Tuesday 16 February, 2010

ملی ترقی کے تقاضے--نمونۂ تحریر،--ڈاکٹر حافظ مقتدیٰ حسن ازہری

اکیسویں صدی کے حوالہ سے ایک سوال مسلمانوں کی پسماندگی سے متعلق اٹھایا جارہا ہے،یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے، اس سے پہلے بھی ’’اسباب زوال امت‘‘ کے عنوان سے یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے،اہل علم نے مقالے اور کتابیں بھی لکھی ہیں، اگر غورکیا جائے تو اس طرح کے سوال کو اٹھانا اور اس طرح کی فکر مندی رکھنا اچھی علامت ہے۔ کویت کے ہفت روزہ المجتمع میں اسی موضوع پر ایک مضمون شائع ہواہے جس کا عنوان چبھتا ہوا ہے، کاش اس چبھن کو عالم اسلام کا ہر فرد اور ہر جماعت محسوس کرے! عنوان کچھ اس طرح ہے: ’’اکیسویں صدی کی ایجادات ۔۔۔ہم فہرست میں سب سے نیچے کیوں؟‘‘

یقیناًنتازع للبقاء کے دور میں مادی و روحانی ہر طرح کی ترقی ضروری ہے اور میدان میں جتنی اقوام موجود ہیں ان کے مقابلہ میں امت مسلمہ کو برتریاکم از کم مساوی درجہ میں ہونا چاہئے، اگر امت دیگر اقوام کے مقابلہ میں ’’مجبور ومحتاج‘‘ حیثیت رکھتی ہو تو اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے میں دشواری پیش آئے گی، جو اقوام خود کو ’’برتر‘‘ تصور کرتی ہیں وہ ’’کمتر‘‘ قوم کی بات پر توجہ نہ دیں گی۔ لیکن اس حساس ونازک نقطہ پر غور کرتے ہوئے اس مقصد تخلیق کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے جس کا ذکر سورہ ذاریات کی ۵۶نمبر کی آیت میں ہے، روحانی و مادی ترقی کے مابین ہمیں توازن پیدا کرنا ضروری ہے، صرف ایک پہلو پر توجہ دے کر دوسرے پہلو کو نظر انداز کردینا ہمارے ملی وتہذیبی وجود کے لئے خطرہ ہے، جو اہل علم اصلاح و ترقی کی گفتگو میں صرف کسی ایک پہلو پر توجہ دیتے ہیں اور دوسرے کو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کردیتے ہیں ان کے ذریعہ امت کی ترقی کا پروگرام تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا، میدان میں اگر دوسری قومیں موجود ہوں تو یہ ہماری آزمائش ہے جس سے سرخروئی کے ساتھ عہد بر آ ہونا ہمارا فرض ہے۔

اقتصادی لحاظ سے دیکھا جائے تو جو ملک یا کمپنیاں ایجادات کے میدان میں آگے ہیں ان کی اقتصادی حالت بھی مضبوط ہے، دوسروں کی جیب سے پیسے نکل کر انہیں کے پاس جاتے ہیں، صنعتی میدان کی ترقی کو اسی لئے اہمیت دی جارہی ہے، نئی مصنوعات کی وجہ سے صارفین کی ضرورت بھی بدل جاتی ہے اور ہر نئی چیز انہیں اپنی طرف مائل کرتی ہے۔

جس مضمون کی جانب اشارہ گزرا اس میں ذکر ہے کہ آج دنیا میں ۷ء۵ ملین ایجادات مرحلۂ تنفیذ میں داخل ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں ہمارا حصہ کس قدر ہے اور ہم کیوں پیچھے ہیں؟

مسلم ممالک کے پاس دولت ہے اور وہ دولت خرچ بھی ہوتی ہے، لیکن حساب اس بات کا لگانا ہے کہ ان کی دولت کا کتنا حصہ سائنس و ٹکنالوجی سے متعلق تعلیم وتحقیق پر خرچ ہوتا ہے اور کتنا حصہ اسلحہ ،ادویہ اور دیگر سامانوں کی درآمد میں خرچ ہوتا ہے۔

