Tuesday 1 June, 2010

Noore-Tauheed, Al-kitab, Alhikma, May 2010


عہد زفاف کی بے اعتدالیاں- Editorial-May,2010

شعور و آگہی : عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری
 
عہد زفاف کی بے اعتدالیاں

یہ ایام معاشرتی تقریبات کے حوالے سے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں، سخت گرمی کے باوجود بعض مصالح کی بنا پر نکاح کی مجلسیں انہی دنوں میں قائم کی جاتی ہیں،خوشی ہوتی ہے کہ ایک شخص کو اللہ نے بیٹے یا بیٹی کے عقد نکاح کی توفیق بخشی اور وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہورہا ہے،ظاہر ہے ہر باپ ہرولی اور سرپرست کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ رشتے اچھے ملیں مگر ’’اچھے پن‘‘کا معیار کیا ہو، یہیں ایک مسلمان بے اعتدالی کا شکار ہوکر اسلام کے مطلوب معیار سے اپنے آپ کو دور کرلیتا ہے، پھر الجھنیں پیداہوتی ہیں اور بسا اوقات رشتوں میں کڑواہٹ کے ساتھ دو گھرانے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتے ہیں۔
ہمارے مذہب نے رشتوں کے معیار کی وضاحت کردی ہے، جسے پیش نظر رکھ کر ہمارا معاشرہ ظفر مندی سے ہم کنار ہوتا اورہم ہر فتنہ و فساد سے محفوظ رہتے۔
کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ ہر نوجوان کسی چاند کے ٹکڑے کا خواب دیکھتا ہے، ماں باپ ایسی بہو کی تلاش میں شب وروز ایک کئے ہوتے ہیں کہ جو جمال و بے مثال ہو اور فیملی ریچ ہوتاکہ دوسروں کے مقابلے میں سربلند رہیں اور گھر کی خالی جگہ فرمائش کے مطابق نفیس اشیاء سے پرہوسکے۔مادہ پرستی کے اس دور میں دینداری کا معیارنظر انداز کرنے پر کوئی تلا ہوا ہے۔
بھک منگائی کی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں، جہیز کے مطالبات میں اضافہ مختلف انداز میں ہورہا ہے، نام اور تاریخ دیکھنے کے بعد پھینک دیا جانے والاقیمتی کارڈ بڑکپن کی نمائش کا حصہ بنتا جارہا ہے، بڑے لوگ دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے اس فضول خرچی کو روا سمجھ بیٹھے ہیں، براتیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، گاڑیاں سو کی حد پار کررہی ہیں، ان ڈرائیورس پر ایک براتی سے زیادہ صرفہ ہوتا ہے، وہ کھانا بھی کھاتے ہیں، لڑکی والوں کو انہیں ’’وداعی‘‘ دینے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے، تماشا یہ کہ ان کا شمار براتیوں میں نہیں ہوتا، بالعموم لوگ طے شدہ تعداد سے زیادہ بلکہ بعض مقامات پر دوگنا براتی لے جاتے ہیں۔ تہذیب جدید کی یہ وبا بھی ہم پر اپنا سایہ ڈال چکی ہے کہ خواتین بے حجابی کی تمام تر بلاؤں کے ساتھ براتوں میں شریک ہورہی ہیں، خواہ میزبان کے گھر میں ان کے مناسب قیام کا نظم ہو یا نہ ہو۔
ان ساری بے اعتدالیوں میں اہل دولت و ثروت کے شانہ بشانہ مقتدر رہنمایان ملت اورنامی گرامی علماء و دعاۃ فخر کے ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔إلا ماشاء اللہ۔
کاش کوئی بڑا بزنس مین، کوئی ریچ فیملی کوئی دولت مند نامور عالم دین آگے آئے اور اپنے گھر میں ہونے والی ایسی کسی تقریب کو کم خرچ اور پوری سادگی کے ساتھ انجام دے کر ملت کے لئے نمونہ بن سکے۔ یہ سماجی خرابیوں کے خلاف جہاد ہوگا۔ اس وقت ایسے ہی جہاد کی ضرورت ہے۔

