂ معاصی اور باعث سعادت ہے، البتہ یہود جیسی لعین و مغضوب قوم کی مخالفت میں دسویں محرم کے ساتھ ایک روز قبل یا بعد کا دن بھی شامل کرلیا جائے۔اس عمل سے اگلے سال کے اس نبوی پروگرام کی موافقت ہوجائے گی بشرط حیات رسول اکرمﷺ نے جس کا اظہار فرمایا تھا۔
امت مسلمہ جس ہمہ گیر زوال سے دوچار ہوئی اور فکری وعملی طور پر جو گمراہیاں در آئیں، ان کے اسباب پر نظردوڑائیں توایک بڑا سبب ماہ محرم میں انجام دیئے جانے والے وہ اعمال بد بھی ہیں جو دین کے نام پرنواسۂ رسولﷺ ’’نوجوان جنتیوں کے سردار‘‘اور جگر گوشۂ حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے رواج پاگئے ہیں۔
شیعان علی کی اپنی مجبوریاں ہیں، وہ شہادت حسین کے نام پرمحرم الحرام میں ہنگامے برپانہ کریں تو صفحہ ہستی سے ان کا وجود مٹ جائے گا۔ البتہ ہمیں شکایت اہل سنت کے اس طبقے سے ہے جو غم حسین کی ماراماری میں تعزیہ داری کو دین کا جز بنابیٹھے ہیں، آخر انہیں کون سی مجبوری ہے کہ پونے چودہ سو سال کے بعد کسی کی شہادت کا غم اس طرح منائیں کہ اعدائے صحابہ، دشمنان اہل سنت اور معاندین تعلیمات اسلامیہ کے رنگ میں مکمل دس دنوں تک رنگے ہوئے نظر آئیں، اپنے بانئ مسلک کی تعلیمات بھی نظر انداز کردیں اور ان تمام امور کو درست جانیں جو نگاہ شریعت میں بدعت اور شرک ہیں۔
یقیناًتعزیہ داری اور اس سے ملحق جملہ رسوم رسومِ بد ہیں، جو بہر حال اہل سنت کے شایان شان نہیں، پھر اس تعزیہ داری میں امت کا سرمایہ جس طرح ضائع ہوتا ہے اور زر کثیر کے صرفہ سے تیار کردہ تعزیے جس انداز میں ’’ٹھنڈے‘‘ یا برباد کئے جاتے ہیں، صرف یہی عمل اسے غیر شرعی قرار دیئے جانے کے لئے کافی ہے، کاش ہم اس کا ادراک کرسکیں۔
ازدواجی زندگی کے آداب: ڈاکٹر عبدالقیوم محمد شفیع بستوی Jan 2010
ازدواجی زندگی کے آداب
ڈاکٹر عبدالقیوم محمد شفیع بستوی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وجعلنا اللیل لباسا وجعلنا النہار معاشاً) (النبا:۷۸؍۱۰۔۱۱)
عموما انسانی زندگی اسی نظام پر چل رہی ہے، اسی لیے پورے دن معاشی مسائل میں الجھا ہوا انسان تھکا ماندہ جب عشاء کی نماز کے بعد اپنے بستر کا رخ کرتا ہے تو اسے راحت جسم اور سکون قلب کی شدید حاجت محسوس ہوتی ہے۔
اس وقت اگر وہ ازدواجی زندگی کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو مطلوبہ راحت وسکون اس کو اپنی رفیقۂ حیات میں نظر آتی ہے، چنانچہ رات کی اس پر سکون خاموشیوں اور پردہ تاریکیوں میں اس کے قریب آتا ہے۔ اس سے دن بھر کی داستان جدوجہد، روداد نفع وضرر، حکایت رنج والم اور عملی زندگی کے گوناگو ں تجربات بیان کرتا ہے اور اس طرح سے وفادار بیوی دن بھر کی تنہائی اور جدائی کی تکلیف بھلا کر، بصد اشتیاق یہ ساری حکایتیں سن کر محبوب شوہر کو داد تحسین دیتی ہے اور پیارومحبت میں ڈوبے بول بول کر اس کے لیے ذہنی سکون کا سامان مہیا کرتی ہے اور وہ بھی گھر اور بچوں کے دن بھر کے حالات شوہر سے بیان کرتی ہے اور پھر اس طرح سے پیار ومحبت کے جذبات کے تبادلہ کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے لیے سامان راحت وسکون بن جاتے ہیں جو کہ ازدواجی زندگی کا اصل مقصد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ) (الروم:۳۰؍۲۱)
’’ اور اس ( اللہ تعالیٰ) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم لوگوں کے لیے تمہاری جانوں سے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تم کو وہاں سکون ملے اور تمہارے درمیان پر خلوص محبت ورحمت کے جذبات بنائے۔‘‘
ایک دوسری جگہ میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے پوشاک کی حیثیت دیتے ہوئے فرمایا:
(ہن لباس لکم وانتم لباس لہن) (البقرہ:۲؍۱۸۷)
’’وہ تمہاری بیویاں تمہارے لیے پوشاک ہیں اور تم ان کے لیے پوشاک ہو‘‘
شوہر اور بیوی کے درمیان محبت والفت اور ایک دوسرے سے قربت اور یگانگت اور دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی طرف جو حاجت ہے اس کو بیان کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی ہے۔
علامہ اقبال نے عورت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سوز سے ہے زندگی کا ساز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
رات کی خاموش تاریکیوں میں ازدواجی زندگی کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے پر پابندی لگانا انسان کی کمزور طبیعت کے سامنے انتہائی مشکل امر تھا، اس لیے ابتدائے اسلام میں رمضان کے مقدس مہینہ کی راتوں میں جب اس پر جزوی پابندی لگی تو یہ حکم انسانی طبیعت پر بڑا شاق گزرا اور خلاف ورزیاں ہونے لگیں۔
شریعت نے انسان کی اس فطری کمزوری کے پیش نظر ساری پابندی اٹھالی اور اعلان کر دیا کہ اب دونوں کو یہ حق ہے کہ رات کے جس وقت چاہیں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اعتکاف کی حالت میں نہ ہوں۔
اس سلسلہ میں ذرا قرآنی بیان ملاحظہ فرمائیں، ارشاد ہے:
( احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم ہن لباس لکم وانتم لباس لہن علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم وعفاعنکم فالان باشروہن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل ولا تباشروہن وانتم عاکفون فی المساجد تلک حدود اللہ فلا تقربوہا کذالک یبین اللہ آیاتہ للناس لعلہم یتقون) (البقرۃ:۲؍۱۸۷)
’’تمہارے لیے روزے کی رات میں قضائے شہوت کی خاطر تمہاری اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا وہ تمہارے حق میں پوشاک ہیں اور تم ان کے حق میں پوشاک ہو اللہ نے جانا کہ تم سے پابندی نباہی نہیں جارہی تھی لہذا اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی اور تم کو معاف کردیا اور وہی چاہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کے وقت کی سفیدی سیاہی سے نکل کر نمودار ہو جائے، اور پھر اس وقت سے رات آنے تک روزہ کو نباہو اور یادرہے تم لوگ اپنی عورتوں سے اس حال میں لطف اندوز نہ ہونا جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو، یہ سب اللہ کے متعین کردہ پابندیاں ہیں لہذا ان کے قریب بھی نہ جاؤ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگو ں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ متقی بن جائیں۔‘‘
اسلامی شریعت نے انسان کے اس فطری تقاضے کو مد نظر رکھ کر دونوں کو ایک دوسرے کے احساسات وجذبات کا پاس ولحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور جذبات کی ناقدری پر شدید وعید سنائی ہے۔
چنانچہ صحیح حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:(إذا دعا الرجل امراتہ الی فراشہ فلم تاتہ فبات غضبان علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح) (متفق علیہ)
’’اگر مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلایا، پھر وہ ا س کے پاس نہیں آئی، اس کے بعد شوہر نے اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دی تو فرشتے ایسی عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: (اذا باتت المراۃ ہاجرۃ فراش زوجہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح)
’’ اگر عورت نے اپنے شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گزار دی تو فرشتے اس پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں آپ نے قسم کھا کر فرمایا:
(والذین نفسی بیدہ ما من رجل یدعو امراتہ الی فراشہ فتابی علیہ الا کان الذی فی السماء ساخطا علیہا حتی یرضی عنہا) (متفق علیہ)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی بھی اگر اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر وہ انکار کردے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے اس عورت پر اس وقت تک ناراض رہے گی جب تک کہ شوہر اپنی بیوی سے راضی نہ ہو جائے۔‘‘
اس طرح کی اور بھی احادیث ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شریعت نے انسان کے اس طرح کے فطری احساسات وجذبات اور تقاضائے بشریت کو کتنی اہمیت دی ہے۔
بعض روایات کے مطابق انسان کے ان فطری تقاضوں کو پورا کرنے کو نفلی عبادتوں پر ترجیح دی گئی ہے اسی لیے کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزے رکھے، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: (لا یحل لامراۃ ان تصوم وزوجہا شاہد الا باذنہ ولا تاذن فی بیتہ الا باذنہ) (متفق علیہ)
’’ کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ روزے سے رہے اور اس کا شوہر موجود ہو، الا یہ کہ اس کی اجازت ہو اور نہ اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے جب تک اس کی اجازت نہ ہو۔‘‘
اگر ایک طرف عورت کو اپنے مرد کے جذبات واحساسات کی قدردانی کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طرف شوہر کو بھی اپنی بیوی کے تئیں اسی طرح کا معاملہ کرنے کا حکم ہے چنانچہ اس پر واجب ہے کہ وہ عورت کے احساسات وجذبات کی قدردانی کرے، اور اس کے بھی فطری تقاضوں کو پورا کرے اور اگر نفلی عبادت میں کثرت سے انہماک عورت کے حقوق کی ادائیگی میں مانع تو اسے ترک کرکے عورت اور بچوں کے حقوق کو نباہنے کو ترجیح دے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’بلغنی انک تصوم النہار وتقوم اللیل فلا تفعل فان لجسدک علیک حقا ولعینک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا‘‘ (بخاری ومسلم)
’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تمہارے اوپر حق ہے۔
بعض روایات کے مطابق آپ نے حکم دیا کہ تم روزہ بھی رہو اور افطار بھی کرو اور سوؤ بھی اور قیام بھی کرو۔
نبی کریم ﷺ نے ایسی نفلی عبادت کو پسند نہیں فرمایا جس سے بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں خلل آتا ہو اور ان کا حق مارا جاتاہو۔ اور اگر اس صورت حال میں نفلی عبادت کو پسندنہیں فرمایا تو پھر ایسی دنیاوی مشغولیت بدرجۂ اولیٰ ناپسندیدہ ہوگی جس کی وجہ سے اہل وعیال کے حقوق پامال ہوتے ہوں یا ان سے لاپرواہی لازم آتی ہو۔یقیناًیہ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ آدمی اپنے دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک ہوجائے کہ بیوی بچوں کے درمیان بیٹھنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے ان کے احساسات وجذبات جاننے اور اپنے احساسات وجذبات کو ظاہر کرنے سے محروم ہوجائے۔
یہ صورت حال عائلی زندگی کے لیے ایک صدمہ سے کم نہیں ہے اس لیے انسان کو اپنے روز مرہ کے مشاغل میں سے اگر بہت بڑی مجبوری نہ ہو تو تھوڑا بہت وقت ان کے بیچ گزارنا چاہئے، ان کو زندگی کے اپنے مفید تجربات سکھانے چاہئے ان کی زندگی میں خوشی ومسرت کی فضا بنانی چاہئے۔
بسا اوقات بیوی یا شوہر کو زبانی مفید قسم کے تاریخی اور ادبی قصوں اور لطیفوں کے ذکر سے گھر کے ماحول کو پر لطف بنانا چاہئے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں کبھی کبھی اس طرح کا سماں ہوتا تھا۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک نہایت ہی پر لطف حکایت بیان کی جس سے نبی کریم ﷺ محظوظ ہوئے، آخر میں آپ نے اس پر اپنے ظریفانہ جذبات کا اظہار بھی فرمایا جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی اور ہمت افزائی مقصود تھی۔
یہ قصہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ دیگر احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے طوالت کے خوف سے اس قصہ کا بامحاورہ ترجمہ درج ذیل ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ:
گیارہ عورتیں مل کر بیٹھیں اور آپس میں انہوں نے یہ عہد وپیمان کیا کہ وہ اپنے اپنے شوہروں کے متعلق کچھ بھی نہیں چھپائیں گی، یعنی سب کچھ اس نشست میں بیان کردیں گی۔
چنانچہ پہلی عورت بولی:میرا شوہر دبلا پتلا اونٹ کا ایسا گوشت ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو جہاں چڑھ کر جانا آسان نہیں ہے اور نہ ہی اتنا فربہ ہے کہ وہاں جانے کا تکلف کیا جائے۔ یعنی اتنا ناتواں ولا غر ہے کہ جس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسری بولی:میں اپنے شوہر کی خبریں نہیں بتاؤں گی مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کو تکمیل تک نہ پہنچا سکوں، کیوں کہ وہ بہت لمبی ہیں، اگر انہیں ذکر بھی کروں گی تو ان میں حزن والم کی داستان ہی ہوگی۔
تیسری بولی:میرا شوہر تو لمبا اور احمق ہے، اگر بولی تو مجھے طلاق ہو جائے گی، اور اگر خاموش رہی تو لٹکی رہوں گی، یعنی نہ شوہر والی ہونے کا احساس ہے نہ مطلقہ ہونے کا۔
چوتھی بولی:میرا شوہر وادی تہامہ کی رات کے مانند ہے نہ گرم ہے نہ ٹھنڈا، نہ باعث خوف نہ باعث اکتاہٹ، یعنی متوسط قسم کا آدمی ہے ، جو کسی حد تک قابل تعریف ہی ہے۔
پانچویں بولی: میرا شوہر جب گھر کے اندر ہوتا ہے تو تندوا ہوتا ہے، اور جب گھرسے نکلتا ہے تو شیر ہوتا ہے، اور جو رکھنے کو دیتا ہے اس کے متعلق پوچھتا ہی نہیں ہے۔ گویا ایک طرح قابل تعریف ہے۔
چھٹی بولی: میرا شوہر اگر کھانا کھاتا ہے تو پورا ہی چٹ کر جاتا ہے اور اگر پیتا ہے تو آخری قطرہ تک پی جاتا ہے اور جب لیٹتا ہے تو چادر سے لپٹ کر سو جاتا ہے اور ہاتھ بھی نہیں ملاتا ہے کہ وہ ہمارے جذبات کو جان سکے۔ گویا اپنے شوہر کی مذمت کر رہی ہے۔
ساتویں بولی: میرا شوہر مکمل احمق اور بے مقصد انسان ہے، ہر بیماری اس کی بیماری ہے (یعنی ہر طرح کا عیب اس میں ہے) کچھ پتہ نہیں وہ مار کے سرپھوڑدے گا یا زخمی کر دے گا یا سب کچھ کر بیٹھے گا۔ یعنی انتہائی ظالم۔
آٹھویں بولی: میرا شوہر چھونے میں خرگوش جیسا نرم وملائم ہے اور خوشبو میں زعفران جیسی مہک والا ہے۔ یعنی بہت نرم خواور اچھے اخلاق والا ہے۔
نوویں بولی: میرا شوہر لمبے ستونوں والا ہے، اور اونچی نیاموں والا ہے، اور بڑی راکھوں والا ہے، قبیلہ کی اجتماعی مجلس سے اس کا گھر قریب ہے یعنی بہت دل دار اور سخی ہے۔
دسویں بولی: میرا شوہر مالک ہے اور مالک کیا چیز ہے اس کے شوہر سے اچھا ہے اس کے پاس ایسے اونٹ ہیں جنہیں باڑوں کی ضرورت زیادہ ہے اور چراگاہوں کی ضرورت کم ہے اور جب انہیں باجے کی آواز سنائی پڑی تو اپنے قربان کیے جانے کا یقین ہو گیا یعنی بہت اچھا میزبان ہے مہمانوں کی ضیافت کے لیے اونٹوں کو کسی بھی وقت ذبح کرنے کی خاطر باڑے میں باندھ کر رکھتا ہے۔
گیارہویں بولی:میرا شوہر ابو زرع ہے۔ ابو زرع کیا انسان ہے! اس نے میرے کانوں کو زیورات سے بوجھل کردیا اور میرے بازؤں کو موٹاپے سے بھردیا اور مجھے خوش کردیا پھر میں اپنے میں مگن بھی ہو گئی، مجھے چند بکریوں کے مالک گھرانے میں پایا، جہاں زندگی بڑی مشکل تھی، پھر مجھے گھوڑے، اونٹ،بیل، مرغی اور کھیتی باڑی کے مالک گھرانے میں لا بسایا، جو عربی گھوڑے کی سواری کرتا تھا اور نیزہ اپنے پاس رکھتا تھا، اس نے اپنے کروفر سے مجھے مالا مال کردیا اور ہر قسم کی خوشبوؤں کا جوڑا عطا کیا، اور بولا:
ام زرع تم خودبھی کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاؤ، یہ خاتون( اپنے پہلے شوہر کو یاد کرتے ہوئے) کہتی ہے: اگر میں وہ سب کچھ جمع کرتی جو اس نے ہمیں دیا تو بھی ابو زرع کے سب سے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا: میں تمہارے لیے ویسے ہی ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا، لیکن میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا جس طرح ابو زرع نے ام زرع کو دے دی تھی۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر۵۱۹۸)
اس حدیث سے نبی کریم ﷺ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ گفتگو میں ظرافت کا پہلو اختیار کرنا ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا) (الاحزاب:۳۳؍۴۱)
یقیناًتم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول کے اندر بہترین اسوہ ہے تم میں سے جو لوگ اللہ سے اور یوم آخرت سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔‘‘
***
عموما انسانی زندگی اسی نظام پر چل رہی ہے، اسی لیے پورے دن معاشی مسائل میں الجھا ہوا انسان تھکا ماندہ جب عشاء کی نماز کے بعد اپنے بستر کا رخ کرتا ہے تو اسے راحت جسم اور سکون قلب کی شدید حاجت محسوس ہوتی ہے۔
اس وقت اگر وہ ازدواجی زندگی کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو مطلوبہ راحت وسکون اس کو اپنی رفیقۂ حیات میں نظر آتی ہے، چنانچہ رات کی اس پر سکون خاموشیوں اور پردہ تاریکیوں میں اس کے قریب آتا ہے۔ اس سے دن بھر کی داستان جدوجہد، روداد نفع وضرر، حکایت رنج والم اور عملی زندگی کے گوناگو ں تجربات بیان کرتا ہے اور اس طرح سے وفادار بیوی دن بھر کی تنہائی اور جدائی کی تکلیف بھلا کر، بصد اشتیاق یہ ساری حکایتیں سن کر محبوب شوہر کو داد تحسین دیتی ہے اور پیارومحبت میں ڈوبے بول بول کر اس کے لیے ذہنی سکون کا سامان مہیا کرتی ہے اور وہ بھی گھر اور بچوں کے دن بھر کے حالات شوہر سے بیان کرتی ہے اور پھر اس طرح سے پیار ومحبت کے جذبات کے تبادلہ کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے لیے سامان راحت وسکون بن جاتے ہیں جو کہ ازدواجی زندگی کا اصل مقصد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ) (الروم:۳۰؍۲۱)
’’ اور اس ( اللہ تعالیٰ) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم لوگوں کے لیے تمہاری جانوں سے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تم کو وہاں سکون ملے اور تمہارے درمیان پر خلوص محبت ورحمت کے جذبات بنائے۔‘‘
ایک دوسری جگہ میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے پوشاک کی حیثیت دیتے ہوئے فرمایا:
(ہن لباس لکم وانتم لباس لہن) (البقرہ:۲؍۱۸۷)
’’وہ تمہاری بیویاں تمہارے لیے پوشاک ہیں اور تم ان کے لیے پوشاک ہو‘‘
شوہر اور بیوی کے درمیان محبت والفت اور ایک دوسرے سے قربت اور یگانگت اور دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی طرف جو حاجت ہے اس کو بیان کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی ہے۔
علامہ اقبال نے عورت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سوز سے ہے زندگی کا ساز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
رات کی خاموش تاریکیوں میں ازدواجی زندگی کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے پر پابندی لگانا انسان کی کمزور طبیعت کے سامنے انتہائی مشکل امر تھا، اس لیے ابتدائے اسلام میں رمضان کے مقدس مہینہ کی راتوں میں جب اس پر جزوی پابندی لگی تو یہ حکم انسانی طبیعت پر بڑا شاق گزرا اور خلاف ورزیاں ہونے لگیں۔
شریعت نے انسان کی اس فطری کمزوری کے پیش نظر ساری پابندی اٹھالی اور اعلان کر دیا کہ اب دونوں کو یہ حق ہے کہ رات کے جس وقت چاہیں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اعتکاف کی حالت میں نہ ہوں۔
اس سلسلہ میں ذرا قرآنی بیان ملاحظہ فرمائیں، ارشاد ہے:
( احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم ہن لباس لکم وانتم لباس لہن علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم وعفاعنکم فالان باشروہن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل ولا تباشروہن وانتم عاکفون فی المساجد تلک حدود اللہ فلا تقربوہا کذالک یبین اللہ آیاتہ للناس لعلہم یتقون) (البقرۃ:۲؍۱۸۷)
’’تمہارے لیے روزے کی رات میں قضائے شہوت کی خاطر تمہاری اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا وہ تمہارے حق میں پوشاک ہیں اور تم ان کے حق میں پوشاک ہو اللہ نے جانا کہ تم سے پابندی نباہی نہیں جارہی تھی لہذا اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی اور تم کو معاف کردیا اور وہی چاہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کے وقت کی سفیدی سیاہی سے نکل کر نمودار ہو جائے، اور پھر اس وقت سے رات آنے تک روزہ کو نباہو اور یادرہے تم لوگ اپنی عورتوں سے اس حال میں لطف اندوز نہ ہونا جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو، یہ سب اللہ کے متعین کردہ پابندیاں ہیں لہذا ان کے قریب بھی نہ جاؤ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگو ں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ متقی بن جائیں۔‘‘
اسلامی شریعت نے انسان کے اس فطری تقاضے کو مد نظر رکھ کر دونوں کو ایک دوسرے کے احساسات وجذبات کا پاس ولحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور جذبات کی ناقدری پر شدید وعید سنائی ہے۔
چنانچہ صحیح حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:(إذا دعا الرجل امراتہ الی فراشہ فلم تاتہ فبات غضبان علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح) (متفق علیہ)
’’اگر مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلایا، پھر وہ ا س کے پاس نہیں آئی، اس کے بعد شوہر نے اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دی تو فرشتے ایسی عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: (اذا باتت المراۃ ہاجرۃ فراش زوجہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح)
’’ اگر عورت نے اپنے شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گزار دی تو فرشتے اس پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں آپ نے قسم کھا کر فرمایا:
(والذین نفسی بیدہ ما من رجل یدعو امراتہ الی فراشہ فتابی علیہ الا کان الذی فی السماء ساخطا علیہا حتی یرضی عنہا) (متفق علیہ)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی بھی اگر اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر وہ انکار کردے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے اس عورت پر اس وقت تک ناراض رہے گی جب تک کہ شوہر اپنی بیوی سے راضی نہ ہو جائے۔‘‘
اس طرح کی اور بھی احادیث ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شریعت نے انسان کے اس طرح کے فطری احساسات وجذبات اور تقاضائے بشریت کو کتنی اہمیت دی ہے۔
بعض روایات کے مطابق انسان کے ان فطری تقاضوں کو پورا کرنے کو نفلی عبادتوں پر ترجیح دی گئی ہے اسی لیے کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزے رکھے، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: (لا یحل لامراۃ ان تصوم وزوجہا شاہد الا باذنہ ولا تاذن فی بیتہ الا باذنہ) (متفق علیہ)
’’ کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ روزے سے رہے اور اس کا شوہر موجود ہو، الا یہ کہ اس کی اجازت ہو اور نہ اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے جب تک اس کی اجازت نہ ہو۔‘‘
اگر ایک طرف عورت کو اپنے مرد کے جذبات واحساسات کی قدردانی کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طرف شوہر کو بھی اپنی بیوی کے تئیں اسی طرح کا معاملہ کرنے کا حکم ہے چنانچہ اس پر واجب ہے کہ وہ عورت کے احساسات وجذبات کی قدردانی کرے، اور اس کے بھی فطری تقاضوں کو پورا کرے اور اگر نفلی عبادت میں کثرت سے انہماک عورت کے حقوق کی ادائیگی میں مانع تو اسے ترک کرکے عورت اور بچوں کے حقوق کو نباہنے کو ترجیح دے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’بلغنی انک تصوم النہار وتقوم اللیل فلا تفعل فان لجسدک علیک حقا ولعینک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا‘‘ (بخاری ومسلم)
’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تمہارے اوپر حق ہے۔
بعض روایات کے مطابق آپ نے حکم دیا کہ تم روزہ بھی رہو اور افطار بھی کرو اور سوؤ بھی اور قیام بھی کرو۔
نبی کریم ﷺ نے ایسی نفلی عبادت کو پسند نہیں فرمایا جس سے بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں خلل آتا ہو اور ان کا حق مارا جاتاہو۔ اور اگر اس صورت حال میں نفلی عبادت کو پسندنہیں فرمایا تو پھر ایسی دنیاوی مشغولیت بدرجۂ اولیٰ ناپسندیدہ ہوگی جس کی وجہ سے اہل وعیال کے حقوق پامال ہوتے ہوں یا ان سے لاپرواہی لازم آتی ہو۔یقیناًیہ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ آدمی اپنے دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک ہوجائے کہ بیوی بچوں کے درمیان بیٹھنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے ان کے احساسات وجذبات جاننے اور اپنے احساسات وجذبات کو ظاہر کرنے سے محروم ہوجائے۔
یہ صورت حال عائلی زندگی کے لیے ایک صدمہ سے کم نہیں ہے اس لیے انسان کو اپنے روز مرہ کے مشاغل میں سے اگر بہت بڑی مجبوری نہ ہو تو تھوڑا بہت وقت ان کے بیچ گزارنا چاہئے، ان کو زندگی کے اپنے مفید تجربات سکھانے چاہئے ان کی زندگی میں خوشی ومسرت کی فضا بنانی چاہئے۔
بسا اوقات بیوی یا شوہر کو زبانی مفید قسم کے تاریخی اور ادبی قصوں اور لطیفوں کے ذکر سے گھر کے ماحول کو پر لطف بنانا چاہئے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں کبھی کبھی اس طرح کا سماں ہوتا تھا۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک نہایت ہی پر لطف حکایت بیان کی جس سے نبی کریم ﷺ محظوظ ہوئے، آخر میں آپ نے اس پر اپنے ظریفانہ جذبات کا اظہار بھی فرمایا جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی اور ہمت افزائی مقصود تھی۔
یہ قصہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ دیگر احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے طوالت کے خوف سے اس قصہ کا بامحاورہ ترجمہ درج ذیل ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ:
گیارہ عورتیں مل کر بیٹھیں اور آپس میں انہوں نے یہ عہد وپیمان کیا کہ وہ اپنے اپنے شوہروں کے متعلق کچھ بھی نہیں چھپائیں گی، یعنی سب کچھ اس نشست میں بیان کردیں گی۔
