Tuesday 1 June, 2010

استاذ محترم کی علمی پہچان-May, 2010

مولانا عبدالمعید مدنیؔ
استاذ محترم کی علمی پہچان
 
جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ نے اپنے پیچھے ایک معتدبہ علمی ترکہ چھوڑا ہے، اردو زبان میں بھی اور عربی زبان میں بھی، ان کا یہ علمی ترکہ ہزاروں صفحات پر پھیلا ہوا ہے انہوں نے درجنوں کتابیں تالیف اور ترجمے کی شکل میں ملت و جماعت کو دی ہیں، ہزاروں صفحات پر پھیلے کتابوں کے مقدمے ہیں، ہزاروں صفحات پر مشتمل عربی اور اردو مضامین اور مقالے ہیں۔
یہ سب کیسے ہو پایا اور انہوں نے اتنا کچھ کیسے لکھا؟ اپنی علمی کار کردگی کے حساب سے وہ اپنے ہم عصروں میں سب سے آگے نکل گئے، ایسا بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں ان کے دوسرے ہم عصر علمی اور ذہنی قابلیت میں ان سے کہیں آگے تھے لیکن وہ اپنی علمی سرگرمیوں میں ازہری صاحب سے کہیں پیچھے ہیں، اس تقدم اور سبقت اور نمایاں کارکردگی کا سبب کیا ہے، ہمیں اس کے تین نمایاں اسباب نظر آتے ہیں (۱) انضباط وقت (۲)انضباط حیات (۳)انضباط عمل۔
میں نے انہیں جب سے جانا اور جب بھی دیکھا یہی دیکھا کہ ان کی ترجیحات میں مطالعہ اور تصنیف و تالیف داخل ہے اسی طرح آفس کے کاموں کو انجام دینے میں بھی مکمل نظم و ضبط کا اہتمام، انہیں کبھی مشکل سے جامعہ کی چہار دیواری سے باہر جاتے ہوئے دیکھا گیا، سارا وقت ضروریات حیات کے بعد صرف تحریری کاموں کے لئے وقف۔
ڈاکٹر رحمہ اللہ نے انضباط وقت کا اہتمام کیا اور انضباط حیات کا بھی ۔ اوردونوں میں کامیاب رہے، انضباط وقت کا اتنا اہتمام کہ جامعہ میں جب بھی ان کی آفس سے گذر ہوا، لکھنے پڑھنے میں مصروف ۸؍بجے سے ۲؍بجے تک پھر عصر کے بعد سے مغرب تک اور بسا اوقات عشاء کے بعد بھی، انہوں نے وقت کی پابندی کی اور جامعہ کی تسہیلات سے بھرپور استفادہ کیا اور جامعہ کے رہنما ورہبر بن گئے اور اپنی اس قیادت کے سبب ملک و بیرون ملک علمی و جماعتی حلقوں میں اپنی پہچان بنا لے گئے، کیا اور کیوں سے بحث نہیں، بحث اس سے ہے کہ انضباط وقت سے انسان کیا کچھ حاصل کرلیتا ہے اور کہاں تک وہ پرواز کرسکتا ہے ان کو جامعہ نے پہچان دی، اور اسٹیج بھی، اخذ و عطا کا یہ سلسلہ آخری لمحے تک جاری رہا، اس پہچان کے سبب انہیں دنیا کے بے شمار خطوں میں بارہا جانے کا اور افادہ واستفادہ کا موقع ملا۔
وقت کے انضباط کا ان کو اتنا اہتمام تھا کہ کبھی انہیں لوگوں نے وقت کو ضائع کرتے نہیں دیکھا، ان کے انضباط وقت پر نہ موسم اثر انداز ہوتا تھا نہ گھریلو اور شخصی ضرورتیں، وقت کے انضباط کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہے، بہت سی خواہشوں کو ختم کرناپڑتا ہے، زندگی کی سرگرمیوں میں ترجیحی رویہ اپنانا پڑتا ہے، انہماک اور توجہ کو کام میں لانا پڑتا ہے، ازہری رحمہ اللہ نے یہ سارے جتن کئے اور وقت کی پابندی کا پورا نظم قائم کیا۔
انضباط وقت سے انسان کے کام میں سلیقہ مندی اور سوچ میں نظم و ترتیب آجاتی ہے، یہ ایسی حقیقت ہے کہ اسے ہر شخص محسوس کرسکتا ہے، اس انضباط وقت کے نتیجے میں ازہری رحمہ اللہ کے ہر کام میں سلیقہ مندی اور سوچ میں نظم و ترتیب موجود تھی ، ان کی آفس میں قدم رکھ کر کوئی بھی اس خوبی کو محسوس کرسکتا تھا، صفائی ستھرائی ، نظم و ضبط ترتیب و تہذیب ہر شے میں نمایاں۔ بدنظمی پھوہڑ پن بے ذوقی کا کہیں کسی جگہ نام و نشان نہیں۔ ان کی ایک سطری تحریر میں بھی صفائی نظم اور سلیقہ مندی بولتی تھی۔