ادارہ اقوام متحدہ کی ماتحت تنظیم (Wipo)دنیا کی ایجادات پر نظر رکھتی ہے، اس نے رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ برس دنیا نے سولہ لاکھ ایجادات کو پیش کیا لیکن صرف چھ لاکھ کو منظوری حاصل ہوئی، سرٹیفیکٹ کا مطالبہ کرنے والے ممالک کو دیکھا جائے تو جاپان سرفہرست ہے، پھر امریکہ کا درجہ اور ان دونوں ملکوں کے بعد چین ، کوریا اور یورپ کے نام آتے ہیں اور ان پانچوں ملکوں کو دنیا کی ایجادات سے متعلق مطالبہ کی مجموعی تعداد ۷۷؍فیصد کا تناسب حاصل ہے، ۷۴؍فیصد ایجادات کو سرٹیفیکٹ سے نوازا گیا ہے، لیکن ان میں کوئی عرب یا مسلم ملک نہیں۔

اس سلسلہ میں چین دوسرے ملکوں سے آگے نظر آتا ہے، پیٹنٹ کے مطالبہ میں عالمی سطح پر اب اس کا نمبر جاپان اور امریکہ کے بعد تیسرا ہے، وہ اس سلسلہ میں کوریا، روس اور یورپ ہر ایک سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بجٹ پر نظر ڈالی جائے تو اسرائیل پہلے نمبر پر آتا ہے، وہ سائنس سے متعلق ریسرچ میں ۹۳؍فیصد یعنی اپنی قومی آمدنی کا تقریباً پانچ فیصد خرچ کرتا ہے، مصر اس سلسلہ میں اسرائیل سے پچیس گنا پیچھے ہے!

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے مابین تفاوت زیادہ ہونے کے سبب ایک مصری عالم کہتے ہیں کہ: صلاحیت کے لحاظ سے قوموں کے بیچ بہت زیادہ فرق نہیں، مغرب کی طرح مشرق میں بھی باصلاحیت لوگ موجود ہیں، فرق یہ ہے کہ یورپ و امریکہ میں جمہور کی قیادت ہوشمندوں اور صلاحیت والوں کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس کے برخلاف مشرق کے مسلم ملکوں میں ملت کی ترقی سے بے نیاز لوگ اقتدار پر قابض ہیں، ان کے اصول میں ذاتی مفاد کو مقدم رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ذمہ داریاں تقسیم کرتے وقت بھی بہت زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے، صلاحیت کی بنیاد پر ذمہ داری دی جائے اور اس سلسلہ میں کسی اور چیز کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔

ایک عرصہ تک مسلم ممالک میں وسائل کی کمی کا شکوہ کیا جاتاتھا، لیکن مختلف تحقیقات کے نتیجہ میں اب ’’بندۂ مومن کی بے زری‘‘ کا حوالہ نہیں دیا جاتا۔ لوگوں کا معیار زندگی دیکھ کر بھی کوئی تصدیق نہ کرے گا کہ مسلم ممالک میں عوام غربت کا شکار ہیں، البتہ یہ صحیح ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں عوام کا حال اکثر مسلم ممالک کے حال سے بہتر ہے۔ دولت کی صحیح تقسیم اور تعمیر مقاصد میں اس کے استعمال کے بعد ایک مسئلہ بحث و تحقیق کی آزادی کا ہے، جو لوگ علم وتحقیق کے جوہر سے آراستہ ہیں ان کے لئے پر امن ماحول اور باوقار فضا کی یقین دہانی ہونی چاہئے اور ان کے تحقیقی منصوبوں کے لئے جس نوعیت کے وسائل کی ضرورت ہو انہیں ان کی مرضی کے مطابق فراہم ہونا چاہئے۔

