Tuesday 16 February, 2010

ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری-------مولانا محمد اسحاق بھٹی

ہندوستان کے صوبہ یوپی کے ایک شہر کا نام مؤ ناتھ بھنجن ہے جو کپڑے کی صنعت،علمی مراکز اور علمائے دین کا مسکن ہونے کی بنا پر صدیوں سے مشہور ہے۔ اس شہر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں سلفی حضرات کے تین بڑے مدارس قائم ہیں۔ ایک جامعہ عالیہ عربیہ، دوسرا جامعہ اسلامیہ جسے مدرسہ فیض عام کہا جاتا ہے اور تیسرا جامعہ اثریہ۔ ان کے علاوہ چھوٹی سطح کے متعدد مدارس جاری ہیں۔

وہاں کے بڑے مدارس نے اس نواح میں بے حد شہرت پائی۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں سے طلبا ان میں داخل ہوئے اور انہوں نے علوم دینیہ حاصل کئے۔ پھر وہ تصنیف وتالیف، دعوت وارشاد اور درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ یہ وہ حضرات ہیں جن کی خدمات کے دائرے علم وعمل کے مختلف شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

اسی علمی اور صنعتی شہر(مؤ ناتھ بھنجن)کے ایک سلفی خاندان کے ممتاز عالم دین ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ہیں جو ۱۸؍اگست ۱۹۳۹ء ؁ کو پیدا ہوئے اور خالص علمی فضا اور مجمع علما میں پلے بڑھے۔

تعلیم کا آغاز مدرسہ دارالعلوم سے کیا جو مرزا ہادی پورہ کی شاخ ہے۔ (۱)۱۹۵۳ء ؁ میں وہاں سے حفظ قرآن کی سند لی۔ پھر اسی شہر کے مختلف سلفی مدارس میں تعلیمی مراحل طے کئے۔ جامعہ عالیہ عربیہ سے ۱۹۵۹ء ؁میں درجہ ثانویہ کی سند حاصل کیااور ۱۹۶۲ء ؁میں وہاں کی جامعہ اثریہ سے سند فراغت سے بہرہ یاب ہوئے۔ ۱۹۵۹ء ؁اور ۱۹۶۲ء ؁کے درمیانی عرصے میں صوبہ یوپی کے سرکاری تعلیمی بورڈ میں ’’مولوی، مولوی عالم اور مولوی فاضل‘‘ کے امتحانات دئے اور ان میں کامیاب ہوئے۔

اس کے بعد مصر گئے اور جامعہ ازہرمیں داخلہ لیا۔ ۱۹۶۶ء ؁ میں وہاں کے شعبہ اصول الدین میں ایم اے کی سند حاصل کی پھر جامعہ ازہر ہی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا، لیکن اس اثنا میں حالات ایسے پیدا ہوئے کہ اپنے وطن (ہندوستان) واپس آگئے اور سلسلۂ تدریس شروع کردیا۔ اسی اثنا میں ان کے دل میں اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کا جذبہ ابھرا تو۱۹۷۲ء ؁میں ایم فل کیا۔ پھر اس سے تین سال بعد ۱۹۷۵ء ؁میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ’’ادب عربی‘‘ میں پی ایچ ڈی کی سند لی۔ اس طرح ان کا طویل تعلیمی سفر اختتام کو پہنچا اور انہوں نے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کے نام سے شہرت پائی۔

اپنے تعلیمی مراحل کے مختلف حصوں میں انہوں نے جن علماء و شیوخ سے استفادہ کیا، ان میں ڈاکٹر عبدالعلی، شیخ عبدالمعید، شیخ شمس الحق سلفی، شیخ عبدالرحمن، شیخ حبیب الرحمن فیضی، شیخ عظیم اللہ،شیخ عبداللہ شائق، شیخ ابوالقاسم فیضی، ڈاکٹر علی عبدالواحد وافی اور ڈاکٹر شوقی ضیف شامل ہیں۔

۱۹۶۸ء ؁ میں ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کو جامعہ سلفیہ(بنارس) کی تدریسی جماعت میں شامل کیا گیا۔ اس وقت جامعہ کے ناظم اعلیٰ شیخ عبدالوحید سلفی تھے جنہوں نے ڈاکٹر صاحب ممدوح کے نبوغ و فراست اور ان کی صلاحیت و قابلیت کا اندازہ کرلیا تھا۔ پھر انہیں جامعہ کے وکیل کا منصب عطا کیا گیا۔ جامعہ کا عربی مجلہ’’صوت الامۃ‘‘ ۱۹۶۹ء ؁ میں جاری ہوا تو انہیں اس کا چیف ایڈیٹر بنادیا گیا۔ اس مجلے کا وہ اداریہ بھی لکھتے اور مضامین بھی سپر قلم کرتے ہیں یہ انتہائی اہم کام ہے جو وہ باقائدگی سے کررہے ہیں۔ جامعہ کے تحقیقی و تصنیفی ادارے کا نام ’’ادارۃ البحوث الاسلامیہ‘‘ ہے ، جس کی طرف سے اب تک عربی، اردو، ہندی اور انگریزی میں چارسو سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ڈاکٹر صاحب اس بہت بڑے ادارے کے نگراں ہیں اور ہرکتاب پر جچے تلے الفاظ میں مقدمہ تحریر فرماتے ہیں۔

اللہ نے ان کو زبان و اسلوب کی نعمت سے بھی نوازا ہے اور معلومات کی دولت بھی عطا فرمائی ہے۔ وہ مختلف رسائل و جرائد میں اردو اور عربی دونوں زبانوں میں اظہار رائے کرتے ہیں اور قارئین شوق اور دلچسپی سے ان کے مضامین پڑھتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کے تحریر فرمودہ مضامین و مقالات کی تعداد پانچ سو سے آگے نکل چکی ہے۔

اب ان کی تصانیف کی طرف آیئے۔

(۱)۔۔۔ تاریخ ادب عربی: یہ کتاب پانچ جلدوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

(۲)۔۔۔ عورت کے متعلق اسلام کا نظریہ: اس موضوع کی یہ ایک قابل قدر کتاب ہے۔

(۳)۔۔۔ ادب کی حقیقت

(۴)۔۔۔ مسلمان اور اسلامی ثقافت

(۵)۔۔۔ دور حاضر میں نوجوان مسلم کی ذمہ داری

(۶)۔۔۔ معاصر کتابوں اور تاریخ کی روشنی میں بابری مسجد کا سانحہ۔

ان اردو کتابوں کے علاوہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نے متعدد عربی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا، ان کتابوں میں مندرجہ ذیل کتابوں کو خاص اہمیت حاصل ہے:

(۱)۔۔۔ اقتضاء الصراط المستقیم: یہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب ہے، جس کا ڈاکٹر صاحب نے اردوزبان میں ترجمہ کیا۔

(۲)۔۔۔ مختصر زاد المعاد: یہ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تصنیف ہے۔

(۳)۔۔۔ اصلاح المساجد: یہ شیخ جمال الدین قاسمی کی تالیف ہے۔

(۴)۔۔۔ فتاویٰ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا اردو میں اختصار۔

ان کے علاوہ متعدد اہم اردو کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ ان کتابوں میں بعض کتابیں یہ ہیں:

(۱)۔۔۔ قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین : یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فارسی تصنیف ہے، جس کا ڈاکٹر صاحب نے عربی زبان میں ترجمہ کیا۔

(۲)۔۔۔ رحمت للعالمین: یہ علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری کی نبی ﷺ کی سیرتِ مقدسہ کے موضوع پر اردو زبان میں تین جلدوں پر مشتمل کتاب ہے، جسے بے حد شہرت اور قبولیت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا۔

(۳)۔۔۔ تحریک آزادئ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی: یہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم کی اردو تصنیف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’حرکۃ الانطلاق الفکری وجھود الشاہ ولی اللہ فی التجدید‘‘کے نام سے اس کا عربی میں ترجمہ کیا۔

(۴)۔۔۔ حجیت حدیث: یہ بھی حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کی تصنیف ہے، جسے ڈاکٹر صاحب ممدوح نے عربی کے قالب میں ڈھالا۔ اس کتاب کے چار باب ہیں:

باب اول: حدیث کی تشریعی اہمیت

باب دوم: جماعت اسلامی کا نظریۂ حدیث

باب سوم: سنت، قرآن کے آئینے میں

باب چہارم: حجیت حدیث نبیﷺ کی سیرت کی روشنی میں

اب ڈاکٹر صاحب کے تلامذہ کی طرف آتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب ممدوح کی تدریس کا سلسلہ ان کے جامعہ ازہر میں داخلے سے قبل سے چلتا ہے۔ اپنے وطن کے مدارس سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب ۱۹۶۰ء ؁سے ۱۹۶۲ء ؁ تک جامعہ اسلامیہ(فیض عام) مؤناتھ بھنجن کی مسند درس پر دوسال متمکن رہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں (جب پی ایچ ڈی کی تیاری کررہے تھے) دوسال وہاں عربی ادب کا مضمون پڑھایا۔

