Monday 1 February, 2010

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ۔ اعمال و خدمات۔۔ مطیع اللہ حقیق اللہ المدنی

اہل علم کا مقام کئی حیثیت سے بلندہے، علم دین کے حاملین اشخاص وارثین انبیاء کا بلند رتبہ اور اہم شرف اپنے دامن میں رکھتے ہیں ایسے ہی علماء حق ہی اللہ تعالیٰ کی سچی خشیت اپنے دل میں رکھتے ہیں۔
ان اہل علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی موت سے علم بھی اٹھتا جاتا ہے، بلکہ دینی علوم کا خاتمہ ایسے ہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھالے گا۔ ’’إن اللہ لایقبض العلم انتزاعا، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء‘‘(الحدیث)
۲۹۔۳۰؍اکتوبر کی درمیانی شب بروز جمعہ بوقت پانچ بجے کانپور میں عظیم الشان،جلیل القدر عالم دین ڈاکٹر حافظ مقتدیٰ حسن ازہریؔ صدر جامعہ سلفیہ بنارس انتقال فرماگئے۔
یہ فون،موبائل،انٹرنیٹ کا ترقی یافتہ دور ہے چند لمحوں میں یہ خبر پورے ہندوستان نیز بیرونی دنیا میں جملہ سلفی احباب کو موصول ہوئی اور حلقہ علم وادب میں غم واندوہ کی کیفیت طاری ہوگئی۔
مشرقی یوپی کا صنعتی شہر مؤ ناتھ بھنجن ایک زبردست مردم خیز شہر ہے جہاں کے فحول علماء دین کا ایک زریں سلسلہ رہا ہے۔ مولانا ملا حسام الدین ،مولانا فیض اللہ مؤی، مولانا ابوالمکارم محمد علی مؤی، مولانا ابوالمعالی مؤی،مولانا محمد احمد (بڑے مولانا) مولانا محمد احمد ناظم، مولانا عبداللہ شائق، مولانا مفتی عبدالعزیز اعظمی عمری،مولانا مفتی حبیب الرحمن فیضی، اور مولانا مفتی فیض الرحمن فیض وغیرہم رحمہم اللہ تعالیٰ۔ اپنے دور کے عظیم الشان اور جلیل القدر علماء اعلام گذرے ہیں۔ ان سب کا تعلق اسی شہر علم وادب مؤناتھ بھنجن سے تھا ،یہی مولانا مختار احمد صاحب ندوی رحمہ اللہ کا وطن مألوف تھا۔
اسی شہر کی خاک سے ایک مشہور و معروف علمی خانوادے میں حافظ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ۱۹۳۹ء ؁ میں پیدا ہوئے اور یہیں نشونما پائی، اپنے محلہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
مدرسہ دارالعلوم کی شاخ مرزا ہادی پورہ میں آپ نے قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا اور شہر کے مختلف مدارس میں عربی علوم وفنون کی تحصیل کی اور اپنے عصر کے ممتاز و باکمال مدرسین سے معقولات و منقولات کا درس لیا اور بقدر استعداد ان سے کسب فیض کیا۔
بالآخر جامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ سے سند فراغت حاصل کی۔آپ ایک محنتی اور ذہین وفطین طالب علم تھے اور طلب علم کی تشنگی بجھانے، علوم ادب میں کمال حاصل کرنے کی غرض سے آپ نے مصر کی مشہور یونیورسٹی ’’جامع ازہر‘‘ کا قصد فرمایا اور وہاں پر آپ نے لیسانس اور ماجستیر (ایم اے) کی ڈگری حاصل کی۔عربی زبان وادب کامطالعہ کیا اور اس میں کمال پیداکیا۔