انضباط وقت کی طرح انضباط حیات میں بھی وہ منفرد تھے اور اپنے ہم عصروں میں سب سے نمایاں تھے، انضباط حیات میں خود انسان کی اپنی طرز زندگی، روز مرہ سرگرمیاں خاص کر آتی ہیں پھر اس سے منسلک گھریلوو سماجی سرگرمیاں ہوتی ہیں، انضباط حیات کے تحت انہوں نے اپنی ذہنی صلاحیت سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی اور اپنی گھریلو زندگی کی کشتی ایسی مہارت سے کھیتے رہے کہ آل و اولاد ، بھائی اور رشتہ دار جس کے اوپر سایہ فگن رہے سب ساحل بکنار ہوگئے اور اعلیٰ تعلیم سے مزین ہوگئے، اس دور میں کم ہی ایسے لوگ ملتے ہیں جو اپنوں کو اس خوش اسلوبی سے کامیابی کی راہ پر گامزن کرسکیں، یہ آسان کام نہیں ہے بڑی پتہ ماری کا کام ہے، یہ بات مشاہدہ میں ہوگی کہ بڑے بڑے گھن گرج کے لوگ ہوتے ہیں مگر چراغ تلے اندھیرا ، انسان ذاتی اور گھریلو کامیابی حاصل کرتے ہوئے خود اعتمادی حاصل کرلیتا ہے اور پھرعویصات کے حل کرنے میں اسے ماہر سمجھا جاتا ہے اور سماج میں اسے وقعت حاصل ہو جاتی ہے، انہیں انضباط وقت ، انضباط حیات فکر و خیال اور طرز زندگی میں ٹھہراؤ کے سبب اور دیگر معاون اسباب کی بنا پر اور جامعہ سلفیہ کی قیادت کی بنا پرازہریؔ رحمہ اللہ کی حیثیت جماعتی حلقوں میں تسلیم شدہ بن گئی۔ اور پھر آج کے دور میں جو جمالے جائے وہ جم جاتا ہے پھر کسی کو کیا اور کیوں کرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔
ازہری رحمہ اللہ کی ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ وہ لگاتار اور مسلسل محنت کے عادی تھے اور اسقدر محنت کرتے تھے کہ جو کام اپنے ذمہ لے لیتے تھے اسے حتی الامکان خوش اسلوبی سے پورا کرتے تھے، مسلسل محنت اور لگاتار جدوجہد ان کی زندگی کی پہچان تھی، محنت سے انسان سرفراز ہوتا ہے اور لگاتار محنت سے وہ کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتا چلا جاتا ہے اور محنت کے شیریں پھل اسے مل جاتے ہیں۔
چالیس سالوں تک ان کی لگاتار اور مسلسل محنت کا ثمرہ سامنے ہے وہ اپنے کاز میں کامیاب ہیں اور شاندار انداز میں کامیاب ہیں، آدمی دولت جمع کرلے بہت کتابیں لکھ ڈالے بڑا نام کما لے یہ کامیابی نہیں، انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ جس کام میں لگا ہے اور جس ماحول میں رہ رہا ہے ان میں اس کے اثرات قائم ہوجائیں اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں، اس ناحیئے سے ازہری رحمہ اللہ اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ کامیاب تھے اور کامیابی ان کی ذات ان کے گھر تک اور ان کے متعلقین تک پھیلی ہوئی تھی۔
ازہری صاحب کی زندگی کی سب سے نمایاں کارکردگی ان کی نگارشات ہیں اور نگارشات بھی اردو اور عربی دو زبانوں میں ہیں اور قریب قریب دونوں زبانوں کی تحریریں حجم میں بھی یکساں ہیں اور اسلوب و لب و لہجے میں بھی یکساں رنگ رکھتی ہیں، تحریریں انسان کی علمی فکری اور اخلاقی صلاحیتوں کا آئینہ ہوتی ہیں، عموماً ان کی طبیعت پر سکون ہوتی تھی،ٹھہراؤاور دھیمے پن کی حامل تھی اور وہ ہر شے میں بڑا نپاتلا سوچا سمجھا قدم اٹھانے کے عادی تھے، اس عادت کی آئینہ دار ہیں ان کی تحریریں ان کی معروف انتظامی سرگرمیوں کے برعکس ہر قسم کے تنازع سے پاک اور صلح کل والی ہوا کرتی تھیں، ان کا تال میل دانشور طبقہ سے بنا رہتا تھا، نیز ان کی منصبی ذمہ داری بھی تھی اور انسان کے اپنے اہداف و مقاصد بھی ہوتے ہیں، اس لئے ان کا اپنا رویہ بن گیا تھا اور دائرہ فکر و نظر اور تحریر و نگارش بھی ، ان تمام کی چھاپ ان کی تحریروں پر ہوئی ہے۔
فکری و فنی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ان کی تحریریں قابل قدر ہیں ان کی تحریر فنی اعتبار سے سادگی و پرکاری کے دائرے میں آتی ہے حشوو زوائد سے پاک صاف تحریر، دونوں زبانوں کی تحریروں میں ان کا اپنا خاص انداز ہے اور پوری جماعت میں ان کی الگ پہچان، جماعت میں ان کی طرح کسی کی الگ متعین پہچان نہیں ہے اور یہ انہیں کثرت ممارست اور توجہ و اہتمام سے حاصل ہوئی ہے، ان کی دونوں زبانوں کی تحریروں میں پختگی پائی جاتی ہے اور علمی کاموں کے لئے مناسب طرز تحریر، ان ناحیوں سے ہم ہمیشہ ان کے قدر دان رہے، اور ان کے تمام دوسرے ہم عصروں پر انہیں ترجیح دیتے رہے۔
