مشرقی یوپی کا مردم خیز شہر مؤ ناتھ بھنجن اپنی اسلامی وعصری درسگاہوں کے ساتھ پارچہ بافی کی خوبصورت وساتر صنعت کے لئے مشہور ومعروف ہے ،اس شہر کے مغربی حلقہ کا ایک محلہ ڈومن پورہ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں مشرقی یوپی کی سب سے قدیم درسگاہ جامعہ عالیہ عربیہ قائم ہے ،اس محلہ کی خاک سے بڑے بڑے اہل فن ،مصنف ومؤلف ، عالم اور شاعر پیدا ہوئے۔
علامہ شبلی نعمانی کے استاد مولانا فیض اللہ (وفات ۱۸۷۹ ء ) اسی محلہ کے باشندے تھے،بیک وقت محمد علی نام کے چار عالم دین جو اپنی اپنی کنیت سے معروف ہوئے ان کا خمیر بھی اسی خاک سے اٹھا۔
(۱) مولانا ابولمحاسن محمد علی بن رحمہ اللہ (وفات ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۰ ء )
(۲)مولانا ابولمکارم محمد علی بن فیض اللہ(وفات ۱؍اکتوبر ۱۹۳۳ ء)
(۳)مولانا ابولمعالی محمد علی بن حسام الدین(وفات ۴؍اپریل ۱۹۳۵ ء)
(۴)مولانا ابولقاسم محمد علی بن عبدالرحمن شہید (وفات ۱۹۵۴ ء)
مذکورہ علماء میں سے ہر ایک اپنے وقت کے عظیم اور قدآور عالم تھے،مولانا ابولمکارم محمدعلی جو روغن احمر کے موجد ہیں ان کی مطبوع وغیر مطبوع ترپن کتابیں ہیں، اسی طرح مولانا ابولمعالی محمد علی جوسہ لسانی شاعر ہونے کے ساتھ سترہ کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
ڈاکٹر نورالحسن انصاری(وفات ۵؍دسمبر ۱۹۸۷ ء ) پروفیسر دلی یونیورسٹی جو فارسی زبان کے ادیب اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں ان کا بھی مولد ومسکن ہونے کا شرف اسی خاک کو حاصل ہے۔
محترم فضا ؔ ابن فیضی (وفات۱۷؍جنوری۲۰۰۹ ء کا ذرہ جو اردوشعر وادب کا آفتاب وماہتاب بن کر چمکا اسی محلہ کی خاک کا حصہ ہے۔
جامعہ ازہر مصر میں داخلہ کا شرف حاصل کرنے والے تین فارغین نے بھی اسی محلہ میں آنکھیں کھولیں اور اسی فضا میں پرورش وپرداخت پائی۔
(۱) ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری(صدر جامعہ سلفیہ ۔بنارس)
(۲)مولانا مظہر احسن ازہری(ناظم اعلی جامعہ عالیہ عربیہ ۔ مؤ)
(۳)ڈاکٹر حافظ عبدالعلی ازہری(پرنسپل مسلم کالج ۔لندن)
ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری ۸؍اگست ۱۹۳۹ ء کو حاجی محمد یاسین کے گھر دینی ماحول میں پیدا ہوئے اور مذہبی فضا میں پرورش پائی جس پرورش وپرداخت کا یہ اثر ہواکہ پہلے آپ نے قرآن حفظ کیا اور اس کے بعد جامعہ عالیہ عربیہ مؤ سے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا ،اس کے بعد جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ میں داخل ہوئے اور فراغت جامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ سے کیا ،اسی کے ساتھ عربی وفارسی بورڈ الہ آباد سے مولوی ،عالم ،فاضل کے امتحانات اچھے نمبرات سے پاس کیا۔
فراغت کے آپ نے تدریس کی ذمہ داری سنبھالی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا آپ کو اپنی منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے تعلیمی سفر جاری رکھنا تھا ،اس لئے آپ نے جامعہ ازہر کے لئے رخت سفر باندھا اور اصول الدین فیکلٹی میں داخلہ لے کر ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
