تحریر
شیخ عبدالعزیز احمد محسن الترکی
ترجمہ
شیخ ابوفوزان المدنیؔ
شیخ عبدالعزیز احمد محسن الترکی
ترجمہ
شیخ ابوفوزان المدنیؔ
حدود مزدلفہ
آثار تابعین کی روشنی میں
آثار تابعین کی روشنی میں
اثر عطاء بن ابی رباح:
۱۔ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کہ مزدلفہ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب تم عرفہ کے دونوں جانب پہاڑیوں کے دونوں تنگنائے سے کوچ کرلو وہیں سے مزدلفہ وادی محسر تک ہے۔ لیکن عرفہ کے دونوں تنگنائے مزدلفہ کا حصہ نہیں ہیں، لیکن ان دونوں کا وہ حصہ جہاں سے کوچ کا آغاز ہوتا ہے وہ مزدلفہ میں شامل و داخل نہیں ہے۔
عطاء نے بتایا: جب تم عرفہ کے دونوں تنگنائے سے کوچ کر جاؤ تو تم اس میں دائیں بائیں اور جہاں بھی چاہو نزول کرسکتے ہو۔ میں نے کہا: آپ مجھے بتائیے کہ اگر میں لوگوں کی منازل سے الگ تھلگ رہوں؟ اور اس حرف (کنارہ والے حصہ میں چلاجاؤں جو عرفہ سے آنے والے کے دائیں واقع ہے اور کسی کے نزدیک نہ رہوں؟) آپ نے فرمایا: کہ اس میں کوئی کراہت نہیں سمجھتا ہوں۔(اخرجہ الفاکہی۴؍۳۱۶،۳۱۷) (والازرقی ۲؍۱۹۲۔ ۱۹۳) وسندہ صحیح۔
حبیب بن ابی ثابت کا بیان ہے کہ عطاء بن ابی رباح سے مزدلفہ میں موقف کے متعلق استفسار کیا گیا، انہوں نے جواباً کہا: کہ بطن وادی محسر کے آگے مزدلفہ کا موقف ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ جبل قزح تک ہے۔ اس کے بعد سارا خطہ مشعرحرام ہے۔ (اخرجہ الفاکہی:۴؍۳۲۱وسندہ صحیح)۔
اپنے زمانہ میں مکہ کے اندر مفتی حرم جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح کے دو اہم ترین نص ہیں۔
پہلے نص میں آپ عرفہ سے متصل مشرق سے منیٰ سے متصل مغرب تک مزدلفہ کے حدود کو بیان کیا۔ آپ نے مشرق میں عرفہ کے دونوں مأزم یعنی تنگنائے حصہ سے وادئ محسر تک اس کی حد کو متعین کیا۔
سب سے اہم سوال اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ عرفہ کے دونوں مأزم سے کیا مراد ہے؟
اکثر لوگوں حتی کہ بعض اہل بحث و تحقیق حضرات کا یہ گمان ہے کہ المازمان سے مراد دو پہاڑہیں۔ درحقیقت وہ کلمہ مأزم کے صیغہ تثنیہ سے دھوکا کھا گئے۔
چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں مأزمان درحقیقت وہی دونوں پہاڑ ہیں جن کا اس وقت ’’أخشبان‘‘ نام ہے جو اخشب کا تثنیہ ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہی گمان اور غلط فہمی ہی موجودہ حال میں مزدلفہ کے حدود کی تنگی کا سبب ہے لہٰذا اس اہم مسئلہ کی توضیح و تشریح لازم ہے اس کی وضاحت بتوفیق الٰہی حسب ذیل ہے:
أولا: مأزمان کا معنی جبلان،دوپہاڑ سرے سے ہے ہی نہیں اس سے مراد نہ تو وہ دونوں پہاڑ ہیں جو اخشبان سے موسوم ہیں نہ ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسے ہی دو پہاڑ مراد ہیں۔
درحقیقت مازم کا لغوی معنی و مطلب دو چیزوں کے درمیان تنگ مقام ہے خواہ دوپہاڑوں کے درمیان یا کسی وادی کے دو چھور کے درمیان ہو۔ اس کوصرف لفظاً تثنیہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ دو چیزوں کے درمیان واقع ہے۔
یہی درست اور حق بات ہے، علماء لغت کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں:
ابن منظور نے لسان العرب میں کہا: ’’والمازم المضیق مثل المازل‘‘ مازم کا معنی تنگ جگہ جیسے مازل۔
اس کو امام اصمعی نے بیان کیا ہے اور انہوں نے اس پر ابو مہدیہ کے قول سے استشہاد کیا: ’’ ہذا طریق یأزم المآزم۔ وعضوات تمشق اللہازما۔
والمازم: کل طریق ضیق بین جبلین: مازم، ہر وہ تنگ راستہ جو دوپہاڑوں کے مابین واقع ہو۔ اسی سے ساعدہ بن جویہ ہذلی کا قول ہے:’’ ومقامہن اذا حبسن بمأزم۔ ضیق الفَّ وصدّھن الأخشب‘‘ شاعر ان اونٹنیوں کی قسم کھا رہا ہے جو مأزم یعنی تنگ راہ میں روک لی گئیں۔
والمأزم: جزونہ میں وادی کا تنگ راستہ (لسان العرب، ۱۲؍۱۷،۱۸)