اہل حدیث علماء میں اس وقت جس قدر عربی قلم کار ہیں اور جس قدر اچھی عربی لکھ سکتے ہیں دوسرے حلقوں میں نہ ان کے مقابلے میں اچھے قلم کار ہیں ، نہ ان سے زیادہ قلم کار ہیں، لیکن ان خبایا کو سامنے آنے، نکھرنے اور سنورنے اور اپنا کام کرنے کا نہ کوئی پلیٹ فارم ہے نہ ان کے لئے کوئی راستہ ہے نہ منزل، ساری تسہیلات علمیہ جگلروں کے ہاتھ میں ہیں جو ان پر کنڈلی مارے بیٹھے ہوئے ہیں۔
استاذ محترم نے چالیس سال تک عربی تحریر کا شغل جاری رکھا اس میں کبھی ناغہ نہ ہوا، جامعہ کی ساری سہولتیں ان کے ساتھ تھیں انہیں ہر طرح کی علمی و مادی سہولتیں حاصل تھیں، جامعہ سے انہیں عالمی و عربی پلیٹ فارم ملا ہوا تھا، ان کے پاس حوصلہ اور جذبہ تھا،کام کرنے کا سلیقہ بھی ملا تھا، انہوں نے ان سب کا بھرپور فائدہ اٹھایا اس طرح زندگی بھر ان کی تحریریں شاداب رہیں اور ان کے عزم و حوصلے بھی تاباں رہے اور مخالف ماحول میں بھی انہیں کام کرنے کا یارا رہا، یہ بڑی خوبیاں ہیں جو انسان کو باکار کار آمد اور زندہ و سر سبز بنادیتی ہیں۔ اور لوگ قدردان بھی بنتے ہیں، انہوں نے عظیم علمی مقاصد کی خاطر خون دل جلایاہے، وقت کی قربانی دی ہے، ساری صلاحیتوں کو جھونک دیا ہے تب ان کی شخصیت مسلم ہوئی ہے اور یہ عظیم کام سب کے بس کانہیں ہے۔
چالیس سال کی عربی تحریریں اداریئے، مقالات، کانفرنسوں کے تحریر کردہ بحوث، کتابوں کے ترجمے، عربی کتابوں کے مقدمے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، ان کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں، عجمی ماحول میں عربیت کی شمع جلائے رکھنا صحرا میں چراغ جلانے کے مترادف ہے، ہندوستانی ثقافت سے عرب دنیا کو آگاہ رکھنا کتاب و سنت کی زبان کو رواج دینا اور قابل نمونہ بن جانا بڑی بات ہے، اس وقت مختلف موضوعات پر عربی زبان میں ان سے زیادہ کس کی صحافتی تحریر ہوگی کم ازکم ہندوستانی اہل حدیثوں میں وہ سب پر فائق ہیں۔
استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی علمی و ادبی نگارشات مختلف موضوعات پر ہیں لیکن اصلا ان کا رجحان تعلیم اور ادب کی طرف تھا اور ادب و زبان سے ملا جلا کام ترجمے کا ہے، ان کی زیاد تر تحریریں تعلیم و ادب پر ہیں اور ترجمہ ہیں انہوں نے کئی کتابوں کو عربی کا لباس پہنایا ہے اور کئی عربی کتابوں کو اردو کا لباس پہنایا ہے اور فارسی کی ایک کتاب کو عربی کا لباس پہنایا ہے انہیں ترجمہ کرنے میں بڑی مہارت ہوگئی تھی، زندگی بھر کا یہ مشغلہ ان کے لئے بہت دلچسپ مشغلہ تھا، اصحاب بصیرت قلم کاروں اور مصنفوں کی کتابوں کا ترجمہ بسا اوقات تصنیف سے زیادہ کارآمد ہوتا ہے، استاذ محترم نے جن علماء کرام کی کتابوں کا ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کیا ہے وہ اعاظم علماء سلف میں ہیں ان کی فہرست ملاحظہ ہو علامہ ابن تیمیہ، علامہ قاسمی، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور عربی میں جن علماء کی کتابوں کا ترجمہ ہوا وہ ہیں علامہ گجرنوالہ، شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ، قاضی صاحب منصور پوری رحمہم اللہ۔ ادب میں انہوں نے شوقی ضیف کو اپنا رہنما بنایا اور ان کے ادبی افکار و آراء کو اردو قالب میں ڈھالا۔
