Tuesday 24 August, 2010

الکتاب الحکمۃ agu 2010

الکتاب
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤمِنُونَ* الَّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ* والَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ * والَّذِیْنَ ھُمْ للزَّکوٰۃ فَاعِلُوْنَ*
(سورہ مومنون:۱تا۴)
ترجمہ: ایماندار لوگ کامیاب ہوگئے، جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہی، اور جو بیہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں، اور جو زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔
تشریح: نماز میں خشوع کا مقام اور اثرات: خَشَعَ کے معنی عاجزی ہے، جو دل میں ڈر اور ہیبت طاری ہونے کی وجہ سے ہو، پھر اس ڈر و عاجزی کے اثرات اعضاء وجوارح پر بھی ظاہر ہونے لگیں، آنکھیں مرعوب ہوکر جھک جائیں اور آپ کی آواز پست ہوجائے،چنانچہ ایسے مقامات پر بھی قرآن نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے، پھر اسی خشوع کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ انسان نماز میں باادب کھڑا ہو، ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ اپنے کپڑے سنوارتا رہے، نہ اپنی داڑھی وغیرہ سے کھیلتا رہے اور نہ دل میں نماز پر توجہ کے علاوہ دوسرے خیالات آنے دے۔
اور خیالات آنے بھی لگیں تو فوراً ادھرسے توجہ ہٹا کر یہ سوچنے لگے کہ وہ نماز میں اپنے مالک کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے اور اس بات پر توجہ دے کہ وہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے ، خشوع اگرچہ اجزائے صلوٰۃ کے لئے شرط نہیں تاہم حسن قبول کے لئے لازمی شرط ہے۔
الحکمۃ
عَن أَبی ھُرَیرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَال: ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَاناً واحتِساباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ‘‘ (متفق علیہ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(رات کو تراویح پڑھیں) اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (بخاری،مسلم)
تشریح:(۱) قیام رمضان یقیناًایک مؤکدہ اور اجر وثواب کے لحاظ سے نہایت اہم عبادت ہے، تاہم اس کی حیثیت نفل ہی کی ہے ، واجب کی نہیں،(۲) جو گناہ معاف ہوتے ہیں وہ صغیرہ گناہ ہیں ورنہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر اور حقوق العباد میں کی گئی کوتاہیاں ان کا ازالہ کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے، (۳)رمضان کا یہ قیام نبیﷺکے عمل سے بھی ثابت ہے، آپ نے ایک رمضان میں تین راتوں کو قیام فرمایا یعنی صحابہ کرام کو جماعت کے ساتھ یہ نفلی نماز پڑھائی، تین راتوں میں آپ نے کتنی رکعت پڑھائیں؟ وہ صحیح احادیث کی رو سے ۸رکعات ہیں اور ۳وترہیں، اس لئے قیام رمضان کی مسنون صرف آٹھ رکعات ہیں اور وتر سمیت گیارہ، (۴) احادیث میں اس نفلی نماز کو قیام رمضان سے ہی تعبیر کیا گیا ہے،بعد میں اس کا نام تراویح قرار پاگیا۔

رحمت الٰہی کا خاص مہینہ agu 2010 Editorial

شعور وآگہی
عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری

رحمت الٰہی کا خاص مہینہ
انسانی دنیا پر ماہ مبارک کی لطیف ساعتیں ایک بار پھر سایہ فگن ہیں، یہ وہ ماہ سعید ہے جس میں رب کریم کی بے پایاں نوازشیں بندگان الٰہی کے لئے مخصوص کردی جاتی ہیں،دن میں روزہ اور رات میں عبادت و تلاوت کی ایک ایسی فضا بنتی ہے کہ عالم اسلام ہی نہیں کائنات انسانی بھی جس کی پاکیزگی کے نور سے منور نظر آتی ہے، ہرطرف سکون، قرار و اطمینان کی مہک پھیل جاتی ہے اور پورا ماحول معطر ہوکر خوش گوار ہوجاتا ہے۔
۱۱؍ماہ کے انتظار کے بعد آنے والا یہ مہینہ اپنے دامن میں کیسی کیسی رحمتیں لے کر نمودار ہوا ہے، اس کا لطف، اس کا سرور، اس کی فرحت کوئی مرد مومن کے دل سے پوچھے، بلاشبہ کچھ ایسا احساس ہوتا ہے کہ رب کریم نے انسانیت نوازی کی تمام راہیں کھول رکھی ہیں، روزہ معاصی کے مقابلے میں ڈھال بنا ہوا ہے،آسمان کی راہیں وا ہیں، جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، شیطان اپنی زندگی کے بڑے ہی کربناک اور سخت مرحلہ سے گذرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار ہے، گناہوں کی معافی کی راہ ہموار ہورہی ہے، گناہ گار لطف عام سے فیض یاب ہورہے ہیں، رحمت اور مغفرت کے دہے سے گذرتے ہوئے۔ عتق من النار ۔ جہنم سے آزادی کی نوید بھی سنائی دے رہی ہے۔
یہ سارے انعامات، فیض و عطا اور بخشش کے یہ مظاہر مرد مومن کے لئے ہیں جو اب صفت تقویٰ سے بہرہ ور ہوکر اپنے رب کے نزدیک بڑی برگزیدہ ہستی قرار دیا جاچکا ہے، جس کی وضاحت خاتم النبیینﷺ نے فرمائی ہے: ’’قیل للنبی ﷺ: من أکرم الناس قال:أکرمہم أتقاہم‘‘ (بخاری، مسلم)
روزہ دار وں کو رب العالمین نے ایک ہلکی مشقت کے بدلے میں اپنی رحیمی اور رحمانیت کا سزاوار بنادیا ہے۔ جہاں یہ سب حاصل ہورہا ہو، جہاں ایسی فضا ہو، جہاں دینے والا مائل بہ کرم ہووہاں اگر انسان کلمہ گو ہوتے ہوئے بھی غافل رہ کر فرض سے بے نیاز ہوجائے اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
رب العالمین کا یہ کرم ہی ہے کہ مسلمانان عالم اس مہینے میں لطف و عنایت کا پیکر بن کر اہل حاجت کی غمگساری کا ثبوت پیش کرتے ہیں، ہر طرح کے ضرورت مند اس بابرکت مہینے میں اپنی بے بسی کا غم بھول جاتے ہیں کہ انہیں ہر مقام پر چارہ ساز میسر رہتے ہیں، جو شریک غم بن کر اسلامی اخوت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے اخروی سعادت کا سامان فراہم کرلیتے ہیں۔
خود ذات رسالتمآب ﷺ نے جو دوسخا کا عملی مظاہرہ فرمایا اور رمضان میں آپ کی سخاوت تیز آندھیوں سے بھی آگے بڑھتی ہوئی دکھائی پڑی، امت اسی طریقہ پر گامزن ہے۔ اس زمانے میں امت مسلمہ جتنا کچھ کار خیر میں صرف کرلیتی ہے شاید ہی دنیا کی کوئی قوم اس کے مقابل آسکے، صرف عیدالفطر کے دن صدقہ کے نام پر دی جانے والی امداد کی نظیر پیش کرنے کی سکت کس قوم میں ہے؟
ہاں! فی سبیل اللہ خرچ کی جانے والی ان رقوم کو اگر منظم طریقے پر صرف کرنے کی سبیل نکالی جاسکے تو یہ امت کا ایک ایسا مثبت عمل ہوگا جس سے ہمارے زخموں کا علاج ہوسکے گا، فقیری اور بھک منگائی کے سلسلے رک جائیں گے، خود دینی مدارس اپنے فرائض کی انجام دہی میں بڑی حد تک آزاد ہوں گے، مال ومنال کی قلت رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔اللہ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔

قرآن کریم اور تلاوت کے آداب agu 2010

جناب رانا محمد شفیق خاں پسروری
قرآن کریم اور تلاوت کے آداب
قرآن مجید، انسان کے لئے اللہ تعالی کی ایک خاص نعمت ہے، جس میں موعظت و ہدایت، تفصیل و تکثیر انعامات الٰہی، تقرب ربانی اور کرامات کا دریا موجزن ہے، یہ ہر طرح انسان کے لئے باعث رحمت، باعث برکت، باعث مغفرت اور ہدایت کاملہ ہے،اللہ کی خوشنودی و رضامندی برائیوں سے بچاؤ، اچھائیوں کی راہ، آلام و مصائب سے چھٹکارا، دکھ تکلیف، رنج و کلفت سے بچاؤ کا طریقہ، امن و سکینت کا سبب اور رشد وہدایت نیز انسانی فلاح و بہبود کا منبع ہے۔
انسان کو صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات بنانے کے لئے اللہ نے خیر و شفاء کا یہ منبع سب نبیوں کے سردار اور رسولوں کے امام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا اور اس عظیم کتاب کے تھامنے والوں کو سب امتوں سے افضل اور پڑھنے والوں کو سب انسانوں سے بہتر قرار دیا، یہ کتاب اللہ کے حضرت انسان اور امت مسلمہ سے حددرجہ پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت انسان اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس عظمت و رفعت کے مرکب کی کماحقہ قدر کرے اور اپنا انگ انگ اس کے حوالے کردے، تبھی اس کی رحمت و برکات، مغفرت و ہدایت اور قرب الٰہی و انعامات ربانی کا حصول ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے ، پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی سے ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کو سلاطین کے دربار سے واسطہ پڑا ہے وہ تجربے سے اور جن کو نہیں پڑا وہ اندازے سے سلطانی فرمان کی ہیبت جان سکتے ہیں،کلام الٰہی محبوب و حاکم کا کلام ہے اس لئے دونوں آداب کا خیال رکھنا چاہئے، حضرت عکرمہ جب کلام پاک پڑھنے کے لئے کھولتے تو بے ہوش ہوکر گر پڑتے ، زبان پر یہی جاری ہوتا تھا: ہذا کلام ربی، ہذا کلام ربی۔یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔
یعنی اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے، صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے اس کے حضور حاضر ہو جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے، اچھی طرح مسواک کرکے، وضو کرکے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ روبیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنارہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہے،(اگر معنی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔) نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، جن آیات اللہ کی تقدیس و تحمید ہے وہاں سبحان اللہ کہے، تلاوت کے درمیان ازخود رونا آئے تو بہت خوب، ورنہ بہ تکلف رونے کی سعی کرے، دوران تلاوت کسی اور سے ہم کلام نہ ہو،دوران تلاوت اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تلاوت بند کرکے ضرورت پوری کرے اور پھر تعوذ پڑھ کر دوبارہ تلاوت کرے، بلند آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے لیکن کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا لوگ مجمع میں دیگر امور میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھے۔
اس کتاب کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر ، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا منزل من اللہ ، منز ل برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا، اس میں درج احکامات پر عمل کرنااور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی بہتری کیلئے کوشش کرنا (دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات بنالینا)۔
(۲) اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے ’’مرفوعۃ مطہرۃ‘‘کے الفاظ بیان کئے ہیں یعنی بلند و پاک ،سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے۔
(۳) اس کو ناپاک ہاتھ نہ لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہوکر ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ میں یہی حکم ہے، نیز رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ بھی ہے ’’لایمس القرآن الا طاہر‘‘ کہ ہرگز قرآن کو بے وضو نہ چھوا جائے، یہ وہ حکم نبوی ﷺ ہے جو حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔(مؤطا کتاب القرآن)
(۴) حالت جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تقرا الحائض والجنب شیئا من القرآن ۔ (حائضہ اور جنبی قرآن کو کچھ بھی نہ پڑھے)
نوٹ: احکام القرآن للجصاص، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ کے حوالے سے صحابہ کرام بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے، مگر چھونے کو ناروا۔ یعنی بے وضو قرآن کو چھونا نہیں چاہئے،البتہ زبانی پڑھا جاسکتا ہے، البتہ حالت جنابت ، حیض ونفاس میں زبانی بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی جنبی اور حائضہ کے سامنے قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور وہ غلطی کرجائے تو اس صورت میں غلطی کی درستی کے لئے جنبی اور حائضہ کے قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ہے، ایسے ہی عام معمولات میں کلمات خیر مثلا الحمدللہ،سبحان اللہ، ان شاء اللہ وغیرہ کہنے کی بھی اجازت ہے۔
(۵) جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوتو کوئی سننے والا درست کردے۔ امام بخاری نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لوچدار لہجے میں بلند آواز سے سورہ فتح پڑھ رہے تھے(کتاب التفسیر،بخاری)
(۶) قرآن پاک خوش الحانی اورخوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا۔ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔
(۷)قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ کہ قرآن پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ (القیامہ)
(۸)ایک ایک لفظ کھینچ کھینچ کر اور موتیوں کی صورت الگ پڑھنا چاہئے، جیسے ہر لفظ کا مزا لے کر پڑھا جائے، بخاری شریف میں باقاعدہ الفاظ کھینچ کر پڑھنے کا باب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔
دوسری جگہ حدیث میں ہے:
فقال کانت مدثم قراء بسم اللہ الرحمن الرحیم یمد بسم اللہ و یمد بالرحمن ویمد بالرحیم ۔ (بخاری کتاب التفسیر)
(۹)ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ورتل القرآن ترتیلا۔(مزمل) کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے رات پوری مفصل سورتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن نہیں پڑھا بلکہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں : یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم الدین(شمائل ترمذی) کہ رسول اللہ ﷺہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے، کہ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔ یعنی ہر آیت پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں ترتیل سے القارعۃ اور اذازلزلت پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں، اس سے کہ سورہ بقرہ اور آل عمران بلا ترتیل پڑھوں۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قرآن پڑھنے والوں سے کہے گا کہ ترتیل سے پڑھتا جا جس طرح دنیا میں پڑھتا تھا اور جنت کے درجات طے کرتا جا۔ جہاں آیات ختم ہونگی وہی تیری منزل ہے۔ (سنن اربعہ، احمد ،ابن حبان، باب فضائل القرآن)۔
(۱۰) قرآن پاک کو جتنا بھی غور سے پڑھا جائے بہتر ہے کم از کم مدت ایک ماہ میں ختم کرنا چاہئے، اگر مزید استطاعت ہوتو پندرہ دن میں، مزید استطاعت ہو تو سات دن میں اس سے کم بالکل نہیں پڑھنا چاہئے۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں روایت ہیں جن میں ایک ماہ میں قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ، حد سات دن کا حکم ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اقرء القرآن فی شہر قلت انی اجد قوۃ حتی قال فاقراہ فی سبع ولا تزد علیہ۔ یعنی قرآن کو تم ایک ماہ میں پڑھو (حضرت عبداللہ کہتے ہیں) میں نے کہا میں اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتا ہوں، فرمایا زیادہ سے زیادہ سات دن میں پڑھو اور سات سے کم میں بالکل نہیں( بخاری کتاب التفسیر)
اسی وجہ سے قرآن کی سات منازل بنائی گئی ہیں، تاکہ حفاظ و قراء ایک ہفتے میں قرآن کا دور کر سکیں، صحابہ کرام و تابعین نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے پورے قرآن کی کل سات منازل ہیں۔
ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لم یفقہ من قرء القرآن فی اقل من ثلث۔ یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ (کتاب القرآن)۔