اس وقت عالمی تجارت کی حوصلہ افزائی کا جو انداز ہے اس میں کمزور طبقہ کے لئے زیادہ فائدہ نہیں، بلکہ عام حالات میں وہ محروم رہتا ہے، اسی طرح محنت کش طبقہ بھی درمیانی اور اعلیٰ سطح کے تاجروں کے مقابلہ میں پامالی کا شکار رہتا 58ہے۔ اسلام نے جو مالیاتی نظام ترتیب دیا ہے اور جس طرح سماجی تعاون و تکافل کی تعلیم دی ہے اس کو بھی معاشرہ میں متعارف کرانا ضروری ہے، افراد کی خوشحالی و ترقی یقیناًمعاشرہ کی ترقی پر منتج ہوگی۔

ترقی کے لئے ملت کی جد وجہد کی بات آئی تونومبر ۱۹۸۸ء ؁ کی ایک خبر سامنے لانا ضروری ہے، اگر مسلم ممالک اس چیز کو اسی طرح اپنے پروگرام کا ضروری حصہ بنالیں تو جو خلا ہوگیا ہے اس کا پر ہونا مشکل نہ رہے گا۔

خبر کا عنوان یوں ہے:

سعودی ڈاکٹر کو امریکہ میں انعام۔

اور خبر کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ :

سعودی عرب کے دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر نفیس الرضوان کو امریکہ میں دماغی امراض کی تحقیق میں ایک انتہائی اہم کامیابی پر بین الاقوامی انعام دیا گیاہے۔ ڈاکٹر نفیس الرضوان کو شاہ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال نے اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھیجا تھا، انہوں نے امریکہ میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور تعلیم کے دوران کئی انعامات حاصل کئے، شاہ فیصل اسپتال اور تحقیقی مرکز سعودی عرب کے ۴۶ ڈاکٹروں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ ، کنیڈا اور یورپ بھیج چکا ہے۔

اس مقام پر دین اور ترقی میں اس کی تاثیر کے تعلق سے ایک مصری عالم و ادیب علامہ شیخ محمود محمد شاکر کے بعض تاثرات کو ذہن میں رکھنا مفید ہوگا تاکہ مادی ترقی کی رو میں اصل انسانی مسئلہ سے غفلت کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ علامہ محمود شاکر رحمہ اللہ کو سعودی عرب نے عالمی فیصل ایوارڈ سے نوازا تھا متنبی پر موصوف کی کتاب کے شروع میں جو رسالہ شائع ہوا ہے اسے ذہن میں رکھنے سے ترقی اور اس کی بنیاد کے سلسلہ میں بعض سنگین غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے۔

موصوف نے ثقافت کے مسئلہ کو دین سے جوڑا ہے، کہتے ہیں کہ ثقافت کی اصل دین ہے جو فطری امر ہے، خواہ کوئی دین ہو۔ کسی خاص قوم کی بات نہیں، بلکہ زبان وثقافت کی حامل ہر قوم کے لئے اس اخلاقی اصل یعنی دین کا وجود ضروری ہے،ہمارے اسلاف نے اسی لئے دین پر توجہ مرکوز کی تھی کہ اس طرح ان کی ثقافت محفوظ رہے اور اس میں کہیں سے جھول نہ پیداہو۔

علامہ موصوف نے سولہویں صدی عیسوی کو ترقی کے عہد کا آغاز مانا ہے اور ان کی نظر میں اسلامی تہذیب کی قوت کا راز علم میں پوشیدہ ہے اور اس سے دنیا و آخرت دونوں کا علم مراد ہے۔

یورپ کے ترقی کے سلسلہ میں علامہ کا نقطۂ نظر بیحد واضح ہے، فرماتے ہیں کہ دارالسلام (اندلس اور مصر وعراق) سے علوم کا ذخیرہ یورپ پہنچا اور اقوام یورپ نے صبر و استقلال کے ساتھ ان علوم سے استفادہ کیا، مذہبی زندگی میں جو ناہمواریاں پیدا ہوگئی تھیں انہیں دور کیا، دارالسلام سے مخطوطات کے ذخیروں کو اپنے قبضہ میں کیا اور اپنی قوم کو ان سے استفادہ کی ترغیب دی اور اس طرح چشم زدن میں نہیں بلکہ بتدریج ان کی ترقی کا آغاز ہوا۔

