نہایت مشفق اور بے تکلف دوست ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری ؒ (م؍ ۳۰؍مارچ ۲۰۰۳ء) استاذ محترم علامہ شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ؒ (م؍۱؍دسمبر۲۰۰۶ء) ہر دلعزیز بزرگ مولانا عبدالرشید ازہریؔ بستویؒ (م؍۷؍دسمبر۲۰۰۶ء) امیر جماعت مولانا مختار احمد ندویؒ (م؍ ۹؍دسمبر۲۰۰۷ء )استاذ محترم رئیس المصنفین مولانا رئیس احمد ندویؒ (م؍۹؍مئی ۲۰۰۹ء)مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی بستویؒ (م؍۲۸؍مئی ۲۰۰۹ء) کے بعد اب بر صغیر ہند و پاک میں عربی زبان و ادب کے صف اول کے ادیب، انشاء پرداز، مؤلف ومصنف اور مترجم، عربی زبان کی خدمات کے صلہ میں صدر جمہوریۂ ہند کے ایوارڈ یافتہ، جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) بنارس کے صدر اور جامعہ سلفیہ سے تقریبا جالیس سال سے شائع ہونے والے عربی ماہنامہ ’’صوت الامۃ‘‘کے رئیس التحریر،استاذ محترم جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ بھی ہم سب سے جدا ہوگئے، جن کے جانے سے علم وادب کا ایک ستون گر گیا، ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے رئیس اور ماہنامہ ’’ صوت الامۃ‘‘ کے رئیس التحریر کو اجل نے ہم سب سے چھین لیا ہے، جو ملت اسلامیہ کے لئے ایک زبردست علمی اور قلمی خسارہ ہے جس کی تلافی بظاہر ناممکن نظر آتی ہے، دل ودماغ ششدر اور حیران بن کررہ گئے ہیں، اس لئے نہیں کہ موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا ،موت تو ہر ایک کو آنی ہے، البتہ جس تیزی سے بیماری نے ان پر حملہ کیا اور پھر آناً فاناً چل بسے، اس پر چشم حیران اور دل حزیں ہے ۔
چشم حیراں، دل حزیں، افسردہ چہرہ ، گنگ لب
دیکھ لے دنیا ہمارے ضبط کا پیمانہ آج
اور صرف اتنا ہی نہیں کہ ہم لوگ ہی ماتم کناں ہیں، بلکہ جامعہ سلفیہ بنارس کے درودیوار اداس ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں۔
جس کو عزم نے سینچا تھا اپنے خون سے
ہوگئی وہ بزم علم آہ! پھر ویرانہ آج
طلبہ اداس ہیں، اساتذہ اداس ہیں، کارکنان اداس ہیں، ارکان جامعہ اداس ہیں اور۔ع
آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں
متوسط قد، مناسب بدن، گندمی رنگ، نگاہیں تیز، دانائی و دوراندیشی، معاملہ فہمی، حسن تدبیر، حسن تدبر،مزاج میں شائستگی استقلال اور ٹھہراؤ، طبیعت میں پاکیزگی ونفاست، اصول اور قوانین اور وقت کی پابندی، گفتگو میں نرمی و متانت، لب و لہجہ محبت آمیز، دفاع حق میں جسور و غیور،چلنے میں میں نگاہیں نیچی اور پروقار، کشادہ پیشانی، بارعب چہرہ،کبھی کبھی زیرلب مسکراہٹ، گھنی داڑھی، ظرف و نظر میں وسعت، کبھی سر پر گول ٹوپی کبھی مخملی، یوپی کا مشرقی لباس کرتا پائجامہ اور شیروانی زیب تن، علمی رکھ رکھاؤ اور وضع داری، اسم با مسمیٰ یہ تھے ہمارے استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ ؒ ۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے ناظم اول مولانا عبدالوحید عبدالحق سلفی رحمہ اللہ کی دور بینی اور مردم شناسی کی داد دینی پڑتی ہے کہ ان کی نظر ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ جیسے دانا وبینا اور دور اندیش و معاملہ فہم شخص پر پڑی اور پھر منتخب کرلیا اور جامعہ سلفیہ بنارس کے تمام خارجہ امور کو ان کے ہی سپرد کر دیا، تاکہ وہ اپنے حسن تدبر و تدبیر سے جامعہ کے خاکوں میں مناسب رنگ بھر سکیں اور اس کے