ان کے سوا کچھ ناقابل ذکر لوگوں کی کتابوں کو عربی یا اردو زبان میں ڈھالا جیسے عبدالحلیم عویس، نثار فاروقی، یٰسین مظہر اور تقی امینی و عباس محمد عقاد، یہ کتابیں جن کا اردو یا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ رعایت و مروت کے تحت ہوگیا ورنہ وہ قابل اعتناء نہ تھیں، انسان کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں اور ایسے لمحات بھی اور ناقابل ذکر اسباب ہوتے ہیں جن کے تحت مرضی کے خلاف بھی انسان کو کام کرنا پڑتا ہے یا انسان کو رہنا پڑتا ہے، ہر انسان کی زندگی کے ساتھ ایسے واقعات جڑے ہوتے ہیں لیکن اس سے انسان کے دیگر کمالات کی نفی نہیں ہوتی ہے۔
بہرحال ازہری رحمہ اللہ کا ترجمہ اردو میں یا عربی میں صاف ستھرا اورواضح ہوتا تھا، ترجمہ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں، لیکن مستند ترجمہ سب کا انہیں ہوتا ہے ، مستند ترجمہ مستند علم والوں کا ہی ہو سکتا ہے اور پھر مزاولت ریاضت اور محنت اسے نکھاردیتی ہے اور یہ سب ترجمہ کے لئے ضروری ہیں اور وہ ان سے بہرہ مند تھے، کتابوں کے سوا انہوں نے بے شمار مضامین کا بھی اردو سے عربی اور عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے، عموماً ان کے ترجموں کو پسند کیا گیا اور انہیں قبولیت کا درجہ بھی ملا اور بہت سی علمی و ثقافتی چیزیں جو اردو میں تھیں ان سے اہل عرب آگاہ ہوئے۔
ترجمہ کے سوا انہوں نے ادب اور تعلیم پر بہت کچھ لکھا، ہندوستانی عصری جامعات کو سیمیناروں کے لئے انہوں نے عربی یا اردو میں ادب پر بہت سے مقالے تیار کئے۔ شعر فہمی کا بھی انہیں ذوق ملا ہوا تھا، انہوں نے کئی شعراء کے مجموعہ کلام پر تبصرہ کیا اور مقدمہ لکھا ہے۔
تعلیم کے مسائل پر ان کی خاص توجہ تھی، تعلیمی کانفرنسوں میں انہوں نے بہت سے مقالے لکھے ہیں اور خود جامعہ سلفیہ کے نصاب تعلیم کی ترتیب، اہل مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ میٹنگیں، جامعہ سلفیہ کے ساتھ الحاق مدارس کا خاکہ اور ان کے لئے تعلیمی رہنمائی کا انہوں نے مسلسل اہتمام کیا، تعلیمی مسائل ان کی ترجیحات میں داخل تھے، ان کے تعلیمی افکار کیا تھے اور موجودہ صورت حال میں وہ کیا چاہتے تھے تفصیلی طور پر کچھ زیادہ کوئی چیز موجود نہیں ہے لیکن یہ چیز نمایاں ہے کہ جماعتی مدارس میں اصلاح نصاب اور ترتیب نصاب کے لئے انہوں نے انتھک محنت کی اور خود بھی اصول فقہ کے لئے ارشاد الفحول کی تلخیص حصول المامول کے نام سے کی اور علوم القرآن پر سیوطی کی مشہور کتاب الاتقان کی ترتیب و تہذیب کی۔ اور بڑی حد تک جامعہ کے اساتذہ کی مشترکہ کوششوں سے جامعہ سلفیہ کا نصاب تیار کیا، اکثر اہل حدیث مدارس میں جامعہ ہی کا نصاب چلتا ہے، اس سے ہمیں بحث نہیں کہ نصاب کیسا ہے؟ اور کس قدر جاندار ہے۔ لیکن بہرحال ان کی محنت شاہکار تھی البتہ جب سے اس نصاب میں دانشوری شروع ہوئی ہے اس کو خچر نصاب تعلیم بنادیا گیا۔ جامعہ فیض عام مؤ کے ایک اجلاس میں ۲۰۰۷ء ؁ میں جو ان کی صدارت میں ہوا تھا میں نے خچر نصاب تعلیم کے نقصانات پر تقریر کی تھی، بڑی خوشی کا اظہار کیا اور شکریہ بھی ادا کیا۔
ملت کے تعلیمی بحران پر وہ بڑی دلسوزی سے غور کرتے تھے اور اس موضوع پر بھی برابر لکھتے رہتے تھے، عربی اردو میں ان کے مقالات کافی لمبے لمبے شائع ہوچکے ہیں مسائل تعلیم پر غور کرنا اور ان پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا ان کا علمی رویہ بن گیا تھا۔
عربی مدارس میں بکثرت تعلیم اور نصاب پر پروگرام ہوئے عموماً ان میں ڈاکٹر صاحب کی شرکت ہوتی تھی اور اپنی تحریروں کے ساتھ ان میں بھرپور حصہ لیتے تھے بلکہ قیادت کرتے تھے، جہل و ابلہی کے ماحول میں لوگ ان کی ذات کو بساغنیمت جانتے تھے اور اپنے تعلیمی مسائل میں اس سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