رمضان کریم : برکات وثمرات agu 2010

عبدالصبور ندویؔ جھنڈانگری
رمضان کریم : برکات وثمرات
الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ، أمابعد:
تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
محترم اسلامی بھائیو! رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے، یہ مہینہ ہمیں بہت سارے دروس دیتا ہے، ان میں سب سے بڑا درس تقوی و پرہیز گاری کا درس ہے، تقوی مومن کا بہترین لباس ہے اس کا بہترین توشہ ہے، مصیبت کے وقت اس کا بہترین ساتھی ہے، اس کے صبر و سکون کی جگہ ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی وصیت ہے تمام بنی آدم کے لئے۔
تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کوئی بھی کام کریں جس سے اللہ کی اطاعت ثابت ہو اور آپ اس کام پر اللہ سے ثواب کی امید رکھیں، نیز اللہ کے عقاب کے خوف سے ہر اس کام کو چھوڑ دیں جس سے اللہ کی معصیت ونافرمانی ہو۔
روزہ دارو! بندے کا تقوی اس وقت مکمل ہوجاتا ہے جب وہ جان لے کہ ہمیں کن چیزوں سے بچنا چاہئے اور وہ پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے، چنانچہ یہ مہینہ ہمیں تقوی سیکھنے کی اور متقی بننے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اس لئے کہ تقویٰ ہی ہمارے روزوں کی حکمت ہے اور قرآن عظیم اس مہینہ کو تقوی کے نام سے موسوم کرکے اعلان کررہا ہے: ’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ‘‘ (البقرہ:۱۸۳)۔
شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: روزہ تقوی کے بڑے اسباب میں سے ہے،اس لئے کہ بندہ روزے کی حالت میں اللہ کا حکم بجالاتا ہے، منکرات سے بچتا ہے، وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جس کی طرف انسانی طبیعت فطری میلان رکھتی ہے، جیسے کھانا،پینا، جماع وغیرہ، آخرکیوں؟ اس لئے کہ بندہ اللہ کی قربت کی چاہ اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہے اوریہی تقوی کہلاتا ہے۔
روزہ دار اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کی تربیت چاہتاہے،اسے اللہ کی نگرانی کا ہمہ وقت خیال رہتا ہے اور نفسانی خواہشات کو قربان کردیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
روزہ شیطان کے راستوں کو تنگ کردیتا ہے، اگرچہ وہ انسان کے ساتھ اس طرح لگا رہتا ہے جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے، اس کے باوجود اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور روزہ دار سے گناہوں کا ارتکاب کم ہوجاتاہے۔
روزہ دار بندہ اللہ کی اطاعت میں منہمک ہوجاتاہے، اللہ کی فرمانبرداری اس کا نصب العین بن جاتا ہے اور یہ جذبۂ اطاعت انسان کو پرہیز گار بناتی ہے، روزے کی حالت میں مالدار شخص کو جب بھوک کا درد ستائے تو اس پر واجب ہے کہ فقیروں اور ضرورت مندوں کو یاد کرے، ان کی خبر گیری کرے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا، یہ بھی تقوی کی صفت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معصیت سے بچائے اور پرہیزگار و متقی بنائے۔ آمین
روزہ ڈھال ہے
اللہ رب العزت نے اس روزہ کو بہت ساری چیزوں سے نجات کا ذریعہ بنادیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال اور آڑ ہے، پس کوئی شخص شہوت نفس کا کام نہ کرے، جاہلوں کی عادت وطریقہ کو نہ اپنائے اور نہ ہی شوروشغب برپا کرے‘‘ (بخاری، مسلم)
دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے اسی طرح جس طرح تم لڑائی کے وقت ڈھال کا استعمال کرتے ہو‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہر وہ چیز جو انسان کے لئے آڑ،ستر یا بچاؤ کا کام کرے وہ ڈھال ہے،محدث ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:روزہ جہنم کے لئے ڈھال اس لئے ہے کیونکہ انسان اپنے آپ کو نفسانی خواہشات و شہوات سے روکے رکھتا ہے اور جہنم شہوات سے گھیردی گئی ہے تو جو شخص شہوت نفس یا حرام لذتوں سے دنیا میں پرہیز کرے گا، آخرت میں جہنم اس کے لئے آڑ بن جائے گی۔(فتح الباری۴؍۱۰۴)
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا چاہئے، جہالت بھرے کام ، شہوت، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا چاہئے، غیبت، چغلی اور ریاکاری سے بچنا چاہئے، تاکہ ہم سب کے لئے جہنم آڑ بن جائے اور اللہ کے روزہ دار بندے بآسانی جنت میں داخل ہوسکیں۔
حدیث میں روزہ دار کو جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عداوت ، تعصب اور شہوت نفس کو دعوت نہ دے، لیکن اگر مسئلہ سنگین ہو، آپ حق پر ہوں ، فریق مخالف آپ پر زیادتی کئے جارہا ہو، ایسی صورت میں آپ اس کی باتوں اور لڑائی کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں،اس لئے کہ مقصد انصاف اور حق کی سربلندی ہے، مگر یاد رہے گالی گلوچ کا جواب گالی سے نہیں دیں گے اور مندرج ذیل حدیث کو یاد رکھیں گے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے،اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کو رسوا کرے، اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھے، اس پر ظلم ڈھائے، تقویٰ تو یہاں ہے، آپ ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ حرام ہے۔(مسلم)
میں روزے سے ہوں
روزے کا یہ مہینہ ہمیں صبر، بردباری اور برائی کا جواب بھلائی سے دینے کی تعلیم دیتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو اس روزہ دارکو چاہئے کہ وہ لعن طعن، گالی گلوچ، چیخ پکار اور شور شرابہ جیسے کام ہرگز نہ کرے، اگر روزہ دار کو کوئی دوسرا شخص گالی دے یا جھگڑے پر آمادہ کرے تو روزہ دار کہے’’میں روزے سے ہوں‘‘ ۔ (بخاری، مسلم)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : بعض سلف کی رائے ہے کہ جب روزہ دا رسے کوئی شخص گالی گلوچ یا جھگڑا پر آمادہ ہو تو روزہ داربلند آواز سے یہ جملہ’’میں روزے سے ہوں‘‘کہے اس سے مخالف کے خاموش ہونے کی زیادہ امید ہے،یا اپنے نفس کو سمجھائے کہ میں روزے سے ہوں، اس کے گالی گلوچ میں کیوں پڑوں بلکہ اپنا راستہ ہی بدل لوں اور اپنے روزے کو آلودگی سے محفوظ رکھوں۔
اس حدیث سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزے کے علاوہ ایام میں گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا جائز ہے،یہ ناجائز ہے ہر حال میں، یہاں روزے کے ساتھ اس نہی کی تاکید کی گئی ہے کہ روزے کی حالت میں بندہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کو غصہ پی جانا چاہئے، گفتگوکے آداب کا خیا ل رکھنا چاہئے اور ہر حال میں زبان کی حفاظت کرنی چاہئے، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے: جو اپنے دونوں رخساروں کے بیچ (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے بیچ (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے ، میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا ہوں۔
حضرت اکثم بن صیفی کہتے ہیں: انسان کی زبان اس کی قتل گاہ ہے، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا:پاؤں پھسلنے سے ہڈی کی چوٹ صحیح ہوسکتی ہے مگر زبان کی لغزش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
روزہ دارو! معلوم ہوا کہ ہم جو کچھ بھی بولیں سوچ کر بولیں، زبان سے غلط جملے اور فقرے نہ نکالیں، ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت ادب کے جامے میں رہیں، ہماری بات سے کسی کو تکلیف نہ پہونچے، ورنہ ہمارے روزوں کا ثواب گھٹ جائے گا، آئیے کو شش کریں اس جنت کے حصول کے لئے جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ہے۔
اللہ کو ایسے روزے پسند نہیں
ہم روزہ رکھ کر اگر ایسے کام کریں جو اللہ کے غضب وناپسندیدگی کا سبب بنتے ہوں، پھر ہمارے روزوں کا کیا ہوگا؟ حدیث نبوی دیکھئے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو ایسے بندے اور روزے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ بیٹھے۔ (بخاری، مسلم)
اس کا مطلب ہے کہ ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا یا اس کا اجر وثواب ضائع ہوجائے گا، اگر ہم نے جھوٹ ، لغو اور بیہودہ چیزوں میں اپنا وقت ضائع کیا۔ علماء نے لکھا ہے: کہ حدیث میں لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جھوٹ اور اس کے متعلقات سے بچیں، اللہ نہ کرے اگر آپ سے کوئی جھوٹ سرزد ہوجائے تو اس کی وجہ سے اپنا روزہ ترک کردیں۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیث میں روزہ کی عدم قبولیت کی طرف اشارہ ہے جیسے کوئی مالک اپنے ملازم سے کوئی کام کرنے کو کہے اور وہ اس طرح نہ کرے جس طرح کہا تھا، تو مالک غصہ ہو جائے گا اور کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے تو جھوٹ کے مقابل اس کا روزہ ضائع کردیا جائے گا اور جو سالم حصہ بچے گا اسے قبول کرلیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا ، بلکہ تمہارا تقوی پہونچتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر اس کی رضا کے مطابق کام نہیں ہوا تو پھر قبو ل کہاں سے ہوگا۔