موصوف نے ایک دلچسپ تعبیر یہ لکھی کہ اس وقت مسلم دنیا آنکھیں کھولے ہوئے سوئی ہوئی تھی اور اہل یورپ بیدار ہوچکے تھے۔ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد مسلمانوں پر فتح کا خمار طاری تھا اور اہل یورپ عار مٹانے کے لئے عزم و ارادہ کے ساتھ سرگرم عمل تھے۔

خاکسار کو پچھلے کسی موقع پر ’’آزادی کے بعد مسلمانوں کی پیش رفت کا جائزہ‘‘کے عنوان سے اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی، اس کا براہ راست تعلق اسی عنوان سے ہے جس سے یہ بات شروع ہوئی ہے ، لہٰذا مناسب ہے کہ سابقہ (لیکن غیر مطبوعہ) تحریر کا وہ حصہ پیش کردیا جائے جس کا تعلق ترقی سے ہے۔ اس مضمون میں ایک حصہ تعلیم سے، دوسرا اقتصاد سے اور تیسرا سماج سے متعلق تھا، فی الحال صرف تعلیم سے متعلق حصہ پیش کیا جارہا ہے:

مختلف میدانوں میں پیش رفت ضرور ہوئی ہے، لیکن حالات کی سنگینی کے باعث شاید اس پیش رفت کی کمی کا احساس زیادہ ہے، لیکن یہ احساس چونکہ ترقی کے لئے مفید ہے اس لئے ا س کا برقرار رہنا ملی زندگی کے لئے بہتر ہے۔

ہماری ملی زندگی میں کسی بھی نوعیت کی پسماندگی کے لئے وجہ جواز فراہم کرنا مستحسن امر نہیں،لیکن تحلیل وتجزیہ کا عمل اس وقت تک مکمل نہیں مانا جائے گا جب تک کہ ہر واقعہ کے حقیقی سبب کاذکر نہ ہو۔ اس لئے مسلمانوں کی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر نظر ڈالنا مناسب ہوگا کہ یہ پیش رفت تسلی بخش ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو اس کا سبب کیا ہے؟

آزادی کے بعد مسلمانوں کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ملک کی اس سب سے بڑی اقلیت کے سامنے معمول کے مطابق حالات میں صرف جدو جہد سے ترقی کا سوال نہیں، بلکہ ان ۶۰؍برسوں میں آگے بڑھنے کے لئے ہمیشہ اس کو غیر معمولی اور سنگین حالات کا سامنا رہا اور ان میں سب سے سنگین مسئلہ امن وامان کا ہے، اگر معتدل اور ہموار حالات میں ترقی کی بات ہوتی تو ممکن ہے کہ ملت کا حال اس سے بہتر ہوتا، لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ ملت کی توجہ اور مال ودولت کا بڑا حصہ بدامنی کی نذر ہوجاتا ہے اور یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کے بجائے اندیشوں اور مایوسیوں کے ماحول میں لوگ سہمے سہمے کام کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ محنت ، توجہ اور دولت صرف کرنے کے باوجود حاصل کم نکلتا ہے۔

مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لئے دینی و دنیوی دونوں طرح کی تعلیم کا جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ دونوں کے تقاضے اور مقاصد الگ الگ ہیں اور دونوں میں ملت کی پیش رفت بھی مختلف ہے۔

دینی تعلیم میں جو پیش رفت ہوئی ہے اسے مجموعی طور پر بہتر کہا جاسکتا ہے اور بالخصوص ظاہری لحاظ سے یہ پیش رفت قابل اطمینان نظر آتی ہے، کیونکہ عرب ممالک سے مسلمانوں کے تعلقات کی استواری کے بعد دینی تعلیمی اداروں کو مالی تعاون حاصل ہوا ہے، جس کے سبب ان اداروں کا دائرہ کار وسیع ہوا ہے اور عمارتوں اور مدرسین کی تنخواہو کا معیار بہتر ہوا ہے، بہت سے جدید تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں اور قدیم اداروں نے اپنی حیثیت مضبوط کی ہے۔

