Tuesday 16 February, 2010

Idariya Dr. Muqtada hasan Azhari Number byL Abdullah Madani Jhanda Nagari

شعورو آگہی عبداللہ مدنی جھنڈانگری   

                                            سرزمین جامعہ کے آسمان ذی وقار

علامہ ڈاکٹر حافظ مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ

گذشتہ چالیس برسوں سے جامعہ سلفیہ بنارس کے درودیوار پر جس شخصیت کی چھاپ سب سے زیادہ نمایاں اور روشن نظر
آتی ہے وہ بلاشبہ علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ کی ذات والا صفات ہے، جن کی زندگی کی ہر ساعت صرف اور صرف جامعہ سے منسوب رہی، آپ جس وقت جامعہ تشریف لائے، وہ ابتدائی ایام تھے، اساتذہ کرام کی بالیاقت جماعت موجود تھی، جن سے آپ کو حوصلہ ملا، منتظمین جامعہ نے تشجیع کی، آپ نے قدم آگے بڑھائے، مختلف شعبہ جات کی نگہداشت کی، بحیثیت وکیل الجامعہ، جامعہ کے تعلقات ذی علم شخصیات اور تعلیمی و رفاہی جامعات و جمعیات سے استوار کئے، شعبہ اشاعت کو امتیاز بخشا، سیکڑوں کتب کی اشاعت کے لئے راہ ہموار کی گئی، ان پر مقدمات لکھے اور اس باب میں وہ کارنامہ انجام دیا جس کی مثال برصغیر کی اردو دینی دنیا میں مفقود ہے، ’’مجلہ صوت الامۃ‘‘ کی ادارت آپ کے ہاتھوں میں آئی، جس کے اوراق پر آپ کے علمی نقوش ثبت ہوتے رہے، طلبۂ جامعہ کی تربیت کے باب میں حضرت ازہریؔ رحمہ اللہ کا ایک خاص انداز تھا، وہ اپنے مخصوص مزاج کی بنیاد پر طلبہ سے بے تکلف ہوہی نہیں سکتے تھے، اسی لئے ان کی موجودگی میں مجلس کا وزن قائم اور اعتبار ووقار باقی رہتا۔

آپ نے ہندوبیرون ہند مختلف ممالک کے ایشیائی اور عالمی اجتماعات اور کانفرنسز میں شرکت کی، بعض مقامات پر راقم الحروف کو بھی ساتھ رہنے کے مواقع میسر آئے، میں نے ہر جگہ اس مہر درخشاں کی ضیاباری کا احساس کیا،جامعۃ الامام البخاری، کشن گنج بہار کے ایک تعلیمی پروگرام میں موصوف رحمہ اللہ نے اپنا گراں قدر علمی مقالہ پیش فرمایا، مہمان خصوصی عالی جناب ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی گورنر صوبہ بہار تھے، جنھوں نے ہمت افزائی فرماتے ہوئے ڈاکٹر صاحب موصوف رحمہ اللہ سے مقالہ کی ایک کاپی بھی طلب کی، تاکہ بعد میں مستفید ہوسکیں۔

مکہ کی عالمی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ایک خاص جماعتی نشست میں جماعت کی بے حد اہم مگر انتہائی متنازع شخصیت نے اپنے زور بیان کا مظاہرہ کرنا چاہا، وہاں میری آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دیگر جماعتی اکابر کی موجودگی میں علامہ ازہریؔ نے جس طرح اپنی قوت گویائی کا اظہار فرمایا کہ اپنی طلاقت لسانی اور شعلہ مقالی کے باوجود روبرو ہونے والی وہ شخصیت مسکت جواب سن کر خاموش ہوگئی،اس طرح یہ مختصرمگر پروقار مجلس انتشار سے محفوظ رہی۔اس کے برعکس ان کی زندگی کا یہ دوسرا رخ بھی قابل ملاحظہ ہے،جماعت کی قدیم ترین دینی درس گاہ جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار میں ایک اجتماع کے بعد نشست میں چند اہل علم حاضر تھے، حضرت علامہ ازہریؔ رحمہ اللہ کے ساتھ جماعت کی ممتاز و بے باک ہستی بھی وہاں موجود تھی، یہ ہستی تھی مفسر قرآن حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب رحمانی رحمہ اللہ کی۔مولانا رحمانی نے مصر کی تعلیم و ثقافت اور علمی ماحول پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: لوگوں نے دکتوراہ دکتوراہ کی رٹ لگا رکھی ہے ، مگر یہ جان لیں شیخ الحدیث احمد اللہ پرتابگڈھی کی سند سے زیادہ معتبر یہ ڈگری نہیں ہوسکتی۔ بات علمی وقار کی تھی، مگر حضرت ازہریؔ نے اس بزرگ عالم دین کے اس تبصرے پر مکمل خاکسارانہ سکوت اختیار کرلیا، مجھے محسوس ہوا کہ ازہریؔ صاحب رحمہ اللہ کی خاموشی باکمال خرقہ پوش کے دل میں روشن قندیل ایمانی کی غیر ملفوظ داد دے رہی ہے۔ہمارے بزرگوں کا اپنے اکابر کے ساتھ یہی وہ متواضعانہ انداز تھا جو ان کی عظمتوں کو نکھارنے میں معاون ہواکرتا تھا۔ جسے موجودہ نسل بڑی حد تک نظر انداز کر چکی ہے۔