عربی ادب میں تبحرو کمال حاصل کرنے کے بعد آپ نے وطن کی طرف مراجعت کی اور ۱۹۶۸ء ؁میں اپنا فیض عام کرنے کے لئے جماعت کی معروف نوخیز وقیع درسگاہ جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس میں تدریسی خدمات کی انجام دہی پر مامور ہوئے۔یہ مولانا عبدالوحید عبدالحق رحمہ اللہ سلفی ناظم جامعہ سلفیہ بنارس کی نگہ انتخاب تھی کہ آپ کوعربی زبان وادب کے استاذ کی حیثیت سے جامعہ کی خدمت کا موقع ملا۔اوروہیں سے آپ کی علمی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور پوری زندگی آپ نے جامعہ سلفیہ میں گذاردی اور مسلسل چالیس برس تک تدریسی ،دعوتی،تصنیفی، تالیفی،ادبی، تحقیقاتی اور تنظیمی خدمات میں مصروف کار رہے۔
آپ نے اپنے پیچھے جو علمی میراث چھوڑا ہے جس انداز کی ادبی و تحقیقی کتابیں تصنیف فرمائیں، تالیف وترجمہ کا جو وقیع کام کرگئے ہیں،دعوتی و تبلیغی خدمات کا شاندار ریکارڈ قائم کر چکے ہیں نیز عظیم الشان کثیر التعداد لائق فائق تلامذہ کی ایک ٹیم تیار کر گئے ہیں۔ ساتھ ہی متعدد باوقار مناصب اور جلیل القدر عہدے پر مامور رہ چکے ہیں۔ متعدد عظیم الشان کانفرنسوں کی صدارت فرماچکے ہیں۔جامعہ سلفیہ میں اپنے رفقاء کار کے ساتھ متعدد سمینار و کانفرنس اور علمی پروگرام کا انعقاد کرنے میں آپ کا قائدانہ رول رہا ہے۔ ان سب کی روشنی میں بجا طور پر وہ کہہ سکتے ہیں:
ع شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات کا مختصر تذکرہ ہی اس تحریر کا اصل مقصود ہے۔
تدریسی خدمات: ۱۹۶۸ء ؁ سے لے کر ۲۰۰۶ء ؁ تک مسلسل آپ نے جامعہ سلفیہ میں درجات عالیہ کی اہم ترین کتابوں کا درس دیا جن میں ’’تاریخ الادب العربی ‘‘اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شاہکار تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ اور علامہ ابن رشد کی ’’بدایۃ المجتہد‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
تقریباً چالیس سالہ زمانہ تدریس میں آپ کے سامنے ہزاروں طلبہ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ہر ایک نے بقدر ظرف اور حسب صلاحیت اکتساب فیض کیا۔
آپ کے ان تلامذہ میں سے بعض نے آپ سے درسیات کے علاوہ ترجمہ وتالیف اور عربی صحافت اور مضمون نگاری میں تربیت حاصل کی اور انہوں نے اپنی مستقبل کی زندگی میں ایک کامیاب مترجم باکمال مضمون نگار اور بہترین انشاء پرداز کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل کیا۔
آپ کے انہیں تلامذہ میں سیکڑوں عرب وعجم میں انتہائی شہرت کے حامل ہیں جن پر جامعہ سلفیہ اور وہاں کے ذمہ داروں اور اساتذہ کو بجا طور پر ناز ہے۔
آپ کے چند مشہور تلامذہ کے اسماء بطور نمونہ درج ذیل ہیں:
مولانا عبدالمتین سلفی، مولانا عبداللہ سعود سلفی، مولانا اصغر علی امام مہدی۔ ڈاکٹراقبال احمد بسکوہری، مولانا عبدالمعید المدنی۔ ڈاکٹر عزیر شمس۔ ڈاکٹرعبدالقیوم البستوی۔ مولانا رفیع احمد سلفی، مولانا صلاح الدین مقبول۔ مولانا عبداللہ عبدالتواب المدنیؔ ۔ مولاناعبدالواحدمدنی۔ مولانا ارشد فہیم الدین ۔ وغیرہم
تصنیفی خدمات: ڈاکٹر ازہری صاحب علیہ الرحمہ جماعت کے ان چند نامور علماء میں سے ایک ہیں جنہوں نے بیش قیمت علمی کتابیں تصنیف کی ہیں۔اور قیمتی علمی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔جس سے اہل علم نے خوب استفادہ کیا۔ ساتھ ہی آپ نے انتہائی اہم ترین اردو کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔
آپ کی مشہور تالیفات وتراجم یہ ہیں:
*راہ حق کے تقاضے*خاتون اسلام *قرۃ العین فی تفضیل الشیخین ابی بکر وعمر*مسالۃ حیاۃ النبیﷺ ضوء الدولۃ الشرعیۃ۔ الشیخ محمد اسماعیل السلفی گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*نظرۃ الی موقف المسلمین من أحداث الخلیج۔ *حرکۃ الانطلاق الفکری و جہود الشاہ ولی اللہ فی التجدید ۔مولانا محمد اسماعیل گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*تاریخ ادب عربی ۔ أحمد حسن زیات (اردو ترجمہ) پانچ جلدیں۔
صحافتی خدمات: ڈاکٹر ازہری کو انشاء وصحافت بالخصوص عربی صحافت سے بڑا لگاؤ تھا، جامع ازہر میں حصول تعلیم اور وہاں کی علمی و ادبی فضا کا اثر آپ پر پڑنا طبعی تھا۔قیام مصر کے زمانہ میں آپ نے ریڈیو قاہرہ کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوکردو سال تک مترجم اور اناؤنسر کی خدمات انجام دیں۔
جامعہ سلفیہ میں تدریس کے زمانہ میں آپ نے مزید علمی ڈگریاں حاصل کرنے اور اپنے علوم ومعارف میں مزید اضافہ کی خاطر ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ علی گڑھ سے (ایم فل) کیا۔ بالآخر۱۹۷۵ء ؁ میں آپ نے اسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اپنے (پی ایچ ڈی)کے مقالہ کی تیاری کے دوران قیام علی گڑھ کے زمانہ میں اس یونیورسٹی کے شعبہ ادب میں سال بھر پڑھاتے بھی رہے ۔اس ماحول کا بھی آپ کے صحافتی ذوق پر اچھا اثر مرتب ہوا۔
عربی زبان وادب میںآپ نے تبحروکمال حاصل کیا۔ عربی زبان میں مضمون نگاری میں مہارت حاصل کی۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے اولوالعزم ذمہ داروں نے وہاں پر طلبہ کی تعلیم وتربیت اور جملہ وسائل دعوت وارشاد کے نظم ونسق میں انتہائی دیدہ وری کا ثبوت دیا۔ایک طرف باکمال مدرسین کی مخلص و مستعدٹیم تدریسی خدمات کی انجام دہی میں مصروف کار تھی اور باکمال ہستیوں کو برائے تدریس جمع کرلیا گیا تھا تو وہیں پر صوت الجامعہ نامی ماہنامہ کا اجراء عمل میں آیاتھا جسمیں جامعہ سلفیہ کے مدرسین اور جماعت کے دیگر اہل قلم کے علمی مقالات و تحقیقات شائع ہوتے تھے۔ دوسری طرف وہاں پر شعبہ تالیف وترجمہ کا وجود عمل میں آیا جو ’’ادارۃ البحوث الاسلامیۃوالدعوۃ والارشاد‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، جس کے تحت اہم علمی ، دینی کتابوں کی طباعت واشاعت کا ایک جامع پروگرام تھا۔ اسی ادارۃ البحوث کی جانب سے ایک عربی مجلہ ’’مجلۃالجامعۃ السلفیۃ‘‘ کی اشاعت ۱۹۶۹ء ؁ میں عمل میں آئی۔ جو بعد میں ’’صوت الأمۃ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اور تاایں دم پابندی سے شائع ہورہا ہے۔
شروع سے اپنی حیات کی آخری سانسوں تک آپ اس مؤقر مجلہ کے نگراں اور مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ مجلہ اہل حدیث درسگاہ سے شائع ہونے والا پہلا وقیع مجلہ تھا جو اپنی قیمتی سلفی نگارشات کی وجہ سے ہندوستان اور بیرون ملک بھی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
اس چالیس سالہ عہد ادارت میں آپ نے سیکڑوں قیمتی مقالات و اداریہ جات قلمبند فرمائے جو اس مؤقر مجلہ کی زینت بنتے رہے ۔ اگر اداریوں کو اکٹھا کرکے شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے تو وہ اہل علم کے لئے خاصے کی چیز ہوگی۔