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مازم تنگ راہ کو کہتے ہیں خواہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان ہو خواہ وادی کے دوکناروں کے درمیان ہو۔ وادی کے تنگ راستہ کو مأزم کہا جاتا ہے، بسا اوقات اسے دونوں کناروں کی وجہ سے لفظاً تثنیہ استعمال کیا جاتا ہے اور مأزمان بولا جاتا ہے۔
لسان العرب ہی میں ابن منظور رقم طراز ہیں: ومنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی معنی کے پیش نظر وہ جگہ جو المشعرالحرام اور عرفہ کے درمیان واقع ہے مأزمان سے موسوم ہے، امام اصمعی نے فرمایا:روایت میں وارد المازم مزدلفہ اور عرفہ کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے۔
یہ صاحب لسان العرب ابن منظور الافریقی کی صراحت ہے جس کو انہوں نے علامۃ العرب اور دیوان الأدب امام عبدالملک بن قریب الاصمعی سے نقل کیا ہے کہ المازمان درحقیقت مزدلفہ اور عرفہ کے درمیان فاصل تنگ راستہ کا نام ہے۔
یہ ہم جان چکے ہیں کہ فاصل تنگ راستہ درحقیقت وہی وادی عرفہ ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں جیسا کہ صحابہ کرام کے سابقہ کلام میں اس کا بیان پہلے آچکا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے ’’مأزمین‘‘ سے مراد عطاء بن ابی رباح اور ان کے علاوہ دوسرں کے نزدیک عرفات اور مزدلفہ کے درمیان فاصل وادی کا تنگ راستہ ہی ہے ، جو نہ مزدلفہ کا حصہ ہے نہ ہی وہ عرفات کا حصہ ہے۔
ثانیاً: عطاء بن ابی رباح اور ان کے علاوہ کے سابق نص میں مازمان کی اضافت عرفہ کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی مازمی عرفہ کہا گیا ہے۔ یہ اضافت اس لئے ہے کیونکہ مازمان اسی عرفہ سے متصل ہے اس لئے اس کی جانب اضافت درست ہے اور عرفہ سے متصل وادی عرنہ کے تنگ راستے کے سوا کچھ اور نہیں ہے اور مازمان سے یہی مراد ہے اسی لئے نبیﷺ نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ وہ بطن عرنہ سے دور رہیں کیونکہ وہ عرفہ سے حد درجہ قریب اوربالکل متصل اور اسی سے لگا ہوا ہے۔ اس کا احتما تھا کہ کوئی اس وادی عرنہ کوبھی عرفات کا حصہ سمجھ بیٹھے۔
ثالثاً: سابقہ معنی ومراد کی تاکید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اگر مازمان سے مراد اخشبان نامی دو پہاڑ ہوتے تو زیادہ مناسب بات یہ ہوتی کہ ان ودنوں ’’مازمی مزدلفہ‘‘ کہا جاتا نہ کہ ’’مازمی عرفہ‘‘ اس لئے یہ دونوں پہاڑ عرفہ سے دور ہیں اور مزدلفہ سے بیحد قریب اور متصل ہیں، بلکہ ان دونوں پہاڑوں کے دونوں مغربی کنارے تو موجودہ حدود کے مطابق مزدلفہ کے اندر ہیں۔
رابعاً: اگر مازمان سے مراد اخشبان نامی دونوں پہاڑ ہی مان لیا جائے اور یہ کہ مزدلفہ کے حدود ان دونوں کے مغربی کناروں سے شروع ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں حجاج ایک بہت بڑی مسافت سے محروم رہ جاتے ہیں جو قطعی طور پر مشعر حرام کا حصہ ہے جیسا کہ اس کا بیان ہوچکا ہے واضح رہے کہ یہ مسافت انج کل بعض اطراف و جہات میں تقریبا سات کلو میٹر ہے۔اتنی بڑی مسافت اور یہ طویل رقبہ یوں ہی بیکار اور ویران باقی رہتا ہے بلا دلیل وبرہان۔
خامساً: اس سابقہ توضیح شدہ مسئلہ کی تاکید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ امام عطاء کے دوسرے نص مغرب سے مشرق تک مزدلفہ کی حد بیان کی گئی ہے انہوں نے مغرب میں وادی محسر کے اوپر سے اس کی حد بیان کی اور مشرق کی طرف رخ کیا ان سے کہنے والے نے کہا کہ جبل قزح تک؟ تو اس پر انہوں نے کہا اس کے بعد جو کچھ ہے وہ مشعر حرام ہے۔ اس طرح مزدلفہ کا سلسلہ مشرق میں جب تک ہم حرم خطہ میں ہوں اس تنگ وادی تک جاری رہتا ہے جو عرفہ اور مشعر حرام کے درمیان حد فاصل ہے۔ واللہ اعلم۔
سادساً: مورخ مکہ ابوالولید الازرقی نے کہا:
اور نمرہ سے۔ نمرہ وہ پہاڑ ہے جس پر حرم کی علامات ہیں جو آپ کے دائیں واقع ہوتا ہے جب آپ عرفہ کے تنگ راستہ سے نکلے ہیں موقف کا ارادہ کریں اور نمرہ پہاڑ کے نیچے چار نمرات ہیں جن کا طول و عرض پانچ گز لمبا اور چند گز چوڑا ہے۔
