Tuesday 1 June, 2010

قوت ارادی کا فقدان May, 2010

مولانا محمد مظہر الاعظمی
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ ،مؤ
قوت ارادی کا فقدان
صحت و تندرستی کی اہمیت زمانہ قدیم سے مسلم ہے اور اس روئے زمین پر جب تک ابن آدم کا وجود رہے گا اس کی اہمیت کو گہن لگنے والا نہیں کیونکہ انسانی معاشرے کے ہر زاویہ و پہلو کی ترقی اسی میں مضمر ہے جس کا تجربہ ہم سب کو ہے جب کوئی بھی فرد بشر صحت مند رہتا ہے تو ہر کام بروقت اور بہتر سے بہتر انجام دے لیتا ہے اس کی سوچ میں بھی بڑی قوت و توانائی ہوتی ہے مستقبل کے لئے عمدہ سے عمدہ پروگرام بناتا ہے اور اسے اپنے عزم و حوصلہ سے انجام تک پہونچالیتا ہے، برخلاف اس کے اگر صحت خراب ہوجاتی ہے تو پھر وہ تمام خواب جو شرمندہ تعبیر ہونے والے تھے تاش کے پتوں کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے بکھرتے ہوئے دکھلائی دیتے ہیں، اسی لئے صحت کو مال و دولت پر بھی فوقیت دی گئی ہے کیوں کہ اگر صحت ہے تو سیم وزر کا حصول بہت ممکن ہے مگر دولت سے علاج تو کیا جاسکتا ہے مگر صحت نہیں خریدی جاسکتی ، اسی پس منظر میں غالب نے کہا تھا ؂
تنگ دستی اگرچہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
صحت کے تحفظ کے لئے زمانہ قدیم سے مختلف قسم کے کھیل کود، ورزش وغیرہ کو کافی اہمیت دی گئی، صبح کی تفریح اور چہل قدمی وغیرہ بھی اسی کا حصہ ہے، روزانہ غسل کا التزام اور نظافت کا اہتمام بھی اسی مقصد کے تحت ہوتا ہے، مختلف ممالک کا اپنے ملک میں باشندوں کے لئے مرکز صحت کا قائم کرنا اور صحت سے متعلق سہولیات کا مہیا کرنا بھی اسی غرض کے لئے ہے۔
عالمی تنظیم برائے صحت (W.H.O.)جسے دنیا کے مختلف ملکوں کے تعاون سے عام لوگوں کی صحت کے لئے قائم کیا گیا ہے اس کے پیچھے بھی حصول صحت کا مقصد ہی کارفرما ہے، جو تنظیم دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنا کام اپنے انداز میں کررہی ہے، ہندوستان میں پلس پولیو کی تحریک اسی تنظیم کے تحت چل رہی ہے۔
جب صحت و تندرستی کی بات ہوتی ہے تو اچھی غذا اور اچھی خوراک کا ذکر چھیڑنا یقینی ہے کیونکہ اس کے بغیر اچھی صحت کی توقع عبث اور بیکار ہے، اچھی غذا سے مراد ایک تو ایسی غذا ہے جو صحت کے لئے مضر اور نقصان دہ نہ ہو اور دوسرے وہ غذا جس میں طاقت و قوت زیادہ ہو، ظاہر ہے ایسی غذا تو ہر شخص اپنی وسعت اور آمدنی کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے، جس کو اللہ نے نوازا ہے اور وہ اچھی خوراک کا شوقین ہے اور تو اور مرغ اور مچھلی کے ساتھ عمدہ قسم کے خشک اور تر میوے بھی استعمال کرتا ہے، ایسے لوگ چند فیصد ہوتے ہیں، مگر ایسی غذا جو صحت کے لئے مضر اور نقصان دہ نہ ہو یہ تو ہر شخص کی فطری ضرورت ہے جسے پوری کرنا ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ہر شخص کو اچھی غذا اور اچھی خوراک سے پہلے اچھی ہوا اور اچھا پانی بھی چاہئے مگر افسوس کہ چاند اور مریخ پر کمندیں ڈالنے والوں نے اتنی ترقی کی کہ ان کی فیکٹریوں سے نکلنے والے دھووں نے نہ ہوا کو محفوظ رکھا اور نہ ہی پانی کو کیونکہ فیکٹریوں کے دہانوں سے نکلنے والے غلیظ و کثیف اجزاء نے زیر زمین تک پہونچ کر پانی کو زہر آلود کردیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ پانی پٹرول سے گراں اور مہنگا فروخت ہورہا ہے، افسوس اس ترقی معکوس پر کہ انسانی صحت و زندگی کے لئے سب سے ضروری جز پانی اور ہوا کو گندا کرکے مگن ہے اور اسی کو اپنی عظیم کامیابی سمجھ کر فخر کررہا ہے۔
ہوا اور پانی کے بعد غذائی اجناس میں ملاوٹ کی جو صورت حال ہے وہ بھی کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں بلکہ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں جس کی وجہ سے صحت و زندگی کا مسئلہ روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے جس پر مختلف حساس حلقوں کی طرف سے اور خود حکومت کی طرف سے باربار تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس قدر اظہار تشویش کے باوجود اسے روکنے کے لئے سخت اقدامات نہیں کئے گئے۔
ہندوستان مختلف قسم کے خطرناک مسائل سے دوچار ہے جس میں اشیاء خوردنی کا مسئلہ بہت اہم ہے کیونکہ بیشتر لوگ جو خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ بڑی مشکل سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ اس میں اس قدر ملاوٹ ہے کہ پیٹ کی آگ تو بجھ جائے گی مگر اس میں ملا ہوا زہر زندگی کے خاتمہ کا سبب بن سکتا ہے اور اگر انہیں معلوم بھی ہوجائے کہ اس میں ملاوٹ ہے تو وہ کہاں سے ملاوٹ سے محفوظ اشیاء خرید لے آئیں، ملاوٹ کی حد تو یہاں تک پہونچی ہے کہ:اب اس دیش میں زہر بھی خالص نہیں ملتا ؂