ادب پر بھی انہوں نے لکھا ہے پانچ جلدوں میں تاریخ ادب عربی پر ان کا کام اس وقت اردو دنیا میں سب سے بڑا کام ہے اور یونیورسٹیوں میں عربی ادب کے طلباء اس پر کافی انحصار کرتے ہیں۔عربی شاعری پر بیٹے کا کام بھی انہیں کا سمجھنا چاہئے، اس طرح اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ان کی تحریر ادب کے موضوع پر ہی ہوگی۔ یعنی کم از کم بیس فیصد ان کی تحریریں ادب کے موضوع پر ہونگی۔
ترجمے کے بعد اردو اور عربی میں ان کی تصنیفات بھی کئی ایک ہیں، ان کا علمی پایہ کیسا ہے اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ان کی ساری تحریروں میں ان کی محنت کا رنگ نمایاں رہتا ہے، ان کی محنت اور جدوجہد کا یہ عالم تھا کہ ہم جب بھی انہیں یاد کرتے ہیں تو ان کی امیج ذہن میں سب سے پہلے بنتی ہے کہ تنہائی میں قلم لئے بیٹھے ہیں، تفکر میں غرق ہیں افکار کو شکار کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جوں ہی افکار پکڑ میں آئے فوراً قلم بند کرلیا۔ ایک اندازے کے مطابق کم و بیش انہوں نے دس ہزار صفحات لکھے ہوں گے۔
کام کی نوعیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے ایک طرح سے منصوبہ بند طریقے سے مستقل نوعیت کا کام کیا ہے۔
(۱) صوت الامۃ کی ادارت: چالیس سالوں تک یہ کام مستقلا انہوں نے کیا۔ چالیس سال کی فائلیں ہی چار سو سے زیادہ شماروں پر مشتمل ہیں کچھ دنوں سہ ماہی کو اگر القط کردیں تو کم از کم ان شماروں کی تعداد ساڑھے چار سو بنے گی، ان کا اداریہ مستقلا انہوں نے ہی لکھا چند سال گیپ ہوا ہوگا جب وہ علی گڑھ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لئے مقیم تھے اس اثناء میں مولانا عبدالحمید رحمانی نے کچھ شماروں کو ترتیب دیا ہے، ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ اداریوں کو ہی اگر شمار کیا جائے تو ادارتی تحریریں دو ہزار صفحات سے کم نہ ہوں گی۔
(۲) ڈاکٹر صاحب ادارۃ البحوث کے نگراں تھے انہوں نے نگرانی میں چار سو سے زیادہ کتابیں چھپوائیں ہیں اور ان کا مقدمہ لکھا ہے کتابوں پر پیش لفظ بھی دو ہزار صفحات سے زیادہ ہوں گے۔
(۳) ادب پر بھی ان کی تحریریں اصل ترجمہ کی صورت میں کم وبیش دو ڈھائی ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں، اگر میں یہ کہوں کہ عربی ادب پر اردو میں ان کی تحریریں ہندوستان میں سب سے زیادہ ہیں تو شاید بات غلط نہ ہوگی۔ شاید یہ امتیاز انہیں حاصل ہے۔ عصری جامعات میں شعبہ عربی سے وابستہ حضرات کے لئے یہ ادبی کار کردگی قابل رشک ہے۔
(۴) مقامی و عالمی سیمیناروں میں ان کی دوامی شرکت صدارت اور مقالہ خوانی میں وہ اپنے سارے ہم عصروں سے آگے تھے، ان پروگراموں میں ان کے افکار و کلمات اور خطبات کا حجم بھی بہت بڑا ہے، ان کو اگر اکٹھا کیا جائے تو یہ بھی ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہوں گے، ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ چند منٹ کے خطاب کے لئے بھی نوٹس تیار کرلیتے تھے۔
(۵) مقالہ نگاری: اردو اور عربی میں ہمیشہ ڈاکٹر صاحب مجلات کے لئے لکھتے رہتے تھے میں نے ۱۹۶۷ء ؁ کے ’’معارف‘‘ کے دو شماروں میں سب سے پہلے ان کاایک مضمون دیکھا پھر مختلف جماعتی اور غیر جماعتی مجلات و جرائد میں ان کے مضامین چھپتے رہے اور جامعہ سلفیہ کے ماہنامہ ترجمان ’’محدث‘‘ کے ہر شمارے میں بالتزام ایک مضمون رہتا تھا۔ یہ سارے مضامین معتدبہ تعداد میں ہیں اور اگر انہیں اکٹھا کیا جائے تو یہ بھی کئی جلدوں میں آئیں گے۔