اس کے بعد ۱۹۶۸ء ؁سے اب تک مسلسل جامعہ سلفیہ (بنارس) میں طلباء کو پڑھارہے ہیں۔ اس اثنا میں ان سے بے شمار طلباء نے کسب علم کیا۔ صحیح معنوں میں ان کا مقام استاذ الاساتذہ کا ہے۔ ان کے تلامذہ میں بہت سے حضرات اپنے ملک ہندوستان اور ہندوستان سے باہر (پورپ،امریکہ، افریقہ اور عرب کے) مختلف ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان میں بعض درس وتدریس میں مشغول ہیں،بعض نے تصنیف وتالیف کا سلسلہ شروع کررکھا ہے،بعض تقریر وخطابت میں سرگرم عمل ہیں، بعض افتا اور تحقیق میں مصروف ہیں۔ان کے تلامذہ کی وسیع فہرست میں مولانا صلاح الدین مقبول احمد بھی شامل ہیں جو کویت میں اقامت گزیں ہیں اور وہاں تصنیف و تحقیق اور تحریر و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مولانا صلاح الدین کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔

مرکز جمعیت اہل حدیث ہند کے ناظم اعلیٰ اور مجلہ ترجمان دہلی کے مدیر اعلیٰ مولانا اصغرعلی امام مہدی کا شمار بھی ڈاکٹر صاحب کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نہایت فعال اور اسلام کے سرگرم عمل مبلغ ہیں۔ اپنے ملک میں تو وہ اسلام کی خدمت کرہی رہے ہیں انہوں نے ملک کے باہر بھی کئی مرتبہ اپنے ملک کے نمائندے کے طور پر مختلف اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب کئی علمی مجلسوں اور متعدد ادبی و ثقافتی اداروں کے رکن ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

*علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مجلس منتظمہ اور مشاورتی کونسل

*ہندوستان کی اسلامی پرسنل لا کمیٹی

*مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مجلس عاملہ

*رابطہ ادب اسلامی ہند

*ہندوستان کی اسلامی تعلیمات کی نگہداشت کی کمیٹی

*جامعہ محمدیہ ممبئی کی تعلیمی کمیٹی

*ادارۃ البحوث الاسلامیہ جامعہ سلفیہ کے نگراں

ڈاکٹر صاحب اسلامی تعلیمات کے ان تھک داعی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو گوناگوں اوصاف سے بہرہ مند کیا ہے۔ وہ بے حد محنت اور اخلاص سے حالات کی روشنی میں کام کررہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ و ذیوغ کا وہ خوب تجربہ رکھتے ہیں اور اس معاملے میں اپنے ہم عصروں سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کردی ہے۔ وہ بہ یک وقت مصنف بھی ہیں، مترجم بھی ہیں، مدرس بھی ہیں، مقرر بھی ہیں، منتظم بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی دراز فرمائے اور انہیں ہر میدان عمل میں کامیابی سے نوازے۔

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کے بارے میں یہ مختصر سی معلومات مولانا صلاح الدین مقبول احمد(کویت) کے ایک علمی مضمون کا ترجمہ ہے جوانہوں نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’حجۃ الحدیث النبوی‘‘ پر لکھا ہے۔ یہ کتاب حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کی اردو تصنیف ’’حجیت حدیث‘‘ کا عربی ترجمہ ہے۔ اگر اس سے زیادہ معلومات حاصل ہوجائیں تو ان شاء اللہ بشرطِ زندگی کسی دوسری کتاب میںآجائیں گی۔مثلا ان کے طالب علمی کے زمانے کے اہم واقعات، بنارس اور کسی دوسری جگہ پیش آنے والے واقعات، قیام مصر کے زمانے کی کوئی خاص بات۔۔۔ اس قسم کی باتیں اردو میں دستیاب ہوجائیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ کتابوں کے نام اردو ہی میں آنے چاہئیں، ان کا عربی ترجمہ سمجھنے میں بعض اوقات دقت پیش آتی ہے۔ اسی طرح کمیٹیوں اور اداروں کے نام بھی اردومیں لکھے جائیں جو کہ ان کے اصل نام ہیں۔ ان کے عربی ترجمے کو صحیح طور سے اردو میں منتقل کرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔

مولانا صلاح الدین مقبول احمد کے مضمون کاترجمہ قارئین کے مطالعہ میں آیا۔ اب اپنے متعلق خود ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔ ڈاکٹر صاحب نے مولانا محمد اسماعیل سلفی کی کتاب حجیت حدیث (حجیۃ الحدیث النبوی) پر ’’کلمۃ المترجم‘‘ کے عنوان سے جو سطور عربی میں تحریر فرمائی ہیں، ان کا ترجمہ جناب ابوبکر ظفر (دارالدعوۃ السلفیہ شیش محل روڈ،لاہور) نے کیا۔ یہ ترجمہ ان کے شکریہ کے ساتھ ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔

جامعہ سلفیہ بنارس میں تدریس اور عربی مجلہ ’’صوت الجامعہ‘‘ کی ادارتی ذمہ داری کے زمانے کاذکر ہے کہ میں نے بہ توفیق الٰہی مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی چند کتب کا عربی ترجمہ کیا تھا، ان میں پہلی کتاب ’’حرکۃ الانطلاق الفکری وجہود الشاہ ولی اللہ فی التجدید‘‘ ہے، جس کا اردو نام ’’تحریک آزادئ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی‘‘ ہے۔

اس ترجمے کی ابتداء بظاہر معمولی لیکن اہم اور مناسب واقعہ سے ہوئی۔ یہ واقعہ ہمیشہ میرے سامنے رہا ہے:

ایک روز مدیر الجامعہ شیخ عبدالوحید عبدالحق سلفی نے مذکورہ کتاب کا اولین ایڈیشن مجھے دیا، میں نے اسے باربار پڑھایہ کتاب مجھے بہت پسند آئی۔ پھر کچھ احباب و رفقاء سے مشورہ کرکے اس کا عربی ترجمہ شروع کردیا گیا جو اس زمانے میں ’’صوت الجامعہ‘‘ میں بالاقساط شائع ہوا اور قارئین نے اس کی تحسین کی۔

ترجمے کی تکمیل پر میری درخواست کے مطابق مولانا عبیداللہ رحمانی نے اس پر نہایت فاضلانہ مقدمہ لکھا اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے حالات زندگی کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کا حکم فرمایا۔ تعمیل حکم کے بعد یہ ایڈیشن ۱۳۶۷ھ ؁میں شائع ہوا۔

اردو کے دوسرے ایڈیشن میں اضافوں کی وجہ سے ہم نے عربی میں بھی اضافہ کیا اور ڈاکٹرعبدالرحمن فریوائی نے اس دوران مراجعت کرنے میں مجھ سے تعاون فرمایا۔ اردو کی طرح عربی ایڈیشن نے بھی قارئین کرام میں قبول عام حاصل کیا۔

سلفی دعوت اور تحریک وتاریخ جیسے اہم موضوع کو دیکھنے اورپڑھنے والے محققین اس کتاب سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔ مذکورہ کتاب کی اتنی مقبولیت دیکھ کر مجھے یہ شوق پیدا ہوا کہ مولانا سلفی رحمہ اللہ کی بقیہ تصانیف بھی عربی میں ترجمہ کرکے شائع کی جائیں تاکہ برصغیر میں جماعت اہل حدیث کی تگ وتاز سے اہل عرب بھی آگاہ ہوں اور جو کوششیں اس جماعت نے سنت کے پھیلاؤ اور اس کے دفاع میں کی ہیں نیز بدعات اور شرک کے خاتمے کے لئے جو وسائل اختیار کئے ہیں، ان کا عربی دان لوگوں کو پتہ چلے۔

۱۴۰۱ھ ؁ میں مولانا سلفی رحمہ اللہ کے چار مضامین پر مشتمل ایک کتاب ’’حجیت حدیث‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی، یہ کتاب بھی بہت مقبول ہوئی، بالخصوص محدثین کا منہج واضح کرنے میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔

اس مجموعے کا ایک مقالہ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ہے۔ چونکہ اہل حدیث کا نظریہ اس سے مختلف ہے اس لئے مولانا صلاح الدین مقبول احمد نے اس مقالے کا عربی ترجمہ کرکے کویت سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ میں نے پوری کتاب کا ترجمہ کرتے وقت مندرجہ بالا مقالے کے علاوہ باقی مقالات کا ترجمہ کیا۔ نیز کچھ احباب کے مشورے سے اس موضوع سے متعلق دوسرے مضامین کا ترجمہ کرکے اس کتاب میں شامل کردیا تاکہ اہل عرب مولانا سلفی رحمہ اللہ کی مساعی جمیلہ سے پوری طرح آگاہی حاصل کرسکیں۔

ترجمے کا یہ کام تقریباً پندرہ سال پہلے ہی مکمل ہوچکا تھا لیکن نظر ثانی کے انتظار میں آج تک التوا کا شکار رہا۔ اب اللہ کی توفیق سے نظر ثانی کا کام مکمل کرکے، عبارتوں کا اصل ماخذ سے موازنہ کرکے اور تسامحات کی درستی کے بعد اسے شائع کیا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں بعض شخصیات اور قابل وضاحت عبارتوں پر حواشی بھی لکھے ہیں، جنھیں آئندہ اشاعت کے لئے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس اشاعت میں حصہ لینے والے تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔

No comments:

Post a Comment