استاذ محترم کی علمی پہچان-May, 2010

مولانا عبدالمعید مدنیؔ
استاذ محترم کی علمی پہچان
 
جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؔ رحمہ اللہ نے اپنے پیچھے ایک معتدبہ علمی ترکہ چھوڑا ہے، اردو زبان میں بھی اور عربی زبان میں بھی، ان کا یہ علمی ترکہ ہزاروں صفحات پر پھیلا ہوا ہے انہوں نے درجنوں کتابیں تالیف اور ترجمے کی شکل میں ملت و جماعت کو دی ہیں، ہزاروں صفحات پر پھیلے کتابوں کے مقدمے ہیں، ہزاروں صفحات پر مشتمل عربی اور اردو مضامین اور مقالے ہیں۔
یہ سب کیسے ہو پایا اور انہوں نے اتنا کچھ کیسے لکھا؟ اپنی علمی کار کردگی کے حساب سے وہ اپنے ہم عصروں میں سب سے آگے نکل گئے، ایسا بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں ان کے دوسرے ہم عصر علمی اور ذہنی قابلیت میں ان سے کہیں آگے تھے لیکن وہ اپنی علمی سرگرمیوں میں ازہری صاحب سے کہیں پیچھے ہیں، اس تقدم اور سبقت اور نمایاں کارکردگی کا سبب کیا ہے، ہمیں اس کے تین نمایاں اسباب نظر آتے ہیں (۱) انضباط وقت (۲)انضباط حیات (۳)انضباط عمل۔
میں نے انہیں جب سے جانا اور جب بھی دیکھا یہی دیکھا کہ ان کی ترجیحات میں مطالعہ اور تصنیف و تالیف داخل ہے اسی طرح آفس کے کاموں کو انجام دینے میں بھی مکمل نظم و ضبط کا اہتمام، انہیں کبھی مشکل سے جامعہ کی چہار دیواری سے باہر جاتے ہوئے دیکھا گیا، سارا وقت ضروریات حیات کے بعد صرف تحریری کاموں کے لئے وقف۔
ڈاکٹر رحمہ اللہ نے انضباط وقت کا اہتمام کیا اور انضباط حیات کا بھی ۔ اوردونوں میں کامیاب رہے، انضباط وقت کا اتنا اہتمام کہ جامعہ میں جب بھی ان کی آفس سے گذر ہوا، لکھنے پڑھنے میں مصروف ۸؍بجے سے ۲؍بجے تک پھر عصر کے بعد سے مغرب تک اور بسا اوقات عشاء کے بعد بھی، انہوں نے وقت کی پابندی کی اور جامعہ کی تسہیلات سے بھرپور استفادہ کیا اور جامعہ کے رہنما ورہبر بن گئے اور اپنی اس قیادت کے سبب ملک و بیرون ملک علمی و جماعتی حلقوں میں اپنی پہچان بنا لے گئے، کیا اور کیوں سے بحث نہیں، بحث اس سے ہے کہ انضباط وقت سے انسان کیا کچھ حاصل کرلیتا ہے اور کہاں تک وہ پرواز کرسکتا ہے ان کو جامعہ نے پہچان دی، اور اسٹیج بھی، اخذ و عطا کا یہ سلسلہ آخری لمحے تک جاری رہا، اس پہچان کے سبب انہیں دنیا کے بے شمار خطوں میں بارہا جانے کا اور افادہ واستفادہ کا موقع ملا۔
وقت کے انضباط کا ان کو اتنا اہتمام تھا کہ کبھی انہیں لوگوں نے وقت کو ضائع کرتے نہیں دیکھا، ان کے انضباط وقت پر نہ موسم اثر انداز ہوتا تھا نہ گھریلو اور شخصی ضرورتیں، وقت کے انضباط کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہے، بہت سی خواہشوں کو ختم کرناپڑتا ہے، زندگی کی سرگرمیوں میں ترجیحی رویہ اپنانا پڑتا ہے، انہماک اور توجہ کو کام میں لانا پڑتا ہے، ازہری رحمہ اللہ نے یہ سارے جتن کئے اور وقت کی پابندی کا پورا نظم قائم کیا۔
انضباط وقت سے انسان کے کام میں سلیقہ مندی اور سوچ میں نظم و ترتیب آجاتی ہے، یہ ایسی حقیقت ہے کہ اسے ہر شخص محسوس کرسکتا ہے، اس انضباط وقت کے نتیجے میں ازہری رحمہ اللہ کے ہر کام میں سلیقہ مندی اور سوچ میں نظم و ترتیب موجود تھی ، ان کی آفس میں قدم رکھ کر کوئی بھی اس خوبی کو محسوس کرسکتا تھا، صفائی ستھرائی ، نظم و ضبط ترتیب و تہذیب ہر شے میں نمایاں۔ بدنظمی پھوہڑ پن بے ذوقی کا کہیں کسی جگہ نام و نشان نہیں۔ ان کی ایک سطری تحریر میں بھی صفائی نظم اور سلیقہ مندی بولتی تھی۔
انضباط وقت کی طرح انضباط حیات میں بھی وہ منفرد تھے اور اپنے ہم عصروں میں سب سے نمایاں تھے، انضباط حیات میں خود انسان کی اپنی طرز زندگی، روز مرہ سرگرمیاں خاص کر آتی ہیں پھر اس سے منسلک گھریلوو سماجی سرگرمیاں ہوتی ہیں، انضباط حیات کے تحت انہوں نے اپنی ذہنی صلاحیت سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی اور اپنی گھریلو زندگی کی کشتی ایسی مہارت سے کھیتے رہے کہ آل و اولاد ، بھائی اور رشتہ دار جس کے اوپر سایہ فگن رہے سب ساحل بکنار ہوگئے اور اعلیٰ تعلیم سے مزین ہوگئے، اس دور میں کم ہی ایسے لوگ ملتے ہیں جو اپنوں کو اس خوش اسلوبی سے کامیابی کی راہ پر گامزن کرسکیں، یہ آسان کام نہیں ہے بڑی پتہ ماری کا کام ہے، یہ بات مشاہدہ میں ہوگی کہ بڑے بڑے گھن گرج کے لوگ ہوتے ہیں مگر چراغ تلے اندھیرا ، انسان ذاتی اور گھریلو کامیابی حاصل کرتے ہوئے خود اعتمادی حاصل کرلیتا ہے اور پھرعویصات کے حل کرنے میں اسے ماہر سمجھا جاتا ہے اور سماج میں اسے وقعت حاصل ہو جاتی ہے، انہیں انضباط وقت ، انضباط حیات فکر و خیال اور طرز زندگی میں ٹھہراؤ کے سبب اور دیگر معاون اسباب کی بنا پر اور جامعہ سلفیہ کی قیادت کی بنا پرازہریؔ رحمہ اللہ کی حیثیت جماعتی حلقوں میں تسلیم شدہ بن گئی۔ اور پھر آج کے دور میں جو جمالے جائے وہ جم جاتا ہے پھر کسی کو کیا اور کیوں کرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔
ازہری رحمہ اللہ کی ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ وہ لگاتار اور مسلسل محنت کے عادی تھے اور اسقدر محنت کرتے تھے کہ جو کام اپنے ذمہ لے لیتے تھے اسے حتی الامکان خوش اسلوبی سے پورا کرتے تھے، مسلسل محنت اور لگاتار جدوجہد ان کی زندگی کی پہچان تھی، محنت سے انسان سرفراز ہوتا ہے اور لگاتار محنت سے وہ کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتا چلا جاتا ہے اور محنت کے شیریں پھل اسے مل جاتے ہیں۔
چالیس سالوں تک ان کی لگاتار اور مسلسل محنت کا ثمرہ سامنے ہے وہ اپنے کاز میں کامیاب ہیں اور شاندار انداز میں کامیاب ہیں، آدمی دولت جمع کرلے بہت کتابیں لکھ ڈالے بڑا نام کما لے یہ کامیابی نہیں، انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ جس کام میں لگا ہے اور جس ماحول میں رہ رہا ہے ان میں اس کے اثرات قائم ہوجائیں اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں، اس ناحیئے سے ازہری رحمہ اللہ اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ کامیاب تھے اور کامیابی ان کی ذات ان کے گھر تک اور ان کے متعلقین تک پھیلی ہوئی تھی۔
ازہری صاحب کی زندگی کی سب سے نمایاں کارکردگی ان کی نگارشات ہیں اور نگارشات بھی اردو اور عربی دو زبانوں میں ہیں اور قریب قریب دونوں زبانوں کی تحریریں حجم میں بھی یکساں ہیں اور اسلوب و لب و لہجے میں بھی یکساں رنگ رکھتی ہیں، تحریریں انسان کی علمی فکری اور اخلاقی صلاحیتوں کا آئینہ ہوتی ہیں، عموماً ان کی طبیعت پر سکون ہوتی تھی،ٹھہراؤاور دھیمے پن کی حامل تھی اور وہ ہر شے میں بڑا نپاتلا سوچا سمجھا قدم اٹھانے کے عادی تھے، اس عادت کی آئینہ دار ہیں ان کی تحریریں ان کی معروف انتظامی سرگرمیوں کے برعکس ہر قسم کے تنازع سے پاک اور صلح کل والی ہوا کرتی تھیں، ان کا تال میل دانشور طبقہ سے بنا رہتا تھا، نیز ان کی منصبی ذمہ داری بھی تھی اور انسان کے اپنے اہداف و مقاصد بھی ہوتے ہیں، اس لئے ان کا اپنا رویہ بن گیا تھا اور دائرہ فکر و نظر اور تحریر و نگارش بھی ، ان تمام کی چھاپ ان کی تحریروں پر ہوئی ہے۔
فکری و فنی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ان کی تحریریں قابل قدر ہیں ان کی تحریر فنی اعتبار سے سادگی و پرکاری کے دائرے میں آتی ہے حشوو زوائد سے پاک صاف تحریر، دونوں زبانوں کی تحریروں میں ان کا اپنا خاص انداز ہے اور پوری جماعت میں ان کی الگ پہچان، جماعت میں ان کی طرح کسی کی الگ متعین پہچان نہیں ہے اور یہ انہیں کثرت ممارست اور توجہ و اہتمام سے حاصل ہوئی ہے، ان کی دونوں زبانوں کی تحریروں میں پختگی پائی جاتی ہے اور علمی کاموں کے لئے مناسب طرز تحریر، ان ناحیوں سے ہم ہمیشہ ان کے قدر دان رہے، اور ان کے تمام دوسرے ہم عصروں پر انہیں ترجیح دیتے رہے۔
اہل حدیث علماء میں اس وقت جس قدر عربی قلم کار ہیں اور جس قدر اچھی عربی لکھ سکتے ہیں دوسرے حلقوں میں نہ ان کے مقابلے میں اچھے قلم کار ہیں ، نہ ان سے زیادہ قلم کار ہیں، لیکن ان خبایا کو سامنے آنے، نکھرنے اور سنورنے اور اپنا کام کرنے کا نہ کوئی پلیٹ فارم ہے نہ ان کے لئے کوئی راستہ ہے نہ منزل، ساری تسہیلات علمیہ جگلروں کے ہاتھ میں ہیں جو ان پر کنڈلی مارے بیٹھے ہوئے ہیں۔
استاذ محترم نے چالیس سال تک عربی تحریر کا شغل جاری رکھا اس میں کبھی ناغہ نہ ہوا، جامعہ کی ساری سہولتیں ان کے ساتھ تھیں انہیں ہر طرح کی علمی و مادی سہولتیں حاصل تھیں، جامعہ سے انہیں عالمی و عربی پلیٹ فارم ملا ہوا تھا، ان کے پاس حوصلہ اور جذبہ تھا،کام کرنے کا سلیقہ بھی ملا تھا، انہوں نے ان سب کا بھرپور فائدہ اٹھایا اس طرح زندگی بھر ان کی تحریریں شاداب رہیں اور ان کے عزم و حوصلے بھی تاباں رہے اور مخالف ماحول میں بھی انہیں کام کرنے کا یارا رہا، یہ بڑی خوبیاں ہیں جو انسان کو باکار کار آمد اور زندہ و سر سبز بنادیتی ہیں۔ اور لوگ قدردان بھی بنتے ہیں، انہوں نے عظیم علمی مقاصد کی خاطر خون دل جلایاہے، وقت کی قربانی دی ہے، ساری صلاحیتوں کو جھونک دیا ہے تب ان کی شخصیت مسلم ہوئی ہے اور یہ عظیم کام سب کے بس کانہیں ہے۔
چالیس سال کی عربی تحریریں اداریئے، مقالات، کانفرنسوں کے تحریر کردہ بحوث، کتابوں کے ترجمے، عربی کتابوں کے مقدمے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، ان کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں، عجمی ماحول میں عربیت کی شمع جلائے رکھنا صحرا میں چراغ جلانے کے مترادف ہے، ہندوستانی ثقافت سے عرب دنیا کو آگاہ رکھنا کتاب و سنت کی زبان کو رواج دینا اور قابل نمونہ بن جانا بڑی بات ہے، اس وقت مختلف موضوعات پر عربی زبان میں ان سے زیادہ کس کی صحافتی تحریر ہوگی کم ازکم ہندوستانی اہل حدیثوں میں وہ سب پر فائق ہیں۔