ان کے سامنے زندگی کا ایک مقصد تھا، جس کی تکمیل میں منہمک رہے، کتابیں تصنیف کیں، ترجمے کئے، اداریئے لکھے، مقالات تحریر کئے، صدارتی خطبات سے دلوں کو گرمایا، تدریس کے لئے مسند درس پر رونق افروز ہوئے، علمی نکات کے موتی لٹائے، ضیوف و زائرین کو جامعہ کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا، اس کی اہمیت بتائی، علمی سمینار اور اجتماعات منعقد کئے، ان کی نگرانی فرمائی، غیر ملکی سفر میں جامعہ کی نمائندگی بھی ہوئی اور سلفی فکر کی ترجمانی بھی۔یہ بھی رب العالمین کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ جو شیخ ازہریؔ جماعتی تگ وتاز سے بیگانہ تھے وہ انہی کے بقول اللہ نے ان کا رخ جماعت کی طرف موڑ دیا، جب انہوں نے شیخ الحدیث علامہ محمد اسماعیل سلفی، گجرنوالہ کی شہکار تصنیف ’’تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کے تجدیدی مساعی ‘‘کے عربی ترجمہ کا آغاز کیا،اس کتاب نے حضرۃ الدکتور کے اندر خوشگوار تبدیلی پیدا کی، جس کے اثرات تمام عمر ظاہر ہوئے، ان کے اعمال جس پر شاہد ہیں، ۔

ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی زندگی میں جلالی پہلو غالب رہا، بالعموم لوگ ان سے خائف رہا کرتے تھے،دوران صلاۃ صف میں جس جگہ وہ کھڑے ہوتے طلبہ ان کے بغل میں کھڑے ہونے سے گھبراتے تھے۔ موصوف کی زندگی کا یہ وہ پہلو تھا جس کے بسبب بہتوں کو ان سے ممکن ہے شکایت بھی رہی ہو، کہ آپ کم آمیز تھے، ہم نشینی کے زیادہ مواقع نہیں فراہم کرتے، یا یہ کہ طرز کلام میں بہت زیادہ مٹھاس نہیں تھی، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ وہ تلخ کلام بہر حال نہیں تھے، کہ ہر مخاطب شکایت کرتا ہوا نظر آئے۔

دراصل مقصد سے لگاؤ کبھی کبھی عظیم شخصیات کو بھی یہ انداز اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے، ورنہ اگر وہ ہر آنے جانے والے کے ساتھ بے تکلف ہونے لگے، یا اپنا قیمتی وقت پر تکلف ضیافت میں صرف کرتا رہے تو گراں قدر علمی خدمات کی انجام دہی سے قاصر رہ جائے گا۔ ازہریؔ صاحب رحمہ اللہ سے شاکی رہنے والے ہمارے جملہ خرد وبزرگ اگر اس تاویل کی حقیقت کا ادراک کرلیں تو ان شاء اللہ ان کی شکایت رفع ہوجائے گی۔

ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ اپنے تمام تر علمی و فکری اشتعال کے باوجود خشک نثری مؤلف بن کے نہیں رہ گئے تھے، انہیں منظوم کلام سے بھی لگاؤ تھا، وہ اچھے اشعار پڑھتے ،ان سے استدلال کرتے اور ان کی داد بھی دیتے تھے، حضرت فضاؔ ابن فیضی، جناب نسیمؔ بنارسی وحیرتؔ بستوی صاحبان کے کلام پر ان کے تبصرے قابل ذکر ہیں،دوران سفر ایک بار میں نے شام کے وقت خوش نما مناظر سے مسحور ہوکر پہاڑ کی چوٹیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ساحرؔ کی مشہور نظم کا ایک مصرع الٹا پڑھ دیا: سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے۔فرمایا:میاں! چمپئی اجالا ہے سرمئی اندھیرا ہے۔طبقۂ مشائخ میں بروقت ایسی گرفت کرنے والے کمیاب ہیں۔

مختلف اورمتنوع خصوصیات وامتیازات کی حامل شخصیت کی وفات ملت اسلامیہ کا ایک المناک سانحہ ہے، بالخصوص ہماری مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس کو شدید دھچکا پہونچا ہے اور ہماری جماعت اپنے ایک عظیم صاحب فکر عالم دین سے محروم ہوگئی ہے۔اللہ اس خلا کو پُر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ

حضرت ازہریؔ رحمہ اللہ کی حیات پہ مشتمل یہ اشاعت خاص پیش کرتے ہوئے ہم رب العالمین کے شکر گزار ہیں جس نے ہمیں یہ توفیق عنایت فرمائی۔


No comments:

Post a Comment