عربی صحافت میںآپ کا بھرپور حصہ تھا ہی ساتھ ہی آپ اردو صحافت میں بھی اپنی قلمی جولانیوں کے جوہر دکھاتے رہے اور اپنی گرانقدر نگارشات سے قارئین کو مستفید فرماتے رہے۔
ازہری صاحب کا حلقہ تعارف کافی وسیع تھا۔ اہل علم سے گہرے روابط تھے، خود ان کے تلامذہ کی لائق و فائق ایک بہت بڑی ٹیم علمی میدان میں مصروف عمل تھی۔ ان میں سے کئی ایک کو ڈاکٹر صاحب سے خاصہ قرب حاصل تھا۔ان سبھی کو تصنیف وتالیف سے رغبت اور شدید دلچسپی رہی ہے۔
اسی بنا پر آپ نے ان اہل علم ، صاحبان قلم مؤلفین ومترجمین اور باحثین و محققین کی کتابوں کے مقدمات تحریر فرمائے۔ جو اپنی جگہ بذات خودحددرجہ بیش قیمت معلومات پر مبنی ہواکرتے تھے۔
مؤلفین و مترجمین کی کتابوں پر تحریر کردہ مقدمات کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ اس سے حجم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اگر ان تمام مقدمات و تقریظات کو یکجا کتابی شکل میں شائع کردیا جائے تو بہت نادر قیمتی علمی اور تحقیقی تحفہ ہوگا۔ جس سے طلبہ وعلماء یکساں طور پر مستفیض ہوسکتے ہیں۔
صوت الأمۃ کی ادارت اور دیگر علمی و تحقیقی کاموں کے ساتھ آپ اردو زبان میں قیمتی مضامین قلمبند فرماتے اور بیش قیمت عربی مقالات کا ترجمہ کرتے اور دیگر موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے جو جامعہ سلفیہ بنارس ، جریدہ ترجمان اور دیگر مجلات و جرائد کی زینت بنتے اور اس میں ہمیشہ تسلسل پایا جاتا رہا۔
دعوتی و ملی خدمات: آپ دعوتی و ملی خدمات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے، ملک میں منعقد مختلف اجلاس عام، سمینار، سمپوزیم اور کانفرنسوں میں مدعو کئے جاتے اور اپنے بیش قیمت مقالہ کے ساتھ علمی مجالس میں شرکت فرماکرملت کو صحیح راہ فکر وعمل دکھانے کی کوشش کرتے، یا پھر اپنے خطاب سے سامعین کو محظوظ فرماتے۔
مختلف عصری جامعات میں بھی آپ کو لکچر کے لئے مدعو کیا جاتا تھا۔ بیرون ملک بالخصوص عالم عرب میں منعقد متعدد سمیناروں اور علمی و دعوتی کانفرنسوں میں آپ نے شرکت فرمائی اور اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمایا۔ اپنی زندگی کے آخری ادوار میں آپ نے امریکہ کا دورہ کیا اور فکری رہنمائی کے ذریعہ تبلیغ حق کا فریضہ ادا فرمایا۔
آپ نے جماعت اہل حدیث کی تنظیم’’مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند‘‘کے رکن شوریٰ و عاملہ کی حیثیت سے برسہا برس عظیم الشان خدمت کی ہے۔اس جمعیت کے تین ’’آل انڈیااہل حدیث کانفرنس‘‘ (منعقدہ :مؤ۱۹۹۵ء ؁، پاکوڑ ۲۰۰۴ء ؁، دہلی ۲۰۰۸ء ؁)کے صدر استقبالیہ ہونے کا شرف ڈاکٹر صاحب موصوف کو ہی حاصل ہے۔ یہ وہ انفرادیت ہے جس میں ان کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔اور ہر سہ کانفرنس میں آپ کا تحریر کردہ خطبہ استقبالیہ جو مطبوع شکل میں سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