(۶) ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں اپنے چالیس سالہ دور میں کئی علمی ادبی اور عالمی محفلیں سجائی ہیں، یہ کتنی کامیاب تھیں اس سے قطع نظر ان سے جامعہ میں علمی چہل پہل قائم رہی اور علمی بہاریں آتی رہتی تھیں۔ ان کے سجانے بنانے اور ان کے پیچھے تحریری کاموں کو انجام دینے میں سب سے بڑا ہاتھ ڈاکٹر صاحب ہی کا رہتا تھا۔ اور یہ بھی تو ہے کہ جامعہ کے سارے تصنیفی و تالیفی ترجمے کے پروگرام انہیں کے بنائے ہوئے تو ہیں، کم و کیف سے قطع نظر سارا علمی ڈھانچہ اور اس کا سارا رابا ڈھابا انہیں کا ہوتا تھا۔
(۷) ترجمہ کا کام: ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی پہچان ایک مترجم کی حیثیت سے ہے، ان کے کاموں کا سب سے بڑا حجم ترجمے کا ہے، ابتکار اور تخلیق کے مقابلے میں ترجمہ کا حجم ان کی تحریروں پر حاوی ہے یہ ترجمہ کا کام مقصدیت اور عزائم کے برخلاف نہیں ہے۔ اگر مقصدیت ہے اور انفرادی سماجی عزائم سے ہم آہنگ ہے تو ترجمہ کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے اور اس گلوبل ایج میں ترجمہ کی اہمیت میں بہت کافی اضافہ ہوچکا ہے، بسا اوقات ترجمہ اصل سے زیادہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے اور اسے پذیرائی مل جاتی ہے۔علامہ شکیب ارسلان نے حاضر العالم الاسلامی کو وہ رفعت عطا کی جو اصل کو اس کا عشر عشیر بھی نہ ملا، ابو زہرہ کے سلسلہ اعلام کو علامہ بھیوجیانی نے اردو قالب میں وہ مقام عطا کیا اور اس کی علمی حیثیت ایسی بلند کی جو اصل کو عربی میں میسر نہیں ہے۔اور اردو دانوں کے لئے جس طرح اسے لائق استفادہ بنادیا عربی اصل کی وہ بات نہیں ہے۔
ترجمہ کے سلسلے میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس فن میں امتیاز حاصل تھا اور انہوں نے اس فن کو نکھارا بنایا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ترجمے میں بھاری بھرکم الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو لوگوں کے لئے وہ بڑا جاذب نظر ہوتا ہے اور اس کی رجاحت کو لوگ تسلیم کرنے لگتے ہیں بغیر یہ جانے کہ مؤلف کے مفاہیم کی صحیح ترجمانی ہوئی ہے یا نہیں۔ ترجمہ ایک فن ہے۔ جس کو ادبی و علمی ذوق نہ ملا ہو، قواعد و بلاغت کے اصولوں سے آگاہ نہ ہو،لسانی تعبیرات پر پکڑ نہ ہو، لسانی شعور و ادراک نہ ہو، ڈکشن مضبوط نہ ہو،وہ صحیح ترجمہ نہیں کرسکتا ہے وہ عبارتوں پر اڑ سکتا ہے اور مصنف کی عبارتوں کو ذبح کرسکتا اور اس کے معانی و مفاہیم کو ریت اور مٹی بنا سکتا ہے۔ ترجمہ نام ہے معانی اور مفاہیم کو ایک قالب سے دوسرے قالب میں ڈھالنے کا ایک لباس بدل کر دوسرا لباس پہنانے کا۔ اگر لباس حروف ہیکل معانی پر استوار نہ ہوں اور دیدہ زیب نہ بن سکیں اور ہیکل معانی کو بھی برقرار رکھا نہ جاسکے بلکہ اس کے اندر توڑ پھوڑ مچ جائے تو اسے ترجمہ نہیں تخریب کہیں گے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں حرف و معنی کی تشکیل بڑا لطیف اور لطف اندوز کام ہے اور مشکل بھی، یہ جام و سندان باختن کا کام ہے یہ کام ہر ایک سے نہیں ہو سکتا ۔
اگر ترجموں کے غلطی ہائے مضامین کے عنوان پر کام ہو تو ایک چشم کشا کام ہوگا، عقیدے کی ایک کتاب کا اردو ترجمہ چھپا ہے عربی زبان میں عقیدہ کی تعریف میں ایک عبارت ہے ’’العقیدۃ ہی القضایا۔ المسلمۃ عندالنقل اس کا ترجمہ کیا گیا ہے، عقیدہ ایسے فیصلوں کا نام جسے عقل و نقل کے ذریعہ کیا جاتا ہے‘‘ مترجم بیچارے نے قضایا کو اقضیہ سمجھ لیا ہے اور عقیدہ اس کے نزدیک عقل سے بھی طے ہوتا ہے سب جانتے ہیں عقیدہ توفیقی مسئلہ ہے اس میں عقل کو دخل نہیں نصوص الٰہیہ نبویہ موثقہ محکمہ اس کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ اس کتاب کے ترجمے کی توثیق علماء کبار کی ایک ٹیم نے کی اور ترجمہ چھپ گیا۔ بہت سی ایسی مثالیں اور عجائبات ترجمے کی دنیا میں موجود ہیں ایک تفسیر ’’اردوئے مبین‘‘ میں ہے اور اس کے پڑھنے والے اس کے مصنف کو دنیا کا امام اکبر سمجھتے ہیں کہ اس جیسا باکمال مصنف دنیا میں پیدا نہیں ہوا مگر اس کے ترجمہ قرآن میں ہر سطر میں شاید غلطی مل جائے۔