اس نص سے یہ بخوبی واضح ہے کہ’’ مازمان عرفہ ‘‘ خود عرفہ سے بہت قریب ہے اور وہ اس نمرہ نامی پہاڑی کے بالمقابل ہے جس پر حرم کی علامات نصب ہیں جو خطہ ارض حرم کے آغاز پر دلالت کرتی ہیں۔
حدود مزدلفہ:
علماء وفقہاء کے اقوال کی روشنی میں:
حدود مزدلفہ کے بیا ن میں علماء و فقہاکے بہت سارے اقوال ہیں، جو اس مقصود پر دلالت کرتے ہیں، اس بحث میں چند علماء و فقہاء کے اقوال درج ذیل ہیں:
۱۔ امام مفسر ابوجعفر محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ کا قول:
امام طبری نے فرمایا: جہاں تک مشعر کا معاملہ ہے وہ تمام جگہ ہے جو مزدلفہ کے دونوں پہاڑوں کے مابین واقع ہے، عرفہ کے تنگ راستہ سے شروع ہوکر وادی محسر تک۔ البتہ عرفہ کا تنگ راستہ مشعر کا حصہ نہیں ہے۔مأزمین عرفہ کا معنیٰ و مراد اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے۔
۲۔ امام فقیہ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ کا قول:
امام ابن قدامہ المقدسی نے فرمایا: مزدلفہ کے تین نام ہیں: مزدلفہ، مشعر اور جمع۔ اس کی حد عرفہ کے تنگ راستہ سے لیکر قرن محسر تک ہے اس کے دائیں بائیں جو گھاٹیاں ہیں ان میں سے کسی جگہ پر حاجی وقوف کرلے اس کے لئے کافی ہوگا۔ اس کا وقوف درست ہوگا۔ البتہ یاد رہے وادی محسر مزدلفہ کا حصہ نہیں ہے۔ (المغنی ۳؍۴۵۰)۔
چنانچہ عرفہ کے تنگ رستہ سے وادی مسر تک طول وعرض تمام گھاٹیاں نشیب وفراز مقامات اور پہاڑیاں سبھی مزدلفہ ہیں جہاں مزدلفہ کا وقوف درست ہے۔
اور امام ابو محمد ابن قدامہ المقدسی کی رائے میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس کا استثناء کیا جائے سوائے بطن وادی محسر کے۔ اور محسر انتہائی چھوٹی اور حد درجہ تنگ وادی ہے۔
اگر عرفہ سے حدود مزدلفہ تک پھیلی ہوئی وہ مسافت جو آج یوں ہی رکھ چھوڑی گئی ہے مزدلفہ کا حصہ نہیں ہے تو حد درجہ تنگ وادی محسر کے مقابلہ میں اس پر متنبہ کرنا زیادہ بہتر تھا۔
۳۔ امام محی الدین یحییٰ بن اشرف النووی الشافعی رحمہ اللہ کا قول:
امام نووی نے فرمایا: معلوم ہونا چاہئے کہ پورا مزدلفہ حرم ہے امام ازرقی نے تاریخ مکہ میں، امام مندنیجی اور ماوردی صاحب الحاوی نے اپنی کتاب الأحکام السلطانیہ اور ہمارے شوافع میں ان دونوں کے علاوہ دیگر ائمہ نے فرمایا:
مزدلفہ کی حد وادی محسر اورعرفہ کے تنگ راستے کے مابین ہے اور دونوں حد ۔یعنی مازمی عرفہ اور بطن محسر مزدلفہ میں شامل وداخل نہیں ہے۔آمنے سامنے آگے پیچھے کی ساری گھاٹیاں اور مذکورہ حد میں داخل تمام پہاڑیاں مزدلفہ میں داخل شمار ہوں گی۔
ہاں وادی محسر ایک ایسی جگہ ہے جو منی اور مزدلفہ کے مابین حد فاصل ہے وہ دونوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہے۔ (المجموع شرح المہندب ۸؍۱۲۸،۱۲۹)
امام نووی کا یہ قول ’’مزدلفہ پورا حرم ہے قابل غور و تدبر ہے ہیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ حرم عرفات کے بعد فورا شروع ہوجاتا ہے۔ ان کا یہ قول بھی قابل تامل ہے کہ انہوں نے تمام شعاب (گھاٹیوں) اور اس سے متصل پہاڑیوں کو مزدلفہ کا حصہ بتایا ہے اور سوائے وادی محسر کے کسی بھی جگہ کا استثناء نہیں کیا، محسر نہ تو مشعر ہے نہ مزدلفہ کا حصہ ہے اور نہ منیٰ کا۔
۴۔ شیخ الاسلام حافظ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا: پورے مزدلفہ کو معشر حرام کہا جاتا ہے اور وہ مأزمان عرفہ سے بطن محسر تک دراز ہے، ہر دو مشعر کے درمیان ایک ایسی حد ہے جو دونوں ہی مشعر کا حصہ نہیں ہے، عرفہ اور مزدلفہ کے مابین بطن عرنہ اور مزدلفہ اور منیٰ کے بطن محسر حد فاصل ہے۔
نبیﷺ نے فرمایا: عرفہ کلہا موقف وارفعوا عن بطن عرنہ و مزدلفۃ کلہا موقف وارفعوا عن بطن محسر، مومنی کلہا منحر و فجاج مکۃ کلہا طریق (مجموع الفتاویٰ ۴۶؍۱۳۴،۱۳۵)