چنانچہ پہلی عورت بولی:میرا شوہر دبلا پتلا اونٹ کا ایسا گوشت ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو جہاں چڑھ کر جانا آسان نہیں ہے اور نہ ہی اتنا فربہ ہے کہ وہاں جانے کا تکلف کیا جائے۔ یعنی اتنا ناتواں ولا غر ہے کہ جس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دوسری بولی:میں اپنے شوہر کی خبریں نہیں بتاؤں گی مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کو تکمیل تک نہ پہنچا سکوں، کیوں کہ وہ بہت لمبی ہیں، اگر انہیں ذکر بھی کروں گی تو ان میں حزن والم کی داستان ہی ہوگی۔
تیسری بولی:میرا شوہر تو لمبا اور احمق ہے، اگر بولی تو مجھے طلاق ہو جائے گی، اور اگر خاموش رہی تو لٹکی رہوں گی، یعنی نہ شوہر والی ہونے کا احساس ہے نہ مطلقہ ہونے کا۔
چوتھی بولی:میرا شوہر وادی تہامہ کی رات کے مانند ہے نہ گرم ہے نہ ٹھنڈا، نہ باعث خوف نہ باعث اکتاہٹ، یعنی متوسط قسم کا آدمی ہے ، جو کسی حد تک قابل تعریف ہی ہے۔
پانچویں بولی: میرا شوہر جب گھر کے اندر ہوتا ہے تو تندوا ہوتا ہے، اور جب گھرسے نکلتا ہے تو شیر ہوتا ہے، اور جو رکھنے کو دیتا ہے اس کے متعلق پوچھتا ہی نہیں ہے۔ گویا ایک طرح قابل تعریف ہے۔
چھٹی بولی: میرا شوہر اگر کھانا کھاتا ہے تو پورا ہی چٹ کر جاتا ہے اور اگر پیتا ہے تو آخری قطرہ تک پی جاتا ہے اور جب لیٹتا ہے تو چادر سے لپٹ کر سو جاتا ہے اور ہاتھ بھی نہیں ملاتا ہے کہ وہ ہمارے جذبات کو جان سکے۔ گویا اپنے شوہر کی مذمت کر رہی ہے۔
ساتویں بولی: میرا شوہر مکمل احمق اور بے مقصد انسان ہے، ہر بیماری اس کی بیماری ہے (یعنی ہر طرح کا عیب اس میں ہے) کچھ پتہ نہیں وہ مار کے سرپھوڑدے گا یا زخمی کر دے گا یا سب کچھ کر بیٹھے گا۔ یعنی انتہائی ظالم۔
آٹھویں بولی: میرا شوہر چھونے میں خرگوش جیسا نرم وملائم ہے اور خوشبو میں زعفران جیسی مہک والا ہے۔ یعنی بہت نرم خواور اچھے اخلاق والا ہے۔
نوویں بولی: میرا شوہر لمبے ستونوں والا ہے، اور اونچی نیاموں والا ہے، اور بڑی راکھوں والا ہے، قبیلہ کی اجتماعی مجلس سے اس کا گھر قریب ہے یعنی بہت دل دار اور سخی ہے۔
دسویں بولی: میرا شوہر مالک ہے اور مالک کیا چیز ہے اس کے شوہر سے اچھا ہے اس کے پاس ایسے اونٹ ہیں جنہیں باڑوں کی ضرورت زیادہ ہے اور چراگاہوں کی ضرورت کم ہے اور جب انہیں باجے کی آواز سنائی پڑی تو اپنے قربان کیے جانے کا یقین ہو گیا یعنی بہت اچھا میزبان ہے مہمانوں کی ضیافت کے لیے اونٹوں کو کسی بھی وقت ذبح کرنے کی خاطر باڑے میں باندھ کر رکھتا ہے۔
گیارہویں بولی:میرا شوہر ابو زرع ہے۔ ابو زرع کیا انسان ہے! اس نے میرے کانوں کو زیورات سے بوجھل کردیا اور میرے بازؤں کو موٹاپے سے بھردیا اور مجھے خوش کردیا پھر میں اپنے میں مگن بھی ہو گئی، مجھے چند بکریوں کے مالک گھرانے میں پایا، جہاں زندگی بڑی مشکل تھی، پھر مجھے گھوڑے، اونٹ،بیل، مرغی اور کھیتی باڑی کے مالک گھرانے میں لا بسایا، جو عربی گھوڑے کی سواری کرتا تھا اور نیزہ اپنے پاس رکھتا تھا، اس نے اپنے کروفر سے مجھے مالا مال کردیا اور ہر قسم کی خوشبوؤں کا جوڑا عطا کیا، اور بولا:
ام زرع تم خودبھی کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاؤ، یہ خاتون( اپنے پہلے شوہر کو یاد کرتے ہوئے) کہتی ہے: اگر میں وہ سب کچھ جمع کرتی جو اس نے ہمیں دیا تو بھی ابو زرع کے سب سے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا: میں تمہارے لیے ویسے ہی ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا، لیکن میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا جس طرح ابو زرع نے ام زرع کو دے دی تھی۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر۵۱۹۸)
اس حدیث سے نبی کریم ﷺ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ گفتگو میں ظرافت کا پہلو اختیار کرنا ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا) (الاحزاب:۳۳؍۴۱)
یقیناًتم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول کے اندر بہترین اسوہ ہے تم میں سے جو لوگ اللہ سے اور یوم آخرت سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔‘‘
***
اخلاقی بحران کی انتہا:مولانا محمد مظہر الاعظمی-Jan-2010
اخلاقی بحران کی انتہا
مولانا محمد مظہر الاعظمی
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ۔مؤ
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ۔مؤ
ہندوستان کی سرزمین ادیان ومذاہب کی سرزمین ہے اور تمام ادیان ومذاہب اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ومتفق ہیں،اس لئے کسی غیر اخلاقی فعل کو قانونی حیثیت دینے کا تصور سو فیصد ہندوستانیوں کے عقیدہ ومذہب کے ساتھ کھیلواڑ کرنے اور ان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے ۔
ملک اور معاشرے کی بقاوتحفظ بھی اخلاقی تعلیم میں مضمر ہے،جہاں کے لوگ اخلاقیات سے عاری ہوجاتے ہیں ،وہ معاشرہ اور ملک کھوکھلا اور دیوالیہ ہوجاتا ہے ،پھر اسے تاریخ کا قصہ پارینہ بننے سے مادی طاقتیں نہیں روک سکتیں،عصر حاضر میں مختلف ممالک کی صورت حال اور مثال ہمارے سامنے ہے،جو مادی اور نیوکلیائی اعتبار سے خود کو جتنی بھی مضبوط سمجھتی ہوں مگر اندرونی طور پر صورت حال حد درجہ ناگفتہ بہ ہے ،جس کا نتیجہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ لوٹ کر اخلاقی ماحول کی طرف جانا چاہتا ہے اور موجودہ غیر اخلاقی کردار وعمل سے پناہ چاہ رہا ہے ۔ماھنامہ صراط مستقیم برمنگھم دسمبر ۲۰۰۹ ء کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’ آج کا انسان جسمانی اور نفسیاتی امراض میں گھر گیا ہے ،یہ بیماریاں ان معاشروں میں بکثرت پائی جاتی ہیں جو مادیت میں غرق ہیں اور فضائل واخلاق سے بہت دور ہیں ،وہاں ایڈز ،منشیات کی لت ،دل کا دورہ اور شوگر جیسی بیماریاں عام ہورہی ہیں ،ایک جائزہ کے مطابق دس فیصد امریکی عوام نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں ،پچاسی فیصد لوگ ذہنی ودماغی الجھنوں کا شکار ہیں اور شفاخانوں میں پچاس فیصد بیڈ ایسے مریضوں کے لئے خاص ہیں جو ذہنی ودماغی امراض میں مبتلا ہیں‘‘
مذکورہ صورت حال صرف امریکہ کی نہیں بلکہ ان تمام ملکوں کی ہے جہاں اخلاقی قدریں پامال ہوچکی ہیں اور مادیت کی قبروں میں روحانیت کو دفن کر دیا گیا ہے ،وہاں کے عوام امراض خبیثہ کے ساتھ بری طرح ذہنی ودماغی بے چینی اور تناؤ میں مبتلا ہیں۔
جوممالک اخلاقیات سے عاری ہوکر اپنا معاشرہ تباہ کرچکے ہیں اور اب موجودہ تباہ شدہ ماحول سے پناہ مانگ رہے ہیں جیسا کہ مختلف سروے رپورٹ اور مذکورہ اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے ،ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ معاشرے صبح وشام کی طرح نہیں بدلتے ،بلکہ ماہ وسال سے بھی اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ،معاشرے جس طرح بگڑتے بگڑتے بگڑتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مدت میں بنتے بنتے بنتے ہیں ،دونوں کے لئے مدت درکار ہوتی ہے ،اگر ان ممالک میں موجودہ نسلوں کی تعمیر اخلاقی بنیادوں پر ابھی شروع کردی جائے توان شاء اللہ جب یہ نسل اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی توملک بھی اخلاقی تعلیمات سے مزین ہوگا۔
اخلاقیات سے عاری تباہ شدہ معاشرے کی موجودہ صورت حال بصارت وبصیرت رکھنے والوں کو دعوت عبرت دے رہی ہے ،جس طرح امم سابقہ کے کھنڈر چیخ چیخ کر فاعتبروا یا أولی الأبصار کا دل نشین درس دے رہے ہیں ۔
اقوام عالم کے کھنڈرہوں یا تاریخ کے اوراق وہ اسی لئے تو باقی رکھے گئے ہیں یا کتابوں میں محفوظ کئے گئے ہیں کہ اسی کی روشنی میں مستقبل کے خطوط متعین کئے جائیں ،جس پر چل کر کامیاب زندگی گزاری جاسکے ،مگر افسوس کہ ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ بجائے عبرت حاصل کرنے کے انھیں کردار وعمل کی تقلید پر آمادہ ہیں جن کے نتائج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
راشٹریہ سہارا گورکھپور ۱۱؍دسمبر ۲۰۰۹ ء کے صفحہ گیارہ پر ایک سرخی ہے ’’سپریم کورٹ نے حکومت سے پوچھا ،جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے؟‘‘ اور خبر اس طرح ہے کہ: ’’ سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر وہ جسم فروشی پر قابو پانے میں ناکام ہے تو اسے قانونی طور پر کیوں نہ جائز قرار دے دیا جائے‘‘۔
جسٹس دلبیر بھنڈاری اور اے کے پٹنائک کی بنچ نے سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم سے کہا ہے کہ آپ اسے دنیا کا سب سے پرانا پیشہ بتاتے ہیں ،ساتھ ہی اس پر قانوناً روک بھی لگانے ،سیکس ورکروں کی بازآبادکاری اور انھیں طبی سہولیات مہیا کرانے میں معذوری ظاہر کرتے ہیں ،بنچ نے کہا ہے کہ خواتین کی تسکری کو روکنے کا سب سے اچھا متبادل یہ ہوگا کہ اس پیشہ کو قانونی جامہ پہنا دیا جائے،عدالت نے کہا کہ اس کاروبار کو قانونی قرار دئے جانے سے اس پر نگرانی رکھنے کے ساتھ جسم فروشوں کی بازآبادکاری میں بھی مدد ملے گی‘‘
بد اخلاقی کے نتائج دیکھنے کے باوجود اسے قانونی طور پر جائز قرار دئے جانے کی بات ،دنیا کے ہر مذہبی اور اخلاق پسند آدمی کو تڑپا دینے والی ہے،نیز یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کیا اب انسان انسانی قدروں کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا،اور اگر اسی طرح انسانی قدروں کو پامال کرتا رہا تو کیا انسان اور حیوان کا فرق باقی رہیگا۔کیونکہ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ انسان اخلاقی قدروں کا احترام کرکے فرشتہ صفت بن جاتا ہے بلکہ بسا اوقات فرشتوں سے بھی آگے پرواز کرجاتا ہے
افلاک سے ہے اس کو حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
بر خلاف اس کے انھیں قدروں کو پامال کرکے انسان جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے جیساکہ قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے (أولئک کالأنعام بل ہم أضل أولئک ہم الغافلون)( الاعراف۱۷۹)
مذکورہ آیت میں انسان اور حیوان کی اخلاقی قدروں کے فرق کو بیان کرنے کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سطح اور معیار کے مطابق رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا دائرہ کار بھول جائے اور اس دائرہ میں قدم رکھ دے جو اس کی سطح اور معیار سے بہت نیچے ہے یہانتک کہ وہی سب کچھ کرنے لگے جو حیوان کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کا حکومت سے پوچھنا کہ ’’جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے‘‘ انسان کا اپنے معیار سے اتر کر حیوانیت کے دائرہ میں داخل ہونے کے مترادف ہے ،اور اس کے جواز کے لئے یہ کہنا کہ جب حکومت جسم فروشی پر کنٹرول کرنے میں معذور ہے تو قانوناً جائز قرار دے ،قانون شکنی کرنے اور اس کی دھجی اڑانے کی تعلیم دینا ہے ،جس کے بعد قانون اور اصول صرف کتابوں میں ہوگا ،جو کتب خانوں کی زینت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
حکومت کا کسی غیر قانونی اعمال وکردار پر کنٹرول کرنے میں معذوری ظاہرکرنا اپنی ظاہری وباطنی کمزوری کا اظہار کرنا ہے ،جس سے لاقانونیت کا رجحان فروغ پائیگا اور اس قسم کے رجحان کے فروغ کے بعد ملک کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ،اس لئے ملک کے اس طبقہ کو جس کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے کسی بات کو کہنے اور کسی قانون کو بنانے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کے نتائج اور اثرات کیا مرتب ہوں گے۔
یہاں فطری طور پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس جرم پر کنٹرول مشکل ہو اسے قانون بناکر جائز قرار دے دیا جائے اور اس فعل کے مجرمین کو ارتکاب جرم کا موقع فراہم کیا جائے،اگر ایسا ہے تو پھر قانون اور عدالتوں کا کیا مطلب ہوگا،اگر ایسا کرنا ہے تو پھر قانون کی تمام کتابوں کو عدالتوں میں نذر آتش کرکے عدالتوں کی عمارت کو انسان وحیوان کے تصرف کے لئے کھول دینا چاہئے۔
دہشت گردی جو دن بدن بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود اس پر کنٹرول کرنے میں مجبور ولاچار نظر آتی ہے کیا کل اسے بھی قانونی حیثیت دینے کی بات کی جائے گی اور اس کے لئے حکومت کی مجبوری کو پیش کیا جائیگا،یہ بات صرف جسم فروشی اور دہشت گردی تک محدود نہیں ہے بلکہ ڈھیر سارے مسائل ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے ،خاص طور پر رشوت جس کا دائرہ کار سب سے زیادہ وسیع ہے اور جس کی زد میں تقریباً تمام طبقے آتے ہیں اگر سپریم کورٹ اسے قانونی حیثیت دینے کی بات حکومت سے پوچھے تو لفظاً شاید نکیر کا اظہار کیا جائے مگر عملاً تو اس کی ہر طرح تائید موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ رشوت کو لفظاً قانونی حیثیت حاصل نہ ہونے کے باوجود عملاً قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہر محکمہ میں اس پر صد فیصد عمل بھی ہو رہا ہے۔
خدا نہ خواستہ اگر حکومت نے جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کے متعلق سوچابھی تو پورے ملک میں کہرام مچ جائیگا کیونکہ اس قدر مذہب بیزاری کے باوجود ہندوستانیوں کے دل میں روحانیت کا عنصر دل کے کسی نہ کسی کونے میں موجود ہے ،جو اس بد اخلاقی کو گوارا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کے لئے خاموش بیٹھ سکتاہے۔
ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب اور مغرب کی بداخلاقی کے ثمرات ونتائج کی روشنی میں سوچنا چاہئے اور اس کے خطرات سے تحریر وتقریر کے ذریعہ عوام وخواص کو حتی المقدور باخبر کرنا چاہئے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق بخشے(آمین) ۔
ملک اور معاشرے کی بقاوتحفظ بھی اخلاقی تعلیم میں مضمر ہے،جہاں کے لوگ اخلاقیات سے عاری ہوجاتے ہیں ،وہ معاشرہ اور ملک کھوکھلا اور دیوالیہ ہوجاتا ہے ،پھر اسے تاریخ کا قصہ پارینہ بننے سے مادی طاقتیں نہیں روک سکتیں،عصر حاضر میں مختلف ممالک کی صورت حال اور مثال ہمارے سامنے ہے،جو مادی اور نیوکلیائی اعتبار سے خود کو جتنی بھی مضبوط سمجھتی ہوں مگر اندرونی طور پر صورت حال حد درجہ ناگفتہ بہ ہے ،جس کا نتیجہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ لوٹ کر اخلاقی ماحول کی طرف جانا چاہتا ہے اور موجودہ غیر اخلاقی کردار وعمل سے پناہ چاہ رہا ہے ۔ماھنامہ صراط مستقیم برمنگھم دسمبر ۲۰۰۹ ء کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’ آج کا انسان جسمانی اور نفسیاتی امراض میں گھر گیا ہے ،یہ بیماریاں ان معاشروں میں بکثرت پائی جاتی ہیں جو مادیت میں غرق ہیں اور فضائل واخلاق سے بہت دور ہیں ،وہاں ایڈز ،منشیات کی لت ،دل کا دورہ اور شوگر جیسی بیماریاں عام ہورہی ہیں ،ایک جائزہ کے مطابق دس فیصد امریکی عوام نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں ،پچاسی فیصد لوگ ذہنی ودماغی الجھنوں کا شکار ہیں اور شفاخانوں میں پچاس فیصد بیڈ ایسے مریضوں کے لئے خاص ہیں جو ذہنی ودماغی امراض میں مبتلا ہیں‘‘
مذکورہ صورت حال صرف امریکہ کی نہیں بلکہ ان تمام ملکوں کی ہے جہاں اخلاقی قدریں پامال ہوچکی ہیں اور مادیت کی قبروں میں روحانیت کو دفن کر دیا گیا ہے ،وہاں کے عوام امراض خبیثہ کے ساتھ بری طرح ذہنی ودماغی بے چینی اور تناؤ میں مبتلا ہیں۔
جوممالک اخلاقیات سے عاری ہوکر اپنا معاشرہ تباہ کرچکے ہیں اور اب موجودہ تباہ شدہ ماحول سے پناہ مانگ رہے ہیں جیسا کہ مختلف سروے رپورٹ اور مذکورہ اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے ،ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ معاشرے صبح وشام کی طرح نہیں بدلتے ،بلکہ ماہ وسال سے بھی اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ،معاشرے جس طرح بگڑتے بگڑتے بگڑتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مدت میں بنتے بنتے بنتے ہیں ،دونوں کے لئے مدت درکار ہوتی ہے ،اگر ان ممالک میں موجودہ نسلوں کی تعمیر اخلاقی بنیادوں پر ابھی شروع کردی جائے توان شاء اللہ جب یہ نسل اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی توملک بھی اخلاقی تعلیمات سے مزین ہوگا۔
اخلاقیات سے عاری تباہ شدہ معاشرے کی موجودہ صورت حال بصارت وبصیرت رکھنے والوں کو دعوت عبرت دے رہی ہے ،جس طرح امم سابقہ کے کھنڈر چیخ چیخ کر فاعتبروا یا أولی الأبصار کا دل نشین درس دے رہے ہیں ۔
اقوام عالم کے کھنڈرہوں یا تاریخ کے اوراق وہ اسی لئے تو باقی رکھے گئے ہیں یا کتابوں میں محفوظ کئے گئے ہیں کہ اسی کی روشنی میں مستقبل کے خطوط متعین کئے جائیں ،جس پر چل کر کامیاب زندگی گزاری جاسکے ،مگر افسوس کہ ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ بجائے عبرت حاصل کرنے کے انھیں کردار وعمل کی تقلید پر آمادہ ہیں جن کے نتائج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
راشٹریہ سہارا گورکھپور ۱۱؍دسمبر ۲۰۰۹ ء کے صفحہ گیارہ پر ایک سرخی ہے ’’سپریم کورٹ نے حکومت سے پوچھا ،جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے؟‘‘ اور خبر اس طرح ہے کہ: ’’ سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر وہ جسم فروشی پر قابو پانے میں ناکام ہے تو اسے قانونی طور پر کیوں نہ جائز قرار دے دیا جائے‘‘۔
جسٹس دلبیر بھنڈاری اور اے کے پٹنائک کی بنچ نے سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم سے کہا ہے کہ آپ اسے دنیا کا سب سے پرانا پیشہ بتاتے ہیں ،ساتھ ہی اس پر قانوناً روک بھی لگانے ،سیکس ورکروں کی بازآبادکاری اور انھیں طبی سہولیات مہیا کرانے میں معذوری ظاہر کرتے ہیں ،بنچ نے کہا ہے کہ خواتین کی تسکری کو روکنے کا سب سے اچھا متبادل یہ ہوگا کہ اس پیشہ کو قانونی جامہ پہنا دیا جائے،عدالت نے کہا کہ اس کاروبار کو قانونی قرار دئے جانے سے اس پر نگرانی رکھنے کے ساتھ جسم فروشوں کی بازآبادکاری میں بھی مدد ملے گی‘‘
بد اخلاقی کے نتائج دیکھنے کے باوجود اسے قانونی طور پر جائز قرار دئے جانے کی بات ،دنیا کے ہر مذہبی اور اخلاق پسند آدمی کو تڑپا دینے والی ہے،نیز یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کیا اب انسان انسانی قدروں کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا،اور اگر اسی طرح انسانی قدروں کو پامال کرتا رہا تو کیا انسان اور حیوان کا فرق باقی رہیگا۔کیونکہ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ انسان اخلاقی قدروں کا احترام کرکے فرشتہ صفت بن جاتا ہے بلکہ بسا اوقات فرشتوں سے بھی آگے پرواز کرجاتا ہے
افلاک سے ہے اس کو حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
بر خلاف اس کے انھیں قدروں کو پامال کرکے انسان جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے جیساکہ قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے (أولئک کالأنعام بل ہم أضل أولئک ہم الغافلون)( الاعراف۱۷۹)
مذکورہ آیت میں انسان اور حیوان کی اخلاقی قدروں کے فرق کو بیان کرنے کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سطح اور معیار کے مطابق رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا دائرہ کار بھول جائے اور اس دائرہ میں قدم رکھ دے جو اس کی سطح اور معیار سے بہت نیچے ہے یہانتک کہ وہی سب کچھ کرنے لگے جو حیوان کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کا حکومت سے پوچھنا کہ ’’جسم فروشی کو کیوں نہ قانوناً جائز قرار دے دیا جائے‘‘ انسان کا اپنے معیار سے اتر کر حیوانیت کے دائرہ میں داخل ہونے کے مترادف ہے ،اور اس کے جواز کے لئے یہ کہنا کہ جب حکومت جسم فروشی پر کنٹرول کرنے میں معذور ہے تو قانوناً جائز قرار دے ،قانون شکنی کرنے اور اس کی دھجی اڑانے کی تعلیم دینا ہے ،جس کے بعد قانون اور اصول صرف کتابوں میں ہوگا ،جو کتب خانوں کی زینت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
حکومت کا کسی غیر قانونی اعمال وکردار پر کنٹرول کرنے میں معذوری ظاہرکرنا اپنی ظاہری وباطنی کمزوری کا اظہار کرنا ہے ،جس سے لاقانونیت کا رجحان فروغ پائیگا اور اس قسم کے رجحان کے فروغ کے بعد ملک کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ،اس لئے ملک کے اس طبقہ کو جس کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے کسی بات کو کہنے اور کسی قانون کو بنانے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کے نتائج اور اثرات کیا مرتب ہوں گے۔
یہاں فطری طور پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس جرم پر کنٹرول مشکل ہو اسے قانون بناکر جائز قرار دے دیا جائے اور اس فعل کے مجرمین کو ارتکاب جرم کا موقع فراہم کیا جائے،اگر ایسا ہے تو پھر قانون اور عدالتوں کا کیا مطلب ہوگا،اگر ایسا کرنا ہے تو پھر قانون کی تمام کتابوں کو عدالتوں میں نذر آتش کرکے عدالتوں کی عمارت کو انسان وحیوان کے تصرف کے لئے کھول دینا چاہئے۔
دہشت گردی جو دن بدن بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور حکومت اپنے تمام دعووں کے باوجود اس پر کنٹرول کرنے میں مجبور ولاچار نظر آتی ہے کیا کل اسے بھی قانونی حیثیت دینے کی بات کی جائے گی اور اس کے لئے حکومت کی مجبوری کو پیش کیا جائیگا،یہ بات صرف جسم فروشی اور دہشت گردی تک محدود نہیں ہے بلکہ ڈھیر سارے مسائل ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے ،خاص طور پر رشوت جس کا دائرہ کار سب سے زیادہ وسیع ہے اور جس کی زد میں تقریباً تمام طبقے آتے ہیں اگر سپریم کورٹ اسے قانونی حیثیت دینے کی بات حکومت سے پوچھے تو لفظاً شاید نکیر کا اظہار کیا جائے مگر عملاً تو اس کی ہر طرح تائید موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ رشوت کو لفظاً قانونی حیثیت حاصل نہ ہونے کے باوجود عملاً قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہر محکمہ میں اس پر صد فیصد عمل بھی ہو رہا ہے۔
خدا نہ خواستہ اگر حکومت نے جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کے متعلق سوچابھی تو پورے ملک میں کہرام مچ جائیگا کیونکہ اس قدر مذہب بیزاری کے باوجود ہندوستانیوں کے دل میں روحانیت کا عنصر دل کے کسی نہ کسی کونے میں موجود ہے ،جو اس بد اخلاقی کو گوارا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کے لئے خاموش بیٹھ سکتاہے۔
ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب اور مغرب کی بداخلاقی کے ثمرات ونتائج کی روشنی میں سوچنا چاہئے اور اس کے خطرات سے تحریر وتقریر کے ذریعہ عوام وخواص کو حتی المقدور باخبر کرنا چاہئے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق بخشے(آمین) ۔
حدود مزدلفہ:ترجمہ:شیخ ابو فوزان المدنیؔ Jan-2010
حدود مزدلفہ
تحریر:شیخ عبدالعزیز احمد محسن الترکی
ترجمہ:شیخ ابو فوزان المدنیؔ
ترجمہ:شیخ ابو فوزان المدنیؔ
عبداللہ بن عمر سے مروی ان دونوں آثار میں اس امر کی صریح اور صاف دلیل موجود ہے کہ مشعر حرام(مزدلفہ) عرفات سے کوچ کرنے اور وہاں سے نکلنے کے فورا بعد شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی خطہ حرم کا آغاز ہوتا ہے بغیر کسی مسافتی فاصلے کے مزدلفہ کی سرزمین شروع ہوجاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ وادی عرنہ کا حصہ دونوں کے مابین حد فاصل تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
ان دونوں آثار سے اس امرپر دلالت کی چند صورتیں ہیں
استدلال کی پہلی صورت: پہلے اثر میں عمروبن میمون کا یہ فرمان کہ ’’سواریوں کے اگلے پاؤں قریبی پہاڑیوں کے نشیب میں واقع ہوئے‘‘ ’’أدنی‘‘ اقرب کے معنی میں ہے یہ قرب ونزدیکی عرفات سے نکلنے والے متکلم سے متعلق ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کے قول(إذ أنتم بالعدوۃ الدنیا وھم بالعدوۃ القصویٰ والرکب أسفل منکم)۔کی طرح ہے۔
بروزبدر جب مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالاتو صحرائے بدر کے قریبی چھور پر تھے۔اور یہ قرب مدینہ سے آنے والے کے تعلق سے تھا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا:فالدنیا مما یلی المدینۃ والقصویٰ ممایلی مکۃ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عمرو بن میمون کا یہ قول ’’فی أدنی الجبال‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عرفات سے نکلنے والے کے تعلق سے جو قریبی پہاڑی سلسلہ ہے۔
اس کی تائید دوسرے اثر میں وارد لفظ ’’وکنافی أقصیٰ الجبال مما یلی عرفات‘‘ سے ہوتی ہے ۔
جب یہاں کلمہ ’’اقصیٰ‘‘ استعمال کیا۔تو اس وجہ سے کہ اس سے ’’عرفہ سے دور کی پہاڑیوں کے کنارے جو منی اور مکہ کے قریب ہیں‘‘ نہ سمجھ لیا جائے، متکلم نے’’ممایلی عرفات‘‘کا اضافہ کردیا، یعنی پہاڑیوں کے وہ کنارے جو خود عرفات کی جانب ہیں اور اس سے قریب ہیں۔ اس سے پہاڑی سلسلے کے وہ اطراف وجوانب مرادہیں جو عرفات سے نکلنے والے کے سامنے اور متصل اور قریب ہوتے ہیں۔
قدرتی طور پر یہ بات معلوم ہے کہ عرفات سے بوقت کوچ نکلنے والے کا رخ مشرق سے مغرب کی سمت ہوتا ہے جیسے ہی وہ حدود عرفات سے باہر نکلتا ہے اور وادی عرنہ کا نشیب پار کرتا ہے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اس کے بالکل سامنے ہوتی ہیں جن کے اطراف و جوانب وادی کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر اور ان کے ساتھیوں نے جس وقت وادی کو پار کیا اور ان کی سواریاں ان پہاڑیوں کے اطراف وجوانب کے پاس پہونچیں اسی وقت ابن عمر نے عمر وبن میمون سے کہا کہ مشعر حرام کے متعلق پوچھنے اور استفسار کرنے والا کہاں ہے؟اس نے کہا ہاں میں موجود ہوں آپ نے فرمایا کہ تم اس میں داخل ہوچکے ہویا تم اس میں دخول شروع کرچکے ہو ۔
استدلال کی دوسری صورت: المشعر الحرام کا لفظ دو وصف کا جامع ہے، ایک مشعر،دوسرے حرام۔ مزدلفہ مشعر ہے اور حرام یعنی وہ حرم کا حصہ ہے۔اور یہ امر معلوم ہے کہ عرفات حل ہے ،حرم نہیں ہے ،لیکن وہ ایک مشعر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے چن رکھا ہے یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی میراث ہے اور اس میں خاتم النبیین محمدﷺ نے وقوف فرمایا ہے۔