ترجمہ ایک فن ہے یہ کام سب کے بس کا نہیں ہے۔ فن کا ماہر ہی یہ کام کرسکتا ہے، ڈاکٹر صاحب اس فن کے ماہر تھے اور مزاولت نے ان کے اس فن کو نکھار دیا تھا۔
(۸) تالیف کا کام: ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا اور عربی اردو دونوں زبانوں میں یہ کام کیا اور دونوں زبانوں میں قریبا ڈیڑھ درجن کتابیں ان کی یادگار ہیں، یہ کتابیں قضایا معاصرہ، سماجی اور دینی مسائل پر ہیں اور اپنے موضوع پر معلومات افزا ہیں۔
(۹) مکتوبات: ڈاکٹر صاحب نے اپنی عمر کا بیش بہا حصہ جامعہ سلفیہ میں لگایا اور اس کے پالیسی ساز منتظم کار اور اندرونی و بیرونی دنیا سے تعلق برقرار رکھنے کے لئے وکیل بنے رہے۔
جامعہ کے چالیس سالوں کی دستاویزات (قانونی کے استثناء کے ساتھ) نوشتے، سندات، مکاتبات، مذاکرات، نوٹس، نتبیہات، فرمودات، فرامین سب کچھ وہی تیار کرتے رہے ہیں، جامعہ سلفیہ کی تاریخ میں اور مصادر تاریخ میں یہ سارے نوشتے کئی ہزار صفحوں میں گھیرے ہوئے ہیں، یہ ایک مثالی اور عظیم کارنامہ ہے اسے شاہکار کام سمجھئے، یہ کام جس سلیقے، امانت توجہ اور ذمہ داری سے انجام پایا میری معلومات کی حد تک ہندوستان کے کسی دوسرے ادارے میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ہے، جب وہ باحیات تھے تب اس کام کو ڈھنگ ڈھنگ نام دیا جاتا رہا ہوگا مگر اس اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
انہیں قربانیوں، سلیقہ مندیوں،محنت، انضباط وقت اور انضباط حیات کا نتیجہ تھا کہ ان کے ہم عصروں میں بہت سارے اسپہائے تازی زندگی کی دوڑ میں کئی میدانوں میں ان کے پیچھے رہ گئے اور پوری جماعت میں ان کی حیثیت سب سے نمایاں بن گئی جسے ان کا دشمن بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا۔ انہوں نے اپنے تشخص کو جیسا بھی تھا اور جو بھی تھا بچایا نکھارا اور بے جا امور میں الجھایا نہیں انہوں نے اپنی صلاحیت کا بھرپور طور پر نکھارا بنایا انہوں نے ہر شے میں سلیقہ مندی کو اپنایا لباس نشست وبرخاست، گفتگو، تحریر ، تقریر، گھر ، آفس، روزانہ تصرفات غرضیکہ ہر شے سے سلیقہ مندی ٹپکتی تھی۔
دراصل ان کی علمی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں مصری اساتذہ کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ ان کو جو ماحول اور سرکل ملا وہ علمی تھا، ہندوستان میں ان کو اپنے علمی و طبعی رجحان کے سبب یونیورسٹی طبقہ سے زیادہ قرب حاصل تھا گو یہ حلقہ عیاری جہالت اور سخن سازی میں طاق ہے اس حلقے سے انہیں مادی منفعت جو بھی ملی ہو علمی منفعت کم ہی ملی بلکہ ان کا استحصال ہوا اور ساتھ ہی جامعہ کا بھی۔
ان کی علمی شخصیت کا ثقل جامعہ سلفیہ کے پلڑے میں کتنا پڑا اس بحث میں نہیں پڑتا، اس سلسلے میں میری رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کا ذکر ضروری ہے کہ جامعہ سلفیہ میں جو کچھ علمی چہل پہل تھی انہیں کی ذات سے تھی اس بزم کے دولہا وہی تھے اور جو علمی ساکھ جامعہ کی بنی اس میں ان کا قیادی رول ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے اندر بہت سی چھوت چھات کی بیماریاں لگ گئیں جس کی کسی کے پاس کوئی دوا نہیں ہے یہی بیماریاں کس کے سبب متعدی ہوئیں یہ بھی عالم آشکارا ہیں ان بیماریوں کے سبب جامعہ کی حیثیت مرگئی اور اس کی کارکردگی سرد پڑگئی۔