اور اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں روایت کیا ہے، اس نص میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مزدلفہ مشعر حرام کی حد کو جیسا پہلے بھی اوروں سے منقول ہوچکا ہے۔ عرفہ کے تنگ راستے سے لے کر وادی محسر تک بیان کیا ہے۔ اور شیخ الاسلام نے تشریح کرتے ’’مأزمان عرفہ‘‘ کے معنی ومراد کو بیان کیا اور یہ بھی ذکر کیا ہے وہ کہاں ہے؟ اور کہاں شروع ہوتا ہے؟
آپ نے وضاحت کرکے بتلایا کہ مشعر عرفہ اور مشعر مزدلفہ کے درمیان ایک فاصل ہے جو نہ اس کا حصہ ہے نہ اس کا۔ وہ حد فاصل کیا ہے؟ شیخ الاسلام نے واضح طور پر فرمایا:کہ وہ صرف بطن عرنہ کی وادی ہے نہ کہ کوئی چیز آپ نے اس پر دلالت کرنے والی حدیث سے استدلال کیا یہ امر آپ کے کلام سے بالکل واضح ہے اور اس رائے کے بالکل موافق ہے جس کو پہلے ثابت کیا جاچکا ہے۔ والحمدللہ۔
۵۔ حافظ امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا قول:
آپ نے فرمایا: وادی محسر منی اور مزدلفہ کے درمیان ایک قدرتی حد فاصل ہے جو اس میں شامل ہے نہ اس میں۔ اور وادی عرنہ عرفہ اور مشعر حرام کے درمیان ایک قدرتی حد فاصل ہے۔ اس طور پر ہر دو مشعر کے درمیان ایک ایسا قدرتی حد فاصل جو دونوں کا حصہ نہیں ہے۔
منیٰ: حرم کا حصہ ہے اور مشعر بھی، وادی محسر حرم کا خطہ ہے اور یہ مشعر نہیں ہے۔ اور مزدلفہ حرم بھی ہے اور مشعر بھی۔
وادی عرنہ : نہ ہی مشعر ہے اور نہ حرم بلکہ حصۂ حل ہے، عرفہ حل ہے اور یہ مشعر ہے (زادالمعاد ۲؍۲۵۶)
حافظ ابن القیم کے کلام میں بڑی وضاحت اور صراحت ہے اس میں پانچ جگہوں کا بیان ہے۔
(۱) عرفہ:یہ وہ مشعر ہے جہاں پر حجاج نویں ذوالحجہ کو وقوف کرتے ہیں یہ ارض حرم نہیں ہے بلکہ حل ہے۔
(۲) عرنہ: یہ عرفہ کے مغرب ٹھیک اس کے سامنے اسی سے ملی ہوئی تنگ وادی ہے یہ مشعر نہیں ہے، وہاں پر وقوف جائز نہیں ہے، نبیﷺ کا فرمان ’’ وارفعوا عن بطن عرنہ‘‘ وقوف عرفہ کے وقت عرنہ کی وادی سے دور رہو۔(مقدم تخرج الحدیث) یہ عرنہ حل ہے ۔
(۳) مردلفہ: یہ مشعر بھی ہے اور حرم بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فاذکرواللہ عند المشعر الحرام (البقرۃ: ۱۹۸)
اس کو عرفات سے صرف وادی عرنہ الگ کرتی ہے۔
(۴) وادی محسر: یہ حرم ہے لیکن مشعر بالکل نہیں ہے نبیﷺ نے فرمایا: ’’وارفعوا عن بطن محسر‘‘ (تقدم تخریجہ)
(۵) منیٰ: یہ حرم ہے اور مشعر بھی اور اسے مزدلفہ سے صرف وادی محسر جدا کرتی ہے۔
واضح رہے وہاں پر ایسی کوئی زمین نہیں ہے جو حرم ہو اور مشعر نہ ہو، جو عرفات اور مزدلفہ کے درمیان حد فاصل کا کام دیتی ہو اور یوں مہمل ویران اور بیکار ہو، یہ پوری جگہ اللہ کی قسم مشعر حرام ہے اور یہ حق ہے۔ واللہ المستعان۔
صحابہ تابعین علماء اور فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ سے منقول آثار واقوال کی روشنی میں یہ امر یوں بخوبی واضح ہوجاتا ہے جس میں کسی چوں وچرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان شاء اللہ۔
بحمد اللہ در حقیقت مشعر حرام ’’مزدلفہ‘‘ خوب کشادہ ہے اور وہ بلاشبہ مشرق میں وادی عرنہ سے شروع ہوتا ہے اور یہ وادی وہ طبعی و قدرتی حد ہے جو مزدلفہ کو عرفات سے جدا کرتی ہے اور اسی طرح مزدلفہ مغرب کی جانب وادی محسر تک دراز ہے اور یہ وادی قدرتی حد ہے جو اسے منی سے جدا کرتی ہے۔
الحمدللہ یہ کافی بڑی مسافت ہے اور بڑا رقبہ ہے جس میں اللہ کی جانب سے حجاج کے لئے کافی کشادگی ہے۔
خلاصۃ القول: مزدلفہ ان دونوں وادیوں مشرق میں عرنہ اور مغرب میں محسر کے درمیان واقع ہے ان دونوں وادیوں کے درمیان جس قدر پہاڑیاں،گھاٹیاں، نشیبی مقامات(ریت اور بالو)،ریگزار، راستیاور گذر گاہیں سبھی مزدلفہ ہیں۔
عرفات سے کوچ کرنے کے بعد حج کرنے والا شخص ان میں سے کہیں بھی وقوف و مبیت کرلے وہ دحقیقت مشعر حرام یعنی مزدلفہ میں ہوگا۔
ہمیں چاہئے کہ ہم بلاحجیت و برہان اس چیز کو تنگ نہ بنائیں جسے اللہ تعالیٰ نے کشادہ بنایا ہے۔
والحمدللہ الذی بنعمۃ تتم الصالی۔
۱۔ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کہ مزدلفہ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب تم عرفہ کے دونوں جانب پہاڑیوں کے دونوں تنگنائے سے کوچ کرلو وہیں سے مزدلفہ وادی محسر تک ہے۔ لیکن عرفہ کے دونوں تنگنائے مزدلفہ کا حصہ نہیں ہیں، لیکن ان دونوں کا وہ حصہ جہاں سے کوچ کا آغاز ہوتا ہے وہ مزدلفہ میں شامل و داخل نہیں ہے۔
عطاء نے بتایا: جب تم عرفہ کے دونوں تنگنائے سے کوچ کر جاؤ تو تم اس میں دائیں بائیں اور جہاں بھی چاہو نزول کرسکتے ہو۔ میں نے کہا: آپ مجھے بتائیے کہ اگر میں لوگوں کی منازل سے الگ تھلگ رہوں؟ اور اس حرف (کنارہ والے حصہ میں چلاجاؤں جو عرفہ سے آنے والے کے دائیں واقع ہے اور کسی کے نزدیک نہ رہوں؟) آپ نے فرمایا: کہ اس میں کوئی کراہت نہیں سمجھتا ہوں۔(اخرجہ الفاکہی۴؍۳۱۶،۳۱۷) (والازرقی ۲؍۱۹۲۔ ۱۹۳) وسندہ صحیح۔
حبیب بن ابی ثابت کا بیان ہے کہ عطاء بن ابی رباح سے مزدلفہ میں موقف کے متعلق استفسار کیا گیا، انہوں نے جواباً کہا: کہ بطن وادی محسر کے آگے مزدلفہ کا موقف ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ جبل قزح تک ہے۔ اس کے بعد سارا خطہ مشعرحرام ہے۔ (اخرجہ الفاکہی:۴؍۳۲۱وسندہ صحیح)۔
اپنے زمانہ میں مکہ کے اندر مفتی حرم جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح کے دو اہم ترین نص ہیں۔
پہلے نص میں آپ عرفہ سے متصل مشرق سے منیٰ سے متصل مغرب تک مزدلفہ کے حدود کو بیان کیا۔ آپ نے مشرق میں عرفہ کے دونوں مأزم یعنی تنگنائے حصہ سے وادئ محسر تک اس کی حد کو متعین کیا۔
سب سے اہم سوال اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ عرفہ کے دونوں مأزم سے کیا مراد ہے؟
اکثر لوگوں حتی کہ بعض اہل بحث و تحقیق حضرات کا یہ گمان ہے کہ المازمان سے مراد دو پہاڑہیں۔ درحقیقت وہ کلمہ مأزم کے صیغہ تثنیہ سے دھوکا کھا گئے۔
چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں مأزمان درحقیقت وہی دونوں پہاڑ ہیں جن کا اس وقت ’’أخشبان‘‘ نام ہے جو اخشب کا تثنیہ ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہی گمان اور غلط فہمی ہی موجودہ حال میں مزدلفہ کے حدود کی تنگی کا سبب ہے لہٰذا اس اہم مسئلہ کی توضیح و تشریح لازم ہے اس کی وضاحت بتوفیق الٰہی حسب ذیل ہے:
أولا: مأزمان کا معنی جبلان،دوپہاڑ سرے سے ہے ہی نہیں اس سے مراد نہ تو وہ دونوں پہاڑ ہیں جو اخشبان سے موسوم ہیں نہ ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسے ہی دو پہاڑ مراد ہیں۔
درحقیقت مازم کا لغوی معنی و مطلب دو چیزوں کے درمیان تنگ مقام ہے خواہ دوپہاڑوں کے درمیان یا کسی وادی کے دو چھور کے درمیان ہو۔ اس کوصرف لفظاً تثنیہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ دو چیزوں کے درمیان واقع ہے۔
یہی درست اور حق بات ہے، علماء لغت کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں:
ابن منظور نے لسان العرب میں کہا: ’’والمازم المضیق مثل المازل‘‘ مازم کا معنی تنگ جگہ جیسے مازل۔
اس کو امام اصمعی نے بیان کیا ہے اور انہوں نے اس پر ابو مہدیہ کے قول سے استشہاد کیا: ’’ ہذا طریق یأزم المآزم۔ وعضوات تمشق اللہازما۔
والمازم: کل طریق ضیق بین جبلین: مازم، ہر وہ تنگ راستہ جو دوپہاڑوں کے مابین واقع ہو۔ اسی سے ساعدہ بن جویہ ہذلی کا قول ہے:’’ ومقامہن اذا حبسن بمأزم۔ ضیق الفَّ وصدّھن الأخشب‘‘ شاعر ان اونٹنیوں کی قسم کھا رہا ہے جو مأزم یعنی تنگ راہ میں روک لی گئیں۔
والمأزم: جزونہ میں وادی کا تنگ راستہ (لسان العرب، ۱۲؍۱۷،۱۸)
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مازم تنگ راہ کو کہتے ہیں خواہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان ہو خواہ وادی کے دوکناروں کے درمیان ہو۔ وادی کے تنگ راستہ کو مأزم کہا جاتا ہے، بسا اوقات اسے دونوں کناروں کی وجہ سے لفظاً تثنیہ استعمال کیا جاتا ہے اور مأزمان بولا جاتا ہے۔
لسان العرب ہی میں ابن منظور رقم طراز ہیں: ومنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی معنی کے پیش نظر وہ جگہ جو المشعرالحرام اور عرفہ کے درمیان واقع ہے مأزمان سے موسوم ہے، امام اصمعی نے فرمایا:روایت میں وارد المازم مزدلفہ اور عرفہ کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے۔
یہ صاحب لسان العرب ابن منظور الافریقی کی صراحت ہے جس کو انہوں نے علامۃ العرب اور دیوان الأدب امام عبدالملک بن قریب الاصمعی سے نقل کیا ہے کہ المازمان درحقیقت مزدلفہ اور عرفہ کے درمیان فاصل تنگ راستہ کا نام ہے۔
یہ ہم جان چکے ہیں کہ فاصل تنگ راستہ درحقیقت وہی وادی عرفہ ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں جیسا کہ صحابہ کرام کے سابقہ کلام میں اس کا بیان پہلے آچکا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے ’’مأزمین‘‘ سے مراد عطاء بن ابی رباح اور ان کے علاوہ دوسرں کے نزدیک عرفات اور مزدلفہ کے درمیان فاصل وادی کا تنگ راستہ ہی ہے ، جو نہ مزدلفہ کا حصہ ہے نہ ہی وہ عرفات کا حصہ ہے۔
ثانیاً: عطاء بن ابی رباح اور ان کے علاوہ کے سابق نص میں مازمان کی اضافت عرفہ کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی مازمی عرفہ کہا گیا ہے۔ یہ اضافت اس لئے ہے کیونکہ مازمان اسی عرفہ سے متصل ہے اس لئے اس کی جانب اضافت درست ہے اور عرفہ سے متصل وادی عرنہ کے تنگ راستے کے سوا کچھ اور نہیں ہے اور مازمان سے یہی مراد ہے اسی لئے نبیﷺ نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ وہ بطن عرنہ سے دور رہیں کیونکہ وہ عرفہ سے حد درجہ قریب اوربالکل متصل اور اسی سے لگا ہوا ہے۔ اس کا احتما تھا کہ کوئی اس وادی عرنہ کوبھی عرفات کا حصہ سمجھ بیٹھے۔
ثالثاً: سابقہ معنی ومراد کی تاکید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اگر مازمان سے مراد اخشبان نامی دو پہاڑ ہوتے تو زیادہ مناسب بات یہ ہوتی کہ ان ودنوں ’’مازمی مزدلفہ‘‘ کہا جاتا نہ کہ ’’مازمی عرفہ‘‘ اس لئے یہ دونوں پہاڑ عرفہ سے دور ہیں اور مزدلفہ سے بیحد قریب اور متصل ہیں، بلکہ ان دونوں پہاڑوں کے دونوں مغربی کنارے تو موجودہ حدود کے مطابق مزدلفہ کے اندر ہیں۔
رابعاً: اگر مازمان سے مراد اخشبان نامی دونوں پہاڑ ہی مان لیا جائے اور یہ کہ مزدلفہ کے حدود ان دونوں کے مغربی کناروں سے شروع ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں حجاج ایک بہت بڑی مسافت سے محروم رہ جاتے ہیں جو قطعی طور پر مشعر حرام کا حصہ ہے جیسا کہ اس کا بیان ہوچکا ہے واضح رہے کہ یہ مسافت انج کل بعض اطراف و جہات میں تقریبا سات کلو میٹر ہے۔اتنی بڑی مسافت اور یہ طویل رقبہ یوں ہی بیکار اور ویران باقی رہتا ہے بلا دلیل وبرہان۔
خامساً: اس سابقہ توضیح شدہ مسئلہ کی تاکید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ امام عطاء کے دوسرے نص مغرب سے مشرق تک مزدلفہ کی حد بیان کی گئی ہے انہوں نے مغرب میں وادی محسر کے اوپر سے اس کی حد بیان کی اور مشرق کی طرف رخ کیا ان سے کہنے والے نے کہا کہ جبل قزح تک؟ تو اس پر انہوں نے کہا اس کے بعد جو کچھ ہے وہ مشعر حرام ہے۔ اس طرح مزدلفہ کا سلسلہ مشرق میں جب تک ہم حرم خطہ میں ہوں اس تنگ وادی تک جاری رہتا ہے جو عرفہ اور مشعر حرام کے درمیان حد فاصل ہے۔ واللہ اعلم۔
سادساً: مورخ مکہ ابوالولید الازرقی نے کہا:
اور نمرہ سے۔ نمرہ وہ پہاڑ ہے جس پر حرم کی علامات ہیں جو آپ کے دائیں واقع ہوتا ہے جب آپ عرفہ کے تنگ راستہ سے نکلے ہیں موقف کا ارادہ کریں اور نمرہ پہاڑ کے نیچے چار نمرات ہیں جن کا طول و عرض پانچ گز لمبا اور چند گز چوڑا ہے۔