عرفات کے بعد( مزدلفہ کی جانب)وادی عرنہ واقع ہے وہ حل ہے، وہ نہ حرم ہے نہ ہی مشعر ،کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ وقوف عرفہ میں وادی عرنہ سے دور رہو ،وہاں وقوف نہ کرو۔
اس وادی عرنہ کے بعد فوراً وہ سرزمین شروع ہوجاتی ہے جو دونوں وصف’’ مشعر‘‘ اور’’ حرام‘‘ کی جامع یعنی المشعرالحرام ہے اور اسی کا فتویٰ ابن عمر نے عمروبن میمون کو دیا۔ اس پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہوجاتی ہے۔
استدلال کی تیسری صورت: صحابی رسول عبداللہ بن عمر کا عمروبن میمون سے یہ فرمانا کہ ’’أخذت فیہ‘‘ تم مشعر حرام میں آغاز کرچکے ہواس کا مطلب یہ ہوایہ اس کا اولین و ابتدائی حصہ ہے اور یہ سلسلہ حدود منیٰ تک مسلسل دراز ہے۔
استدلال کی چوتھی صورت: عمروبن میمون کا اظہار حیرت و استعجاب کہ انہوں نے اپنی حیرت اور تعجب کا اظہار ’’ماأخذتُ فیہ‘‘ کہہ کر کیا یعنی ابھی میں نے اس کا آغاز نہیں کیا اس استغراب و استعجاب کی وجہ عبداللہ بن عمر کا عرفات سے مجرد خروج کرنے اور وادی عرنہ کو پار کرنے کے ساتھ جلدی جواب دینا تھاکہ تم اب مزدلفہ میں دخول کرچکے ہو۔
وادی عرنہ طے کرنے کے بعد ہی فوری طور پر مشعر حرام کا آغاز ہوتا ہے۔اس کی تاکید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عبداللہ بن عمر مزدلفہ کے درمیان واقع ایک چھوٹی پہاڑی۔ جس کا قزح نام ہے۔ پر لوگوں کے بھیڑ بھاڑ کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔یہ بتلاتے اور اس کا فتویٰ دیتے تھے کہ مزدلفہ پورا مشعرحرام ہے جیسا کہ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔
اس سلسلے میں ان سے مروی بعض روایات اور آثار ملاحظہ ہوں:
(۱) سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ مشعر حرام پورا مزدلفہ ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۳۰۰ بسند صحیح)
(۲) عبداللہ بن عمر نے مزدلفہ میں ایک پہاڑ پر لوگوں کو ازدحام کرتے دیکھا تو آپ نے فرمایا لوگو! درحقیقت مزدلفہ پورا ہی مشعر ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۲۹۹ بسند صحیح)
(۳) ابن عمر نے لوگوں کو جبل قزح پر ازدحام کرتے دیکھا تو آپ نے کہا کہ یہ لوگ یہاں پر کس وجہ سے ازدحام کرتے ہیں جبکہ مزدلفہ کی یہ پوری جگہ مشعر ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۲۹۹)
(۴) اثر عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما
عمروبن میمون ہی سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مشعر حرام کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا کہ اگر تم ہمارے پیچھے لگے رہو تو میں تمہیں بتادوں گا کہ وہ کہاں ہے، ان کا بیان ہے کہ میں ان کے ساتھ لگا رہا، چنانچہ جب انہوں نے عرفہ سے کوچ کیا اور سواریوں نے اپنے اگلے پاؤں حرم میں رکھا انہوں نے کہا مشعر سے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ میں نے کہا وہ یہاں موجود ہے ۔ انہوں نے کہا تم اس میں داخل ہوچکے ہومیں نے کہا کہاں تک ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ تم اس میں سے باہر نکل جاؤ۔ (اخرجہ الفاکہی فی اخبارمکۃ۴؍۳۱۹۔۳۲۰ بسند صحیح)
عمرو بن میمون پر اللہ کی رحمت نازل ہو انہوں نے اس مسئلہ پر کافی اہتمام و توجہ مبذول کر رکھا، انہوں نے اس کے بارے میں عبداللہ بن عمر سے استفسار کیا جیسا کہ اس کا بیان ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں دو بارہ عبداللہ بن عمروبن العاص سے بھی استفسار کیا۔
یہ اثر بھی اس امر پر واضح دلیل ہے کہ مشعر حرام مجرد عرفات سے نکلتے اور حدود حرم میں داخل ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ہاں دونوں کے درمیان وادی عرنہ کا فاصلہ ہے جو مشعر نہیں ہے۔
اس مسئلہ پر اس اثر سے چند طریقوں سے استدلال کیا جاتا ہے:
پہلا طریقہ: ’’وضعت الرکاب أیدیھا فی الحرم‘‘ کا لفظ مسئلہ پر واضح دلیل ہے اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عرنہ سے نکلنے والا (اور عرنہ پورا حل ہے) مجرد خروج سے ہی منطقہ حرم میں داخل ہوجاتا ہے چنانچہ مشعر حرام عرفہ سے نکلتے ہی شروع ہوجاتا ہے إلا یہ کہ وادی عرنہ کو چھوڑ دیا جائے تاکہ دونوں’’ مشعر حلال‘‘ عرفہ اور’’ مشعر حرام‘‘ مزدلفہ کے درمیان قدرتی حد فاصل کا کام دے۔
دوسرا طریقہ: اثر میں وارد لفظ ’’قددخلت فیہ‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے یہ مشعر حرام میں دخول کی شروعات ہے۔
تیسرا طریقہ: جب عمرو بن میمون نے مشعر حرام کا نقطۂ آغاز جان لیا اور دونوں جلیل القدر صحابیوں سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے مطمئن ہوگئے تو ان کے سامنے یہ سوال باقی رہ گیا کہ مشعر حرام کی حد کہاں پر ختم ہوتی ہے۔
چنانچہ یہ سوال انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے کیا انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ مشعر حرام کا سلسلہ وہاں تک دراز ہے کہ تم اس سے باہر آجاؤ اور یہ امر معلوم ہے کہ وہ اس سے باہر اس وقت ہوں گے جب وہ دوسرے مشعر میں داخل ہو جائیں اور وہ منیٰ ہے۔اس طرح ہمیں مشرق سے مغرب تک طول و عرض میں مشعر حرام مزدلفہ کے حدود کی واقفیت حاصل ہوگئی۔
یعنی مزدلفہ ۔ عرفات سے خروج اور وادی عرنہ کے فوراً بعد سے شروع ہوکر حدود منیٰ تک دراز ہے۔ اسی پر ان دونوں صحابی ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو کا کلام دلالت کرتا ہے۔
۳۔اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
ایک نادر علمی مذاکرہ میں امام وفقیہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے جلیل القدر تابعی عطابن أبی رباح سے مشاعر اور ان کے حدود کے بارے میں استفسار کیا، نیز ان سے مزدلفہ کے بارے میں پوچھا؟
عطاء بن ابی رباح نے مزدلفہ کے حدود عرض وطول بیان کرنے کے لئے عبداللہ بن عباس کے قول سے استشہادکیا۔
۱۔ابن جریج نے فرمایا کہ مجھ سے عطاء بن ابی رباح نے ابن عباس سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ فرمارہے تھے ’’وادی محسر سے دور رہئے اور عرفات سے دور رہئے‘‘ (أخرج ھذالاثر الفاکہی فی اخبار مکۃ ۴؍۳۸۔ وابراہیم الحربی فی کتاب المناسک ۵۰۷ والأزرقی فی اخبار مکۃ ۲؍۱۹۳۱۹۲۔ بسند صحیح)۔
مشرق میں اس کے حدود کو ’’ارفعوا عن عرفات‘‘ کہہ کر بیان کیا۔ یعنی جب آپ عرفات سے نکل کر باہر ہوں گے مزدلفہ کی حد شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ مغرب میں وادی محسر تک دراز ہے۔ لہذا آپ نے ’’ارفعوا عن محسر‘‘ کہا۔
وادی محسر تک کا پورا حصہ زمین مشعر حرام ہے کسی بھی جگہ کا کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ نہ اس میں سے ،نہ اس میں سے۔
۴۔ اثر عبداللہ بن الزبیررضی اللہ عنہما
عبداللہ بن الزبیر سے مروی ہے آپ نے فرمایا ’’تم سب یہ جان لو کہ پورا عرفہ موقف ہے سوائے بطن عرنہ کے۔
اور تم لوگ یہ بھی جان لو کہ پورا مزدلفہ موقف ہے سوائے وادی محسر کے(أخرجہ الطبری بسند صحیح ۲؍۳۰۲)۔
اس اثر میں اسی بات کا بیان ہے جو عبداللہ بن عباس کے سابق کلام میں ہے۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ مشاعر کی تعداد تین ہے:
۱۔ عرفہ یہ مشعر ہے حرم نہیں ہے
۲۔ مزدلفہ یہ مشعر ہے اور حرم بھی اور اس کو عرفہ سے وادی عرنہ جدا اور الگ کرتا ہے، جونہ حرم ہے نہ مشعر نہ ہی وہ عرفہ کا حصہ ہے نہ مزدلفہ کا۔
۳۔ منیٰ یہ حرم ہے اور مشعر اور اس کو مزدلفہ سے وادی محسر جدا کرتی ہے جو حرم ہے مشعر نہیں ہے۔نہ ہی وہ منیٰ کا حصہ ہے نہ مزدلفہ کا۔
یہ امر باعث حیرت ہے کہ ان دنوں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ وادی محسر میں ’’مبیت‘‘ کرتے ہیںیہ سمجھ کر کہ وہ مزدلفہ ہے۔ اور اس میں مبیت کرتے ہیںیہ سمجھتے ہوئے کہ وہ منیٰ ہے۔
حالانکہ (صحیح حدیث نبوی) اور صحابہ سے منقول آثار بکثرت موجود ہیں کہ وادی محسرسے الگ رہنا چاہئے نہ وہاں مزدلفہ کی شب گذاری درست ہے نہ ہی منیٰ کا قیام۔
اور وہ مزدلفہ کی وسیع و عریض زمین مہمل ،بیکار اور غیر آباد چھوڑے رکھتے ہیں جو عرفات کی جانب واقع ہے۔ جب کہ صحابہ کرام کے مذکورہ نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں وہ مشعر حرام یعنی مزدلفہ ہی ہے۔
۵۔ اثر جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ
جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میرا اونٹ گم ہوگیا تھا میں عرفہ کے دن اس کو ڈھونڈنے نکلا۔ میں نے نبی ﷺ کو عرفہ میں وقوف کی حالت میں دیکھا۔ میں نے کہا:یہ شخص اللہ کی قسم حمس میں سے ہے یعنی قریشی ہے وہ آخر یہاں اس جگہ کیوں ہے؟ (أخرجہ البخاری مع ۷؍۳۱۸)
حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں :
اسماعیلي کی روایت میں عثمان بن ابی شیبہ اور ابن ابی عمر کے طریق سے مروی ہے جس میں دونوں سفیان بن عیینہ سے روایت کرتے ہیں۔اس میں یہ لفظ وارد ہے ’’فمالہ خرج من الحرم؟‘‘ اس شخص کو کیا ہوگیا کہ وہ حرم سے باہر یعنی حل میں آگیا ؟ سفیان کا بیان ہے کہ حمس سے مراد قریش ہے اور قریش (جاہلیت میں حج کے وقت)حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔اور کہتے تھے کہ ہم ’’اہل اللہ‘‘ ہیں۔ہم حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ بقیہ تمام لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔
جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: قریش مزدلفہ سے کوچ کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم حمس ہیں ہم حرم سے باہر نہیں نکلیں گے۔ انہوں نے عرفہ میں وقوف چھوڑ رکھا تھا۔ اس اثر کو ابن خزیمہ اور اسحاق بن راہویہ نے نکالا ہے۔(انظر فتح الباری۷؍۳۱۹)
یہ اثر اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مزدلفہ حرم کا علاقہ ہے جو حرم کے آخری حدود تک دراز ہے جو عرفات سے متصل ہے۔
جبیر بن مطعم کا قول ’’کانت قریش تدفع من المزدلفۃ ویقولون لانخرج من الحرم‘‘ قابل غور ہے۔اس کی تائید اس طور پر ہوتی ہے :اللہ تعالیٰ نے انساک حج و عمرہ کو مشروع کیا ہے اور اس کی تشریع میں سے یہ ہے کہ حج وعمرہ میں سے ہر ایک میں حل وحرم کے درمیان جمع ضروری ہے۔
جو شخص مکہ سے باہر سے عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے گا وہ میقات (حل سرزمین)سے احرام باندھے گا تاکہ حرم میں محرم کی صورت میں داخل ہو۔یہاں تک کہ اگر اندرون مکہ کا کوئی شخص جو عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو اس پر حدود حرم سے باہرحل کی طرف نکلنا لازم ہے جہاں سے وہ احرام باندھ کر محرم بن کر ہی حرم میں داخل ہوگا۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عائشہ کو تنعیم سے عمرہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایسے ہی حج کا معاملہ ہے تمام حجاج حج کا احرام باندھیں گے اور ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کا دن منیٰ میں گذاریں گے اور نویں رات بھی منیٰ ہی میں بسر کریں گے۔
پھر نو ذی الحجہ کو دن میں عرفات کی جانب روانہ ہوں گے۔ یہ عرفات حدود حرم سے باہر حل ہے۔ پھر وہ وہاں سے کوچ کرنے کے بعد حالت احرام میں أرض حرام(مزدلفہ) پہونچیں گے تاکہ حل وحرم میں اکٹھا(جمع) کرسکیں۔
قبل از اسلام قریش کے مشرکین کی بدعات میں سے یہ بات بھی تھی کہ ان کا زعم تھا کہ وہ ’’اہل اللہ ‘اور اہل حرم ہیں لہذا وہ نویں ذی الحجہ کو حرم سے باہر نہیں نکلیں گے، وہ مشعر حرام ہی میں اس دن وقوف کریں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور آپ نے عرفہ میں وقوف کیا جیسا کہ صحیح مسلم میں مروی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا بیان موجود ہے۔
ان کا بیان ہے کہ ’’وکانت العرب یدفع بہم أبوسیارۃ علی حمار عری فلما أجاز رسول اللہ ﷺ من المزدلفہ بالمشعر الحرام، لم تشک قریش أنہ سیقتصر علیہ ویکون منزلہ ثم، فأجاز ولم یعرض لہ حتی أتی عرفات فنزل(صحیح مسلم حدیث رقم ۱۴۸)
ایک بے نمدہ گدھے پر سوار ابوسیارہ عربوں کے ساتھ کوچ کررہے تھے۔جب رسول اللہ ﷺ مشعر حرام میں مزدلفہ سے گذررہے تھے تو قریش کو یقین تھا کہ آپ اس پر بس کریں گے یعنی حرم سے باہر نہیں نکلیں گے اور یہی ان کی منزل ہوگی۔ پھر آپ نے اس کو پار کیا اور اس پر قیام ووقوف نہیں کیا یہاں تک عرفات پہونچے اور وہاں پر نزول فرمایا۔
***
ان دونوں آثار سے اس امرپر دلالت کی چند صورتیں ہیں
استدلال کی پہلی صورت: پہلے اثر میں عمروبن میمون کا یہ فرمان کہ ’’سواریوں کے اگلے پاؤں قریبی پہاڑیوں کے نشیب میں واقع ہوئے‘‘ ’’أدنی‘‘ اقرب کے معنی میں ہے یہ قرب ونزدیکی عرفات سے نکلنے والے متکلم سے متعلق ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کے قول(إذ أنتم بالعدوۃ الدنیا وھم بالعدوۃ القصویٰ والرکب أسفل منکم)۔کی طرح ہے۔
بروزبدر جب مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالاتو صحرائے بدر کے قریبی چھور پر تھے۔اور یہ قرب مدینہ سے آنے والے کے تعلق سے تھا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا:فالدنیا مما یلی المدینۃ والقصویٰ ممایلی مکۃ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عمرو بن میمون کا یہ قول ’’فی أدنی الجبال‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عرفات سے نکلنے والے کے تعلق سے جو قریبی پہاڑی سلسلہ ہے۔
اس کی تائید دوسرے اثر میں وارد لفظ ’’وکنافی أقصیٰ الجبال مما یلی عرفات‘‘ سے ہوتی ہے ۔
جب یہاں کلمہ ’’اقصیٰ‘‘ استعمال کیا۔تو اس وجہ سے کہ اس سے ’’عرفہ سے دور کی پہاڑیوں کے کنارے جو منی اور مکہ کے قریب ہیں‘‘ نہ سمجھ لیا جائے، متکلم نے’’ممایلی عرفات‘‘کا اضافہ کردیا، یعنی پہاڑیوں کے وہ کنارے جو خود عرفات کی جانب ہیں اور اس سے قریب ہیں۔ اس سے پہاڑی سلسلے کے وہ اطراف وجوانب مرادہیں جو عرفات سے نکلنے والے کے سامنے اور متصل اور قریب ہوتے ہیں۔
قدرتی طور پر یہ بات معلوم ہے کہ عرفات سے بوقت کوچ نکلنے والے کا رخ مشرق سے مغرب کی سمت ہوتا ہے جیسے ہی وہ حدود عرفات سے باہر نکلتا ہے اور وادی عرنہ کا نشیب پار کرتا ہے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اس کے بالکل سامنے ہوتی ہیں جن کے اطراف و جوانب وادی کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر اور ان کے ساتھیوں نے جس وقت وادی کو پار کیا اور ان کی سواریاں ان پہاڑیوں کے اطراف وجوانب کے پاس پہونچیں اسی وقت ابن عمر نے عمر وبن میمون سے کہا کہ مشعر حرام کے متعلق پوچھنے اور استفسار کرنے والا کہاں ہے؟اس نے کہا ہاں میں موجود ہوں آپ نے فرمایا کہ تم اس میں داخل ہوچکے ہویا تم اس میں دخول شروع کرچکے ہو ۔
استدلال کی دوسری صورت: المشعر الحرام کا لفظ دو وصف کا جامع ہے، ایک مشعر،دوسرے حرام۔ مزدلفہ مشعر ہے اور حرام یعنی وہ حرم کا حصہ ہے۔اور یہ امر معلوم ہے کہ عرفات حل ہے ،حرم نہیں ہے ،لیکن وہ ایک مشعر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے چن رکھا ہے یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی میراث ہے اور اس میں خاتم النبیین محمدﷺ نے وقوف فرمایا ہے۔
عرفات کے بعد( مزدلفہ کی جانب)وادی عرنہ واقع ہے وہ حل ہے، وہ نہ حرم ہے نہ ہی مشعر ،کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ وقوف عرفہ میں وادی عرنہ سے دور رہو ،وہاں وقوف نہ کرو۔
اس وادی عرنہ کے بعد فوراً وہ سرزمین شروع ہوجاتی ہے جو دونوں وصف’’ مشعر‘‘ اور’’ حرام‘‘ کی جامع یعنی المشعرالحرام ہے اور اسی کا فتویٰ ابن عمر نے عمروبن میمون کو دیا۔ اس پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہوجاتی ہے۔
استدلال کی تیسری صورت: صحابی رسول عبداللہ بن عمر کا عمروبن میمون سے یہ فرمانا کہ ’’أخذت فیہ‘‘ تم مشعر حرام میں آغاز کرچکے ہواس کا مطلب یہ ہوایہ اس کا اولین و ابتدائی حصہ ہے اور یہ سلسلہ حدود منیٰ تک مسلسل دراز ہے۔
استدلال کی چوتھی صورت: عمروبن میمون کا اظہار حیرت و استعجاب کہ انہوں نے اپنی حیرت اور تعجب کا اظہار ’’ماأخذتُ فیہ‘‘ کہہ کر کیا یعنی ابھی میں نے اس کا آغاز نہیں کیا اس استغراب و استعجاب کی وجہ عبداللہ بن عمر کا عرفات سے مجرد خروج کرنے اور وادی عرنہ کو پار کرنے کے ساتھ جلدی جواب دینا تھاکہ تم اب مزدلفہ میں دخول کرچکے ہو۔
وادی عرنہ طے کرنے کے بعد ہی فوری طور پر مشعر حرام کا آغاز ہوتا ہے۔اس کی تاکید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عبداللہ بن عمر مزدلفہ کے درمیان واقع ایک چھوٹی پہاڑی۔ جس کا قزح نام ہے۔ پر لوگوں کے بھیڑ بھاڑ کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔یہ بتلاتے اور اس کا فتویٰ دیتے تھے کہ مزدلفہ پورا مشعرحرام ہے جیسا کہ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔
اس سلسلے میں ان سے مروی بعض روایات اور آثار ملاحظہ ہوں:
(۱) سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ مشعر حرام پورا مزدلفہ ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۳۰۰ بسند صحیح)
(۲) عبداللہ بن عمر نے مزدلفہ میں ایک پہاڑ پر لوگوں کو ازدحام کرتے دیکھا تو آپ نے فرمایا لوگو! درحقیقت مزدلفہ پورا ہی مشعر ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۲۹۹ بسند صحیح)
(۳) ابن عمر نے لوگوں کو جبل قزح پر ازدحام کرتے دیکھا تو آپ نے کہا کہ یہ لوگ یہاں پر کس وجہ سے ازدحام کرتے ہیں جبکہ مزدلفہ کی یہ پوری جگہ مشعر ہے۔ (تفسیر طبری۲؍۲۹۹)
(۴) اثر عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما
عمروبن میمون ہی سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مشعر حرام کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا کہ اگر تم ہمارے پیچھے لگے رہو تو میں تمہیں بتادوں گا کہ وہ کہاں ہے، ان کا بیان ہے کہ میں ان کے ساتھ لگا رہا، چنانچہ جب انہوں نے عرفہ سے کوچ کیا اور سواریوں نے اپنے اگلے پاؤں حرم میں رکھا انہوں نے کہا مشعر سے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ میں نے کہا وہ یہاں موجود ہے ۔ انہوں نے کہا تم اس میں داخل ہوچکے ہومیں نے کہا کہاں تک ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ تم اس میں سے باہر نکل جاؤ۔ (اخرجہ الفاکہی فی اخبارمکۃ۴؍۳۱۹۔۳۲۰ بسند صحیح)
عمرو بن میمون پر اللہ کی رحمت نازل ہو انہوں نے اس مسئلہ پر کافی اہتمام و توجہ مبذول کر رکھا، انہوں نے اس کے بارے میں عبداللہ بن عمر سے استفسار کیا جیسا کہ اس کا بیان ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں دو بارہ عبداللہ بن عمروبن العاص سے بھی استفسار کیا۔
یہ اثر بھی اس امر پر واضح دلیل ہے کہ مشعر حرام مجرد عرفات سے نکلتے اور حدود حرم میں داخل ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ہاں دونوں کے درمیان وادی عرنہ کا فاصلہ ہے جو مشعر نہیں ہے۔
اس مسئلہ پر اس اثر سے چند طریقوں سے استدلال کیا جاتا ہے:
پہلا طریقہ: ’’وضعت الرکاب أیدیھا فی الحرم‘‘ کا لفظ مسئلہ پر واضح دلیل ہے اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عرنہ سے نکلنے والا (اور عرنہ پورا حل ہے) مجرد خروج سے ہی منطقہ حرم میں داخل ہوجاتا ہے چنانچہ مشعر حرام عرفہ سے نکلتے ہی شروع ہوجاتا ہے إلا یہ کہ وادی عرنہ کو چھوڑ دیا جائے تاکہ دونوں’’ مشعر حلال‘‘ عرفہ اور’’ مشعر حرام‘‘ مزدلفہ کے درمیان قدرتی حد فاصل کا کام دے۔
دوسرا طریقہ: اثر میں وارد لفظ ’’قددخلت فیہ‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے یہ مشعر حرام میں دخول کی شروعات ہے۔
تیسرا طریقہ: جب عمرو بن میمون نے مشعر حرام کا نقطۂ آغاز جان لیا اور دونوں جلیل القدر صحابیوں سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے مطمئن ہوگئے تو ان کے سامنے یہ سوال باقی رہ گیا کہ مشعر حرام کی حد کہاں پر ختم ہوتی ہے۔
چنانچہ یہ سوال انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے کیا انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ مشعر حرام کا سلسلہ وہاں تک دراز ہے کہ تم اس سے باہر آجاؤ اور یہ امر معلوم ہے کہ وہ اس سے باہر اس وقت ہوں گے جب وہ دوسرے مشعر میں داخل ہو جائیں اور وہ منیٰ ہے۔اس طرح ہمیں مشرق سے مغرب تک طول و عرض میں مشعر حرام مزدلفہ کے حدود کی واقفیت حاصل ہوگئی۔
یعنی مزدلفہ ۔ عرفات سے خروج اور وادی عرنہ کے فوراً بعد سے شروع ہوکر حدود منیٰ تک دراز ہے۔ اسی پر ان دونوں صحابی ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو کا کلام دلالت کرتا ہے۔
۳۔اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
ایک نادر علمی مذاکرہ میں امام وفقیہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے جلیل القدر تابعی عطابن أبی رباح سے مشاعر اور ان کے حدود کے بارے میں استفسار کیا، نیز ان سے مزدلفہ کے بارے میں پوچھا؟
عطاء بن ابی رباح نے مزدلفہ کے حدود عرض وطول بیان کرنے کے لئے عبداللہ بن عباس کے قول سے استشہادکیا۔
۱۔ابن جریج نے فرمایا کہ مجھ سے عطاء بن ابی رباح نے ابن عباس سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ فرمارہے تھے ’’وادی محسر سے دور رہئے اور عرفات سے دور رہئے‘‘ (أخرج ھذالاثر الفاکہی فی اخبار مکۃ ۴؍۳۸۔ وابراہیم الحربی فی کتاب المناسک ۵۰۷ والأزرقی فی اخبار مکۃ ۲؍۱۹۳۱۹۲۔ بسند صحیح)۔
مشرق میں اس کے حدود کو ’’ارفعوا عن عرفات‘‘ کہہ کر بیان کیا۔ یعنی جب آپ عرفات سے نکل کر باہر ہوں گے مزدلفہ کی حد شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ مغرب میں وادی محسر تک دراز ہے۔ لہذا آپ نے ’’ارفعوا عن محسر‘‘ کہا۔
وادی محسر تک کا پورا حصہ زمین مشعر حرام ہے کسی بھی جگہ کا کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ نہ اس میں سے ،نہ اس میں سے۔
۴۔ اثر عبداللہ بن الزبیررضی اللہ عنہما
عبداللہ بن الزبیر سے مروی ہے آپ نے فرمایا ’’تم سب یہ جان لو کہ پورا عرفہ موقف ہے سوائے بطن عرنہ کے۔
اور تم لوگ یہ بھی جان لو کہ پورا مزدلفہ موقف ہے سوائے وادی محسر کے(أخرجہ الطبری بسند صحیح ۲؍۳۰۲)۔
اس اثر میں اسی بات کا بیان ہے جو عبداللہ بن عباس کے سابق کلام میں ہے۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ مشاعر کی تعداد تین ہے:
۱۔ عرفہ یہ مشعر ہے حرم نہیں ہے
۲۔ مزدلفہ یہ مشعر ہے اور حرم بھی اور اس کو عرفہ سے وادی عرنہ جدا اور الگ کرتا ہے، جونہ حرم ہے نہ مشعر نہ ہی وہ عرفہ کا حصہ ہے نہ مزدلفہ کا۔
۳۔ منیٰ یہ حرم ہے اور مشعر اور اس کو مزدلفہ سے وادی محسر جدا کرتی ہے جو حرم ہے مشعر نہیں ہے۔نہ ہی وہ منیٰ کا حصہ ہے نہ مزدلفہ کا۔
یہ امر باعث حیرت ہے کہ ان دنوں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ وادی محسر میں ’’مبیت‘‘ کرتے ہیںیہ سمجھ کر کہ وہ مزدلفہ ہے۔ اور اس میں مبیت کرتے ہیںیہ سمجھتے ہوئے کہ وہ منیٰ ہے۔
حالانکہ (صحیح حدیث نبوی) اور صحابہ سے منقول آثار بکثرت موجود ہیں کہ وادی محسرسے الگ رہنا چاہئے نہ وہاں مزدلفہ کی شب گذاری درست ہے نہ ہی منیٰ کا قیام۔
اور وہ مزدلفہ کی وسیع و عریض زمین مہمل ،بیکار اور غیر آباد چھوڑے رکھتے ہیں جو عرفات کی جانب واقع ہے۔ جب کہ صحابہ کرام کے مذکورہ نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں وہ مشعر حرام یعنی مزدلفہ ہی ہے۔
۵۔ اثر جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ
جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میرا اونٹ گم ہوگیا تھا میں عرفہ کے دن اس کو ڈھونڈنے نکلا۔ میں نے نبی ﷺ کو عرفہ میں وقوف کی حالت میں دیکھا۔ میں نے کہا:یہ شخص اللہ کی قسم حمس میں سے ہے یعنی قریشی ہے وہ آخر یہاں اس جگہ کیوں ہے؟ (أخرجہ البخاری مع ۷؍۳۱۸)
حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں :
اسماعیلي کی روایت میں عثمان بن ابی شیبہ اور ابن ابی عمر کے طریق سے مروی ہے جس میں دونوں سفیان بن عیینہ سے روایت کرتے ہیں۔اس میں یہ لفظ وارد ہے ’’فمالہ خرج من الحرم؟‘‘ اس شخص کو کیا ہوگیا کہ وہ حرم سے باہر یعنی حل میں آگیا ؟ سفیان کا بیان ہے کہ حمس سے مراد قریش ہے اور قریش (جاہلیت میں حج کے وقت)حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔اور کہتے تھے کہ ہم ’’اہل اللہ‘‘ ہیں۔ہم حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ بقیہ تمام لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔
جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: قریش مزدلفہ سے کوچ کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم حمس ہیں ہم حرم سے باہر نہیں نکلیں گے۔ انہوں نے عرفہ میں وقوف چھوڑ رکھا تھا۔ اس اثر کو ابن خزیمہ اور اسحاق بن راہویہ نے نکالا ہے۔(انظر فتح الباری۷؍۳۱۹)
یہ اثر اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مزدلفہ حرم کا علاقہ ہے جو حرم کے آخری حدود تک دراز ہے جو عرفات سے متصل ہے۔
جبیر بن مطعم کا قول ’’کانت قریش تدفع من المزدلفۃ ویقولون لانخرج من الحرم‘‘ قابل غور ہے۔اس کی تائید اس طور پر ہوتی ہے :اللہ تعالیٰ نے انساک حج و عمرہ کو مشروع کیا ہے اور اس کی تشریع میں سے یہ ہے کہ حج وعمرہ میں سے ہر ایک میں حل وحرم کے درمیان جمع ضروری ہے۔
جو شخص مکہ سے باہر سے عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے گا وہ میقات (حل سرزمین)سے احرام باندھے گا تاکہ حرم میں محرم کی صورت میں داخل ہو۔یہاں تک کہ اگر اندرون مکہ کا کوئی شخص جو عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو اس پر حدود حرم سے باہرحل کی طرف نکلنا لازم ہے جہاں سے وہ احرام باندھ کر محرم بن کر ہی حرم میں داخل ہوگا۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عائشہ کو تنعیم سے عمرہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایسے ہی حج کا معاملہ ہے تمام حجاج حج کا احرام باندھیں گے اور ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کا دن منیٰ میں گذاریں گے اور نویں رات بھی منیٰ ہی میں بسر کریں گے۔
پھر نو ذی الحجہ کو دن میں عرفات کی جانب روانہ ہوں گے۔ یہ عرفات حدود حرم سے باہر حل ہے۔ پھر وہ وہاں سے کوچ کرنے کے بعد حالت احرام میں أرض حرام(مزدلفہ) پہونچیں گے تاکہ حل وحرم میں اکٹھا(جمع) کرسکیں۔
قبل از اسلام قریش کے مشرکین کی بدعات میں سے یہ بات بھی تھی کہ ان کا زعم تھا کہ وہ ’’اہل اللہ ‘اور اہل حرم ہیں لہذا وہ نویں ذی الحجہ کو حرم سے باہر نہیں نکلیں گے، وہ مشعر حرام ہی میں اس دن وقوف کریں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور آپ نے عرفہ میں وقوف کیا جیسا کہ صحیح مسلم میں مروی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا بیان موجود ہے۔
ان کا بیان ہے کہ ’’وکانت العرب یدفع بہم أبوسیارۃ علی حمار عری فلما أجاز رسول اللہ ﷺ من المزدلفہ بالمشعر الحرام، لم تشک قریش أنہ سیقتصر علیہ ویکون منزلہ ثم، فأجاز ولم یعرض لہ حتی أتی عرفات فنزل(صحیح مسلم حدیث رقم ۱۴۸)
ایک بے نمدہ گدھے پر سوار ابوسیارہ عربوں کے ساتھ کوچ کررہے تھے۔جب رسول اللہ ﷺ مشعر حرام میں مزدلفہ سے گذررہے تھے تو قریش کو یقین تھا کہ آپ اس پر بس کریں گے یعنی حرم سے باہر نہیں نکلیں گے اور یہی ان کی منزل ہوگی۔ پھر آپ نے اس کو پار کیا اور اس پر قیام ووقوف نہیں کیا یہاں تک عرفات پہونچے اور وہاں پر نزول فرمایا۔
***
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہترجمہ:مولانا ضیاء الدین بخاری Jan-2010:
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ
تحریر:شیخ عبدالرحمن رافت پاشا
ترجمہ:مولانا ضیاء الدین بخاری
ترجمہ:مولانا ضیاء الدین بخاری
روشن چہرہ، کشاد ہ پیشانی، طویل قامت، خفیف عارض، اگر کوئی دیکھے تو دیکھتا ہی ر ہ جائے۔ ایک بار مل کر بار بار ملنے کو جی چاہے اور ہرملاقات پر قلب کو سکون میسر آئے، جس کا وجود تواضع اور انکساری کی جیتی جاگتی تصویر اور جس کے جسم کا ایک ایک بال حیا کا آئینہ دار لیکن اگر وہ منکسر المزاج حق بات پر اڑ جائے تو بپھرہوا شیر دکھائی دے اور پھر اس کے تلوار کی تیزی دشمن سے اپنا لوہا منواکر دم لے۔ جی ہاں! ہم ذکر کر رہے ہیں امت محمدیہ کے عامر بن عبداللہ بن جراح فہری قریشی کا جن کی کنیت ابو عبید ہ رضی اللہ عنہ ہے۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھوں نے دعوت اسلام پر لبیک کہنے میں پہل کی۔ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے دوسرے دن حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر آپ نے اسلام قبول کیا اور پھر عبدالرحمن بن عوف،عثمان بن مظعون اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ایک ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر کلمہ حق کا اعلان کیا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سرزمین مکہ میں مسلمانوں کو پیش آنے والی تمام تکالیف اور مصائب برداشت کیں اور ان کے ہر دکھ دردمیں برابر کے شریک رہے۔ لیکن جنگ بدر میں انھیں جس امتحان سے گزرنا پڑا ہم اور آپ اس امتحان کے تعلق سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ جنگ اپنے شباب پر تھی اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ مشرکین کی صفوں میں بھگدڑ مچا رہے تھے۔ آپ کا کوئی وار خالی نہ جاتا۔ آپ کے پے در پے حملوں سے مشرکین پر خوف ودہشت طاری ہو گئی تھی اور آپ موت سے بے نیاز ہو کر یکے بعد دیگرے مشرکین کو صفحہ ہستی سے مٹاتے چلے جا رہے تھے۔ آپ کی تلوار کی زد میں جو بھی آتا موت اس کا نصیبہ بن جاتی لیکن مشرکین کی اس بھیڑ میں ایک شخص ایسا بھی تھا کہ اگر وہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آجاتا تو آپ نہ صرف یہ کہ راستے سے ہٹ جاتے بلکہ پوری کوشش کرتے کہ اس شخص سے آمنا سامنا نہ ہو۔ لیکن وہ شحص وقفے وقفے سے آڑے آتا اور اللہ کے دشمنوں اور آپ کے درمیان حائل ہوجاتا۔ جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اور کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو آپ نے اس کے سر پر تلوار کی ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ شخص دو ٹکڑوں میں کٹ کر آپ کے سامنے گر گیا۔
قارئین ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ دو حصوں میں کٹ کر مرنے والاوہ شخص کون تھا؟ کیا میں نے تم سے پہلے نہیں کہا تھا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ایک ایسے امتحان سے گزرے ہیں جس کے تعلق سے ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ شاید تمہارا سر چکرا جائے جب تمھیں یہ معلوم ہو کہ وہ شخص جو کٹ کر گرا تھا کوئی اور نہیں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ بن جراح تھے۔ لیکن نہیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کو قتل نہیں کیا بلکہ شرک جوان کے والد کی شکل میں آیا انھوں نے اس شرک کو اس دنیا سے مٹا دیا۔ شرک چاہے وہ باپ کی شخصیت میں کیوں نہ ہو اسے ختم کرنے والے تو حید پرست ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی شان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل کیں:(سورہ مجادلہ:۲۲)
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی، دین کے لیے ان کے نصیحت اور امت محمدیہ میں ان کی امانت داری حددرجہ مقبول تھی۔ اسی لیے محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آپ اپنے صحابہ میں سے جسے پسند فرمائیں ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ مال کے معاملے میں ہمارے درمیان جو اختلاف ہو گیا ہے وہ اس کا فیصلہ کردے۔ اس لیے کہ مسلمان ہمارے درمیان پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم شام کو میرے پاس آنا میں تمھارے ساتھ ایک قوی اور حددرجہ امانت دار شخص کو کردوں گا۔’’ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘ میں اس دن بڑے سویرے ظہر کی نماز کے لیے چلا گیا۔ اس دن میری یہ دلی خواہش تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے قوی اور امین کی جو صفت بیان فرمائی ہے اے کاش کہ اس کا موصوف میں نکلوں۔
جب رسول اللہ ﷺ نماز ظہر پڑھا چکے تو آپ نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا۔ میں بھی اپنی جگہ اچک اچک کر دیکھ رہا تھا تاکہ آپ کی نظر مجھ پر پڑجائے۔ لیکن میری طرف سے بے نیاز آپ ادھر ادھر دیکھ ہی رہے اور جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دکھائی دےئے تو آپ نے بلایا اور فرمایا:’’ اے ابو عبیدہ ! ان عیسائیوں کے ساتھ جاؤ اور جن معاملات میں ان میں اختلاف ہو گیا ہے ان کو فیصلہ حق کے ساتھ انجام دو‘‘۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اپنے دل میں کہا:ابو عبیدہ مبارک ہو کہ صادق الامین نے تمہیں قوی اور امین کے خطاب سے نوازا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہ صرف امین تھے بلکہ وہ امانت داری کو بروئے کارلانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں پوری قوت صرف کردیا کرتے تھے۔ اور بے شمار موقعوں پر انھوں نے اپنی قوت کو امانت کے تحفظ کے لیے صرف کیا۔ لہذا ایک موقعے پر جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے قافلے کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں روانہ کیا تو کھجور کی ٹوکری اس قافلے کا کل زادراہ تھی اور اس کے علاوہ ان کے پاس کھانے کے لیے اور کچھ نہ تھا۔ لہذا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے ہر ایک ساتھی کو روزانہ ایک کھجور دیتے اور وہ اسے چوس کر پانی پی لیتا۔ گویا پورے دن کی غذا صرف ایک عدد کھجور ہوا کرتی۔
جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مشرکین میں سے ایک بدبخت صدادے رہا تھا: مجھے بتلاؤ محمد کہاں ہیں؟ تو اس سخت ترین موقعے پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ایک تھے جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ مشرکین کی طرف سے آپ ﷺ کی جانب پھینکے جانے والے ہر تیر کو وہ اپنے سینے پر روکتے تھے۔ جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی رباعی ٹوٹ چکے تھے، پیشانی زخمی ہو چکی تھی اور آپ کے زرہ کی دو کڑیاں آپ کی داڑھ میں پھنس چکی تھیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے کہ ان دونوں کڑیوں کو نکال سکیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انھیں قسم دی کہ یہ کام میرے لیے چھوڑ دو۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ڈر تھا کہ اگر میں ان کڑیوں کو اپنے ہاتھ سے نکالوں گا تو رسول اللہ ﷺ کو تکلیف ہوگی۔ لہذا آپ نے اپنے ثنایا (پہلو کے دانت) سے مضبوطی سے پکڑکر کھینچا جس سے ایک کڑی تو نکل گئی لیکن آپ کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے درمیان صرف ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ انھوں نے اپنے چار دانت رسول اللہ ﷺ کو راحت پہنچانے کے لیے شہید کر دیے۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور جب آپ ﷺ کی وفات ہو گئی اور صحابہ کرام سقیفہ بنی ساعدہ (ان دنوں وزارت اطلاعات کے سامنے والا تکونہ باغ) میں جمع ہوئے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’آپ اپنا ہاتھ بڑھاےئے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور آپ اس امت کے امین ہیں‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا:’’ میں اس شخص کے مقابلے میں اپنے آپ کو مقدم نہیں کر سکتا جسے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ وہ نماز میں ہماری امامت کرے اور پھر اس نے امامت کی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی‘‘۔ یہ کہہ کر آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کے دور خلافت میں ہمیشہ حق بات کے لیے آپ کو نصیحت کرتے رہے اور بھلائی کے کام میں ہمیشہ آپ کے مددگار رہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کی بھی اطاعت کی اور کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کی سوائے ایک موقعے کے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سا حکم تھا جو خلیفۃ المسلمین نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیا اور انھو ں نے امیر المومنین کے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ شام کے شہروں میں مسلم افواج کی قیادت کر رہے تھے اور ہر جنگ میں انھیں کامیابی نصیب ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھو ں شام کے تمام شہروں میں فتح دلائی اور آپ کی قیادت میں مسلم فوج مشرق میں فرات اور شمال میں ایشیا تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔ فتوحات کے یہ سلسلے جاری تھے کہ ملک شام میں طاعون کا روگ پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس قدر شدید ہوگیا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تھی اور لوگ یکے بعد دیگرے لقمہ اجل ہونے لگے۔ لہذا امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ہاتھوں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا: ’’مجھے تم سے ایک ضروری کام آن پڑا ہے لہذا میرا یہ خط اگر تمہیں رات میں ملے تو میں تمھیں یہ تاکید کرتا ہوں کہ صبح کا انتظار نہ کرنا اور میری طرف چل پڑنا‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ خط پڑھ کر فرمایا:’’میں جانتا ہوں کہ امیرالمومنین کو مجھ سے کیا کام نکل آیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ایک فنا ہونے والے کو بچالیں۔‘‘ پھر آپ نے ایک خط امیرالمومنین کو لکھا:’’یا امیرالمومنین میں جانتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے، میں اس وقت مسلم فوج کے درمیان ہوں اور میری قطعاً یہ خواہش نہیں ہے کہ میں اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچا لوں جس میں میری فوج گرفتار ہے۔ میں ان سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا تا وقتیکہ اللہ میرے اور ان کے معاملے میں فیصلہ نہ کر دے اور جب میرا یہ خط آپ کو ملے تو جو قسم آپ نے مجھے دی ہے اسے اللہ کے لیے ختم کردینا اور مجھے اجازت دینا کہ میں فوج کے ساتھ رہ سکوں۔‘‘ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خط پڑھا تو آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور آپ ہچکیاں لے لے کے رونے لگے۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا:’’ امیرالمومنین! کیا بات ہے کیا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا انتقال فرماگئے‘‘۔ آپ نے فرمایا نہیں لیکن موت اس سے قریب ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ گمان غلط ثابت نہیں ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کوطاعون نے آگھیرا، وفات سے پہلے آپ نے مسلم فوج کو اس طرح وصیت کی:’’ میں تمھیں ایک ایسی وصیت کررہا ہوں کہ اگر تم نے اسے قبول کر لیا تو بھلائی ہمیشہ تمہارا نصیبہ رہے گی۔ نماز قائم کرو، رمضان کے روزے رکھو، صدقات دیا کرو، حج اور عمرہ کرو، اچھی باتوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرو، اپنے سرداروں کو نصیحت کرو تاکہ وہ گمرہی کا شکار نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا تمہیں ہلاکت میں مبتلا کردے۔ اگر کسی شخص کو ایک ہزار سال کی عمر بھی مل جائے تو اس کا بھی انجام وہی ہوگا جو آج تم میرا دیکھ رہے ہو۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘۔ پھر آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا’’ معاذ لوگوں کو نماز پڑھاؤ‘‘ (ان کی امامت قبول کرو) اتنا کہہ کر حددرجہ سکون کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑکر اپنے مالک حقیقی کی طرف کوچ کر گئے۔ معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’لوگو!آج تم ایک ایسے شخص کے غم میں ڈوبے ہوئے ہو جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی قسم بڑے کشادہ دل والاتھا اور جس سے حسد کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ عاقبت کی محبت میں اس سے شدید کوئی نہ گزرا اور عام مسلمانوں کو اس سے اچھا ناصح نصیب نہ ہوا، تم سب اس کے لیے رحمت کی دعا کرو۔‘‘
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھوں نے دعوت اسلام پر لبیک کہنے میں پہل کی۔ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے دوسرے دن حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر آپ نے اسلام قبول کیا اور پھر عبدالرحمن بن عوف،عثمان بن مظعون اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ایک ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر کلمہ حق کا اعلان کیا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سرزمین مکہ میں مسلمانوں کو پیش آنے والی تمام تکالیف اور مصائب برداشت کیں اور ان کے ہر دکھ دردمیں برابر کے شریک رہے۔ لیکن جنگ بدر میں انھیں جس امتحان سے گزرنا پڑا ہم اور آپ اس امتحان کے تعلق سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ جنگ اپنے شباب پر تھی اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ مشرکین کی صفوں میں بھگدڑ مچا رہے تھے۔ آپ کا کوئی وار خالی نہ جاتا۔ آپ کے پے در پے حملوں سے مشرکین پر خوف ودہشت طاری ہو گئی تھی اور آپ موت سے بے نیاز ہو کر یکے بعد دیگرے مشرکین کو صفحہ ہستی سے مٹاتے چلے جا رہے تھے۔ آپ کی تلوار کی زد میں جو بھی آتا موت اس کا نصیبہ بن جاتی لیکن مشرکین کی اس بھیڑ میں ایک شخص ایسا بھی تھا کہ اگر وہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آجاتا تو آپ نہ صرف یہ کہ راستے سے ہٹ جاتے بلکہ پوری کوشش کرتے کہ اس شخص سے آمنا سامنا نہ ہو۔ لیکن وہ شحص وقفے وقفے سے آڑے آتا اور اللہ کے دشمنوں اور آپ کے درمیان حائل ہوجاتا۔ جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اور کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو آپ نے اس کے سر پر تلوار کی ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ شخص دو ٹکڑوں میں کٹ کر آپ کے سامنے گر گیا۔
قارئین ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ دو حصوں میں کٹ کر مرنے والاوہ شخص کون تھا؟ کیا میں نے تم سے پہلے نہیں کہا تھا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ایک ایسے امتحان سے گزرے ہیں جس کے تعلق سے ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ شاید تمہارا سر چکرا جائے جب تمھیں یہ معلوم ہو کہ وہ شخص جو کٹ کر گرا تھا کوئی اور نہیں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ بن جراح تھے۔ لیکن نہیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کو قتل نہیں کیا بلکہ شرک جوان کے والد کی شکل میں آیا انھوں نے اس شرک کو اس دنیا سے مٹا دیا۔ شرک چاہے وہ باپ کی شخصیت میں کیوں نہ ہو اسے ختم کرنے والے تو حید پرست ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی شان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل کیں:(سورہ مجادلہ:۲۲)
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی، دین کے لیے ان کے نصیحت اور امت محمدیہ میں ان کی امانت داری حددرجہ مقبول تھی۔ اسی لیے محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آپ اپنے صحابہ میں سے جسے پسند فرمائیں ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ مال کے معاملے میں ہمارے درمیان جو اختلاف ہو گیا ہے وہ اس کا فیصلہ کردے۔ اس لیے کہ مسلمان ہمارے درمیان پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم شام کو میرے پاس آنا میں تمھارے ساتھ ایک قوی اور حددرجہ امانت دار شخص کو کردوں گا۔’’ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘ میں اس دن بڑے سویرے ظہر کی نماز کے لیے چلا گیا۔ اس دن میری یہ دلی خواہش تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے قوی اور امین کی جو صفت بیان فرمائی ہے اے کاش کہ اس کا موصوف میں نکلوں۔
جب رسول اللہ ﷺ نماز ظہر پڑھا چکے تو آپ نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا۔ میں بھی اپنی جگہ اچک اچک کر دیکھ رہا تھا تاکہ آپ کی نظر مجھ پر پڑجائے۔ لیکن میری طرف سے بے نیاز آپ ادھر ادھر دیکھ ہی رہے اور جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دکھائی دےئے تو آپ نے بلایا اور فرمایا:’’ اے ابو عبیدہ ! ان عیسائیوں کے ساتھ جاؤ اور جن معاملات میں ان میں اختلاف ہو گیا ہے ان کو فیصلہ حق کے ساتھ انجام دو‘‘۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اپنے دل میں کہا:ابو عبیدہ مبارک ہو کہ صادق الامین نے تمہیں قوی اور امین کے خطاب سے نوازا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہ صرف امین تھے بلکہ وہ امانت داری کو بروئے کارلانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں پوری قوت صرف کردیا کرتے تھے۔ اور بے شمار موقعوں پر انھوں نے اپنی قوت کو امانت کے تحفظ کے لیے صرف کیا۔ لہذا ایک موقعے پر جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے قافلے کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں روانہ کیا تو کھجور کی ٹوکری اس قافلے کا کل زادراہ تھی اور اس کے علاوہ ان کے پاس کھانے کے لیے اور کچھ نہ تھا۔ لہذا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے ہر ایک ساتھی کو روزانہ ایک کھجور دیتے اور وہ اسے چوس کر پانی پی لیتا۔ گویا پورے دن کی غذا صرف ایک عدد کھجور ہوا کرتی۔
جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مشرکین میں سے ایک بدبخت صدادے رہا تھا: مجھے بتلاؤ محمد کہاں ہیں؟ تو اس سخت ترین موقعے پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ایک تھے جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ مشرکین کی طرف سے آپ ﷺ کی جانب پھینکے جانے والے ہر تیر کو وہ اپنے سینے پر روکتے تھے۔ جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی رباعی ٹوٹ چکے تھے، پیشانی زخمی ہو چکی تھی اور آپ کے زرہ کی دو کڑیاں آپ کی داڑھ میں پھنس چکی تھیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے کہ ان دونوں کڑیوں کو نکال سکیں، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انھیں قسم دی کہ یہ کام میرے لیے چھوڑ دو۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ڈر تھا کہ اگر میں ان کڑیوں کو اپنے ہاتھ سے نکالوں گا تو رسول اللہ ﷺ کو تکلیف ہوگی۔ لہذا آپ نے اپنے ثنایا (پہلو کے دانت) سے مضبوطی سے پکڑکر کھینچا جس سے ایک کڑی تو نکل گئی لیکن آپ کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے درمیان صرف ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ انھوں نے اپنے چار دانت رسول اللہ ﷺ کو راحت پہنچانے کے لیے شہید کر دیے۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور جب آپ ﷺ کی وفات ہو گئی اور صحابہ کرام سقیفہ بنی ساعدہ (ان دنوں وزارت اطلاعات کے سامنے والا تکونہ باغ) میں جمع ہوئے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’آپ اپنا ہاتھ بڑھاےئے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور آپ اس امت کے امین ہیں‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا:’’ میں اس شخص کے مقابلے میں اپنے آپ کو مقدم نہیں کر سکتا جسے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ وہ نماز میں ہماری امامت کرے اور پھر اس نے امامت کی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی‘‘۔ یہ کہہ کر آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کے دور خلافت میں ہمیشہ حق بات کے لیے آپ کو نصیحت کرتے رہے اور بھلائی کے کام میں ہمیشہ آپ کے مددگار رہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کی بھی اطاعت کی اور کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کی سوائے ایک موقعے کے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سا حکم تھا جو خلیفۃ المسلمین نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیا اور انھو ں نے امیر المومنین کے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ شام کے شہروں میں مسلم افواج کی قیادت کر رہے تھے اور ہر جنگ میں انھیں کامیابی نصیب ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھو ں شام کے تمام شہروں میں فتح دلائی اور آپ کی قیادت میں مسلم فوج مشرق میں فرات اور شمال میں ایشیا تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی۔ فتوحات کے یہ سلسلے جاری تھے کہ ملک شام میں طاعون کا روگ پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس قدر شدید ہوگیا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی تھی اور لوگ یکے بعد دیگرے لقمہ اجل ہونے لگے۔ لہذا امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ہاتھوں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا: ’’مجھے تم سے ایک ضروری کام آن پڑا ہے لہذا میرا یہ خط اگر تمہیں رات میں ملے تو میں تمھیں یہ تاکید کرتا ہوں کہ صبح کا انتظار نہ کرنا اور میری طرف چل پڑنا‘‘۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ خط پڑھ کر فرمایا:’’میں جانتا ہوں کہ امیرالمومنین کو مجھ سے کیا کام نکل آیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ایک فنا ہونے والے کو بچالیں۔‘‘ پھر آپ نے ایک خط امیرالمومنین کو لکھا:’’یا امیرالمومنین میں جانتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے، میں اس وقت مسلم فوج کے درمیان ہوں اور میری قطعاً یہ خواہش نہیں ہے کہ میں اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچا لوں جس میں میری فوج گرفتار ہے۔ میں ان سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا تا وقتیکہ اللہ میرے اور ان کے معاملے میں فیصلہ نہ کر دے اور جب میرا یہ خط آپ کو ملے تو جو قسم آپ نے مجھے دی ہے اسے اللہ کے لیے ختم کردینا اور مجھے اجازت دینا کہ میں فوج کے ساتھ رہ سکوں۔‘‘ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خط پڑھا تو آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور آپ ہچکیاں لے لے کے رونے لگے۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا:’’ امیرالمومنین! کیا بات ہے کیا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا انتقال فرماگئے‘‘۔ آپ نے فرمایا نہیں لیکن موت اس سے قریب ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ گمان غلط ثابت نہیں ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کوطاعون نے آگھیرا، وفات سے پہلے آپ نے مسلم فوج کو اس طرح وصیت کی:’’ میں تمھیں ایک ایسی وصیت کررہا ہوں کہ اگر تم نے اسے قبول کر لیا تو بھلائی ہمیشہ تمہارا نصیبہ رہے گی۔ نماز قائم کرو، رمضان کے روزے رکھو، صدقات دیا کرو، حج اور عمرہ کرو، اچھی باتوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرو، اپنے سرداروں کو نصیحت کرو تاکہ وہ گمرہی کا شکار نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا تمہیں ہلاکت میں مبتلا کردے۔ اگر کسی شخص کو ایک ہزار سال کی عمر بھی مل جائے تو اس کا بھی انجام وہی ہوگا جو آج تم میرا دیکھ رہے ہو۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘۔ پھر آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا’’ معاذ لوگوں کو نماز پڑھاؤ‘‘ (ان کی امامت قبول کرو) اتنا کہہ کر حددرجہ سکون کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑکر اپنے مالک حقیقی کی طرف کوچ کر گئے۔ معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’لوگو!آج تم ایک ایسے شخص کے غم میں ڈوبے ہوئے ہو جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی قسم بڑے کشادہ دل والاتھا اور جس سے حسد کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ عاقبت کی محبت میں اس سے شدید کوئی نہ گزرا اور عام مسلمانوں کو اس سے اچھا ناصح نصیب نہ ہوا، تم سب اس کے لیے رحمت کی دعا کرو۔‘‘