مشہور مفسر علامہ بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: روزہ کی فرضیت کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کو بھوکا اور پیاسا رکھا جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی نفسانی شہوت کا زور ٹوٹ جائے اور بندہ اپنے نفس امارہ (برائیوں پر آمادہ کرنے والا) کو ترک کرکے نفس مطمئنہ (نیکیوں پر اکسانے والا) کی طرف راغب ہو جائے، اب اس کے بعد بھی روزہ کا مقصد حاصل نہ ہو تو اللہ اس کے روزے کو قبولیت کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھے گا۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ ایک مذموم شئی ہے، کفر ونفاق کی خصلت ہے اورانسان کو اس کے بلند مرتبے سے گرادیتا ہے، عزت کی رفعتوں سے حقارت و ذلت کے گڈھوں میں انسان کو پھینک دیتا ہے، اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں: لوگو! جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائی انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے، ایک شخص جو برابر جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے،اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری،مسلم)
حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ جھوٹ نفاق کی جڑ ہے،حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھا تھا: جھوٹ کا سہارا ہرگز مت لینا، اگر جھوٹ کی آمیزش کروگے ہلا ک وبرباد ہو جاؤگے۔
سحری اور افطار
رمضان کی اس بابرکت فضا میں اگر سحری اور افطا ر کا ذکر نہ ہو تو روزے کا لطف بے مزہ ہوجائے گا، آئیے اس کی فضیلت و اہمیت ملاحظہ کرتے ہیں:
سحری کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: سحری کھاؤ اس لئے کہ اس میں برکت ہے (بخاری ، مسلم) اس حدیث میں مسلمانوں کو سحری کھانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ روزے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں اور اللہ کی برکت کے مستحق ہوں، یاد رہے برکت انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے، دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ کچھ لوگ سحری کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، آدھی رات کو ہی کھا لیتے ہیںیا وہ نیند کے رسیا ہوتے ہیں یا اس کی برکتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یہ سنت کی مخالفت ہے، لہٰذا ہر روزہ دار کو سحری کا اہتمام کرنا چاہئے اور فجر سے کچھ پہلے اٹھ کر سحری کرنی چاہئے، حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار جلدی اور سحری میں تاخیر کرتے رہیں گے۔ (بخاری، مسلم)، افطار کے جلدی کا مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبے ،آپ افطار کرلیں، سیاہی کے پھیلنے کا انتظار نہ کریں اور سحری فجر (صبح صادق) کے وقت سے پہلے (یعنی رات کے آخری لمحات میں) کرنی چاہئے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرسکیں۔
سحری مسلمانوں کا شعار ہے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت، جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری ہے (مسلم)۔
سحری میں آدمی کچھ بھی کھائے لیکن رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے شروع کرے، کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی سے افطار کرے، اس لئے کہ وہ پاک شئی ہے۔ (احمد،ترمذی،ابوداؤد)
بعض لوگ افطار میں سنت کی پیروی نہیں کرتے، انہیں دسترخوان پر جو مرغوب غذا نظر آئی، اسی سے شروع کردیا، حالانکہ اب کھجور و چھوہارے کی متعدد اقسام تقریبا دنیا کے سبھی خطہ میں پائی جاتی ہیں، لہٰذا اس کا اہتمام نہ کرنا بھی خلاف سنت ہے، اگر بازار میں دستیاب نہیں یا خریدنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں پانی سے افطار کرنا مستحب ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: روزے کی حالت میں معدہ جب غذا سے خالی ہوتا ہے، تو اس میں پہونچنے والی میٹھی چیز کھجور وغیرہ کلیجہ کو تقویت بخشتی ہے، کلیجہ بہت تیزی سے اس کی مٹھاس کوجذب کرکے جسم کے دوسرے حصوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے اورپانی معدے کی حرارت و جلن کو ختم کردیتا ہے۔
کھا ؤ اور پیؤ مگر..
روزے کے جہاں بہت سارے آداب ہیں جن کی ہم رعایت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہی میں سے کھانے پینے کے آداب بھی ہیں جن کا پاس ولحاظ بیحد ضروری ہے۔
آج ہم بہت سے روزہ دار بھائیوں کو دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کو کھانے پینے کا مہینہ بنالیتے ہیں، انواع و اقسام کے پکوان سے دسترخوان سجائے جاتے ہیں، خود اپنے لئے بہت ساری نئی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں، جو رمضان کے علاوہ دنوں میں نہیں ہوتا، بازاروں میں لذیذ اشیاء کی خرید کے لئے وہ بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے جو عام دنوں میں دکھائی نہیں دیتی، اگر یہ بھیڑ اور کثرت خریداری ان مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے ہے جن کے یہاں افطار و سحری کا انتظام نہیں ہے یا مشکل سے گذر بسر ہے، تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن اگر نیت یہ ہے کہ دن بھر بھوکے رہنے کے بعد طرح طرح کے پکوان سے افطار و کھانے میں جم کر اپنا پیٹ بھرنا ہے ، تو یہ آپ کے لئے ہرگز مناسب نہیں، کیونکہ آپ زیادہ کھانے کے نتیجے میں اپنے جسم کو بوجھل بناتے ہیں، عبادات کی ادائیگی سے آپ کی طبیعت بھاگنے لگتی ہے اور اسلام ہر اس فعل کو ناپسند کرتا ہے جو مسلمان کو اللہ کے ذکر سے غافل کردے ، لہٰذا زیادہ کھانا یا کھانوں و پھلوں کا پھینک دینایہ اسراف (فضول خرچی)ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کھاؤ اور پیؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرو، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تمام میڈیکل (طب)جمع کردیا ہے، اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ابن آدم کے پیٹ کا شریر برتن نہیں بھرتاہے، حالانکہ اس کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں،جو اس کو متحرک رکھ سکیں، اگر تھوڑے سے کام نہ چلے تو اپنے پیٹ کے تین حصے کرلو، ایک حصہ کھانے کے لئے، دوسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس لینے کے لئے۔ (مسند احمد)
زیادہ کھانا جہاں بدن کو مرض میں مبتلا کرتا ہے وہیں شیطان کو اپنے اوپر مسلط ہونے کی بھی دعوت دیتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو پیٹ بھر کر کھاتا ہے وہ اللہ کے ذکر کی لذت و حلاوت کو نہیں پاسکتا ، بعض حکماء کا کہنا ہے کہ کھانا کم کرو، اچھے خواب دیکھو گے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کثرت طعام بہت ساری برائیوں کو جنم دیتی ہے، اعضاء و جوارح کو معصیت پر اکساتی ہے، اللہ کی اطاعت سے بندے کو غافل کردیتی ہے، یہ بہت بڑا شرہے، اندازہ لگائیے کہ خوراک میں اعتدال نہ برتنے والے کتنی نافرمانیوں کا شکار ہوتے ہیں اور اللہ کی اطاعت میں یہ کثرت اکل حائل بن جاتی ہے، لہٰذا جو شخص اپنے پیٹ کے شر سے محفوظ رہا، وہ عظیم برائی سے بچ گیا، اس لئے کہ شیطان پیٹو شخص پر بآسانی غلبہ پالیتا ہے۔
مشک سے زیادہ معطر
اللہ رب العزت نے ہمیں روزے کی شکل میں اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین موقع عطا فرمایا ہے، اللہ کے بندے اس ماہ مبارک میں اطاعت کے سارے کام بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں، صبح سے شام تک مستقل بھوکے اور پیاسے رہنے کا جو عمل دہراتے ہیں، اللہ کے یہاں اس عمل پر بے پناہ اجر و ثواب ہے، جسے ہم شمار نہیں کرسکتے، صبح سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھانے پینے کے سبب روزہ دار کے منہ سے بو آنے لگتی ہے، جو بعض لوگوں کو پسند نہیں آتی، مگر اس اللہ وحدہ لاشریک کو، جس کے ہم بندے ہیں، اسے بے انتہا پسند آتی ہے، حدیث میں اس کا ذکر یوں آتا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ معطر اور پاکیزہ ہے۔ (بخاری، مسلم)
مشہور محدث اور فقیہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں: اس حدیث کے دو معانی ہیں۔ (۱)جس شخص نے اللہ کی عبادت و اطاعت کی اور دنیا میں اپنے عمل کے ذریعہ اس کی خوشنودی طلب کی اور کبھی اطاعت کے نتیجے میں لوگوں کو اس کی کچھ چیزیں ناپسند ہوجاتی ہیں، مگر وہ اللہ کے نزدیک محبوب ہیں کیونکہ بندے نے اپنی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کی اتباع اور چاہت کی ہے، چنانچہ عبادت گذار بندوں کو اپنے منہ کی بو کی فکر نہیں کرنی چاہئے، اگر چہ دنیا والے اسے ناپسند کرتے ہوں۔
(۲) روزہ اس فانی دنیا میں اللہ اور بندے کے دمیان ایک راز ہوتا ہے، جسے وہ آخرت کے دن تمام مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گااور اس دن روزہ داروں کی شہرت ہوگی اور وہ اپنے روزوں کی وجہ سے سب میں نمایاں ہوں گے، کبھی روزہ دار کو آخرت سے پہلے ہی اللہ ایسی خوشبو سے نوازتا ہے جسے دیکھ کر دنیا والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔جسے انسان اپنے حواس (دیکھنے، سننے، سونگھنے) سے محسوس کرے، عبداللہ بن غالب رحمہ اللہ بہت بڑے عابد اور مجتہد گذرے ہیں، جب وہ دفن کئے گئے تو ان کے قبر کی مٹی سے مشک کی خوشبو بکھر رہی تھی، ان کے کسی ساتھی نے خواب میں انہیں دیکھا تو خوشبو کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے جواب دیا وہ روزہ اور تلاوت کی خوشبو تھی۔
۲۔ جو دلوں اور روحوں کو معطر کردے، یہ ان روزہ دار بندوں کو حاصل ہوتا ہے جن کا عمل اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، ریاء و نمود کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا اور ایسے لوگوں سے تمام مومن دلی محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ان کے لئے اللہ محبت پیدا کردے گا۔(مریم:۹۶)
وقت کی قدر کیجئے
