Tuesday 1 June, 2010

عہد زفاف کی بے اعتدالیاں- Editorial-May,2010

شعور و آگہی : عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری
 
عہد زفاف کی بے اعتدالیاں

یہ ایام معاشرتی تقریبات کے حوالے سے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں، سخت گرمی کے باوجود بعض مصالح کی بنا پر نکاح کی مجلسیں انہی دنوں میں قائم کی جاتی ہیں،خوشی ہوتی ہے کہ ایک شخص کو اللہ نے بیٹے یا بیٹی کے عقد نکاح کی توفیق بخشی اور وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہورہا ہے،ظاہر ہے ہر باپ ہرولی اور سرپرست کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ رشتے اچھے ملیں مگر ’’اچھے پن‘‘کا معیار کیا ہو، یہیں ایک مسلمان بے اعتدالی کا شکار ہوکر اسلام کے مطلوب معیار سے اپنے آپ کو دور کرلیتا ہے، پھر الجھنیں پیداہوتی ہیں اور بسا اوقات رشتوں میں کڑواہٹ کے ساتھ دو گھرانے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتے ہیں۔
ہمارے مذہب نے رشتوں کے معیار کی وضاحت کردی ہے، جسے پیش نظر رکھ کر ہمارا معاشرہ ظفر مندی سے ہم کنار ہوتا اورہم ہر فتنہ و فساد سے محفوظ رہتے۔
کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ ہر نوجوان کسی چاند کے ٹکڑے کا خواب دیکھتا ہے، ماں باپ ایسی بہو کی تلاش میں شب وروز ایک کئے ہوتے ہیں کہ جو جمال و بے مثال ہو اور فیملی ریچ ہوتاکہ دوسروں کے مقابلے میں سربلند رہیں اور گھر کی خالی جگہ فرمائش کے مطابق نفیس اشیاء سے پرہوسکے۔مادہ پرستی کے اس دور میں دینداری کا معیارنظر انداز کرنے پر کوئی تلا ہوا ہے۔
بھک منگائی کی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں، جہیز کے مطالبات میں اضافہ مختلف انداز میں ہورہا ہے، نام اور تاریخ دیکھنے کے بعد پھینک دیا جانے والاقیمتی کارڈ بڑکپن کی نمائش کا حصہ بنتا جارہا ہے، بڑے لوگ دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے اس فضول خرچی کو روا سمجھ بیٹھے ہیں، براتیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، گاڑیاں سو کی حد پار کررہی ہیں، ان ڈرائیورس پر ایک براتی سے زیادہ صرفہ ہوتا ہے، وہ کھانا بھی کھاتے ہیں، لڑکی والوں کو انہیں ’’وداعی‘‘ دینے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے، تماشا یہ کہ ان کا شمار براتیوں میں نہیں ہوتا، بالعموم لوگ طے شدہ تعداد سے زیادہ بلکہ بعض مقامات پر دوگنا براتی لے جاتے ہیں۔ تہذیب جدید کی یہ وبا بھی ہم پر اپنا سایہ ڈال چکی ہے کہ خواتین بے حجابی کی تمام تر بلاؤں کے ساتھ براتوں میں شریک ہورہی ہیں، خواہ میزبان کے گھر میں ان کے مناسب قیام کا نظم ہو یا نہ ہو۔
ان ساری بے اعتدالیوں میں اہل دولت و ثروت کے شانہ بشانہ مقتدر رہنمایان ملت اورنامی گرامی علماء و دعاۃ فخر کے ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔إلا ماشاء اللہ۔
کاش کوئی بڑا بزنس مین، کوئی ریچ فیملی کوئی دولت مند نامور عالم دین آگے آئے اور اپنے گھر میں ہونے والی ایسی کسی تقریب کو کم خرچ اور پوری سادگی کے ساتھ انجام دے کر ملت کے لئے نمونہ بن سکے۔ یہ سماجی خرابیوں کے خلاف جہاد ہوگا۔ اس وقت ایسے ہی جہاد کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment