جسٹس سپریم کورٹ عالی جناب طاہر علی انصاری سے ایک ملاقات
انٹرویو: عبد ا لصبور ندوی جھنڈانگری
عزت مآب جناب طاہر علی انصاری (جسٹس سپریم کورٹ، نیپال) ملک کی ایک معروف شخصیت، شہرت اور ترقیوں کی اوج پر ایک فاضل اسم گرامی ہے۔ پہلے مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہے جنہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا، ایک فائق و باصلاحیت، محترم ہستی جس نے آئین وعدالت کی خدمت کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت کا کوئی موقع نہیں گنوایا، قرآن کریم کا جب نیپالی میں ترجمہ موجود نہیں تھا آپ نے ترجمہ و تحقیق میں بھر پور حصہ لیا اوراہل نیپال کو ایک نایاب تحفہ دیا، متعدد دینی کتب کا نیپالی ترجمہ زیر طبع ہے، بے شمار خصوصیات کے حامل اس فاضل جج سے گذشتہ سال کاٹھمانڈو میں ان کے دولت کدے پر ملاقات و زیارت کی سعادت میسر ہوئی، پیش ہے اس موقع پرکی گئی گفتگو کے اہم اجزاء۔ (ع.ص.ن)
س: مختصر تعارف۔۔۔؟
ج: میرا نام طاہر علی انصاری ہے، بھجاوا، نول پراسی میں ۱۵؍اگست ۱۹۴۹ء کو پیدائش ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں ہوئی، ٹھوٹھی باری سے ہائی اسکول پھر سسوا بازار سے انٹر میڈیٹ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد گورکھپور یونیورسٹی سے بی،اے کیا۔ کاٹھمانڈو یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیاا ور پھر پولیٹکل سائنس سے ایم، اے۔
س: محکمۂ عدالت و انصاف میں آپ نے کب سے کام شروع کیا؟
ج: ۱۹۷۱ء سے میں سرکاری ملازمت سے جڑا اور سب سے پہلے جوڈیشیل ڈپارٹمنٹ میں سیکشن آفیسر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
س: یعنی 38؍برس ہوئے، اتنا طویل عرصہ آپ نے سرکاری محکموں میں گذارا، جج کی کرسی پر آپ کب فائز ہوئے؟
ج: جج بننے سے قبل پبلک پرازکیوٹر، گورنمنٹ پلیڈر، وزارت قانون میں انڈر سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد مجھے ضلع ’’رُکُمْ‘‘ میں ضلعی عدالت کا جج بنایا گیا اور وہیں سے فیصلوں کی شروعات ہوئی۔
س: الحمدللہ آپ اب سپریم کورٹ کے جج ہیں، آپ نے ایک تاریخ رقم کی ہے، اس سے پہلے کن شہروں میں آپ نے عدالتی خدمات انجام دیں؟
ج: رکم، پالپا اور کنچن پور میں ضلع جج کے طور پر کام کیا، کاٹھمانڈو، براٹ نگر اور راج براج میں زونل جج کی حیثیت سے کام کیا، باگلنگ، پوکھرا، ہتھوڑا اور بٹول میں اپیلیٹ کورٹ کا جج رہ چکا ہوں۔ ۲۰۰۵ء میں مجھے میرے کاموں کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا، یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
س: آپ نیپال میں لمبے عرصہ سے عدالتی خدمات انجام دے رہے ہیں، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کبھی بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: میں نے محنت کرنا سیکھا ہے اور اسی کی عادت پڑگئی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہاں مذہبی اعتبار سے کوئی بھید بھاؤہے۔
س: ملک اب سیکولر و جمہوری سسٹم میں تبدیل ہوچکا ہے، کیا اب بھی تبدیلئ مذہب کی آزادی کا قانون نہیں بنا؟
ج: لوگ اپنی خواہش کے مالک ہیں، جو دھرم چاہیں اپنائیں، چونکہ دستورسازی کا کام چل رہا ہے، جب تک پورا نہیں ہوجاتا، پرانا آئین چلتا رہے گا، ویسے بھی اس قسم کے معاملات عدالت میں اب تک نہیں پہونچے ہیں۔
س: ملک میں کل کتنے اور کون کون مسلمان جج ہیں؟
ج: عدالتی میدان میں پہلے میں تن تنہا مسلمان تھا، اب الحمدللہ مجھ کو لے کر چار مسلم جج ہیں، کاٹھمانڈو اپیلیٹ کورٹ کے جج علی اکبر مکرانی، سلِّیان کے ضلع جج جنید آزاد اور نیپال گنج کے اپیلیٹ کورٹ کے جج صلاح الدین اختر صدیقی۔
س: عدالتی محکموں میں ججوں کا انتخاب کون کرتا ہے؟
ج: لوک سیوا آیوگ (پبلک سروس کمیشن) کے لوگ امتحانات و انٹرویو لینے کے بعد عہدے متعین کرتے ہیں کہ کون کس عہدے کے قابل ہے۔
س: ما شاء اللہ آپ نے تحریر و تالیف کا کام خوب کیا ہے، اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
ج: قانون اور آئین سے متعلق سیکڑوں مضامین نیپالی اور انگریزی زبان میں (درجنوں رسائل و اخبارات) چھپ چکے ہیں، نیپالی میں ایک کتاب لکھی تھی جس کی خوب پذیرائی ہوئی تھی، اس کا نام (فیصلہ لیکھن ودھی) ’’فیصلہ لکھنے کا طریقہ‘‘ ہے جسے پیروی پرکاشن کاٹھمانڈو نے شائع کیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق انگریزی میں ایک کتاب (Islam in Nepal and Bhutan)(نیپال اور بھوٹان میں اسلام) یہ کتاب پیرس سے فرنچ زبان میں چھپ چکی ہے، قرآن کریم کے نیپالی ترجمے میں مشارکت ، جوزیر طبع ہے۔ (اب چھپ چکا ہے)
س: نیپالی مسلمانوں کو پچھڑے پن سے نکلنے اور اونچے مناصب تک پہونچنے کے لئے کوئی نصیحت، پیغام دینا چاہیں گے؟
ج:ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم سسٹم کے تحت تعلیم حاصل نہیں کرتے، کوئی توازن قائم نہیں رکھ پاتے ، جیسا دوسرے لوگ کرتے ہیں، آپ کو اگر سرکاری محکموں میں خدمت کا جذبہ ہے تو ایک سسٹم کے تحت سرکاری نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کریں اور خوب حاصل کریں، پھر سرکاری امتحانات میں حصہ لیں، اگر آپ نے محنت کی ہوگی اور ارادے مضبوط ہونگے تو پھر ان شاء اللہ کوئی بھی آپ کو اعلیٰ مناصب تک پہونچنے سے نہیں روک سکے گا۔
No comments:
Post a Comment