Sunday, 31 January 2010

ہوا بھی تیرے چراغوں کا رخ نہ موڑ سکی-عبدالعظیم سلفی جھنڈانگری


اللہ رب العالمین نے (قل هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون)(الزمر:۹) ارشاد فرماکر اہل علم کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی ہے اور اضافۂ علم کے لئے (وقل رب زدنی علما)(طٰہٰ:۱۱۴) یہ دعا بتلائی ہے۔
دین کے احکام ومسائل اور اس کا فہم وادراک یہ اللہ رب العالمین کی جانب سے ایک عظیم نعمت ہے اور بزبان رسالت مآب ﷺ ’’من یرد اللہ بہ خیرا یفقهه فی الدین‘‘ (متفق علیہ)اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے،خوشخبری سنائی گئی اور ان کا اٹھ جانا قرب قیامت کی ایک نشانی بیان کی ہے۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے صدر استاذ الاساتذہ حضرت علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ کی وفات سے علم وادب کی وہ محفل سونی ہوگئی جو تقریباً چالیس سالوں سے طالبان علوم دینیہ کو سیراب کررہی تھی، آپ نے عالمی شہرت یافتہ ادارہ جامعہ سلفیہ بنارس کو بحیثیت وکیل الجامعہ وقار بخشا، پھر رئیس الجامعہ کی حیثیت سے اسے بام عروج تک پہونچارہے تھے، آپ نے اپنے شاگردوں کی اس طرح تربیت اور رہنمائی فرمائی کہ آج سیکڑوں شاگرد عالم اسلام میں نمایاں مقام رکھتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور اپنے علم وفن کی وجہ سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
جامعہ سلفیہ بنارس میں زمانۂ طالب علمی میں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، بعد نماز عصر مختلف ضروریات کے تحت جب طلباء اور دوسرے اسٹاف بازاروں میں نکل جاتے، تقریباً پورا جامعہ خالی ہو جاتا ہم ازہری صاحب رحمہ اللہ کو لکھتے پڑھتے دیکھتے ،آپ نے اپنا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیا،وقت کی قدروقیمت کیا ہوتی ہے آج اس کا اندازہ ہوتا ہے، آپ عملی نمونہ بن کر طلبائے جامعہ کو اس کی اہمیت بتلایا کرتے تھے۔
                         ہوا بھی تیرے چراغوں کا رخ نہ موڑ سکی
                         خدا گواہ بڑا    مستقل مزاج     تھا        تو
اکثر وبیشتر نماز کی ادائیگی کے بعد آپ طلباء جامعہ کو اپنے مخصوص انداز میں خطاب کرتے اور ان کی ہر طرح رہنمائی فرماتے تھے،دوران نماز اگر کسی طالب علم کو اپنے کپڑے درست کرتے یا ادھر ادھر حرکت کرتے دیکھتے تو نماز کے بعد تنبیہ فرماتے اور کہتے ’’ تم لوگ نماز کے لئے آؤ تو پریس ساتھ لے کر آؤ، ایک سجدے سے اٹھو، اپنے شکن دور کرو،پھر دوسرا سجدہ کرو‘‘وہ نماز جو خشوع وخضوع سے دور ہو آپ کے لئے ناقابل برداشت ہوجایا کرتی تھی۔
اردو عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ آپ انگریزی زبان پر بھی قدرت رکھتے تھے ایک مرتبہ جلا وطن بدھشٹ مذہبی رہنما دلائی لامہ کی جامعہ آمد ہوئی تو ازہری صاحب رحمہ اللہ انگلش میں جامعہ کا تعارف کرارہے تھے۔
گذشتہ ۱۰،۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ جمعیۃ شبان المسلمین بجرڈیہہ کے اجلاس عام میں شرکت کے لئے دعوت نامہ موصول ہوا تو برادر محترم شیخ عبداللہ مدنیؔ جھنڈانگری حفظہ اللہ کے ہمراہ جامعہ سلفیہ بنارس کی زیارت کا بھی پروگرام طے ہوا، اجلاس عام کے بعد جامعہ کے ذمہ داران اور اساتذۂ کرام سے ملاقاتیں ہوئیں، جامعہ کا تذکرہ ہو اور ازہریؔ صاحب کا اس میں ذکر خیر نہ ہو یہ نہ صرف جامعہ کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے، کیونکہ جن جن حضرات نے جامعہ کے لئے اپنا خون جگر صرف کیا ، اسے ہر طرح سینچا اور پروان چڑھایا ہے ان میں ازہریؔ صاحب رحمہ اللہ بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔
آپ کی طبیعت کی ناسازگاری شروع ہوچکی تھی، آپ جماعت کے لئے مسجد میں نہیں آپارہے تھے، ان سے ملاقات کئے بغیر واپس آناہمارے لئے بڑی محرومی کی بات تھی۔اس لئے برادر محترم کے ہمراہ آپ کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، آپ ہر طرح ہشاش بشاش نظر آرہے تھے، لیکن بیماری اندر اندر جڑ پکڑ رہی تھی اور ہم بیمار کا حال اچھا سمجھ رہے تھے۔ آپ نے بے پایاں خوشی کا اظہار کیا اور مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال فرمایااور آئندہ مرکز کے زیر اہتمام پروگراموں میں شرکت کی یقین دہانی کرائی، آپ مرکز التوحیداور اس کے شعبہ جات سے مخلصانہ لگاؤ رکھتے تھے،۲۴؍اپریل ۲۰۰۶ء ؁ ریفریشر کورس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تو اپنے تاثرات کا اظہار کچھ اس طرح کیا:
حمد وصلاۃ کے بعد عرض ہے کہ مرکز التوحید نیپال کی ایک تدریسی تقریب میں مورخہ ۲؍ذی الحجہ ۱۴۱۶ھ ؁ کو محترم مولانا عبداللہ مدنیؔ صاحب کی دعوت پر شرکت کا شرف حاصل ہوا، اس بات سے اطمینان ہوتا ہے کہ جماعتی کوششوں سے اس علاقہ میں توحیدوسنت، دینی علوم اور تعلیم نسواں کا کام جاری ہے، مرکز التوحید کے صدر ان کے خاندان کے افراد اور علاقہ کے مخلص حضرات علوم دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، اس نوعیت کی کوششوں کا سلسلہ برابر جاری رکھنا ضروری ہے تاکہ ہمالہ کے پڑوس میں کتاب و سنت کی دعوت اس کی چوٹیوں سے بھی اوپر پہنچتی رہے اور اللہ کے بندوں کو یہاں سے توحید کا پیغام ملتا رہے۔(ماہنامہ’’ نور توحید‘‘ مئی ۱۹۹۶ء ؁)
آپ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے بترا ہاسپٹل دہلی منتقل کردیئے گئے، صدر مرکز التوحید نے حضرت مولانا عبدالوہاب صاحب خلجی حفظہ اللہ کے ہمراہ آپ کی عیادت فرمائی، لیکن زندگی آپ سے رخصت ہوا چاہتی تھی، ڈاکٹروں نے آپ کو گھر لے جانے کا مشورہ دے دیا، بذریعہ ایمبولینس دہلی سے مؤ لے جانے کا فیصلہ ہوا، آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر فوزان سلفیؔ لکچرر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے صدر مرکز برابر رابطے میں رہ کر ازہریؔ صاحب کی خیریت دریافت کرتے رہے اور اعیان جماعت کو اس کی اطلاع دیتے رہے، جمعہ کا مبارک دن جو مرد مومن کے لئے دینوی و دنیوی اعتبار سے بڑی اہمیت و فضیلت رکھتا ہے، مولانا نسیم اختر فیضیؔ کے ذریعہ یہ روح فرسا خبر موصول ہوئی کہ آپ اس دار فانی سے دار بقا کو کوچ کرگئے، پھر جس نے یہ خبر سنی ہر شخص مغموم نظر آرہاتھا اور اس کی زبان پر ’’إنا للہ وإنا الیہ راجعون‘‘ کے کلمات تھے۔ صدر مرکز جو اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁کے اواخر میںآپ سے دوبار ملاقات کرچکے تھے اور مختلف کانفرنسوں اور اجتماعات میں آپ کے شریک سفر تھے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت سے کیسے محروم رہ سکتے تھے، مرکز التوحید کے ایک وفد کے ساتھ آپ نے جنازے میں شرکت فرمائی، جہاں چہار جانب سے لوگوں کا زبردست ازدحام ایسا منظر پیش کررہا تھاکہ شہر مؤ نے ایسا منظر اپنی آنکھوں سے کم ہی دیکھا تھا۔جناب مولانا شاہد جنید سلفیؔ حفظہ اللہ نائب صدر جامعہ سلفیہ بنارس نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جماعت ثانیہ صدر مرکز کی امامت میں قبر کے سامنے ادا کی گئی۔
بارالٰہا تو اپنے اس مؤحد اور مخلص بندے کی مغفرت فرما اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کر۔


مرثيات-مختلف شعراء-ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازھری نمبر، نومبر ۲۰۱۰ء

Jamia salafia Ka Tarana- Azhari sahab No. Nov 2009

Sunday, 17 January 2010

الشيخ عبد المتين بن عبد الرحمن السلفي الى رحمة الله

فالشيخ عبد المتين بن عبد الرحمن السلفي كان جالسا اليوم السبت في الساعة احدى عشرة صباحا في مكتبه الواقع بكشن غنج فأحس الذهاب إلى دورة المياه لقضاء الحاجة فذهب إلى دورة المياه وقضى حاجته وبينما كان راجعا إلى المكتب إذ إرتعش جسده فحمله أحباءه بأقرب مستشفى كلية الطب الواقعة بكشن غنج ولكن وافته المنية وهو في الطريق الى المستشفى في الساعة احدى عشرة وخمس وأربعين دقيقة بعمر يناهز حوالى خمسة وخمسين وسيوارى جثمانه الثرى ظهر يوم الأحد بمسقط رأسه بهلكي بمديرية مالده بغرب البنغال وخلف وراءه أربعة أبناء وخمس بنات بالإضافة إلى زوجتين . وقد وفقه الله تعالى للأعمال الخيرية والعلمية ومن أكبر الأدلة عليها تأسيسه جامعة الإمام البخاري وجمعية التوحيد الخيرية . وقد سعدت بزيارة جمعية التوحيد التعليمية قبل عشر سنوات بمناسبة الدورة التدريبية التي عقدتها الجامعة الإسلامية في رجاب جامعة الإمام البخاري فرأيت كأن الشيخ أسس مدينة تعليمية في منطقة كشن غنج وفي الحقيقة هي مدينة تعليمية تسمى بـ معهد آباد ، فإن وفاة الشيخ عبد المتين بن عبد الرحمن السلفى رحمه الله رحمة واسعة ثلمة كبيرة لجماعة أهل الحديث عامة ولجامعة الإمام البخارى خاصة ،وكم كان الشيخ محبوبا لدى الإخوة العرب فقد رأينا عشرات المواقع تنشر نعى وفاته وتكتب الثناء عليه وجهوده المشكورة وبالمناسبة أدعو من الله العلي القدير أن يرحم الشيخ ويدخله فسيخ جناته ويلهم أهله الصبر والسلوان ويخلف إبنه البار الأخ الفاضل مطيع الرحمن المدني خيرا آمين والآن أترككم مع الشيخ ابومروان هاشم حتى يبين لكم عن الشيخ وجهوده المشكورة على موقع أهل الحديث
" كان - رحمه الله تعالى- من خريجي الجامعة السلفية ببنارس، ومن خريجي الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة، وصاحب أعمال بناءة، وادوار ريادية في مجالات التعليم، وحامل هموم في الدعوة، وفي النهوض بأبناء جلدته علماً واقتصاداً، فأسس "جمعية التوحيد التعليمية"، لنشر العلم والدعوة، وللانتشال بسكان منقطقته المقوقعين الغارقين في سبات عميق، ونشر عن طريقها شبكةً تعليمية، امتدت خيوطها واتسعت فروعها، فأحاطت بمجالات شتى في التعليم والتربية، فأنشأ "جامعة الإمام البخاري" لإخراج العلماء الدعاة إلى العقيدة الصحيحة، والتمسك بالكتاب والسنة، وأنشأ "كلية عائشة رضي الله عنها" لإخراج العالمات الداعيات إلى الله تعالى، وأنشأ "كلية الهندسة" للنهوض بأبناء المسملين مهنيا وتقنية، وأنشأ معهدا للأطفال لتأهيلهم في العلوم الحديثة تأهيلاً يستطيعون به مواكبة العصر الذي تميز بالانفجار المعرفي، وتعدد الجوانب في الحياة العلمية والتقنية، وأنشأ مجلة"بيام توحيد" بالأردية، لنشر عقيدة التوحيد في بلاد متعددة الديانات والمذاهب।وهكذا كان - رحمه الله تعالى- كله جدا ونشاطا، فأينما حل وأقام، ترك آثاراً ملموسة لجده ونشاطه في مجالات العلم والتعليم والدعوة، ومن هنا لما كان داعية مبتعثا في "بنغلاديش" من قبل "وزارة الشؤون الإسلامية" بالمملكة، ترك آثارا جلية في أكنافها، ومازلنا نرى له يداً واضحة في النهوض بجمعية أهل الحديث لعموم بنغلاديش إدارة وتوجيها. واشتغل - رحمه الله تعالى - بالتأليف والترجمة أيضاً، فألف كتبا باللغة البنغالية وبالأردية، كما ترجم كتباً من العربية إلى البنغالية، وهي كلها في شرح منهج السلف في العقيدة والعبادة والمعاملات. "

واليكم ترجمة موجزة للشيخ نشرتها عشرات المواقع العربية
الاسم: عبد المتين بن عبد الرحمن العنوان: جامعة الإمام البخاري، معهد آباد، ص. ب: 7 ، كشن غنج ـ 855107 ، بيهار ، الهندتاريخ الميلاد: 1/1/1954م
المؤهلات العلمية: (1) شهادة ممتاز المحدثين من المجلس التعليمي للمدارس العربية و الإسلامية بكلكتا، ولاية غرب البنغال (2) شهادة الفضيلة من الجامعة السلفية ببنارس، الهند (3) شهادة الليسانس من كلية الشريعة في الجامعة الإسلامية بالمدينة النبوية، المملكة العربية السعودية (4) شهادة الماجستير من جامعة دكا بنغلاديش
المناصب و الوظائف: (أ) مبعوث وزارة الشؤون الإسلامية و الأوقاف والدعوة و الإرشاد بالرياض في الهند (ب) رئيس جمعية التوحيد التعليمية في بيهار (ج) مدير جامعة الإمام البخاري (د) رئيس مجلس الإدارة في المدرسة العالية براحت فور غرب البنغال (هـ) العضوية في عدة مجالس بمديرية كشن غنج ، بيهار (و) رئيس جمعية خريجي الجامعات السعودية في الهند و النيبال (ز) العضوية في جمعية أهل الحديث بولاية بيهار، و كذلك المشرف العام للجمعية في مديرية كشن غنج، بيهار، و المشرف العام للمجلة الشهرية باللغة الأردية (بيام توحيد ـ رسالة التوحيد)، و المشرف العام للمجلة الشهرية باللغة البنغالية (توحيدير داك ـ دعوة التوحيد)
الخبرة: (1) الدعوة إلى الله من عام 1980م (2) التدريس في عدة جامعات من عام 1980م (3) التصنيف و التأليف و ترجمة الكتب و كتابة المقالات و البحوث في شتى اللغات (4) المشاركة في الدعوة بإذاعة المملكة، و الحوار عبر الهاتف في إذاعة الكويت، و قراءة المقالات العلمية في إذاعة بنغلاديش (5) إنشاء المراكز العلمية الإسلامية (6) بناء المشاريع الخيرية ما تهمها بالولايات الشرقية الشمالية و أهاليها (7) إنشاء الجمعيات للشباب و الشابات للدعوة إلى الله (8) إصلاح ذات البين و حل القضايا التي تواجهها أهل المنطقة (9) المشاركة في المؤتمرات و الندوات الداخلية و الخارجية.