مستقبل کو روشن بنا سکیں۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ میں بڑائی تھی دانائی تھی، یہی وجہ ہے کہ جامعہ سلفیہ بنارس کو مرکزی مقام دلانے میں،خواہ اندرون ملک کا معاملہ ہو یا بیرون ملک کا، اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کا مرکزی کردار رہا ہے، بڑی لگن او ر خلوص سے جامعہ کے کاز کو آگے بڑھانا، لوگوں سے رابطے پیدا کرنا اور پھر ان سے خط وکتابت کرنا، ہر ماہ ’’صوت الأمۃ‘‘ میں نئے نئے مضامین شائع کرکے عالم اسلام میں پھیلانا اور جامعہ سلفیہ کے نام کو روشن کرنا، اس کے مورال کو بلند کرنا اور اردو صحافت کے ساتھ ساتھ عربی صحافت کا اعلیٰ معیار قائم کرنا،یہ ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ کی انتھک اوربے لوث کوششوں کے نتیجہ میں ہی ہوسکا۔
اردو صحافت کا معاملہ رہا ہو یاعربی صحافت کا آپ نے دونوں زبانوں سے ملت اسلامیہ کو بھرپور فائدہ پہنچایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ تقریباً چالیس سال تک تصنیف و تالیف ،ترجمہ و انشاء اور عربی و اردو صحافت کے میدان میں اپنے قلم کی جولانیاں دکھاتے رہے، ادب کے شہ پارے بکھیرتے رہے، علم کے موتیوں کو لٹاتے رہے، فکر و نظر اور علم و فن کا دریا بہاتے رہے اور کبھی اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہ کی، ہر ماہ’’ صوت الأمۃ ‘‘ عربی اورماہنامہ ’’محدّث‘‘ اردو کے اکثر شماروں میں اپنی علمی نگارشات پیش کرتے رہے، ملت اسلامیہ پر اگر کوئی افتاد آئی یا ملت اسلامیہ کسی مشکل سے دوچار ہوئی تو ان کے دل پر جو گزرتی رہی اسے رقم کرتے رہے۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
قلم و قرطاس کے ساتھ ساتھ تدریسی فرائض بھی انجام دیتے رہے، ہندو بیرون ہند میں اصحاب علم وفضل سے خط وکتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور کبھی کبھار دورے بھی کرتے رہے، سیمیناروں اور کانفرنسوں میں کرسئ صدارت کی زینت بھی بنے اور خطبۂ صدارت بھی پیش کرتے رہے، جمعیت و جماعت اور طلبہ و مدرسین کو اہم تجاویز و قیمتی مشورے دیتے رہے اور جمعیت و جماعت کی حدی خوانی بھی کرتے رہے، ملت اسلامیہ کے چاک سینوں کے زخموں پر مرہم بھی رکھتے رہے، خلیجی بحران پر تبصرے کرتے رہے اور عالمی سیاست کے گیسو بھی سنوارتے رہے ،نام نہاد اور شور وشرپسند مصنفین کی خبر بھی لیتے رہے اور ان تک دعوتِ حق کا پیغام بھی پہنچاتے رہے، لیکن کسی موڑ اور کسی بھی اسٹیج پر وقار و متانت اور سنجیدگی کا دامن نہیں چھوڑا۔
زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کا ہر تجزیہ بصیرت افروز و جامع ہر تحریر پر وقار و متوازن ،ہر تقریر پرمغز و معتدل اور ہر مشورہ پرکیف و دل کشا ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مفکر جماعت و ملت بن گئے تھے۔ ان کی سوچ اور غور فکر کا پیمانہ بہت وسیع تھا اور ملت اسلامیہ کے تمام مسائل پر محیط تھا، اگر وہ کچھ سوچتے تھے تو ملت اسلامیہ کی بہبود وفلاح اور اس کی مشکلات کے حل کے بارے میں سوچتے تھے،اس بات کی شہادت ان کے وہ مقالات اور مضامین دیں گے جو مختلف صحف و مجلات اور اردو عربی کے رسائل وجرائد میں بکھرے پڑے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ایک عظیم دانشور اور ایک عظیم بالغ نظر صحافی تھے، ان کی صحافت چالیس سال کے طویل عرصہ پر محیط ہے، ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ زندگی بھر کثرت سے مقالات و مضامین لکھتے رہے، میرے اپنے اندازے کے مطابق تقریباً پانچ ہزار صفحات پر ان کے مقالات بکھرے پڑے ہیں اوریہ مقالات ان تقدیم و تقریظ ، اداریوں ،تصنیف و تالیف ،عرض ناشر، ترجمہ و انشاء اور خطبۂ صدارت کے علاوہ ہیں، جو آپ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں پڑھا کرتے تھے۔
چنانچہ ’’صوت الأمۃ‘‘ سے لیکر ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں آپ کے قیمتی مقالات ہر ماہ چھپتے رہتے تھے، مثال کے طورپر ماہنامہ ’’محدّث‘‘بنارس، جریدہ’ ’ترجمان‘‘ دہلی، ’’آواز ملک‘‘ بنارس اور راشٹرسہارا لکھنؤ وغیرہ۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ میدان صحافت میں خوب خوب اپنے جوہر اور قلم کی جولانیاں دکھلاتے رہے اور ایک با مقصد صحافت کو گلے لگائے رکھااور صحافت برائے شہرت کی ہمیشہ تردید کی،ان کی صحافت بامقصد تھی اور اس کے لئے پوری زندگی وقف کررکھی تھی، عالمی صحافت کے انحراف اور بے راہ روی پر کڑی تنقید کرتے تھے اور ان کو درست و صحیح راہ کی طرف راہنمائی بھی کرتے تھے، آپ کے مقالات و مضامین میں تنوع اور گہرائی ہوا کرتی تھی، ٹھوس علمی مواد،ادبی چاشنی اور انشاء پردازی کے جوہر بھی دیکھنے میں آتے تھے، ان تمام مقالات کو یکجا کرنا امر دشوار ہے اور دقت طلب بھی، بس چند مقالات کے عناوین کے ذکر پر اکتفا کروں گا جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے علم و فکر میں کتنی گہرائی تھی اور ان کی نگاہیں کہاں تک دیکھ لیا کرتی تھیں۔
مقالات کے چند عناوین کچھ اس طرح ہیں:
۱۔عصر حاضر میں اسلام کا تعارف، تقاضے اور امکانات
۲۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب
۳۔ اسلامی ضابطۂ اخلاق اور ہمارا سماج
۴۔ مدارس اسلامیہ کا نصاب اور معیار تعلیم
۵۔ ملی ترقی کے تقاضے
۶۔ انسانیت کی بے کسی، اسلحہ کی عالمی تجارت کے تناظر میں
۷۔ انسانیت کی بہی خواہی ہمارا فرض ہے
۸۔ اسلحہ بندی کا یہ عمل کہاں لے جائیگا
۹۔ فکری انتشار سے بچنے کی ضرورت ہے
۱۰۔ امریکہ کے حادثہ پر عرب صحافت کا رد عمل
۱۱۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور جمہوری اقدار کا تحفظ
۱۲۔ تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
۱۳۔ حقوق انسانی کا تحفظ اور بڑی طاقتوں کی آویزش
۱۴۔ انسانی بنیاد پر باہمی تعلقات کی استواری
۱۵۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور اہل نظر کے اندیشے
استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ کے مقالات کے یہ چند عنوانات ہیں۔
نرم ہے برگ سمن، گرم ہے میرا سخن
میری غزل کے لئے ظرف نیا چاہئے
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی عبارتوں کو نقل کرنا اور پھر ان پر تبصرہ کرنا طوالت کا باعث ہوگا اس لئے چند مقالات کی چند عبارتیں پیش کرکے رخصت ہوجاؤں گا۔ ان شاء اللہ
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی تحریر حق گوئی، جرأت، جذبۂ ایمانی اور توازن سے بھرپور ہوتی تھی،تملق،چاپلوسی اور مداہنت سے کوسوں دور رہتے تھے، چنانچہ اپنے ایک مضمون ’’انسانیت کی بہی خواہی ہمارا فرض ہے‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:
’’ اہل باطل جب باطل پرستی کے سہارے اور باطل کی سربلندی کے لئے اپنا کام کرنے کی جرأت رکھتے ہیں تو اہل حق کو حق کی حمایت اور انسانیت کے احترام و تحفظ کے لئے اس سے زیادہ جرأت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہم باطل پر نہیں ہیں نہ ظلم کے شیداہیں نہ ملک میں تخریب چاہتے ہیں نہ مکر وفریب اور غداری و وعدہ خلافی کے جرم میں ملوث ہیں اس لئے ہمیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، نہ کسی طرح کے احساس کمتری کا شکار ہونے کی۔غور کرنے کی بات ہے کہ جس وقت ملک میں اس کی محبت اور تعمیر کے دعویداروں نے مکر وفریب اور ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا ہے تو دوسری طرف ممبئی کے ہر شد مہتہ کی خیانتوں سے پردے اٹھ رہے ہیں اور محکمۂ سراغ رسانی و عدالت کے افسران اس خیانت کی تفتیش میں لگے ہوئے ہیں،دوسروں کو خائن اور غدار کہنے والے اس بات پر غور کریں کہ کیا خیانت میں کوئی مسلمان بھی ملوث نظر آتا ہے، ملک میں مسلمانوں کا کردار تمام تر کمزوریوں کے بعد بھی دوسروں کے بالمقابل بے داغ ہے۔
اخباروں میں جو معاملات زیر بحث رہتے ہیں ان میں مسلمان ہوتے ہیں یا دوسرے لوگ‘‘ (محدّث:جنوری ۲۰۰۸ء ۔ص:۱۳)
میں نے شروع میں لکھا ہے کہ آپ کا ہر تجزیہ بصیرت افروز ،ہر تحریر پروقار اور ہر مشورہ پرکیف ہوتا تھا اور ادب وانشاء کا نمونہ بھی، میری اس بات پر شہادت آپ کی ذیل کی تحریر دے گی۔ملاحظہ فرمائیں آپ ’’فکری انتشار سے بچنے کی ضرورت ہے‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:’’انفرادی واجتماعی انانیت، خود غرضی،ظلم وستم، عناد و رعونت، بے راہ روی،مادہ پرستی، حرص و طمع اوروحشت و بربریت کے دور میں قرآن کریم کا امت مسلمہ کے لئے یہ اعلان کہ اس کی تخلیق میں لوگوں کی خیر وفلاح مضمر ہے، بے حد اہم اور معنیٰ خیز ہے۔
ایسی عظیم اور بامقصد امت کی رہنمائی و بیداری کے لئے جو تحریر پیش کی جائے اسے بے حد معتدل اورجامع ہونا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ ’’ شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرھا‘‘ والا مقولہ صادق آئے۔
امت کے لئے جو تجویز پیش کی جائے اس میں اس کے مقام و مسؤلیت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ایسا نہ ہوکہ فکر وعمل کی جس راہ کی گفتگو کی جارہی ہے وہ امت کے منصب و ذمہ داری سے میل نہ کھارہی ہو، آزاد ہندوستان میں کچھ اس طرح کا الجھاؤ پیدا ہوا ہے(یا پیدا کردیا گیا ہے) کہ اچھے اچھے لوگ ذہنی انتشار، مایوسی و جھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں،محدود پیمانوں سے معاملات کو دیکھنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی بے حد معمولی چیز پر نگاہ ٹک جاتی ہے اور بڑے بڑے مسائل الگ رہ جاتے ہیں۔
امت مسلمہ کی اصلاح کے پروگرام کو معمہ سمجھا جارہا ہے لیکن یہ معمہ نہیں تنازع للبقاء کے اس دور میں ہمیں پہلے اپنے دین سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے، طاقت کے توازن کی کوشش اور ظالم کا ہاتھ پکڑنا ضروری ہے،لیکن صحیح فکر اور صحیح عمل کے بغیر کارگہہ حیات میں سبقت کا تصور خام خیالی ہے، اسی زمین وآسمان کے درمیان دوسرے کام کرتے ہیں اور اسی میں کام کرنے کا ہم سے بھی مطالبہ ہے، اس مطالبہ کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ ہم احتجاجی سیاست کے ساتھ ہی عمل کے میدان میں اتریں اور شکایت نہیں بلکہ محنت کے ذریعہ اپنا مقام پیدا کریں۔
مہر ومہ وانجم نہیں محکوم ترے کیوں؟
کیوں تیری نگاہوں سے گزرتے نہیں افلاک
(محدّث:جولائی۲۰۰۰ ء ۔ص:۵؍۷)
بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی کچھ نئے نظریات اور خیالات ابھر کر سامنے آنے لگے اور ان پر خوب گرماگرم بحث ہونے لگی۔
صدی بدلی باقی کچھ نہیں بدلا زمانے میں
وہی مقتل،وہی گردن، وہی شمشیر ہے ساقی
انہی نظریات میں سے ایک نظریہ یہ سامنے آیا اور پورے زور شور سے سامنے آیا کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں تبدیلی لائی جائے، ان کے تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے اور انہیں عصری تعلیم سے ہم آہنگ بنایا جائے، یہ آواز دراصل بہت دور کی کوڑی سمجھ کربلند کی گئی، تاکہ مدارس اسلامیہ پر ایک ضرب کاری لگائی جاسکے، اس کے طرۂ امتیاز کو ختم کیا جاسکے اور اسلامی بود وباش رکھنے والوں کو ایک کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے اور پھر اس طرح رہی سہی اسلامی تشخص و رمق کو صفحۂ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے، اس کا خوب خوب پروپیگنڈہ کیا گیا،سیمینار اورکانفرنسیں منعقد کی گئیں اور نام نہاد دانشوروں اور ماہرین تعلیم کو اس مسئلہ کے حل کے لئے مدعو کیا گیا تاکہ وہ اپنی مسموم تجاویز اور مشورے دے سکیں اور پھر اسلامی تعلیم وتربیت پر ضرب لگاسکیں، سو عصری تعلیم سے ہم آہنگ ہونے کی بات جوں کی توں رہی اور پھر۔ع
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنیٰ نہ ہوا
چنانچہ ۲۰؍مئی ۲۰۰۷ء مؤناتھ بھنجن کے ایک اجتماع بعنوان ’’فروغ تعلیم کے لئے ذہن سازی کا طریقہ‘‘ میں ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے بھی شرکت کی اور اس کے تعلق سے اپنا مقالہ پیش کیا، تمام پہلوؤں پر نہایت اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی اور چند لفظوں میں اس سازشی ذہن کا پردہ فاش کیا، نیز دل آویزاور بصیرت افروز مشورہ دیتے ہوئے اس مقالے کا نچوڑ یوں پیش کیا:
’’ ہماری گفتگو سے کسی کے ذہن میں یہ بات نہ آئے کہ ہم عصری تعلیم کے مخالف ہیں عصری علوم ہمارے انسانی معاشرہ کی ضرورت ہیں، اس وجہ سے علماء اسلام نے اپنے عہد عروج میں صرف طبیعی علوم کی آبیاری نہیں کی بلکہ ان میں قائدانہ کردار ادا کیا اور ضرورت کے مطابق علوم ایجاد کئے، عربی اور مغربی تہذیبوں کے باہمی تفاعل اور اخذ وعطا کے موضوع پر عرب دنیا میں جو کتابیں تصنیف کی گئی ہیں (ان کی تعداد بہت زیادہ ہے)ان سے معاملہ کی صحیح تصویر واضح ہوتی ہے، سابقہ عہدوں میں ابن ندیم، حاجی خلیفہ اور طاش کبری زادہ نے اور جدید عہد میں بروکلمن اور فؤاد سزگین نے علوم سائنس میں مسلمانوں کی حصہ داری سے متعلق جن کتابوں کی نشاندہی کی ہے ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ماضی میں جس طرح مسلمانوں نے قرآن و حدیث سے متعلق علوم کی آبیاری کی اسی طرح طب وسائنس کے علوم میں بھی اپنی برتری ثابت کی ، آج اسی ماضی سے سبق لے کر جدید علوم اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میںآگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اس طرح آگے بڑھنے ضرورت ہے کہ مسلم قوم کی پسماندگی کا داغ پوری طرح دھل جائے ، البتہ ذہن میں اس بات کو تازہ رکھنا ضروری ہے کہ دین اور علوم دین کی ترقی و تقویت کے بغیر ہماری ہر ترقی بے سود ہے، ہم دین و دنیا میں تفریق کے قائل نہیں، لیکن دنیا کی ایسی ترقی جو ہمیں اپنے دینی ورثہ اور شناخت سے الگ کردے، ہمارے لئے گھاٹے کا سودا ہے، لہٰذا علوم شرعیہ اور عصریہ کی گفتگو میں دونوں نوعیت کے علوم کی ماہیت اور انسانی معاشرہ کے لئے ان کی ضرورت کے مسئلہ میں بصیرت اور کشادہ دلی سے بات کرنے کی ضرورت ہے، مجھے علمی میدان کی ہر رائے کا بے حد احترام ہے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے جس چیز کے احترام کا پابند کیا ہے اسے مقدم رکھنا ضروری ہے۔ (محدّث: اگست۲۰۰۷ء ۔ص:۹)
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے مقالات سے یہ چند اقتباسات ہیں ان کو پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عالم دین دانشور کی تحریر میں کتنی بلاغت اور وسعت ہے صداقت اور واقعیت ہے، وضاحت،صراحت اور قطعیت ہے، زبان رواں اورشستہ ہے انداز بیاں بے حد متین اور پر وقار ہے، لب و لہجہ میں اعتماد اور یقین کی جھلک ہے، ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی ہر تحریر اسی طرح پر وقار، واضح ،بین اور دوٹوک ہواکرتی تھی، چونکہ آپ کی نظر میں وسعت اور مطالعے میں عمق تھا اس لئے جب کسی موضوع پرقلم اٹھاتے تھے تو اس کے ہر پہلو کو اچھی طرح ٹٹولتے تھے اور بحث کے ہر گوشے کو تکمیل تک پہونچاتے تھے، ادنیٰ سے ادنیٰ مسئلہ کو بھی تشنہ نہ چھوڑتے تھے۔ع
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی زندگی میں میرے لئے جو دوسری چیز پر کشش تھی وہ ان کی قوت تصنیف و تالیف اور ترجمہ و انشاء کا عمل ہے ،یہاں میری گفتگو صرف ان کے تراجم پر ہی مرکوز ہوگی اور وہ بھی صرف ایک پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش ناتمام کرونگا ،چنانچہ جو لوگ بھی میدان تصنیف و تالیف اور ترجمہ و انشاء کے مراحل سے گزر چکے ہیں ان کو معلوم ہے کہ تصنیف سے کہیں زیادہ ترجمہ ایک مشکل ترین عمل ہے، ترجمہ کے لئے ضروری ہے کہ مترجم دونوں زبانوں کا ماہر ہو، دونوں زبانوں کے اسرار ورموز تشبیہات و استعارات اور مصطلحات سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ تاکہ دوران ترجمہ اس کو کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، دوسرے ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ زبان رواں، شستہ، سادہ اور سلیس ہو، تاکہ طبع زاد تصنیف کا گمان ہونے لگے۔
ترجمہ کے تعلق سے کئی باتیں کہی جاتی ہیں مگر ان میں دو باتیں بے حد اہم ہیں:
۱۔ ترجمہ میں اصل تصنیف کی جھلک ہونی چاہئے
۲۔ ترجمہ کو مترجم کے منفرد اسلوب کا نمائندہ ہونا چاہئے ہندی کے شاعر ڈاکٹر بچن کہتے ہیں کہ اگر مترجم اعلیٰ درجہ کی تخلیقی صلاحیت کا مالک ہو اور ترجمہ دیانتداری سے کرے تو اس کا ترجمہ اصل تخلیق سے زیادہ وقیع فن پارہ بن سکتا ہے، اس لئے کہ ترجمہ کے عمل میں دو تخلیقی جوہر بروئے کار ہوتے ہیں، ایک مصنف کا اور دوسرا مترجم کا۔
ترجمہ کے بغیر آج کوئی زبان جدید اور ترقی پذیر ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی اور ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس پر قدرت حاصل کرنے کے لئے شوق وصلاحیت ہی نہیں مشق و مزاولت اور اصولی واقفیت بھی درکار ہے، اصلاح سازی کے اصول اور طریقے، ترجمہ کے مختلف نظرئیے، ترجمہ میں زبان و اسلوب کے مسائل، ترجمہ کی اقسام ان تمام پہلوؤں سے واقفیت ضروری ہے، اس کے ساتھ ہی اپنی زبان میں ترجمہ کی روایت ، اس کے رجحانات اور مختلف اداروں اور افراد کے ذریعہ اس کی نشونماکا علم بھی ضروری ہے۔
ترجمہ کے لئے جتنے اصول و قواعد بیان کئے جاتے ہیں ہمارے استاذ محترم رحمہ اللہ کو ترجمہ کی تاریخ سے لیکر اس کے تمام اصول و مبادی سے بھرپور واقفیت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کو اردو سے عربی اور عربی سے اردوترجمہ کرنے میں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ پڑھنے سے اندازہ ہی نہیں ہوپاتا تھا کہ یہ ترجمہ ہے یا اصل تصنیف وتالیف، ترجمہ کی زبان اعلیٰ و معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سادہ اور سلیس ہوتی تھی، آپ کے ہر ترجمہ میں ندرت تھی، جچے تلے الفاظ اورجملوں کی بندش ، عبارت میں ادبی ذوق اور چاشنی پائی جاتی تھی، جس سے پڑھنے میں لطف آتا اور زبان چٹخارے لیتی۔
چنانچہ عربی ادب و انشاء اور بیان و ترجمہ میں مولانا سید امیر علی ملیح آبادی، علامہ عبدالعزیز میمنی راجکوٹی، مولانامحمد یوسف سورتی،مولانا عبدالمجید حریری بنارسی، مولاناعبدالرزاق ملیح آباد ی اور استاذ الاساتذہ مولانا عبدالغفور بسکوہری کے بعد بر صغیر ہند میں کم ازکم جماعت اہل حدیث کی سطح پر ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ کا کوئی ثانی نہ تھا اور ہمارے استاذ محترم نے ترجمہ کرنے میں بھی کسی سطحی فکر ونظر کا ثبوت نہ دیا بلکہ ایسی کتابوں کا انتخاب فرمایا تاکہ جن سے زبان و ادب کے ساتھ ساتھ فکر میں بالیدگی، خیالات میں بلندی اور عقیدے میں پختگی کے لئے راہیں ہموار ہوسکیں، اردو کی جتنی کتابوں کو آپ نے عربی جامہ پہنایا وہ یہ ہیں:(۱) رحمۃ للعالمین( ۲) تحریک آزادئ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی (۳) حجیت حدیث (۴) زیارت قبور (۵) مسئلہ حیات النبیﷺ (۶)سرگزشت مجاہدین (۷) عروج زوال کا الٰہی نظام۔وغیرہ۔
اردوکی یہ وہ کتابیں ہیں جن کے پڑھنے سے سیرت نبویﷺ میں درک،حبّ نبیﷺ میں اضافہ، حدیث کی حجیت پر یقین کامل، ایمان میں تازگی، جذبۂ جہاد میں ولولہ انگیزی، عقیدے میں نکھاراور قوموں کے عروج وزوال کے اسباب کا سراغ ملتا ہے، اس طرح آپ نے جن عربی کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا ان کے پڑھنے سے ذہن و قلب میں پاکیزگی، سیرت و کردار میں سدھار اور یقین و عمل میں تحریک پیدا ہوتی ہے، ان باتوں کے ذکر سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ترجمہ میں آپ کی ذہنی جہت کا تعین ہوتا ہے اور اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ترجمہ کرتے وقت آپ کا مقصود کیاتھا۔
میں یہاں عربی سے اردو ترجمہ کے چند نمونے پیش کرونگا جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ استاذ محترم کو ترجمہ کرنے پر کتنی قدرت حاصل تھی اور دونوں زبانوں میں کتنی مہارت اور ان کے اسرار ورموز تک کس قدر رسائی حاصل تھی۔
عصر حاضر کے معروف مفکرمحمد قطب کتاب وسنت کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
یعنی ان ہی دونوں سرچشموں میں تاریخ کے ہر دور کے لئے مسلم فرد، مسلم جماعت، مسلم امت اور مسلم حکومت کی تعمیر کے تمام ضروری مواد اور عناصر موجود ہیں، شرط یہ ہے کہ مسلمان یہ تعمیر چاہیں اور اس کے لئے ضروری کوشش کا عزم رکھیں۔
مسجد نبوی کے اندر کی وہ جگہ جو حضرت عائشہؓ کے حجرے اور نبیﷺ کے منبر کے مابین واقع ہے اور جہاں پر حضور صحابہ کو تعلیم وتربیت دیتے تھے اس کے بارے میں علامہ محب الدین الخطیب لکھتے ہیں:
یعنی اسی مقام پر معلم انسانیت نبی ﷺ ان اولین مردان کار کو تیار فرماتے تھے جنھوں نے روئے زمین میں سب سے بڑا، سب سے پائیدار سب سے نفع بخش اور سب سے برتر انقلاب برپا کیا۔
صلیبی جنگوں کے آخری دور میں مسلمانوں کی دینی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے استاذ محمد قطب لکھتے ہیں:
لاالٰہ الا اللہ (جو پورے اسلام کی بنیاد اور اس کا سب سے بڑا رکن ہے) کا مفہوم صرف زبان سے ادائیگی میں بدل گیا تھا ۔ امر واقع سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا، مسلمانوں کی زندگی میں اس کا تقاضا صرف اتنا تھا کہ دن بھر میں اسے چند بار کہہ لیا جائے، عقیدے کی خرابیاں اس کے علاوہ تھیں، یعنی خرافات کا ارتکاب ہوتا تھا اللہ تعالیٰ کی بغیر واسطہ ، صاف اور خالص عبادت کی جگہ قبروں، اولیاء اور مشائخ کی پوجا ہوتی تھی۔
اہل بدر کے تذکرہ میں علامہ محب الدین الخطیب کا یہ فکر انگیز بیان ملاحظہ فرمائیے:
یعنی اسلام کے اس پیغام کو جس کے لئے بدرکے بہادروں نے جان دی تھی۔
اس سے علماء اندازہ لگا سکتے ہیں کہ استاذ محترم کو دونوں زبانوں پر کس قدر عبور حاصل تھااور آپ کے تراجم میں کتنی کشش ہے، پڑھنے سے اندازہ ہی نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے یاطبع زاد تصنیف۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ عربی و اردو زبان کی نزاکت اور بیان کی لطافت سے خوب واقف تھے۔
یہ چند اوراق پریشاں نہایت بے سروسامانی اور عجلت میں لکھ رہا ہوں اور وہ بھی میرے نہایت محترم بزرگ اور کرم فرما مولانا عبداللہ مدنی؍حفظہ اللہ وتولاہ وبارک فی حیاتہ وشفاہ من کل مرض و داء۔کے بار بار اصرار پر سپرد قلم کررہا ہوں،جب کہ وہ خود صاحب قلم ہونے کے ساتھ ساتھ زود نویس ہیں،میں نے ان کا اشتیاق ان کے اصرار کے ساتھ دیکھااورمجھے یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ وہ اپنے اساتذہ سے کتنی محبت وعقیدت رکھتے ہیں، دل میں کتنی تڑپ اور کتنا درد رکھتے ہیں، باربار ہم جیسے طالب علم سے اصرار کرکے مضمون لکھوانا چاہتے ہیں اللہ ان کے اندر یہ صفت برقرار رکھے، یہ تو وہی صفت ہے جو علامہ محمد اسماعیل گجرنوالہ، علامہ محمد حنیف بھوجیانی،علامہ نذیر احمد رحمانی اور خود ہمارے استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ میں پائی جاتی تھی کہ اپنے سے چھوٹوں کو حصول تعلیم پر اکساتے تھے، ان کو لکھنے پڑھنے کی تحریک کرتے تھے، ترغیب دیتے اور خود ہی ہمت افزائی بھی فرماتے تھے جزاہم اللہ أحسن الجزاء، ایسے لوگ چراغ راہ ہوتے ہیں۔
چراغ سر رہگزر ہم کو سمجھو
نہ منزل، نہ ہم انجمن جانتے ہیں
ہمارے استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ متین اور سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے، نئی نسل کے محسن اور مربی تھے، ایک عظیم دانشور اور بالغ نظر انشاء پرداز ، مفکر، مدبر، مؤرخ، مدرس،منتظم، مصلح، داعی اور واعظ بھی تھے، یہ ساری چیزیں آپ کی تحریروں میں عیاں اور بیاں ہیں۔ آپ کی تحریروں، کتابوں اور ترجموں کا ایک خاص مقام ہے، ضرورت ہے کہ آپ کی تحریروں کو جمع کیا جائے اور ان پر ریسرچ کی جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے حسنات، نیکیوں اور اعمال خیر کو قبول کرکے ان کو اجر جزیل سے نوازے، آپ کی لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر فرماکر آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، اہل و عیال اور ہم سارے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے آمین۔