اس نص سے یہ بخوبی واضح ہے کہ’’ مازمان عرفہ ‘‘ خود عرفہ سے بہت قریب ہے اور وہ اس نمرہ نامی پہاڑی کے بالمقابل ہے جس پر حرم کی علامات نصب ہیں جو خطہ ارض حرم کے آغاز پر دلالت کرتی ہیں۔
حدود مزدلفہ:
علماء وفقہاء کے اقوال کی روشنی میں:
حدود مزدلفہ کے بیا ن میں علماء و فقہاکے بہت سارے اقوال ہیں، جو اس مقصود پر دلالت کرتے ہیں، اس بحث میں چند علماء و فقہاء کے اقوال درج ذیل ہیں:
۱۔ امام مفسر ابوجعفر محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ کا قول:
امام طبری نے فرمایا: جہاں تک مشعر کا معاملہ ہے وہ تمام جگہ ہے جو مزدلفہ کے دونوں پہاڑوں کے مابین واقع ہے، عرفہ کے تنگ راستہ سے شروع ہوکر وادی محسر تک۔ البتہ عرفہ کا تنگ راستہ مشعر کا حصہ نہیں ہے۔مأزمین عرفہ کا معنیٰ و مراد اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے۔
۲۔ امام فقیہ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ کا قول:
امام ابن قدامہ المقدسی نے فرمایا: مزدلفہ کے تین نام ہیں: مزدلفہ، مشعر اور جمع۔ اس کی حد عرفہ کے تنگ راستہ سے لیکر قرن محسر تک ہے اس کے دائیں بائیں جو گھاٹیاں ہیں ان میں سے کسی جگہ پر حاجی وقوف کرلے اس کے لئے کافی ہوگا۔ اس کا وقوف درست ہوگا۔ البتہ یاد رہے وادی محسر مزدلفہ کا حصہ نہیں ہے۔ (المغنی ۳؍۴۵۰)۔
چنانچہ عرفہ کے تنگ رستہ سے وادی مسر تک طول وعرض تمام گھاٹیاں نشیب وفراز مقامات اور پہاڑیاں سبھی مزدلفہ ہیں جہاں مزدلفہ کا وقوف درست ہے۔
اور امام ابو محمد ابن قدامہ المقدسی کی رائے میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس کا استثناء کیا جائے سوائے بطن وادی محسر کے۔ اور محسر انتہائی چھوٹی اور حد درجہ تنگ وادی ہے۔
اگر عرفہ سے حدود مزدلفہ تک پھیلی ہوئی وہ مسافت جو آج یوں ہی رکھ چھوڑی گئی ہے مزدلفہ کا حصہ نہیں ہے تو حد درجہ تنگ وادی محسر کے مقابلہ میں اس پر متنبہ کرنا زیادہ بہتر تھا۔
۳۔ امام محی الدین یحییٰ بن اشرف النووی الشافعی رحمہ اللہ کا قول:
امام نووی نے فرمایا: معلوم ہونا چاہئے کہ پورا مزدلفہ حرم ہے امام ازرقی نے تاریخ مکہ میں، امام مندنیجی اور ماوردی صاحب الحاوی نے اپنی کتاب الأحکام السلطانیہ اور ہمارے شوافع میں ان دونوں کے علاوہ دیگر ائمہ نے فرمایا:
مزدلفہ کی حد وادی محسر اورعرفہ کے تنگ راستے کے مابین ہے اور دونوں حد ۔یعنی مازمی عرفہ اور بطن محسر مزدلفہ میں شامل وداخل نہیں ہے۔آمنے سامنے آگے پیچھے کی ساری گھاٹیاں اور مذکورہ حد میں داخل تمام پہاڑیاں مزدلفہ میں داخل شمار ہوں گی۔
ہاں وادی محسر ایک ایسی جگہ ہے جو منی اور مزدلفہ کے مابین حد فاصل ہے وہ دونوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہے۔ (المجموع شرح المہندب ۸؍۱۲۸،۱۲۹)
امام نووی کا یہ قول ’’مزدلفہ پورا حرم ہے قابل غور و تدبر ہے ہیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ حرم عرفات کے بعد فورا شروع ہوجاتا ہے۔ ان کا یہ قول بھی قابل تامل ہے کہ انہوں نے تمام شعاب (گھاٹیوں) اور اس سے متصل پہاڑیوں کو مزدلفہ کا حصہ بتایا ہے اور سوائے وادی محسر کے کسی بھی جگہ کا استثناء نہیں کیا، محسر نہ تو مشعر ہے نہ مزدلفہ کا حصہ ہے اور نہ منیٰ کا۔
۴۔ شیخ الاسلام حافظ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا: پورے مزدلفہ کو معشر حرام کہا جاتا ہے اور وہ مأزمان عرفہ سے بطن محسر تک دراز ہے، ہر دو مشعر کے درمیان ایک ایسی حد ہے جو دونوں ہی مشعر کا حصہ نہیں ہے، عرفہ اور مزدلفہ کے مابین بطن عرنہ اور مزدلفہ اور منیٰ کے بطن محسر حد فاصل ہے۔
نبیﷺ نے فرمایا: عرفہ کلہا موقف وارفعوا عن بطن عرنہ و مزدلفۃ کلہا موقف وارفعوا عن بطن محسر، مومنی کلہا منحر و فجاج مکۃ کلہا طریق (مجموع الفتاویٰ ۴۶؍۱۳۴،۱۳۵)