جس طرح ہماری عمروں کا وقت سانسوں میں مقرر ہے، اسی طرح ماہ مبارک گنتی کے چند ایام ہیں، یہ وہ قیمتی مہینہ ہے جس کا لمحہ لمحہ اللہ کی اطاعت و اس کے اجر وثواب کے حصول میں صرف ہونا چاہئے، پتہ نہیں یہ وقت آئندہ کسی کو ملے نہ ملے، میرے بھائیو! ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت بیش قیمت ہے، کوشش کیجئے کہ آپ ہر گھنٹے ایک ایسی اینٹ رکھیں جس سے آپ کی بزرگی وشرافت کی عمارت بلند ہوجائے اور آپ کی قوم آپ کے ذریعہ سعادت مند ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ وقت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی قسم کھا کے کہتا ہے: قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے(الضحیٰ۱،۲) دوسری جگہ سورہ عصر میں فرماتا ہے: قسم ہے زمانے کی (یعنی شب وروز کی گردش کی) بیشک انسان گھاٹے اور خسارے میں ہے، معلوم ہوا کہ وقت امانت ہے اور قیامت کے دن وقت کے متعلق سوال ہوگا، حدیث میں آتا ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے:
(۱) اپنی عمر کن چیزوں میں صرف کی۔ (۲) جوانی کہاں خرچ کی۔ (۳) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ (۴)اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا۔ (ترمذی)
دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں اکثر لوگ غفلت کا شکار ہیں: صحت اور خالی وقت۔ (بخاری)یقین مانیں ، اگر یہ دونوں چیزیں کسی شخص کے پاس اکٹھی ہوجائیں، تو اس پر سستی اور نافرمانی کا غلبہ ہوجاتا ہے،اسے وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا ، حالانکہ عبداللہ بن عمرؓ کہتے تھے: جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرنا اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرنا،اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (بخاری)
ہماری عبادتوں کا وقت سے بہت گہرا رشتہ ہے اگر ان عبادتوں کو وقت پر ادا نہ کیا جائے تو ہمارے اجر و ثواب ضائع ہوجاتے ہیں،جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل عمل نماز کا وقت پر پڑھنا ہے، اسی طرح آپ نے فرمایا: روزہ رکھو چاند دیکھ کراور عید بھی مناؤ چاند دیکھ کر۔
معلوم ہوا کہ سارے نظام کا دارومدار وقت پر ہے اور رمضان کے مقدس مہینے میں ٹی وی دیکھنے یا بہت زیادہ سونے، فالتو اور فضول باتوں سے ہر مسلمان کو بچنا ہوگا۔ ان اوقات کی قدر کرنی ہوگی، جنہوں نے وقت کی قدر نہیں سیکھی وہ دنیا میں رسوا ہوئے اور آخرت میں بھی ہونگے، لہٰذا اللہ کا یہ قول ہمیشہ ذہن نشین رکھیں وہ فرماتا ہے تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کئے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے، ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہے، ہائے افسوس!میں نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی، بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا۔ (ترمذی)
اللہ ہم سب کو وقت کی قدر و حفاظت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
روزہ اور اخلاص
مسلمانو! ہم جو کچھ عبادت کرتے ہیں، ان کی قبولیت کا دار ومدار دو شرطوں پر ہے:(۱) اخلاص (۲) رسول اللہ ﷺ کی متابعت۔
روزہ بڑی عظیم عبادت ہے، اگر یہ دونوں شرطیں ہمارے روزوں سے مفقود ہیں یا کوئی ایک، تو ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی، اخلاص ہماری ہر عبادت اور ہر عمل کے لئے لازمی شئے ہے، آیئے دیکھتے ہیں کہ اخلاص کسے کہتے ہیں: اخلاص نام ہے اعمال وعبادات کا ہر طرح کے عیب و آمیزش سے پاک وصاف ہونا۔
بندہ جب تہیہ کرلیتا ہے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے حکم و اس کے ارادے کے موافق ہوگا،نفسانی آمیزش سے پرہیز کرے گا، وہ مخلص کہلائے گا، روزہ بھی عموما اخلاص سے پرہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بندہ اپنا کھانا پینا اور تمام خواہشات میرے لئے ترک کردیتا ہے ،اس کا روزہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری)
اس حدیث میں روزہ دار کا اخلاص صاف جھلکتا ہے، اگر یہی کھانا پینا روزہ دار کسی اورکے لئے چھوڑے ، مثلا لوگوں کو بتانے کے لئے، شہرت کے لئے کہ روزہ رکھ رہا ہوں (حالانکہ ایسا کم ہوتا ہے) پھر وہ ریاکاری ہوگی، خلوص کا نام ونشان نہ ہوگا، علماء نے لکھا ہے : روزہ ایک خاموش عبادت ہے بندہ اور رب کے درمیان ایک راز کی مانند ہے جہاں صرف اخلاص ہے، ریاء کو داخل ہونے کا موقع شاذ ونادر ہی ملتا ہے۔
اخلاص نہایت پاکیزہ اور محبوب شئی ہے، مخلص شخص سماج اور خاندان میں اثر انداز ہوتا ہے اور ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، جس پر چل کر نسلیں نجات و کامرانی کی حقدار بن جاتی ہیں،مخلص بندہ نیکی کے سارے کام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوکے کرتا ہے ، جب وہ دائیں ہاتھ سے کسی کو صدقہ دیتا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی،اشعب بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک گلی میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا تمہارے خاندان میں کتنے افرادہیں؟ اشعب جو نہایت مسکین آدمی تھے، افراد کی تعداد بتائی۔ اس کے بعد اس شخص نے اشعب سے کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے اہل وعیال کے کھانے پینے اورکپڑے کا برابر انتظام کرتارہوں جب تک تم زندہ ہو، کہا: کس نے حکم دیا ہے ،جواب ملا : میں نہیں بتا سکتا، پھر میں نے کہا: میں اس کی نیکی پر بیحد ممنون ومشکور ہوں، وہ شخص گویا ہوا: جس نے مجھے حکم دیا ہے وہ تمہارے شکریہ کے جواب سے معذور ہے، اشعب کہتے ہیں: میں برابر وظیفہ (خرچ) لیتا رہا، یہاں تک کہ خالد بن عبداللہ کا انتقال ہوا، لوگوں کی بھیڑ لگ گئی میں بھی جنازے میں شریک تھا کہ اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا:اے اشعب! یہی وہ ہستی تھی جو تمہارے نان ونفقہ کا انتظام کرتی تھی اور میں تمہیں دیا کرتا تھا۔
پردے کے پیچھے یہ وہ صاحب خیر تھے جو مدینہ میں بے شمار خاندانوں کی کفالت کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ تھی، یہ صرف ان کا خلوص تھا۔
امت محمدیہ کی برکت
محترم قارئین! اللہ رب العالمین نے اس امت پر برکتوں کا اس قدر فیضان کیا ہے جس کی سابقہ امتوں میں مثال نہیں ملتی اور سب سے بڑی برکت اس امت کے لئے اس کے پیارے نبی محمدﷺ ہیں، جن پر اللہ کا فضل خاص رہا، قرآن کریم آپﷺ پر نازل ہوا، اس کی برکت اور اجر وثواب سے لوگوں کو آگاہ کیا، زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں برکت پانے کے اسباب بتائے، اب ان اسباب اور راستوں کو اختیار کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے، برکت کوئی روپیہ پیسہ سے خریدی جانے والی شئی نہیں ہے، یہ وہ عظیم دولت ہے جو اللہ کے شکر گزار بندوں کو عطا ہوتی ہے، برکت منعم حقیقی کی جانب سے وہ قیمتی تحفہ ہے جس کا احساس و ادراک صرف مؤمن بندہ ہی کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کی صبحوں میں برکت رکھی ہے، اگر ہمارے پڑھنے لکھنے،تجارت، بازار وغیرہ غرضیکہ سارے کام فجر کے معاً بعد شروع ہو جایا کریں تو یقیناًہم اللہ رب العزت کی بے پناہ برکتوں سے فیضیاب ہوسکتے ہیں اللہ نے امت محمدیہ کو بہترین امت قرار دیکر اس کی تکریم کی، اللہ ہماری عزت افزائی کررہا ہے اور ہم اس کا شکریہ بھی ادا کرنے سے قاصر رہیں!!
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو دنیا کے احوال پر نظر رکھتا ہے وہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ سدیدالرأی اور عقلمند پائے گا، انہوں نے مختصر مدت میں علم و عمل کی دنیا سے کئی گنا دولت کمائی، جو ان کے سوا دوسری اقوام کئی صدیوں اور نسلوں میں بھی نہ پاسکیں۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: پیارے نبی ﷺ کی نبوت کی یہ برکت ہے کہ اللہ نے لوگوں کو ہدایت بخشی اور اس ہدایت سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹے، ہر ایک نے اپنی بساط بھر فائدہ اٹھایا، علم نافع اور عمل صالح کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا، بلند اخلاق کی حامل ایک ایسی امت بن کر ابھر ی جو علم و عمل کا پیکر تھی ہر آلودگی سے پاک تھی اور اس پر ہر مسلمان اللہ کا شکر بجالاتا تھا۔
میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ ان شکر گزار بندوں جن کی آمدنی بیحد کم ہوتی ہے، اس میں اتنی برکت دیتا ہے،کہ وہ شخص سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ کا م کیسے ہوگیا؟ وہ فورا اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے، برکت کے حصول کے لئے سب سے اہم چیز ہے کہ ہر معاملے میں سنت صحیحہ کی اتباع کی جائے، شریعت کے مطابق ہمارا عمل ہو، لین دین اور بزنس و تجارت میں ہر قسم کے عیب، جھوٹ اور سود سے بچیں، سچائی اور راست بازی کے اختیار کرنے سے ہی آپ اللہ کی برکتوں کے مستحق ہوسکتے ہیں، گھروں میں اگر کوئی شخص دین کی گفتگو کرتا ہے، یا علم دین کے حصول میں منہمک ہے تو ایسے لوگوں کی قدر ہونی چاہئے اس لئے بہت ممکن ہے کہ آپ کے گھر میں آمدنی اور برکت اسی علم کے نتیجہ میں آرہی ہے۔
روزہ دارو! ضرورت ہے کہ ہم اللہ کی برکتوں کو تلاش کریں، اس کی خوشبوؤں سے اپنے گھروں کو معطر کریں، یہ ممکن ہے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ، توبہ اور گناہوں سے دوری برتنے پر، اخلاص اور سنت نبوی کی اطاعت میں۔
اللہ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازے۔(آمین)
وصلی اللہ علی النبی الکریم