تراشے:جناب مولانا عبدالسلام صاحب رحمانیؔ jan-2010
تراشے
جناب مولانا عبدالسلام صاحب رحمانیؔ
جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار،بلرامپور
قسط13:
جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار،بلرامپور
قسط13:
تربیت کے لئے سزا دینا:
رسول اللہ ﷺ نے حضر معاذ رضی اللہ عنہ کو خصوصی وصیت میں فرمایا: ’’لا ترفع عنہم عصاک ادبا و اخفہم فی اللہ‘‘ اپنی اولاد کو ادب کے لئے مارنے سے بھی گریز نہ کرو اور ان کے دل میں اللہ کا خوف پیداکرو (رواہ احمد والطبرانی)
نیز فرمایا: ’’مرو اولادکم بالصلوٰۃ وہم ابناء سبع سنین و اضربوہم علیھا وہم ابناء عشر سنین وفر قوھم بینہم فی المضاجع‘‘ تمہاری اولاد جب سات سال کی ہوجائے تو اس کو نماز کا حکم دو اورجب دس سال کی ہو جائے تونماز چھوڑنے پر اسے مارو اور اس عمر کے بعد الگ الگ بستروں پر انہیں سلاؤ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی و احمد و ابن خزیمہ والدار قطنی وقال الحاکم صحیح علی شرط مسلم وقال الترمذی حسن صحیح)
ناقص تربیت کی مثال:
ایک شخص نے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ یہ میرا کہا نہیں مانتا اور میرے حقوق ادا نہیں کرتا، حضرت عمر نے اسے بلا کر سمجھا یا اور آئندہ باپ کی خدمت کی تلقین کی تو بیٹے نے کہا کیاباپ پر اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا کیوں نہیں۔ بیٹے نے کہاوہ کیا حقوق ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا تین حقوق ہیں:
(۱) باپ کا فرض ہے کے نسل انسانی کے اضافے کے لئے اخلاقی اور خاندانی لحاظ سے بہترین عورت کا انتخاب کرے۔
(۲)بچے کا اچھا نام رکھے۔
(۳) بچے کو قرآن کی تعلیم دے۔
لڑکے نے کہا امیر المؤمنین ! میرے باپ نے اپنا کوئی حق ادانہیں کیاہے
(۱) میری ماں ایک مجوسی کی حبشی رنڈی ہے۔
(۲) اس نے میرا نام کھٹمل رکھا ہے۔
(۳) اس نے مجھے قرآن کا ایک حرف نہیں پڑھایا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تو اپنے بیٹے کا شکوہ لے کر آیا ہے حالانکہ تو نے خود اس کا حق تلف کیا ہے اور اس کے ساتھ برا معاملہ کیا ہے۔ (المسلمون دمشق)
رسول اللہ ﷺ نے حضر معاذ رضی اللہ عنہ کو خصوصی وصیت میں فرمایا: ’’لا ترفع عنہم عصاک ادبا و اخفہم فی اللہ‘‘ اپنی اولاد کو ادب کے لئے مارنے سے بھی گریز نہ کرو اور ان کے دل میں اللہ کا خوف پیداکرو (رواہ احمد والطبرانی)
نیز فرمایا: ’’مرو اولادکم بالصلوٰۃ وہم ابناء سبع سنین و اضربوہم علیھا وہم ابناء عشر سنین وفر قوھم بینہم فی المضاجع‘‘ تمہاری اولاد جب سات سال کی ہوجائے تو اس کو نماز کا حکم دو اورجب دس سال کی ہو جائے تونماز چھوڑنے پر اسے مارو اور اس عمر کے بعد الگ الگ بستروں پر انہیں سلاؤ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی و احمد و ابن خزیمہ والدار قطنی وقال الحاکم صحیح علی شرط مسلم وقال الترمذی حسن صحیح)
ناقص تربیت کی مثال:
ایک شخص نے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ یہ میرا کہا نہیں مانتا اور میرے حقوق ادا نہیں کرتا، حضرت عمر نے اسے بلا کر سمجھا یا اور آئندہ باپ کی خدمت کی تلقین کی تو بیٹے نے کہا کیاباپ پر اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا کیوں نہیں۔ بیٹے نے کہاوہ کیا حقوق ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا تین حقوق ہیں:
(۱) باپ کا فرض ہے کے نسل انسانی کے اضافے کے لئے اخلاقی اور خاندانی لحاظ سے بہترین عورت کا انتخاب کرے۔
(۲)بچے کا اچھا نام رکھے۔
(۳) بچے کو قرآن کی تعلیم دے۔
لڑکے نے کہا امیر المؤمنین ! میرے باپ نے اپنا کوئی حق ادانہیں کیاہے
(۱) میری ماں ایک مجوسی کی حبشی رنڈی ہے۔
(۲) اس نے میرا نام کھٹمل رکھا ہے۔
(۳) اس نے مجھے قرآن کا ایک حرف نہیں پڑھایا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تو اپنے بیٹے کا شکوہ لے کر آیا ہے حالانکہ تو نے خود اس کا حق تلف کیا ہے اور اس کے ساتھ برا معاملہ کیا ہے۔ (المسلمون دمشق)
jan-2010وہ حقیقت جسے اکثر لوگ نہیں جانتے: عبد الصبور الندوی
وہ حقیقت
جسے اکثر لوگ نہیں جانتے
جسے اکثر لوگ نہیں جانتے
عبد الصبور الندوی
یقیناًآپ چونک سکتے ہیں اس عنوان کو پڑھ کر کہ وہ کون سی حقیقت ہے جسے لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی ۔ آپ کے ذہن میں کئی چیزیں ابھر رہی ہونگی، لیکن کیا وہ حقیقت بھی آپ کے ذہن میں ہے؟ جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔میں واضح کردوں کہ ہاں! ایک حقیقت ایسی بھی ہے جس کا ادراک لوگوں کو نہیں ہے، وہ حقیقت اپنے اندر کوئی معنیٰ نہیں رکھتی، جی ہاں! اس حقیقت کا نام ’’ناکامی‘‘ (فیل) ہے اس لفظ پر ہم میں سے اکثریت اس کے وجود پر یقین رکھتی ہے جبکہ انسانی زندگی میں اس لفظ کا کوئی وجودی معنیٰ نہیں ہے جس کی تشریح یہاں نقاط کے ذریعے کی جارہی ہے:
(۱) جب کوئی شخص ایک خاص چیز بنانے کا ارادہ کرتا ہے یا اس کے ذمہ کوئی کام سپرد کردیا جاتا ہے اور وہ کوشش کے باوجود اپنے کام کی تکمیل نہیں کرپاتا یا اس کے عمل میں کوئی نقص رہ جاتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ ’’تم فیل (ناکام) ہوگئے‘‘ جبکہ درحقیقت وہ ناکامی نہیں بلکہ ایک بڑی کامیابی کی شروعات ہے ۔
فرض کریں کہ ہم اس شخص سے کہیں’’ تم نے غلطی کی ہے اور کوشش کرو کہ آئندہ ایسا نہ ہو‘‘ یاکہیں ’’تم کسی کام کے نہیں‘‘پھر ناکامی کے یہ جملے سن کر انسان اپنے کو پست و بیکار محسوس کرنے لگتا ہے، ایسی صورت میں کامیابی کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ سننے کے بعد بھی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو سو فیصد یقین دلائے کہ وہ کامیاب انسان ہے اور لوگوں کی رائے انتہائی غلط ہے۔ تبھی وہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
مشہور سائنسداں تھامس الوا اڈیسن کا نام یقیناسب نے سنا ہوگا، اس نے سائنس کی دنیا میں دوہزار سے زائد ایجادات و کارنامے انجام دیئے۔ اس نے بجلی کا بلب بنانے کی کوشش کی تو نو ہزار نو سو نناوے مرتبہ ناکامی اس کے ہاتھ لگی اور ہر بار لوگ اس کی ناکامی کا مذاق اڑاتے مگر وہ لوگوں سے کہتا رہا میں ناکام نہیں، کامیاب ہوں۔ اور با لأخر اس نے اپنی دس ہزارویں کوشش میں دنیا کو بجلی کے بلب کا نایاب تحفہ دیا۔
(۲) انسانی عقل ناکامی جانتی ہی نہیں، وہ صرف کامیابی پر نظر رکھتی ہے، ایک ماہر نفسیات کی عبارت کی وضاحت ضروری ہے: ’’چونکہ انسانی زندگی عموماً اپنے اندر کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو رکھتی ہے اور عقل انسانی کسی ایک چیز پر ہی غایت درجہ توجہ دے پاتی ہے پھر انسان اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے وہ ہدف چاہے مثبت رہا ہو یا منفی۔ آئیے اس کو مثالوں کے ذریعے سمجھتے ہیں۔
اول: (مثبت پہلو) ایک شخص روزانہ ورزش اور صبح کی سیر معمول کے مطابق انجام دیتا ہے، ورزش اور صبح کی سیر کے فوائد و اہمیت کو جاننے کا اہتمام کرتا ہے، پھر اس کی توجہ اسی پر مرکوز رہتی ہے تو انسانی عقل اسے کامیاب بنادیتی ہے چنانچہ وہ چست اور نشیط شخص بن جاتا ہے۔
دوم (منفی پہلو) ایک شخص جو سگریٹ نوشی کا دلدادہ ہے، ہمہ وقت سگریٹ نوشی کے بارے میں سوچتا ہے کہ کیسے ملے، کہاں ملے اور پیاس بجھ جائے، اپنی عقل کا استعمال کرتا ہے اور سگریٹ کے انواع واقسام اور متعدد کوالٹی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور وہی عقل اسے اس بری عادت میں کامیاب کردیتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ :
(۱) زندگی میں ’’ناکامی‘‘ جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔
(۲) انسانی عقل صرف کامیابی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
اگر ہم نے مثبت چیزوں پر توجہ دی تو ہماری مثبت کامیابی ہوگی اور اگر ہم نے سارا دھیان منفی چیزوں کو انجام دینے پر صرف کیا تو وہ ہماری منفی کامیابی ہوگی۔
(۱) جب کوئی شخص ایک خاص چیز بنانے کا ارادہ کرتا ہے یا اس کے ذمہ کوئی کام سپرد کردیا جاتا ہے اور وہ کوشش کے باوجود اپنے کام کی تکمیل نہیں کرپاتا یا اس کے عمل میں کوئی نقص رہ جاتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ ’’تم فیل (ناکام) ہوگئے‘‘ جبکہ درحقیقت وہ ناکامی نہیں بلکہ ایک بڑی کامیابی کی شروعات ہے ۔
فرض کریں کہ ہم اس شخص سے کہیں’’ تم نے غلطی کی ہے اور کوشش کرو کہ آئندہ ایسا نہ ہو‘‘ یاکہیں ’’تم کسی کام کے نہیں‘‘پھر ناکامی کے یہ جملے سن کر انسان اپنے کو پست و بیکار محسوس کرنے لگتا ہے، ایسی صورت میں کامیابی کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ سننے کے بعد بھی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو سو فیصد یقین دلائے کہ وہ کامیاب انسان ہے اور لوگوں کی رائے انتہائی غلط ہے۔ تبھی وہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
مشہور سائنسداں تھامس الوا اڈیسن کا نام یقیناسب نے سنا ہوگا، اس نے سائنس کی دنیا میں دوہزار سے زائد ایجادات و کارنامے انجام دیئے۔ اس نے بجلی کا بلب بنانے کی کوشش کی تو نو ہزار نو سو نناوے مرتبہ ناکامی اس کے ہاتھ لگی اور ہر بار لوگ اس کی ناکامی کا مذاق اڑاتے مگر وہ لوگوں سے کہتا رہا میں ناکام نہیں، کامیاب ہوں۔ اور با لأخر اس نے اپنی دس ہزارویں کوشش میں دنیا کو بجلی کے بلب کا نایاب تحفہ دیا۔
(۲) انسانی عقل ناکامی جانتی ہی نہیں، وہ صرف کامیابی پر نظر رکھتی ہے، ایک ماہر نفسیات کی عبارت کی وضاحت ضروری ہے: ’’چونکہ انسانی زندگی عموماً اپنے اندر کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو رکھتی ہے اور عقل انسانی کسی ایک چیز پر ہی غایت درجہ توجہ دے پاتی ہے پھر انسان اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے وہ ہدف چاہے مثبت رہا ہو یا منفی۔ آئیے اس کو مثالوں کے ذریعے سمجھتے ہیں۔
اول: (مثبت پہلو) ایک شخص روزانہ ورزش اور صبح کی سیر معمول کے مطابق انجام دیتا ہے، ورزش اور صبح کی سیر کے فوائد و اہمیت کو جاننے کا اہتمام کرتا ہے، پھر اس کی توجہ اسی پر مرکوز رہتی ہے تو انسانی عقل اسے کامیاب بنادیتی ہے چنانچہ وہ چست اور نشیط شخص بن جاتا ہے۔
دوم (منفی پہلو) ایک شخص جو سگریٹ نوشی کا دلدادہ ہے، ہمہ وقت سگریٹ نوشی کے بارے میں سوچتا ہے کہ کیسے ملے، کہاں ملے اور پیاس بجھ جائے، اپنی عقل کا استعمال کرتا ہے اور سگریٹ کے انواع واقسام اور متعدد کوالٹی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور وہی عقل اسے اس بری عادت میں کامیاب کردیتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ :
(۱) زندگی میں ’’ناکامی‘‘ جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔
(۲) انسانی عقل صرف کامیابی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
اگر ہم نے مثبت چیزوں پر توجہ دی تو ہماری مثبت کامیابی ہوگی اور اگر ہم نے سارا دھیان منفی چیزوں کو انجام دینے پر صرف کیا تو وہ ہماری منفی کامیابی ہوگی۔
جناب قاری عبدالجلیل صاحب گونڈوی رحمہ اللہjan-2010
وفات پرملال
جناب قاری عبدالجلیل صاحب گونڈوی رحمہ اللہ
جناب قاری عبدالجلیل صاحب گونڈوی رحمہ اللہ
حافظ ابوالبشریٰ عبدالحکیم گونڈوی
جامعہ سلفیہ۔ بنارس
جامعہ سلفیہ۔ بنارس
ضلع بلرامپور کے مضافات میں دریائے راپتی کے کنارے ایک عظیم اور مشہور قریہ ’’شنکرنگر‘‘ نامی آباد ہے، قاری صاحب کی جائے پیدائش یہی گاؤں ہے۔ قاری صاحب کی تعلیم و تربیت کی ابتداء اسی گاؤں کے ’’پُرَوَّہْ‘‘ نامی محلے کی مسجد سے جناب میاں عین اللہ صاحب کے ہاتھوں ہوئی ( میاں عین اللہ صاحب اپنے وقت کے سب سے ذہین باصلاحیت اور نیک مدرس مانے جاتے تھے) قاری صاحب اپنی فطری سنجیدگی، شرافت اور غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے بہت جلد نہ صرف یہ کہ استاذ کے منظورنگاہ ہوگئے بلکہ پورے گاؤں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔
مسجد کی جو کچھ تعلیم تھی اسے مکمل کرنے کے بعد والد علیہ الرحمہ کی خواہش کے مطابق حفظ قرآن کی ابتداء کی، اس وقت گاؤں میں کوئی باقاعدہ حفظ کا نظام نہیں تھا، اسی لئے والد صاحب نے اپنے ایک رشتہ کے بھائی محترم حافظ حبیب اللہ صاحب(جو نابیناتھے)کی خدمت میں قاری صاحب کو پیش کیا انہوں نے بڑی خوشی سے انہیں حفظ کرانا منظور فرمایا۔ اس طرح قاری صاحب نے ان کے گھر پر ہی پورے ذوق و شوق کے ساتھ حفظ القرآن الکریم میں مشغول ہوگئے، تقریباً ایک سال کی مدت میں دس پارے مکمل کرلئے۔ اس کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ کا رخ کیا اور مزید دو سال صرف کرکے ایک بہت اچھے حافظ بن گئے۔ حفظ قرآن کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ ہی میں دینیات کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے عربی کی جماعت اولیٰ میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہیں محترم قاری خلیل الرحمن صاحب مؤی (جو اپنی نادر اور پرکشش آواز میں اپنی مثال آپ تھے) کے پاس تجوید و قرأت کی مشق کے لئے بھی جانے لگے۔
قاری عبدالجلیل صاحب کو بھی اللہ نے ایسی پر کشش آواز دی تھی کہ اس میں بھی نمایاں ہوگئے۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۱ء میںآل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا نوگڑھ میں اجلاس منعقد ہوا۔ اس زمانے میں مدرسہ فیض عام مؤ تمام ہندوستان کے جماعتی اداروں میں سب سے معیاری مدرسہ سمجھا جاتا تھا۔جلسے میں تلاوت قرآن کے لئے شعبۂ قرأت کے استاذ محترم قاری خلیل الرحمن صاحب سے گذارش کی گئی تو آپ نے اپنے مدرسہ فیض عام مؤ کے شاگرد رشید عبدالجلیل گونڈوی کو حکم دیاکہ تم کو نوگڑھ کے جلسے میں تلاوت کرنا ہے ۔ ان کے حکم کے مطابق قاری عبدالجلیل صاحب نے تلاوت کی اورمدرسہ کا وقار بلند کیا اور وہیں سے قاری کے لقب سے اس طرح مشہور ہوئے کہ تاحیات اسی نام سے یاد کئے جاتے رہے۔
فیض عام کی تعلیم جماعت رابعہ تک ہے،اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کی ایک شاخ مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لے لیا اور وہیں حدیث و فقہ اور منطق و فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ قرأت سبعہ میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی اور وہاں سے دستار فضیلت، دستار قرأت اور قاسمی نسبت لے کر واپس ہوئے، یہ غالباً اوائل ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔
تعلیم سے فراغت کے معاً بعد آپ کو مدراس کے حاجی عبدالعزیز صاحب باؤٹا بیڑی نے اپنی مسجد میں امامت و خطابت کے منصب کے لئے دعوت دی۔ آپ مدراس پہنچ گئے مدراس میں تین سال تک بہت عزت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، لیکن صرف امامت و خطابت آپ کو راس نہ آئی اور مدراس کو خیر آباد کہہ دیا۔ اس کے بعد راجستھان کے ایک مشہور قصبہ کھنڈیلہ میں جاوارد ہوئے اور بڑے عظمت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیا۔آپ نے اپنے آخری حیات میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں مختصر مدت تک تدریسی فریضہ انجام دیا۔
بہت سے شاگرد پیدا کئے۔ بھائی صاحب کے اندر تدریس کی بہت نادر صلاحیت تھی، بہت مختصر مگر جامع نصاب کے ساتھ بہت قلیل مدت میں بڑی عمر والوں کو باقاعدہ عالم بنا دیا اور جب انہیں دل کا سخت عارضہ لاحق ہوگیا تو بغرض علاج جے پور میں تقریباً دو سال رہے۔ اس کے بعد گھر چلے آئے، گھر آئے کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ فالج کا سخت حملہ ہوگیا۔ اور پھر صاحب فراش ہوگئے اور کافی دنوں تک بستر علالت پر پڑے رہے یہاں تک کہ ۵؍محرم الحرام ۱۴۳۱ھ مطابق۲۳؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز چہار شنبہ مغرب کی اذان سے دس منٹ قبل اپنی جان جان آفریں کے سپر کردیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
۲۴؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز جمعرات بعد نماز ظہر آپ کی تجہیز وتکفین اور تدفین عمل میں آئی۔نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے، مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک وفدمولانا مطیع اللہ مدنیؔ ، زاہدؔ آزاد جھنڈانگری،مولانا عبدالنور سراجی، مولانا محمد اکرم عالیاویؔ ، عبدالعظیم سلفی جھنڈانگری پرمشتمل قاری صاحب کے جنازہ میں شریک تھا، نیز جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال سے اساتذہ نے شرکت کی۔نماز جنازہ قاری صاحب کے برادر خورد راقم کی امامت میں اداکی گئی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قاری عبدالجلیل صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت النعیم میں جگہ عطاکرے۔آمین۔
ادارہ مرکز التوحید کرشنانگر،نیپال قاری صاحب موصوف کے پسماندگان کے غم میں شریک اور ان کے لئے دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطافرمائے۔(ادارہ)
مسجد کی جو کچھ تعلیم تھی اسے مکمل کرنے کے بعد والد علیہ الرحمہ کی خواہش کے مطابق حفظ قرآن کی ابتداء کی، اس وقت گاؤں میں کوئی باقاعدہ حفظ کا نظام نہیں تھا، اسی لئے والد صاحب نے اپنے ایک رشتہ کے بھائی محترم حافظ حبیب اللہ صاحب(جو نابیناتھے)کی خدمت میں قاری صاحب کو پیش کیا انہوں نے بڑی خوشی سے انہیں حفظ کرانا منظور فرمایا۔ اس طرح قاری صاحب نے ان کے گھر پر ہی پورے ذوق و شوق کے ساتھ حفظ القرآن الکریم میں مشغول ہوگئے، تقریباً ایک سال کی مدت میں دس پارے مکمل کرلئے۔ اس کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ کا رخ کیا اور مزید دو سال صرف کرکے ایک بہت اچھے حافظ بن گئے۔ حفظ قرآن کے بعد مدرسہ فیض عام مؤ ہی میں دینیات کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے عربی کی جماعت اولیٰ میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہیں محترم قاری خلیل الرحمن صاحب مؤی (جو اپنی نادر اور پرکشش آواز میں اپنی مثال آپ تھے) کے پاس تجوید و قرأت کی مشق کے لئے بھی جانے لگے۔
قاری عبدالجلیل صاحب کو بھی اللہ نے ایسی پر کشش آواز دی تھی کہ اس میں بھی نمایاں ہوگئے۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۱ء میںآل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا نوگڑھ میں اجلاس منعقد ہوا۔ اس زمانے میں مدرسہ فیض عام مؤ تمام ہندوستان کے جماعتی اداروں میں سب سے معیاری مدرسہ سمجھا جاتا تھا۔جلسے میں تلاوت قرآن کے لئے شعبۂ قرأت کے استاذ محترم قاری خلیل الرحمن صاحب سے گذارش کی گئی تو آپ نے اپنے مدرسہ فیض عام مؤ کے شاگرد رشید عبدالجلیل گونڈوی کو حکم دیاکہ تم کو نوگڑھ کے جلسے میں تلاوت کرنا ہے ۔ ان کے حکم کے مطابق قاری عبدالجلیل صاحب نے تلاوت کی اورمدرسہ کا وقار بلند کیا اور وہیں سے قاری کے لقب سے اس طرح مشہور ہوئے کہ تاحیات اسی نام سے یاد کئے جاتے رہے۔
فیض عام کی تعلیم جماعت رابعہ تک ہے،اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کی ایک شاخ مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لے لیا اور وہیں حدیث و فقہ اور منطق و فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ قرأت سبعہ میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی اور وہاں سے دستار فضیلت، دستار قرأت اور قاسمی نسبت لے کر واپس ہوئے، یہ غالباً اوائل ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔
تعلیم سے فراغت کے معاً بعد آپ کو مدراس کے حاجی عبدالعزیز صاحب باؤٹا بیڑی نے اپنی مسجد میں امامت و خطابت کے منصب کے لئے دعوت دی۔ آپ مدراس پہنچ گئے مدراس میں تین سال تک بہت عزت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، لیکن صرف امامت و خطابت آپ کو راس نہ آئی اور مدراس کو خیر آباد کہہ دیا۔ اس کے بعد راجستھان کے ایک مشہور قصبہ کھنڈیلہ میں جاوارد ہوئے اور بڑے عظمت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیا۔آپ نے اپنے آخری حیات میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں مختصر مدت تک تدریسی فریضہ انجام دیا۔
بہت سے شاگرد پیدا کئے۔ بھائی صاحب کے اندر تدریس کی بہت نادر صلاحیت تھی، بہت مختصر مگر جامع نصاب کے ساتھ بہت قلیل مدت میں بڑی عمر والوں کو باقاعدہ عالم بنا دیا اور جب انہیں دل کا سخت عارضہ لاحق ہوگیا تو بغرض علاج جے پور میں تقریباً دو سال رہے۔ اس کے بعد گھر چلے آئے، گھر آئے کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ فالج کا سخت حملہ ہوگیا۔ اور پھر صاحب فراش ہوگئے اور کافی دنوں تک بستر علالت پر پڑے رہے یہاں تک کہ ۵؍محرم الحرام ۱۴۳۱ھ مطابق۲۳؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز چہار شنبہ مغرب کی اذان سے دس منٹ قبل اپنی جان جان آفریں کے سپر کردیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
۲۴؍دسمبر ۲۰۰۹ء بروز جمعرات بعد نماز ظہر آپ کی تجہیز وتکفین اور تدفین عمل میں آئی۔نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے، مرکز التوحید کرشنانگر، نیپال کا ایک وفدمولانا مطیع اللہ مدنیؔ ، زاہدؔ آزاد جھنڈانگری،مولانا عبدالنور سراجی، مولانا محمد اکرم عالیاویؔ ، عبدالعظیم سلفی جھنڈانگری پرمشتمل قاری صاحب کے جنازہ میں شریک تھا، نیز جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال سے اساتذہ نے شرکت کی۔نماز جنازہ قاری صاحب کے برادر خورد راقم کی امامت میں اداکی گئی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قاری عبدالجلیل صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت النعیم میں جگہ عطاکرے۔آمین۔
ادارہ مرکز التوحید کرشنانگر،نیپال قاری صاحب موصوف کے پسماندگان کے غم میں شریک اور ان کے لئے دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطافرمائے۔(ادارہ)
ڈاکٹر اسرارالحق خان کو حکومت نیپال کا خصوصی اعزاز Jan-2010
ڈاکٹر اسرارالحق خان کو حکومت نیپال کا خصوصی اعزاز
زاہدؔ آزاد جھنڈانگری*
نیپال کے سائنس و ٹکنالوجی ادارے نے اپنے۱۷ویں سالانہ پروگرام کے موقع پر ڈاکٹر اسرار الحق خاں کو نقد انعام وٹرافی سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ انعام وزیر اعظم نیپال مادھوکمار نیپال نے اپنے ہاتھوں سے دیا۔
اس موقع پر منعقد جلسے میں نیپال مرکز التوحید کے صدر شیخ عبداللہ مدنیؔ ، زاہدؔ آزاد جھنڈانگری اور معروف تاجر عبدالنور سراجیؔ نے خصوصیت سے شرکت کی۔ اس موقع پر ایک درجن سے زائد افرادکو اسناد و ٹرافیاں دی گئیں جنہوں نے سائنس و ٹکنالوجی ، الیکٹرانک اور میڈیکل سائنس کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، مسٹر اسرار الحق خان آج سے ۲۳؍ برس قبل اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے وہ آج کل نیپال کے اسلامی مرکز ’’مرکز التوحید‘‘ کے رکن خصوصی ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کے موجودہ ڈپٹی ڈائرکٹر نے ڈاکٹر خان کو مسیحا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر خان نے کبھی بھی آفس کے قلم کا ذاتی استعمال نہیں کیا اور نہ وہ آفس کا قلم لے کر کبھی گھر گئے کیوں کہ انہیں اندیشہ لاحق رہتا تھا کہ آفس کا قلم کہیں ان کے بچے نہ استعمال کرلیں وہ ایک ایماندار آفیسر تھے۔ ڈاکٹرصاحب کے بچے ہمیشہ پیدل ہی اسکول جایا کرتے تھے جب کہ ان کے ماتحت ملازمین کے بچے سواری سے اسکول جاتے تھے۔ڈاکٹر خان کی تربیت کا اثر یہ ہے کہ آج ان کے بیٹے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔مسٹر عرفان،ارشد اور اکمل صاحبان الیکڑانک انجینئر ہیں جبکہ سب سے چھوٹے ڈاکٹر بیٹے اجمل خان نے ایم ڈی کی اعلیٰ تعلیم کے بعد چندی گڑھ سے ڈی ایم کیاہے جو طبی دنیاکی بہت اعلیٰ ڈگری ہے۔
اس موقع پر منعقد جلسے میں نیپال مرکز التوحید کے صدر شیخ عبداللہ مدنیؔ ، زاہدؔ آزاد جھنڈانگری اور معروف تاجر عبدالنور سراجیؔ نے خصوصیت سے شرکت کی۔ اس موقع پر ایک درجن سے زائد افرادکو اسناد و ٹرافیاں دی گئیں جنہوں نے سائنس و ٹکنالوجی ، الیکٹرانک اور میڈیکل سائنس کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، مسٹر اسرار الحق خان آج سے ۲۳؍ برس قبل اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے وہ آج کل نیپال کے اسلامی مرکز ’’مرکز التوحید‘‘ کے رکن خصوصی ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کے موجودہ ڈپٹی ڈائرکٹر نے ڈاکٹر خان کو مسیحا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر خان نے کبھی بھی آفس کے قلم کا ذاتی استعمال نہیں کیا اور نہ وہ آفس کا قلم لے کر کبھی گھر گئے کیوں کہ انہیں اندیشہ لاحق رہتا تھا کہ آفس کا قلم کہیں ان کے بچے نہ استعمال کرلیں وہ ایک ایماندار آفیسر تھے۔ ڈاکٹرصاحب کے بچے ہمیشہ پیدل ہی اسکول جایا کرتے تھے جب کہ ان کے ماتحت ملازمین کے بچے سواری سے اسکول جاتے تھے۔ڈاکٹر خان کی تربیت کا اثر یہ ہے کہ آج ان کے بیٹے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔مسٹر عرفان،ارشد اور اکمل صاحبان الیکڑانک انجینئر ہیں جبکہ سب سے چھوٹے ڈاکٹر بیٹے اجمل خان نے ایم ڈی کی اعلیٰ تعلیم کے بعد چندی گڑھ سے ڈی ایم کیاہے جو طبی دنیاکی بہت اعلیٰ ڈگری ہے۔
Monday, 8 March 2010
Idariya ادا ریہ - Abdullah Madani- feb, 2010
تن ھمہ داغ داغ شد.....
شعور آگہی
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
عبد اللہ مدنی جھنڈانگری
کتاب وسنت پہ مشتمل دین اسلام کی تعلیمات بہت واضح ہیں، جن سے زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے، عقیدہ وعمل، معاملہ داری اور اخلاق و معاشرت کے باب میں اسلامی ہدایات کے پیش نظر امت مسلمہ کے ہر فرد کو اپنے معاشرہ میں امتیازی حیثیت کا حامل ہونا چاہئے، دوسروں کے مقابلہ میں بہر حال اسے صالح، صادق، صلح پسند اور صاف گو بن کر ہی زندگی گذارنی ہے، اسلامی شریعت کو یہی مطلوب ہے۔
خیرالقرون کے بعد آہستہ آہستہ افراد امت بگاڑ کو قبول کرنے لگے، اس طرح امت کے ہر طبقہ میں انحراف نمایاں ہوتا گیا، نوبت یہاں تک پہونچی کہ مذہب حق کا عطا کردہ روشن عقیدہ ظالمانہ روش کی لپیٹ میں آکر شرک جیسی غلاظت سے آلودہ ہو گیا۔ صاف ستھرے اعمال جو امت کا نشان امتیاز تھے بدعملی کے اندھیروں میں دھندلے ہوگئے۔ اخلاقیات کے باب میں بھی بد خلقی نے اپنے پنجے گاڑ دئیے ، اس طرح دنیا ہمیں بدخلق وبد عمل سمجھ کر بے حیثیت گرداننے لگی۔
جائزہ لیجئے، ہردن جو خبریں آرہی ہیں وہ ہماری بے راہ روی کی دلیل ہیں، مسلم نام کے افراد چوری اور ڈکیتی میں ملوث ملیں گے، شراب خوری اور بدکاری جیسے جرائم کی فہرست میں یہ نام شامل ہیں، گھپلے گھوٹالے اور قانون شکنی کے مرتکب بھی یہ ہوتے ہیں، قید خانوں کو آباد کرنے میں بڑا ہاتھ انہیں کا ہے، معاشی طور پر ملک کی کمر توڑ نے والے نقلی نوٹوں کے کاروبار میں بھی یہ نام سنائی دیتے ہیں، حد یہ کہ جہیز کے حوالے سے دنیاوی لالچ کا اسیر ہوکر افراد امت دختران ملت کو نذر آتش بھی کرنے لگے جو قتل عمد ہے اور جس کی سزا اسلام میں معلوم و معروف ہے۔
بداعمالی کی اس فہرست میں بد عقیدگی سرفہرست ہے، عقیدۂ توحید کی پامالی کے مناظر دیکھنے ہوں تو مزارات کا نظارہ کیجئے، ہر جگہ یہ عقیدہ افسردہ و ملول دکھائی دے گا۔
میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ مذہب اسلام کی حقانیت کا انکار کرنے والے غیر مسلم مزارات پہ جاکر اپنا سر کیوں جھکاتے ہیں؟ کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ انہیں صنم خانوں کی فضا میں جو کچھ میسر ہوتا ہے وہی سب مزاراتی ماحول میں فراہم پاتے ہیں۔ اسی لئے بڑے ذوق وشوق سے چادریں لے کر عقیدتمندانہ طور پر خود حاضر ہوتے ہیں یا اپنے نمائندوں کو بھیج کرحصول اجر کی امید کرتے ہیں۔
حالات سخت ہیں،امت پست ہے، اسے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ مالک کی رضامندی اور انعام کا حصول تبھی ممکن ہے جب مالک کے ساتھ وفا داری کا اظہار ہونے لگے۔ جس کے بعد مالک حقیقی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے گا اور ہم سب دنیا وآخرت میں سرخرو ہوں گے۔
خیرالقرون کے بعد آہستہ آہستہ افراد امت بگاڑ کو قبول کرنے لگے، اس طرح امت کے ہر طبقہ میں انحراف نمایاں ہوتا گیا، نوبت یہاں تک پہونچی کہ مذہب حق کا عطا کردہ روشن عقیدہ ظالمانہ روش کی لپیٹ میں آکر شرک جیسی غلاظت سے آلودہ ہو گیا۔ صاف ستھرے اعمال جو امت کا نشان امتیاز تھے بدعملی کے اندھیروں میں دھندلے ہوگئے۔ اخلاقیات کے باب میں بھی بد خلقی نے اپنے پنجے گاڑ دئیے ، اس طرح دنیا ہمیں بدخلق وبد عمل سمجھ کر بے حیثیت گرداننے لگی۔
جائزہ لیجئے، ہردن جو خبریں آرہی ہیں وہ ہماری بے راہ روی کی دلیل ہیں، مسلم نام کے افراد چوری اور ڈکیتی میں ملوث ملیں گے، شراب خوری اور بدکاری جیسے جرائم کی فہرست میں یہ نام شامل ہیں، گھپلے گھوٹالے اور قانون شکنی کے مرتکب بھی یہ ہوتے ہیں، قید خانوں کو آباد کرنے میں بڑا ہاتھ انہیں کا ہے، معاشی طور پر ملک کی کمر توڑ نے والے نقلی نوٹوں کے کاروبار میں بھی یہ نام سنائی دیتے ہیں، حد یہ کہ جہیز کے حوالے سے دنیاوی لالچ کا اسیر ہوکر افراد امت دختران ملت کو نذر آتش بھی کرنے لگے جو قتل عمد ہے اور جس کی سزا اسلام میں معلوم و معروف ہے۔
بداعمالی کی اس فہرست میں بد عقیدگی سرفہرست ہے، عقیدۂ توحید کی پامالی کے مناظر دیکھنے ہوں تو مزارات کا نظارہ کیجئے، ہر جگہ یہ عقیدہ افسردہ و ملول دکھائی دے گا۔
میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ مذہب اسلام کی حقانیت کا انکار کرنے والے غیر مسلم مزارات پہ جاکر اپنا سر کیوں جھکاتے ہیں؟ کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ انہیں صنم خانوں کی فضا میں جو کچھ میسر ہوتا ہے وہی سب مزاراتی ماحول میں فراہم پاتے ہیں۔ اسی لئے بڑے ذوق وشوق سے چادریں لے کر عقیدتمندانہ طور پر خود حاضر ہوتے ہیں یا اپنے نمائندوں کو بھیج کرحصول اجر کی امید کرتے ہیں۔
حالات سخت ہیں،امت پست ہے، اسے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ مالک کی رضامندی اور انعام کا حصول تبھی ممکن ہے جب مالک کے ساتھ وفا داری کا اظہار ہونے لگے۔ جس کے بعد مالک حقیقی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے گا اور ہم سب دنیا وآخرت میں سرخرو ہوں گے۔
Niyyat- by: maulana Abdulazeem Falahi- feb, 2010
نیت
مولانا عبد العظیم فلاحی
دبی، عرب امارات
دبی، عرب امارات
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ
اس مضمون میں ایک مسئلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں اس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے بلکہ اصلاح کے پیش نظر اس مسئلے کو پیش کرنا چاہتے ہیں وہ مسئلہ ہے نیت کا، بعض بھائی نماز پڑھنے سے پہلے نیت کا زبان سے اقرار کرکے نماز کی نیت کرتے ہیں حقیقت میں دیکھا جائے تو نیت کا تعلق زبان سے ہے ہی نہیں ۔ اقراراور ہے، نیت اور ہے، اقرار کا تعلق زبان سے ہے نیت کا تعلق دل ہے۔نیت عربی زبان میں اندر کی چیز کو کہتے ہیں اسی لئے گٹھلی کو عربی میں نوی بولتے ہیں کیونکہ گٹھلی پھل کے اندر ہوتی ہے نیت بھی دل کے اندر ہوتی ہے۔ اسی لئے نیت اور اقرار آپس میں متضاد ہیں اقرار ہے تو نیت نہیں، نیت ہے تو اقرار نہیں ۔اسی لئے اسلام نے دل کے ارادے کو نیت سے تعبیر کیا ہے نہ کہ اقرار کو۔ نمازی جب گھر سے نماز کے لئے نکل کر مسجد میں آکر وضو کرتا ہے اور مسجد میں داخل ہوتا ہے یہ سب نیت ہے قرآن کریم کی آیت ہے انہ علیم بذات الصدور۔ بیشک اللہ تعالیٰ دل کے ارادے کو جاننے والا ہے۔کہ بندہ فرض پڑھ رہا ہے یا سنت یا نوافل۔ سب اللہ کو معلوم ہے زبان سے اقرار کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ملتا ہمارے ملکوں میں نمازی فجر کی نیت، ظہر کی نیت، عصر کی نیت، مغرب کی نیت، عشاء کی نیت، جنازے کی نیت، عیدین کی نیت، وتر کی نیت اور روزہ کی نیت زبان سے ادا کرتے ہیں اور عوام الناس یہ تمام الفاظ یاد کرکے موقع بموقع پڑھتے ہیں اور علماء اپنی کتابوں میں لکھتے بھی ہیں اتفاق سے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو جملہ میں لکھ رہا ہوں اس کا تعلق کتاب و سنت سے ہے بھی یا نہیں؟ حالانکہ نظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ سب مقررہ نیت صریح سنت نبوی کے خلاف ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ تمام صحابہ اور محدثین اور فقہاء نے نیت زبان سے اقرار کرنے کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا۔ اگر اس میں مسلمانوں کے لئے فائدہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ آپ کے اصحاب دیگر محدثین ہم سے پہلے اقرار کرتے اور بعد میں آنے والوں کو تعلیم بھی دیتے۔ کیونکہ نیک اعمال کرنے میں وہ لوگ ہم سے زیادہ سبقت لے جاتے تھے، ہر فائدہ مند عملوں پر انہوں نے خوشی سے عمل کیا اور آنے والوں کو عمل کرنے کے لئے ترغیب دی۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
نیت کا لغوی اور اصطلاحی معنی۔ قصد اور ارادہ ہے تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ قصد اور ارادہ دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور ومعروف کتاب اغاثۃ اللھفان میں نیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ النیۃ ہی القصد والعزم علی فعل شئی ومحلھا القلب لا علاقۃ لھا باللسان اصلا۔ نیت اصل میں کسی فعل کے کرنے کے قصد اور عزم کو کہتے ہیں اسکا مقام ومحل دل ہے زبان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی طرح انورشاہ کشمیری اپنی کتاب فیض الباری شرح بخاری میں نیت کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فالنیۃُ امرقلبی لا علاقۃ لھا باللسان نیت دل کے فعل کو کہتے ہیں اور زبان سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے اور شیخ عبدالحق لمعات شرح مشکوۃ میں نیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا یجوز التلفظ بالنیۃ بمعنی ان ذالک خلاف السنۃ اذ لم ینقل ذالک الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نیت کا لفظوں سے اقرا ر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے اور صحابہ کرام اور ان کے پیروکارو سے یہ چیز قطعاثابت نہیں ہے جو عمل نبی کریم ﷺ ثابت نہ ہو وہ عمل اسلام میں بدعت ہے اور عند اللہ غیر مقبول ہوگا اس پرامام مسلمؒ نے ایک صحیح حدیث نقل کی ہے اس حدیث کا ملاحظہ کرنے سے اس کے بدعت ہونے میں کوئی شک شبہ نہیں رہتا۔ وہ حدیث یہ ہے ۔ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ ہر وہ کام جو نبیﷺ سے ثابت نہ ہو وہ عند اللہ مردود ہے اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ وہ انسان قیامت کے دن پکڑا جائیگا کیونکہ اس نے وہ عمل اسلام سمجھ کر کیا جو اسلام نہیں تھا جیسے قرآن کریم کی آیات میں واضح الفاظ میں یہ چیز ثابت ہے یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ وطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اللہ کی اطاعت کرو اور انکے خلاف عمل کرکے اپنے عملوں کو برباد نہ کرو۔ اور نیت کا زبان سے اقرار کرنا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول کے خلاف ہے۔ جو عمل سنت نہیں ہے اور اس کو سنت سمجھ کر کرنا کس قدر حیرت کی بات ہے! ان کے دل خوف الہی سے بالکل خالی ہیں اسی لئے یہ لوگ سنت نبویﷺ کو چھوڑ کر ایک صریح بدعت کو سنت نبوی کا مقام دے چکے ہیں۔ اس قسم کے عمل پر قرآن کریم سختی سے منع کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں ۔ یا ایھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو ۔جو عمل اللہ نے حکم نہیں دیا اور نبی ﷺ سے ثابت بھی نہیں ہے اور ہم کریں یہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنا ہے۔
اسی لئے مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی نیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں ہے اور صحابہ کرام تابعین عظام اور دیگر محدثین نیت کا زبان سے اقرار نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے صرف اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے۔ اور شیخ عبدالحئی لکھنوی نیت کے متعلق احکام النفائس میں لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنے کے بارے میں بہت دفعہ لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ نماز پڑھتے وقت نیت منہ سے اقرار کرنے کا ثبوت نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں؟ اسکا جواب دیتے ہوئے شیخ عبدالحئی لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ اور آپکے کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔ اور اہل علم کے نزدیک یہ عمل سنت نبویﷺ کے خلاف ہے شیخ عبدالحئی رحمہ اللہ کو جو جواب دینا تھا وہ صحیح طریقے سے دیدیا اب سمجھنے والا نہ سمجھے تو علماء کا کیا قصور ہے؟ اما م ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمان جزری کتاب الفقہ المذہب الأربعہ میں لکھتے ہیں کہ الحنفیۃ قالوا ان التلفظ بالنیۃ بدعۃ۔ حنفی علماء نے کہا ہے کہ نیت کو لفظاً بولنا بدعت ہے اور امام صاحب کبھی بھی بدعت کرنے کا حکم نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ بڑے عالم وعابد خداترس انسان تھے امام صاحب خود فرماتے ہیں ۔ حرام علی من لم یعرف دلیلی ان یفتیٰ بکلامی ۔ جس شخص کو میرے قول کی دلیل قرآن و حدیث سے معلوم نہ ہو اسے میرے کلام پر اکتفا کرتے ہوئے فتویٰ دینا حرام اور نا جائز ہے امام ابوحنیفہؒ سے قطعاً ثابت نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا ہو کہ نیت کا زبان سے اقرار کرو، کوئی بھی عمل ہو اسکی نیت دل میں ہونی چاہئے نہ کہ زبان سے۔ مثلا آپ کا نماز کیلئے گھر سے نکلنا مسجد کی طرف چلنا وضو کرنا مسجد میں داخل ہونا صف میں کھڑا ہونا اور قبلہ کی طرف منہ کرنا یہ سب نیت ہے۔ عقل مند انسان بلا قصد وارادہ کوئی عمل نہیں کرے گا بلا ارادہ وقصد عمل کرنے والے کو بے شعور کہا جائیگا ۔ لہٰذا کوئی بھی حرکت وعمل دل کے ارادے یعنی نیت کے بغیر نہیں ہوتی ہے اسی کا نام نیت ہے منہ سے بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ثابت ہوتا تو باقی ثابت شدہ عملوں کی طرح اس پر بھی عمل کرتے۔ اگر نیت کا لفظوں کے ساتھ اقرار کرنا مشروع ہوتا تو آپ ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے یا اپنے فعل اور قول سے امت کے لئے اسکی وضاحت فرما دیتے اور ہمارے سلف صالحین بھی ہم سے پہلے اس پرعمل کئے ہوئے ہوتے لیکن نہ آپ ﷺ سے یہ منقول ہے اور نہ آپ کے اصحاب کی طرف سے کوئی ثبوت ملتا ہے تو معلوم ہوا کہ نیت کا لفظوں میں اقرار کرنا خلاف سنت ہے اور صریح بدعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔ فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔ یقیناًتمام باتوں سے سب سے اچھی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تمام راستوں سے سب سے اچھا راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے اور تمام کاموں میں سے سب سے برا کام وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل سنت سمجھ کر کیا جائے۔ یاد رکھو دین الٰہی میں جو عمل نیا نکالا جائے گا وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔ یہ وہ جامع خطبہ ہے جو نبی کریم ﷺ اپنے ہر وعظ وتقریر کے شروع میں پڑھا کرتے تھے تاکہ امتی یہ الفاظ سن کر بدعت سے باز رہے تو نماز شروع کرنے سے پہلے نیت کے الفاظ زبان پہ نہ لائے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے۔
امام نوویؒ اپنی کتاب روضۃ الطالبین میں فرماتے ہیں نیت کا مقصد یعنی نماز پڑھنے والا ذہن میں نماز ادا کرنے کا قصد کرتا ہے مثلا ظہر کی نماز، عصر کی نماز، یا نفلی نماز اسی قصد کا نام نیت ہے اور یہ قصد اور ارادہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ ذہن میں موجود ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ اقامت کے بعد فورا اللہ اکبر کیساتھ نماز شروع کرتے تھے اس کے علاوہ زبان پر وہ مشہور نیت کے الفاظ نہیں لاتے تھے جو آج کل لوگوں کی زبان پر مشہور ہیں اور زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے جس پر تمام ائمہ دین متفق ہیں کوئی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو قرآن وحدیث کے مطابق تا حیات عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس مضمون میں ایک مسئلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں اس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے بلکہ اصلاح کے پیش نظر اس مسئلے کو پیش کرنا چاہتے ہیں وہ مسئلہ ہے نیت کا، بعض بھائی نماز پڑھنے سے پہلے نیت کا زبان سے اقرار کرکے نماز کی نیت کرتے ہیں حقیقت میں دیکھا جائے تو نیت کا تعلق زبان سے ہے ہی نہیں ۔ اقراراور ہے، نیت اور ہے، اقرار کا تعلق زبان سے ہے نیت کا تعلق دل ہے۔نیت عربی زبان میں اندر کی چیز کو کہتے ہیں اسی لئے گٹھلی کو عربی میں نوی بولتے ہیں کیونکہ گٹھلی پھل کے اندر ہوتی ہے نیت بھی دل کے اندر ہوتی ہے۔ اسی لئے نیت اور اقرار آپس میں متضاد ہیں اقرار ہے تو نیت نہیں، نیت ہے تو اقرار نہیں ۔اسی لئے اسلام نے دل کے ارادے کو نیت سے تعبیر کیا ہے نہ کہ اقرار کو۔ نمازی جب گھر سے نماز کے لئے نکل کر مسجد میں آکر وضو کرتا ہے اور مسجد میں داخل ہوتا ہے یہ سب نیت ہے قرآن کریم کی آیت ہے انہ علیم بذات الصدور۔ بیشک اللہ تعالیٰ دل کے ارادے کو جاننے والا ہے۔کہ بندہ فرض پڑھ رہا ہے یا سنت یا نوافل۔ سب اللہ کو معلوم ہے زبان سے اقرار کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ملتا ہمارے ملکوں میں نمازی فجر کی نیت، ظہر کی نیت، عصر کی نیت، مغرب کی نیت، عشاء کی نیت، جنازے کی نیت، عیدین کی نیت، وتر کی نیت اور روزہ کی نیت زبان سے ادا کرتے ہیں اور عوام الناس یہ تمام الفاظ یاد کرکے موقع بموقع پڑھتے ہیں اور علماء اپنی کتابوں میں لکھتے بھی ہیں اتفاق سے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو جملہ میں لکھ رہا ہوں اس کا تعلق کتاب و سنت سے ہے بھی یا نہیں؟ حالانکہ نظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ سب مقررہ نیت صریح سنت نبوی کے خلاف ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ تمام صحابہ اور محدثین اور فقہاء نے نیت زبان سے اقرار کرنے کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا۔ اگر اس میں مسلمانوں کے لئے فائدہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ آپ کے اصحاب دیگر محدثین ہم سے پہلے اقرار کرتے اور بعد میں آنے والوں کو تعلیم بھی دیتے۔ کیونکہ نیک اعمال کرنے میں وہ لوگ ہم سے زیادہ سبقت لے جاتے تھے، ہر فائدہ مند عملوں پر انہوں نے خوشی سے عمل کیا اور آنے والوں کو عمل کرنے کے لئے ترغیب دی۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
نیت کا لغوی اور اصطلاحی معنی۔ قصد اور ارادہ ہے تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ قصد اور ارادہ دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور ومعروف کتاب اغاثۃ اللھفان میں نیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ النیۃ ہی القصد والعزم علی فعل شئی ومحلھا القلب لا علاقۃ لھا باللسان اصلا۔ نیت اصل میں کسی فعل کے کرنے کے قصد اور عزم کو کہتے ہیں اسکا مقام ومحل دل ہے زبان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی طرح انورشاہ کشمیری اپنی کتاب فیض الباری شرح بخاری میں نیت کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فالنیۃُ امرقلبی لا علاقۃ لھا باللسان نیت دل کے فعل کو کہتے ہیں اور زبان سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے اور شیخ عبدالحق لمعات شرح مشکوۃ میں نیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا یجوز التلفظ بالنیۃ بمعنی ان ذالک خلاف السنۃ اذ لم ینقل ذالک الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نیت کا لفظوں سے اقرا ر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے اور صحابہ کرام اور ان کے پیروکارو سے یہ چیز قطعاثابت نہیں ہے جو عمل نبی کریم ﷺ ثابت نہ ہو وہ عمل اسلام میں بدعت ہے اور عند اللہ غیر مقبول ہوگا اس پرامام مسلمؒ نے ایک صحیح حدیث نقل کی ہے اس حدیث کا ملاحظہ کرنے سے اس کے بدعت ہونے میں کوئی شک شبہ نہیں رہتا۔ وہ حدیث یہ ہے ۔ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ ہر وہ کام جو نبیﷺ سے ثابت نہ ہو وہ عند اللہ مردود ہے اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ وہ انسان قیامت کے دن پکڑا جائیگا کیونکہ اس نے وہ عمل اسلام سمجھ کر کیا جو اسلام نہیں تھا جیسے قرآن کریم کی آیات میں واضح الفاظ میں یہ چیز ثابت ہے یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ وطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اللہ کی اطاعت کرو اور انکے خلاف عمل کرکے اپنے عملوں کو برباد نہ کرو۔ اور نیت کا زبان سے اقرار کرنا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول کے خلاف ہے۔ جو عمل سنت نہیں ہے اور اس کو سنت سمجھ کر کرنا کس قدر حیرت کی بات ہے! ان کے دل خوف الہی سے بالکل خالی ہیں اسی لئے یہ لوگ سنت نبویﷺ کو چھوڑ کر ایک صریح بدعت کو سنت نبوی کا مقام دے چکے ہیں۔ اس قسم کے عمل پر قرآن کریم سختی سے منع کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں ۔ یا ایھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ۔ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو ۔جو عمل اللہ نے حکم نہیں دیا اور نبی ﷺ سے ثابت بھی نہیں ہے اور ہم کریں یہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھنا ہے۔
اسی لئے مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی نیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں ہے اور صحابہ کرام تابعین عظام اور دیگر محدثین نیت کا زبان سے اقرار نہیں کیا کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے صرف اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے۔ اور شیخ عبدالحئی لکھنوی نیت کے متعلق احکام النفائس میں لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنے کے بارے میں بہت دفعہ لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ نماز پڑھتے وقت نیت منہ سے اقرار کرنے کا ثبوت نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں؟ اسکا جواب دیتے ہوئے شیخ عبدالحئی لکھتے ہیں کہ زبان سے نیت کا اقرار کرنا رسول اللہ ﷺ اور آپکے کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔ اور اہل علم کے نزدیک یہ عمل سنت نبویﷺ کے خلاف ہے شیخ عبدالحئی رحمہ اللہ کو جو جواب دینا تھا وہ صحیح طریقے سے دیدیا اب سمجھنے والا نہ سمجھے تو علماء کا کیا قصور ہے؟ اما م ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمان جزری کتاب الفقہ المذہب الأربعہ میں لکھتے ہیں کہ الحنفیۃ قالوا ان التلفظ بالنیۃ بدعۃ۔ حنفی علماء نے کہا ہے کہ نیت کو لفظاً بولنا بدعت ہے اور امام صاحب کبھی بھی بدعت کرنے کا حکم نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ بڑے عالم وعابد خداترس انسان تھے امام صاحب خود فرماتے ہیں ۔ حرام علی من لم یعرف دلیلی ان یفتیٰ بکلامی ۔ جس شخص کو میرے قول کی دلیل قرآن و حدیث سے معلوم نہ ہو اسے میرے کلام پر اکتفا کرتے ہوئے فتویٰ دینا حرام اور نا جائز ہے امام ابوحنیفہؒ سے قطعاً ثابت نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا ہو کہ نیت کا زبان سے اقرار کرو، کوئی بھی عمل ہو اسکی نیت دل میں ہونی چاہئے نہ کہ زبان سے۔ مثلا آپ کا نماز کیلئے گھر سے نکلنا مسجد کی طرف چلنا وضو کرنا مسجد میں داخل ہونا صف میں کھڑا ہونا اور قبلہ کی طرف منہ کرنا یہ سب نیت ہے۔ عقل مند انسان بلا قصد وارادہ کوئی عمل نہیں کرے گا بلا ارادہ وقصد عمل کرنے والے کو بے شعور کہا جائیگا ۔ لہٰذا کوئی بھی حرکت وعمل دل کے ارادے یعنی نیت کے بغیر نہیں ہوتی ہے اسی کا نام نیت ہے منہ سے بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر ثابت ہوتا تو باقی ثابت شدہ عملوں کی طرح اس پر بھی عمل کرتے۔ اگر نیت کا لفظوں کے ساتھ اقرار کرنا مشروع ہوتا تو آپ ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے یا اپنے فعل اور قول سے امت کے لئے اسکی وضاحت فرما دیتے اور ہمارے سلف صالحین بھی ہم سے پہلے اس پرعمل کئے ہوئے ہوتے لیکن نہ آپ ﷺ سے یہ منقول ہے اور نہ آپ کے اصحاب کی طرف سے کوئی ثبوت ملتا ہے تو معلوم ہوا کہ نیت کا لفظوں میں اقرار کرنا خلاف سنت ہے اور صریح بدعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔ فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔ یقیناًتمام باتوں سے سب سے اچھی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تمام راستوں سے سب سے اچھا راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے اور تمام کاموں میں سے سب سے برا کام وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل سنت سمجھ کر کیا جائے۔ یاد رکھو دین الٰہی میں جو عمل نیا نکالا جائے گا وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔ یہ وہ جامع خطبہ ہے جو نبی کریم ﷺ اپنے ہر وعظ وتقریر کے شروع میں پڑھا کرتے تھے تاکہ امتی یہ الفاظ سن کر بدعت سے باز رہے تو نماز شروع کرنے سے پہلے نیت کے الفاظ زبان پہ نہ لائے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے۔
امام نوویؒ اپنی کتاب روضۃ الطالبین میں فرماتے ہیں نیت کا مقصد یعنی نماز پڑھنے والا ذہن میں نماز ادا کرنے کا قصد کرتا ہے مثلا ظہر کی نماز، عصر کی نماز، یا نفلی نماز اسی قصد کا نام نیت ہے اور یہ قصد اور ارادہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ ذہن میں موجود ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ اقامت کے بعد فورا اللہ اکبر کیساتھ نماز شروع کرتے تھے اس کے علاوہ زبان پر وہ مشہور نیت کے الفاظ نہیں لاتے تھے جو آج کل لوگوں کی زبان پر مشہور ہیں اور زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے جس پر تمام ائمہ دین متفق ہیں کوئی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو قرآن وحدیث کے مطابق تا حیات عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Tarashe- \by: Maulana Abdussalam Rehmani- feb, 2010
تراشے
حضرت مولانا عبدالسلام رحمانیؔ
(جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار)
(جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار)
امریکہ کس نے دریافت کیا؟ اہل مغرب نے اس بات کا بڑے زور وشور سے ڈھنڈھورا پیٹ رکھا ہے کہ براعظم امریکہ کو کولمبس نے ۱۴۹۳ء میں دریافت کیا ہے، اس سے قبل وہ نامعلوم تھا اس حد تک تو صحیح بات ہے کہ عموماً لوگ امریکہ سے ناواقف تھے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ کوئی بھی اس سے واقف نہیں تھا واقعات اس دعوے کی تغلیط کرتے ہیں سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی شمارہ ۱۹؍اگست ۱۹۹۳ء میں اس موضوع پر ایک تحقیقی تحریر شائع ہوئی ہے، جس میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ عرب اور افریقی ملاح کولمبس سے چار صدی قبل امریکہ دریافت کرچکے تھے وہاں سے تجارتی روابط رکھتے تھے ان وجوہ ودلائل کی بنا پر ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر (Leowiene)نے ایک کتاب دو جلدوں میں لکھی ہے جس میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کو دریافت کرنے والے دراصل افریقی ملاح تھے اس کتاب کا نام(African Discovery America Acian)۔
سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ ہے جو ۱۹۲۰ء میں مصر کے اخبار میں شائع ہوئی تھی کہ ایک شامی عرب جو میکسکو میں آباد ہوگیا ہے وہ چاپاس اور بتلاس کے علاقے میں پھیری لگا کر سامان بیچ رہا تھا اس کا گزر کوہستان میں ایک قبیلہ کے پاس سے ہوا اس نے ہسپانوی زبان میں قبیلہ کے سردار سے رات گزارنے کی اجازت مانگی سردار نے عربی زبان میں اجازت دی، اس نے بتایا کہ ہم قدیم زمانے سے اس علاقے میں آباد ہیں ہم عربی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے شامی عرب عربی گفتگو سن کر حیرت زدہ رہ گیا (اعقطم قاہرہ دسمبر۱۹۲۰ء ، ’’پیام ‘‘ کلکتہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۲۰ء بحوالہ عربوں کی جہاز رانی ص:۱۹۸)۔
بحر اٹلانٹک نئی دریافت: سہ روزہ دعوت کے مذکورہ شمارہ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ ماہرین ارضیات و ماہرین بحریات و جغرافیہ دانوں کا بہت بڑا گروہ اس بات کا مدعی ہے کہ جہاں آج بحر اقیانوس (بحراٹلانٹک) واقع ہے وہاں براعظم اطلانطس واقع تھا جس کے ذریعہ افریقہ اور یورپ سے امریکہ جانا آسان تھا ارضیاتی تغیرات کی بنا پر یہ براعظم غرق ہوگیا اور اس کی جگہ بحر اٹلانٹک نمودار ہوگیا غرق ہو جانے کے بعد قدیم مصری روایات میں پھر یونانی روایات میں ’’براعظم اطلانطس‘‘کا ذکر آتا ہے، میں نے جب ۱۹۸۴ء میں کرۂ ارض کا مدوَّر سفر کیا تو نیویارک سے لندن تک ہمارا جہاز بحر اٹلانٹک ہی پر پرواز کرتا رہا۔
شریعت اسلامیہ نے جیسے مرد اور عورت کے لباس میں نمایاں فرق بیان کیا ہے۔ ایسے ہی عورت کیلئے زیب وزینت نہ کرکے باہر نکلنے اور پردہ کا بھی حکم کیا ہے۔ ان احکام میں سے یہ بھی ہے کہ مرد کے ٹخنے ننگے ہونے چاہئیں اور عورت کے ٹخنے ہی نہیں بلکہ پاؤں بھی چھپے رہنے چاہئیں۔ لیکن موجودہ وقت میں اس حکم کے الٹ ہو رہا ہے اور اس سنت رسول ﷺ پر چلنے والے کوطنز ومزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس حکم کو سطور ذیل میں پڑھئے! کہ اللہ کے رسول ﷺ کا طریقہ اور حکم کیا ہے۔
* صحابی رسول ﷺ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ’’المتشبہین من الرجال بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب: ۲۰۶۸) ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں۔ (شلوار،پاجامہ،پتلون وغیرہ) استعمال کرنے والے سوچیں کہ کہیں ہم عورتوں کی طرح ٹخنے تو نہیں ڈھانپ رہے؟
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ’’ أخذ رسول اللہ ﷺ بعضلۃ ساقی‘‘ میری پنڈلی کے گوشت کو پکڑا او ر فرمایا:’’ ہذا موضع الإزارر فإن أبیت فأسفل من ذلک فان أبیت فلا حق للإزار فی الکعبین‘‘ (ترمذی:۱۷۸۳) یہ ہے چادر(لٹکانے) کی جگہ اگر یہاں تک تو مناسب نہیں سمجھتا تو تھوڑا نیچے کر لے اور اگر یہاں (تھوڑا نیچے) بھی تو مناسب نہیں سمجھتا تو پھر ٹخنوں پر چادر رکھنے کا کوئی حق نہیں۔
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ ما أسفل من الکعبین من الإزار ففی النار‘‘ (بخاری ۵۷۸۷، کتاب اللباس) چادر کا جتنا حصہ بھی ٹخنوں سے نیچے ہوا وہ آگ میں ہوگا۔
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ إن الذی یجرثوبہ من الخیلاء لا ینظر اللہ إلیہ یوم القیامۃ، قال: فانبئت أن أم سلمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قالت: فکیف بنا؟ قال:’’ شبرا‘‘ قالت: إذاً تبدوأقدامنا، قال:’’ ذراعا لا تزدن علیہ‘‘ (مسنداحمد) کہ فخر سے کپڑا لٹکانے والے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا، تو ام المومنین سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پوچھتی ہیں کہ کیا عورتوں کے لئے بھی یہی حکم ہے؟ فرمایا: کہ وہ ایک بالشت کپڑا ٹخنو ں سے نیچا رکھا کریں! پھر پوچھتی ہیں اس طرح کرنے سے تو چلتے وقت ہمارے قدم ننگے ہونگے، دکھائی دیں گے، تو فرمایا: ایک ہاتھ مزید نیچے لٹکا لیا کرو ( تاکہ قدم ظاہر نہ ہوں) اس سے زیادہ نہیں ( تو معلوم ہوا کہ عورت کا پاؤں ڈھانپنا بھی بہت ضروری ہے) اور جو عورتیں ایک ایک دو۔دو میٹر لمبے کپڑے کا حصہ پیچھے گھسیٹتی رہتی ہیں وہ بھی منع ہے اس میں کوئی فخر نہیں بلکہ جہالت ہے۔
* صحابئ رسولﷺ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ثلاثۃ لا یکلمہم اللہ یوم القیامۃ ولا ینظر الیہم ولا یزکیہم ولہم عذاب الیم فقرأہا رسول اللہ ﷺ ثلاث مرات، قال أبو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خابوا وخسروا من ہم یا رسول اللہ ﷺ قال المسبل والمنان والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب‘‘ ( مسلم۳۰۶ کتاب الایمان، ابو داؤد:۴۰۸۷) تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ نبی ﷺ نے تین دفعہ یہ بات دہرائی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ نامراد،گھاٹے اور خسارے میں رہے کون ہیں وہ لوگ اے اللہ کے رسول ﷺ؟ تو فرمایا:(۱) مسبل ازار یعنی چادر ، تہ بند، پاجامہ وغیرہ ٹخنو ں سے نیچے لٹکانے والا (۲) منان، یعنی احسان کرنے کے بعد احسان جتلانے والا(۳) جھوٹی قسم کے ذریعے اپنے مال کو فروخت کرنے والا۔
* پیارے رسول ﷺ نے قبیلہ ثقیف کے ایک آدمی کو دیکھا: کہ وہ اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے کئے ہوئے جارہا ہے آپ ﷺ تیزی سے اس کے پیچھے گئے اور پکڑ کر فرمایا’’ أرفع إزارک واتق اللہ‘‘ اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس نے اپنی مجبوری پیش کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول ﷺ میری پنڈلیاں پتلی اور پاؤں ٹیڑھے ہیں اس لئے چادر سے اپنے پاؤں کو چھپا کے رکھتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا’’ارفع إزارک کل خلق اللہ حسن‘‘ اللہ نے جو بنایا ہے اچھا ہے تو اپنی چادر اونچی رکھ۔ (مسند أحمد) ایک دوسری روایت میں ہے ’’ ذاک أقبح مما بساقک‘‘ تیری پنڈلی کے عیب سے چادر کا نیچے کرنا زیادہ برا ہے۔
سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ ہے جو ۱۹۲۰ء میں مصر کے اخبار میں شائع ہوئی تھی کہ ایک شامی عرب جو میکسکو میں آباد ہوگیا ہے وہ چاپاس اور بتلاس کے علاقے میں پھیری لگا کر سامان بیچ رہا تھا اس کا گزر کوہستان میں ایک قبیلہ کے پاس سے ہوا اس نے ہسپانوی زبان میں قبیلہ کے سردار سے رات گزارنے کی اجازت مانگی سردار نے عربی زبان میں اجازت دی، اس نے بتایا کہ ہم قدیم زمانے سے اس علاقے میں آباد ہیں ہم عربی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے شامی عرب عربی گفتگو سن کر حیرت زدہ رہ گیا (اعقطم قاہرہ دسمبر۱۹۲۰ء ، ’’پیام ‘‘ کلکتہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۲۰ء بحوالہ عربوں کی جہاز رانی ص:۱۹۸)۔
بحر اٹلانٹک نئی دریافت: سہ روزہ دعوت کے مذکورہ شمارہ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ ماہرین ارضیات و ماہرین بحریات و جغرافیہ دانوں کا بہت بڑا گروہ اس بات کا مدعی ہے کہ جہاں آج بحر اقیانوس (بحراٹلانٹک) واقع ہے وہاں براعظم اطلانطس واقع تھا جس کے ذریعہ افریقہ اور یورپ سے امریکہ جانا آسان تھا ارضیاتی تغیرات کی بنا پر یہ براعظم غرق ہوگیا اور اس کی جگہ بحر اٹلانٹک نمودار ہوگیا غرق ہو جانے کے بعد قدیم مصری روایات میں پھر یونانی روایات میں ’’براعظم اطلانطس‘‘کا ذکر آتا ہے، میں نے جب ۱۹۸۴ء میں کرۂ ارض کا مدوَّر سفر کیا تو نیویارک سے لندن تک ہمارا جہاز بحر اٹلانٹک ہی پر پرواز کرتا رہا۔
شریعت اسلامیہ نے جیسے مرد اور عورت کے لباس میں نمایاں فرق بیان کیا ہے۔ ایسے ہی عورت کیلئے زیب وزینت نہ کرکے باہر نکلنے اور پردہ کا بھی حکم کیا ہے۔ ان احکام میں سے یہ بھی ہے کہ مرد کے ٹخنے ننگے ہونے چاہئیں اور عورت کے ٹخنے ہی نہیں بلکہ پاؤں بھی چھپے رہنے چاہئیں۔ لیکن موجودہ وقت میں اس حکم کے الٹ ہو رہا ہے اور اس سنت رسول ﷺ پر چلنے والے کوطنز ومزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس حکم کو سطور ذیل میں پڑھئے! کہ اللہ کے رسول ﷺ کا طریقہ اور حکم کیا ہے۔
* صحابی رسول ﷺ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ’’المتشبہین من الرجال بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب: ۲۰۶۸) ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں۔ (شلوار،پاجامہ،پتلون وغیرہ) استعمال کرنے والے سوچیں کہ کہیں ہم عورتوں کی طرح ٹخنے تو نہیں ڈھانپ رہے؟
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ’’ أخذ رسول اللہ ﷺ بعضلۃ ساقی‘‘ میری پنڈلی کے گوشت کو پکڑا او ر فرمایا:’’ ہذا موضع الإزارر فإن أبیت فأسفل من ذلک فان أبیت فلا حق للإزار فی الکعبین‘‘ (ترمذی:۱۷۸۳) یہ ہے چادر(لٹکانے) کی جگہ اگر یہاں تک تو مناسب نہیں سمجھتا تو تھوڑا نیچے کر لے اور اگر یہاں (تھوڑا نیچے) بھی تو مناسب نہیں سمجھتا تو پھر ٹخنوں پر چادر رکھنے کا کوئی حق نہیں۔
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ ما أسفل من الکعبین من الإزار ففی النار‘‘ (بخاری ۵۷۸۷، کتاب اللباس) چادر کا جتنا حصہ بھی ٹخنوں سے نیچے ہوا وہ آگ میں ہوگا۔
* صحابئ رسول ﷺ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ إن الذی یجرثوبہ من الخیلاء لا ینظر اللہ إلیہ یوم القیامۃ، قال: فانبئت أن أم سلمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قالت: فکیف بنا؟ قال:’’ شبرا‘‘ قالت: إذاً تبدوأقدامنا، قال:’’ ذراعا لا تزدن علیہ‘‘ (مسنداحمد) کہ فخر سے کپڑا لٹکانے والے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا، تو ام المومنین سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پوچھتی ہیں کہ کیا عورتوں کے لئے بھی یہی حکم ہے؟ فرمایا: کہ وہ ایک بالشت کپڑا ٹخنو ں سے نیچا رکھا کریں! پھر پوچھتی ہیں اس طرح کرنے سے تو چلتے وقت ہمارے قدم ننگے ہونگے، دکھائی دیں گے، تو فرمایا: ایک ہاتھ مزید نیچے لٹکا لیا کرو ( تاکہ قدم ظاہر نہ ہوں) اس سے زیادہ نہیں ( تو معلوم ہوا کہ عورت کا پاؤں ڈھانپنا بھی بہت ضروری ہے) اور جو عورتیں ایک ایک دو۔دو میٹر لمبے کپڑے کا حصہ پیچھے گھسیٹتی رہتی ہیں وہ بھی منع ہے اس میں کوئی فخر نہیں بلکہ جہالت ہے۔
* صحابئ رسولﷺ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ثلاثۃ لا یکلمہم اللہ یوم القیامۃ ولا ینظر الیہم ولا یزکیہم ولہم عذاب الیم فقرأہا رسول اللہ ﷺ ثلاث مرات، قال أبو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خابوا وخسروا من ہم یا رسول اللہ ﷺ قال المسبل والمنان والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب‘‘ ( مسلم۳۰۶ کتاب الایمان، ابو داؤد:۴۰۸۷) تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ نبی ﷺ نے تین دفعہ یہ بات دہرائی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ نامراد،گھاٹے اور خسارے میں رہے کون ہیں وہ لوگ اے اللہ کے رسول ﷺ؟ تو فرمایا:(۱) مسبل ازار یعنی چادر ، تہ بند، پاجامہ وغیرہ ٹخنو ں سے نیچے لٹکانے والا (۲) منان، یعنی احسان کرنے کے بعد احسان جتلانے والا(۳) جھوٹی قسم کے ذریعے اپنے مال کو فروخت کرنے والا۔
* پیارے رسول ﷺ نے قبیلہ ثقیف کے ایک آدمی کو دیکھا: کہ وہ اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے کئے ہوئے جارہا ہے آپ ﷺ تیزی سے اس کے پیچھے گئے اور پکڑ کر فرمایا’’ أرفع إزارک واتق اللہ‘‘ اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس نے اپنی مجبوری پیش کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول ﷺ میری پنڈلیاں پتلی اور پاؤں ٹیڑھے ہیں اس لئے چادر سے اپنے پاؤں کو چھپا کے رکھتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا’’ارفع إزارک کل خلق اللہ حسن‘‘ اللہ نے جو بنایا ہے اچھا ہے تو اپنی چادر اونچی رکھ۔ (مسند أحمد) ایک دوسری روایت میں ہے ’’ ذاک أقبح مما بساقک‘‘ تیری پنڈلی کے عیب سے چادر کا نیچے کرنا زیادہ برا ہے۔
Mr. Abdul khalq Shoes wale passes away- Abdul Azeem Salafi- feb, 2010
جناب عبدالخالق صاحب کا انتقال پرملال
وفیات
عبدالعظیم سلفی جھنڈانگری
عبدالعظیم سلفی جھنڈانگری
کرشنا نگر، نیپال کی اہم شخصیت اور مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے ممبر جناب عبدالخالق صاحب مورخہ ۲۹؍جنوری ۲۰۱۰ء بروز جمعہ بوقت فجر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔إناللہ وإنا الیہ راجعون
دو سال قبل آپ کو برین ہیمریج ہوا، درمیان میں ہلکا افاقہ ہوا لیکن کمزوری بڑھتی گئی اس دوران آپ کے بڑے صاحبزادے عبدالمالک برابر آپ کی تیمارداری میں لگے رہے اور ایک فرمانبردار بیٹے کا کردار ادا کرتے رہے، انہوں نے بتایا کہ والد صاحب نے ۱۹۶۲ء میں گاندھی آدرش، بڑھنی سے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی اور شہرت گڑھ شیوپتی انٹر کالج سے آپ نے ۱۹۶۴ء میں انٹر مکمل کیا۔ پھر مزید تعلیم کے لئے آپ نے بستی کا رخ کیا اور ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔
گھریلو حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ آپ کو تجارت کے میدان میں آنا پڑا اور وہ بھی اس طرح کہ ریلوے ملازمت کے لئے آگرہ فارم پر کرنے گئے، سخت بارش ہونے لگی آپ ایک جوتے کی دوکان میں چلے گئے، وہاں آپ نے سستے دام میں جوتے دیکھے ، جیب میں جتنے پیسے تھے آپ نے جوتے خرید لئے اور پھر تاحیات اس کاروبار سے منسلک رہے۔
جناب عبدالخالق صاحب رحمہ اللہ کے ہم سبق اور بڑھنی کی معروف شخصیت جناب قاضی عزیزالرحمن صاحب کی ہے انہوں نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ بھائی عبدالخالق صاحب بہت صاف ستھرے اور نیک آدمی تھے، آپ نے کسی کی برائی نہیں سوچی ،ہمیشہ صاف ستھرا مال خریدار کو فراہم کیا، جس سے اچھے اچھے کسٹمر آپ کی دوکان پر آتے تھے، انہوں نے بتلایا کہ گاندھی آدرش ، بڑھنی میں ہمارے ایک استاذ ماسٹر عبدالصمد صاحب تھے ، ان کا کہنا تھا کہ ایک پیپر انگلش کا خرید لو اس کو ایک ہفتہ تک پڑھو جس کا مطلب سمجھ میں نہ آئے مجھ سے پوچھ لو ،جناب عبدالخالق صاحب نے ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ منگانا شروع کیا شروع میں کچھ زحمت ہوئی پھر آپ نے اس پر اس طرح قابو پالیا کہ خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانیؔ رحمہ اللہ انگلش خطوط کا ترجمہ آپ ہی سے کرایا کرتے تھے اور اساتذۂ جامعہ کو جب انگلش میں کسی مفہوم سے ناآشنائی ہوتی تو آپ اس سے آشنا کرادیا کرتے تھے۔
ذمہ داران مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ نے جب مدرسہ کی بنیاد رکھنا چاہی تو علاقے کی جن اہم شخصیات کو مشورے کے لئے مدعوکیا گیا ان میں جناب عبدالخالق صاحب رحمہ اللہ ایک تھے، تاحیات آپ اس ادارے کے ممبررہ کر اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازتے رہے۔
بعد نماز جمعہ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں آپ کی نماز جنازہ اداکی گئی پھر مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی مسجدالتوحید میں مصلیوں کے ساتھ طالبات مدرسہ نے بھی آپ کے جنازہ میں شرکت کی۔ اللہ رب العالمین آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔
***
دو سال قبل آپ کو برین ہیمریج ہوا، درمیان میں ہلکا افاقہ ہوا لیکن کمزوری بڑھتی گئی اس دوران آپ کے بڑے صاحبزادے عبدالمالک برابر آپ کی تیمارداری میں لگے رہے اور ایک فرمانبردار بیٹے کا کردار ادا کرتے رہے، انہوں نے بتایا کہ والد صاحب نے ۱۹۶۲ء میں گاندھی آدرش، بڑھنی سے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی اور شہرت گڑھ شیوپتی انٹر کالج سے آپ نے ۱۹۶۴ء میں انٹر مکمل کیا۔ پھر مزید تعلیم کے لئے آپ نے بستی کا رخ کیا اور ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔
گھریلو حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ آپ کو تجارت کے میدان میں آنا پڑا اور وہ بھی اس طرح کہ ریلوے ملازمت کے لئے آگرہ فارم پر کرنے گئے، سخت بارش ہونے لگی آپ ایک جوتے کی دوکان میں چلے گئے، وہاں آپ نے سستے دام میں جوتے دیکھے ، جیب میں جتنے پیسے تھے آپ نے جوتے خرید لئے اور پھر تاحیات اس کاروبار سے منسلک رہے۔
جناب عبدالخالق صاحب رحمہ اللہ کے ہم سبق اور بڑھنی کی معروف شخصیت جناب قاضی عزیزالرحمن صاحب کی ہے انہوں نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ بھائی عبدالخالق صاحب بہت صاف ستھرے اور نیک آدمی تھے، آپ نے کسی کی برائی نہیں سوچی ،ہمیشہ صاف ستھرا مال خریدار کو فراہم کیا، جس سے اچھے اچھے کسٹمر آپ کی دوکان پر آتے تھے، انہوں نے بتلایا کہ گاندھی آدرش ، بڑھنی میں ہمارے ایک استاذ ماسٹر عبدالصمد صاحب تھے ، ان کا کہنا تھا کہ ایک پیپر انگلش کا خرید لو اس کو ایک ہفتہ تک پڑھو جس کا مطلب سمجھ میں نہ آئے مجھ سے پوچھ لو ،جناب عبدالخالق صاحب نے ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ منگانا شروع کیا شروع میں کچھ زحمت ہوئی پھر آپ نے اس پر اس طرح قابو پالیا کہ خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانیؔ رحمہ اللہ انگلش خطوط کا ترجمہ آپ ہی سے کرایا کرتے تھے اور اساتذۂ جامعہ کو جب انگلش میں کسی مفہوم سے ناآشنائی ہوتی تو آپ اس سے آشنا کرادیا کرتے تھے۔