آپ کے خطبہائے استقبالیہ انتہائی قابل قدر معلومات پر مشتمل ہیں جن سے تحریک اہل حدیث اور اس کے خط وخال کو سمجھنے ،اس تحریک کے مد وجزر کو جاننے، اس تحریک کے اغراض ومقاصد کو سمجھنے اور اس کے کارناموں کی تفصیل جاننے نیز اس کے عزائم سے واقف ہونے میں کافی مدد ملتی ہے۔
آپ اس کے علاوہ بھی اور اجلاس وسمینار کی صدارت فرماچکے ہیں اور خطبہ صدارت پیش کرتے رہے ہیں، ان خطبوں میں گرانقدر علمی معلومات بہم پہونچانے میں آپ نے کوئی دقیقہ فزوگداشت نہیں کیا ہے۔
خلیجی بحران کے موقع پر آپ کی تحریروں سے اس فتنہ اور اس کے ابعاد کو سمجھنے میں خوب مدد ملی تھی۔ڈاکٹر صاحب مرحوم کی علمی وادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند نے ۱۹۹۲ء ؁ میں ’’صدر جمہوریہ ایوارڈ‘‘عطا کیا۔
ڈاکٹر ازہری کی خدمات قلمبند کرنے کے لئے طویل دفتر چاہئے ان کے صاحبزادے ڈاکٹر فوزان (لکچرر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) سے قوی توقع ہے کہ آپ ان کی حیات وخدمات کا ایک کامل و حسین مرقع تیار کریں گے ۔ جو ان کی علمی زندگی کے جملہ گوشوں پر محیط ہوگا۔
ازہری صاحب نے اپنی تدریسی و دعوتی زندگی جامعہ سلفیہ بنارس میں رہ کر گذاری آپ وہاں کے استاذ ،مدیر صوت الامۃ پھر وکیل الجامعہ کے اہم منصب پر فائز رہے پھر آخری مرحلہ حیات میں اس کے صدر مجلس منتظمہ کے ممتاز و نمایاں منصب پر مامور ہوئے اور آخری سانس تک اس باوقار عہدہ پر فائز رہے۔
ڈاکٹر صاحب کی موت جامعہ سلفیہ کے لئے ایک علمی خسارہ ہے اللہ تعالیٰ اس خلا کو اپنی رحمت سے پرکرے گا۔
انسان دنیا میں بہت ساری خوبیاں رکھنے کے باوصف بشرہونے کے ناطے کچھ کمیاں بھی ضرور رکھتا ہے۔ موصوف ڈاکٹر صاحب بھی اس سے الگ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ حافظ ڈاکٹرمقتدیٰ حسن صاحب ازہری کی اسلامی ،دینی، علمی خدمات کو قبول فرمائے اورانہیں ان کا بہترین اجروثواب عطا کرے۔ اوران کی بشری کوتاہیوں سے درگذر فرماکر ان کو اپنی رحمت کا سزاوار بنائے ۔آمین۔
ازہری صاحب کے پسماندگان میں اہلیہ ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں اور بھراپرا خاندان شامل ہے۔
ان کے تلامذہ کی لمبی تعداد بھی ان کے روحانی پسماندگان ہیں، ان کے غم میں شریک اور سبھی دعاگو ہیں کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے نوازدے اور ان کی مغفرت فرمادے۔

2 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah e wa Barakatoho,
    Ezzat M,aab Muhtram Shaikh sahib! I am student of PhD Islamic Studies
    in Sargodha University.My topic for PhD thesis is " PUNJAB MAEN ULOOM
    UL QURANWA TAFSEER UL QURAN PER GHAIR MATBOOA URDU MWAD'' please guide
    me and send me the relavent material.I will pray for your success and
    forgiveness in this world and the world hereafter.
    Jzakallah o khaira.
    hopful for your kindness.
    your sincerely and Islamic Salfi brother,
    RafiudDin
    Basti dewan wali street Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar.
    Email: drfi@ymail.com, rafiuddinqamar@gmail.com mob:03336750546,03016998303

    ReplyDelete