ظاہری حیثیت سے دینی تعلیم میں پیش رفت کے تذکرہ کے بعد اس کی معنوی حیثیت پر ایک نظر ضروری ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ انسان باطن کے مقابلہ میں ظاہر پر توجہ کم دیتا ہے، یہ چیزیہاں بھی نظر آتی ہے، یعنی آزادی کے بعد دینی مدارس نے اپنی ظاہری حالت جس حد تک سدھاری ہے، اتنا سدھار معنوی حالت میں نہیں ہوا ہے، موجودہ دور میں جس اعلیٰ تعلیمی معیار، بالغ نظر علماء، مدلل و دل کش دینی لٹریچر اور مؤثر انداز تبلیغ کی ضرورت ہے وہ ان مدارس سے پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ شاہ بانو کیس کے بعد مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں کی سماجی اصلاح کا خیال ضرور پیدا ہوا ہے، لیکن یہ خیال کمزور اور وقتی دباؤ کے اثر جیسا محسوس ہوتا ہے۔

مدارس کے تئیں یہ احساس عام ہے کہ انہوں نے دینی تعلیم کے میدان میں تعلیم و اشاعت کے جدید ذرائع سے فائدہ نہیں حاصل کیا اور تعلیمی نظام میں ایسی سبیل نہیں پیدا کی جس سے لوگوں کی دلچسپی اور توجہ میں اضافہ ہو۔ جنگ آزادی کی تاریخ میں ہمیں علماء کی بڑی تعداد نظر آتی ہے، انہوں نے پوری بصیرت و ہمت کے ساتھ سیاسی میدان میں مسلم عوام کی قیادت کی اور انہیں اسلام سے وابستہ رہتے ہوئے انگریزوں کے مقابلہ اور ملحد مغربی تہذیب سے دور رہنے کی ترغیب دی۔ تحریک شہیدین (سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ ) اور علماء صادق پور کے حالات کا مطالعہ کرنے سے نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کی ہر نوعیت کی رہنمائی کو ان علماء نے ضروری قرار دیا تھا اور اکثر علماء اس میں عملی طور پر شریک تھے۔لیکن آزادی کے بعد علماء کا کردار اتنا مؤثر نظر نہیں آتا، مسائل تو متعدد اور ہر نوعیت کے ہیں، لیکن میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے علماء موجود نہیں، ان کا دائرہ کار تعلیمی میدان تک محدود ہے اور بہت محدود طور پر وہ عام دینی مسائل میں رائے دیتے ہیں، لیکن سیاست و اقتصاد سے متعلق ان کا کردار ناقابل ذکر ہے۔ اس خلاء کی وجہ سے ہماری سیاست اور اقتصاد دونوں پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا ہے جو مستقبل میں برے نتائج پیدا کرے گا۔ مسلمانوں کی رہنمائی کے فرض سے علماء کی علیحدگی کے نتیجہ میں مسلمانوں کی سیاسی واقتصادی قیادت کے لئے جو لوگ میدان میں آئے وہ اپنے فرض کو پورے طور پر ادا نہیں کرپا رہے ہیں،یا کسی اور سبب سے ان کی قیادت کامیاب نہیں ہے۔

دانشوروں میں ترقی کے موضوع پر سید حامد صاحب کے خیال سے واقفیت بے محل نہ ہوگی، موصوف نے حج ہاؤس ممبئی میں اکتوبر ۲۰۰۰ء ؁ میں ’’اکیسویں صدی میں سماجی خدمات: چیلنج و ترجیحات اسلامی نقطۂ نظر میں‘‘ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کو ۴؍خارجی اور ۲؍داخلی خطروں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ۲۰؍ویں صدی میں دنیا کی برق رفتارترقی میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہا اور وہ ہر طرح سے پسماندہ رہ گئے ہیں، وہ سر اٹھا کر نہیں چل پارہے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی زبوں حالی پر غور کرنے کے لئے ماضی میں سیمینار اور اجلاس منعقد کئے گئے لیکن اس کے بعد عملی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں اور اس کے سبب ان اجتماعات کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا ہے۔