رمضان المبارک: فضائل واحکام agu 2010

مطیع اللہ حقیق اللہ المدنیؔ
رمضان المبارک: فضائل واحکام
رمضان المبارک اسلامی تقویم کا وہ فضیلت مآب مہینہ ہے جس کے ایام کا روزہ اس امت کے افراد پر فرض کیا گیا ہے، جیساکہ سابقہ امم پر روزہ فرض کیا گیا، اس روزہ کی غایت یہ ہے لوگوں میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہوجائے، تقویٰ مومن کی ایمانی زندگی کا سب سے بہتر زاد راہ ہے، یہی تقویٰ جملہ اسلامی عبادات کی روح ہے ۔
روزہ کا مقصود محض بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنا نہیں ہے، نہ ہی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ انسانوں کو دشواری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ آسانی چاہتا ہے، مطلوب روزہ یہ ہے کہ تقرب الٰہی کے مقصد سے ان چند گنے چنے ایام کی ر وزے کی حالت میں تکمیل ہو، اور ہدایات ربانی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بڑائی وبزرگی بیان کرنے کا اہتمام ہو، اللہ کی توحید کا نقش دلو ں پر قائم ہو اس کی عبادت کا ذوق دلوں میں پیدا ہو، اور یوں اس کی شکر گذاری کا عملی ثبوت فراہم ہو۔
رمضان المبارک مومن کی سالانہ عبادت کے احتساب کا موسم ہے، اس میں روزے کے ساتھ اور دیگر عبادات کا بڑھ چڑھ کر اہتمام ہو، تاکہ عبادات میں کمی و کوتاہی کی بھرپائی ہوجائے، صلاۃ فریضہ کی ادائیگی تو رکن اسلام ہے ہی روزہ رمضان بھی رکن اسلام ہے، اس کے دنوں کا شرعی حقیقی روزہ رکھ کر رب کی تابع داری اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ ہو تو اس کی راتوں میں قیام کے ذریعہ رب کی رضا و قربت کی حقیقی طلب پیدا کی جائے ، اور اپنے کو صالحین کے زمرہ میں شامل کرنے کے لئے سعی کی جائے۔
رمضان کا روزہ ایمان و احتساب کے طور پر گزشتہ گناہوں اور سابقہ خطاؤں کی مغفرت کا سامان ہے۔
حدیث نبوی ہے ’’من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے رمضان کا روزہ ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
اور ایک روایت میں نبی ﷺنے فرمایا ہے ’’من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرماتقدم من ذنبہ‘‘۔
جس شخص نے رمضان کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں
رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت ہی فضیلت کا حامل ہے، اسی آخری عشرے کی کوئی طاق رات ’’قدر کی رات‘‘ ہوتی ہے، اسی طاق رات یعنی قدر والی رات کو پانے کے لئے نبیﷺ آخری عشرے میں عبادات میں کافی اجتہاد و مشقت سے کام لیتے تھے، آپ کے آخری عشرے کے معمول کے متعلق ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ’’إن النبی ﷺ کان اذا دخلہ العشرأحیا لیلہ و أیقض أھلہ وشد مئذرہ‘‘ جب رمضان المبارک کا آخری عشر ہ آن پہونچتا تو اپنی راتیں یعنی اس کا بیشتر حصہ برائے قیام و عبادات بیداری میں گزارتے اپنے اہل یعنی ازواج مطہرات کو عبادات کرنے کے لئے بیدار کرتے اور کمر کس لیتے یعنی چوکس اور مستعد رہتے یوں پورے رمضان کا قیام باعث مغفرت ہے آپ نے قدر کی رات کے متعلق فرمایا ’’من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘جس شخص نے شب قدر کا قیام ایمان واحتساب کے طور رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک خیرات وبرکات اور فضائل کا ایک بیش بہاخزینہ اپنے اندر رکھتا ہے، یہ مہینہ مومن کے لئے اللہ کی رحمت و مغفرت اور بشارت کا ایک بے بہا گنجینہ اپنے دامن میں رکھتا ہے، جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے، تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور نار جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین خصوصا سرکش وکڑیل شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں، رمضان کے روزے کے متعلق نبیﷺ کا ارشاد گرامی روزے کی اہمیت و فضیلت پر بوضاحت دلالت کرتا ہے، آپﷺ نے فرمایا ’’ الصوم جنۃ‘‘ روزہ ایک ڈھال ہے یعنی روزہ روزے دار کے لئے معاصی و ذنوب سے بچاؤ کا ایک معنوی ڈھال ہے جو شخص رب کی تابعداری اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے طعام و شراب وغیرہ مباحات کو مخصوص وقت میں چھوڑے رکھتا ہے وہ یقیناًرضائے رب اور قربت مولائے کریم کے لئے معاصی و ذنوب سے احتراز کرے گا۔
روزے کی جزا بہت عظیم و بے پایاں ہے، یوں تو تمام اعمال کا بدلہ دینے والا اللہ ہی ہے مگر حدیث قدسی ’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ‘‘ یعنی روزہ تو میرا ہے میں ہی اس کا بدلہ دونگا کی روشنی میں یہ نسبت کس قدر باعث تشریف و تکریم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرا ہے اس کا بدلہ میں ہی دونگا۔
صوم اور اس کی جزا عطا کرنے کی نسبت رب العالمین نے خصوصی طور پر اپنی طرف کی ہے اس سے صوم اور صائمین کی قدر افزائی مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محسن و مخلص بندوں کے ساتھ یوں الطاف و افضال مقصود اور رحمت و مہربانی کا معاملہ کرتا ہے اور انہیں اپنے پاس سے جزائے کریم عطا کرتا ہے۔
روزہ دار کی تکریم و قدر افزائی کا انداز کتنا پیارا ہے جس کا ذکر قول رسول صادق ومصدوق ﷺ میں یوں وارد ہے ’’واللہ لخلوف فم الصام اطیب عند اللہ من ریح المسک‘‘ یعنی روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی پاکیزہ ہے۔ اس پر روزے دار جس قدر ناز کرے کم ہے شرط یہ ہے روزے دار صاحب ایمان اور حامل احتساب ہو، ایمان قوی اور احتساب کا جذبہ صادق انسان کو صوم کی حالت اللہ تعالیٰ کا اتنا محبوب بنادیتا ہے کہ منہ کی بساند (بھوک کی وجہ سے بدلی ہوئی بو) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے کہیں زیادہ پاکیزہ قرار پاتی ہے،ع
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
رمضان اپنے اندر برکات و خیرات کا ایک بہت بڑا خزانہ رکھتا ہے مگر ان برکات و خیرات کے مستفیدین در حقیقت وہ ہیں جن میں اگر ایک ایمان کامل اور احتساب صادق ہو تو دوسری طرف رمضان کے جملہ حقوق کی ادائیگی کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔
افضل زمان ومکان کسی کو افضل و بہتر نہیں بناتے ہیں، بلکہ ان افضل زمان و مکان میں اللہ کی ودیعت کردہ فضیلتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان تمام اقوال واعمال اور اوصاف و خصائل کو اپنانا ہوگا جن کی بنا پر کوئی شخص صحیح معنوں میں ان فضائل کا مستحق ٹھہر سکتا ہے رمضان اور روزے دار کے اپنے حقوق ہیں اگر ان حقوق و واجبات کی پامالی کی جائے تو پھر رمضان کے ایام معدودات اور ان کے روزے کے اوقات فاضلہ یوں ہی گزر جائیں گے اور حقوق پامال کرنے والا محروم فضیلت رہ جائے گا۔
خود ان حقوق کی پامالی کے درجات ہیں جس درجے میں پامالی حق ہوگی اسی اعتبار سے فضیلت سے محرومی ہاتھ آئے گی۔
صوم رکھنے والوں کے بھی مختلف مراتب ہیں:
کچھ لوگ واقعی حکم الٰہی کی تابعداری سنت نبی اکرم ﷺ کی پاسداری اور سلف صالحین کو قدوہ سمجھتے ہوئے روزہ رکھتے اور اس کے حقوق و آداب بجالاتے ہیں۔۔۔ عبادات میں انہماک رکھتے ہیں اخلاص اور اتباع کے ساتھ ریا و نمود سے کوسوں دور رہتے ہیں، یہ وہ ہیں جن کی شان میں حدیث قدسی وارد ہے نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے قال اللہ عز وجل:’’ الصوم لی وأنا أجزی بہ یترک طعامہ وشرابہ و شہوتہ من أجلی‘‘ ۔
ترجمہ: روزہ تو میرا ہے اور میں خود اس کی جزاء دونگا، وہ اپنا کھانا، پینا اور اپنی شہوت میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔
صائمین کا ایک طبقہ وہ ہے جو واقعی روزہ رکھنا اپنا مقصد عظیم سمجھتا ہے، یوں وہ اپنے کو جملہ معاصی و سیئات سے روک لیتا ہے، نہ صرف رمضا ن میں بلکہ دیگر ایام و شہور میں بھی رضائے الٰہی کا طالب رہتا ہے اور طاعت کی زندگی بسر کرتا ہے، گناہوں سے اجتناب کرتا ہے یہی وہ عظیم مقصد صوم ہے کہ ایسا روزہ دار اللہ کے متقی بندوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
روزے داروں کا ایک طبقہ وہ ہے جو طعام وشراب اور شہوت سے تو باز رہتا ہے مگر وہ بہت ساری سئیات و معاصی سے باز نہیں رہ پاتا ہے، بسا اوقات وہ بدعات و خرافات اور شرکیات سے بھی اپنا دامن آلودہ رکھتا ہے۔
ایسے ہی صائمین کے متعلق حدیث وارد ہے جو ان پر صادق آتی ہے ’’من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ‘‘۔
ترجمہ: جوشخص جھوٹ اور باطل کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں ہے وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔
بعض روزے دار ایسے بھی ہوتے ہیں جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر صلاۃ جیسے اہم رکن اسلام عبادت سے کامل غفلت کے شکار ہوتے ہیں۔
اس لئے اس طبقہ کو سوائے بھو ک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے،اس کی حالت دینی اعتبار سے ابتر کی ابتر ہی رہتی ہے بلکہ فضیلت زمان سے عدم استفادہ اس کی شقاوت و بدبختی میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔
بعض صائمین ایسے ہوتے ہیں جو حرام اور فسق وفجور سے تائب ہوکر بالکل کنارہ کش نہیں ہوتے ہیں جن محرمات و منہیات کا ارتکاب وہ پہلے کرتے رہتے تھے ان کا سلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں، بظاہر صوم رکھنے کے باوجود وہ عنداللہ صفرالیدین رہ جاتے ہیں۔
ایسے حرام و باطل کے خوگر اور آثام و ذنوب کے عادی حضرات خواہ مخواہ طعام و شراب کی لذت سے محروم رہتے ہیں، ایسے روزہ دراوں کے روزوں کی اللہ کے نزدیک معمولی قدر وقیمت نہیں ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسی ماہ میں قرآ ن کریم کا نزول ہوا ہے۔
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینا ت من الہدی والفرقان (البقرہ)
اس طرح قرآن مجید کا رمضان سے گہرا تعلق ہے، اس لئے اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن کریم کا زبردست اہتمام ہونا چاہئے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ اور سلف صالحین اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔***