جامعہ ازہر جانے والے تینوں حضرات ابتدا ہی سے اپنی ذہانت کے لئے مشہور تھے ،ہر ایک امتحان میں اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کرتے ،جس کی وجہ سے ان کے اساتذہ ومتعلقین سبھی کی خواہش تھی کہ یہ لوگ پڑھ کر اچھے عالم بنیں اور قوم وملت کے لئے مستقبل میں کام کریں،اپنی علمی صلاحیت سے عام وخاص ہر ایک کو فائدہ ہو،اور بحمداللہ اساتذہ ومتعلقین کی خواہش پوری ہوئی ، ان میں سے ہر ایک نے عرب وعجم کو خوب خوب سیراب کیا بلکہ ڈاکٹر عبدالعلی ازہری عرصہ سے یورپ کو کتاب وسنت کے دوآتشہ سے آسودہ کررہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ۱۹۶۷ ء میں جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس کے ہوکر رہ گئے اور صدارت کی عظیم ذمہ داری سنبھالے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ،جامعہ سے وابستہ ہونے کے بعد آپ نے ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
ڈاکٹر صاحب جامعہ میں ایک استاذ ہونے کے ساتھ وکیل الجامعہ کے اہم منصب پر بھی فائز رہے جس کا انھوں نے حق ادا کیا اور ملک وبیرون ملک جامعہ سلفیہ کا اس طرح تعارف کرایا کہ اتنی کم مدت میں شاید ہی کسی ادارے نے یہ مقام حاصل کیا ہو،اس اہم ترین ذمہ داری کے ساتھ ’’صوت الامۃ‘‘ کا پابندی کے ساتھ اپنی ادارت میں نکالنا بھی جس کی مدت تقریباً چالیس سال ہوتی ہے ،کوئی آسان نہیں۔
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے اہل فن اور باصلاحیت افراد جن کے قلم کو دنیا تسلیم کر چکی ہوتی ہے ،کسی ادارے اور اس کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے بعد تمام صلاحیت زنگ آلود اور قلم کا زور وروانی منجمد ہوجاتی ہے،مگر ڈاکٹر صاحب عصر حاضر کے ان فنکاروں میں ہیں جنھوں نے بیک وقت جامعہ کی وکالت بھی کی اور تصنیف وتالیف اور ترجمہ کا کام بھی انجام دیا ۔
ڈاکٹر صاحب کی کل اردو وعربی تصنیفات کی تعداد سترہ(۱۷)ہے ،اور اردو وفارسی سے عربی میں ترجموں کی تعداد چودہ(۱۴) ہے ،اور آپ نے عربی سے اردو میں جن کتابوں کو منتقل کیا وہ آٹھ(۸) ہیں ،آپ کے قلم سے تحقیقات وتعلیقات کا شرف تین کتابوں کو حاصل ہوا۔
چونکہ آپ کے درس وتدریس کا زمانہ طویل ہے اس لئے شاگردوں کی بھی تعداد کثیر ہے ،جن میں سے بیشتر اپنی اپنی بساط اورمعلومات کے مطابق لکھ رہے ہیں اور انشاء اللہ لکھیں گے،میں نہیں چاہتا کہ ایک ہی بات کو بار بار لکھا جائے بلکہ مناسب یہ ہوگا کہ جس کے پاس ڈاکٹر صاحب کے متعلق خاص اہم معلومات ہوں اسے تحریر کرے تاکہ آپ کی حیات کے مختلف گوشوں پر روشنی پڑ سکے۔
ڈاکٹر صاحب علم وفن کے معامہ میں کس قدر متواضع تھے اس کا اندازہ لگانا عام لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے ،ایک دن کی بات ہے ڈاکٹر صاحب غریب خانہ پر تشریف لائے اور فرمایا کہ چلئے فضاؔ صاحب سے ملنے چلیں میں فوراً ساتھ ہولیا ،دروازہ پر پہونچے اور دستک دی پھر چند لمحہ بعد آپ تشریف لائے ،فضاؔ صاحب چارپائی پر بیٹھ گئے اور آپ سے بھی اسی پر بیٹھنے کے لئے کہا مگر آپ بجائے چارپائی پر بیٹھنے کے چٹائی پر بیٹھے اور فرمایا ’’ہم لوگ آپ کے سامنے ایک طالب علم کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔
چونکہ مجھے فضاؔ صاحب کا ہم کوچہ ہونے کا شرف حاصل ہے اس لئے ان سے استفادہ کا بھی موقع ملا، عمر کے آخر ی چند سالوں میں جب ضعف وکمزوری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے تو بڑی مشکل سے کسی کے سہارے شام کے وقت غریب خانہ پر تشریف لاتے ،اور دوران گفتگو اگر کوئی بھی تلفظ غلط ہوجاتا تو فوراً اصلاح فرماتے ،ایک دن جب میں نے گفتگو کرتے ہوئے پسِ منظر استعمال کیا تو انھوں نے فوراً اصلاح کی اور فرمایا کہ پسْ منظر صحیح ہے پسِ منظر غلط ہے ،اسی کے چند روز بعد ڈاکٹر صاحب سے میری گفتگو ہورہی تھی کہ انھوں نے بھی پسِ منظر کا لفظ استعمال کردیا میں نے پوچھا کہ پسْ منظر صحیح ہے یا پسِ منظر، میرے سوال کے بعدڈاکٹر صاحب سمجھ گئے کہ ضرور کوئی معاملہ ہے اور پوچھا کیا بات ہے ؟ میں نے کہا کہ فضاؔ صاحب فرماتے ہیں کہ پسْ منظر صحیح ہے ،یہ سننے کے بعد انھوں دومرتبہ پوچھا کیا فضاؔ صاحب نے کہا ہے ؟ میں نے ہر مرتبہ کہا کہ ہاں فضاؔ صاحب نے کہا ہے تب ڈاکٹر صاحب فر ماتے ہیں کہ ’’جب فضاؔ صاحب نے کہا ہے تو صحیح ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی نظافت بھی مسلم ہے وہ حد درجہ نظیف اور صفائی پسند تھے ،ہماری مسجد پر جب ان کو خطبہ دینا رہتا تو ہم لوگ خاص خیا ل رکھتے تھے ،ایک مرتبہ جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد کہا کہ دیکھو مصلیٰ میں کوئی بدبو تو نہیں آرہی ہے ،ہم لوگوں نے سونگھ کر دیکھا تو ہم لوگوں کو کچھ محسوس نہیں ہوا اس کے بعد ہم لوگ یہ کرتے کہ جب آپ کو خطبہ دینا رہتا تو مصلیٰ پر سجدہ کرنے کی جگہ عطر لگادیا کرتے تاکہ کسی قسم کی بو کا تصور بھی نہ ہو۔
کچھ دنوں پہلے مسجد پر مصلیوں کے لئے تولیہ لٹکا دیا کرتے تھے تاکہ وضو کے بعد لوگ پونچھ لیا کریں ،آپ نے دیکھا تو بہت ناپسند کیا اور کہا کہ تمام مصلیان اسی ایک دو تولیہ سے بار بار پونچھتے ہیں جس کی وجہ سے گندی بھی ہوتی ہے اور مہکتی بھی ہے اس لئے یہاں تولیہ نہیں رکھنا چاہئے اور پھر اسی دن سے تولیہ کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔
ایک سیمینار میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ انھیں کے کمرے میں تھا ،صبح کے وقت میں نے بوٹ برش نکالا ، اپنا اور ڈاکٹرصاحب کا جوتا صاف کردیا ،کچھ دیرکے بعد جب سیمینار ہال میں جانے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب نے جوتا پونچھنے کے لئے ایک کپڑا نکالا اور پھر دیکھا تو جوتا صاف ہے ،جوتے کے پاس بوٹ برش دیکھ کر سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ ہم لوگ تو صاف کرنے کے لئے کپڑا رکھتے ہیں، مگر آپ بوٹ برش رکھتے ہیں ،اس کے بعد کپڑا رکھنے کے بارے میں بتایا کہ جب ہم لوگ مصر میں ریڈیو پر کام کرتے تھے تو اس وقت ٹریننگ میں بتا یا گیا تھا کہ آپ دو رومال رکھیں ایک چہرہ صاف کرنے کے لئے اور دوسرا جوتا یا کرسی صاف کرنے کے لئے تاکہ کپڑا پراگندہ نہ ہو۔
ڈاکٹر صاحب ڈھیر ساری خصوصیات کے مالک تھے ،انھوں نے کئی مرتبہ باتوں بات کہا کہ میں اپنی بیماریاں کسی سے کہتا نہیں اور کہنے کا کوئی فائدہ بھی تو نہیں ہے ،البتہ علاج اور احتیاط کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں اس لئے اس میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کرتا، اور شاید اسی احتیاط کا ثمرہ تھا کہ اس ستر سال کی عمر میں بھی نہ تو ان کے کام میں کوئی کمی واقع ہوئی اور نہ ہی کہیں سے کمزوری کا احساس ہوتاتھا، اس کے باوجود ادھر دو تین سال میں خود ان کی زبان سے دو یا تین مرتبہ درجہ ذیل شعر سنا ۔ع
یہ سب ٹوٹے ہوئے ساغر ہیں ساقی
رمضان سے پہلے حسب معمول جب گھر آئے تو اس وقت آپ کے داہنے انگوٹھے میں درد تھا جس کا علاج چلتا رہا مگر مسلسل ان کا قلم بھی رواں رہا اس اثناء میں پیٹ میں درد ہوا مگر ان تما م بیماریوں کے باوجود جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہونے والے پروگرام کے لئے اپنا مقالہ بعنوان’’ المنح الدراسیۃ المقدمۃ المملکۃ المحروسۃ ومدی تاثیرہا فی بناء المستقبل للطلاب‘‘ تیار کرنے میں مسلسل عرق ریزی کرتے رہے یہانتک کہ عیدالفطر کی نماز اپنی عیدگاہ اہلحدیث ڈومن پورہ پچھم میں یکم شوال ۱۴۳۰ ھ مطابق ۲۱؍ستمبر۲۰۰۹ ء بروز سوموار پڑھایا ،جو کاتب تقدیر کے مطابق عمر عزیز کا آخری خطبہ عید تھا،اسی طرح اپنی آبائی مسجد اہلحدیث ڈومن پورہ حبہ میں ۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ ء کو آخری خطبہ جمعہ بھی دیکر۷؍اکتوبر۲۰۰۹ ء کو جامعہ سلفیہ ۔بنارس کے لئے روانہ ہوئے ،اس دوران علاج بھی چلتا رہا اور قلم بھی ،کیونکہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے لئے مذکورہ مقالہ ابھی تکمیل کے مرحلہ میں تھا یہانتک کہ ۱۸؍اکتوبر۲۰۰۹ ء بروز اتوار مکمل کرکے اپنے بھانجے حافظ اسعد اعظمی استاذ جامعہ سلفیہ ۔بنارس کے حوالہ کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ بھیجنے کی تاکید کی اور اسی دن بذریعہ ہوائی جہاز علاج کے لئے بنارس سے دلی روانہ ہوگئے، دلی پہونچنے کے بعد انھیں بترا اسپتال لے جایا گیا جہاں علاج اور جانچ ہوتی رہی یہاں تک کہ پانچ روز کے بعد میکس اسپتال لے جایا گیا، میکس اسپتال سے صرف ایک دن کے بعد دوبارہ بترا اسپتال لایا گیا ،جہاں ڈاکٹروں نے ۲۹؍اکتوبر کی صبح جواب دے دیا ،اس کے بعد بذریعہ ایمبولنس مؤ کے لئے روانہ ہوئے،ایمبولنس میں ان کے ساتھ ان کے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر فوزان،چھوٹے بھائی ڈاکٹر اظہر، دونوں داماد ڈاکٹر سراج اور ڈاکٹر حماد تھے، ڈاکٹر حماد سے مسلسل بذریعہ موبائل رابطہ رہا ،ڈاکٹر حماد کے بیان کے مطابق ۲؍بجے رات تک بہت ہی ٹھیک تھے ،ہم لوگوں کے ساتھ دوبجے دوگھونٹ چائے لی اور سوگئے، تھوڑی دیر کے بعد تنگی تنفس پیدا ہوا اور فوراً آکسیجن لگایاگیا جس سے قدرے راحت ملی ،اس کے بعد آپ لیٹ گئے ،مگر تنفس کی وجہ سے پریشانی باقی رہی،اس اثناء کئی مرتبہ اٹھے اور الٹی کی کیفیت ہوئی مگر الٹی نہیں ہوئی ،یہانتک کہ سوا پانچ بجے آپ نے اٹھنے کے لئے کہا ،بیٹھا یا گیا اور بیٹھتے ہی الٹی ہوگئی ،رومال مانگا اور رومال منہ سے قریب پہونچا تھا کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی انا للہ وانا الیہ راجعون،ڈاکٹر حماد نے بتایا کہ جب میں نے گھڑی دیکھا تو پانچ بجکر سولہ منٹ ہوا تھا۔
آپ کے پسماندگان میں بیوی دوبیٹے اور دوبیٹیاں حیات ہیں اس کے علاوہ ایک بڑا اور تعلیم یافتہ کنبہ، اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق اور ڈاکٹر صاحب کو جوار رحمت میں جگہ دے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افسانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
No comments:
Post a Comment