ذمہ داران مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ نے جب مدرسہ کی بنیاد رکھنا چاہی تو علاقے کی جن اہم شخصیات کو مشورے کے لئے مدعوکیا گیا ان میں جناب عبدالخالق صاحب رحمہ اللہ ایک تھے، تاحیات آپ اس ادارے کے ممبررہ کر اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازتے رہے۔
بعد نماز جمعہ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر، نیپال میں آپ کی نماز جنازہ اداکی گئی پھر مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی مسجدالتوحید میں مصلیوں کے ساتھ طالبات مدرسہ نے بھی آپ کے جنازہ میں شرکت کی۔ اللہ رب العالمین آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔
***
maktoob from maulana Mohammed Azami- feb-2009
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم شیخ عبداللہ مدنیؔ ؍حفظہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ بندہ بخیر و عافیت ہے، امید ہے آپ بھی مع متعلقین بخیر ہوں گے ان شاء اللہ۔
آپ کا مرسلہ مؤقر مجلہ ’’نورتوحید‘‘کا ڈاکٹر ازہری نمبر وصول ہوا، بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اس معاملے میں سبقت فرمائی، جزاکم اللہ خیرالجزاء، جماعتی جرائد و مجلات کا المیہ ہے کہ وہ اعلان تو کردیتے ہیں لیکن عملاًخاموش رہتے ہیں۔
محترم اسحاق بھٹی صاحب نے تو ڈاکٹر صاحب کی زندگی ہی میں ان کا سوانحی خاکہ اپنی معلومات کے مطابق زیب قرطاس کردیاہے، ان کے مضمون میں کچھ باتیں محل نظر و تحقیق ہیں، امید کہ مجلہ ’’محدث‘‘ بنارس میں ان کی تصحیح کی کوشش کی جائے گی، البتہ آپ سے گذارش ہے کہ بھٹی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے اساتذہ میں پہلا نام ڈاکٹر عبدالعلی لکھا ہے، زیادہ موضوع بحث بنا ہوا ہے، مولانا عبدالعلی ہونا چاہئے، جو میرے والد رحمہ اللہ ہیں، ڈاکٹر لکھنے سے فوراً ڈاکٹر عبدالعلی ازہریؔ کی طرف ذہن جاتا ہے، جو ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ کے جونیر کلاس فیلو ہیں، امید ہے کہ آپ اپنے مجلہ میں اس تصحیح کو شائع کرکے قارئین کو مطمئن فرمائیں گے۔
یہ فقیر شکرگذار ہے ک آپ نے اس کو یاد رکھا، اور خاص نمبر بھیج کر ممنون فرمایا، اس خاص نمبر کی اشاعت پر آپ کی خدمت میں ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کررہا ہوں اور طالب دعائے خیر ہوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
العبدالفقیر لرحمۃ اللہ القدیر
محمد الاعظمی
مؤ ناتھ بھنجن،یوپی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ بندہ بخیر و عافیت ہے، امید ہے آپ بھی مع متعلقین بخیر ہوں گے ان شاء اللہ۔
آپ کا مرسلہ مؤقر مجلہ ’’نورتوحید‘‘کا ڈاکٹر ازہری نمبر وصول ہوا، بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اس معاملے میں سبقت فرمائی، جزاکم اللہ خیرالجزاء، جماعتی جرائد و مجلات کا المیہ ہے کہ وہ اعلان تو کردیتے ہیں لیکن عملاًخاموش رہتے ہیں۔
محترم اسحاق بھٹی صاحب نے تو ڈاکٹر صاحب کی زندگی ہی میں ان کا سوانحی خاکہ اپنی معلومات کے مطابق زیب قرطاس کردیاہے، ان کے مضمون میں کچھ باتیں محل نظر و تحقیق ہیں، امید کہ مجلہ ’’محدث‘‘ بنارس میں ان کی تصحیح کی کوشش کی جائے گی، البتہ آپ سے گذارش ہے کہ بھٹی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے اساتذہ میں پہلا نام ڈاکٹر عبدالعلی لکھا ہے، زیادہ موضوع بحث بنا ہوا ہے، مولانا عبدالعلی ہونا چاہئے، جو میرے والد رحمہ اللہ ہیں، ڈاکٹر لکھنے سے فوراً ڈاکٹر عبدالعلی ازہریؔ کی طرف ذہن جاتا ہے، جو ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ کے جونیر کلاس فیلو ہیں، امید ہے کہ آپ اپنے مجلہ میں اس تصحیح کو شائع کرکے قارئین کو مطمئن فرمائیں گے۔
یہ فقیر شکرگذار ہے ک آپ نے اس کو یاد رکھا، اور خاص نمبر بھیج کر ممنون فرمایا، اس خاص نمبر کی اشاعت پر آپ کی خدمت میں ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کررہا ہوں اور طالب دعائے خیر ہوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
العبدالفقیر لرحمۃ اللہ القدیر
محمد الاعظمی
مؤ ناتھ بھنجن،یوپی
Saturday, 6 March 2010
Interview with Justice Salahuddin Siddiqui By: Abdus Saboor Nadvi- feb 2010
جسٹس صلاح الدین اختر صدیقی سے ایک ملاقات
انٹرویو: عبد الصبور ندوی جھنڈا نگری
انٹرویو: عبد الصبور ندوی جھنڈا نگری
گذشتہ دنوں عالی جناب صلاح الدین اختر صدیقی (نیپال گنج) کو وکالت کے شعبے سے ڈائرکٹ اپیلیٹ کورٹ کا جج بنایا گیا، مسلمانان نیپال میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، صدیقی صاحب ملکی پیمانے پر ایک باصلاحیت اور پر وقار شخصیت کے حامل ہیں، ان کی آمد سے نیپال کی عدالتی تاریخ میں ان شاء اللہ ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا، جج بننے کے بعد عم گرامی جناب مولانا عبداللہ مدنیؔ ؍حفظہ اللہ کی زیارت کے لئے جھنڈانگر تشریف لائے، پیش ہے اس موقع پر کی گئی گفتگو کے اہم اقتباسات: (ع.ص.ن)
س: سب سے پہلے مختصر تعارف؟
ج: میرانام صلاح الدین اختر صدیقی ہے، والد صاحب کا نام محمد اصغر علی ہے،۱۴؍دسمبر ۱۹۵۵ء کو نیپال گنج میں پیدائش ہوئی، ۱۹۷۶ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے Bsc.کیا، پھر وہیں سے ۱۹۷۹ء میں LLB.کی ڈگری حاصل کی، ۱۹۹۰ء میں اٹلی کی راجدھانی روم میں واقع انٹرنیشنل لاء انسٹی ٹیوٹ سے وکالت کا ڈپلومہ کورس کیا، ۱۹۹۱ء میں ٹیکساس کے ساؤتھ ویسٹرن فاؤنڈیشن سے انٹر نیشنل لاء میں ڈپلومہ کیا، ۲۰۰۹ء میں راج شری ٹنڈن یونیورسٹی الٰہ آباد سے سوشیالوجی میں ایم.اے کیا، چونکہ خاندان میں کئی لوگ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے اور گھر کا ماحول بھی کچھ ایسا تھا کہ ۱۹۸۰ء میں میں نے بھی ضلعی عدالت میں وکالت شروع کردی، اس دوران زونل اور سپریم کورٹ میں بھی وکالت کا موقع ملا، اور ۲۹؍سالوں کے بعد الحمدللہ مجھے وکالت کے شعبے سے ڈائرکٹ اپیلیٹ کورٹ کا جج بنادیا گیا۔
س: آپ نے ۲۹؍برس وکالت کے شعبے میں گذارا، ایک مسلمان وکیل ہونے کی حیثیت سے کبھی کوئی پریشانی محسوس ہوئی؟
ج: جی ہاں! کبھی آئین کو لے کر اور کبھی سوتیلے سلوک کو لیکر پریشانی ہوئی ہے، ۲۹؍برس وکالت کے پیشے سے منسلک رہنے کے باوجود مجھے سینئر وکیل کا لائسنس نہیں دیا گیا۔
جب کہ آئین کے مطابق ہر وہ وکیل جو اپنی وکالت کے ۱۵؍برس پورا کرلے، اسے سینئر وکیل کا لائسنس دیا جانا چاہئے، مگر داخلی طور پر سپریم کورٹ کے ججوں اور عدالتی اداروں نے من مانی کرتے ہوئے ۳۰؍سال مدت مقرر کردی، مذہبی بھید بھاؤ اس طرح ہوا کہ مجھ سے جونیئر وکیلوں کو جج کی کرسی بہت پہلے دیدی گئی جبکہ قانونا وہ اس کے اہل نہیں تھے۔
س: کیا نیپالی مسلمانوں کو عدالتی میدان کے علاوہ دوسرے محاذ پر بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
ج: نیپال اب جبکہ ایک سماویشی دیش بن چکا ہے، سیکولر اقدار کی دہائی دے رہا ہے، اس دیش میں مسلمانوں کو پوری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے، میدان چاہے عدالت کا ہو یا سیاست کا، سماجی ہو یا تعلیمی، کہیں نہ کہیں آپ کو ضرور محسوس ہوگا کہ اہلیت و لیاقت کے باوجود آپ کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
س: آپ نے دور شہنشاہی بھی دیکھا ہے اور موجودہ جمہوری نظام بھی، عدالتی نقطۂ نظر سے کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج: شہنشاہیت کی طرف سے عوامی مسائل و معاملات میں ججوں پر کوئی دباؤ نہیں تھا، وکلاء کی داؤں پیچ بھی کارگر نہ تھی، البتہ شاہی خاندان کے بارے میں جج حضرات کسی بھی منفی فیصلہ(ان کے حق میں) سے باز رہتے تھے، مگر موجودہ جمہوری سسٹم میں عدالتی کاروائیوں کی شفافیت ختم ہوتی جارہی ہے اور وقتا فوقتاکسی نہ کسی مقدمہ میں حکومتی دباؤ کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔
س:اگر مسلمانوں کے عائلی معاملات (نکاح، طلاق، وراثت) آپ کی عدالت میں پہونچیں پھر نیپالی آئین اسلامی قوانین سے مختلف ہو، ایسے میں کیا آپ شریعت مخالف فیصلہ کرنے سے گریز کریں گے؟
ج: نکاح،طلاق اور وراثت کے علاوہ بھی اگردوسرے معاملات آتے ہیں جو اسلامی افکاراور اصولوں سے متصادم ہیں، اگرچہ نیپالی آئین اس مخالفت کی اجازت دیتا ہو، اس وقت ایسے مقدمات کو اپنی بینچ سے ہٹادوں گا، میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا، دوسرے بینچ پر چاہے جو فیصلہ کیا جائے۔
س: جزاک اللہ خیراً ،نیپال میں ضلعی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک کل چار مسلم جج ہیں، ان کے لئے کوئی پیغام؟
ج: بس یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی دانست میں اپنی زبان و قلم سے کوئی ایسافیصلہ نہ کریں جو اسلام کے خلاف ہو۔
س: نیپال میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کی خاطر آپ کی کوئی کوشش ،خدمت؟
ج: الحمدللہ، اپنے اس دیش میں مسلمانوں کے حقوق و تشخص کی حفاظت کے لئے حقوق انسانی تنظیم کے پلیٹ فارم سے میں نے بہت کوشش کی ہے اور کئی مطالبات کو حکومت نے تسلیم بھی کیا ، جن میں عیدین کی سرکاری تعطیل بھی شامل ہے، آگے بھی ان شاء اللہ میری کوشش جاری رہے گی کہ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق پور ی طرح ملتے رہیں۔
س:نیپال سے باہر متعدد ممالک میں آپ کو لیکچرز کے لئے مدعو کیا جاتا رہا، عموماً کیا موضوع ہوا کرتا تھا؟
ج: میں نے ۱۸؍ممالک میں کئی موضوعات پر لیکچرز دئے ہیں ، مگر سب سے زیادہ شراب نوشی کی مخالفت کو اپنا موضوع بنایا ۔
س:شام ہوتے ہی ملک نیپال شراب کے نشے میں بدمست ہوجاتا ہے، اس دیش میں شراب کے خلاف کوئی تحریک؟
ج: جی ہاں! میں نے اپنے دیش کی بگڑی صورت حال کو مدنظر رکھ کر ہی خصوصاً شراب کے مضر اثرات کو اپنا موضوع بنایا، اور عالمی ادارۂ صحت (W.H.O.) کے ذریعے نیپالی حکومت سے احتجاج کیا، کہ ملک کا معاشرتی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہورہا ہے لہٰذا شراب کو رواج دینا بند کیا جائے، اس کی برآمدگی پر قدغن لگایا جائے، چنانچہ حکومت نیپال نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور میری نشاندہی پر کروڑوں روپئے کی شراب ضائع کردی گئی، مجھے دھچکا اس وقت لگا جب دیکھا کہ شراب کے ٹھیکہ داروں میں ایک اچھی تعداد نام نہاد مسلمانوں کی سرگرم ہے، ایک مشہور نام مقبول لاری جو شراب کے ایک بڑے تاجر ہیں، ان کی کروڑوں کی شراب میری تحریک پر ضائع کردی گئی۔
س: نیپال میں ایک بڑی تعداد ہند نژاد نیپالیوں (جنہیں عرف عام میں مدھیشی کہا جاتا ہے) کی ہے جو انگریزوں کے عہد میں ہجرت کرآئے تھے، ان کے لئے کوئی خدمت؟
ج: سب سے بڑا مسئلہ ان کی شہریت کا تھا، صورتحال یہ تھی کہ یہ نہ ہندوستانی تھے نہ نیپالی اور حکومت کی بے اعتنائی کا شکار تھے کچھ کو شہریت مل گئی تھی مگر دس لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ تھے جن کے پاس کوئی شہریت نہیں تھی، میں نے برطانیہ میں اور نیپال میں حکومتوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا اور اقوام متحدہ کے اس قانون کا حوالہ دیا کہ کوئی شخص شہریت سے محروم نہ رہے، انگریزی استعمار کے دور میں یہ لوگ بھارت سے نیپال آئے، میں نے گرجا پرساد کوئرالہ ( اس وقت کے وزیر اعظم) کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ اگر آپ دس لاکھ سے زیادہ آبادی جو شہریت سے محروم ہے، اگر انہیں آپ شہریت نہیں دیتے ہیں تو ان سب کو برطانیہ بھیجنا پڑے گا، کوئرالہ نے فوراً توجہ دی اور سبھوں کو شہریت دینے کا فرمان جاری کیا۔
س: نیپال میں قائم حقوق انسانی کی تنظیموں کے ساتھ آپ کا گہرا ربط رہا ہے، کچھ بتائیں؟
ج: جی ہاں؟ میں نے تقریباً ہیومن رائٹس کی متعدد تنظیموں کے ساتھ ۱۸؍برس کام کیا ہے۔ چنانچہ میں ۲۰۰۵ء میں ہیومن رائٹس کونسل کا قومی صدر بھی تھا، اس تنظیم کے ذریعے حق شہریت، ملکیت، ذاتی حقوق ، نفاذ امن، جابجا عدالتوں، اسکولوں اورشفاخانوں کے قیام کے لئے تحریکیں چلائیں جو بہت حد تک کامیاب رہیں۲۰۰۸ء کے دستور ساز اسمبلی انتخابات میں انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے مجھے آبزرور (مشاہد) بھی متعین کیا گیا، تاکہ عوام کے انتخابی حقوق میں کوئی دھاندلی نہ ہو۔
س: میڈیا (صحافت ) سے بھی آپ کا لگاؤ رہا ہے تو کس حد تک؟
ج: الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا دونوں میں میری تحریریں چھپیں، بیانا ت نشر ہوئے، آئین اورلاء کے تعلق سے بے شمار مضامین نیپالی و انگریزی زبان میں شائع ہوئے، صحافتی ذوق کی تسکین کی خاطر ایک مرتبہ انگریزی میں BRACEنامی میگزین نکالنا شروع کیا اور ۲۰۰۵ء میں چیف ایڈیٹر و پبلیشر کے طور پر کام کیا۔
س: سیاست سے رشتہ۔۔۔؟
ج: جی ہاں! سیاست کی بھی شدبد رہی ہے اور وجہ ہے ضلع بانکے کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے جڑے رہنا، ۱۹۹۴ء میں مذکورہ پارٹی کا آفیشل امیدوار بھی رہ چکا ہوں۔
س: جن ممالک کا آپ نے دورہ کیا، کچھ کے نام؟
ج: امریکہ، برطانیہ، اٹلی، سوئزرلینڈ، سعودی عرب، سویڈن، پاکستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ وغیرہ
س: اخیر میں ، مسلمانان نیپال کے لئے کوئی پیغام؟
ج: میں یہی کہنا چاہوں گا کہ تعلیمی میدان میں محنت کریں، اپنے کو قابل و لائق بنائیں، علمی معیار بلند کریں، ان شاء اللہ مناصب خود بخود ملیں گے۔
***
س: سب سے پہلے مختصر تعارف؟
ج: میرانام صلاح الدین اختر صدیقی ہے، والد صاحب کا نام محمد اصغر علی ہے،۱۴؍دسمبر ۱۹۵۵ء کو نیپال گنج میں پیدائش ہوئی، ۱۹۷۶ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے Bsc.کیا، پھر وہیں سے ۱۹۷۹ء میں LLB.کی ڈگری حاصل کی، ۱۹۹۰ء میں اٹلی کی راجدھانی روم میں واقع انٹرنیشنل لاء انسٹی ٹیوٹ سے وکالت کا ڈپلومہ کورس کیا، ۱۹۹۱ء میں ٹیکساس کے ساؤتھ ویسٹرن فاؤنڈیشن سے انٹر نیشنل لاء میں ڈپلومہ کیا، ۲۰۰۹ء میں راج شری ٹنڈن یونیورسٹی الٰہ آباد سے سوشیالوجی میں ایم.اے کیا، چونکہ خاندان میں کئی لوگ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے اور گھر کا ماحول بھی کچھ ایسا تھا کہ ۱۹۸۰ء میں میں نے بھی ضلعی عدالت میں وکالت شروع کردی، اس دوران زونل اور سپریم کورٹ میں بھی وکالت کا موقع ملا، اور ۲۹؍سالوں کے بعد الحمدللہ مجھے وکالت کے شعبے سے ڈائرکٹ اپیلیٹ کورٹ کا جج بنادیا گیا۔
س: آپ نے ۲۹؍برس وکالت کے شعبے میں گذارا، ایک مسلمان وکیل ہونے کی حیثیت سے کبھی کوئی پریشانی محسوس ہوئی؟
ج: جی ہاں! کبھی آئین کو لے کر اور کبھی سوتیلے سلوک کو لیکر پریشانی ہوئی ہے، ۲۹؍برس وکالت کے پیشے سے منسلک رہنے کے باوجود مجھے سینئر وکیل کا لائسنس نہیں دیا گیا۔
جب کہ آئین کے مطابق ہر وہ وکیل جو اپنی وکالت کے ۱۵؍برس پورا کرلے، اسے سینئر وکیل کا لائسنس دیا جانا چاہئے، مگر داخلی طور پر سپریم کورٹ کے ججوں اور عدالتی اداروں نے من مانی کرتے ہوئے ۳۰؍سال مدت مقرر کردی، مذہبی بھید بھاؤ اس طرح ہوا کہ مجھ سے جونیئر وکیلوں کو جج کی کرسی بہت پہلے دیدی گئی جبکہ قانونا وہ اس کے اہل نہیں تھے۔
س: کیا نیپالی مسلمانوں کو عدالتی میدان کے علاوہ دوسرے محاذ پر بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
ج: نیپال اب جبکہ ایک سماویشی دیش بن چکا ہے، سیکولر اقدار کی دہائی دے رہا ہے، اس دیش میں مسلمانوں کو پوری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے، میدان چاہے عدالت کا ہو یا سیاست کا، سماجی ہو یا تعلیمی، کہیں نہ کہیں آپ کو ضرور محسوس ہوگا کہ اہلیت و لیاقت کے باوجود آپ کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
س: آپ نے دور شہنشاہی بھی دیکھا ہے اور موجودہ جمہوری نظام بھی، عدالتی نقطۂ نظر سے کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج: شہنشاہیت کی طرف سے عوامی مسائل و معاملات میں ججوں پر کوئی دباؤ نہیں تھا، وکلاء کی داؤں پیچ بھی کارگر نہ تھی، البتہ شاہی خاندان کے بارے میں جج حضرات کسی بھی منفی فیصلہ(ان کے حق میں) سے باز رہتے تھے، مگر موجودہ جمہوری سسٹم میں عدالتی کاروائیوں کی شفافیت ختم ہوتی جارہی ہے اور وقتا فوقتاکسی نہ کسی مقدمہ میں حکومتی دباؤ کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔
س:اگر مسلمانوں کے عائلی معاملات (نکاح، طلاق، وراثت) آپ کی عدالت میں پہونچیں پھر نیپالی آئین اسلامی قوانین سے مختلف ہو، ایسے میں کیا آپ شریعت مخالف فیصلہ کرنے سے گریز کریں گے؟
ج: نکاح،طلاق اور وراثت کے علاوہ بھی اگردوسرے معاملات آتے ہیں جو اسلامی افکاراور اصولوں سے متصادم ہیں، اگرچہ نیپالی آئین اس مخالفت کی اجازت دیتا ہو، اس وقت ایسے مقدمات کو اپنی بینچ سے ہٹادوں گا، میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا، دوسرے بینچ پر چاہے جو فیصلہ کیا جائے۔
س: جزاک اللہ خیراً ،نیپال میں ضلعی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک کل چار مسلم جج ہیں، ان کے لئے کوئی پیغام؟
ج: بس یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی دانست میں اپنی زبان و قلم سے کوئی ایسافیصلہ نہ کریں جو اسلام کے خلاف ہو۔
س: نیپال میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کی خاطر آپ کی کوئی کوشش ،خدمت؟
ج: الحمدللہ، اپنے اس دیش میں مسلمانوں کے حقوق و تشخص کی حفاظت کے لئے حقوق انسانی تنظیم کے پلیٹ فارم سے میں نے بہت کوشش کی ہے اور کئی مطالبات کو حکومت نے تسلیم بھی کیا ، جن میں عیدین کی سرکاری تعطیل بھی شامل ہے، آگے بھی ان شاء اللہ میری کوشش جاری رہے گی کہ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق پور ی طرح ملتے رہیں۔
س:نیپال سے باہر متعدد ممالک میں آپ کو لیکچرز کے لئے مدعو کیا جاتا رہا، عموماً کیا موضوع ہوا کرتا تھا؟
ج: میں نے ۱۸؍ممالک میں کئی موضوعات پر لیکچرز دئے ہیں ، مگر سب سے زیادہ شراب نوشی کی مخالفت کو اپنا موضوع بنایا ۔
س:شام ہوتے ہی ملک نیپال شراب کے نشے میں بدمست ہوجاتا ہے، اس دیش میں شراب کے خلاف کوئی تحریک؟
ج: جی ہاں! میں نے اپنے دیش کی بگڑی صورت حال کو مدنظر رکھ کر ہی خصوصاً شراب کے مضر اثرات کو اپنا موضوع بنایا، اور عالمی ادارۂ صحت (W.H.O.) کے ذریعے نیپالی حکومت سے احتجاج کیا، کہ ملک کا معاشرتی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہورہا ہے لہٰذا شراب کو رواج دینا بند کیا جائے، اس کی برآمدگی پر قدغن لگایا جائے، چنانچہ حکومت نیپال نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور میری نشاندہی پر کروڑوں روپئے کی شراب ضائع کردی گئی، مجھے دھچکا اس وقت لگا جب دیکھا کہ شراب کے ٹھیکہ داروں میں ایک اچھی تعداد نام نہاد مسلمانوں کی سرگرم ہے، ایک مشہور نام مقبول لاری جو شراب کے ایک بڑے تاجر ہیں، ان کی کروڑوں کی شراب میری تحریک پر ضائع کردی گئی۔
س: نیپال میں ایک بڑی تعداد ہند نژاد نیپالیوں (جنہیں عرف عام میں مدھیشی کہا جاتا ہے) کی ہے جو انگریزوں کے عہد میں ہجرت کرآئے تھے، ان کے لئے کوئی خدمت؟
ج: سب سے بڑا مسئلہ ان کی شہریت کا تھا، صورتحال یہ تھی کہ یہ نہ ہندوستانی تھے نہ نیپالی اور حکومت کی بے اعتنائی کا شکار تھے کچھ کو شہریت مل گئی تھی مگر دس لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ تھے جن کے پاس کوئی شہریت نہیں تھی، میں نے برطانیہ میں اور نیپال میں حکومتوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا اور اقوام متحدہ کے اس قانون کا حوالہ دیا کہ کوئی شخص شہریت سے محروم نہ رہے، انگریزی استعمار کے دور میں یہ لوگ بھارت سے نیپال آئے، میں نے گرجا پرساد کوئرالہ ( اس وقت کے وزیر اعظم) کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ اگر آپ دس لاکھ سے زیادہ آبادی جو شہریت سے محروم ہے، اگر انہیں آپ شہریت نہیں دیتے ہیں تو ان سب کو برطانیہ بھیجنا پڑے گا، کوئرالہ نے فوراً توجہ دی اور سبھوں کو شہریت دینے کا فرمان جاری کیا۔
س: نیپال میں قائم حقوق انسانی کی تنظیموں کے ساتھ آپ کا گہرا ربط رہا ہے، کچھ بتائیں؟
ج: جی ہاں؟ میں نے تقریباً ہیومن رائٹس کی متعدد تنظیموں کے ساتھ ۱۸؍برس کام کیا ہے۔ چنانچہ میں ۲۰۰۵ء میں ہیومن رائٹس کونسل کا قومی صدر بھی تھا، اس تنظیم کے ذریعے حق شہریت، ملکیت، ذاتی حقوق ، نفاذ امن، جابجا عدالتوں، اسکولوں اورشفاخانوں کے قیام کے لئے تحریکیں چلائیں جو بہت حد تک کامیاب رہیں۲۰۰۸ء کے دستور ساز اسمبلی انتخابات میں انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے مجھے آبزرور (مشاہد) بھی متعین کیا گیا، تاکہ عوام کے انتخابی حقوق میں کوئی دھاندلی نہ ہو۔
س: میڈیا (صحافت ) سے بھی آپ کا لگاؤ رہا ہے تو کس حد تک؟
ج: الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا دونوں میں میری تحریریں چھپیں، بیانا ت نشر ہوئے، آئین اورلاء کے تعلق سے بے شمار مضامین نیپالی و انگریزی زبان میں شائع ہوئے، صحافتی ذوق کی تسکین کی خاطر ایک مرتبہ انگریزی میں BRACEنامی میگزین نکالنا شروع کیا اور ۲۰۰۵ء میں چیف ایڈیٹر و پبلیشر کے طور پر کام کیا۔
س: سیاست سے رشتہ۔۔۔؟
ج: جی ہاں! سیاست کی بھی شدبد رہی ہے اور وجہ ہے ضلع بانکے کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے جڑے رہنا، ۱۹۹۴ء میں مذکورہ پارٹی کا آفیشل امیدوار بھی رہ چکا ہوں۔
س: جن ممالک کا آپ نے دورہ کیا، کچھ کے نام؟
ج: امریکہ، برطانیہ، اٹلی، سوئزرلینڈ، سعودی عرب، سویڈن، پاکستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ وغیرہ
س: اخیر میں ، مسلمانان نیپال کے لئے کوئی پیغام؟
ج: میں یہی کہنا چاہوں گا کہ تعلیمی میدان میں محنت کریں، اپنے کو قابل و لائق بنائیں، علمی معیار بلند کریں، ان شاء اللہ مناصب خود بخود ملیں گے۔
***
Subscribe to:
Posts (Atom)