Monday 23 August, 2010

یہ قانون فطرت ہے agu 2010

مولانا محمد مظہر الاعظمیؔ   
یہ قانون فطرت ہے

مدارس و جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کی صورت حال روزبروز ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے ، مدارس کے بعض ہمدردان کی بے عملی اور بے کرداری پر اپنے درد و کرب کا اظہار کرتے ہیں اوربعض مخالفین استہزاء کے انداز میں اپنے حیرت کا اظہار کرتے ہیں، جس حیرت کا مختلف محفلوں اور مجلسوں میں ذکر کرکے تعاون کے خواستگار ہوتے ہیں،میرے نزدیک حیرت کی کوئی وجہ نہیں ہے، چاہے موافقین کی جانب سے ہویا مخالفین کی جانب سے ، بلکہ مجھے تو ان کی حیرت پر حیرت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے اسباب و علل بالکل واضح اور نمایاں ہیں، منطق و فلسفہ کی پیچیدہ گتھی نہیں جسے سلجھانے اور سمجھنے کے لئے حکمت و دانائی درکار ہو، بلکہ یہ فطرت کی کھلی کتاب ہے۔؂
یہ قانون فطرت ہے کاٹوگے وہی جو بووگے
شیشے کی دیوار کے پیچھے بیٹھ کے مت پتھراؤ کرو
بڑی دیانت اور متانت سے اس حقیقت پر غور فرمائیں کہ طلبہ وہ پھل ہیں جو اساتذہ کی شاخوں میں لگتے ہیں اور اساتذہ کی شاخیں اپنی انتظامیہ کے تنے سے اپنی غذا حاصل کرتی ہیں اور یہ تنا اعمال کی ان جڑوں پر قائم ہے جو جڑیں نیتوں کی زمین میں پرورش پاتی ہیں، یعنی مدرسہ و جامعہ نام ہے اس مثلث کا جس کے تین زاوئے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ ہوتے ہیں ان تینوں زاویوں میں سے ہر ایک کی اپنی مسلمہ حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، البتہ آغاز ہوتا ہے انتظامیہ سے۔
اساتذہ کا انتخاب انتظامیہ کرتی ہے، جس انتخاب میں ادارہ کے اغراض و مقاصد ملحوظ ہوتے ہیں، ہم جن اداروں کی بات کررہے ہیں ان کے بنیادی مقاصد میں سب سے اہم اعلاء کلمہ ہے، باقی تمام امور اسی محور پر گھومتے ہیں، جب مقصد اعلاء کلمہ ہے تو حصول مقصد کے لئے ایسے اساتذہ کا انتخاب ہونا چاہئے جو اعلاء کلمہ کے فریضہ کو انجام دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں یعنی صلاحیت اور صالحیت ، کیونکہ صلاحیت کے بغیر کماحقہ نہ درس دیا جاسکتا اور نہ ہی صالحیت کے بغیر طلبہ کی تربیت کی جاسکتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلاف نے اساتذہ کے لئے ان دونوں صفتوں کو لازمی قرار دیا تھا،مذکورہ صفتوں میں سے کوئی بھی کمی حصول مقصد میں مانع سمجھی جاتی تھی، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ماضی قریب تک تفسیر و حدیث و دیگر اسلامی علوم وفنون کے ماہرین کتنی تعداد میں پید ا ہوئے اور آسمان علم پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے، جن کے غروب کے بعد آج بھی اس قدر روشنی موجود ہے کہ متلاشیان حق کا ایک بہت بڑا طبقہ اسی روشنی میں رواں دواں ہے۔
اب جب کہ نہ صلاحیت معیار رہی اور نہ ہی صالحیت، پھر بھی امیدیں حسب سابق وابستہ رکھی جائیں اور محدثین ، مفسرین اور باعمل علماء و صالحین کی توقع رکھی جائے تو یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور نیم کا درخت لگا کر انگور توڑنے اور اس سے فائدہ اٹھانے جیسی حماقت کے مساوی ہے، جس حماقت کی توقع کسی باشعور سے نہیں کی جاسکتی، اس لئے مدارس و جامعات کے اساتذہ اور طلبہ کی بے عملی اور بے کرداری پر تبصرہ کے ساتھ اس کے اسباب و علل پر بھی غور کیا جائے، بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گاکہ اساتذہ اور طلبہ کی موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال پر غیر سنجیدہ تبصرہ کرکے ان کی عزت و آبرو سربازار نیلام کرنے والا اپنے عیب کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے کیونکہ تعلیم وتربیت پر توجہ تو وہی دیگا جس کا مقصد و مطمح نظر تعلیم و تربیت ہو مگر جن کے اذہان وقلوب کسی ایسی فکر سے عاری و ننگے ہوں بھلا وہ اس طرح کی بات سوچ کر یا اسے عملی جامہ پہنا کر اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کریں گے۔
چونکہ بیشتر ادارے جمہوری اصول کے حامل ہیں ان کے عہدیداران و اراکین کا انتخاب جمہوری طرز پر ہوتا ہے اس لئے عام جمہوری انتخابات میں جو چیز غالب رہتی ہے اور جس بنیاد پر نمائندے منتخب ہو کے آتے ہیں، اسی انداز اور طریقہ پر ان جمہوری اداروں میں بھی منتخب ہوکے آتے ہیں،بلکہ اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جو نیتیں عام انتخابات میں کار فرما ہوتی ہیں وہی نیتیں ان اداروں کے انتخابات میں بھی اور جب طرز و انداز وہی ہوتا ہے تو کیا ہمارے مخلص نمائندوں نے ہندوستان کی جو صورت حال بنارکھی ہے کہ ایک طرف دعوی سپر پاور ہونے کے ساتھ مختلف علوم و فنون میں نمائندگی اور امامت کا اور دوسری طرف غربت و تنگدستی کی وجہ سے خودکشی نیز قتل و غارت گری اور زنا بالجبر جیسے جرائم سے اخبار کا ورق ورق مزین کہ ایک حساس اور درد مند شخص ان اخبارات کو صبح کے وقت لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چھوتا ہے اور بادیدہ نم پڑھتے ہوئے حواس پرقابو پانے کے لئے اپنی پوری صلاحیت جھونک دیتا ہے۔
جب طریقہ کاران اداروں کا وہی ہے جو ایک جمہور ملک کا تو انجام کیوں اس سے مختلف ہوگا؟ بلکہ سچائی تویہ ہے کہ جس طرح ہندو تو وادی اور ہندو دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں دھماکہ کرتے ہیں اور میڈیا کی طاقت سے اس کا رخ فورا مسلمانوں کی طرف پھیردیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ان اداروں میں بھی بہت سے جرائم جو اپنے لوگ انجام دیتے ہیں اسے غیروں کی طرف منسوب کردیاجاتا ہے اور اس چیز کو اتنا اچھالا جاتاہے کہ حقیقت پس پردہ چلی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مجرم کے کیفر کردار تک نہ پہونچنے کی وجہ سے وہ بڑے ہی اطمینان سے جرائم کا ارتکاب باربار کرتا رہتا ہے اور مظلوم ہندوستانی مسلمانوں کی طرح ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتا رہتا ہے۔
جب بھی نفس و شیطان کا غلبہ ہوگا اور روحانیت مغلوب ہوگی تو انجام کار یہی ہونا ہے،چاہے جو بھی شعبہ حیات ہو، اسی غلبہ کا نتیجہ ہے کہ بعض اداروں میں اساتذہ کے لئے جگہیں خالی ہیں ، سخت ضرورت بھی مگر رسہ کشی کا سلسلہ جو انتظامیہ کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دیتا، کیونکہ ہر رکن یہی چاہتا ہے کہ اسی کا امید وار ہی اس جگہ پر آئے چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے، اگرچہ وہ صلاحیت و صالحیت سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھتا ہو۔
نفس و شیطان کے غلبہ اور حذع و فریب کے متعلق عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے مغلوب ہوکر لوگ بتکدوں کا رخ کرتے ہیں ،مگر مولانا ابوالکلام آزاد کے لکھنے کے مطابق اگر اسے تلاش کرنا ہے تو مدرسوں اور خانقاہوں میں تلاش کرنا چاہئے جہاں شاید جلد مل جائے۔
’’ایک دنیادار فاسق اور ایک دنیادار عالم میں فرق یہی ہے کہ پہلا اپنی ہوا پرستیوں کو اعتراف فسق کے ساتھ انجام دیتا ہے اور دوسرا دین داری اور احتساب شرعی کے ظاہری فریب سے۔۔۔ نفس و شیطان کے حذع و فریب کے کاروبار بہت وسیع ہیں، لوگو ں نے ہمیشہ اس کومیکدوں میں ڈھونڈھا، مدرسوں اور خانقاہوں میں ڈھونڈھتے تو شاید جلد پتہ لگ جاتا ؂
یارب! زسیل حادثہ طوفان رسیدہ بود
بت خانہ کہ خانقہش نام کردہ اند‘‘
(تذکرہ:۵۵)
علامہ شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی مبارکپوری (رحمہ اللہ) نے استاذ محترم مولانا محمد الاعظمی سابق شیخ الجامعہ العالیہ العربیہ مؤناتھ بھنجن کو مورخہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۹ء ؁ ایک خط میں مدارس کے حالات سے رنجیدہ ہوکر بڑے دکھ کے ساتھ مدارس کے ماحول کی عکاسی کی ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے:
’’اس میں شک نہیں کہ پہلے یہ صیغہ بہت باعزت اور شریف سمجھا جاتا تھا، مدرسین اور علماء کی بڑی توقیر ہوتی تھی، تعلیمی بار بھی ہلکا ہوا کرتا تھا، لیکن اب دنیا کا جیسا کچھ حال ہے وہ آپ سے مخفی نہیں ہے، چھوٹے مدارس کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہوتی، بسا اوقات خود مدرس کو اپنی تنخواہ کے لئے چندہ دہندگان کی دریوزہ گری کرنی ہوتی ہے، پھر وہاں امامت اور خطابت کا فریضہ بھی مدرس ہی کو انجام دینا پڑتا ہے، اراکین و ذمہ داران کی دلجوئی اور خوش آمد اور ان کی رضامندی کا الگ ہمہ وقت خیال رکھنا پڑتا ہے،تعلیمی نصاب بالکل معمولی ہوتا ہے، بسا اوقات کھانے کا معقول انتظام نہیں ہوتا، بڑے مدارس میں جہاں پورے درس نظامی کا انتظام ہوتا ہے، وہاں بھی مختلف قسم کی شدید بیماریاں ہوتی ہیں، جو آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں، خود مجھ کو اب تک اس کے متعلق جو کچھ تھوڑی بہت معلومات حاصل ہیں ان کی بنیاد پر میرے نزدیک یہ بات ثابت شدہ حقیقت ہے کہ مدارس دینیہ عربیہ کی دنیا نہایت گندی ہوچکی ہے، کسی خودار، شریف اور کریم عالم کا وہاں ٹکنا بہت مشکل ہے، ہاں وہاں پہنچ کر وہ بھی اسی رنگ میں رنگ جائے تو اور بات ہے، بہرحال مجھ کو اس سے ذاتی طور پر نفرت ہوچکی ہے، اس لئے حتی الامکان آپ جیسے لوگوں کو اس دنیا میں قدم رکھنے کا مشورہ دینا بہت مشکل ہے، الا ان یضطر الیہ احد من معارفی و تلامذی عبدالرحمن سلمہ کے متعلق شروع سے میرا خیال بلکہ فیصلہ یہ تھا کہ وہ طب کی لائن میں جائیں، لیکن صورت حال اس وقت ایسی تھی کہ وہ تعلیمی لائن میں آگئے، اب بھی میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ وہ اس ذریعہ معاش کو چھوڑ کر طبی لائن میں آجائیں مگر اس کی ابتداء اور تکمیل سب کچھ خود ان کی جدوجہد پر موقوف ہے‘‘۔ (نقوش شیخ رحمانی،صفحہ: ۳۵،۳۶)
مذکورہ دو عظیم شخصیات کے اہم اقتباسات کے بعد مدارس کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے، اس لئے مدارس اور موجودہ حالات کی روشنی میں اقدام کی ضرورت ہے، بصورت دیگر فطری اصول کے مطابق ہمیں وہی کاٹنا ہوگا بلکہ کاٹنے پر مجبور ہوں گے جوپہلے بو چکے ہیں۔
***