استاذ محترم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی علمی و ادبی نگارشات مختلف موضوعات پر ہیں لیکن اصلا ان کا رجحان تعلیم اور ادب کی طرف تھا اور ادب و زبان سے ملا جلا کام ترجمے کا ہے، ان کی زیاد تر تحریریں تعلیم و ادب پر ہیں اور ترجمہ ہیں انہوں نے کئی کتابوں کو عربی کا لباس پہنایا ہے اور کئی عربی کتابوں کو اردو کا لباس پہنایا ہے اور فارسی کی ایک کتاب کو عربی کا لباس پہنایا ہے انہیں ترجمہ کرنے میں بڑی مہارت ہوگئی تھی، زندگی بھر کا یہ مشغلہ ان کے لئے بہت دلچسپ مشغلہ تھا، اصحاب بصیرت قلم کاروں اور مصنفوں کی کتابوں کا ترجمہ بسا اوقات تصنیف سے زیادہ کارآمد ہوتا ہے، استاذ محترم نے جن علماء کرام کی کتابوں کا ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کیا ہے وہ اعاظم علماء سلف میں ہیں ان کی فہرست ملاحظہ ہو علامہ ابن تیمیہ، علامہ قاسمی، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور عربی میں جن علماء کی کتابوں کا ترجمہ ہوا وہ ہیں علامہ گجرنوالہ، شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ، قاضی صاحب منصور پوری رحمہم اللہ۔ ادب میں انہوں نے شوقی ضیف کو اپنا رہنما بنایا اور ان کے ادبی افکار و آراء کو اردو قالب میں ڈھالا۔
ان کے سوا کچھ ناقابل ذکر لوگوں کی کتابوں کو عربی یا اردو زبان میں ڈھالا جیسے عبدالحلیم عویس، نثار فاروقی، یٰسین مظہر اور تقی امینی و عباس محمد عقاد، یہ کتابیں جن کا اردو یا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ رعایت و مروت کے تحت ہوگیا ورنہ وہ قابل اعتناء نہ تھیں، انسان کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں اور ایسے لمحات بھی اور ناقابل ذکر اسباب ہوتے ہیں جن کے تحت مرضی کے خلاف بھی انسان کو کام کرنا پڑتا ہے یا انسان کو رہنا پڑتا ہے، ہر انسان کی زندگی کے ساتھ ایسے واقعات جڑے ہوتے ہیں لیکن اس سے انسان کے دیگر کمالات کی نفی نہیں ہوتی ہے۔
بہرحال ازہری رحمہ اللہ کا ترجمہ اردو میں یا عربی میں صاف ستھرا اورواضح ہوتا تھا، ترجمہ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں، لیکن مستند ترجمہ سب کا انہیں ہوتا ہے ، مستند ترجمہ مستند علم والوں کا ہی ہو سکتا ہے اور پھر مزاولت ریاضت اور محنت اسے نکھاردیتی ہے اور یہ سب ترجمہ کے لئے ضروری ہیں اور وہ ان سے بہرہ مند تھے، کتابوں کے سوا انہوں نے بے شمار مضامین کا بھی اردو سے عربی اور عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے، عموماً ان کے ترجموں کو پسند کیا گیا اور انہیں قبولیت کا درجہ بھی ملا اور بہت سی علمی و ثقافتی چیزیں جو اردو میں تھیں ان سے اہل عرب آگاہ ہوئے۔
ترجمہ کے سوا انہوں نے ادب اور تعلیم پر بہت کچھ لکھا، ہندوستانی عصری جامعات کو سیمیناروں کے لئے انہوں نے عربی یا اردو میں ادب پر بہت سے مقالے تیار کئے۔ شعر فہمی کا بھی انہیں ذوق ملا ہوا تھا، انہوں نے کئی شعراء کے مجموعہ کلام پر تبصرہ کیا اور مقدمہ لکھا ہے۔
تعلیم کے مسائل پر ان کی خاص توجہ تھی، تعلیمی کانفرنسوں میں انہوں نے بہت سے مقالے لکھے ہیں اور خود جامعہ سلفیہ کے نصاب تعلیم کی ترتیب، اہل مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ میٹنگیں، جامعہ سلفیہ کے ساتھ الحاق مدارس کا خاکہ اور ان کے لئے تعلیمی رہنمائی کا انہوں نے مسلسل اہتمام کیا، تعلیمی مسائل ان کی ترجیحات میں داخل تھے، ان کے تعلیمی افکار کیا تھے اور موجودہ صورت حال میں وہ کیا چاہتے تھے تفصیلی طور پر کچھ زیادہ کوئی چیز موجود نہیں ہے لیکن یہ چیز نمایاں ہے کہ جماعتی مدارس میں اصلاح نصاب اور ترتیب نصاب کے لئے انہوں نے انتھک محنت کی اور خود بھی اصول فقہ کے لئے ارشاد الفحول کی تلخیص حصول المامول کے نام سے کی اور علوم القرآن پر سیوطی کی مشہور کتاب الاتقان کی ترتیب و تہذیب کی۔ اور بڑی حد تک جامعہ کے اساتذہ کی مشترکہ کوششوں سے جامعہ سلفیہ کا نصاب تیار کیا، اکثر اہل حدیث مدارس میں جامعہ ہی کا نصاب چلتا ہے، اس سے ہمیں بحث نہیں کہ نصاب کیسا ہے؟ اور کس قدر جاندار ہے۔ لیکن بہرحال ان کی محنت شاہکار تھی البتہ جب سے اس نصاب میں دانشوری شروع ہوئی ہے اس کو خچر نصاب تعلیم بنادیا گیا۔ جامعہ فیض عام مؤ کے ایک اجلاس میں ۲۰۰۷ء ؁ میں جو ان کی صدارت میں ہوا تھا میں نے خچر نصاب تعلیم کے نقصانات پر تقریر کی تھی، بڑی خوشی کا اظہار کیا اور شکریہ بھی ادا کیا۔
ملت کے تعلیمی بحران پر وہ بڑی دلسوزی سے غور کرتے تھے اور اس موضوع پر بھی برابر لکھتے رہتے تھے، عربی اردو میں ان کے مقالات کافی لمبے لمبے شائع ہوچکے ہیں مسائل تعلیم پر غور کرنا اور ان پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا ان کا علمی رویہ بن گیا تھا۔
عربی مدارس میں بکثرت تعلیم اور نصاب پر پروگرام ہوئے عموماً ان میں ڈاکٹر صاحب کی شرکت ہوتی تھی اور اپنی تحریروں کے ساتھ ان میں بھرپور حصہ لیتے تھے بلکہ قیادت کرتے تھے، جہل و ابلہی کے ماحول میں لوگ ان کی ذات کو بساغنیمت جانتے تھے اور اپنے تعلیمی مسائل میں اس سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
ادب پر بھی انہوں نے لکھا ہے پانچ جلدوں میں تاریخ ادب عربی پر ان کا کام اس وقت اردو دنیا میں سب سے بڑا کام ہے اور یونیورسٹیوں میں عربی ادب کے طلباء اس پر کافی انحصار کرتے ہیں۔عربی شاعری پر بیٹے کا کام بھی انہیں کا سمجھنا چاہئے، اس طرح اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ان کی تحریر ادب کے موضوع پر ہی ہوگی۔ یعنی کم از کم بیس فیصد ان کی تحریریں ادب کے موضوع پر ہونگی۔
ترجمے کے بعد اردو اور عربی میں ان کی تصنیفات بھی کئی ایک ہیں، ان کا علمی پایہ کیسا ہے اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ان کی ساری تحریروں میں ان کی محنت کا رنگ نمایاں رہتا ہے، ان کی محنت اور جدوجہد کا یہ عالم تھا کہ ہم جب بھی انہیں یاد کرتے ہیں تو ان کی امیج ذہن میں سب سے پہلے بنتی ہے کہ تنہائی میں قلم لئے بیٹھے ہیں، تفکر میں غرق ہیں افکار کو شکار کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جوں ہی افکار پکڑ میں آئے فوراً قلم بند کرلیا۔ ایک اندازے کے مطابق کم و بیش انہوں نے دس ہزار صفحات لکھے ہوں گے۔
کام کی نوعیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے ایک طرح سے منصوبہ بند طریقے سے مستقل نوعیت کا کام کیا ہے۔
(۱) صوت الامۃ کی ادارت: چالیس سالوں تک یہ کام مستقلا انہوں نے کیا۔ چالیس سال کی فائلیں ہی چار سو سے زیادہ شماروں پر مشتمل ہیں کچھ دنوں سہ ماہی کو اگر القط کردیں تو کم از کم ان شماروں کی تعداد ساڑھے چار سو بنے گی، ان کا اداریہ مستقلا انہوں نے ہی لکھا چند سال گیپ ہوا ہوگا جب وہ علی گڑھ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لئے مقیم تھے اس اثناء میں مولانا عبدالحمید رحمانی نے کچھ شماروں کو ترتیب دیا ہے، ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ اداریوں کو ہی اگر شمار کیا جائے تو ادارتی تحریریں دو ہزار صفحات سے کم نہ ہوں گی۔
(۲) ڈاکٹر صاحب ادارۃ البحوث کے نگراں تھے انہوں نے نگرانی میں چار سو سے زیادہ کتابیں چھپوائیں ہیں اور ان کا مقدمہ لکھا ہے کتابوں پر پیش لفظ بھی دو ہزار صفحات سے زیادہ ہوں گے۔
(۳) ادب پر بھی ان کی تحریریں اصل ترجمہ کی صورت میں کم وبیش دو ڈھائی ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں، اگر میں یہ کہوں کہ عربی ادب پر اردو میں ان کی تحریریں ہندوستان میں سب سے زیادہ ہیں تو شاید بات غلط نہ ہوگی۔ شاید یہ امتیاز انہیں حاصل ہے۔ عصری جامعات میں شعبہ عربی سے وابستہ حضرات کے لئے یہ ادبی کار کردگی قابل رشک ہے۔
(۴) مقامی و عالمی سیمیناروں میں ان کی دوامی شرکت صدارت اور مقالہ خوانی میں وہ اپنے سارے ہم عصروں سے آگے تھے، ان پروگراموں میں ان کے افکار و کلمات اور خطبات کا حجم بھی بہت بڑا ہے، ان کو اگر اکٹھا کیا جائے تو یہ بھی ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہوں گے، ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ چند منٹ کے خطاب کے لئے بھی نوٹس تیار کرلیتے تھے۔
(۵) مقالہ نگاری: اردو اور عربی میں ہمیشہ ڈاکٹر صاحب مجلات کے لئے لکھتے رہتے تھے میں نے ۱۹۶۷ء ؁ کے ’’معارف‘‘ کے دو شماروں میں سب سے پہلے ان کاایک مضمون دیکھا پھر مختلف جماعتی اور غیر جماعتی مجلات و جرائد میں ان کے مضامین چھپتے رہے اور جامعہ سلفیہ کے ماہنامہ ترجمان ’’محدث‘‘ کے ہر شمارے میں بالتزام ایک مضمون رہتا تھا۔ یہ سارے مضامین معتدبہ تعداد میں ہیں اور اگر انہیں اکٹھا کیا جائے تو یہ بھی کئی جلدوں میں آئیں گے۔
(۶) ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں اپنے چالیس سالہ دور میں کئی علمی ادبی اور عالمی محفلیں سجائی ہیں، یہ کتنی کامیاب تھیں اس سے قطع نظر ان سے جامعہ میں علمی چہل پہل قائم رہی اور علمی بہاریں آتی رہتی تھیں۔ ان کے سجانے بنانے اور ان کے پیچھے تحریری کاموں کو انجام دینے میں سب سے بڑا ہاتھ ڈاکٹر صاحب ہی کا رہتا تھا۔ اور یہ بھی تو ہے کہ جامعہ کے سارے تصنیفی و تالیفی ترجمے کے پروگرام انہیں کے بنائے ہوئے تو ہیں، کم و کیف سے قطع نظر سارا علمی ڈھانچہ اور اس کا سارا رابا ڈھابا انہیں کا ہوتا تھا۔
(۷) ترجمہ کا کام: ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی پہچان ایک مترجم کی حیثیت سے ہے، ان کے کاموں کا سب سے بڑا حجم ترجمے کا ہے، ابتکار اور تخلیق کے مقابلے میں ترجمہ کا حجم ان کی تحریروں پر حاوی ہے یہ ترجمہ کا کام مقصدیت اور عزائم کے برخلاف نہیں ہے۔ اگر مقصدیت ہے اور انفرادی سماجی عزائم سے ہم آہنگ ہے تو ترجمہ کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے اور اس گلوبل ایج میں ترجمہ کی اہمیت میں بہت کافی اضافہ ہوچکا ہے، بسا اوقات ترجمہ اصل سے زیادہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے اور اسے پذیرائی مل جاتی ہے۔علامہ شکیب ارسلان نے حاضر العالم الاسلامی کو وہ رفعت عطا کی جو اصل کو اس کا عشر عشیر بھی نہ ملا، ابو زہرہ کے سلسلہ اعلام کو علامہ بھیوجیانی نے اردو قالب میں وہ مقام عطا کیا اور اس کی علمی حیثیت ایسی بلند کی جو اصل کو عربی میں میسر نہیں ہے۔اور اردو دانوں کے لئے جس طرح اسے لائق استفادہ بنادیا عربی اصل کی وہ بات نہیں ہے۔
ترجمہ کے سلسلے میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس فن میں امتیاز حاصل تھا اور انہوں نے اس فن کو نکھارا بنایا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ترجمے میں بھاری بھرکم الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو لوگوں کے لئے وہ بڑا جاذب نظر ہوتا ہے اور اس کی رجاحت کو لوگ تسلیم کرنے لگتے ہیں بغیر یہ جانے کہ مؤلف کے مفاہیم کی صحیح ترجمانی ہوئی ہے یا نہیں۔ ترجمہ ایک فن ہے۔ جس کو ادبی و علمی ذوق نہ ملا ہو، قواعد و بلاغت کے اصولوں سے آگاہ نہ ہو،لسانی تعبیرات پر پکڑ نہ ہو، لسانی شعور و ادراک نہ ہو، ڈکشن مضبوط نہ ہو،وہ صحیح ترجمہ نہیں کرسکتا ہے وہ عبارتوں پر اڑ سکتا ہے اور مصنف کی عبارتوں کو ذبح کرسکتا اور اس کے معانی و مفاہیم کو ریت اور مٹی بنا سکتا ہے۔ ترجمہ نام ہے معانی اور مفاہیم کو ایک قالب سے دوسرے قالب میں ڈھالنے کا ایک لباس بدل کر دوسرا لباس پہنانے کا۔ اگر لباس حروف ہیکل معانی پر استوار نہ ہوں اور دیدہ زیب نہ بن سکیں اور ہیکل معانی کو بھی برقرار رکھا نہ جاسکے بلکہ اس کے اندر توڑ پھوڑ مچ جائے تو اسے ترجمہ نہیں تخریب کہیں گے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں حرف و معنی کی تشکیل بڑا لطیف اور لطف اندوز کام ہے اور مشکل بھی، یہ جام و سندان باختن کا کام ہے یہ کام ہر ایک سے نہیں ہو سکتا ۔
اگر ترجموں کے غلطی ہائے مضامین کے عنوان پر کام ہو تو ایک چشم کشا کام ہوگا، عقیدے کی ایک کتاب کا اردو ترجمہ چھپا ہے عربی زبان میں عقیدہ کی تعریف میں ایک عبارت ہے ’’العقیدۃ ہی القضایا۔ المسلمۃ عندالنقل اس کا ترجمہ کیا گیا ہے، عقیدہ ایسے فیصلوں کا نام جسے عقل و نقل کے ذریعہ کیا جاتا ہے‘‘ مترجم بیچارے نے قضایا کو اقضیہ سمجھ لیا ہے اور عقیدہ اس کے نزدیک عقل سے بھی طے ہوتا ہے سب جانتے ہیں عقیدہ توفیقی مسئلہ ہے اس میں عقل کو دخل نہیں نصوص الٰہیہ نبویہ موثقہ محکمہ اس کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ اس کتاب کے ترجمے کی توثیق علماء کبار کی ایک ٹیم نے کی اور ترجمہ چھپ گیا۔ بہت سی ایسی مثالیں اور عجائبات ترجمے کی دنیا میں موجود ہیں ایک تفسیر ’’اردوئے مبین‘‘ میں ہے اور اس کے پڑھنے والے اس کے مصنف کو دنیا کا امام اکبر سمجھتے ہیں کہ اس جیسا باکمال مصنف دنیا میں پیدا نہیں ہوا مگر اس کے ترجمہ قرآن میں ہر سطر میں شاید غلطی مل جائے۔
ترجمہ ایک فن ہے یہ کام سب کے بس کا نہیں ہے۔ فن کا ماہر ہی یہ کام کرسکتا ہے، ڈاکٹر صاحب اس فن کے ماہر تھے اور مزاولت نے ان کے اس فن کو نکھار دیا تھا۔
(۸) تالیف کا کام: ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا اور عربی اردو دونوں زبانوں میں یہ کام کیا اور دونوں زبانوں میں قریبا ڈیڑھ درجن کتابیں ان کی یادگار ہیں، یہ کتابیں قضایا معاصرہ، سماجی اور دینی مسائل پر ہیں اور اپنے موضوع پر معلومات افزا ہیں۔
(۹) مکتوبات: ڈاکٹر صاحب نے اپنی عمر کا بیش بہا حصہ جامعہ سلفیہ میں لگایا اور اس کے پالیسی ساز منتظم کار اور اندرونی و بیرونی دنیا سے تعلق برقرار رکھنے کے لئے وکیل بنے رہے۔
جامعہ کے چالیس سالوں کی دستاویزات (قانونی کے استثناء کے ساتھ) نوشتے، سندات، مکاتبات، مذاکرات، نوٹس، نتبیہات، فرمودات، فرامین سب کچھ وہی تیار کرتے رہے ہیں، جامعہ سلفیہ کی تاریخ میں اور مصادر تاریخ میں یہ سارے نوشتے کئی ہزار صفحوں میں گھیرے ہوئے ہیں، یہ ایک مثالی اور عظیم کارنامہ ہے اسے شاہکار کام سمجھئے، یہ کام جس سلیقے، امانت توجہ اور ذمہ داری سے انجام پایا میری معلومات کی حد تک ہندوستان کے کسی دوسرے ادارے میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ہے، جب وہ باحیات تھے تب اس کام کو ڈھنگ ڈھنگ نام دیا جاتا رہا ہوگا مگر اس اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
انہیں قربانیوں، سلیقہ مندیوں،محنت، انضباط وقت اور انضباط حیات کا نتیجہ تھا کہ ان کے ہم عصروں میں بہت سارے اسپہائے تازی زندگی کی دوڑ میں کئی میدانوں میں ان کے پیچھے رہ گئے اور پوری جماعت میں ان کی حیثیت سب سے نمایاں بن گئی جسے ان کا دشمن بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا۔ انہوں نے اپنے تشخص کو جیسا بھی تھا اور جو بھی تھا بچایا نکھارا اور بے جا امور میں الجھایا نہیں انہوں نے اپنی صلاحیت کا بھرپور طور پر نکھارا بنایا انہوں نے ہر شے میں سلیقہ مندی کو اپنایا لباس نشست وبرخاست، گفتگو، تحریر ، تقریر، گھر ، آفس، روزانہ تصرفات غرضیکہ ہر شے سے سلیقہ مندی ٹپکتی تھی۔
دراصل ان کی علمی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں مصری اساتذہ کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ ان کو جو ماحول اور سرکل ملا وہ علمی تھا، ہندوستان میں ان کو اپنے علمی و طبعی رجحان کے سبب یونیورسٹی طبقہ سے زیادہ قرب حاصل تھا گو یہ حلقہ عیاری جہالت اور سخن سازی میں طاق ہے اس حلقے سے انہیں مادی منفعت جو بھی ملی ہو علمی منفعت کم ہی ملی بلکہ ان کا استحصال ہوا اور ساتھ ہی جامعہ کا بھی۔
ان کی علمی شخصیت کا ثقل جامعہ سلفیہ کے پلڑے میں کتنا پڑا اس بحث میں نہیں پڑتا، اس سلسلے میں میری رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کا ذکر ضروری ہے کہ جامعہ سلفیہ میں جو کچھ علمی چہل پہل تھی انہیں کی ذات سے تھی اس بزم کے دولہا وہی تھے اور جو علمی ساکھ جامعہ کی بنی اس میں ان کا قیادی رول ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے اندر بہت سی چھوت چھات کی بیماریاں لگ گئیں جس کی کسی کے پاس کوئی دوا نہیں ہے یہی بیماریاں کس کے سبب متعدی ہوئیں یہ بھی عالم آشکارا ہیں ان بیماریوں کے سبب جامعہ کی حیثیت مرگئی اور اس کی کارکردگی سرد پڑگئی۔
لوگوں کے عزائم، ارادے، مقاصد، سرگرمیاں اور نیتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ ذہنیت اور رویہ بھی الگ الگ ہوتا ہے اس تفاوت کو مدنظر رکھیں اور دیکھیں تو بھی ڈاکٹر صاحب اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آئیں گے۔ میں نے ہمیشہ ان کی قدر کی ہے اور انہیں دوسروں پر فوقیت دی ہے اور آج بھی دل سے انہیں تسلیم کرتا ہوں۔ میں شاگرد وہ استاذ، میں خورد وہ بزرگ، میں چھوٹا وہ بڑے لیکن ہماری یہ برائی سمجھئے یا خوبی میرا مزاج کسی کی آقائیت تسلیم کرنے کا نہیں ہے میں اپنے بزرگوں کا احترام لازمی سمجھتا ہوں اور ان کے احترام کو اسلامی تہذیب کی بنیاد مانتا ہوں اگر خوردوں اور بزرگوں کے درمیان شفقت و محبت اور احترام کا تعلق برقرار نہ رہے تو پھر سارے علمی دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں، کبر و رعونت کے پھلنے پھولنے کا ماحول بن جاتا ہے، استاذ شاگرد کے تعلق کا تقدس پامال ہوجاتا ہے، میں آج صمیم قلب سے اپنے استاذ اور بزرگ کی قدر کرتا ہوں، مسئلہ یہ ہے جب بزرگوں کی طرف سے بالتواتر بے ضابطگیاں نظر آئیں اور خوردوں کو بلڈوز کیا جانے لگا اور خوردوں کو ہر محفل میں زیر بحث بناکر انہیں ڈسکارڈ کرنے کی غیر شعوری کوشش ہوتو یہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے بیماری کی طرف ایسی حالت میں اشارہ کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن پھر بھی صبر وتحمل کا رویہ ہر حال میں قابل ستائش ہے۔
اور کسی کا اس طرح کا تصرف اس کی حیثیت کو گرا نہیں دیتا ہے نہ اس کے کمالات مجہودات اور امتیازات کو کم کرتا ہے زندگی کے بہت سے رخ ہوتے ہیں جن رخوں کے ہوتے انہیں نظر انداز کرنا پڑتا ہے اس سلبیات اور روگ کے علاج کی بات ہوتو بہت سے باؤلے اسے جامعہ کی حرمت پر دست درازی سمجھتے ہیں، ایس سوچ احمقانہ ہے۔
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ ہمارے استاذ تھے دور طالب علمی میں انہوں نے میرے اوپر بہت شفقت فرمائی ہے بہت کم لوگوں کو ایسی شفقت ملی ہوگی اور یہ اعتراف بجا ہوگا کہ کئی اہم موڑ پر انہوں نے ہمارا ہاتھ تھاماہے۔ میری تعلیمی زندگی میں اس ناحئیے سے وہ ہمارے بڑے محسن ہیں اور جامعہ کے دور تدریس میں ناظم جامعہ مولانا عبدالوحید رحمہ اللہ کے بقول انہوں نے میری نازبرداری کی ہے اور یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ تحریر و نگارش کی دنیا میں انہوں نے میرے اوپر بڑا اعتبار بھی کیا ہے اور ہماری تحریروں اور فکر و خیال کے بڑے قدردان بھی تھے، ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر کبھی عربی و فارسی کی عبارت غیر مفہوم ہوتی تو بلا تکلف تبادلہ خیال کرتے تھے اور جب بھی ملاقات ہوتی تو عموماً بڑی محبت اور توجہ سے باتیں کرتے اور مسلک و جماعت علم وادب سے متعلق گفتگو کرتے اور غور سے سنتے اور علمی و ذاتی امور میں بھی شفقت و محبت سے مشورے دیتے، کم از کم مجھے اپنے بزرگوں میں کسی سے ایسی نصیحت اور شفقت نہیں ملی، ہمارے ان کے درمیان غلط فہمی کے اسباب کئی ایک اکٹھا ہوگئے، جامعہ کا نظام میرے لئے نظام جبر تھا جسے میں کبھی نہ جھیل سکا اس کے ساتھ اور دیگر قباحتیں جڑی تھی جو میرے نزدیک سخت ناپسندیدہ تھیں اور وہ جامعہ کی قوت محرکہ تھے اور قائدانہ رول پلے کرتے تھے، پھر بہت سے مسائل میں نقطہائے نظر میں بڑا بعدبھی تھا اور بات زیادہ یہ کھلتی تھی کہ فاسقوں فاجروں چھوٹے بھیوں اور فسادیوں کو ان کا تقرب حاصل ہوگیا تھا یا ان کی طرف ان کا میلان ہوگیا تھا، جو میرے لئے باعث خلش تھا۔
بہر حال وہ جماعت کے ایک ممتاز عالم تھے اور اپنے ہمعصروں میں بہت سے اعتبار سے فائق، ان کی محنت قابل رشک، ان کی جہود علمیہ فراواں، ان کی شخصیت موثر اور ان کے انداز و اطوار خوشنما، اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ (آمین)
***

قوت ارادی کا فقدان May, 2010

مولانا محمد مظہر الاعظمی
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ ،مؤ
قوت ارادی کا فقدان
صحت و تندرستی کی اہمیت زمانہ قدیم سے مسلم ہے اور اس روئے زمین پر جب تک ابن آدم کا وجود رہے گا اس کی اہمیت کو گہن لگنے والا نہیں کیونکہ انسانی معاشرے کے ہر زاویہ و پہلو کی ترقی اسی میں مضمر ہے جس کا تجربہ ہم سب کو ہے جب کوئی بھی فرد بشر صحت مند رہتا ہے تو ہر کام بروقت اور بہتر سے بہتر انجام دے لیتا ہے اس کی سوچ میں بھی بڑی قوت و توانائی ہوتی ہے مستقبل کے لئے عمدہ سے عمدہ پروگرام بناتا ہے اور اسے اپنے عزم و حوصلہ سے انجام تک پہونچالیتا ہے، برخلاف اس کے اگر صحت خراب ہوجاتی ہے تو پھر وہ تمام خواب جو شرمندہ تعبیر ہونے والے تھے تاش کے پتوں کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے بکھرتے ہوئے دکھلائی دیتے ہیں، اسی لئے صحت کو مال و دولت پر بھی فوقیت دی گئی ہے کیوں کہ اگر صحت ہے تو سیم وزر کا حصول بہت ممکن ہے مگر دولت سے علاج تو کیا جاسکتا ہے مگر صحت نہیں خریدی جاسکتی ، اسی پس منظر میں غالب نے کہا تھا ؂
تنگ دستی اگرچہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
صحت کے تحفظ کے لئے زمانہ قدیم سے مختلف قسم کے کھیل کود، ورزش وغیرہ کو کافی اہمیت دی گئی، صبح کی تفریح اور چہل قدمی وغیرہ بھی اسی کا حصہ ہے، روزانہ غسل کا التزام اور نظافت کا اہتمام بھی اسی مقصد کے تحت ہوتا ہے، مختلف ممالک کا اپنے ملک میں باشندوں کے لئے مرکز صحت کا قائم کرنا اور صحت سے متعلق سہولیات کا مہیا کرنا بھی اسی غرض کے لئے ہے۔
عالمی تنظیم برائے صحت (W.H.O.)جسے دنیا کے مختلف ملکوں کے تعاون سے عام لوگوں کی صحت کے لئے قائم کیا گیا ہے اس کے پیچھے بھی حصول صحت کا مقصد ہی کارفرما ہے، جو تنظیم دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنا کام اپنے انداز میں کررہی ہے، ہندوستان میں پلس پولیو کی تحریک اسی تنظیم کے تحت چل رہی ہے۔
جب صحت و تندرستی کی بات ہوتی ہے تو اچھی غذا اور اچھی خوراک کا ذکر چھیڑنا یقینی ہے کیونکہ اس کے بغیر اچھی صحت کی توقع عبث اور بیکار ہے، اچھی غذا سے مراد ایک تو ایسی غذا ہے جو صحت کے لئے مضر اور نقصان دہ نہ ہو اور دوسرے وہ غذا جس میں طاقت و قوت زیادہ ہو، ظاہر ہے ایسی غذا تو ہر شخص اپنی وسعت اور آمدنی کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے، جس کو اللہ نے نوازا ہے اور وہ اچھی خوراک کا شوقین ہے اور تو اور مرغ اور مچھلی کے ساتھ عمدہ قسم کے خشک اور تر میوے بھی استعمال کرتا ہے، ایسے لوگ چند فیصد ہوتے ہیں، مگر ایسی غذا جو صحت کے لئے مضر اور نقصان دہ نہ ہو یہ تو ہر شخص کی فطری ضرورت ہے جسے پوری کرنا ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ہر شخص کو اچھی غذا اور اچھی خوراک سے پہلے اچھی ہوا اور اچھا پانی بھی چاہئے مگر افسوس کہ چاند اور مریخ پر کمندیں ڈالنے والوں نے اتنی ترقی کی کہ ان کی فیکٹریوں سے نکلنے والے دھووں نے نہ ہوا کو محفوظ رکھا اور نہ ہی پانی کو کیونکہ فیکٹریوں کے دہانوں سے نکلنے والے غلیظ و کثیف اجزاء نے زیر زمین تک پہونچ کر پانی کو زہر آلود کردیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ پانی پٹرول سے گراں اور مہنگا فروخت ہورہا ہے، افسوس اس ترقی معکوس پر کہ انسانی صحت و زندگی کے لئے سب سے ضروری جز پانی اور ہوا کو گندا کرکے مگن ہے اور اسی کو اپنی عظیم کامیابی سمجھ کر فخر کررہا ہے۔
ہوا اور پانی کے بعد غذائی اجناس میں ملاوٹ کی جو صورت حال ہے وہ بھی کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں بلکہ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں جس کی وجہ سے صحت و زندگی کا مسئلہ روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے جس پر مختلف حساس حلقوں کی طرف سے اور خود حکومت کی طرف سے باربار تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس قدر اظہار تشویش کے باوجود اسے روکنے کے لئے سخت اقدامات نہیں کئے گئے۔
ہندوستان مختلف قسم کے خطرناک مسائل سے دوچار ہے جس میں اشیاء خوردنی کا مسئلہ بہت اہم ہے کیونکہ بیشتر لوگ جو خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ بڑی مشکل سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ اس میں اس قدر ملاوٹ ہے کہ پیٹ کی آگ تو بجھ جائے گی مگر اس میں ملا ہوا زہر زندگی کے خاتمہ کا سبب بن سکتا ہے اور اگر انہیں معلوم بھی ہوجائے کہ اس میں ملاوٹ ہے تو وہ کہاں سے ملاوٹ سے محفوظ اشیاء خرید لے آئیں، ملاوٹ کی حد تو یہاں تک پہونچی ہے کہ:اب اس دیش میں زہر بھی خالص نہیں ملتا ؂
ساغر ساغر زہر بھرا ہے قطرہ قطرہ مہلک ہے
یہ سب کچھ معلوم ہے لیکن پیاس لگی ہے پیتے ہیں
چند سال پہلے اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طالب علم نے امتحان دیا، رزلٹ آیا تو فیل، اس نے سوچا والد صاحب کو معلوم ہوگا تو خیریت نہیں ہے، اس لئے اس نے زہر خریدا اور کھا کر سوگیا، صبح کو سوکر اٹھا تو اس کی ملاقات والد صاحب سے ہوئی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے اور ایک ہی سانس میں ڈھیر ساری صلوات سناتے ہوئے کہا کہ کمبخت تم کو زہر کھاکر مرجانا چاہئے تھا تاکہ میں تمہاری شکل نہ دیکھتا، یہ سننا تھا کہ طالب علم نے سرجھکا کر بڑی معصومیت سے کہا کہ والد محترم میں نے رات میں زہر کھایا تھا مگر جعلی نکلا تو میں کیا کروں ورنہ آپ کے سامنے میں نہیں میری لاش ہوتی۔
جس ملک کی صورت حال یہ ہوکہ زہر بھی اصلی نہ ملے کیا وہاں غذائی اجناس کے اصلی ملنے کی امید لگانا اور توقع رکھنا حماقت کے مترادف نہیں ہے، مگر افسوس کہ اس سنگین مسئلہ پر حکومت صرف تشویش کا اظہار کرتی ہے، مگر اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اظہار افسوس کرنے والے نہیں سمجھتے کہ اس کی زد میں بذات خود بھی ہیں انہیں کیا معلوم کونسی چیز اصلی مل رہی ہے اور کونسی نقلی اور جعلی، اس کے باوجود کوئی ایسا قدم اور کاروائی نہیں ہورہی ہے جس سے اس مہلک مرض پر فوراً کنٹرول کیا جاسکے۔
اظہار افسوس اور اظہار تشویش اگر مسئلہ کا حل رہا ہوتا تو اب تک یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا اور ملاوٹ سے نجات مل چکی ہوتی مگر یہ مسئلہ کا حل نہیں پہلے کبھی تھا اور نہ ہی مستقبل میں ہو سکتا ہے، اس حقیقت کو جاننے کے باوجود مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبود غلام نبی آزاد نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں غذائی اجناس میں ملاوٹ کا مسئلہ کینسر کی طرح پھیل رہا ہے، وزیر موصوف نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جب تک ہماری خوراک خالص نہیں ہوگی تب تک ساری چیزیں بے معنی ہیں۔
وزیر موصوف نے تسلیم کیا کہ ملاوٹ کا مرض کینسر کی طرح پھیل رہا ہے جس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ معاملہ نہایت سنگین اور خطرناک ہے اور دوسرے یہ کہ معاملہ ہمارے قابو سے باہر ہے جس طرح کینسر، قابو سے باہر ہونے کی دو وجہ ہوسکتی ہے ایک تو یہ کہ حکومت قابو میں کرنا نہیں چاہتی جس کی وجہ سے قابو سے باہر ہے اور دوسرے یہ کہ قابو میں کرنا تو چاہتی ہے مگر کر نہیں پاتی۔
اگر حکومت قابو میں کرنا اور کنٹرول کرنا نہیں چاہتی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟، کیا ملاوٹ کرنے والوں سے اس کا کوئی سودا ہے کہ آپ آنکھ بند کرکے اور کان میں ڈاٹ ڈال کر بیٹھئے ہم کو نفع حاصل کرنے دیجئے اگر صورت خراب ہو اور بات ایوان تک آئے تو اظہار افسوس سے کام چلا لیجئے اور بس اور اگر حکومت کنٹرول کرنا چاہتی ہے مگر نہیں کر پاتی تو پھر یہ صورت حال سب سے زیادہ سنگین ہے کہ حکومت ملاوٹ کرنے والوں پر شکنجہ کسنے میں ناکام کیوں ہے؟ افراد کی قلت یا قوت ارادی کا فقدان؟۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملہ میں اگر حکومت ناکام ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قوت ارادی کا فقدان ہے اور قوت ارادی کے فقدان کی وجہ وہ بڑی بڑی رشوت کی رقم ہے جو کمپنیاں حکومت کے افسران یا پارٹیوں کو دیتی ہیں، جس کے بعد ان کے اعضاء و جوارح شل ہوکر رہ جاتے ہیں۔
نفع خوری اور رشوت خوری کے اس شوق نے انسانیت کی تمام حدوں کو پار کر دیا ہے اور اب اشیاء خوردنی کی طرح دوائیں بھی جعلی بکتی ہیں، موت کے ان سوداگروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ہم انسان اور انسانیت کے ساتھ کون سا کھیل کھیل رہے ہیں، ایک غریب اپنی قیمتی اشیاء بیچ کر والدین کے لئے دوا خریدتا ہے مگر اسے نہیں معلوم کے یہ دوا کے نام پر زہر ہے اس سے مریض صحت سے قریب نہیں بلکہ موت سے قریب ہورہا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علاج کے لئے گھر اثاثے بھی بک جاتے ہیں اور مریض بھی کراہتے ہوئے لقمہ اجل بن جاتا اور داغ مفارقت دے جاتا ہے۔

حدود مزدلفہ آثار تابعین کی روشنی میں May, 2010

تحریر
شیخ عبدالعزیز احمد محسن الترکی
ترجمہ
شیخ ابوفوزان المدنیؔ 
 
حدود مزدلفہ
آثار تابعین کی روشنی میں
اثر عطاء بن ابی رباح:
۱۔ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کہ مزدلفہ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب تم عرفہ کے دونوں جانب پہاڑیوں کے دونوں تنگنائے سے کوچ کرلو وہیں سے مزدلفہ وادی محسر تک ہے۔ لیکن عرفہ کے دونوں تنگنائے مزدلفہ کا حصہ نہیں ہیں، لیکن ان دونوں کا وہ حصہ جہاں سے کوچ کا آغاز ہوتا ہے وہ مزدلفہ میں شامل و داخل نہیں ہے۔
عطاء نے بتایا: جب تم عرفہ کے دونوں تنگنائے سے کوچ کر جاؤ تو تم اس میں دائیں بائیں اور جہاں بھی چاہو نزول کرسکتے ہو۔ میں نے کہا: آپ مجھے بتائیے کہ اگر میں لوگوں کی منازل سے الگ تھلگ رہوں؟ اور اس حرف (کنارہ والے حصہ میں چلاجاؤں جو عرفہ سے آنے والے کے دائیں واقع ہے اور کسی کے نزدیک نہ رہوں؟) آپ نے فرمایا: کہ اس میں کوئی کراہت نہیں سمجھتا ہوں۔(اخرجہ الفاکہی۴؍۳۱۶،۳۱۷) (والازرقی ۲؍۱۹۲۔ ۱۹۳) وسندہ صحیح۔
حبیب بن ابی ثابت کا بیان ہے کہ عطاء بن ابی رباح سے مزدلفہ میں موقف کے متعلق استفسار کیا گیا، انہوں نے جواباً کہا: کہ بطن وادی محسر کے آگے مزدلفہ کا موقف ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ جبل قزح تک ہے۔ اس کے بعد سارا خطہ مشعرحرام ہے۔ (اخرجہ الفاکہی:۴؍۳۲۱وسندہ صحیح)۔
اپنے زمانہ میں مکہ کے اندر مفتی حرم جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح کے دو اہم ترین نص ہیں۔
پہلے نص میں آپ عرفہ سے متصل مشرق سے منیٰ سے متصل مغرب تک مزدلفہ کے حدود کو بیان کیا۔ آپ نے مشرق میں عرفہ کے دونوں مأزم یعنی تنگنائے حصہ سے وادئ محسر تک اس کی حد کو متعین کیا۔
سب سے اہم سوال اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ عرفہ کے دونوں مأزم سے کیا مراد ہے؟
اکثر لوگوں حتی کہ بعض اہل بحث و تحقیق حضرات کا یہ گمان ہے کہ المازمان سے مراد دو پہاڑہیں۔ درحقیقت وہ کلمہ مأزم کے صیغہ تثنیہ سے دھوکا کھا گئے۔
چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں مأزمان درحقیقت وہی دونوں پہاڑ ہیں جن کا اس وقت ’’أخشبان‘‘ نام ہے جو اخشب کا تثنیہ ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہی گمان اور غلط فہمی ہی موجودہ حال میں مزدلفہ کے حدود کی تنگی کا سبب ہے لہٰذا اس اہم مسئلہ کی توضیح و تشریح لازم ہے اس کی وضاحت بتوفیق الٰہی حسب ذیل ہے:
أولا: مأزمان کا معنی جبلان،دوپہاڑ سرے سے ہے ہی نہیں اس سے مراد نہ تو وہ دونوں پہاڑ ہیں جو اخشبان سے موسوم ہیں نہ ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسے ہی دو پہاڑ مراد ہیں۔
درحقیقت مازم کا لغوی معنی و مطلب دو چیزوں کے درمیان تنگ مقام ہے خواہ دوپہاڑوں کے درمیان یا کسی وادی کے دو چھور کے درمیان ہو۔ اس کوصرف لفظاً تثنیہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ دو چیزوں کے درمیان واقع ہے۔
یہی درست اور حق بات ہے، علماء لغت کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں:
ابن منظور نے لسان العرب میں کہا: ’’والمازم المضیق مثل المازل‘‘ مازم کا معنی تنگ جگہ جیسے مازل۔
اس کو امام اصمعی نے بیان کیا ہے اور انہوں نے اس پر ابو مہدیہ کے قول سے استشہاد کیا: ’’ ہذا طریق یأزم المآزم۔ وعضوات تمشق اللہازما۔
والمازم: کل طریق ضیق بین جبلین: مازم، ہر وہ تنگ راستہ جو دوپہاڑوں کے مابین واقع ہو۔ اسی سے ساعدہ بن جویہ ہذلی کا قول ہے:’’ ومقامہن اذا حبسن بمأزم۔ ضیق الفَّ وصدّھن الأخشب‘‘ شاعر ان اونٹنیوں کی قسم کھا رہا ہے جو مأزم یعنی تنگ راہ میں روک لی گئیں۔
والمأزم: جزونہ میں وادی کا تنگ راستہ (لسان العرب، ۱۲؍۱۷،۱۸)
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مازم تنگ راہ کو کہتے ہیں خواہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان ہو خواہ وادی کے دوکناروں کے درمیان ہو۔ وادی کے تنگ راستہ کو مأزم کہا جاتا ہے، بسا اوقات اسے دونوں کناروں کی وجہ سے لفظاً تثنیہ استعمال کیا جاتا ہے اور مأزمان بولا جاتا ہے۔
لسان العرب ہی میں ابن منظور رقم طراز ہیں: ومنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی معنی کے پیش نظر وہ جگہ جو المشعرالحرام اور عرفہ کے درمیان واقع ہے مأزمان سے موسوم ہے، امام اصمعی نے فرمایا:روایت میں وارد المازم مزدلفہ اور عرفہ کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے۔
یہ صاحب لسان العرب ابن منظور الافریقی کی صراحت ہے جس کو انہوں نے علامۃ العرب اور دیوان الأدب امام عبدالملک بن قریب الاصمعی سے نقل کیا ہے کہ المازمان درحقیقت مزدلفہ اور عرفہ کے درمیان فاصل تنگ راستہ کا نام ہے۔
یہ ہم جان چکے ہیں کہ فاصل تنگ راستہ درحقیقت وہی وادی عرفہ ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں جیسا کہ صحابہ کرام کے سابقہ کلام میں اس کا بیان پہلے آچکا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے ’’مأزمین‘‘ سے مراد عطاء بن ابی رباح اور ان کے علاوہ دوسرں کے نزدیک عرفات اور مزدلفہ کے درمیان فاصل وادی کا تنگ راستہ ہی ہے ، جو نہ مزدلفہ کا حصہ ہے نہ ہی وہ عرفات کا حصہ ہے۔
ثانیاً: عطاء بن ابی رباح اور ان کے علاوہ کے سابق نص میں مازمان کی اضافت عرفہ کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی مازمی عرفہ کہا گیا ہے۔ یہ اضافت اس لئے ہے کیونکہ مازمان اسی عرفہ سے متصل ہے اس لئے اس کی جانب اضافت درست ہے اور عرفہ سے متصل وادی عرنہ کے تنگ راستے کے سوا کچھ اور نہیں ہے اور مازمان سے یہی مراد ہے اسی لئے نبیﷺ نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ وہ بطن عرنہ سے دور رہیں کیونکہ وہ عرفہ سے حد درجہ قریب اوربالکل متصل اور اسی سے لگا ہوا ہے۔ اس کا احتما تھا کہ کوئی اس وادی عرنہ کوبھی عرفات کا حصہ سمجھ بیٹھے۔
ثالثاً: سابقہ معنی ومراد کی تاکید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اگر مازمان سے مراد اخشبان نامی دو پہاڑ ہوتے تو زیادہ مناسب بات یہ ہوتی کہ ان ودنوں ’’مازمی مزدلفہ‘‘ کہا جاتا نہ کہ ’’مازمی عرفہ‘‘ اس لئے یہ دونوں پہاڑ عرفہ سے دور ہیں اور مزدلفہ سے بیحد قریب اور متصل ہیں، بلکہ ان دونوں پہاڑوں کے دونوں مغربی کنارے تو موجودہ حدود کے مطابق مزدلفہ کے اندر ہیں۔
رابعاً: اگر مازمان سے مراد اخشبان نامی دونوں پہاڑ ہی مان لیا جائے اور یہ کہ مزدلفہ کے حدود ان دونوں کے مغربی کناروں سے شروع ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں حجاج ایک بہت بڑی مسافت سے محروم رہ جاتے ہیں جو قطعی طور پر مشعر حرام کا حصہ ہے جیسا کہ اس کا بیان ہوچکا ہے واضح رہے کہ یہ مسافت انج کل بعض اطراف و جہات میں تقریبا سات کلو میٹر ہے۔اتنی بڑی مسافت اور یہ طویل رقبہ یوں ہی بیکار اور ویران باقی رہتا ہے بلا دلیل وبرہان۔
خامساً: اس سابقہ توضیح شدہ مسئلہ کی تاکید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ امام عطاء کے دوسرے نص مغرب سے مشرق تک مزدلفہ کی حد بیان کی گئی ہے انہوں نے مغرب میں وادی محسر کے اوپر سے اس کی حد بیان کی اور مشرق کی طرف رخ کیا ان سے کہنے والے نے کہا کہ جبل قزح تک؟ تو اس پر انہوں نے کہا اس کے بعد جو کچھ ہے وہ مشعر حرام ہے۔ اس طرح مزدلفہ کا سلسلہ مشرق میں جب تک ہم حرم خطہ میں ہوں اس تنگ وادی تک جاری رہتا ہے جو عرفہ اور مشعر حرام کے درمیان حد فاصل ہے۔ واللہ اعلم۔
سادساً: مورخ مکہ ابوالولید الازرقی نے کہا:
اور نمرہ سے۔ نمرہ وہ پہاڑ ہے جس پر حرم کی علامات ہیں جو آپ کے دائیں واقع ہوتا ہے جب آپ عرفہ کے تنگ راستہ سے نکلے ہیں موقف کا ارادہ کریں اور نمرہ پہاڑ کے نیچے چار نمرات ہیں جن کا طول و عرض پانچ گز لمبا اور چند گز چوڑا ہے۔
اس نص سے یہ بخوبی واضح ہے کہ’’ مازمان عرفہ ‘‘ خود عرفہ سے بہت قریب ہے اور وہ اس نمرہ نامی پہاڑی کے بالمقابل ہے جس پر حرم کی علامات نصب ہیں جو خطہ ارض حرم کے آغاز پر دلالت کرتی ہیں۔
حدود مزدلفہ:
علماء وفقہاء کے اقوال کی روشنی میں:
حدود مزدلفہ کے بیا ن میں علماء و فقہاکے بہت سارے اقوال ہیں، جو اس مقصود پر دلالت کرتے ہیں، اس بحث میں چند علماء و فقہاء کے اقوال درج ذیل ہیں:
۱۔ امام مفسر ابوجعفر محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ کا قول:
امام طبری نے فرمایا: جہاں تک مشعر کا معاملہ ہے وہ تمام جگہ ہے جو مزدلفہ کے دونوں پہاڑوں کے مابین واقع ہے، عرفہ کے تنگ راستہ سے شروع ہوکر وادی محسر تک۔ البتہ عرفہ کا تنگ راستہ مشعر کا حصہ نہیں ہے۔مأزمین عرفہ کا معنیٰ و مراد اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے۔
۲۔ امام فقیہ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ کا قول:
امام ابن قدامہ المقدسی نے فرمایا: مزدلفہ کے تین نام ہیں: مزدلفہ، مشعر اور جمع۔ اس کی حد عرفہ کے تنگ راستہ سے لیکر قرن محسر تک ہے اس کے دائیں بائیں جو گھاٹیاں ہیں ان میں سے کسی جگہ پر حاجی وقوف کرلے اس کے لئے کافی ہوگا۔ اس کا وقوف درست ہوگا۔ البتہ یاد رہے وادی محسر مزدلفہ کا حصہ نہیں ہے۔ (المغنی ۳؍۴۵۰)۔
چنانچہ عرفہ کے تنگ رستہ سے وادی مسر تک طول وعرض تمام گھاٹیاں نشیب وفراز مقامات اور پہاڑیاں سبھی مزدلفہ ہیں جہاں مزدلفہ کا وقوف درست ہے۔
اور امام ابو محمد ابن قدامہ المقدسی کی رائے میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس کا استثناء کیا جائے سوائے بطن وادی محسر کے۔ اور محسر انتہائی چھوٹی اور حد درجہ تنگ وادی ہے۔
اگر عرفہ سے حدود مزدلفہ تک پھیلی ہوئی وہ مسافت جو آج یوں ہی رکھ چھوڑی گئی ہے مزدلفہ کا حصہ نہیں ہے تو حد درجہ تنگ وادی محسر کے مقابلہ میں اس پر متنبہ کرنا زیادہ بہتر تھا۔
۳۔ امام محی الدین یحییٰ بن اشرف النووی الشافعی رحمہ اللہ کا قول:
امام نووی نے فرمایا: معلوم ہونا چاہئے کہ پورا مزدلفہ حرم ہے امام ازرقی نے تاریخ مکہ میں، امام مندنیجی اور ماوردی صاحب الحاوی نے اپنی کتاب الأحکام السلطانیہ اور ہمارے شوافع میں ان دونوں کے علاوہ دیگر ائمہ نے فرمایا:
مزدلفہ کی حد وادی محسر اورعرفہ کے تنگ راستے کے مابین ہے اور دونوں حد ۔یعنی مازمی عرفہ اور بطن محسر مزدلفہ میں شامل وداخل نہیں ہے۔آمنے سامنے آگے پیچھے کی ساری گھاٹیاں اور مذکورہ حد میں داخل تمام پہاڑیاں مزدلفہ میں داخل شمار ہوں گی۔
ہاں وادی محسر ایک ایسی جگہ ہے جو منی اور مزدلفہ کے مابین حد فاصل ہے وہ دونوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہے۔ (المجموع شرح المہندب ۸؍۱۲۸،۱۲۹)
امام نووی کا یہ قول ’’مزدلفہ پورا حرم ہے قابل غور و تدبر ہے ہیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ حرم عرفات کے بعد فورا شروع ہوجاتا ہے۔ ان کا یہ قول بھی قابل تامل ہے کہ انہوں نے تمام شعاب (گھاٹیوں) اور اس سے متصل پہاڑیوں کو مزدلفہ کا حصہ بتایا ہے اور سوائے وادی محسر کے کسی بھی جگہ کا استثناء نہیں کیا، محسر نہ تو مشعر ہے نہ مزدلفہ کا حصہ ہے اور نہ منیٰ کا۔
۴۔ شیخ الاسلام حافظ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا: پورے مزدلفہ کو معشر حرام کہا جاتا ہے اور وہ مأزمان عرفہ سے بطن محسر تک دراز ہے، ہر دو مشعر کے درمیان ایک ایسی حد ہے جو دونوں ہی مشعر کا حصہ نہیں ہے، عرفہ اور مزدلفہ کے مابین بطن عرنہ اور مزدلفہ اور منیٰ کے بطن محسر حد فاصل ہے۔
نبیﷺ نے فرمایا: عرفہ کلہا موقف وارفعوا عن بطن عرنہ و مزدلفۃ کلہا موقف وارفعوا عن بطن محسر، مومنی کلہا منحر و فجاج مکۃ کلہا طریق (مجموع الفتاویٰ ۴۶؍۱۳۴،۱۳۵)
اور اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں روایت کیا ہے، اس نص میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مزدلفہ مشعر حرام کی حد کو جیسا پہلے بھی اوروں سے منقول ہوچکا ہے۔ عرفہ کے تنگ راستے سے لے کر وادی محسر تک بیان کیا ہے۔ اور شیخ الاسلام نے تشریح کرتے ’’مأزمان عرفہ‘‘ کے معنی ومراد کو بیان کیا اور یہ بھی ذکر کیا ہے وہ کہاں ہے؟ اور کہاں شروع ہوتا ہے؟
آپ نے وضاحت کرکے بتلایا کہ مشعر عرفہ اور مشعر مزدلفہ کے درمیان ایک فاصل ہے جو نہ اس کا حصہ ہے نہ اس کا۔ وہ حد فاصل کیا ہے؟ شیخ الاسلام نے واضح طور پر فرمایا:کہ وہ صرف بطن عرنہ کی وادی ہے نہ کہ کوئی چیز آپ نے اس پر دلالت کرنے والی حدیث سے استدلال کیا یہ امر آپ کے کلام سے بالکل واضح ہے اور اس رائے کے بالکل موافق ہے جس کو پہلے ثابت کیا جاچکا ہے۔ والحمدللہ۔
۵۔ حافظ امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا قول:
آپ نے فرمایا: وادی محسر منی اور مزدلفہ کے درمیان ایک قدرتی حد فاصل ہے جو اس میں شامل ہے نہ اس میں۔ اور وادی عرنہ عرفہ اور مشعر حرام کے درمیان ایک قدرتی حد فاصل ہے۔ اس طور پر ہر دو مشعر کے درمیان ایک ایسا قدرتی حد فاصل جو دونوں کا حصہ نہیں ہے۔
منیٰ: حرم کا حصہ ہے اور مشعر بھی، وادی محسر حرم کا خطہ ہے اور یہ مشعر نہیں ہے۔ اور مزدلفہ حرم بھی ہے اور مشعر بھی۔
وادی عرنہ : نہ ہی مشعر ہے اور نہ حرم بلکہ حصۂ حل ہے، عرفہ حل ہے اور یہ مشعر ہے (زادالمعاد ۲؍۲۵۶)
حافظ ابن القیم کے کلام میں بڑی وضاحت اور صراحت ہے اس میں پانچ جگہوں کا بیان ہے۔
(۱) عرفہ:یہ وہ مشعر ہے جہاں پر حجاج نویں ذوالحجہ کو وقوف کرتے ہیں یہ ارض حرم نہیں ہے بلکہ حل ہے۔
(۲) عرنہ: یہ عرفہ کے مغرب ٹھیک اس کے سامنے اسی سے ملی ہوئی تنگ وادی ہے یہ مشعر نہیں ہے، وہاں پر وقوف جائز نہیں ہے، نبیﷺ کا فرمان ’’ وارفعوا عن بطن عرنہ‘‘ وقوف عرفہ کے وقت عرنہ کی وادی سے دور رہو۔(مقدم تخرج الحدیث) یہ عرنہ حل ہے ۔
(۳) مردلفہ: یہ مشعر بھی ہے اور حرم بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فاذکرواللہ عند المشعر الحرام (البقرۃ: ۱۹۸)
اس کو عرفات سے صرف وادی عرنہ الگ کرتی ہے۔
(۴) وادی محسر: یہ حرم ہے لیکن مشعر بالکل نہیں ہے نبیﷺ نے فرمایا: ’’وارفعوا عن بطن محسر‘‘ (تقدم تخریجہ)
(۵) منیٰ: یہ حرم ہے اور مشعر بھی اور اسے مزدلفہ سے صرف وادی محسر جدا کرتی ہے۔
واضح رہے وہاں پر ایسی کوئی زمین نہیں ہے جو حرم ہو اور مشعر نہ ہو، جو عرفات اور مزدلفہ کے درمیان حد فاصل کا کام دیتی ہو اور یوں مہمل ویران اور بیکار ہو، یہ پوری جگہ اللہ کی قسم مشعر حرام ہے اور یہ حق ہے۔ واللہ المستعان۔
صحابہ تابعین علماء اور فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ سے منقول آثار واقوال کی روشنی میں یہ امر یوں بخوبی واضح ہوجاتا ہے جس میں کسی چوں وچرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان شاء اللہ۔
بحمد اللہ در حقیقت مشعر حرام ’’مزدلفہ‘‘ خوب کشادہ ہے اور وہ بلاشبہ مشرق میں وادی عرنہ سے شروع ہوتا ہے اور یہ وادی وہ طبعی و قدرتی حد ہے جو مزدلفہ کو عرفات سے جدا کرتی ہے اور اسی طرح مزدلفہ مغرب کی جانب وادی محسر تک دراز ہے اور یہ وادی قدرتی حد ہے جو اسے منی سے جدا کرتی ہے۔
الحمدللہ یہ کافی بڑی مسافت ہے اور بڑا رقبہ ہے جس میں اللہ کی جانب سے حجاج کے لئے کافی کشادگی ہے۔
خلاصۃ القول: مزدلفہ ان دونوں وادیوں مشرق میں عرنہ اور مغرب میں محسر کے درمیان واقع ہے ان دونوں وادیوں کے درمیان جس قدر پہاڑیاں،گھاٹیاں، نشیبی مقامات(ریت اور بالو)،ریگزار، راستیاور گذر گاہیں سبھی مزدلفہ ہیں۔
عرفات سے کوچ کرنے کے بعد حج کرنے والا شخص ان میں سے کہیں بھی وقوف و مبیت کرلے وہ دحقیقت مشعر حرام یعنی مزدلفہ میں ہوگا۔
ہمیں چاہئے کہ ہم بلاحجیت و برہان اس چیز کو تنگ نہ بنائیں جسے اللہ تعالیٰ نے کشادہ بنایا ہے۔
والحمدللہ الذی بنعمۃ تتم الصالی۔
***

تراشے-مولانا عبدالسلام رحمانی May. 2010

تراشے
حضرت مولانا عبدالسلام رحمانی
جامعہ سراج العلوم بونڈیہار

حضرت نوح اور کشتئ نوح: پارہ نمبر(۲۰) سورہ عنکبوت آیت نمبر(۱۵) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( وجعلناھا آیۃ للعالمین) اور ہم نے اس کشتی کو دنیا والوں کے لئے ایک نشانی بنا کر رکھ دیا ور سورہ قمر میں فرمایا: اور ہم نے نوح کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی کشتی پر وہ چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اس شخص کے لئے جزاء کے طور پر جس کا انکار کردیا گیا تھا اور ہم نے اسے چھوڑ دیا ایک نشانی بنا کر، پس ہے کوئی سبق لینے والا۔ (آیات:۱۳۔۱۵)
کشتئ نوح صدیوں تک پہاڑ کی چوٹی پر موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین پر کبھی طوفان آیاتھا جس کی بدولت یہ کشتی پہاڑ پر جاٹکی ہے۔
موجودہ زمانے میں بھی کوہستان اراراط پر اس کشتی کا سراغ ملا ہے سورہ ہود آیت نمبر (۴۴) پارہ نمبر(۱۲) میں ہے : (واستوت علی الجودی) کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی، جودی پہاڑ کردستان کے علاقے میں جزیرۂ ابن عمر کے شمال مشرقی جانب واقع ہے، بائبل میں اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ’’ارمینیا‘‘ کی سطح مرتفع سے شروع ہوکر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلہ کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اس زمین میں آباد تھی جس کو ہم آج عراق کے نام سے جانتے ہیں عراق کے شہر موصل (جن کا نام جنگ عراق کے زمانے میں باربار آتا رہا) کے شمال میں جزیرۂ ابن عمر کے آس پاس اور ارمینیاکی سرحد پر کوہ اراراط کے نواح میں نوح علیہ السلام کے مختلف آثار کی نشاندہی اب بھی کی جاتی ہے اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں اب بھی مشہور ہے کہ اس شہر کی بنیاد حضرت نوح علیہ السلام نے ڈالی تھی، حضرت نوح کے زمانے تک پوری انسانی آبادی اس علاقے میں بسی ہوئی تھی پھر بعد میں ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی اور آباد ہوتی چلی گئیں۔
ایک دور وہ بھی تھا: کہ حرمین شریفین میں کوئی ازدحام کی کیفیت نہیں رہتی تھی اور ایک دور یہ ہے کہ سال کے کسی حصہ میں آپ حرمین شریفین میں پہونچئے ازدحام سے بھرا ملتا ہے، حجر اسود کا بوسہ لینا آسان نہیں ہوتا سولہویں صدی کے شیخ قطبی جو کہ مکہ مکرمہ کے ایک مشہور عالم اور عثمانی خلیفہ سلیم اول (المتوفی ۱۵۲۰ء ؁) کے معاصر تھے بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بچپن میں مطاف کو اکثر خالی پاتا تھا اور تنہا طواف کرتا تھا، بازار مسعیٰ کو بھی چاشت کے وقت تک سنسان دیکھتا تھا اور اکثر یہ دیکھتا تھا کہ غلہ فروشوں کے قافلے آئے ہوئے ہیں مگر خریدنے والے بہت کم ہیں لیکن اب دولت عثمانیہ کے عہد میں لوگوں کی کثرت ہے رزق وسیع ہے خوشحالی اور فارغ البالی ہے۔ (دولت عثمانیہ ۔ مولفہ ڈاکٹر محمد عزیر ، پی ایچ ڈی۔ص:۱۸۰)
***

Interview with Justice Tahir Ali Ansari (Supreme Court Nepal) By: Abdus Saboor Nadvi- May 2010

جسٹس سپریم کورٹ عالی جناب طاہر علی انصاری سے ایک ملاقات
انٹرویو: عبد ا لصبور ندوی جھنڈانگری


عزت مآب جناب طاہر علی انصاری (جسٹس سپریم کورٹ، نیپال) ملک کی ایک معروف شخصیت، شہرت اور ترقیوں کی اوج پر ایک فاضل اسم گرامی ہے۔ پہلے مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہے جنہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا، ایک فائق و باصلاحیت، محترم ہستی جس نے آئین وعدالت کی خدمت کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت کا کوئی موقع نہیں گنوایا، قرآن کریم کا جب نیپالی میں ترجمہ موجود نہیں تھا آپ نے ترجمہ و تحقیق میں بھر پور حصہ لیا اوراہل نیپال کو ایک نایاب تحفہ دیا، متعدد دینی کتب کا نیپالی ترجمہ زیر طبع ہے، بے شمار خصوصیات کے حامل اس فاضل جج سے گذشتہ سال کاٹھمانڈو میں ان کے دولت کدے پر ملاقات و زیارت کی سعادت میسر ہوئی، پیش ہے اس موقع پرکی گئی گفتگو کے اہم اجزاء۔ (ع.ص.ن)

س: مختصر تعارف۔۔۔؟
ج: میرا نام طاہر علی انصاری ہے، بھجاوا، نول پراسی میں ۱۵؍اگست ۱۹۴۹ء ؁کو پیدائش ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں ہوئی، ٹھوٹھی باری سے ہائی اسکول پھر سسوا بازار سے انٹر میڈیٹ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد گورکھپور یونیورسٹی سے بی،اے کیا۔ کاٹھمانڈو یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیاا ور پھر پولیٹکل سائنس سے ایم، اے۔
س: محکمۂ عدالت و انصاف میں آپ نے کب سے کام شروع کیا؟
ج: ۱۹۷۱ء ؁سے میں سرکاری ملازمت سے جڑا اور سب سے پہلے جوڈیشیل ڈپارٹمنٹ میں سیکشن آفیسر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
س: یعنی 38؍برس ہوئے، اتنا طویل عرصہ آپ نے سرکاری محکموں میں گذارا، جج کی کرسی پر آپ کب فائز ہوئے؟
ج: جج بننے سے قبل پبلک پرازکیوٹر، گورنمنٹ پلیڈر، وزارت قانون میں انڈر سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد مجھے ضلع ’’رُکُمْ‘‘ میں ضلعی عدالت کا جج بنایا گیا اور وہیں سے فیصلوں کی شروعات ہوئی۔
س: الحمدللہ آپ اب سپریم کورٹ کے جج ہیں، آپ نے ایک تاریخ رقم کی ہے، اس سے پہلے کن شہروں میں آپ نے عدالتی خدمات انجام دیں؟
ج: رکم، پالپا اور کنچن پور میں ضلع جج کے طور پر کام کیا، کاٹھمانڈو، براٹ نگر اور راج براج میں زونل جج کی حیثیت سے کام کیا، باگلنگ، پوکھرا، ہتھوڑا اور بٹول میں اپیلیٹ کورٹ کا جج رہ چکا ہوں۔ ۲۰۰۵ء ؁ میں مجھے میرے کاموں کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا، یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
س: آپ نیپال میں لمبے عرصہ سے عدالتی خدمات انجام دے رہے ہیں، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کبھی بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: میں نے محنت کرنا سیکھا ہے اور اسی کی عادت پڑگئی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہاں مذہبی اعتبار سے کوئی بھید بھاؤہے۔
س: ملک اب سیکولر و جمہوری سسٹم میں تبدیل ہوچکا ہے، کیا اب بھی تبدیلئ مذہب کی آزادی کا قانون نہیں بنا؟
ج: لوگ اپنی خواہش کے مالک ہیں، جو دھرم چاہیں اپنائیں، چونکہ دستورسازی کا کام چل رہا ہے، جب تک پورا نہیں ہوجاتا، پرانا آئین چلتا رہے گا، ویسے بھی اس قسم کے معاملات عدالت میں اب تک نہیں پہونچے ہیں۔
س: ملک میں کل کتنے اور کون کون مسلمان جج ہیں؟
ج: عدالتی میدان میں پہلے میں تن تنہا مسلمان تھا، اب الحمدللہ مجھ کو لے کر چار مسلم جج ہیں، کاٹھمانڈو اپیلیٹ کورٹ کے جج علی اکبر مکرانی، سلِّیان کے ضلع جج جنید آزاد اور نیپال گنج کے اپیلیٹ کورٹ کے جج صلاح الدین اختر صدیقی۔
س: عدالتی محکموں میں ججوں کا انتخاب کون کرتا ہے؟
ج: لوک سیوا آیوگ (پبلک سروس کمیشن) کے لوگ امتحانات و انٹرویو لینے کے بعد عہدے متعین کرتے ہیں کہ کون کس عہدے کے قابل ہے۔
س: ما شاء اللہ آپ نے تحریر و تالیف کا کام خوب کیا ہے، اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
ج: قانون اور آئین سے متعلق سیکڑوں مضامین نیپالی اور انگریزی زبان میں (درجنوں رسائل و اخبارات) چھپ چکے ہیں، نیپالی میں ایک کتاب لکھی تھی جس کی خوب پذیرائی ہوئی تھی، اس کا نام (فیصلہ لیکھن ودھی) ’’فیصلہ لکھنے کا طریقہ‘‘ ہے جسے پیروی پرکاشن کاٹھمانڈو نے شائع کیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق انگریزی میں ایک کتاب (Islam in Nepal and Bhutan)(نیپال اور بھوٹان میں اسلام) یہ کتاب پیرس سے فرنچ زبان میں چھپ چکی ہے، قرآن کریم کے نیپالی ترجمے میں مشارکت ، جوزیر طبع ہے۔ (اب چھپ چکا ہے)
س: نیپالی مسلمانوں کو پچھڑے پن سے نکلنے اور اونچے مناصب تک پہونچنے کے لئے کوئی نصیحت، پیغام دینا چاہیں گے؟
ج:ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم سسٹم کے تحت تعلیم حاصل نہیں کرتے، کوئی توازن قائم نہیں رکھ پاتے ، جیسا دوسرے لوگ کرتے ہیں، آپ کو اگر سرکاری محکموں میں خدمت کا جذبہ ہے تو ایک سسٹم کے تحت سرکاری نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کریں اور خوب حاصل کریں، پھر سرکاری امتحانات میں حصہ لیں، اگر آپ نے محنت کی ہوگی اور ارادے مضبوط ہونگے تو پھر ان شاء اللہ کوئی بھی آپ کو اعلیٰ مناصب تک پہونچنے سے نہیں روک سکے گا۔

اخلاق نبوی کتاب و سنت کی روشنی میں May, 2010

اخلاق نبوی کتاب و سنت کی روشنی میں
قوسین آراء
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ، کرشنانگر

سیرت طیبہ کی ہمہ گیری اور جامعیت انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لئے محیط ہے اور زندگی کو سنوارنے اور صالح بنانے کے لئے بہترین رہنما ہے، سیرت طیبہ کو فراموش کرکے اور رسول اللہ ﷺ کی مثالی زندگی سے دوری اختیار کرکے انسانیت کبھی سکھ اور چین کی سانس نہیں لے سکتی۔ (لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ) (سورہ احزاب ۲۱)
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بناکر بھیجا اور قرآن مجید میں دسیوں مقامات پر انبیاء و رسل کے بشر اور آدمی ہونے کا اعلان کیا گیا کہیں تو یہ اعلان خود اللہ کی طرف سے ہوا: ( کما أرسلنا فیکم رسولا منکم یتلو علیکم اٰیٰتنا) (سورہ بقرہ۱۵)
ہم نے تمہیں انسانوں میں سے رسول بھیجا تاکہ وہ ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے۔
(وما أرسلنا قبلک إلا رجالا نوحی الیہم) (سورہ یوسف۱۹) (سورہ نحل ۴۳)
اور کہیں یہ اعلان انبیاء کرام کے زبانی ہوئی ( قل انما أنا بشر مثلکم) (الکہف:۱۱۰)
اے نبی اعلان کردو کہ میں بھی تمہیں جیسا انسان ہوں۔
معلوم ہوا کہ نبی انسان اور بشر ہی ہوتا ہے اور اس کا عمل اس کے متبعین کے نمونہ اور اسوہ ہوتا ہے ’’یقیناًتمہارے لئے رسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ ہیں‘‘۔
یعنی اللہ کے رسول میں بہترین عادتیں ہیں جو قابل تقلید اور قابل اقتداء ہیں جیسے جنگ کے موقعوں پر ثبات قدمی اور تکالیف میں صبر وتحمل دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول کی ذات بذات خود دوسروں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے۔
اللہ کے رسول کی ذات والا صفات میں اور سابق انبیاء میں بھی یہی خصوصیات تھیں جس کی وجہ سے امتیوں کے لئے ان کی ذات کو قابل تقلید اور نمونہ قرار دیا گیا اور قرآن مجید نے اللہ کے رسول کے لئے (انک لعلیٰ خلق عظیم) کی گواہی دی ’’اے نبی آپ اخلاق عظیم کے مرتبہ پر فائز ہو‘‘۔
کسی کے حسن اخلاق کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس کے ساتھی اور اس کے رازدار نہ صرف اس کی زندگی میں اخلاق حسنہ کی تعریف کریں بلکہ بعدالممات بھی اس کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کے مداح ہوں اور اگر کسی مخالف دشمن نے اس کے حق میں تو پھر نورعلی نور۔
اللہ کے پیارے رسول ﷺ کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے مداح و معترف آپ کے سارے صحابہ کرام ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو آپ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے آپ کے نمونے پر ڈھالا۔
اس کے علاوہ مخالفین نے زمانۂ ماضی اور حال میں آپ کی تعریف و توصیف میں بخل سے کام نہیں لیا سوائے اس کے جس کے دل میں کینہ ہی کینہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ کی زندگی کو دوسروں کے لئے نمونہ قرار دیا،اللہ کے پیارے رسول ایسی قوم میں مبعوث ہوئے جو دنیا کی انتہائی غیر متمدن اور غیر تہذیب یافتہ قوم مانی جاتی تھی، جن کے پاس نہ اصول تجارت تھے اور نہ ہی اخلاق۔