سید حامد نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کا جواب عداوت سے نہیں دینا چاہئے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہتر سلوک سے دل بدل جاتے ہیں اور خدمت خلق کا جذبہ سبھی کے لئے ہونا چاہئے، اس میں تفریق نہ کی جائے۔

انہوں نے معاشرے میں فحاشی اور عریانیت کے اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے فتنے ہیں جن سے ہمارے نوجوانوں کو دور رکھنا ہوگا، ان فتنوں کے علاوہ ۲؍ایسے خطرے ہیں جو مسلم معاشرے کے داخلی خطرات میں شمار ہوتے ہیں۔

سید حامد نے داخلی خطرات میں مسلکی اختلافات کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اختلافات شرمناک ہیں، اسلام میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اختلافات ممبئی، حیدرآباد،دہلی وغیرہ سے نکل کر برمنگھم اور شکاگو تک پہنچ گئے، اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مسلک کا احترام کریں اور اتحاد کا مظاہرہ کریں، انہوں نے شمالی ہندمیں برادری واد کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فائدہ اہل سیاست اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں کامیاب ہونے نہیں دینا چاہئے۔

جامعہ ہمدرد کے چانسلر نے کہا کہ رائے عامہ نہ ہونے کی سزا بھی مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے، اس کی وجہ سے ارباب اقتدار پر مسلمانوں کی بات کا وزن نہیں پڑتا، اپنی بات منوانے کے لئے رائے عامہ بنانا نہایت ضروری ہے، اس کے لئے ایک عرصہ قبل مجلس مشاورت کی بنیاد ڈالی گئی مگر اختلافات نے اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔

انہوں نے اچھی اور مؤثر قیادت کے فقدان کا ایک سبب یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں نے قیادت کو ہمیشہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھا ہے، اچھی قیادت کے لئے انہیں اپنے قائدپر اعتماد کرنا ہوگا اور اس کی نیت پر شبہ نہ کیا جانا چاہئے، اس کے علاوہ ہمیں ادارے چلانے کا شعور نہیں ہے، جو بدنظمی کے ساتھ ساتھ بھائی بھتیجہ واد کا شکار ہیں۔ سید حامد نے تعلیم سے کنارہ کشی کو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ ایک انگریز مورخ کا کہنا ہے کہ ۸ویں صدی سے ۱۳ویں صدی تک سائنسی ایجاد مسلمانوں نے کی ہیں، آج نوبدھسٹ اور مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ ہیں، اس لئے اب ہمیں ناخواندگی دور کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے، اس میدان میں خصوصی طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینا چاہئے، تعلیم کے سلسلے میں جدید تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی تو مسلمان کافی پچھڑ جائیں گے۔

حفظان صحت اور اصلاح معاشرہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سید حامد نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس تعلق سے چلائی جانے والی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کو اس پوزیشن میں ہونا چاہئے کہ اپنی بات مؤثر انداز میں پیش کر سکیں، اس کے لئے وطن کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا ہوا، کیونکہ یہ عام بات ہے کہ کوئی کسی مذہب کی معلومات کے لئے اس کا مطالعہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کے ماننے والوں کی عادات اور اخلاق پر نظر رکھتا ہے۔

ان سطور کے اخیر میں عرض کرنا ضروری ہے کہ ملی ترقی مسلسل عمل واستقلال و پامردی اور امید و حوصلہ کا متقاضی ہے، اگر ملت ان اوصاف کو اپنے اندر پیداکرلے اور نیت کی درستگی کے ساتھ کام شروع کردے تو ناکامی کی کوئی وجہ نہیں، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔

(بشکریہ: محدث،بنارس۔)


No comments:

Post a Comment