Sunday 22 August, 2010

نزول قرآن کی سالگرہ: agu 2010

عبد الباری شفیق احمد اکرہروی
نزول قرآن کی سالگرہ:
ماہ رمضان بڑی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اس مہینہ کا روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر کوئی انسان پکاسچا مومن نہیں ہوسکتا، تمام کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے کہ ’’بنی الاسلام علی خمس شہادۃ ان لا إلٰہ إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت‘‘ (متفق علیہ)۔
اس مہینہ کا روزہ تمام مسلمان عاقل وبالغ، صحت مند و مقیم مرد و عورت پر فرض ہے جسے کوئی شرعی عذر لاحق نہ ہو، اس مہینہ کا روزہ تقوی و پرہیزگاری کا ضامن اور گنہگاروں کے لئے اس مہینہ کی رحمتوں اور برکتوں کے سائے میں رہ کر اپنے گناہوں کو دھلنے اور نیکیاں سمیٹنے کا موسم بہار ہے اس مہینہ کی فضیلت تمام مہینوں کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے اس کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسی مبارک ماہ رمضان میں اللہ نے اپنی آخری مقدس کتاب متقیوں کے لئے ہدایت اور تمام انسانوں کے لئے خیر وبرکت کا سرچشمہ بناکر سیدالمرسلین حضرت محمدﷺ پر نازل کیا اور ارشاد فرمایا:(شہر رمضان الذی أنزل فیہ القرآن ہدی للناس وبینات من الہدیٰ والفرقان فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ۔۔۔) نیز اللہ نے سورہ قدر میں ارشاد فرمایا: (إنا أنزلناہ فی لیلۃ القدر، وما ادراک مالیلۃ القدر، لیلۃ القدر خیر من الف شہر) اور سورہ دخان میں بھی ارشاد فرمایا (إنا أنزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ) ۔
مذکورہ آیتوں کے علاوہ اس مبارک مہینے کی فضیلت میں اللہ کے رسولﷺ نے متعدد جگہ ارشاد فرمایا کہ ’’ تمہیں رمضان مل رہا ہے، یہ بڑا بابرکت مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے تم پر فرض لئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر وافضل ہے، جو شخص اس بابرکت رات کی فضیلت و خیر سے محروم رہ گیا تو وہ (واقعی) محروم ہی ہے۔(مسند احمد)
نزول قرآن کی سالگرہ: ماہ رمضان قرآن کریم کے نزول کی سالگرہ ہے اس لئے اس ماہ کو قرآن کریم سے گہرا تعلق ہے، قرآن کریم کی تلاوت عموما تمام مہینوں اور خصوصا ماہ رمضان میں ایک بڑی عبادت اور افضل ترین عمل ہے، اللہ کے رسولﷺ ماہ رمضان میں دیگر مہینوں کی بہ نسبت قرآن کریم کی زیادہ تلاوت فرماتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال اس مہینہ میں آپ کو قرآن کا دور کراتے اور جب آپ کی زندگی کا آخری سال تھا تو انہوں نے دومرتبہ آپ پر قرآن پیش کیا، اللہ کے رسولﷺ خود پڑھتے اور صحابہ کرام کو بھی تلاوت کرنے کی ترغیب دیتے اور اس کے فضائل و محاسن بیان فرماتے چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشا فرمایا: من قرأحرفا من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشر امثالہا ، لاأقول الم حرف، ولکن الف حرف، واللام حرف،ومیم حرف (ترمذی:۳۰۷۵)
یعنی جس نے قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کی اس کے بدلے اسے ایک نیکی ملے گی اور وہ نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوں گی، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے،میم ایک حرف ہے اور دوسری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’جوبھی جماعت اللہ کے کسی گھر میں اللہ کے کتاب کی تلاوت کرنے اور باہم اسے پڑھنے کے لئے اکٹھا ہوتی ہے تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت الٰہی انہیں ڈھانک لیتی ہے، فرشتے سایہ فگن ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان ان کا تذکرہ کرتاہے۔(مسلم)
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے تلاوت کرنے والے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : ’’وہ مومن جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی مثال نارنگی جیسی ہے کہ اسکی بو اچھی ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہے۔۔۔‘‘(بخاری)
دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن پڑھنے اور پڑھانے والے کے بارے میں فرمایا کہ ’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ (بخاری) تم میں بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے، نیز دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے کم پڑھے لکھے لوگوں کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’قرآن کی تلاوت میں مہارت رکھنے والا بزرگوں اور نیکوکار لکھنے والوں (یعنی اللہ کے فرشتوں ) کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت سے پڑھتا ہے (یعنی ماہرین کی طرح روانی اور سہولت سے نہیں پڑھ پاتا ہے) تو اس کے لئے دہرا اجر و ثواب ہے۔ (بخاری)
تلاوت قرآن کے بارے میں ایک مشہور اور صحیح روایت ہے کہ ’’قرآن کریم قیامت کے دن تلاوت کرنے والوں کی سفارش کرے گا اور اس کی سفارش مقبول ہوگی، نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا کہ قرآن کی تلاوت کرو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا۔ (مسلم)
قرآن کریم کے بے شمار فضائل ہیں جن میں سے چند فضیلتیں ذکر کی گئیں ہیں، لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرے لیکن جب بھی کرے یکسو اور حضور قلب کے ساتھ کرے تاکہ اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھے اور ان پر عمل کرے، جیسا کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایاکہ ’’ قرآن پڑھو جب تک تمہارے دل متوجہ ہوں،اور تمہیں یکسوئی حاصل ہو اور جب تمہارے دل میں انتشار پید اہوجائے اور یکسوئی ختم ہوجائے تو اٹھ جاؤ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم جب تک قرآن کی تلاوت کریں تو اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھ کر پڑھیں، تبھی اس کی لذت اور چاشنی کو پاسکیں گے اور یہی قرآن اتارنے کا مطلوب و مقصود بھی ہے کہ بندے اس کی تلاوت کریں اور اس کے معانی کو سمجھیں اور خلوص للہیت کے ساتھ اس پر عمل کریں ، اس کے احکامات کو بجالائیں اور منہیات سے دور رہیں اور اس کے اخلاق و آداب سے اپنی زندگی کو سنواریں اور دنیاوی و اخروی زندگی سے اپنے آپ کو ہمکنار کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلا، ہمیں اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین*

آہ! بڑے ابا agu 2010

مولانا فضل حق مدنی
استاذ جامعہ سراج العلوم ،جھنڈانگر

آہ! بڑے ابا
محترم بڑے دادا جناب شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ صاحب رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے جناب مولوی فضل الباری صاحب رحمہ اللہ کا ۱۵؍جولائی بروز پنجشنبہ ۲۰۱۰ء ؁ کو بوقت فجر تقریبا ۸۸؍سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔
مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے ذہانت و فطانت اور صفائی ستھرائی کا وافر حصہ اللہ نے آپ کو عطاء کیا تھا،دینداری اور تدین آپ کے چہرے سے نمایاں اور واضح تھا محلہ کی مسجد میں پنجوقتہ امامت کا فریضہ آپ ہی کے سر تھا، لیکن چھٹیوں میں جب ہم لوگ گھر پہونچتے تو ازراہ محبت یہ فریضہ ہم لوگوں کے سپرد کردیتے آپ خاندان کے تمام پڑھے لکھے بچوں کی بہت قدر کرتے ان کی خواہش ہوتی کہ عصر کے بعد چائے نوشی انہیں کے ساتھ کروں لیکن ان کے تکلفات سے بچنے کے لئے اکثر میں کسی نہ کسی بہانے ان کے ساتھ جانے سے انکاری ہوجاتا جب کہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے خاندان کے متعلق نیز دہلی رحمانیہ اور ہندوستان کے بہت سارے شہروں اور خلیجی ممالک کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں معلوم ہوتیں، کیونکہ سیروافی الأرض کے تحت انہوں نے جوانی میں خوب خوب سیروتفریح اور معیشت سے متعلق سفر کئے، آپ مدارس کا چندہ رمضان المبارک کے مہینہ میں بہت شوق سے تقسیم کرتے کبھی کسی چندہ کنندہ کو انہوں نے دوبارہ گھر پر اس کام کے لئے نہیں بلایا نیز غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال کرتے تھے ہم لوگوں کو بھی ان کی مدد پر ابھارتے رہتے، مطالعہ کا بہت شوق تھا،روزنامہ اخبار اور اکثر جماعتی پرچوں کے خریدار تھے، کوئی خاص بات ہوتی تو ہم لوگوں سے بھی اس کا ذکر کرتے اور پڑھنے کے لئے وہ پرچہ دیتے،لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی واپسی کا ذکر کرتے چونکہ آپ نے دہلی رحمانیہ میں چند سال طالب علمی کے ایام گزارے تھے اور وہاں کے بہترین اور ذہین طلباء میں آپ کا شمار ہوتا تھالیکن قسمت نے یاوری نہیں کی اور آپ فراغت سے محروم رہے پھر بھی آپ علماء کے بڑے قدردان تھے چھٹیوں میں میرے گھر پہونچنے پر جھنڈے نگر کے تمام علماء کا حال چال معلوم کرتے، نیز اہل کدربٹوا اور خاندان میاں زکریا صاحب و اطراف و جوانب کے پرانے علماء کے حالات معلوم کرتے ، آپ کی خواہش تھی کہ خاندان کے اندر آپس میں کچھ رشتے ہونے چاہئے تاکہ بڑھتی ہوئی دوریاں سمٹ جائیں اس کا بار بار اظہار بھی کرتے جس کی وجہ سے میرے چچازاد بھائی مولوی افضل سلمہ امام و خطیب کانپور، کی شادی بڑے چچا محترم مولانا عبدالرحمن صاحب حفظہ اللہ کی صاحبزادی ثمامہ سلمہا کے ساتھ ہوئی اور میرے بڑے لڑکے حافظ صہیب حسن مدنی سلمہ کی شادی چھوٹے چچا ڈاکٹر حافظ عبدالعزیز صاحب حفظہ اللہ کی صاحبزادی صفیہ محمدی سلمہا کے ساتھ ہوئی اور تیسرا رشتہ آپ کے لڑکے شبیہ اختر صاحب کی صاحبزادی رفیدہ سلمہا کا میرے بھتیجے ضیاء الحق سلمہ کے ساتھ ہونا طے پایا جو اس وقت مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
آپ نے اپنے پیچھے ایک بھراپرا خاندان چھوڑا جو چھ بچوں اور ایک بچی اور ان کی اولاد پر مشتمل ہے، ماشاء اللہ دوبچے عالم دین دو ڈاکٹر اور دو اچھے تاجر ہیں اللہ ان سب کو صبر وشکر کی توفیق عطاء کرے اور دین کا سچا شیدائی بنائے اور خاندان رحمانی کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ ***

كم عمل اور اس بر اجر كثيرAgu 2010