لوگوں کے عزائم، ارادے، مقاصد، سرگرمیاں اور نیتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ ذہنیت اور رویہ بھی الگ الگ ہوتا ہے اس تفاوت کو مدنظر رکھیں اور دیکھیں تو بھی ڈاکٹر صاحب اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آئیں گے۔ میں نے ہمیشہ ان کی قدر کی ہے اور انہیں دوسروں پر فوقیت دی ہے اور آج بھی دل سے انہیں تسلیم کرتا ہوں۔ میں شاگرد وہ استاذ، میں خورد وہ بزرگ، میں چھوٹا وہ بڑے لیکن ہماری یہ برائی سمجھئے یا خوبی میرا مزاج کسی کی آقائیت تسلیم کرنے کا نہیں ہے میں اپنے بزرگوں کا احترام لازمی سمجھتا ہوں اور ان کے احترام کو اسلامی تہذیب کی بنیاد مانتا ہوں اگر خوردوں اور بزرگوں کے درمیان شفقت و محبت اور احترام کا تعلق برقرار نہ رہے تو پھر سارے علمی دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں، کبر و رعونت کے پھلنے پھولنے کا ماحول بن جاتا ہے، استاذ شاگرد کے تعلق کا تقدس پامال ہوجاتا ہے، میں آج صمیم قلب سے اپنے استاذ اور بزرگ کی قدر کرتا ہوں، مسئلہ یہ ہے جب بزرگوں کی طرف سے بالتواتر بے ضابطگیاں نظر آئیں اور خوردوں کو بلڈوز کیا جانے لگا اور خوردوں کو ہر محفل میں زیر بحث بناکر انہیں ڈسکارڈ کرنے کی غیر شعوری کوشش ہوتو یہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے بیماری کی طرف ایسی حالت میں اشارہ کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن پھر بھی صبر وتحمل کا رویہ ہر حال میں قابل ستائش ہے۔
اور کسی کا اس طرح کا تصرف اس کی حیثیت کو گرا نہیں دیتا ہے نہ اس کے کمالات مجہودات اور امتیازات کو کم کرتا ہے زندگی کے بہت سے رخ ہوتے ہیں جن رخوں کے ہوتے انہیں نظر انداز کرنا پڑتا ہے اس سلبیات اور روگ کے علاج کی بات ہوتو بہت سے باؤلے اسے جامعہ کی حرمت پر دست درازی سمجھتے ہیں، ایس سوچ احمقانہ ہے۔
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ ہمارے استاذ تھے دور طالب علمی میں انہوں نے میرے اوپر بہت شفقت فرمائی ہے بہت کم لوگوں کو ایسی شفقت ملی ہوگی اور یہ اعتراف بجا ہوگا کہ کئی اہم موڑ پر انہوں نے ہمارا ہاتھ تھاماہے۔ میری تعلیمی زندگی میں اس ناحئیے سے وہ ہمارے بڑے محسن ہیں اور جامعہ کے دور تدریس میں ناظم جامعہ مولانا عبدالوحید رحمہ اللہ کے بقول انہوں نے میری نازبرداری کی ہے اور یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ تحریر و نگارش کی دنیا میں انہوں نے میرے اوپر بڑا اعتبار بھی کیا ہے اور ہماری تحریروں اور فکر و خیال کے بڑے قدردان بھی تھے، ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر کبھی عربی و فارسی کی عبارت غیر مفہوم ہوتی تو بلا تکلف تبادلہ خیال کرتے تھے اور جب بھی ملاقات ہوتی تو عموماً بڑی محبت اور توجہ سے باتیں کرتے اور مسلک و جماعت علم وادب سے متعلق گفتگو کرتے اور غور سے سنتے اور علمی و ذاتی امور میں بھی شفقت و محبت سے مشورے دیتے، کم از کم مجھے اپنے بزرگوں میں کسی سے ایسی نصیحت اور شفقت نہیں ملی، ہمارے ان کے درمیان غلط فہمی کے اسباب کئی ایک اکٹھا ہوگئے، جامعہ کا نظام میرے لئے نظام جبر تھا جسے میں کبھی نہ جھیل سکا اس کے ساتھ اور دیگر قباحتیں جڑی تھی جو میرے نزدیک سخت ناپسندیدہ تھیں اور وہ جامعہ کی قوت محرکہ تھے اور قائدانہ رول پلے کرتے تھے، پھر بہت سے مسائل میں نقطہائے نظر میں بڑا بعدبھی تھا اور بات زیادہ یہ کھلتی تھی کہ فاسقوں فاجروں چھوٹے بھیوں اور فسادیوں کو ان کا تقرب حاصل ہوگیا تھا یا ان کی طرف ان کا میلان ہوگیا تھا، جو میرے لئے باعث خلش تھا۔
بہر حال وہ جماعت کے ایک ممتاز عالم تھے اور اپنے ہمعصروں میں بہت سے اعتبار سے فائق، ان کی محنت قابل رشک، ان کی جہود علمیہ فراواں، ان کی شخصیت موثر اور ان کے انداز و اطوار خوشنما، اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ (آمین)
***

No comments:

Post a Comment