اور اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں روایت کیا ہے، اس نص میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مزدلفہ مشعر حرام کی حد کو جیسا پہلے بھی اوروں سے منقول ہوچکا ہے۔ عرفہ کے تنگ راستے سے لے کر وادی محسر تک بیان کیا ہے۔ اور شیخ الاسلام نے تشریح کرتے ’’مأزمان عرفہ‘‘ کے معنی ومراد کو بیان کیا اور یہ بھی ذکر کیا ہے وہ کہاں ہے؟ اور کہاں شروع ہوتا ہے؟
آپ نے وضاحت کرکے بتلایا کہ مشعر عرفہ اور مشعر مزدلفہ کے درمیان ایک فاصل ہے جو نہ اس کا حصہ ہے نہ اس کا۔ وہ حد فاصل کیا ہے؟ شیخ الاسلام نے واضح طور پر فرمایا:کہ وہ صرف بطن عرنہ کی وادی ہے نہ کہ کوئی چیز آپ نے اس پر دلالت کرنے والی حدیث سے استدلال کیا یہ امر آپ کے کلام سے بالکل واضح ہے اور اس رائے کے بالکل موافق ہے جس کو پہلے ثابت کیا جاچکا ہے۔ والحمدللہ۔
۵۔ حافظ امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا قول:
آپ نے فرمایا: وادی محسر منی اور مزدلفہ کے درمیان ایک قدرتی حد فاصل ہے جو اس میں شامل ہے نہ اس میں۔ اور وادی عرنہ عرفہ اور مشعر حرام کے درمیان ایک قدرتی حد فاصل ہے۔ اس طور پر ہر دو مشعر کے درمیان ایک ایسا قدرتی حد فاصل جو دونوں کا حصہ نہیں ہے۔
منیٰ: حرم کا حصہ ہے اور مشعر بھی، وادی محسر حرم کا خطہ ہے اور یہ مشعر نہیں ہے۔ اور مزدلفہ حرم بھی ہے اور مشعر بھی۔
وادی عرنہ : نہ ہی مشعر ہے اور نہ حرم بلکہ حصۂ حل ہے، عرفہ حل ہے اور یہ مشعر ہے (زادالمعاد ۲؍۲۵۶)
حافظ ابن القیم کے کلام میں بڑی وضاحت اور صراحت ہے اس میں پانچ جگہوں کا بیان ہے۔
(۱) عرفہ:یہ وہ مشعر ہے جہاں پر حجاج نویں ذوالحجہ کو وقوف کرتے ہیں یہ ارض حرم نہیں ہے بلکہ حل ہے۔
(۲) عرنہ: یہ عرفہ کے مغرب ٹھیک اس کے سامنے اسی سے ملی ہوئی تنگ وادی ہے یہ مشعر نہیں ہے، وہاں پر وقوف جائز نہیں ہے، نبیﷺ کا فرمان ’’ وارفعوا عن بطن عرنہ‘‘ وقوف عرفہ کے وقت عرنہ کی وادی سے دور رہو۔(مقدم تخرج الحدیث) یہ عرنہ حل ہے ۔
(۳) مردلفہ: یہ مشعر بھی ہے اور حرم بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فاذکرواللہ عند المشعر الحرام (البقرۃ: ۱۹۸)
اس کو عرفات سے صرف وادی عرنہ الگ کرتی ہے۔
(۴) وادی محسر: یہ حرم ہے لیکن مشعر بالکل نہیں ہے نبیﷺ نے فرمایا: ’’وارفعوا عن بطن محسر‘‘ (تقدم تخریجہ)
(۵) منیٰ: یہ حرم ہے اور مشعر بھی اور اسے مزدلفہ سے صرف وادی محسر جدا کرتی ہے۔
واضح رہے وہاں پر ایسی کوئی زمین نہیں ہے جو حرم ہو اور مشعر نہ ہو، جو عرفات اور مزدلفہ کے درمیان حد فاصل کا کام دیتی ہو اور یوں مہمل ویران اور بیکار ہو، یہ پوری جگہ اللہ کی قسم مشعر حرام ہے اور یہ حق ہے۔ واللہ المستعان۔
صحابہ تابعین علماء اور فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ سے منقول آثار واقوال کی روشنی میں یہ امر یوں بخوبی واضح ہوجاتا ہے جس میں کسی چوں وچرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان شاء اللہ۔
بحمد اللہ در حقیقت مشعر حرام ’’مزدلفہ‘‘ خوب کشادہ ہے اور وہ بلاشبہ مشرق میں وادی عرنہ سے شروع ہوتا ہے اور یہ وادی وہ طبعی و قدرتی حد ہے جو مزدلفہ کو عرفات سے جدا کرتی ہے اور اسی طرح مزدلفہ مغرب کی جانب وادی محسر تک دراز ہے اور یہ وادی قدرتی حد ہے جو اسے منی سے جدا کرتی ہے۔
الحمدللہ یہ کافی بڑی مسافت ہے اور بڑا رقبہ ہے جس میں اللہ کی جانب سے حجاج کے لئے کافی کشادگی ہے۔
خلاصۃ القول: مزدلفہ ان دونوں وادیوں مشرق میں عرنہ اور مغرب میں محسر کے درمیان واقع ہے ان دونوں وادیوں کے درمیان جس قدر پہاڑیاں،گھاٹیاں، نشیبی مقامات(ریت اور بالو)،ریگزار، راستیاور گذر گاہیں سبھی مزدلفہ ہیں۔
عرفات سے کوچ کرنے کے بعد حج کرنے والا شخص ان میں سے کہیں بھی وقوف و مبیت کرلے وہ دحقیقت مشعر حرام یعنی مزدلفہ میں ہوگا۔
ہمیں چاہئے کہ ہم بلاحجیت و برہان اس چیز کو تنگ نہ بنائیں جسے اللہ تعالیٰ نے کشادہ بنایا ہے۔
والحمدللہ الذی بنعمۃ تتم الصالی۔
***
No comments:
Post a Comment