ساغر ساغر زہر بھرا ہے قطرہ قطرہ مہلک ہے
یہ سب کچھ معلوم ہے لیکن پیاس لگی ہے پیتے ہیں
چند سال پہلے اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طالب علم نے امتحان دیا، رزلٹ آیا تو فیل، اس نے سوچا والد صاحب کو معلوم ہوگا تو خیریت نہیں ہے، اس لئے اس نے زہر خریدا اور کھا کر سوگیا، صبح کو سوکر اٹھا تو اس کی ملاقات والد صاحب سے ہوئی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے اور ایک ہی سانس میں ڈھیر ساری صلوات سناتے ہوئے کہا کہ کمبخت تم کو زہر کھاکر مرجانا چاہئے تھا تاکہ میں تمہاری شکل نہ دیکھتا، یہ سننا تھا کہ طالب علم نے سرجھکا کر بڑی معصومیت سے کہا کہ والد محترم میں نے رات میں زہر کھایا تھا مگر جعلی نکلا تو میں کیا کروں ورنہ آپ کے سامنے میں نہیں میری لاش ہوتی۔
جس ملک کی صورت حال یہ ہوکہ زہر بھی اصلی نہ ملے کیا وہاں غذائی اجناس کے اصلی ملنے کی امید لگانا اور توقع رکھنا حماقت کے مترادف نہیں ہے، مگر افسوس کہ اس سنگین مسئلہ پر حکومت صرف تشویش کا اظہار کرتی ہے، مگر اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اظہار افسوس کرنے والے نہیں سمجھتے کہ اس کی زد میں بذات خود بھی ہیں انہیں کیا معلوم کونسی چیز اصلی مل رہی ہے اور کونسی نقلی اور جعلی، اس کے باوجود کوئی ایسا قدم اور کاروائی نہیں ہورہی ہے جس سے اس مہلک مرض پر فوراً کنٹرول کیا جاسکے۔
اظہار افسوس اور اظہار تشویش اگر مسئلہ کا حل رہا ہوتا تو اب تک یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا اور ملاوٹ سے نجات مل چکی ہوتی مگر یہ مسئلہ کا حل نہیں پہلے کبھی تھا اور نہ ہی مستقبل میں ہو سکتا ہے، اس حقیقت کو جاننے کے باوجود مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبود غلام نبی آزاد نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں غذائی اجناس میں ملاوٹ کا مسئلہ کینسر کی طرح پھیل رہا ہے، وزیر موصوف نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جب تک ہماری خوراک خالص نہیں ہوگی تب تک ساری چیزیں بے معنی ہیں۔
وزیر موصوف نے تسلیم کیا کہ ملاوٹ کا مرض کینسر کی طرح پھیل رہا ہے جس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ معاملہ نہایت سنگین اور خطرناک ہے اور دوسرے یہ کہ معاملہ ہمارے قابو سے باہر ہے جس طرح کینسر، قابو سے باہر ہونے کی دو وجہ ہوسکتی ہے ایک تو یہ کہ حکومت قابو میں کرنا نہیں چاہتی جس کی وجہ سے قابو سے باہر ہے اور دوسرے یہ کہ قابو میں کرنا تو چاہتی ہے مگر کر نہیں پاتی۔
اگر حکومت قابو میں کرنا اور کنٹرول کرنا نہیں چاہتی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟، کیا ملاوٹ کرنے والوں سے اس کا کوئی سودا ہے کہ آپ آنکھ بند کرکے اور کان میں ڈاٹ ڈال کر بیٹھئے ہم کو نفع حاصل کرنے دیجئے اگر صورت خراب ہو اور بات ایوان تک آئے تو اظہار افسوس سے کام چلا لیجئے اور بس اور اگر حکومت کنٹرول کرنا چاہتی ہے مگر نہیں کر پاتی تو پھر یہ صورت حال سب سے زیادہ سنگین ہے کہ حکومت ملاوٹ کرنے والوں پر شکنجہ کسنے میں ناکام کیوں ہے؟ افراد کی قلت یا قوت ارادی کا فقدان؟۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملہ میں اگر حکومت ناکام ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قوت ارادی کا فقدان ہے اور قوت ارادی کے فقدان کی وجہ وہ بڑی بڑی رشوت کی رقم ہے جو کمپنیاں حکومت کے افسران یا پارٹیوں کو دیتی ہیں، جس کے بعد ان کے اعضاء و جوارح شل ہوکر رہ جاتے ہیں۔
نفع خوری اور رشوت خوری کے اس شوق نے انسانیت کی تمام حدوں کو پار کر دیا ہے اور اب اشیاء خوردنی کی طرح دوائیں بھی جعلی بکتی ہیں، موت کے ان سوداگروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ہم انسان اور انسانیت کے ساتھ کون سا کھیل کھیل رہے ہیں، ایک غریب اپنی قیمتی اشیاء بیچ کر والدین کے لئے دوا خریدتا ہے مگر اسے نہیں معلوم کے یہ دوا کے نام پر زہر ہے اس سے مریض صحت سے قریب نہیں بلکہ موت سے قریب ہورہا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علاج کے لئے گھر اثاثے بھی بک جاتے ہیں اور مریض بھی کراہتے ہوئے لقمہ اجل بن جاتا اور داغ مفارقت دے جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment