مسلم خواتین کا موضوع بھی مغربی میڈیا کے لئے ایک پسندیدہ موضوع ہے۔ وہ مسلم خواتین کی ایسی تصویر پیش کرتاہے، جو اسلامی قوانین کے نام پر دبائی اور کچلی جاتی ہیں ، جو انتہائی مظلوم اور ستم رسیدہ ہیں اور جن کو انسانی حقوق نہیں دیے جاتے ۔ جن کو غلاموں کی طرح رکھا جاتا ہے اور جن پر پردے کا نظام تھوپ کر آزاد معاشرہ سے کاٹ کر الگ کردیا گیا ہے۔ میڈیا مظلوم مسلم عورت کی تصویر کشی کرکے یہ تاثر دیتا ہے کہ انسانی حقوق اور آزادی دلانا بہت ضروری ہے اسی لئے میڈیا ان آزاد خیال مسلم خواتین کی پشت پناہی اورحمایت کرتاہے ، جو مغربی تہذیب کی دلدادہ ہوں ۔ امریکہ کی سربراہی میں چل رہی انسداد دہشت گردی کی مہم میں مسلم خواتین کی آزادی دلانے کا نعرہ بھی لگایا گیا اورافغانستان پر امریکی حملے کے بعد امریکا کی خاتون اول نے اپنا ’’فرض منصبی ‘‘ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دہشت گردی مخالف جنگ خواتین کے حقوق اور عزت نفس کی بھی جنگ ہے اور اس بیان کو میڈیا نے خوب دکھایا۔
باؤلنگ گرین اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ سمیتا مشرا نے ایک بڑے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی گیارہ ستمبر 2001سے گیارہ ستمبر 2003کی فائل کا جائز ہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس ایک سال کے دوران اس اخبار میں مسلم خواتین سے متعلق مضامین اور رپورٹوں کی اشاعت پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوئی اور ان مضامین اور رپورٹوں میں مسلمانوں کی وہی تصوریر پیش کی گئی ہے جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے ۔
مسلم خواتین کے غم میں دبلامیڈیا :
امریکی اور یوروپی اخبارات کو مغربی خواتین کو تفویض حقوق واختیارات سے کہیں زیادہ دلچسپی مسلم خواتین کو’’بااختیار ‘‘بنانے سے ہے۔ میڈیا او رمغربی معاشرہ مسلم خواتین کو پردے سے باہر لانے میں آج سے نہیں صدیوں سے کوشاں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مسلم خواتین کا پردہ ان کی چادر اور ان کا حجاب ان کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے ، کھٹک رہاہے ، اور یہ کہ جب تک مسلم خواتین کو ’’بے پردہ ‘‘نہیں کردیا جائے گا ، اس وقت تک ان کو تمام قسم کے حقوق واختیارات تفویض نہیں کئے جاسکیں گے۔ مغرب کے خیال میں مسلم عورتوں سے ان کا پردہ چھین لینا اس کی بہت بڑی فتح اور اسلا م کی بہت بڑی شکست ہوگی ۔ حالانکہ بعض ایسے مغربی دانشوربھی ہیں جو اس رجحا ن کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ مغربی میڈیا نے انسانیت اور حقوق نسواں کے نام پر پردے کے خلاف ایک معاند انہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔
سمیتا مشرااپنی تحقیق میں بتاتی ہیں کہ ایک سال کے اندر نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ 136مضامین میں مسلم خواتین کا ذکر آیاہے۔اس اخبار کے بعدمسلم خواتین سیاسی تشدد اور اسلامی اصولوں کی شکار ہیں ۔ تاہم بعض مضامین میں کہا گیا کہ مسلم خواتین اسلامی ڈھانچے کے اندر تبدیلی اور مزاحمت کی علامت ہیں۔ اس نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد کس طرح امریکا میں مسلم خواتین کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے، مسلم خواتین کی ’’آزادی‘‘ کو صارفین کی آزادی سے بھی تعبیر کیا گیااور ان پرزوردیا گیا کہ ان کو بازاروں میں اور مارکیٹوں میں آزادی کے ساتھ جانے اوراپنی پسند کی چیزیں لینے کا حق ملنا چاہیے۔
گمراہ کن کوریج:
یوروپی اور امریکی اخباروں میں مسلم خواتین سے متعلق جو مضامین شائع ہوتے ہیں ان میں بتایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی تشدد کی شکار ہیں ، روانڈا ، نائجیریا، بوسنیا، مغربی کنارہ ، افغانستان اور صومالیہ وغیرہ کی مسلم خوتین کے بارے میں یہی کہانی پیش کی جاتی ہے،جیساکہ اوپر ذکرکیا گیا ہے مسلم خواتین کی نام نہاد آزادی کو صارفین سے جوڑا جاتا ہے ، او رخواتین جتنی زیادہ تعداد میں باہر نکلتی ہیں ، مغربی میڈیا کے خیال میں انہیں اتنی زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے۔ جب افغانستان پرامریکی فوجوں نے حملہ کیاتو ایک رپورٹر کو مسلم خواتین کی ’’آزادی‘‘ کی بو محسوس ہونے لگی ۔ کیونکہ اس کے خیال میں کابل کے بازاروں میں بیوٹی سیلون، فیشن ایبل ہےئر اسٹائیل اور آرائش وزیبائش کی دکانوں کی تعداد بڑھ گئی۔ نیویارک ٹائمز کا ایک رپورٹر اپنی رپورٹ میں جہاں ایسی دکانوں کی تعداد میں اضافے پر اپنی خوشی ظاہر کرتاہے ، وہیں اسے اس پر بہت رنج اور قلق ہے کہ اب بھی آرائش وزیبائش اور خوبصورتی کا تصویر ایک ذاتی او رنجی معاملہ بنا ہوا ہے ، اس کو اس پربہت دکھ ہے کہ مسلم معاشرے میں خواتین کا بناؤ سنگار ان کے گھروالوں یا ان کے شوہروں کے لئے ہے دوسروں کے لئے نہیں ۔ لیکن جب وہ یہ بیان کرتاہے ، کہ آج کابل میں ایسی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو بغیر برقعہ کے باہر نکل رہی ہیں ، او ربازاروں میں گھوم رہی ہیں ، تو اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی ۔ مغربی میڈیا جب مسلم خواتین کا ذکر کرتاہے تو اسکارف ، حجاب ،چادر اور پردہ جیسے الفاظ کابھی استعمال کرتاہے ، اور یہ دکھانے کی کوشش کرتاہے ، کہ وہ ان پردوں میں دنیا کی دیگر خواتین سے کہیں زیادہ پسماندہ اور پچھڑی ہوئی ہیں۔
میڈیا اسلام کو مردوں کی بالادستی والا مذہب بتاتا ہے اورکہتا ہے کہ مردوں کو عوام کے تمام طبقات پر مکمل اتھارٹی حاصل ہے ۔ وہ یہ بھی کہتاہے کہ اسلام خواتین کے ساتھ ناانصافی کرتاہے ، ان کے ساتھ امتیازبرتتا ہے ، اوریہ مسلم معاشرے میں خواتین کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ حالانکہ اس کا یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے ۔پیغمبر اسلام خواتین کے لئے بھی ایک عظیم مصلح بن کر آئے تھے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو خواتین کوزبردست حقوق دیتا ہے ۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج مسلم معاشرے میں خواتین کو وہ حقوق واختیارات نہیں مل رہے ہیں ، جو اسلام نے ان کودیے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ بذات خود اسلام خواتین کے ساتھ امتیازسے کام لیتا ہے ۔ اسلام نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے اور سیاسی ، معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کاحق دیاہے ۔اور ان کو ترکے میں حصہ دیا گیا ہے۔ لیکن میڈیا مسلم خواتین کی ایک منفی امیج پیش کرتا ہے اور اس کے قارئین ، ناظرین اورسامعین اس کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مغربی میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ تین مسلم ملکوں پاکستان،بنگلہ دیش،اور ترکی میں خواتین کو ایک محروم طبقہ قراردیتا ہے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ سچ بات یہ ہے کہ مغربی ملکوں میں خواتین کے ساتھ زیادہ ناانصافی اورزیادتی ہوتی ہے لیکن میڈیا اس کو پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
مغربی اور مسلم خواتین کا موازنہ:
مغربی میڈیا مسلم خواتین کی بات کرتا ہے تو وہ ایک اور جھوٹ بولتا ہے کہ مغربی خواتین کو اگر مردوں سے زیادہ نہیں تو کم ازکم ان کے مساوی حقوق حاصل ہیں، حالانکہ سچائی یہ ہے کہ مسلم خواتین کو مغربی خواتین کے مقابلے میں زیادہ بہتر قانونی حیثیت حاصل ہے ، مثال کے طور پر مغرب میں مسلم خواتین کے حجاب یا اسکارف کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے، اوراسے عورتوں پر ظلم سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ جبکہ مغربی معاشرے میں ان راہباؤں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتاہے جو کہ خود کو اپنے لباس سے مکمل طور پر ڈھکے رہتی ہیں لیکن جب تقریباً اسی طرح مسلم خواتین مکمل طورپر لباس میں ملبوس نظر آتی ہیں تو ان کو مظلوم بتایا جاتا ہے۔ اس مثال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کس طرح مغربی میڈیا ایک ہی معاملے میں دو الگ الگ پیمانے اپناتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ میں کس طرح کامیاب ہے۔ مغربی میڈیا مغربی خواتین کو آزاد اور مسلم خواتین کو استحصال زدہ قرار دیتا ہے جبکہ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو مغربی خواتین ہی استحصال زدہ نظرآئیں گی ۔ دراصل مسلم خواتین کا باپردہ لباس انہیں احترام اور عزت سے ہمکنار کرتاہے ، نہ کہ بے احترامی سے۔
اسی طرح خاندان کے اندر مسلم خواتین کو جومراعات حاصل ہیں وہ غیر مسلم خواتین کو حاصل نہیں ہیں۔ شریعت کے مطابق یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے اخراجات کا انتظام کرے۔ جبکہ مغربی معاشرے میں دیکھا گیاہے کہ میاں بیوی دونوں باہرکام کرتے ہیں تو مالی تعاون دے بلکہ اس سے مالی تعاون لیا جاتاہے ، بعض معاملات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مرد گھر میں رہتے ہیں اور خواتین باہر جا کر کام کرتی ہیں اور گھر خرچ چلانے کی ذمہ داری انہی کی ہوتی ہے ۔اسلام میں عورت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ گھر میں رہے اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی پرورش کرے اور مرد کماکر گھر چلائے ۔ مغربی میڈیا اس کو اس طرح پیش کرتاہے کہ مسلم خواتین کو معاشرے میں حقوق حاصل ہی نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغربی خواتین باہر جاکر اس لئے کام کرتی ہیں کہ وہ شوہر کا ہاتھ بٹا سکیں ۔یہ دلیل بعض معاملات میں توسچی ہوسکتی ہے لیکن ہرمعاملے میں نہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں عورتوں کو ملکیت کا حق ابھی بمشکل ایک صدی قبل ہی ملا ہے جبکہ اسلام نے خواتین کو ووٹ اور ملکیت کا حق چودہ سوسال قبل ہی دیدیا ہے۔ کہ مغربی معاشرہ میں عورتوں کو پراپرٹی سمجھا جاتاہے اور انہیں اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑیں اور چاہیں تو با پ کا نام جوڑدیں۔دراصل میڈیا ان چندمسلمانوں کے رویے کو دیکھ کر اسلام کی تصویر مسخ کرکے پیش کرتا ہے جو خواتین کے ساتھ امتیازی رویہ رکھتے ہیں اور اپنی قبائیلی یا ثقافتی قدروں کے سبب ایسا کرتے ہیں ۔ یہ بات واضح کی جانی چاہیے کہ ایسے مٹھی بھر مسلمان اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ جس طرح عیسائیوں اور یہودیوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنی مذہبی کتابوں پرپوری طرح عمل نہیں کرتے ۔اسی طرح مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ہیں۔
حجاب کے فوائد:
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دئیے ہیں وہ دوسری تہذیبوں یا مذہبوں میں نہیں دیے گئے ہیں ۔ اسلام نے درحقیقت خواتین کا درجہ بلند کیا ہے۔حجاب صرف عورتوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ان سے پہلے مردو ں کے لئے حجاب کا حکم دیا گیا ہے، مردوں کو حکم دیا گیا ، کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ کسی عورت پر پہلی نظر پڑجائے تو اپنی نگاہ نیچی کرلیں اوردوسری نظر نہ ڈالیں ۔اس کے بعد عورتو ں کو نگاہ نیچی رکھنے اورشرمگاہوں کے تحفظ کا حکم دیا گیا۔
حجاب عورتوں کوجہاں بے حیائی سے بچاتا ہے وہیں جنسی استحصال سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یہ مثال بہت عام ہے کہ اگر دوبہنیں باہر نکلیں اور ان میں سے ایک حجاب میں ہواور دوسری منی اسکرٹ اورٹاپ میں تو کوئی منچلا اسکرٹ والی لڑکی کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرے گا ۔ عورتوں کی عصمت دری کرنے والے کواسلام میں موت کی سزا کا حکم ہے ۔ اس پر بھی مغربی میڈیا ہائے توبہ مچاتا ہے او رکہتا ہے کہ اسلامی سزائیں بہت سخت ہیں اور بربریت پر مبنی ہیں۔ لیکن اگر مغرب کے کسی شخص سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی شخص ا س کی بہن ،بیٹی یا بیوی کی عزت لوٹ لے تو وہ کیا کرے گا۔ اس کا فوری جواب یہی ہوگا کہ وہ زانی کو مارڈالے گا ۔ بلکہ بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کو تڑپاتڑپا کر ماریں گے ۔ لیکن جب اسلام مو ت کی سزا کا حکم دیتا ہے تو اسے بربریت پرمبنی قراردے کر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق مسلم ملکوں کے مقابلے میں امریکا اور برطانیہ میں عصمت دری کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ واقعات امریکا میں ہو تے ہیں، ایف بی آئی رپورٹ کے مطابق امریکا میں 1990میں عصمت دری کے یومیہ 1756واقعات ہوئے تھے اوربعدمیں اس شرح میں اضافہ ہوتا گیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق بعدکے سالوں میں یہ تعداد 1900اور اس سے بھی زیادہ ہوگئی ۔ اگر امریکا یا یوروپ میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوجائے تو بلاشبہ وہاں کی خواتین کو جنسی استحصال سے بہت حد تک نجات مل جائے گی۔
عورت اورقدیم تہذیب:
اگر ہم تاریخ پر نظر دورڑائیں تو ماضی میں عورتوں کو عیش وعشرت کا سامان سمجھا جاتارہا ہے؟ تہذیب میں قوانین کی روسے عورتوں کو بھی کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے ۔ اگر کوئی شخص کسی عورت کو قتل کردیتا تھا تواسے سزا دینے کے بجائے اس کی بیوی کو قتل کردیا جاتا تھا ۔ یونانی تہذیب کوبہت ہی درخشاں تہذیب کہا جاتا ہے لیکن اس میں بھی عورتوں کو کوئی عزت حاصل نہیں تھی۔ یونانی روایت کے مطابق ایک خیالی عورت کو جس کانام ’’پنڈورا‘‘تھا،عذاب اوربدبختی کی جڑ سمجھا جاتا تھا ۔ یونان میں عورتوں کودوسرے درجے کا انسان سمجھاجاتا تھا اور معاشرے میں جسم فروشی ایک عام وبا کی شکل اختیار کر گئی تھی ۔ اسطرح رومی تہذیب میں بھی عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا تھا ۔ یہاں تک کہ کسی بھی مرد کو اپنی بیوی کی جان لینے کا اختیار تھا ۔ رومیوں میں جسم فروشی اور عریانیت عام با ت تھی ۔ مصری تہذیب میں عورتوں کو برائی اور شیطان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اور عرب میں اسلام کی آمد سے قبل عورتوں کوعیش وعشرت کی چیز بنادیا گیا تھا اور بچی کی پیدائش پراس کو زندہ دفن کردیا جاتاتھا۔
مغربی خواتین کا قبول اسلام:
لیکن آج میڈیا کے ذریعہ مسلم خواتین کے خلاف پرچار اورپروپیگنڈہ کے باوجود مغربی ملکوں میں بہت سی عورتیں اسلام قبول کررہی ہیں ۔ برطانیہ میں ایسی خواتین کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جو اسلام کے دامن میں پناہ ڈھونڈرہی ہیں۔ قبول اسلام کی شرح میں اضافہ کے پیش نظر یہ پیشین گوئی کی جانے لگی ہے کہ اسلام بہت جلد برطانیہ کا ایک انتہائی اہم مذہب بن جائے گا ۔ برطانیہ کی ایک مذہبی استاد اور قرآن کے بارے میں گائڈبک کی مصنف روز کینڈرک Rose Kondrickکہتی ہیں کہ آئندہ بیس برسوں میں قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد دوسرے ملکوں سے یہاں آنے والے مسلمانوں کی تعداد کے مساوی یا اس سے زیادہ ہوجائے گی۔لوسی بیرنگٹن (Lusy Berrington) کے مطابق اسلام مخالف میڈیا کوریج کے باوجود اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سلمان رشدی تنازعہ ، خلیجی جنگ اوربوسنیائی مسلمانو ں کی زبوں حالی قبول اسلام کے بڑے اسباب میں شامل ہیں مغرب میں ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اس کے باوجود برطانیہ میں خواتین سب سے زیادہ اسلام کی طرف جھک رہی ہیں ، امریکا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ وہاں اگر ایک مرد مسلمان ہورہا ہے توچارعورتیں اسلام قبول کررہی ہیں۔ برطانیہ میں گذشتہ چند برسوں میں تقریباً بیس ہزار کے قریب لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
برطانیہ کے شہر لیسسٹر (Leicester)میں ایک سروے کیا گیا ہے جس کے مطابق اسلام قبول کرنے والوں کی عمر تیس سے پچاس سال کے مابین ہے ۔ پندرہ سال قبل اسلام قبول کرنیوالی ایک امریکی ماہر نفسیات عالیہ ہائری کہتی ہیں کہ مغرب میں اسلام کی روشنی پھوٹ رہی ہے اور ہمار ے دور میں بہت سے لوگ اس روشنی سے استفادہ کررہے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جومغربی باشندے اسلام کی طرف آرہے ہیں وہ نئی سوچ اور نئے ذہن کے ساتھ آرہے ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب کی تقابلی تعلیم کے سبب بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ برطانوی میڈیا کی منفی رپورٹنگ بھی اس میں معاون ثابت ہورہی ہے ۔ مغربی معاشرے میں متعدد قسم کی برائیوں اور جرائم سے پریشان لوگ اسلام میں آکر خود کو محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ بہت سی ایسی عورتو ں کو بھی جو مذہبی اعتبار سے عیسائی تھیں اسلام میں آسودگی حاصل ہورہی ہے ۔ روز کینڈرک کے مطابق میں تھیالوجی کی طالبہ تھی اور تعلیمی قابلیت ولیاقت کے سبب میں نے اسلام قبول کیا ۔ یعنی جب اس نے اسلام کا مطالعہ کیا تو اسے سب سے اچھا مذہب پایا۔ اسی طرح39سالہ میمونہ بھی ایک مذہبی عیسائی تھی مگر اس کو بھی اس مذہب میں آسودگی حاصل نہیں ہوئی اور اس نے اسلام کے دامن میں پناہ ڈھونڈلی۔
مسلم لڑکیوں میں اعلی تعلیم کا رجحان بھی بہت تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے او رجہاں مسلم دوشیزائیں بڑی تعداد میں عالمہ بن رہی ہیں وہیں وہ ڈاکٹر ، انجینئر،ماہر معاشیات، پائلٹ، او رصحافی بھی بن رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ مسلم لڑکیوں میں اسلامی جذبہ بھی پروا ن چڑھ رہا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا کو ایسی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم خواتین نظر نہیں آتیں ۔ ہاں اگر کوئی خاتون مغربی تہذیب کی نمائندہ ہوتو وہ فوراً نظر وں میں آجاتی ہے اور میڈیا اس کی تعریف وستائش میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتاہے۔
***
باؤلنگ گرین اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ سمیتا مشرا نے ایک بڑے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی گیارہ ستمبر 2001سے گیارہ ستمبر 2003کی فائل کا جائز ہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس ایک سال کے دوران اس اخبار میں مسلم خواتین سے متعلق مضامین اور رپورٹوں کی اشاعت پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوئی اور ان مضامین اور رپورٹوں میں مسلمانوں کی وہی تصوریر پیش کی گئی ہے جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے ۔
مسلم خواتین کے غم میں دبلامیڈیا :
امریکی اور یوروپی اخبارات کو مغربی خواتین کو تفویض حقوق واختیارات سے کہیں زیادہ دلچسپی مسلم خواتین کو’’بااختیار ‘‘بنانے سے ہے۔ میڈیا او رمغربی معاشرہ مسلم خواتین کو پردے سے باہر لانے میں آج سے نہیں صدیوں سے کوشاں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مسلم خواتین کا پردہ ان کی چادر اور ان کا حجاب ان کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے ، کھٹک رہاہے ، اور یہ کہ جب تک مسلم خواتین کو ’’بے پردہ ‘‘نہیں کردیا جائے گا ، اس وقت تک ان کو تمام قسم کے حقوق واختیارات تفویض نہیں کئے جاسکیں گے۔ مغرب کے خیال میں مسلم عورتوں سے ان کا پردہ چھین لینا اس کی بہت بڑی فتح اور اسلا م کی بہت بڑی شکست ہوگی ۔ حالانکہ بعض ایسے مغربی دانشوربھی ہیں جو اس رجحا ن کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ مغربی میڈیا نے انسانیت اور حقوق نسواں کے نام پر پردے کے خلاف ایک معاند انہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔
سمیتا مشرااپنی تحقیق میں بتاتی ہیں کہ ایک سال کے اندر نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ 136مضامین میں مسلم خواتین کا ذکر آیاہے۔اس اخبار کے بعدمسلم خواتین سیاسی تشدد اور اسلامی اصولوں کی شکار ہیں ۔ تاہم بعض مضامین میں کہا گیا کہ مسلم خواتین اسلامی ڈھانچے کے اندر تبدیلی اور مزاحمت کی علامت ہیں۔ اس نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد کس طرح امریکا میں مسلم خواتین کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے، مسلم خواتین کی ’’آزادی‘‘ کو صارفین کی آزادی سے بھی تعبیر کیا گیااور ان پرزوردیا گیا کہ ان کو بازاروں میں اور مارکیٹوں میں آزادی کے ساتھ جانے اوراپنی پسند کی چیزیں لینے کا حق ملنا چاہیے۔
گمراہ کن کوریج:
یوروپی اور امریکی اخباروں میں مسلم خواتین سے متعلق جو مضامین شائع ہوتے ہیں ان میں بتایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی تشدد کی شکار ہیں ، روانڈا ، نائجیریا، بوسنیا، مغربی کنارہ ، افغانستان اور صومالیہ وغیرہ کی مسلم خوتین کے بارے میں یہی کہانی پیش کی جاتی ہے،جیساکہ اوپر ذکرکیا گیا ہے مسلم خواتین کی نام نہاد آزادی کو صارفین سے جوڑا جاتا ہے ، او رخواتین جتنی زیادہ تعداد میں باہر نکلتی ہیں ، مغربی میڈیا کے خیال میں انہیں اتنی زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے۔ جب افغانستان پرامریکی فوجوں نے حملہ کیاتو ایک رپورٹر کو مسلم خواتین کی ’’آزادی‘‘ کی بو محسوس ہونے لگی ۔ کیونکہ اس کے خیال میں کابل کے بازاروں میں بیوٹی سیلون، فیشن ایبل ہےئر اسٹائیل اور آرائش وزیبائش کی دکانوں کی تعداد بڑھ گئی۔ نیویارک ٹائمز کا ایک رپورٹر اپنی رپورٹ میں جہاں ایسی دکانوں کی تعداد میں اضافے پر اپنی خوشی ظاہر کرتاہے ، وہیں اسے اس پر بہت رنج اور قلق ہے کہ اب بھی آرائش وزیبائش اور خوبصورتی کا تصویر ایک ذاتی او رنجی معاملہ بنا ہوا ہے ، اس کو اس پربہت دکھ ہے کہ مسلم معاشرے میں خواتین کا بناؤ سنگار ان کے گھروالوں یا ان کے شوہروں کے لئے ہے دوسروں کے لئے نہیں ۔ لیکن جب وہ یہ بیان کرتاہے ، کہ آج کابل میں ایسی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو بغیر برقعہ کے باہر نکل رہی ہیں ، او ربازاروں میں گھوم رہی ہیں ، تو اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی ۔ مغربی میڈیا جب مسلم خواتین کا ذکر کرتاہے تو اسکارف ، حجاب ،چادر اور پردہ جیسے الفاظ کابھی استعمال کرتاہے ، اور یہ دکھانے کی کوشش کرتاہے ، کہ وہ ان پردوں میں دنیا کی دیگر خواتین سے کہیں زیادہ پسماندہ اور پچھڑی ہوئی ہیں۔
میڈیا اسلام کو مردوں کی بالادستی والا مذہب بتاتا ہے اورکہتا ہے کہ مردوں کو عوام کے تمام طبقات پر مکمل اتھارٹی حاصل ہے ۔ وہ یہ بھی کہتاہے کہ اسلام خواتین کے ساتھ ناانصافی کرتاہے ، ان کے ساتھ امتیازبرتتا ہے ، اوریہ مسلم معاشرے میں خواتین کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ حالانکہ اس کا یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے ۔پیغمبر اسلام خواتین کے لئے بھی ایک عظیم مصلح بن کر آئے تھے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو خواتین کوزبردست حقوق دیتا ہے ۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج مسلم معاشرے میں خواتین کو وہ حقوق واختیارات نہیں مل رہے ہیں ، جو اسلام نے ان کودیے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ بذات خود اسلام خواتین کے ساتھ امتیازسے کام لیتا ہے ۔ اسلام نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے اور سیاسی ، معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کاحق دیاہے ۔اور ان کو ترکے میں حصہ دیا گیا ہے۔ لیکن میڈیا مسلم خواتین کی ایک منفی امیج پیش کرتا ہے اور اس کے قارئین ، ناظرین اورسامعین اس کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مغربی میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ تین مسلم ملکوں پاکستان،بنگلہ دیش،اور ترکی میں خواتین کو ایک محروم طبقہ قراردیتا ہے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ سچ بات یہ ہے کہ مغربی ملکوں میں خواتین کے ساتھ زیادہ ناانصافی اورزیادتی ہوتی ہے لیکن میڈیا اس کو پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
مغربی اور مسلم خواتین کا موازنہ:
مغربی میڈیا مسلم خواتین کی بات کرتا ہے تو وہ ایک اور جھوٹ بولتا ہے کہ مغربی خواتین کو اگر مردوں سے زیادہ نہیں تو کم ازکم ان کے مساوی حقوق حاصل ہیں، حالانکہ سچائی یہ ہے کہ مسلم خواتین کو مغربی خواتین کے مقابلے میں زیادہ بہتر قانونی حیثیت حاصل ہے ، مثال کے طور پر مغرب میں مسلم خواتین کے حجاب یا اسکارف کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے، اوراسے عورتوں پر ظلم سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ جبکہ مغربی معاشرے میں ان راہباؤں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتاہے جو کہ خود کو اپنے لباس سے مکمل طور پر ڈھکے رہتی ہیں لیکن جب تقریباً اسی طرح مسلم خواتین مکمل طورپر لباس میں ملبوس نظر آتی ہیں تو ان کو مظلوم بتایا جاتا ہے۔ اس مثال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کس طرح مغربی میڈیا ایک ہی معاملے میں دو الگ الگ پیمانے اپناتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ میں کس طرح کامیاب ہے۔ مغربی میڈیا مغربی خواتین کو آزاد اور مسلم خواتین کو استحصال زدہ قرار دیتا ہے جبکہ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو مغربی خواتین ہی استحصال زدہ نظرآئیں گی ۔ دراصل مسلم خواتین کا باپردہ لباس انہیں احترام اور عزت سے ہمکنار کرتاہے ، نہ کہ بے احترامی سے۔
اسی طرح خاندان کے اندر مسلم خواتین کو جومراعات حاصل ہیں وہ غیر مسلم خواتین کو حاصل نہیں ہیں۔ شریعت کے مطابق یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے اخراجات کا انتظام کرے۔ جبکہ مغربی معاشرے میں دیکھا گیاہے کہ میاں بیوی دونوں باہرکام کرتے ہیں تو مالی تعاون دے بلکہ اس سے مالی تعاون لیا جاتاہے ، بعض معاملات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مرد گھر میں رہتے ہیں اور خواتین باہر جا کر کام کرتی ہیں اور گھر خرچ چلانے کی ذمہ داری انہی کی ہوتی ہے ۔اسلام میں عورت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ گھر میں رہے اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی پرورش کرے اور مرد کماکر گھر چلائے ۔ مغربی میڈیا اس کو اس طرح پیش کرتاہے کہ مسلم خواتین کو معاشرے میں حقوق حاصل ہی نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغربی خواتین باہر جاکر اس لئے کام کرتی ہیں کہ وہ شوہر کا ہاتھ بٹا سکیں ۔یہ دلیل بعض معاملات میں توسچی ہوسکتی ہے لیکن ہرمعاملے میں نہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں عورتوں کو ملکیت کا حق ابھی بمشکل ایک صدی قبل ہی ملا ہے جبکہ اسلام نے خواتین کو ووٹ اور ملکیت کا حق چودہ سوسال قبل ہی دیدیا ہے۔ کہ مغربی معاشرہ میں عورتوں کو پراپرٹی سمجھا جاتاہے اور انہیں اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑیں اور چاہیں تو با پ کا نام جوڑدیں۔دراصل میڈیا ان چندمسلمانوں کے رویے کو دیکھ کر اسلام کی تصویر مسخ کرکے پیش کرتا ہے جو خواتین کے ساتھ امتیازی رویہ رکھتے ہیں اور اپنی قبائیلی یا ثقافتی قدروں کے سبب ایسا کرتے ہیں ۔ یہ بات واضح کی جانی چاہیے کہ ایسے مٹھی بھر مسلمان اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ جس طرح عیسائیوں اور یہودیوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنی مذہبی کتابوں پرپوری طرح عمل نہیں کرتے ۔اسی طرح مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ہیں۔
حجاب کے فوائد:
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دئیے ہیں وہ دوسری تہذیبوں یا مذہبوں میں نہیں دیے گئے ہیں ۔ اسلام نے درحقیقت خواتین کا درجہ بلند کیا ہے۔حجاب صرف عورتوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ان سے پہلے مردو ں کے لئے حجاب کا حکم دیا گیا ہے، مردوں کو حکم دیا گیا ، کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ کسی عورت پر پہلی نظر پڑجائے تو اپنی نگاہ نیچی کرلیں اوردوسری نظر نہ ڈالیں ۔اس کے بعد عورتو ں کو نگاہ نیچی رکھنے اورشرمگاہوں کے تحفظ کا حکم دیا گیا۔
حجاب عورتوں کوجہاں بے حیائی سے بچاتا ہے وہیں جنسی استحصال سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یہ مثال بہت عام ہے کہ اگر دوبہنیں باہر نکلیں اور ان میں سے ایک حجاب میں ہواور دوسری منی اسکرٹ اورٹاپ میں تو کوئی منچلا اسکرٹ والی لڑکی کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرے گا ۔ عورتوں کی عصمت دری کرنے والے کواسلام میں موت کی سزا کا حکم ہے ۔ اس پر بھی مغربی میڈیا ہائے توبہ مچاتا ہے او رکہتا ہے کہ اسلامی سزائیں بہت سخت ہیں اور بربریت پر مبنی ہیں۔ لیکن اگر مغرب کے کسی شخص سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی شخص ا س کی بہن ،بیٹی یا بیوی کی عزت لوٹ لے تو وہ کیا کرے گا۔ اس کا فوری جواب یہی ہوگا کہ وہ زانی کو مارڈالے گا ۔ بلکہ بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کو تڑپاتڑپا کر ماریں گے ۔ لیکن جب اسلام مو ت کی سزا کا حکم دیتا ہے تو اسے بربریت پرمبنی قراردے کر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق مسلم ملکوں کے مقابلے میں امریکا اور برطانیہ میں عصمت دری کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ واقعات امریکا میں ہو تے ہیں، ایف بی آئی رپورٹ کے مطابق امریکا میں 1990میں عصمت دری کے یومیہ 1756واقعات ہوئے تھے اوربعدمیں اس شرح میں اضافہ ہوتا گیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق بعدکے سالوں میں یہ تعداد 1900اور اس سے بھی زیادہ ہوگئی ۔ اگر امریکا یا یوروپ میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوجائے تو بلاشبہ وہاں کی خواتین کو جنسی استحصال سے بہت حد تک نجات مل جائے گی۔
عورت اورقدیم تہذیب:
اگر ہم تاریخ پر نظر دورڑائیں تو ماضی میں عورتوں کو عیش وعشرت کا سامان سمجھا جاتارہا ہے؟ تہذیب میں قوانین کی روسے عورتوں کو بھی کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے ۔ اگر کوئی شخص کسی عورت کو قتل کردیتا تھا تواسے سزا دینے کے بجائے اس کی بیوی کو قتل کردیا جاتا تھا ۔ یونانی تہذیب کوبہت ہی درخشاں تہذیب کہا جاتا ہے لیکن اس میں بھی عورتوں کو کوئی عزت حاصل نہیں تھی۔ یونانی روایت کے مطابق ایک خیالی عورت کو جس کانام ’’پنڈورا‘‘تھا،عذاب اوربدبختی کی جڑ سمجھا جاتا تھا ۔ یونان میں عورتوں کودوسرے درجے کا انسان سمجھاجاتا تھا اور معاشرے میں جسم فروشی ایک عام وبا کی شکل اختیار کر گئی تھی ۔ اسطرح رومی تہذیب میں بھی عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا تھا ۔ یہاں تک کہ کسی بھی مرد کو اپنی بیوی کی جان لینے کا اختیار تھا ۔ رومیوں میں جسم فروشی اور عریانیت عام با ت تھی ۔ مصری تہذیب میں عورتوں کو برائی اور شیطان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اور عرب میں اسلام کی آمد سے قبل عورتوں کوعیش وعشرت کی چیز بنادیا گیا تھا اور بچی کی پیدائش پراس کو زندہ دفن کردیا جاتاتھا۔
مغربی خواتین کا قبول اسلام:
لیکن آج میڈیا کے ذریعہ مسلم خواتین کے خلاف پرچار اورپروپیگنڈہ کے باوجود مغربی ملکوں میں بہت سی عورتیں اسلام قبول کررہی ہیں ۔ برطانیہ میں ایسی خواتین کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جو اسلام کے دامن میں پناہ ڈھونڈرہی ہیں۔ قبول اسلام کی شرح میں اضافہ کے پیش نظر یہ پیشین گوئی کی جانے لگی ہے کہ اسلام بہت جلد برطانیہ کا ایک انتہائی اہم مذہب بن جائے گا ۔ برطانیہ کی ایک مذہبی استاد اور قرآن کے بارے میں گائڈبک کی مصنف روز کینڈرک Rose Kondrickکہتی ہیں کہ آئندہ بیس برسوں میں قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد دوسرے ملکوں سے یہاں آنے والے مسلمانوں کی تعداد کے مساوی یا اس سے زیادہ ہوجائے گی۔لوسی بیرنگٹن (Lusy Berrington) کے مطابق اسلام مخالف میڈیا کوریج کے باوجود اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سلمان رشدی تنازعہ ، خلیجی جنگ اوربوسنیائی مسلمانو ں کی زبوں حالی قبول اسلام کے بڑے اسباب میں شامل ہیں مغرب میں ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اس کے باوجود برطانیہ میں خواتین سب سے زیادہ اسلام کی طرف جھک رہی ہیں ، امریکا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ وہاں اگر ایک مرد مسلمان ہورہا ہے توچارعورتیں اسلام قبول کررہی ہیں۔ برطانیہ میں گذشتہ چند برسوں میں تقریباً بیس ہزار کے قریب لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
برطانیہ کے شہر لیسسٹر (Leicester)میں ایک سروے کیا گیا ہے جس کے مطابق اسلام قبول کرنے والوں کی عمر تیس سے پچاس سال کے مابین ہے ۔ پندرہ سال قبل اسلام قبول کرنیوالی ایک امریکی ماہر نفسیات عالیہ ہائری کہتی ہیں کہ مغرب میں اسلام کی روشنی پھوٹ رہی ہے اور ہمار ے دور میں بہت سے لوگ اس روشنی سے استفادہ کررہے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جومغربی باشندے اسلام کی طرف آرہے ہیں وہ نئی سوچ اور نئے ذہن کے ساتھ آرہے ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب کی تقابلی تعلیم کے سبب بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ برطانوی میڈیا کی منفی رپورٹنگ بھی اس میں معاون ثابت ہورہی ہے ۔ مغربی معاشرے میں متعدد قسم کی برائیوں اور جرائم سے پریشان لوگ اسلام میں آکر خود کو محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ بہت سی ایسی عورتو ں کو بھی جو مذہبی اعتبار سے عیسائی تھیں اسلام میں آسودگی حاصل ہورہی ہے ۔ روز کینڈرک کے مطابق میں تھیالوجی کی طالبہ تھی اور تعلیمی قابلیت ولیاقت کے سبب میں نے اسلام قبول کیا ۔ یعنی جب اس نے اسلام کا مطالعہ کیا تو اسے سب سے اچھا مذہب پایا۔ اسی طرح39سالہ میمونہ بھی ایک مذہبی عیسائی تھی مگر اس کو بھی اس مذہب میں آسودگی حاصل نہیں ہوئی اور اس نے اسلام کے دامن میں پناہ ڈھونڈلی۔
مسلم لڑکیوں میں اعلی تعلیم کا رجحان بھی بہت تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے او رجہاں مسلم دوشیزائیں بڑی تعداد میں عالمہ بن رہی ہیں وہیں وہ ڈاکٹر ، انجینئر،ماہر معاشیات، پائلٹ، او رصحافی بھی بن رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ مسلم لڑکیوں میں اسلامی جذبہ بھی پروا ن چڑھ رہا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا کو ایسی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم خواتین نظر نہیں آتیں ۔ ہاں اگر کوئی خاتون مغربی تہذیب کی نمائندہ ہوتو وہ فوراً نظر وں میں آجاتی ہے اور میڈیا اس کی تعریف وستائش میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتاہے۔
***
No comments:
Post a Comment