تراشے
حضرت مولانا عبدالسلام رحمانی
جامعہ سراج العلوم بونڈیہار
جامعہ سراج العلوم بونڈیہار
حضرت نوح اور کشتئ نوح: پارہ نمبر(۲۰) سورہ عنکبوت آیت نمبر(۱۵) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( وجعلناھا آیۃ للعالمین) اور ہم نے اس کشتی کو دنیا والوں کے لئے ایک نشانی بنا کر رکھ دیا ور سورہ قمر میں فرمایا: اور ہم نے نوح کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی کشتی پر وہ چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اس شخص کے لئے جزاء کے طور پر جس کا انکار کردیا گیا تھا اور ہم نے اسے چھوڑ دیا ایک نشانی بنا کر، پس ہے کوئی سبق لینے والا۔ (آیات:۱۳۔۱۵)
کشتئ نوح صدیوں تک پہاڑ کی چوٹی پر موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین پر کبھی طوفان آیاتھا جس کی بدولت یہ کشتی پہاڑ پر جاٹکی ہے۔
موجودہ زمانے میں بھی کوہستان اراراط پر اس کشتی کا سراغ ملا ہے سورہ ہود آیت نمبر (۴۴) پارہ نمبر(۱۲) میں ہے : (واستوت علی الجودی) کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی، جودی پہاڑ کردستان کے علاقے میں جزیرۂ ابن عمر کے شمال مشرقی جانب واقع ہے، بائبل میں اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ’’ارمینیا‘‘ کی سطح مرتفع سے شروع ہوکر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلہ کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اس زمین میں آباد تھی جس کو ہم آج عراق کے نام سے جانتے ہیں عراق کے شہر موصل (جن کا نام جنگ عراق کے زمانے میں باربار آتا رہا) کے شمال میں جزیرۂ ابن عمر کے آس پاس اور ارمینیاکی سرحد پر کوہ اراراط کے نواح میں نوح علیہ السلام کے مختلف آثار کی نشاندہی اب بھی کی جاتی ہے اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں اب بھی مشہور ہے کہ اس شہر کی بنیاد حضرت نوح علیہ السلام نے ڈالی تھی، حضرت نوح کے زمانے تک پوری انسانی آبادی اس علاقے میں بسی ہوئی تھی پھر بعد میں ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی اور آباد ہوتی چلی گئیں۔
ایک دور وہ بھی تھا: کہ حرمین شریفین میں کوئی ازدحام کی کیفیت نہیں رہتی تھی اور ایک دور یہ ہے کہ سال کے کسی حصہ میں آپ حرمین شریفین میں پہونچئے ازدحام سے بھرا ملتا ہے، حجر اسود کا بوسہ لینا آسان نہیں ہوتا سولہویں صدی کے شیخ قطبی جو کہ مکہ مکرمہ کے ایک مشہور عالم اور عثمانی خلیفہ سلیم اول (المتوفی ۱۵۲۰ء ) کے معاصر تھے بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بچپن میں مطاف کو اکثر خالی پاتا تھا اور تنہا طواف کرتا تھا، بازار مسعیٰ کو بھی چاشت کے وقت تک سنسان دیکھتا تھا اور اکثر یہ دیکھتا تھا کہ غلہ فروشوں کے قافلے آئے ہوئے ہیں مگر خریدنے والے بہت کم ہیں لیکن اب دولت عثمانیہ کے عہد میں لوگوں کی کثرت ہے رزق وسیع ہے خوشحالی اور فارغ البالی ہے۔ (دولت عثمانیہ ۔ مولفہ ڈاکٹر محمد عزیر ، پی ایچ ڈی۔ص:۱۸۰)
***
No comments:
Post a Comment